اردو شاعری کا خمریاتی رنگ

اردو شاعری کا خمریاتی رنگ

نسیم اشک
ہولڈنگ نمبر10/9گلی نمبر3
جگتدل 24 پرگنہ مغربی بنگال
فون۔9339966398

شاعری کی دل کشی اس لیے آج تک باقی ہے کہ اس کے دامن میں مختلف موضوعات ملتے ہیں۔ شاعری ہوتی بھی تو زندگی کی ترجمانی ہے اور زندگی اس دنیا کی طرح ہفت رنگی ہے۔ انسانی جذبات یکساں نہیں ہوتے اور ہر کسی کا زاویہ فکر بھی یکساں نہیں ہوتا۔ شاعری میں مختلف جذبات کی ترجمانی ہوتی ہے اور یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ شاعری شاعری ہوتی ہے. اب شاعری میں اصلاحی پہلو اور اخلاقی عناصر کا ہونا ضروری نہیں. اگر شاعری میں یہ عناصر موجود ہوں تو بھی ٹھیک اور نہ ہوں تو بھی اسے شاعری کے زمرے سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔ایسا اس لیے کہ شاعری جذبات کی ترجمانی ہوتی ہے، معاشرے کا اصلاح اس کا نصب العین نہیں۔
اردو شاعری میں شراب کا ذکر عام ہے اور ذیادہ تر شعرا کے یہاں شراب کے تعلق سے شعر مل ہی جاتا ہے۔ فارسی شاعری سے متاثر اردو شاعری میں اس کا ذکر لازم نہیں تو عنقا بھی نہیں۔ حیرت کا مقام ہے کہ جنھوں شراب کو ہاتھ تک نہ لگایا انہوں نے بھی شراب کا تذکرہ کیا ہے۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ اردو شاعری میں شراب کو ایک نشہ آور پینے کی شے ہی نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ یہ مستی کی کیفیت کے لیے کبھی معشوق کی نگاہیں بھی ہیں اور کبھی پیر مغاں کے متوالے نین۔ کبھی شوق اور جنوں کی حد نے بھی شراب کا استعارہ لے لیا ہے. گرچہ شراب کو پینے والی حرام شے کے سوا بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ قدیم شاعری میں اس کا ذکر بارہا ملتا ہے اور بعد کی شاعری میں بھی یہ شاعروں کا مخصوص موضوع رہا ہے۔ جس طرح اردو شاعری میں محبوب حقیقی اور محبوب مجازی دونوں کا ذکر ملتا ہے اسی طرح شراب کا ذکر ہے۔ شراب ایک تو اس شے کی جانب اشارہ کرتا ہے جسے پی کر آدمی اپنے ہوش کھو دیتا ہے اور بہکی بہکی باتیں کرتا ہے، نیز گناہوں کا مرتکب بھی ہوتا ہے، لیکن لفظ شراب کا استعمال سرشاری کی کیفیت کی لیے بھی ہوا ہے اور پیر طریقت کی نگاہوں کو مے خانہ اور ان نگاہوں کی مستی کو شراب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لہذا اہل تصوف کے یہاں ایسے مے خانے اور شراب کا تذکرہ عام ہے۔
صرف ساغر سے انڈیل کر پینا شراب نوشی نہیں محبوب کی آنکھوں کی سر مستی و سرشاری سے دل کو مخمور کرنا بھی مے خواری ہے۔
جن کا یہ ماننا ہے کہ شراب غم کو کم کرتی ہے یا مٹا دیتی ہے، بعید عقل ہے. شراب انسان کو برباد کرتی ہے اور شراب اس لیے حرام ہے کہ آدمی کے دل و دماغ کو مفلوج کردیتی ہے اور اچھے برے کی تمیز سے بھی پینے والا بے گانہ ہوجا تا ہے۔ شراب غم کو غلط نہیں کرتی بلکہ غم کو بڑھا دیتی ہے. اس لیے شراب میں نجات ڈھونڈنا نہایت احمقانہ فعل ہے۔
خمریات اردو شاعری کی ایک دل چسپ صنف ہے۔شعرا نے شراب اور لوازمات شراب کے حوالے سے خوب صورت اشعار کہے ہیں۔ ان اشعار میں غضب کی شگفتگی ملتی ہے اور لبوں پر کبھی مسکراہٹ بھی بکھیرتی اور کبھی غریق تخیل کر دیتی ہے۔
اردو شاعری میں خمریات کے امام ریاض خیر آبادی کہتے ہیں:
یہ ساقی نے ساغر میں کیا چیز دے دی
کہ توبہ ہوئی پانی پانی ہماری
اردو کے نامور شاعر فراق گورکھ پوری کا ماننا ہے کہ ان کی ہنستی کھیلتی زندگی مے خانے میں آکر سنجیدہ ہوگئی۔ شراب پینے کے بعد سنجیدہ ہونا واقعی انوکھا خیال ہے۔
آئے تھے ہنستے کھیلتے مے خانے میں فراقؔ
جب پی چکے شراب تو سنجیدہ ہو گئے
ندا فاضلی کہتے ہیں کہ دن بھر کی تمام مصروفیات ختم ہو چکیں، تمام باتیں ختم ہوگئیں اب تقاضۂ وقت ہے کہ کہیں مل بیٹھیں:
کچھ بھی بچا نہ کہنے کو ہر بات ہو گئی
آؤ کہیں شراب پئیں رات ہو گئی
منفرد لب و لہجے کے شاعر ساحر لدھیانوی شراب کے تعلق سے یوں رقم طراز ہیں :
بے پیے ہی شراب سے نفرت
یہ جہالت نہیں تو پھر کیا ہے
اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ شراب پینے کے بعد لوگ بہک جاتے ہیں. پر جون ایلیا اس بات سے غیر متفق دکھائی دیتے ہیں. ان کا ماننا ہے کہ نہ پینےکی وجہ سے ان کے قدم بہک گئے۔
شب جو ہم سے ہوا معاف کرو
نہیں پی تھی بہک گئے ہوں گے
خوش فکر شاعر احمد فراز غم دنیا میں غم یار کو ملا کر نشہ کو اور تیز کرنے کے بابت کہتے ہیں:
غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
پرواز تخیل اور تکرار لفظی کے بادشاہ جگر مرادآبادی کا یہ اعتراف ہے کہ پہلے شراب ان کی زندگی تھی اب زندگی ہی شراب ہے اور وہ اس کا الزام اس پر دھرتے ہیں جو انھیں پلا رہا ہے:
پہلے شراب زیست تھی اب زیست ہے شراب
کوئی پلا رہا ہے پیے جا رہا ہوں میں
مے خانے کے ذکر کے ساتھ ساتھ زاہد و واعظ کا ذکر آ ہی جاتا ہے. اس سے ظرافت کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے تو کہیں طنز کا تیر بھی لگتا ہے۔ داغ زاہد خشک سے شکایتی لہجے میں مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں:
لطف مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں
اس ضمن میں جگر واعظ کے خلاف دعویٰ ٹھوکتے ہوئے کہتے ہیں:
کدھر سے برق چمکتی ہے دیکھیں اے واعظ
میں اپنا جام اٹھاتا ہوں تو کتاب اٹھا
فرشتے سے افضل انسان کو گرداننے والے شکیل بدایونی کہتے ہیں:
بے پیے شیخ فرشتہ تھا مگر
پی کے انسان ہوا جاتا ہے
یہ شعر ذومعنی ہے. پہلا یہ کہ جب تک شیخ نے نہیں پی تھی فرشتہ تھا جو گناہوں سے پاک ہوتا ہے مگر پیتے ہی بشری کم زوریاں آ گئیں۔ دوسرا یہ کہ انسان ہونا فرشتہ ہونے کے بہ نسبت ذیادہ مشکل ہوتا ہے. لہذا جب شیخ نے شراب پی تو انسان بننے کا عمل شروع ہوگیا۔
ترقی پسند شاعروں کے امام فیض احمد فیض نے اپنی بیاض میں شراب کو کچھ یوں پیش کیا ہے:
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
ایک اور ترقی پسند شاعر مجروح کو اس بات کی شکایت ہے کہ ایک ہی شراب کو پیمانے بدل بدل کر پیش کیے جاتے رہے ہیں۔
فریب ساقیِ محفل نہ پوچھئے مجروحؔ
شراب ایک ہے بدلے ہوئے ہیں پیمانے
استاد ذوق کا کہنا ہے کہ انسان کو خوف خدا ہونا چاہئے. کیونکہ وہ ہمارے ظاہر اور باطن دونوں کو جانتا ہے. اس لیے ان کا کہنا ہے کہ خدا سے چھپی نہیں ہے تو بندوں سے چھپانے کی کیا ضرورت؟ گویا ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ بندوں کی فکر غیر ضروری ہے:
پلا مے آشکارا ہم کو کس کی ساقیا چوری
خدا سے جب نہیں چوری تو پھر بندے سے کیا چوری
اردو کے پہلے عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی کے یہاں بھی تذکرۂ ساغر و مینا ملتا ہے۔ انھیں بقا کی آب کی ضرورت نہیں. انھیں تو ساغر چاہیے. وہ ملتجائی لہجے میں کہتے ہیں:
سرچشمۂ بقا سے ہرگز نہ آب لاؤ
حضرت خضر کہیں سے جا کر شراب لاؤ
یگانہ چنگیزی کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ شراب نہیں کوئی نور کا دریا ہے جو واعظ کی آنکھوں کو روشن کرگیا۔ وہ جاننے کی کوشش میں پوچھ بیٹھتے ہیں:
واعظ کی آنکھیں کھل گئیں پیتے ہی ساقیا
یہ جام مے تھا یا کوئی دریائے نور تھا
اکبر الہ آبادی کو یہ شکایت ہے کہ ان کے پینے پر اتنا ہنگامہ کیوں؟ دنیا میں ان کے پینے سے یہ ہنگامہ آرائی بالکل غیر مناسب ہے۔ انھوں نے اپنے پیسے کی پی ہے کسی سے قرض نہیں لی، نہ ڈاکا ڈالا اور نہ چوری کی. پھر اتنا کہرام ان کی سمجھ سے بالا تر ہے۔ اکبر الہ آبادی کے مطابق دنیا کے جو قابل تردید افعال ہیں ان پر کوئی کان نہیں دھرتا مگر ان کا پینا سب کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے:
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں مارا چوری تو نہیں کی ہے
خدائے سخن اور آبروئے غزل میر تقی بھی اس رنگ میکشی کے رنگ میں اپنے شعر کو رنگتے ہوئے رقم طراز ہیں:
یا ہاتھوں ہاتھ لو مجھے مانند جام مے
یا تھوڑی دور ساتھ چلو میں نشے میں ہوں
میر تقی میر کے ہم عصر صوفی شاعر خواجہ میر درد مست شراب عشق کی بے خودی کو یوں بیان کرتے ہیں:
مست شراب عشق وہ بے خود ہے جس کو حشر
اے دردؔ چاہے لائے بہ خود پر نہ لا سکے
اردو شاعری کا باوا آدم، حسین تشبیہات و استعارات کا شہنشاہ اور دلی میں اردو شاعری کے محرک ولی دکنی محبوب کی نگاہوں کی شراب کی کیفیت کو صفحہ قرطاس پر یوں کھینچتے ہیں:
ہر سحر شوخ کی نگہ کی شراب
مجھ انکھاں کا خمار کھوتی ہے
غالب اردو شاعری کا ایک اہم ستون ہیں، جن کے ذکر کے بغیر شاعری کا ذکر کوئی کیوں کرے اور کرے بھی تو یہ ضرور کہے کہ غالب زمانے پر کل بھی غالب تھا آج بھی غالب ہے۔ غالب کے یہاں جو فکر کی وسعت ہے بہت کم لوگوں کی قسمت میں آتی ہے۔غالب کی مقبولیت کا اندازہ صرف ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عام لوگ بھی غالب کے اشعار سے نہ صرف یہ کہ آشنا ہیں بلکہ وہ چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے اکثر بول بھی پڑتے ہیں۔ مقام حیرت وہاں ہے جب ہر فلسفیانہ شعر کو خصوصی طور پر خمریات کے اشعار کو غالب سے منسوب کر دیا جاتا ہے جس کا صاف مطلب یہ نکلتا ہے کہ عام لوگ یا اردو سے نا آشنا کوئی شعر سنتا ہے تو غالب کا سمجھتا ہے اور اردو زبان اور اس کے ادب سے نابلد عام لوگوں کے ذہن نے اردو شاعری کو غالب سے ایسے جوڑ رکھا ہے کہ کسی کے توڑے نہیں ٹوٹ سکتی۔ غالب کی ظاہر و باطن سے ایک ایسا شاعر ابھرتا ہے جو ایک شاعر کا تعارف ٹھہرتا ہے۔ غالب کو مے کشی عزیز تھی اور اتنی عزیز تھی کہ ناتوانی کے عالم میں ضعف کے شکنجے میں رہنے کے باوجود شراب کو آنکھوں سے دور رکھنا گوارہ نہیں کرتے تھے:
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
لکھنؤ کے ممتاز شاعر امام بخش ناسخ ساغر و مینا کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ چشم یار کے میکش ہیں اور دیدار یار کی شراب کو ہیتے ہیں۔ ان کے نزدیک محبوب کا روبرو دیدار کرنا میکشی ہے. صوفی شعرا کے اشعار میں اسی میکشی کا ذکر ملتا ہے۔ وہ میکشی کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ساغر چشم سے ہم بادہ پرست
مے دیدار پیا کرتے ہیں
شاعری کے بے تاج بادشاہ جنھوں نے مختلف اصناف کے ساتھ مختلف صنایع کو شاعری میں برتا اور کمال فن دکھایا۔ انشاء اللہ خان انشاء دنیا کی تمام چیزوں پر جام اور عشق کو فوقیت دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
اسباب کائنات سے بس ہو کے بے نوا
انشاؔ نے انتخاب کیا جام اور عشق
مشہور و معروف شاعر مضطر خیرآبادی کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید ان کی عمر بھر کی مدہوشی کی وجہ یہ ہے کہ ان کی مٹی شراب میں گوندھی گئی ہے. لہذا وہ اس خیال پر اکتفا کرتے ہوئے کہتے ہیں:
مدہوش ہی رہا میں جہان خراب میں
گوندھی گئی تھی کیا مری مٹی شراب میں
شاعر شباب اور شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی کا یہ اظہار دیکھیں:
پیمانے پہ جس وقت جھکاتا ہوں صراحی
جھکتا ہے سر عالم بالا مرے آگے
ترقی پسند شاعر اسرار الحق مجاز کا کہنا ہے:
اس محفل کیف و مستی میں اس انجمن عرفانی میں
سب جام بکف بیٹھے ہی رہے ہم پی بھی گئے چھلکا بھی گئے
اردو شاعری کا اہم نام شجاع خاور ہیں. ان کے یہاں خیال کی ندرت قابل دید ہے۔ توبہ کے سلسلے میں ان کا ماننا ہے کہ:
توبہ کے سلسلے میں بس اتنا کہیں گے ہم
مسلک ہو بادہ نوشی تو توبہ حرام ہے
بشیر بدر کہتے ہیں کہ مے کدہ ہی وہ جگہ ہے جہاں چھوٹے بڑے، ذات پات کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا، یہاں سب لوگ برابر ہوتے ہیں اور کسی سے کسی کو بیر نہیں ہوتا۔
پیار ہی پیار ہے سب لوگ برابر ہیں یہاں
مے کدہ میں کوئی چھوٹا نہ بڑا جام اٹھا
شراب، ساقی، مےخانے اور پیمانے کا استعمال بھی مختلف معنوں میں ہوا ہے. شراب بہ طور آگہی، ساقی بہ طور پیر مغاں، مےخانہ بہ طور محفل شیخ اور پیمانے سے مراد مرشد کامل کی رشد و ہدایت اور شراب کی خماری بہ طور سرشاری کی کیفیت ہے جو محبوب کی نگاہوں کی شراب سے عاشق کے قلب صادق میں پیدا ہوتی ہے۔
اصغر گونڈوی کی شاعری میں تصوف نقطۂ مرکز ہے. ان کی شاعری میں تصوف کا گہرا رنگ ملتا ہے۔ متحرک زندگی کے تصور کا شاعر اصغر گونڈوی نے اپنے ساقی کو یوں یاد کیا ہے:
عالم سے بے خبر بھی ہوں عالم میں بھی ہوں میں
ساقی نے اس مقام کو آساں بنا دیا
اردو کے صوفی شاعر سراج اورنگ آبادی فرماتے ہیں:
آیا پیا شراب کا پیالا پیا ہوا
دل کے دیے کی جوت سیں کاجل دیا ہوا
بیدم شاہ وارثی جن کے متصوفانہ کلام اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں. فرماتے ہیں کہ یہ ساقی کی نگاہوں کا فیض ہے کہ گھٹا کی شکل میں مے خانے پر رحمت برستی ہے:
یہ ساقی کی کرامت ہے کہ فیض مے پرستی ہے
گھٹا کے بھیس میں مے خانے پر رحمت برستی ہے
صوفی شاعر میر درد نے کیا خوب کہا ہے:
سلطنت پر نہیں ہے کچھ موقوف
جس کے ہاتھ آئے جام وہ جم ہے
اردو شاعری میں ایسے بےشمار شعرا ہیں جن کے یہاں مے اور مے خانے کے موضوعات ملتے ہیں۔ ان اشعار کی لطافت اور پرواز تخیل قابل ستائش ہیں۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :نسیم احمد نسیم سے ایک دل ربا ملاقات

شیئر کیجیے

One thought on “اردو شاعری کا خمریاتی رنگ

محمد غلام حسین کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے