آوازۂ لفظ و بیاں: ایک مطالعہ

آوازۂ لفظ و بیاں: ایک مطالعہ

(مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کی عمدہ پیش کش)

ڈاکٹر احسان عالم
پرنسپل الحراء پبلک اسکول، دربھنگہ
موبائل:9431414808

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی سرزمین بہار کے ایک ایسے عالم دین ہیں جو تصنیف و تالیف کے کام
میں بہت ہی دل جمعی کے ساتھ لگے ہیں۔ مذہبی موضوعات کے ساتھ وہ ادبی موضوعات پر بھی قلم فرسائی کرتے ہیں۔ ان کی تصنیفات و تالیفات کی تعداد تقریباً چالیس (٤٠) ہے۔ پیش نظر کتاب ”آوازۂ لفظ و بیاں“ ٢٠٢٢ء میں منظر عام پر آئی ہے۔ ٢٠٤ صفحات پر مشتمل کتاب کو مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے چار ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ وہ چار ابواب اس طرح ہیں:
باب اول: مذہبی
بام دوم: ادبی
باب سوم: تاریخی
باب چہارم: تعلیمی
چاروں ابواب کافی اہم ہیں۔ یہ ابواب ١٠٣ مضامین سے مزین ہیں۔
”آوازۂ لفظ وبیاں“ کے حوالے سے مفتی صاحب لکھتے ہیں:
”آوازۂ لفظ و بیاں“ میرے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو میں نے مختلف حضرات اور متنوع عنوانات پر لکھی گئی کتابوں پر تعارف، تبصرے، مقدمہ، پیش لفظ اور تنقید کے طور لکھے، یہ سارے مضامین امارت شرعیہ کے ترجمان ہفت روزہ نقیب میں ”کتابوں کی دنیا“ کے ذیل میں اشاعت پذیر ہوئے، بعد میں مختلف اخبارات و رسائل میں بھی ان کو جگہ مل گئی۔“(ص:۸)
پروفیسر صفدر امام قادری نے ”مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی: مبصر کی حیثیت سے“ عنوان کے تحت بہت ہی جامع تاثرات بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ”گذشتہ برسوں میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کی تصنیفات سلسلے وار طریقے سے سامنے آتی رہی ہیں۔ ادبی اور علمی موضوعات کو انھوں نے مذہبی امور کے شانہ بہ شانہ قائم رکھا۔ امارت شرعیہ کے ترجمان ”نقیب“ کی ادارت سے بھی ان کے تصنیفی کاموں میں ایک باقاعدگی پیدا ہوئی۔ ان کی خدمات کے اعتراف کا سلسلہ شروع ہوا اور مختلف یونی ورسٹیوں میں ان کے کارناموں کے حوالے سے تحقیقی مقالے لکھے گئے۔“
کتاب کے آغاز میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نے ۵۵/ مذہبی کتابوں پر تاثراتی مضامین شامل کیے ہیں۔ یہ مضامین مختصر لیکن جامع انداز میں تحریر کیے گئے ہیں۔ پہلی کتاب ”خیر السیر فی سیرۃ خیر البشر“ کے عنوان سے ہے جس پر تبصرہ کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں: ”خیر السیر فی سیرۃ خیر البشر“ ولی اللہ عبدالسبحان ولی عظیم آبادی کی سیرت رسول پر منظوم کتاب ہے۔ جس کے ہر شعر سے ان کی قادر الکلامی اور محبت رسول کی جھلک ملتی ہے، ان کی یہ کتاب تاریخ اسلام میں حفیظ جالندھری کی ”شاہنامہ اسلام“ اور ڈاکٹر عبدالمنان طرزی کی مشہور و معروف منظوم ”سیرت الرسول“ کے کام کو تسلسل عطا کرتی ہے۔
”مقام محمود“ مولانا مفتی اختر امام عادل صاحت کی کتاب ہے۔ اس کے سلسلہ میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں: ”مقا م محمود سیرت نبی ﷺ کی امتیازات و خصوصیات پر مشتمل مقالات کا مجموعہ ہے، جسے موضوع کی یکسانیت کی وجہ سے یک جا کتاب کی شکل دے دی گئی ہے۔ پوری کتاب سات ابواب ’اسوۂ انسانیت، عالمی نبوت، بین الاقوامی پیغمبر، عالمی رحمت، بے مثال صبر و عزیمت، عالمی انقلاب، عالمی پناہ گاہ اور عالمی دعوت کے عنوان سے ہے۔“
اسی طرح کئی مذہبی کتاب مثلاً ”پیارے نبی کی سنتیں، تصوف کا اجمالی جائزہ، سجدہ سہو کے مسائل، اسلام کا قانون طلاق، موت سے قبر تک کے احکام و مسائل، اسلام ہی کیوں؟، درس حدیث، ایمان کے شعبے، رسول اللہ کی بیٹیاں، داماد اور نواسے، نواسیاں، حجاب کے فوائد اور بے حجابی کے نقصانات، خطبات جمعہ، خطبات سبحانی، شرح در مختار، شراب: ایک تجزیاتی مطالعہ، قرآن کریم کا تاریخی معجزہ، دین اسلام اور اس کے پیغامات، پیارے نبی کی پیاری باتیں، ازدواجی زندگی، عبادت کا آسان طریقہ اور تصویر کشی فتاویٰ کی روشنی میں“ پر مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نے تاثراتی مضامین قلم بند کیے ہیں۔ ان مضامین میں کتاب کی جھلک قارئین کے سامنے پیش کر دی گئی ہیں۔
”آوازۂ لفظ و بیاں“ کا دوسرا باب ادبی کتابوں پر تاثراتی مضامین سے مزین ہے۔ اس باب کا پہلا مضمون ”سِیرَ الصالحین“ سے تعلق رکھتا ہے۔ شمالی بہار میں سلسلہ نقشبندیہ کے بافیض بزرگ پیر طریقت حضرت مولانا حافظ الحاج شمس الہدیٰ دامت برکاتہ نے اس کتاب کو اپنے قلم سے سنورا ہے۔ اس کتاب کے سلسلہ میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:
”اس کتاب کا وہ حصہ سب سے دل چسپ لگا جہاں سے خود حضرت نے اپنی زندگی کے نشیب و فراز کا ذکر کیا ہے، یہ حصہ اصلاً حضرت کے اسلوب نگارش، قدرت کلام، الفاظ کے مناسب انتخاب و استعمال کا بہترین نمونہ ہے، بعض جملے اور تعبیرات اس قدر بلیغ ہیں اور معنی کی ترسیل میں اس قدر تیز بھی کہ بے اختار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔“ (ص: ١٥٢)
”سرمایۂ ملت کے نگہبان“ محتر م جناب مولانا عزیز الحسن صدیقی کی تخلیق ہے۔ وہ مشہور صاحب قلم ہیں۔ ان کی انتظامی صلاحیت بھی مضبوط ہے۔ ان کے قلم سے نکلے مضامین، تجزیے، سوانحی خاکے پورے ملک میں دل چسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ اس کتاب میں شخصیتوں کے انتخاب میں اس بات کا پورا خیال رکھا ہے کہ انھیں ہی موضوع بنائیں، جنھیں مولانا نے قریب سے دیکھا، برتا اور مختلف تحریکات میں ان حضرات کے ساتھ کام کرنے اور خدمت انجام دینے کا موقع ملا۔
”یادوں کے جھروکوں سے“ مولانا عبدالعلی فاروقی لکھنوی کی زندگی کے واقعات، حادثات اور تجربات پر مبنی تلخ و شیریں یادوں اور کم و بیش پچاس برسوں پر مشتمل یادوں پر مشتمل ایک کتاب ہے۔ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی مولانا عبدالعلی فاروقی اور ان کی کتاب کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ مولانا عبدالعلی فاروقی کو اللہ رب العزت نے تقریر و تحریر دونوں میں زبان و بیان پر بے پناہ قدرت بخشی ہے، وہ تقریر کرتے ہیں تو موتیاں رولتے ہیں اور لکھتے ہیں تو قاری پر ایسا سحر طاری کرتے ہیں کہ وہ ان کا گرویدہ ہوجاتا ہے. انھوں نے مدرسہ اور یونی ورسٹی دونوں سے کسب فیض کیا ہے۔ فاضل دیوبند بھی ہیں اور ایم. اے بھی۔
کتاب ”تخلیق کی دہلیز پر“ فاروق اعظم قاسمی کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں کہ فاروق صاحب کی یہ کتاب چھے ابواب پر مشتمل ہے، انھوں نے ابواب کے عنوان کے بجائے ابجد و ہوز کے الف، با وغیرہ کا عنوان لگایا ہے۔ اس کا فائدہ انھیں یہ ملا کہ وہ مختلف انداز کے مضامین کو اس ضمن میں سمیٹ پائے۔
”پیام صباؔ“ کامران غنی صبا کا پہلا مجموعۂ کلام ہے۔ وہ فی الحال نتیشور کالج، مظفرپور میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدہ پر فائز ہیں۔ ان کی شعری اور نثری دونوں تخلیقات بہت ہی جامع ہوا کرتی ہیں۔ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نے کامران غنی صباؔ کی صلاحیتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ”کامران غنی صباؔ نے اس کم عمری میں جو کچھ لکھ دیا ہے اس سے ان کی اٹھان کا پتہ چلتا ہے، مشق، ریاضت اور تجربات کی وسعت سے فکر و نظر اور فن میں پائیداری آتی ہے۔“
مولانا احمد سجاد ساجدؔ قاسمی کا مجموعہ کلام ”غبار شوق“ پر اپنے خیالات کا اظہار مفتی صاحب نے ان الفاظ میں کیا ہے:
”غبار شوق ساجد قاسمی کا پہلا مجموعۂ کلام ہے جو زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آیا ہے۔ ساجد قاسمی دور طالب علمی سے شاعری کرتے رہے، لیکن انھوں نے اسے کبھی بھی ذریعۂ عزت نہیں بنایا اور نہیں سمجھا۔ انھوں نے پوری زندگی اس کش مکش میں گذار دیا کہ جو کچھ لکھا ہے اسے چھپوایا بھی جائے یا نہیں، ہم لوگوں کے پیہم اصرار پر انھوں نے یہ ہمت جٹائی کہ یہ متاع گراں مایہ قاری کے حوالے کر سکیں۔“ (ص ١٨٧)
”چہرہ بولتا ہے“ ظفر صدیقی کا شعری مجموعہ ہے جو ٢٤٠/ صفحات پر محیط ہے۔ ان کی کتاب کے تعلق سے مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں: ”چہرہ بولتا ہے“ کی شاعری میں چہرہ بولے یا نہ بولے، زندگی بولتی، اچھلتی، کودتی، مچلتی نظر آتی ہے، اور زندگی کا یہ رخ کسے پسند نہیں ہے۔ اس لیے بجا طور پر یہ امید کی جاتی ہے کہ چہرہ بولتا ہے شعر وادب کی دنیا میں مقبول ہوگا۔“
فرد الحسن فرد کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کی تخلیق ”بے چار ے لوگ“ تحقیق، تنقید اور تاریخ کا مرقع بن چکی ہے۔ اس کتاب میں موصوف نے تنقید کے اصولوں کو برتنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ فرد الحسن فرد صاحب کے اس مجموعہ میں ١٤/ مضامین شامل ہیں۔ وہ مضامین انجم عظیم آبادی، فریاد شیر گھاٹوی، نصیر الدین حسین نصیر، وصی بلگرامی، مولانا عبدالرحمن، عبدالکریم، شین منظر پوری، ناوک حمزہ پوری، شبنم کمالی، قمر شیر گھاٹوی، مسلم عظیم آبادی، صادق شیر گھاٹوی، قسیم الحق گیاوی، اسلم سعدی پوری جیسے شعرا و ادبا پر ہیں۔
”ادبی میزان“ مغربی بنگال کی جانی پہچانی شخصیت عشرت بیتاب کے تنقیدی و تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کے تعلق سے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں: ”عشرت بیتاب صرف نقاد ہی نہیں، افسانہ نگار اورکہانی کار بھی ہیں، ادبی میزان میں انھوں نے پوری تنقیدی بصیرت کا ثبوت دیا ہے، ان کی تنقیدیں عملی تنقید کا بہترین نمونہ ہیں، وہ شاعر بھی ہیں، اس لیے تنقید کرتے وقت فنی تقاضوں کو بھی ملحوظ رکھتے ہیں۔ انھیں الفاظ کی صوتی ہم آہنگی اور خیالات کی ترسیل کا بھی پورا پورا خیال رہتا ہے۔“
”سہرے کی ادبی معنویت“ ڈاکٹر امام اعظم کی تحقیق و ترتیب ہے۔ اس کتاب پر اپنے خیالات رقم کرتے ہوئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:
”اس کتاب کے بارے میں ڈاکٹر امام اعظم نے اپنے لیے ترتیب و تہذیب کا عنوان لگایا ہے، یہ ان کی خاکساری ہے ورنہ یہ کتاب سہرے کی تاریخ بھی ہے اور تحقیق بھی۔ آپ اسے سہرہ نگاران کی جامع ڈائریکٹری کہہ سکتے ہیں۔ جامع اس لیے کہ اس میں ایک دو سہرہ کہنے والے بھی ان کی نگاہ سے بچ نہیں پائے ہیں۔“ (ص: ٢٣٧)
پروفیسر عبدالمنان طرزی کا شمار ہندستان کے قد آور اور زود گو شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کی شہرت عالمی پیمانے پر بھی ہے۔ صدر جمہوریہ ایوارڈ سے سرفراز ہوچکے پروفیسر طرزی کی ایک کتاب ”دیدہ وران بہار“ پر اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:
”پانچ سو اکانوے صفحات پر مشتمل یہ ’دیدہ وران بہار‘ کا دوسرا ایڈیشن ہے۔ پہلے اس کے مشمولات چار جلدوں کو محیط تھے، اب یہ چاروں جلدیں اس ایک جلد میں سما گئی ہیں۔ ان چاروں جلدوں کے مشمولات پر بھی اچھا خاصا اضافہ کیا ہے۔ پہلے ایڈیشن میں جن حضرات کا تذکرہ چاروں جلد میں سے کسی میں نہیں آسکا تھا، ان کے تذکرے کو بھی اس میں شامل کرلیا گیا ہے۔ اس کتاب میں علما، شعرا، ادبا، نقاد، صحافی، قائدین، محققین، نامور اور گمنام سبھی جگہ پاگئے ہیں۔“ (ص: ٢٤١)
”دُردِ تہ جام“ ڈاکٹر ممتاز احمد خاں سابق ایسوسی ایٹ پروفیسر بی آر اے بہار یونی ورسٹی مظفرپور کی تخلیق ہے۔ موصوف کی آخری کتاب ہے۔ ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کی تخلیقی صلاحیتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں: ”کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ دونوں حصوں میں ڈاکٹر ممتاز احمد خاں صاحب کی تنقیدی بصیرت اور اصناف سخن پر گہری نظر کا عکس جمیل دیکھنے کو ملتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پوری زندگی صالح ادب برائے زندگی، بلکہ اسلامی ادب کو فروغ و پروان چڑھانے اور ان لوگوں کی قدردانی میں لگادی جو اس کاز اور کام کے لیے سرگرم عمل رہے۔ انھوں نے چن چن کر ایسی شخصیات اور تصنیفات کو ہی بحث کا موضوع بنایا ہے جو ان کی اصلاحی اور اسلامی فکر سے قریب تر تھے۔“
باب سوم کے تحت دو مضامین ”درسگاہ اسلامی۔ فکر و نظر کی بستی“ (ڈاکٹر عبدالودود قاسمی) اور ”تاریخ جامعہ عربیہ اشرف العلو م کنہواں“ ہیں۔
باب چہارم میں تعلیمی مضامین ہیں۔ اس باب کا پہلا تاثراتی مضمون کتاب ”قرآنی حقائق اور سائنسی انکشافات“ سے متعلق ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹر محامد عبدالحی کی تخلیق ہے۔ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اپنے منفرد انداز میں رقم طراز ہیں:
”١٥٢/ صفحات کی اس کتاب میں علم فلکیات، علم طب، علم الارضیات، علم الایجاد، علم حیوانات، قرآن اور نفسیات، قرآن اور نظریہ ارتقا پر اکیاسی عنوانات کے تحت تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ سائنسی انکشافات قرآنی حقائق سے متصادم نہیں ہیں، بلکہ سائنس داں جہاں تک برسوں کی تحقیقات کے بعد آج پہنچے ہیں، قرآن نے ان حقائق کو چوہ سو انتالیس سال پہلے بیان کردیا تھا۔“ (ص:٢٨٧)
اس باب کے دیگر مضامین ”تعلیم و تعلم۔ آداب و طریقے“، ”تحقیق و تحشیہ صفوۃ المصادر“، ”مدارس اسلامیہ اور جدید کاری کے تصورات“، ”شرح نایاب“ اور ”مسلم معاشرہ میں خواتین کا علمی و ادبی ذوق“ کتابوں سے تعلق رکھتے ہیں جو مفتی محمد ثنا ء الہدیٰ قاسمی صاحب کی تحریری صلاحیتوں کا بین ثبوت ہیں۔
اس طرح پیش نظر کتاب ”آوازۂ لفظ و بیاں“ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کی مذہبی، ادبی، تعلیمی، تاریخی کتابوں کے پیش لفظ، تقاریظ، تاثرات، تبصرات اور عملی تنقید پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب اردو شائقین کے ذریعہ پسند کی جائے گی۔ اس کتاب کی اشاعت کے لیے مفتی صاحب کو دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
٭٭٭
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی: مبصّر کی حیثیت سے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے