مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

شاہ عمران حسن، نئی دہلی

یہ ستمبر کا مہینہ تھا جب کہ بہت سال پہلے اس شخص کی وفات ہوگئی، جنھیں لوگ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی (1903-1979)ء کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ مولانا مودودی کی پیدائش ستمبر ماہ ہی میں ہوئی تھی۔
میرا وجود دنیا میں قائم ہونے سے بہت پہلے مولانا مودودی کی وفات ہوچکی تھی۔ اس لیے انھیں دیکھنے یا سننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تاہم میں اِس تعلق سے چند باتیں عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ طالب علمی کے زمانہ میں جن اصحابِ قلم کی تحریروں اور تخلیقی ایجادوں نے راقم الحروف کو متاثر کیا اور جن کے فکر وخیالات نے میرے ذہن میں غوروفکر کا مادّہ پیدا کیا۔ اُن اصحاب قلم میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا نام بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔
مولانا مودودی کی اسلامی انقلاب کی تحریک بیسوی صدی عیسوی کے نصف اوّل میں شروع ہوئی اور صدی کے آخرتک پوری دنیا میں پھیل گئی۔ جس کے دور رس نتائج سامنے آئے۔ مولانا مودودی نے اپنی وسعت نظری سے بہت کم عمری میں ہی ہندستان میں بدلتے ہوئے حالات اور ہونے والے تغیرات کو بھانپ لیا تھا۔ جس وقت اُنھوں نے اپنے قلم کو جنبش دینی شروع کی اس وقت خلافت اسلامیہ کا زوال اور اشتراکیت کاعروج ہو رہا تھا۔
ہندستان کی مسلم قوم کو مایوسی، شکست خوردگی اور تاریک مستقبل نے گویا گھیر لیا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ قوم پر جمود و تعطل کے گھنے بادل منڈلا رہے ہوں، اس وقت کوئی آزادی کی جدوجہد میں مصروف تھا تو کوئی مسلم قوم کو فضائل و مناقبت کی داستان سناکر ان کے فکر و خیالات کو بدلنے اور مزاج میں درستگی لانے کی سعی لاحاصل کر رہا تھا۔
اس وقت ہندستان کی تاریخ کا ہم جائزہ لیں تو ملت اسلامیہ ہندیہ کے گہن لگے ہوئے معاشرہ میں مولانا مودودی آفتاب کی مانند نمودار ہوئے اور کفر اور الحاد، جنسیات و لغویات میں مبتلا اور الجھی ہوئی قوم کے درمیان دین کی شمع روشن کرنے کی کوشش کی. اور اس میں وہ کافی حدتک کامیاب ہوئے۔اور جب ماہنامہ ترجمان القرآن کے ذریعہ دینی آواز کو عوام کے سامنے پیش کیا، عوام کی ایک بہت بڑی تعداد نے ان کی آواز پر لبیک کہا۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی انقلابِ اسلامی کی تحریک شروع ہوئی تو علماے اسلام کی طرف سے اس پر مثبت اور منفی دونوں قسم کے ردِ عمل سامنے آئے۔ جس کی تفصیل کتابوں کے ذخائر میں موجود ہے، مجھے اُن باتوں کو نہ دوہرانا ہے اور نہ اس پر اظہارِ خیال کرنا ہے۔
مولانا کی مخالفت کرنے والے سارے کے سارے مسلمان تھے، اس سلسلے میں تفہیم القرآن میں مولانا نے بالواسطہ طور پر جو جواب دیا؛ اس میں سارے مسلمانوں کے لیے سبق کا پہلو موجود ہے کہ ہمیں مسلمانوں سے کس قسم کا تعلق استوار رکھنا چاہئے، ہمیں چاہئے نہ تو ہم کسی کی مخالفت میں اندھے اور بہرے ہوجائیں اور نہ کسی کی موافقت میں حد سے گزر جائیں۔
مولانا مودودی کے اصل الفاظ یہ ہیں: ایک شخص اہلِ ایمان کے مقابلے میں اپنی طاقت کبھی استعمال نہ کرے۔ اُس کی ذہانت، اُس کی ہوشیاری، اُس کی قابلیت، اُس کا رسُوخ و اثر، اُس کا مال، اُس کا جسمانی زور، کوئی چیز بھی مسلمانوں کو دبانے اور ستانے اور نقصان پہنچانے کے لیے نہ ہو۔ مسلمان اپنے درمیان اس کو ہمیشہ ایک نرم خو، رحم دل، ہمدرد اور حلیم انسان ہی پائیں۔(تفہیم القرآن جلد چہارم، صفحہ:482-481)
مولانا مودودی پر لکھنے اور بولنے کا کام مسلسل جاری ہے۔ الگ الگ زاویہ نگاہ سے لوگ مولانا مودودی کی شخصیت کا جائزہ لیتے ہیں۔ اور اپنے علم و فکر کی روشنی میں اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک بات میں بھی عرض کرنا چاہتا ہوں۔
مولانا مودودی کی زندگی ایک انسان کو جو سبق دیتی ہے وہ یہ ہے کہ کام کے سلسلے میں انسان آخری حد تک قربانی دینے کے لیے تیار رہے۔ وہ جس مقصد کو لے کر اُٹھا ہو، اس کو حاصل کرنے کے لیے اپنی حد تک آخری کوشش کرے، درمیان میں بہت سی مشکلیں پیش آئیں مگر وہ اس کی پرواہ نہ کرے بلکہ وہ تمام رکاوٹوں سے درگزر کرتا ہوا آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔
میں دور دور تک نگاہ ڈالتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مولانا مودودی کی زندگی کے اس پہلو سے کسی نے نہ تو. سمجھنے کی کوشش کی اور نہ اس سطح پر کوئی کام کرنے کی کوشش کی۔ جو علم و تحقیق کا کام انھوں نے کیا تھا اس میں اضافہ ہونا چاہئے تھا، اس میں مزید نئے انکشافات ہونے چاہئے تھے، مزید دریافتیں ہونی چاہئے تھیں، مزید تحقیقات سامنے آنی چاہئے تھیں، مگر ہر جگہ خلا ہی خلا نظر آتا ہے، بہ ظاہر مولانا مودودی کی جماعت سے تعلق رکھنے والے لوگ علم و تحقیق کے حوالے سے کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مگر علم و تحقیق کے حوالے سے ان کے کام کو آگے بڑھانے والوں کی شدید کمی ہے، اگر کمی نہ ہوتی تو اس حوالے سے یقینی طور پر کام ہوتا۔ خلافت و ملوکیت، تفہیم القرآن، تفہیم الحدیث اور پردہ وغیرہ کے اگلے حصوں پر کام ہوتا ، اس سلسلے کی مزید افادیت والے پہلو اُجاگر کیے جاتے، ان نقشِ اوّلین کو لے کر لوگ نقش ثانی کی تیاری کرتے۔ اس قسم کی بہت سی باتیں ہیں جس پر غور و فکر کرنا ضروری ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص میرے خیال سے اتفاق رکھے، تاہم میں یہ ضروری سمجھتا ہوں ہر شخص کو اپنی بات رکھنے کی پوری آزادی حاصل ہے اور دوسرے کو چاہئے کہ وہ ان پہلووں پر ٹھنڈے دل سے غور و فکر کرے. اور اس سلسلے کا عملی اقدام کرے۔
آج تقریباً ہر جماعت اور ہر تحریک کی صورتِ حال یہ ہے کہ لوگ کام کو مزید آگے بڑھانا نہیں جانتے، اپنے اندر تخلیقی مزاج پیدا کرنا نہیں چاہتے، بس ہم اپنے اپنے بانیوں کا قصیدہ پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔آپ میں سے بہت سے لوگ وہ منظر اب بھی دیکھتے ہوں گے کوئی شخص مولانا مودودی یا کسی دوسرے عالم کی کتاب پڑھ رہاہوگا، اور یہ کہتا ہوا نظر آئے گا کہ واہ کیا دلیل دی ہے مولانا نے، واہ کیا بات کہی ہے مولانا نے، وغیرہ، وغیرہ۔ یہ حقیقت ہے، اس پر غور و فکر کرنے کی شدید ضرورت ہے، کسی کی صرف تعریف کرنے سے کام آگے نہیں بڑھتا ہے، بلکہ اس سلسلے میں ہمیں خود سے قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ کسی تحریک کا ہر آدمی اس کے بانی کے برابر کام کرے، مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ ہمارے اندر یہ جذبہ ضرور ہونا چاہئے کہ ہمارے اندر کا جو شخص بھی اس قسم کا کام کرنا چاہے، وہ ان نقشِ اوّلین سے آگے کا کام کرے۔
اصل یہ ہے کہ ہمارے اندر مستقل مزاجی اور عزم مستقل کی کمی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک نوجوان جذبات میں آکر کسی کام کو کرنے کا آغاز کرتاہے، وہ دُنیا کے مسائل کو حل کرنے کے لیے بڑی بڑی باتیں کرتا ہے، رات دن دورے کرتا ہے، ہمہ وقت وہ بے چین رہتا ہے. مگر اس کے اپنی زندگی کے مسائل جب اُسے گھیرتے ہیں تو وہ خود الجھ کر رہ جاتا ہے، وہ جہاں سےآیا تھا وہیں واپس چلا جاتا ہے، حتیٰ کہ اس کی تمام سرگرمیاں اور تمام جدوجہد سرد پڑجاتی ہیں۔ جہاں ہمارے اندر مستقل مزاجی اور دیرپا عمل کرنے کی بھی کمی ہے وہیں ہم اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھ پاتے کہ علمی و تحریکی زندگی الگ ہوتی ہے اور ذاتی زندگی الگ. ذاتی زندگی کے مسائل ہر شخص کی زندگی میں ہوتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سبب سے ہم اپنی علمی زندگی کو متاثر ہونے دیں۔ اگر ہم دونوں کو ایک دوسرے سے الگ الگ رکھ کام کریں گے تو یقینی ہے کہ ہم دیرپا عمل بھی کرپائیں گے اور انسانیت کی اس وسیع دنیا کو چھوڑنے سے قبل، ہم بھی کچھ دے کر جائیں گے، ان شاء اللہ!
***

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے