شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی

شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی

قائدِ تحریکِ آزادی،اسیرِ مالٹا،شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ

محمد ہاشم القاسمی خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال
موبائل نمبر: 9933598528

قائد ِ تحریک آزادی، اسیرِ مالٹا، شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ ایک خالص دینی، و علمی خاندان میں پیدا ہوئے، آپ کے والد ماجد مولانا ذوالفقار علی، خلیفہ شیخ فتح علی رحمۃ اللہ علیہ عظیم شخصیت کے مالک تھے، عربی زبان و ادب میں غیر معمولی دسترس حاصل تھی، دیوانِ حماسہ، دیوانِ متنبی، سبعہ معلقہ، قصیدہ یانت سعاد، کی شرح تحریر فرمائی جس کی بدولت عربی ادب کی یہ مشکل ترین کتابیں عربی طلبہ کے لیے نہایت سہل و آسان ہوگئیں، معانی و بیان میں، تذکرۃ البلاغہ، ریاضی میں تسہیل الحساب بھی آپ کی قلمی شاہ کار ہیں۔
حضرت شیخ الہندؒ کی ولادت بریلی میں ١٢٦٨ھ مطابق ١٨٥١ء میں ہوئی جہاں آپ کے والد ماجد مولانا ذوالفقار علی بہ سلسلہ ملازمت قیام پذیر تھے۔ آپ بریلی کالج کے پروفیسر رہے، پھر ترقی کرکے ڈپٹی انسپکٹر مدارس کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہوگئے۔ والد ماجد نے آپ کا نام محمود حسن رکھا، چھ سال کی عمر میں بسم اللہ شروع ہوئی اور ایک بزرگ میاں جی منگلوری سے قرآن پاک پڑھا۔ پھر آپ نے اردو، فارسی کی ابتدائی کتابیں شیخ عبد اللطیف صاحب سے پڑھیں۔ آپ کے والد ماجد کا تبادلہ ڈپٹی انسپکٹر ہی کے عہدہ میں میرٹھ ہوگیا۔ اس وقت آپ کی عمر سات سال تھی، یہیں ہندستان کی تاریخ کا اہم ترین واقعہ پہلی جنگ آزادی ١٨٥٧ء پیش آیا۔ہندستانیوں کی جابر، ظالم، فاسق انگریزوں کے خلاف بغاوت کا یہ کوہِ فشاں پھٹا اور اس کا لاوا چالیس میل دور دہلی شہر کے فصیلوں سے جا ٹکرایا، دہلی اور اس کے اطراف میں قیامتِ صغریٰ برپا ہوگئی، میرٹھ میں بھی اس کی آنچ محسوس ہونے لگی، اس لیے آپ کے والد ماجد نے آپ کو دیوبند بھیج دیا۔ مولانا ذوالفقار علی کے بڑے بھائی مولانا مہتاب علی صاحب کا گھریلو مدرسہ چل رہا تھا. حضرت شیخ الہند  نے اپنے چچا کے مدرسہ میں ان سے فارسی کے بعد عربی کی چند کتابیں پڑھیں، جب آپ عربی میں قدوری، شرح تہذیب وغیرہ کتابیں پڑھ رہے تھے اس وقت دارا لعلوم دیوبند کی بنیاد پڑی۔
١٥/ محرم الحرام ١٢٨٣ھ مطابق ١٨٦٦ء کے مبارک دن اکابرین دیوبند ”چھتہ مسجد“ میں جمع ہوئے تاکہ مدرسہ کا باضابطہ افتتاح کر دیا جائے، اکابر علما و صالحین کے اس حسین جھرمٹ میں دارالعلوم دیوبند کے پہلے استاد”ملا محمود“ کے سامنے جس طالبِ علم نے کتاب کھولی وہ محمود حسن دیوبندی ہی تھے جو بعد میں قائدِ تحریک آزادی، اسیرِ مالٹا، اور شیخ الہند جیسے عظیم خطاب سے مشہور ہوئے۔
حضرت شیخ الہند نے دارالعلوم دیوبند کے قیام کے پہلے سال میں قدوری وغیرہ پڑھی، دوسرے سال کنز الدقائق وغیرہ. ١٣٨٥ھ میں جن کتابوں کا امتحان دیا ان میں ہدایہ، مشکوٰۃ شریف، مقاماتِ حریری، وغیرہ کے نام ملتے ہیں۔ صحاح ستہ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپ دارالعلوم کی چہار دیواری سے نکل کر میرٹھ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں تشریف لے گئے جہاں منشی ممتاز علی کے مطبع میں آپ ملازمت کر رہے تھے، اور قلمی کتابوں کی تصحیح کرکے اشاعت کے لیے تیار کرتے تھے۔
حضرت مولانا قاسم نانوتوی  اپنے کار منصبی سے وقت نکال کر طلبہ کی ایک مختصر جماعت کو ہمیشہ درس دیتے رہے، بالخصوص صحاح ستہ کا درس بڑا معرکۃ الآرا  ہوتا تھا، لیکن اس میں صرف منتخب اور ذہین ترین طلبہ ہی کو ان کے درس میں شریک ہونے کی اجازت تھی جو صلاحیت واستعداد سے کام لے کر مطالعہ میں کتاب کو ایک حد تک حل کر سکتے ہوں، صرف اہم ترین مباحث، اسرار و حکم، علمی نکتوں اور فنّی دشواریوں کو حل کرنا باقی رہ جائے، جب اتنی تیاری کرلے تو طالب  علم کو حق تھا کہ وہ حضرت نانوتوی  کے درس میں شریک ہو۔
شیخ الہند  کو حضرت نانوتویؒ سے بڑی قربت حاصل رہی، اپنے استاذ سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے اور حضرت نانوتویؒ بھی اپنے اس شاگرد کی بے پناہ ذہانت، کثرتِ مطالعہ اور درس کی پوری تیاریوں کو دیکھ کر انتہائی شفقت و محبت فرماتے تھے۔ سفر میں حضر میں پوری کتابیں لے کر اسباق کا سلسلہ جاری رہا اور دل و جان سے قابل رشک خدمت کر کے استاذ کی شفقت اور اپنی خدا داد ذکاوت سے باکمال تحقیقی کتابیں پڑھیں۔تقریباََ دوسال مسلسل حضرت نانوتوی  سے حدیث کا درس لیتے رہے، اور ١٢٨٩ھ میں تکمیل فرمائی۔
شیخ الہند نے اپنی تعلیم کے آخری دوسالوں میں خالی اوقات میں تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع فرما دیا تھا. چونکہ علمی استعداد بہت اچھی اور پختہ تھی اس لیے طلبہ کا رجوع آپ کی طرف بہت زیادہ تھا۔ ١٢٩٠ھ جس سال آپ کی دستار بندی ہوئی اس وقت بھی کئی جماعتیں آپ کے پاس تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ ١٢٩١ھ میں آپ کو دارا العلوم دیوبند میں باضابطہ مدرس کی حیثیت سے بحال کر لیا گیا. آپ نے مسند درس سنبھال لی اور دارالعلوم سے وابستگی بڑھتی گئی، فرائض منصبی کا احساس بڑھتا گیا اور دارالعلوم کے مشن کو آگے لے جانے کے لیے صرف ملازمت تک خود کو دارالعلوم میں محدود نہیں کیا، بلکہ دارالعلوم کی ترقی، دینی علوم کی نشر و اشاعت سے آپ کو دلی لگاؤ تھا، عشق تھا، یہ ملازمت نہیں کاروبار عشق تھا، اور عشق میں سود و زیاں پر کبھی سوچنے کی گنجائش نہیں رہتی، آپ نے تعلیم و تدریس کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا۔ اور ملت اسلامیہ کو بیدار مغز علما اور اسلامی زندگی کی حرارتوں سے معمور افراد کی تیاری، ان کی شخصیتوں کی تعمیر میں شب و روز لگ گئے، آپ کے درس کا سلسلہ اوقات مدرسہ کا پابند نہیں رہا۔ نمازِ فجر سے قبل آپ کا درس شروع ہوجاتا تھا اور پھر پورے دن جاری رہتا تھا، ہر علم و فن کی کتابیں پڑھاتے رہے۔ تدریسی زندگی کے آخری دور میں آپ  صرف صحاح ستہ کے اسباق اپنے ذمہ رکھے تھے۔
١٢٩٢ھ میں شیخ الہند  نے ”ثمرۃ تربیت“ کے نام سے ایک تنظیم قائم فرمائی جس کا مقصد یہ تھا کہ دارالعلوم میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اور اس سے سند فراغت حاصل کرنے والے فضلا میں اپنے مرکز سے شدید وابستگی پیدا کی جائے اور ان کو ذہنی و فکری اعتبار سے ایک رشتہ میں پرو دیا جائے تاکہ اسلامی ہند میں وہ عظیم الشان انقلاب برپا کر سکیں اور دین و مذہب اور ملک و ملت کی سرخ روئی کے لیے بڑا سے بڑا کارنامہ انجام دے سکیں جو بہت کامیاب ثابت ہوئی۔
١٣٢٦ھ میں آپ نے ”انجمن جمیعۃ الانصار“ قائم فرمائی. اس کا مقصد بھی دارالعلوم کی ترویج و اشاعت اور اس کو ہمہ گیر بنانا، عامتہ المسلمین میں دارالعلوم کی مرکزیت کا احساس پیدا کرنا، اکابر دارالعلوم کے نقطہ نظر سے وابستگی اور اس کو بروئے کار لانے کے لیے جد و جہد اور اسی کے ساتھ ساتھ دارالعلوم کی مالی حالت کو درست کرنا، امداد و اعانت کی سبیل پیدا کرنا تھا جو بار آرو ثابت ہوئی اور کچھ ہی دنوں میں اس کے اچھے نتائج سامنے آ چکے تھے، اس میں آپ نے فرمایا کہ ”ہندوستان میں دین کی مکمل حفاظت کا ذریعہ نہیں بن سکتا ہے، چونکہ حکومتِ وقت کی ساری طاقت مسلمانوں کو ملحد بنانے میں لگی ہوئی ہے۔ لہذا اس طاقت کو جب تک درمیان سے نہیں ہٹایا جاتا، ہماری ساری محنت اور کوشش رائیگاں ہوتی رہیں گی۔ لہٰذا ہم کو حکومت ہی یہاں سے ختم کرنے کی مہم کا آغاز کرنا چاہئے۔ جب تک انگریزوں کی حکومت ہے اسلام کا تحفظ دشوار تر ہوتا جائے گا۔
شیخ الہند  اپنے منصوبے کے خاکے میں رنگ بھرنے کے لیے جد و جہد کرتے رہے۔ اور تسلسل کے ساتھ اس منصوبے پر کام ہوتا رہا۔ سمندر کی ظاہری سطح پُر سکون تھی، لیکن اس کی تہ میں کتنا طلاطم و تموج تھا کسی کو بھی اس کا اندازہ نہ تھا، آپ ١٨٥٧ء کی تاریخ کو پھر دہرانا چاہتے تھے، جس طرح میرٹھ چھاؤنی سے بغاوت کا وہ طوفان اٹھا اور دہلی تک جا پہنچا۔ اب سرحد کے علاقوں سے اس کا آغازہونا چاہیے، میرٹھ چھاؤنی سے انگریزوں کی خود اپنی فوج کے غیرت مند فوجوں نے یہ آگ بھڑکائی تھی، مگر اب  سرحد کے غیور پٹھانوں کی رہ نمائی میں یہ تحریک چلائی جائے گی اور ان کی پشت پر مسلم حکومت کے تعاون کا ہاتھ ہوگا۔
ہندستان کی تحریک آزادی کی تاریخ میں شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی اس تحریک کو انگریزی حکومت نے ”ریشمی رومال تحریک“ کے نام سے اپنے رپورٹوں میں ذکر کیا ہے، یہ کوئی جلد بازی میں تیار کیا ہوا پلان نہیں تھا، بلکہ اس کے لیے ایک طویل عرصہ سے تیاری کر رہے تھے، آپ اس کی تفصیل سے اس کی ہمہ گیری، وسعت اور گہرائی کو سمجھ سکتے ہیں، یہ منصوبہ اُس دور میں عملی شکل اختیار کرنے والا تھا جب دنیا کی کئی حکومتیں انگریزوں کے خلاف ہر اقدام کی تائید اور تعاون دینے کے لیے تیار اور بے چین تھیں۔ مگر قضا و قدر کا فیصلہ کچھ اور ہی تھا۔ حیرت ہوتی ہے کہ یہ بوریہ نشیں علما کتنی گہرائی اور گیرائی سے معاملے کو سوچتے ہیں اور اس طرح ایک کامیاب منصوبہ بندی کی محیر العقول صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ شیخ الہند  کی منصوبہ بندی کے دو بنیادی شعبے تھے (۱) آزاد قبائل کو فوجی چھاؤنی بنا کر وہاں فوج کو منظم کیا جائے اور وہ حکومتوں کا تعاون حاصل کرے پھر ہر قسم کے ہتھیاروں سے مسلح ہوکر مجاہدین آزادی کا ایک بڑا لشکر ماہرینِ جنگ کی قیادت میں اندرون ملک کوچ کرے اور انگریزی حکومت کے کلیدی مقامات پر حملہ کر کے ان پر قبضہ کرے۔ (۲) دوسرا شعبہ اسلحہ جنگ اور رسد کی فراہمی، اس سلسلہ میں اسلامی ملکوں، افغانستان، ترکی، اور ایران سے تعاون حاصل کرنا تھا اور یہ ذمہ داری خود حضرت شیخ الہند  نے اپنے سر لی تھی، آپ نے اسی غرض سے حجاز کا سفر کیا۔ یہ دونوں شعبے بین الاقوامی حالات اور عالمی جنگ شروع ہوجانے کی وجہ سے قابلِ عمل تھے، اور اس میں کامیابی کا یقین تھا، کیونکہ تاریخ اس طرح کے واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔ حضرت شیخ لہند  اپنے مقصد میں منزل کی طرف تیزی کے ساتھ رواں دواں تھے مگر افسوس! عربوں کی بغاوت اور جرمنی کی شکست نے وہ سارے راستے مسدود کر دیے جن سے گزر کر آزادی کے اس کارواں کو جانا تھا۔
حضرت شیخ الہندؒ کی گرفتاری کا جب جدہ سے حکم آیا تو مکہ معظمہ کے معزز تاجروں کا ایک وفد سلطانِ حجاز شریف حسین سے ملا اور گرفتاری کا حکم واپس لینے کی سفارش اور درخواست کی، مگر اس کے جواب میں شریف حسین نے صاف انکار کردیا۔ انھوں نے کہا ”انگریز سے ہماری نئی دوستی ہے، اور ہمیں یہ دوستی قائم رکھنی ضروری ہے، اس لیے ہم نہیں چاہتے اس میں کوئی رخنہ پیدا ہو“ کرنل واسن اس وقت جدہ میں موجود تھا، اس نے شریف حسین کو جدہ بلایا اور کہا کہ ”شیخ الہند اور اس کے رفقا کو گرفتار کر کے ہمارے حوالے کردو“ اسی دن گرفتاری کروایا اور ان کے سپاہی ان حضرات کو لے کر جدہ پہنچ گئے۔ کچھ دنوں جدہ میں رکھنے کے بعد مصر لے گئے، وہاں سارے لوگوں کے بیانات لیے گئے، پھر وہاں سے ٢٦ / فروری ١٩١٧ء گوروں کا ایک مسلح دستہ مالٹا لے گیا۔
مالٹا ایک گم نام جزیرہ تھا، اس جزیرہ میں قدیم زمانے کا ایک قلعہ تھا جو پہاڑوں کو کاٹ کر بنایا گیا تھا، اور اس کو خطرناک قیدیوں کے لیے انگریزوں نے مخصوص کر رکھا تھا۔ مالٹا کے قید خانے میں اس وقت ٣٠ / ہزار قیدی تھے، شیخ الہند اور ان کے رفقا تقریباََ تین سال دو مہینے مالٹا کے اس اذیت ناک قید خانہ میں محصور رہے۔ قید خانہ میں رہتے ہوئے بھی شیخ الہند نے جو کام کیے وہ بھی رہتی دنیا تک باقی رہنے والی ہے جس کی لمبی تفصیل ہے۔
ہندستان کے سیاست دانوں اور ملک کی قیادت کرنے والوں نے شیخ الہند  کے تدبر و فراست، جرأت و ہمت اور ان کی بے لوث قیادت اور ان کے مقام و مرتبہ کو اس وقت صحیح معنوں میں پہچانا، جب ملک کے تمام بڑے اخباروں نے شیخ الہندؒ کی گرفتاری اور مالٹا جیل میں بند کیے جانے کی خبریں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کیں۔ رہ نماؤں نے حیرت و استعجاب کے ساتھ اس خبر کو سنا، کہ مدرسہ کی چٹائی پر بیٹھ کر درس دینے والے علما کی صفوں میں کیسی عظیم الشان شخصیت چھپی ہوئی تھی، جس نے ملک گیر منصوبہ بندی کر کے آزادی وطن کا ایسا خاکہ بنایا جس کو ہمارے ملک کے رہ نماؤں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
۲ / جمادی الثانی ١٣٣٨ھ مالٹا کے جیل سے رہائی ملی۔ بمبئی کے بندرگاہ میں تحریک خلافت کے قائد مولانا شوکت علی  اور مسلمانان بمبئی عظیم الشان جلوس کے ساتھ استقبال کے لیے موجود تھے، مسلمانوں کے امڈتے ہوئے سیلاب کا پر زور نعرۂ تکبیر ساحل میں گونجنے لگا۔شیخ الہند  کی مالٹا سے واپسی ہندستان کی تحریک آزادی کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ تھا، جس میں عوام کے علاوہ خواص اور علما کا ایک بڑا مجمع موجود تھا۔خلافت کانفرنس نے جلسہ عام میں جو سپاس نامہ پیش کیا، وہ شیخ الہند  کی خدمات کو خراج  عقیدت پیش کرنے کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
اسی اجلاس میں ہندستان کے اکابر علما نے متفقہ طور پر آپ کو ”شیخ الہند“ کے خطاب سے سرفراز کیا، اور آج آپ کے نام کے بجائے یہی خطاب زباں زد عام و خاص ہے، یہ اکابر کے خلوص کا کرشمہ ہے کہ بعد کی نسل نام بھول گئی اور خطاب ہی نام کا قائم مقام اور حصہ بن گیا۔
شیخ الہند  کی عمر اب ستر سال سے اوپر ہوچکی تھی، آپ یوں بھی لاغر اور جسمانی اعتبار سے نحیف تھے، لیکن مالٹا کی زندگی جسمانی اور روحانی مصائب کا مجموعہ بن کر رہ گئی، قویٰ میں اضمحلال بڑی تیزی سے آرہا تھا، ہندستان پہنچنے کے بعد صحت تیزی سے گرتی چلی جارہی تھی، ١٨ / ربیع الاول ١٣٣٩ھ کو حالت تشویش ناک ہوگئی، مرض لحظہ لحظہ بڑھتا گیا، بالآخر تصدیق قلبی کے لیے زبان کو حرکت دی، تین مرتبہ اللہ، اللہ، اللہ کہا اور ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرلیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آپ کو دہلی سے دیوبند لایا گیا اور مزارِ قاسمی میں حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے جوار میں دفن کر دیے گئے، وہ آفتابِ علم و عمل جس کی روشنی چہار دانگ عالم میں پھیلی ہوئی تھی ٣٠ نومبر ١٩٢٠ء ١٨ / ربیع الاول ١٣٣٩ھ کو غروب ہوگیا اور ہر سمت غم و اندوہ کی تاریکی چھا گئی، عقیدت مندوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا اور علمی دنیا مین صفِ ماتم بچھ گئی. 
۔md.hashimpara@gmail.com

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے