عید الفطر کا تہوار اور اس کی حقیقت

عید الفطر کا تہوار اور اس کی حقیقت

ڈاکـــٹرحســـــن رضـــــا
چیرمین،
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈریسرچ، نئی دہلی

عید الفطر تمام مسلمانوں کو مبارک ہو۔ اللہ ہمارے روزے اور دیگر نیکیوں کو قبول کرے. ہم سب کی مغفرت فرمائے اور دنیا و آخرت میں کامیاب کرے۔آمین۔ اِس وقت ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں ان میں ہماری غیب سے مدد فرمائے اور عید کی خوشی کو مستقبل کی کامیابی کا پیش خیمہ بنادے۔ ثم آمین. جہاں تک عید الفطر کے تہوار کی حقیقت کا سوال ہے ہمیں اس بات کو تازہ کرلینا چاہیے کہ مسلمان نہ عام معنی میں ایک قوم ہے، نہ عیدالفطر مسلمانوں کا قومی تہوار ہے. یہ دونوں باتیں غلط طور پر معاشرے میں پھیل گئی ہیں. اگر یہ قومی تہوار ہوتا تو بس مسلم قوم کا ایک فرد ہونا ہی عید الفطر میں شریک ہونے کے لیے کافی تھا. حالاں کہ اللہ کے رسول نے ان مسلمانوں کوجنھوں نے رمضان المبارک کی قدر نہیں کی اور اس کی برکت سے اپنے کو محروم رکھا، ان کے لیے عید کے بجاے وعید کی خبر دی ہے اور تنبیہہ کے طور پر عید گاہ میں آنے سے منع فرمایا ہے۔ اس حقیقت کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے کہ ہم ہر چیز کو قومی عینک سے دیکھتے ہیں. یہاں تک کہ اپنے دینی فریضے، نیک اعمال اور تہوار کو بھی اسی زاویے سے دیکھتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک کی اصل معنویت، قرآن اور روزے کا صحیح تعلق، شبِ قدر کا سچّا اہتمام، نزولِ قرآن اور امّتِ مسلمہ کے سنگ بنیاد کی حقیقت، پھر قیامت تک اس کی تربیت کا یہ سالانہ انتظام اور اس کے ساتھ عید الفطر تہوار کا رول ایک حد تک ہماری نگاہوں سے اوجھل رہ جاتا ہے یا اس تہوار کے ذریعے تازہ نہیں ہوتا جو عید کے تہوار کا مقصود ہے۔ اس بے شعوری کی وجہ سے ہم رسمیات کے شکار ہوگئے ہیں۔ مسلمانوں کی اصل شناخت بھی مجروح ہو گئی ہے اور کردار کی تجدید کا عمل بھی جامد ہوگیا ہے. ہم سایہ اقوام بھی مسلمانوں کے اصل مشن اور امتیازی وصف سے پوری طرح واقف نہیں ہوپاتی ہیں۔ وہ عام تہواروں کی طرح اس کو بھی ایک مسلم قوم کا رسمی تہوار سمجھتی ہیں جس میں اجتماعی طور پر کچھ مذہبی رسوم ادا کی جاتی ہیں. خصوصی پکوان، کھانے پینے اور تفریح کا ایک موقع ہوتا ہے۔جیسا کہ دنیا کی دیگر قوموں کے تہوار وں میں پایا جاتاہے۔ حالاں کہ غور کیجیے تو دوسری قوموں کے تہواروں کی طرح یہ فقط موروثی تہوار نہیں بلکہ امّت کی تعمیر اور مشن سے اس کا گہرا تعلق ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ عید الفطر کا تعلق نہ کسی عظیم شخص کی داستانِ حیات یا پیدایش سے ہے، نہ کسی ملک و قوم اور تہذیب کے عروج و زوال یافتح و شکست سے ہے اور نہ کسی خطۂ ارض میں موسمِ بہار کے آنے اور خزاں کے جانے سے ہے. سچ پوچھیے تو یہ تہوار نہ زمانی ہے نہ مکانی. حق تو یہ ہے کہ یہ تہوار نہ زمینی ہے اور نہ آسمانی۔ اقبال نے اسی بات کی طرف اشارہ کیاہے :
پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں وہ کارواں تو ہے
اس شعر کی حقیقت ماہِ رمضان اور عید کے دن اور عیاں ہو جاتی ہے. یہ تہوار معرکۂ روح و بدن میں روح کے تقاضے کو غالب اور انسانی اختیار و اقتدار کی آزادی کو ہدایت الٰہی کے تابع رکھنے میں کامیابی کا جشن ہے. اس لیے بنیادی طور پر یہ ایک روحانی تہوار ہے. چناں چہ اس کا تعلق ایک طرف قلبِ مومن، دل کے تقوی اور دوسری طرف اللہ کی رضا اور عرش الٰہی سے ہے. ایک جانب روزہ دار کے ایمان و یقین احتساب و اخلاص اور دوسری جانب خدا کی بے پایاں عفو و رحمت اور مغفرت اور نجات سے ہے۔
روزہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں اجر کے اعتبار سے خدا اور بندے کے درمیان صالح اعمال میں ایک استثنائی عمل کا نام ہے. اس کا بدلہ بھی ’’خاص‘‘ ہے، روزے کا مہینہ بھی خاص ہے، یعنی نزول قرآن کا مہینہ جس میں امّتِ مسلمہ کی تشکیل کی ابتدا ہوئی۔ دعاے خلیل سے امّت مسلمہ کے وجود کی خبر عرضی عرش الٰہی تک پہنچی اور اس کے بعد جبرئیل امین کی پیغام رسانی یعنی نزولِ قرآن کے ساتھ زمین پر اس کی سنگِ بنیاد رکھی گئی۔ یہ سارے سلسلۂ اعمال خاص مشیت الٰہی کے تحت وجود میں آئے۔ اس لیے اس کو سمجھنے کے لیے سر سری طور پر نہیں گزر جانا چاہیے. دیکھیے! اللہ کے رسول نے عید کی خوشی کی کیفیت کو کتنے واضح طور پر بیان کیاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’للصّائم فرحتان عند فطرہ و فرح عند لقاء رب ۔‘‘ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ ایک افطار کے وقت اسی لیے اس کو عید الفطر کہتے ہیں یعنی روزہ دار کے لیے اجر و خوشی کا دن اور دوسرا جب وہ قیامت کے دن اپنے رب سے ملے گا. مزید وضاحت کے لیے یہاں پر رمضان کے روزے کی برکت اور اس کے اجر و ثواب کی اور دیگر حدیثوں کو بھی تازہ کر لینا چاہیے. مثلاً اسی حدیث میں ہے کہ ’’الصوم فانہ لی وانا اجزی بہ‘‘ یعنی روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ جتنا چاہوں گا دوں گا. اب اندازہ کیجیے اس دن جس دن خدا بےحساب اجر دےگا، اس دن کیسی خوشی ہوگی۔ لہٰذا عید کے دن کی خوشی آخرت کی اسی بے انتہا خوشی کا دنیوی اور مجازی پرتَو ہے. آپ چاہیں تو عید کے دن کو آخرت کے حقیقی اجر کا بیعانہ بھی کہہ سکتے ہیں. یہ ہے عید کی حقیقی خوشی. جنت میں روزہ دار کے لیے ایک دروازہ ہے ’’باب الریان‘‘ اس باب سے جنت میں داخل ہوتے وقت رضاے الٰہی کی جو خوش بوٗ روزہ دار کو حاصل ہوگی اسی عطر بیزی سے مجازی سطح پر اس دنیا میں لطف اندوز ہونے کا نام عید الفطر کا تہوار ہے۔ لیکن اس کے پسِ پشت ابھی ایک اور حقیقت بھی قابل غور ہے. حدیث میں صرف ’’من صام رمضان‘‘ کامژدہ نہیں ہے ’’من قام رمضان ایمانا واحتساباً‘‘ پھر ’’من قام لیلۃ القدر‘‘ کی بشارت بھی ہے، لہٰذا قیامت کے دن روزہ ہی نہیں قرآن کی شفاعت بھی ایمان والوں کو نصیب ہوگی۔واضح رہے رمضان کے روزے کا ایک پہلو صبر ہے وہیں دوسرا پہلو قرآن کی نعمت پر شکر ہے۔ اس طرح رمضان کے روزے میں صبر و شکر دونوں مل کر اس عمل کو روحانیت کی معراج بنا دیتے ہیں۔ اسی لیے اس کا اجر بے حساب ہوجاتا ہے. اس پہلو سے بھی غور کیجیے تو قرآن لوح محفوظ سے رمضان المبارک میں قلبِ محمدی پر نازل ہونا شروع ہوا جو ۲۳؍برسوں میں مکمل ہوا. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امّت مسلمہ اس صحیفے کی امین ہے۔ چناں چہ اس احساسِ امانت کو امت مسلمہ ہر رمضان کے آخری عشرے کی شب قدر میں اپنے ضمیر پر دوبارہ نازل کرتی ہے تاکہ اس نعمت سے اُس کی وابستگی تازہ رہے۔ اسی قرآن کے سبب امّتِ مسلمہ کو خیرِ امّت کا لقب اور امّت وسط کا بلند مقا م عطا ہوا ہے۔ اس لیے نزول قرآن کا یہ مہینہ امّتِ مسلمہ کے منصبِ شہادت حق پر فائز ہونے کا خدائی اعلان ہے۔رمضان میں دن کا اجتماعی روزہ اور شب کا قیام اس ذمّہ داری اور بارِ امانت کو اٹھانے کی اجتماعی تیاری ہے. عید اس منصب پر کامیابی سے فائز ہونے کا جشن ہے۔ گویا رمضان المبارک میں نزول قرآن امّت مسلمہ کی تشکیل اور ’شہادت علی النّاس‘ پر اس کے فائز ہونے کا الٰہی نوٹی فکیشن ہے اور عید اس کا سیلی بریشن ہے۔ اس تصوّر نے عید کو اجتماعی سطح پر امّت کے فاؤنڈیشن کا تہوار بنا دیا ہے۔ کاش! عید کی اس حقیقت کو ہر سال تازہ کرکے ہم اپنی منصبی ذمّہ داریوں کی تجدید کرتے تو یہ تہوار ہماری اجتماعی زندگی کے سفر میں تجدید واحیاے دین کا ایک سنگ میل بن جاتا۔
آئیے ! ہم سب اس ملک میں، اس موقع پر اپنے اس کردار کی تجدید کا عہد کریں اور خدا کی اس زمین بھارت کے چپّے چپّے کو اپنے رب کے حضور سجدوں سے آباد اور توحید کے نغموں سے معمور کردیں۔ ’’کونوا قوانین بالقسط وشھداء للہ‘‘ کا پرچم لے کر کھڑے ہوجائیں۔ امن، مساوات اور انصاف سے اس وسیع و عریض ملک کی گود کو بھر دیں اور جو لوگ خاک وطن کے ہر ذرّے کو ہر روز ایک نیا دیوتا بناکر اس کی پرستش اور اس کی جَے جَے کار کرنا چاہتے ہیں اور نفرت عداوت کی بنیاد پر کامیاب ہونا چاہتے ہیں، ان سے ذرا بھی وحشت زدہ نہ ہوں۔ خدا کی قدرت کے سامنے یہ ساری چیزیں مچھر کے پر کی حیثیت بھی نہیں رکھتیں بہ شرطے کہ ہم ایمان، تقوی، صبر، وعدۂ الٰہی پر توکل رکھیں اور آخرت کی کامیابی کو حقیقی کامیابی سمجھ کر خیر اور بھلائی کے کاموں میں مصروفِ عمل رہیں۔ ’’والفعلواالخیر‘‘۔ عید کا دن خدا کی کبریائی کے بیان اور اظہار کا دن ہے۔ یہی امت کا مشن بھی ہے، آج جب کہ عید الفطر کا تہوار ہم منارہے ہیں جو امت کے سنگ بنیاد کے سیلی بریشن کا نام ہے تو ہمیں مطمئن رہنا چاہیے کہ کوئی ہمارا بال بیکا نہیں کرسکتا کیوں کہ ہم بہ حیثیتِ امّت خدا کے آخری پیغام کے امین ہیں بہ شرطے کہ ایمان، تقوی، صبر اور تکبیر کو ہم اپنا ملّی پروگرام بنالیں. یاد رہے خدا ’حی اور قیوم‘ ہے اور اس کی راہ میں کی گئی ساری کوششوں کا بدلہ دنیا و آخرت دونوں جگہ مل کر رہتا ہے جس کا قرآن نے یقین دلایا ہے۔ اسی یقین، اعتماد، تقوی اور توکل کو تہوار کی شکل میں اپنے ملّی شعور، جذبات اور احساسات میں اتارنے کا نام عید الفطر ہے. آج اس حقیقت کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے جس کو اکثر لوگ نہیں سمجھتے ہیں۔

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے