کتاب : حرف حق

کتاب : حرف حق

امتیاز سرمد
اسسٹینٹ پروفیسر
شعبۂ اردو، راجا سنگھ کالج، سیوان (بہار)
رابطہ:9891985658

شاعری کو شخصیت کا اظہار کہا جا سکتا ہے، کبھی کبھی یہ شخصیت سے گریز اور نفی کی صورت میں بھی ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن تقدیسی شاعری کا معاملہ ذرا مختلف ہے؛ یہ اندرون کی آواز ہوتی ہے۔ انسان کا اپنے رب اور اپنے رسول سے جو لگاو ہوتا ہے، وہ قلبی ہوتا ہے؛ یہاں منافقت کا گزر نہیں ہے۔ تفریحِ طبع کے لیے کوئی اس وادی کا رخ کرے تو وہ رسوا ہو کر لوٹے گا۔
حمد، نعت اور منقبت کے شاعر کے شعوری طور پر خالقِ دوجہاں، فخرِ دوجہاں ﷺ، خلفائے راشدین، اہل بیت اطہار اور اولیاے عظام سے متعلق جس طرح کے جذبات ہوتے ہیں، انھیں وہ فن پارے کی شکل میں زمانے کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ وسیع مطالعہ، دور رس نگاہیں، ذات رب العالمین اور محبوبان رب العالمین سے قلبی و روحانی لگاو شاعر کو خام مال فراہم کرتے ہیں، جنھیں عشق و عقیدت کا ایندھن دے کر فن کی بھٹی میں تپایا جاتا ہے۔ تقدیسی شاعری خیالات کی پاکیزگی اور اخلاص کا بھی تقاضا کرتی ہے۔
’حرفِ حق‘ ڈاکٹر ظفر انصاری ظفرؔ کا تازہ مجموعۂ کلام ہے۔ ان کی فکری جولانیوں کا ایک زمانہ معترف ہے۔ ان کے کئی علمی، فنی اور تخلیقی نمونے افقِ شعر و ادب پر ظاہر ہوکر قارئین اور ناقدین سے داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ یہ واقعی سعادت کی بات ہے کہ انسان اپنے رب کا امیدوارِ کرم بن جائے، اپنے نبی سے والہانہ لگاو رکھے اور دنیا کو رشد و ہدایت جیسی نعمتِ بےبہا عطا کرنے والے نفوسِ قدسیہ سے اپنی بے پناہ عقیدت کا اظہار کرے۔ دکھی دل اپنے رب سے لو لگاتا ہے اور اور غیر ارادی طور پر یوں ملتجی ہوتا ہے:
دلِ حزیں کو سکون و قرار دے مولا
عروسِ زیست کی زلفیں سنوار دے مولا
انسان ’ رب العالمین‘ سے محبت کے دعوے میں اس وقت تک جھوٹا ہے، جب تک وہ ’محبوبِ رب العالمین‘ کی ذات سے لگاو نہ پیدا کر لے۔ یہ والہانہ لگاو ’حرفِ حق‘ کی سطح پر یوں بھی ظاہر ہوتا ہے:
خاک مل جائے تری راہ گزر کی جو مجھے
جسم پر اپنے ملوں اس کو دوا کی صورت
معاملہ حمد کا ہو یا مدحتِ خیرالانام کا اس مجموعے میں اس طرح کی مثالیں کثرت سے مل جاتی ہیں۔ کتاب کے آخری حصے میں خلفاے راشدین اور اولیاے عظام کی شان میں منقبتیں شامل ہیں۔ ان میں فکری سطح پر نُدرت کا احساس تو نہیں ہوتا ہے، لیکن شاعر کے جذبات کو سمجھنے میں مدد ضرور ملتی ہے۔ ان تقدس مآب ہستیوں سے عقیدت کا برملا اظہار نہ صرف شاعر کے جذبات سے قاری کو رُوشناس کراتا ہے، بلکہ ان برگزیدہ شخصیات کے وجود سے پھوٹنے والی رشد و ہدایت کی کرن سے بھی قاری کے قلوب و اذہان کو منور کرتا ہے۔
اس مجموعے کے مرتب جناب عمیر حسامی ایک ذی علم اور روحانی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔وراثتاً ان کو روحانیت کی دولتِ بے بہا ملی ہے۔ ان کی تحریروں میں ایک خاص طرح کی سنجیدگی اور متانت ملتی ہے۔ اس مجموعے کی ترتیب میں انھوں نے جس عرق ریزی سے کام لیا ہے، وہ لائقِ ستائش ہے۔ ’نعت کی روایت اور ظفر انصاری ظفرؔ کی نعت گوئی‘ جیسے پُر مغز مضمون میں انھوں نے اپنی علمیت کے جوہر تو دکھائے ہی ہیں، ساتھ ہی ایک مرتب کی ذمّے داری سے عہدہ بر آ ہونے کی کامیاب سعی بھی کی ہے۔ دینی علوم پر دست رس رکھنے والے افراد جب شعر و ادب کی وادی میں قدم رکھتے ہیں تو عُموماً ان کی ذات سے علم و عرفان کے سوتے پھوٹتے ہیں؛ کچھ ایسی ہی امید اور ایسا ہی تیقن جناب عمیر حسامی کی ذات سے ہے۔ خدا کرے شاعر اور مرتب دونوں کی محنت رنگ لائے اور یہ مجموعۂ نعت فلاحِ دارین کا سبب بنے۔ آمین!
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :آسی غازی پوری : حیات اور شاعری از امتیاز سرمد

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے