ڈاکٹر سیّد احمد قادری کا پچاس سالہ ادبی و صحافتی سفر

ڈاکٹر سیّد احمد قادری کا پچاس سالہ ادبی و صحافتی سفر

11/ستمبر یوم پیدائش کے موقعے پر خصوصی تحریر 

انظر اللہ (حیدرآباد)

عہد حاضر میں ادبی اور صحافتی میدان میں جو لوگ بے حد متحرک اور فعال ہیں، ان میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر سید احمد قادری کا ہے۔ انھوں نے اپنے لمبے ادبی و صحافتی سفر کے دوران ہی ادب اور صحافت کے میدان میں اپنی منفرد شناخت قائم کی ہے۔ گزشتہ نصف صدی قبل سید احمد قادری ادبی، صحافتی، لسانی اور سماجی میدان میں داخل ہوئے تھے اور بتدریج اپنی بے پناہ صلاحیتوں سے ادب اور صحافت کے افق پر چھا گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر سید احمد قادری اپنے افسانوں، تنقید و تحقیق اور صحافت کے حوالے سے پوری اردو دنیا میں عزّت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔
آپ کی ولادت ریاست بہار کے شہر اورنگ آباد میں 11 / ستمبر 1954ء کو ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اورنگ آباد میں ہی اپنے دادا جان جناب حافظ سید غلام غوث (مرحوم) کے زیر نگرانی حاصل کرنے کے بعد رانچی کے ایس ایس وی وی ہائی اسکول ڈورنڈہ سے میٹرک پاس کیا۔ اس کے بعد مگدھ یونی ورسٹی، بودھ گیا سے بی.ایس.سی، نباتات (بوٹنی) میں ایم.ایس.سی اور ڈاکٹریٹ کی اعلا ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ گیا شہر کے ایم جی کالج میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ اسی دوران افسانے اور صحافت کی بے حد معروف شخصیات کلام حیدری، رضوان احمد اور مناظر عاشق ہرگانوی کی قربت پا کر ادبی اور صحافتی دنیا میں وہ کافی متحرک اور فعال ہو گئے۔ ویسے انھیں ادبی صحافتی ذوق و شوق اپنے والد جناب بدر اورنگ آبادی سے ورثہ میں ملا ہے۔
ڈاکٹر سید احمد قادری کے اب تک چار افسانوی مجموعے (1) ریزہ ریزہ خواب (1985ء)، (2) دھوپ کی چادر (1995ء)، (3)پانی پرنشان (2006ء) اور(4) ’ملبہ‘ (2015ء) کے ساتھ ساتھ سات عدد تنقیدی کتابیں (1) فن اور فنکار (1986ء)، (2) افکار نو (1996ء)، (3) اردو صحافت بہار میں (2003ء)، (4) شاعر اور شاعری (2007ء)، (5) افسانہ نگار اور افسانے (2008ء)، (6) اقدار و امکان (2014ء) اور (7) ’اردو صحافی بہار کے‘ (2015ء) شائع ہو کر ادبی و صحافتی حلقوں میں موضوع بحث رہی ہیں۔ ان تمام کتابوں پر بہار اردو اکادمی، اتّر پردیش اردو اکادمی اور مغربی بنگال اردو اکادمی اور دیگر کئی اداروں نے قومی سطح پر شائع ہونے والی کتابوں میں انعامات سے نوازا ہے۔ ”اردو صحافت بہار میں“ ایسی تنقیدی و تحقیقی کتاب ہے، جسے ڈاکٹر سید احمد قادری نے کے.کے.برلا فاؤنڈیشن، نئی دہلی کے ذریعہ ملنے والے فیلو شپ ایوارڈ کے تحت لکھی ہے۔ اس کتاب کو نہ صرف مغربی بنگال اردو اکادمی اور بہار اردو اکادمی نے اوّل انعام سے نوازا ہے بلکہ اسے ریاست بہار کی تمام یونی ورسٹیوں کے ایم اے (اردو) کے نصاب میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ ان کتابوں کے علاوہ ایک کتاب ”جائزے“ (2010ء) ہے، جو 129 کتابوں پر ڈاکٹر سید احمد قادری کے کیے گئے تبصروں پر مشتمل ہے۔ 2013ء میں ”مکالمہ“ کے نام سے ایک کتاب شائع ہوئی ہے، اس میں پندرہ مشاہیر ادب و صحافت مثلاََ اصغر علی انجینئر، رام لعل، امرت رائے (پریم چند کے بیٹے)، پروفیسر عبدالمغنی، خورشید پرویز صدیقی، ذکیہ مشہدی وغیرہ سے ڈاکٹر سید احمد قادری کے لیے گئے یادگار انٹرویوز شامل  ہیں۔ ان تصانیف کے علاوہ ان کی کئی اہم تالیفات بھی شائع ہوئی ہیں، جن کے نام اس طرح ہیں: (1) ان سے ملئے(1988ء)، (2) غیاث احمد گدّی: شخصیت اور فن ( 1999ء)، (3) انجم مانپوری: فنکار سے فن تک (2002ء)، (4) پروفیسر عبد المغنی: حیات اور خدمات (2005ء)، (5) معمار بہار (2008ء)، (6) ہم کلام (2009ء)، اور (7) شین مظفرپوری:شخص اورعکس(2011ء). ابھی حال ہی میں اردو ڈائریکٹوریٹ، حکومت بہار نے مشہور صحافی اور طنز و مزاح نگار انجم مانپوری پر ڈاکٹر سید احمد قادری کا لکھا گیا فرد نامہ (مونوگراف) بھی شائع کیا ہے۔ یہ تمام کتابیں ایسی ہیں جو اپنے موضوع، مواد اور حسن و معیارکے لحاظ سے ادبی دنیا میں کافی اہمیت اور افادیت کی حامل ہیں۔
افسانوں اور تنقید و تحقیق کے ساتھ ساتھ صحافت کے میدان میں ڈاکٹر سید احمد قادری نے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ مورچہ، آہنگ، سہیل، عظیم آباد اکسپریس، اور بلٹز جیسے مشہور اردو روزناموں اور ہفت روزہ کے علاوہ ہندی روزنامے ”جن ستّا“ (دہلی)، ”دینک جاگرن“ (مدیر کملیشور، دہلی) وغیرہ میں اپنی صحافتی صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کر چکے ہیں۔ 15/ اگست 1984ء سے دسمبر 1997ء تک اپنے اردو ہفتہ وار ”بودھ دھرتی“ کی ادارت سنبھالی اور پورے ملک میں اپنے سیاسی، سماجی، لسانی اور ادبی تبصروں، اداریوں اور مضامین سے مقبول اور مشہور ہوئے۔ اس اخبار میں شائع ہونے والے کالموں میں کلام حیدی کا کالم ” ٹف نوٹس“ اور علیم ا للہ حالی کا کالم ”شاخیں‘ آج بھی کئی اعتبار سے یاد گار ہیں۔ اسی دوران جنوری 1991ء سے ایک سہ ماہی رسالہ ”ادبی نقوش“ کا اجرا کیا، جس کے کئی خصوصی نمبر شائع ہوئے۔ ڈاکٹر سید احمد قادری قومی، بین الاقوامی سیمیناروں، ریڈیو، ٹیلی ویژنوں کے مباحثوں میں شریک ہو کر اپنے مخصوص انداز اور اظہار و بیان سے اپنی ایک منفرد پہچان بنائی ہے۔ انھوں نے انجمن ترقی اردو، بہار کے سکریٹری کی حیثیت سے بہار میں اردو زبان و ادب کے فروغ میں کافی نمایاں رول ادا کیا ہے۔ سماجی طور پر بھی ڈاکٹر سید احمد قادری کافی متحرک اور فعال رہے ہیں۔ ایک زمانے میں بہار کی مشہور سماجی تنظیم ’مونس‘ کے جنرل سکریٹری (مگدھ ڈویژن) کی حیثیت سے کئی اہم اور تاریخی کارنامے انجام دیے ہیں۔
ڈاکٹر سید احمد قادری مگدھ یونی ورسٹی، بودھ گیا کے سینیٹ کے ممبر کی حیثیت سے بھی کئی نمایاں کام انجام دے چکے ہیں۔خاص طور پر مگدھ یونی ورسٹی اور اس کے ماتحت کالجوں میں اردو زبان کو بہ حیثیت اردو ثانوی زبان، ترجیح دلانے میں اہم کردار ادا کیے ہیں۔ ڈاکٹر سید احمد قادری کی ادبی اور صحافتی خدمات کے اعتراف میں حکومت بہار نے انھیں 2015ء میں بہار اردو اکاڈمی اور بہار اردو مشارتی کمیٹی کا ایکزیکیٹیو ممبر نامزد کیا تھا۔ بہار کے ان دونوں اہم اداروں میں انھوں نے اپنی موجودگی کا بھرپور احساس کراتے ہوئے پورے بہار میں اردو زبان و ادب کے لیے سازگار ماحول تیار کرنے میں نمایاں رول ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر سید احمد قادری کے ممبئی کے مشہور ہفتہ وار ’بلٹز‘ میں شائع ہونے والے صحافتی مضامین بھی کافی پسند کیے جاتے تھے۔ ’بلٹز‘ کے بعد گزشتہ کئی برسوں تک وہ قومی سطح کے روزنامہ ’راشٹریہ سہارا‘ کے تمام ایڈیشنوں کے اتوار کے خاص ایڈیشن کے لیے کالم لکھ کر پورے ملک میں تہلکہ مچایا ہے۔ روزنامہ’راشٹریہ سہارا‘ اور دیگر کئی معیاری اخبارات و رسائل نیز سوشل میڈیا کے بہت سارے ویب سائٹس پر شائع ہونے والے ان کے سیاسی مضامین کی بازگشت سنی جا تی ہے۔ ڈاکٹر سید احمد قادری کے ایسے بہت سارے سیاسی و سماجی نوعیت کے مضامین ہیں، جو ملک و بیرون ممالک کے اخبارات و رسائل میں بھی ڈائجسٹ ہوتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر سید احمد قادری کے فکر و فن پر مشاہیر ادب کے تحریر کردہ مضامین اور تاثرات پر مشتمل شیریں اختر (کولکتہ) نے 1998ء میں فخر الدین علی احمد میمورئل کمیٹی، لکھنؤ کی معاونت سے ایک کتاب ”سید احمد قادری: شخصیت اور فن“ شائع کی تھی، جس میں، اصغر علی انجینئر، شمس الرحمٰن فاروقی، عبد المغنی، کلام حیدری، احمد یوسف، غیاث احمد گدّی، رام لعل، تارا چرن رستوگی، وارث علوی، عنوان چشتی، سرسوتی سرن کیف، محمد مثنٰی رضوی، محمود ایوبی، معین شاہد، نامی انصاری، علیم اللہ حالی، م ق خان، مناظر عاشق ہرگانوی، حسین الحق، شوکت حیات وغیرہ نے سید احمد قادری کی افسانہ نگاری، تحقیق و تنقید نگاری اور صحافتی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں لِجنڈ قرار دیا ہے۔ کلام حیدری جیسی نامور شخصیت نے انھیں ”شہر افسانہ نگاری کا معزز شہری“  قرار دے چکے ہیں۔ چند سال قبل میں نے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی کے تعاون سے سید احمد قادری کی افسانہ نگاری کے تعلق سے ایک کتاب ”سید احمد قادری بحیثیت افسانہ نگار“ ترتیب دے کر شائع کی ہے۔ جس میں کئی سرکردہ نقادوں نے سید احمد قادری کی افسانہ نگاری پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ڈاکٹر سید احمد قادری امریکا کا دو بار سفر کر چکے ہیں۔ جہاں ان کی کافی پزیرائی کی گئی۔ ان کے اعزاز میں کئی نشستیں ہوئیں، اور وہاں کے کئی اخبارات میں ان کے انٹرویوز وغیرہ بھی شائع ہوئے۔ 29/جون2014ء کو وائس آف امریکا، واشنگٹن نے اپنے ایک خصوصی پروگرام ”صدا رنگ“ میں ڈاکٹر سید احمد قادری کا آدھے گھنٹے کا انٹرویو نشر کیا تھا، جس کی بازگشت پوری اردو دنیا میں ہوئی۔ 11 /جنوری 2017ء کی شام میں امریکا کے شہر ہیوسٹن کے مشہور ٹی وی چینل ’وائڈ اینگل‘ میں امریکا کے مشہور صحافی غضنفر ہاشمی نے اپنے ایک گھنٹے کے انٹرویو میں ڈاکٹر سید احمد قادری کو شامل کیا تھا۔ ڈاکٹر سید احمد قادری کی شخصیت اور خدمات کے تعلق سے کئی اخبارات مثلاََ ”ہمارا سماج“ (دہلی) میں نامور ادیب فاروق ارگلی، ممبئی کے ”اردو ٹائمز“ (8 /جون 2019 ء) میں مشہور کالم نگار اور ڈراما نگار انیس جاوید نے پورے صفحہ پر بہت تفصیل سے ڈکٹر سید احمد قادری کی صحافتی اور ادبی کارناموں کا جائزہ پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر سید احمد قادری ان مشہور و مقبول شخصیات میں ہیں، جن کی مختصر سوانح اردو ویکی پیڈیا پر بھی اپلوڈ ہے. نیز دنیا کے کئی اہم ویب سائٹس پر بڑی تعداد میں ان کے تنقیدی، تحقیقی مضامین، کالم، افسانے وغیرہ بڑی آسانی سے دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔
ان دنوں ڈاکٹر سید احمد قادری ادب اور صحافت کے کئی اہم پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ توقع ہے ان کے یہ پروجیکٹ مکمل ہونے کے بعد اردو ادب اور صحافت کے لیے گراں قدر سرمایہ ہوں گے۔ ڈاکٹر سید احمد قادری کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے کام کو ہمیشہ ترجیح دیتے ہیں اور انھیں صلہ کی پرواہ ہے اور نہ ہی ستائش کی تمنّا۔ ہم ڈاکٹر سید احمد قادری جیسی ادبی اور صحافتی طور پر بے حد متحرک اور فعال شخصیت کی اچھی صحت اور سلامتی کے لیے دعا گو ہیں۔
٭٭٭٭٭
سید احمد قادری کی یہ نگارش بھی پڑھیں : پریم چند: اردو افسانہ کا رہبر

شیئر کیجیے

One thought on “ڈاکٹر سیّد احمد قادری کا پچاس سالہ ادبی و صحافتی سفر

  1. میرے ادبی و صحافتی سفر پر انظراللہ صاحب کے تفصیلی مضمون کی اشاعت کے لئے میں آپ دونوں کا شکر گزار ہوں

سید احمد قادری کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے