آئس برگ

آئس برگ

احسان قاسمی
رابطہ: ehsanulislam1955@gmail.com

ٹپ ۔۔۔۔۔۔ ٹپ ۔۔۔۔۔۔ ٹپ ۔۔۔۔۔۔۔ ٹپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برف کی سِل بہت دھیرے دھیرے۔۔۔۔ بالکل غیر محسوس طور پر پگھل رہی تھی۔
ٹپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ نیا احساس جانے کب اس کے وجود میں در آیا، لیکن برسوں کی خشک مٹی پر ٹپکتے پانی کی بوندوں کا پھیلتا گیلاپن اور مٹی کی سوندھی مہک درِ وجود پر ہلکے ہلکے دستک دینے لگی تھی۔
اس نے بے اختیار بائیں جانب دباؤ بڑھایا۔ اس کا بایاں بازو ڈاکٹر حیدر کے دائیں بازو سے مس ہو رہا تھا۔ سامنے سُومیندُو جھیل بالکل شانت مُدرا میں لیٹی تھی۔ کون جانے اوپر سے شانت نظر آنے والی اس جھیل کی گہرائیوں میں بھی کوئی ہلچل نہاں ہو.
اس لمحے سے قبل وہ بھی سومیندو جھیل کی طرح ہی بالکل شانت تھی۔ لیکن آج یہ کون سا معجزہ رونما ہو رہا تھا؟ حیدر کے بازو سے یہ کیسی حرارت اس کے جسم و جاں میں منتقل ہو رہی تھی جو برسوں سے جمی برف کی سِل کو پگھلائے دے رہی تھی؟ اُس کے انترمن میں بوندوں کے ٹپکنے کی صدا صاف صاف سنائی پڑ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ ٹپ۔۔۔۔۔۔۔ ٹپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیسا لگا مِیرِک ؟ ۔۔۔۔" حیدر نے دریافت کیا تھا۔
” بہت خوب صورت! ۔۔۔۔۔ خوابوں کی سرزمیں سا۔"
"ذرا بیٹیوں کی جانب بھی دیکھو، کیا کر رہی ہیں۔
اس نے سر گھما کر اپنی داہنی جانب دیکھا۔ دراز قد، چست، چمکیلے شان دار گھوڑوں پر سوار دونوں بیٹیاں خوشیوں سے سرشار اپنے ہاتھ لہرا رہی تھیں۔
دور نیلے آسمان کے کنارے پر کنچن جنگا کی برف پوش چوٹی چاندی سی چمک رہی تھی۔ انھیں گھڑسواری کروانے والے اپنے اپنے گھوڑوں کی باگ پکڑ کر سرسبز میدان کی آہستہ روی سے سیر کروا رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ بھی گھوڑوں پر سوار ہو گئے اور ایڑ لگاتے ہی دونوں گھوڑے تقریباً اسّی فیٹ طویل، کمان نما اِندرِینی پُل کو عبور کر جھیل کے دوسرے کنارے پائن کے طویل القامت درختوں کی قطاروں کے درمیان سے بل کھاتی ہوئی گزرتی کچی سڑک پر سرپٹ دوڑنے لگے تھے۔
دو تین راؤنڈ لگا کر وہ واپس آئے۔ ان کی ضد پر انھیں بھی ان کے ساتھ گھوڑوں کی پیٹھ پر سوار ہونا پڑا تھا۔ گھوڑوں کے مالک نے اجرت حاصل کرنے سے قبل حیدر کے موبائل سے ان کی تصویریں لیں۔
"ممی پاپا! چلو اب جھیل میں بوٹنگ کی باری ہے.
بیٹیوں کی خوشی دیدنی تھی.
اُن کے اسکول میں چند دنوں کی چھٹیاں ہوئیں تو دارجلنگ کی سیر کا پروگرام بن گیا تھا۔ ان کی خود کی زندگیوں میں فرصت کے لمحات کافی کم ہو گئے تھے. بچیوں نے دارجلنگ ہمالین ٹوائے ٹرین کا سن رکھا تھا اور وہ اس میں سفر کرنے کی خواہش مند تھیں۔ لہذا بذریعہ کار سِلّی گوڑی پہنچے اور وہاں سے سات ہزار چار سو فیٹ کی بلندی پر واقع دارجلنگ کے آخری اسٹیشن "گھوم" تک کا سفر ٹوائے ٹرین سے طے کیا۔ دارجلنگ میں تین دن گزارے۔ اس درمیان وہاں کے تمام مشہور مقامات مثلاً ٹائگر ہل، بتسیا لوپ، ہمالین ماؤنٹینیرنگ انسٹیٹیوٹ، جاپانی پیس پیگوڈا، موناسٹیری، راک گارڈن، گنگا مایا پارک، میوزیم، ٹی گارڈن وغیرہ کی خوب سیر کی۔ انھوں نے وہ بنگلہ بھی دیکھا جو ایک زمانے میں گورکھا لینڈ تحریک کے سب سے بڑے لیڈر آنجہانی سبھاش گِھیسِنگ کی رہائش گاہ تھی۔ پدماجا ہمالین زولوجیکل گارڈن کے داخلی گیٹ پر انھیں ایک فوٹو گرافر نے گھیر لیا تھا۔ بیٹیوں کی ضد پر اسے بھی نیپالی لباس زیب تن کرنا پڑا تھا اور طرح طرح کی مالائیں گلے میں ڈالنی پڑی تھیں۔ بیٹیوں نے تو اپنی پیٹھ کے پیچھے چائے پتی جمع کرنے والی چھوٹے سائز کی ٹوکریاں بھی لٹکا لی تھیں۔ حیدر نے جب نیپالی پوشاک زیب تن کر سر پر نیپالی ٹوپی پہنی اور کمر کے گرد لال پٹہ لپیٹ کر دائیں جانب شان سے کھُکری لٹکائی تو اس کا حلیہ دیکھ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی۔ ان کا ارادہ گنگٹوک جانے کا تھا لیکن لینڈ سلائیڈنگ کی خبر موصول ہونے کے بعد حیدر نے کہا "چلو میرِک چلتے ہیں۔ برسوں قبل میں کالج کی والی بال ٹیم کے ساتھ میچ کھیلنے وہاں گیا تھا۔ چھوٹی مگر خوب صورت جگہ ہے۔ ایک وسیع و عریض، مسطح سرسبز میدان ہے اور سوا میل لمبی سومیندو جھیل ہے جو میرِک لیک کے نام سے مشہور ہے۔ پانچ ہزار فیٹ کی بلندی پر ایسا وسیع و ہموار میدان اور جھیل قدرت کا نایاب تحفہ ہیں۔
گزشتہ شام وہ لوگ میرک پہنچے تھے۔ دارجلنگ کی بہ نسبت یہاں ٹھنڈ کچھ کم تھی لیکن کل ملا کر موسم یکساں تھا۔ گہری دھند کی شکل میں بادل آتے، آس پاس اندھیرا سا چھا جاتا۔ کبھی بوندا باندی ہوتی، کبھی کپڑوں کو نم کر بادل گزر جاتے۔ جھیل کے قریب واقع ہوٹل "لوہِت ساگر" میں انھیں ہال نما ایک بڑا سا کمرہ مل گیا تھا۔ کمرے کے دو سروں پر دو بڑے پلنگ لگے تھے۔ درمیان میں صوفے اور دیگر فرنیچر لگے تھے۔ رات وہ بیٹیوں کے ساتھ سوئی تھی۔ یہ اس کا معمول بن چکا تھا۔ اس کا سارا دن مریضاؤں کے درمیان گزر جاتا تھا۔ بیٹیوں کے حصے میں رات کا وقت ہی آتا تھا اور اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں تھی۔ نہ جانے کب ایمرجنسی کال آ جائے۔
صبح جب اس نے شیشوں پر سے پردہ ہٹایا تو نگاہوں کے سامنے میدان اور جھیل کا دل فریب منظر موجود تھا۔ باہر سڑک پر کچھ چہل پہل بھی شروع ہو چکی تھی۔ سڑک کنارے مقامی خواتین چھولے بھٹورے، مومو اور چائے کی دکانیں لگائے بیٹھی تھیں۔ کھاکر مزہ آیا۔ سیلانی جھیل میں مچھلیوں کو دانے ڈال رہے تھے۔ انھوں نے بھی دانے ڈالے۔ کافی بڑے سائز کی روہو، قتلہ اور دیگر ذات کی مچھلیاں سینکڑوں کی تعداد میں دانوں پر ٹوٹی پڑ رہی تھیں۔ پانی کی سطح کے بالکل قریب سورج کی کرنوں میں چمکتی، جھلملاتی سنہری مِرگل مچھلی یوں نظر آ رہی تھی گویا قدرت نے اس کی تشکیل لچیلے سونے سے کی ہو۔
حیدر نے کاؤنٹر سے ٹکٹ لیے اور وہ لوگ سیڑھیوں سے نیچے گھاٹ پر پہنچ گئے۔ یہاں موٹر بوٹ بھی تھے اور کشتیاں بھی۔ انھیں ایک کشتی پسند آ گئی جس پر چھت ڈالی ہوئی تھی۔ درمیان میں آمنے سامنے دو گدے دار سیٹیں تھیں اور کشتی کو پلاسٹک کے پھول، پتوں اور بیلوں سے سجایا گیا تھا۔ اسے ڈل جھیل میں تیرتے شکاروں کی یاد آئی اور "انارکلی" نامی ہاؤس بوٹ کی بھی جس میں حیدر کے ساتھ اس نے زندگی کے چند حسین ترین ایام گزارے تھے، ہر فکر سے آزاد نئے شادی شدہ جوڑے کی شکل میں۔
جھیل میں ہوا کی روانی کے باعث چھوٹی چھوٹی لہریں پیدا ہو رہی تھیں۔ کشتی کے ارد گرد چپؤں کے چلنے سے پانی کے دائرے بن رہے تھے جو جھیل کی سطح پر پھیل کر معدوم ہو جاتے۔ اس کے ذہن میں بھی خیالات کے دائرے بننے بگڑنے لگے تھے۔
شادی کے وقت دونوں مختلف اسپتالوں میں ملازمت کر رہے تھے۔ حیدر کا ارادہ اپنے شہر میں ذاتی نرسنگ ہوم قائم کرنے کا تھا۔ لہذا شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی دونوں نے ملازمت کو خیرباد کہہ دیا اور اپنے شہر میں کرائے پر مکان لے کر پریکٹس کا آغاز کیا۔ شروع میں تھوڑی دشواری ضرور پیش آئی لیکن جلد ہی ان کی جوڑی چل نکلی۔ کئی کیسز میں عورتوں کی نارمل ڈلیوری نہیں ہو پاتی تھی اور لامحالہ آپریشن کی ضرورت پیش آ جایا کرتی تھی۔ حیدر چونکہ ایک اچھے سرجن تھے اس لیے ایسے معاملات آسانی سے حل ہو جایا کرتے تھے۔ دونوں لوٹ کھسوٹ کرنے پر یقین نہیں رکھتے تھے اور حیدر تو اپنے شہر آئے ہی تھے خدمت کے جذبے کے تحت۔ کم خرچ اور کامیاب علاج نے ان کی شہرت میں اضافہ کیا۔ مریضوں کی بڑھتی تعداد کے ساتھ یہ جگہ چھوٹی پڑنے لگی تھی۔ شہر سے متصل قومی شاہ راہ کے کنارے اس کے خسر کے کھیت تھے۔ انھوں نے کافی بڑا پلاٹ حیدر کے نام رجسٹری کر دیا۔ جلد ہی نرسنگ ہوم کی تعمیر کے لیے قرض بھی حاصل ہو گیا۔ نرسنگ ہوم کیا تھا حیدر کے سپنوں کا تاج محل تھا۔ اسی کیمپس کے ایک گوشے میں ان کا رہائشی مکان بھی بن گیا تھا۔ دیکھتے دیکھتے پیتھولاجی لیب، دواؤں کی دکان، ایکسرے، الٹرا ساؤنڈ، سی ٹی اسکین، کئی جونیئر ڈاکٹرس، جونیئر لیڈی ڈاکٹر، ڈائٹریشین وغیرہ جیسی ضروریات پوری ہو گئیں۔ کچھ بچے بےحد لاغر اور بیمار پیدا ہوتے تھے. حیدر نے اپنے ایک دوست چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر ورما کو دوسری منزل پر جگہ دی۔ نوزائیدہ بچوں کے لیے انکیوبیٹرس بھی لگ گئے۔ آپریشن سے قبل جنرل فزیشین سے سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کا مسئلہ تھا۔ حیدر تمام چیزیں ایک چھت کے نیچے چاہتے تھے۔ ایک دن ڈاکٹر پرویز کو دعوت دی۔ یہاں کی کشادگی اور انتظامات سے وہ کافی متاثر ہوئے اور چند دنوں بعد پرانی جگہ چھوڑ یہیں منتقل ہو گئے۔
قرض کی رقم کافی زیادہ تھی۔ لیکن اللہ رب العزت نے اتنا دیا کہ قسطوں کی ادائیگی کے بارے میں کبھی فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہوئی۔ ہاں! دونوں کی مصروفیات میں اضافہ ہو گیا۔ اکثر نصف شب میں کسی خاتون کو درد زہ شروع ہو جاتا تو اسے نیند کو خیرباد کہہ کر فوراً نرسنگ ہوم پہنچنا پڑتا۔ اگر معاملہ زیادہ پیچیدہ ہوتا تو حیدر کو بھی جگانے کی ضرورت پیش آ جاتی۔ مریضاؤں کی نبض شناسی کرتے کرتے وہ کب خود اپنے نبض پر ہاتھ رکھنا بھول گئی، اسے پتا ہی نہیں چلا۔
مصروفیت کی انتہا ہو یا زندگی کی یکسانیت اس کا سارا وجود غیر محسوس طور پر برف کی سِل میں تبدیل ہو چکا تھا۔ حیدر جب آتے وہ خوش دلی سے ان کا استقبال کرتی کہ یہ ان کا حق تھا لیکن خود سپردگی کا جذبہ، جذبے کی حدت، حدت کی لذت، لذت کی چاہت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب کچھ گویا برف کی سل میں مقید ہو چکے تھے۔
لیکن آج ۔۔۔۔۔۔۔ آج ۔۔۔۔۔ یہ کیا ہو رہا تھا ؟ ہلکے ہلکے ڈولتی کشتی میں حیدر کا قرب پاکر برف کی یہ سل دوبارہ مزید تیزی سے پگھلنے لگی تھی۔ وہ اپنے وجود کے اندر ٹپکتے بوندوں کی آواز صاف طور پر سن سکتی تھی۔
ٹپ ٹپ ٹپ ٹپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے کھانے سے فارغ ہو کر اس نے بیٹیوں کو پلنگ پر لٹا کر اچھے سے کمبل ڈال دیا اور انھیں سو جانے کی تاکید کی کہ صبح روانگی ہے۔ پرسوں سے ان کا اسکول کھل رہا ہے۔ کمرے کی بتی گل کر وہ واش روم میں داخل ہو گئی۔ اس نے جان بوجھ کر وہاں معمول سے زیادہ وقت گزارا تاکہ دونوں بیٹیوں کو اس درمیان نیند آ جائے۔ اس لمحہ اس کے دل میں بس ایک ہی خواہش تھی کہ وہ جلد از جلد حیدر کے کمبل کے اندر گھس جائے۔ اس سے اس طرح لپٹ جائے جیسے سانپ چندن کے پیڑ سے لپٹے رہتے ہیں اور حیدر کے جسم کی حرارت سے اس کے وجود کے چہار اطراف جمی برف کی دبیز پرتیں پگھل جائیں۔ ایک ایک بوند پانی ٹپک جائے اور وہ اپنے منجمد پروں کو مکمل آزادی کے ساتھ جنبش دیتی آسمان کی بےکراں وسعتوں میں پرواز کرنے لگے۔
اس نے واش روم کی بتی گل کی اور دبے پاؤں حیدر کے پلنگ کی جانب بڑھنے لگی۔ ابھی دو تین قدم اٹھائے ہی تھے کہ منکر نکیر کی طرح دائیں بائیں دونوں بیٹیاں آن حاضر ہوئیں۔
” ممی! اُدھر کہاں جا رہی ہو؟ ہمیں نیند نہیں آ رہی ہے۔ چلو کہانی سناؤ۔
وہ خاموشی کے ساتھ بیٹیوں کے درمیان آ کر لیٹ گئی۔
” ممی! علی بابا چالیس چور والی کہانی سناؤ۔"
” نہیں ممی ! الہ دین کی کہانی سناؤ۔"
"نہیں ممی! آج کوئی بالکل نئ کہانی سناؤ. "
اس نے کہانی سنانے کی شروعات کی لیکن وہ خود سن نہیں پا رہی تھی، سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ وہ بول کیا رہی ہے؟
ابھی کہانی نے نصف راستہ بھی طے نہیں کیا تھا کہ اس کے کانوں میں حیدر کے خراٹوں کی آواز گونجی۔ اس نے محسوس کیا کہ یکایک وہ برف کے ایک بڑے سے تودے میں تبدیل ہو گئ ہے۔
***
احسان قاسمی کی گذشتہ نگارش:نقوشِ فرید : محمد رضوان آزاد کا ایک تاریخی کارنامہ

شیئر کیجیے

One thought on “آئس برگ

  1. جناب احسان قاسمی کی کہانی”آئس برگ ” خوبصورت منظر نگاری اور جذیات نگاری کی مہارت کے ساتھ رومانی فضا میں بنی گئی نفسیات کے لطیف احساسات و جذبات کی کہانی ہے جس پر پروفیشن کے تئیں سپردگی کا جذبہ اور ذمہ داریوں کا احساس غالب ہیں۔ ان ذمہ داریوں کے ڈیڈیکیشن سے پیدا جمود کو برف کی سل سے تشبیہہ دینا کہانی کو نہ صرف خوبصورت بناتا ہے بلکہ احساس کی روح تک رسائی کا موقع بھی فراہم کرتا ہے ۔۔۔
    خوبصورت اور کامیاب کہانی کے لئے جناب احسان قاسمی داد و مبارکباد۔

مستحسن عزم کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے