الحاج محمود عالم کی تالیف:”ازدواجی زندگی“:ایک تاثر

الحاج محمود عالم کی تالیف:”ازدواجی زندگی“:ایک تاثر

انوارالحسن وسطوی
آشیانہ کالونی،باغ ملی،حاجی پور(بہار)844101
9430649112

الحاج محمود عالم سرزمین ویشالی(بہار) کے ایک قابلِ فخر سپوت ہیں۔ ان کاآبائی وطن موضع چھپرہ خُرد (تھانہ گرول)ہے۔ موصوف پیشے سے تاجر ہیں اورتجارت کے سلسلے سے ان کا زیادہ تر قیام سرزمین بنگال (کولکاتہ) میں رہا کرتا ہے۔ گاہے گاہے وہ اپنے آبائی موضع بھی تشریف لاتے ہیں۔ انھو ں نے اپنی اس بستی میں ایک دینی درس گاہ ”مدرسہ حسینیہ“ چھپرہ خُرد کے نام سے قائم کررکھا ہے جو اپنی معیاری دینی تعلیم کے لیے اپنی خاص شناخت رکھتا ہے۔ الحاج محمود عالم صاحب کے پاس دینی یاعصری علوم کی کوئی اعلا ڈگری نہیں ہے، لیکن اسلامیات کے تعلق سے ان کا مطالعہ وسیع ہے۔تصنیف و تالیف کے تعلق سے بھی ان کا ذوق بے حد بالیدہ ہے۔ انھو ں نے اپنی تجارتی مصروفیات کے باوجود ایک درجن کتابیں تالیف کی ہیں جن سے ان کے مطالعہ اور تحقیقی ذوق کا بہ خوبی اندازہ لگتا ہے۔ ان کی تالیفات کے نام ہیں:”حج وزیارت“،”سفرِ آخرت“،”طہارت کے مسائل“،”معراج المؤمنات“،”مسائل زکوٰۃ وعشر“، ”معراج المومنین“،”ماہِ رمضان اورہم“،”مسائل صوم و رمضان“، ”سجدہ سہوکے مسائل“،”قومی یک جہتی“، ”موجودہ حالات اورہماری ذمہ داریاں“اور”ازدواجی زندگی“۔ آخرالذکرکتاب اپنے موضوع پر نہایت جامع تالیف ہے، جس میں نکاح کی شرعی حیثیت،نکاح کی اہمیت و فضیلت، نکاح کا اسلامی تصّور،اسلام سے پہلے عربوں میں نکاح کے طریقے،رسولؐ کے نکاح کی تفصیلات، ازواج مطہرات سے کن کن تاریخوں میں عقد نکاح ہوا، نکاح صحیح اوراس کے احکام، نکاح باطل اور اس کے احکام، متعدد نکاح کی حکمتیں اور مصلحتیں، یہودی یا عیسائی عورت سے نکاح، نکاح کے متفرق مسائل اور رشتہ کرنے میں کن باتوں کا لحاظ رکھا جائے جیسے اہم مسائل پر مؤلف نے نہایت وضاحت کے ساتھ اور مدلّل گفتگو کی ہے۔ آدابِ معاشرت اورضبط ولادت کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ میاں بیوی کے حقوق اورفرائض کو بھی تفصیل سے موضوع گفتگو بنایا ہے۔ نکاح اور منگنی وغیرہ کے تعلق سے مسلمانو ں میں جو رسم و رواج قائم ہوگئے ہیں ان کی قباحت کو بھی مدلل پیش کرنے کی قابل تحسین کاوش کی گئی ہے۔ گویا مسلم سماج کی دُکھتی رگ پر انگلی رکھنے اور اس کی اصلاح کی انھوں نے بھرپور کوشش کی ہے۔ کتاب کے مطالعہ سے مؤلف کے خلوص کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ مرتّبِ کتاب نے کہیں پر کوئی بات بلا حوالہ تحریرنہیں کی ہے بلکہ ہربات کو قرآن وحدیث کے حوالہ سے یاپھر فتاویٰ کی معتبرکتابوں کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔ مزید یہ کہ حوالہ تحریر کرتے وقت کتاب کے نام کے ساتھ جلد اور صفحہ نمبرکی بھی وضاحت کردی ہے۔ اس اہتمام کے سبب کتاب کی معنویت اور معتبریت میں قابل قدر اضافہ ہوگیا ہے اورقاری کے لیے اصل کتاب سے مراجعت میں سہولت پیدا ہوگئی ہے۔ یہ کتاب کی ایک نمایاں خوبی ہے۔
”ازدواجی زندگی“ 336/صفحات پر مشتمل ہے۔ فہرست کتاب کے بعد مؤلف کتاب نے ”البلاغ“ کے عنوان سے تحریر لکھی ہے جسے کتاب کا ”پیش لفظ“ بھی کہا جاسکتا ہے۔ مؤلف کی یہ تحریر 33/صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ تحریرازدواجی زندگی کے تعلق سے ایک مکمل مقالہ ہے۔ مؤلف نے اپنی اس تحریر کا اختتام ان الفاظ پر کیا ہے:
”اس کتاب کو ترتیب دینے میں میں نے کلام پاک، احادیث و فقہی کتابوں اوربزرگوں کی تصانیف سے استفادہ کیاہے۔ اپنی دیگرکتابوں کی طرح اس میں بھی حتی المقدور کو شش کی ہے کہ کوئی بھی عنوان ذکر کرنے سے نہ رہ جائے۔ اگر رہ گیا ہو تو نشان دہی کرکے شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔ کتابُ اللہ کے سوا کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں غلطی نہ ہو۔ اگرمسائل نقل کرنے میں سہو ہوگیا ہو تواصلاح کی نیت سے خوش آمدید کہتا ہوں۔ ان شاء اللہ آئندہ اشاعت میں تصحیح ہوجائے گی۔ اس کتاب کی تکمیل کے بعد میرا دل شکر اور امتنان سے لبریز ہے کہ مجھ جیسے کم علم اور کم مایہ شخص کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق بخشی کہ میں یہ کام کرپایا، ورنہ میرے حاشیہئ خیال میں بھی نہیں تھا کہ میں یہ کام کر پاؤں گا۔“
(ص۔56)
مؤلف کتاب الحاج محمودعالم نے کتاب کے ”انتساب“ کے لیے جن الفاظ کا استعمال کیا ہے وہ بھی قابل مطالعہ، لائق توجہ اورغوروفکر کے متقاضی ہیں۔ ملاحظہ ہوں انتساب کے الفاظ:
”میں اپنی اس کاوش کو امت مسلمہ کے ان تمام بھائی بہنوں اور بیٹیوں کی نذرکرتا ہوں جنھوں نے سادگی کے ساتھ نکاح کرکے سنتِ نبویؐ کو زندہ کرنے کے لیے اپنی خواہشات اورخوشیوں کی قربانی دی، شادی کو آسان بنایا اوراُمتِ مرحومہ کو ایک بھولی ہوئی سنت کی یاد دہانی کراکے آخرت کے انعامات سے سرفرازہوئے۔“
(ص۔58)
پیش نظرکتاب کو ملک کے نامور علماے کرام اور مفتیان عظام نے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے اور مؤلف کتاب کو اپنی سند سے نوازا ہے، جس کے ثبوت ان کے وہ ”تقریظ“ کے الفاظ ہیں جنھیں شاملِ کتاب کیا گیا ہے۔تقریظی کلمات لکھنے والوں میں مولاناعبدالخالق سنبھلیؒ، مولانا محمد سفیان قاسمی، مولانا حکیم محمد عبداللہ مغیثی، مولانا سید اشہدرشیدی، مولانا مفتی سید محمد سلمان منصورپوری، مولانا مفتی سعید الرحمن فاروقی، مولانا نیازاحمد ندوی اورمولانا مفتی عبدالحئی قاسمی کے نام شامل ہیں۔ کتاب کا پیش لفظ معروف عالم دین اورنامور فقیہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے تحریر فرمایا ہے۔ حضرت موصوف نے اپنے ان قیمتی الفاظ کے ذریعہ کتاب کو معتبریت عطا کی ہے:
”محبّی فی اللہ جناب محمود عالم (کلکتہ) تجارت کی دنیا کے آدمی ہیں، لیکن ماشاء اللہ دنیا کی تجارت کے ساتھ ساتھ یہ آخرت کی نفع بخش تجارت کا بھی اعلا ذوق رکھتے ہیں اور اہم موضوعات پر معتبر کتابوں سے مسائل جمع کرتے رہتے ہیں۔ ان کی تازہ کتاب ”ازدواجی زندگی“ کو میں نے جستہ جستہ بیش تر جگہوں سے دیکھا۔ ماشاء اللہ یہ ایک بہتر خدمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لی ہے۔ جہاں بھی دیکھا، مسائل درست نظرآئے۔اس لیے کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک مفید علمی تحفہ ہے۔ ان کا تالیفی سفر حج وعمرہ کے مسائل سے شروع ہوا تھا اور ازدواجی زندگی تک پہنچا ہے۔ امید ہے کہ ان کا یہ علمی و قلمی سفر مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔“
(ص۔69)
نامورعالم دین اورامارت شرعیہ کے نائب ناظم مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے کتاب کے تعلق سے لکھی اپنی تحریر بہ عنوان ”حرفِ چند“میں لکھا ہے:
”انھوں (الحاج محمودعالم)نے سابقہ کتابوں کی طرح اس کتاب کو بھی نظرثانی کے لیے میرے پاس بھیجا، میں نے عدیم الفرصتی اور کثرت مشاغل کے باوجود اسے حرفاً حرفاً دیکھا اور اس کے مندرجات کو قرآن و احادیث کے مطابق پایا۔ جن کتابوں کو مآخذومراجع کے طورپر استعمال کیا گیاہے وہ سب کے سب مستند ہیں اور عصرحاضر میں علما، فقہا اور مفتیان کرام ان کی جزئیات اوراقتباسات سے اپنی تحریروں کو مزیّن کرتے رہے ہیں۔ آسان زبان میں یہ کتاب عام لوگوں کے لیے تو مفید ہے ہی، اساتذہ اور مفتیان کرام اوراردوفتاویٰ کے مجموعے سے مسائل و فتاویٰ دینے والے بھی اس کتاب سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔“
(ص۔84)
ازدواجی زندگی میں پیش آنے والے جن مختلف مراحل اور مسائل سے انسان کا واسطہ پڑتا ہے ان تمام حالات اور کیفیات کا احاطہ مؤلف نے اپنی کتاب کے ص۔86 سے لے کر ص۔332 تک میں بالتفصیل کیا ہے۔ ایک مختصر سی تحریر میں ان تمام باتوں کا خلاصہ پیش کرنے کی بھی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ چنانچہ یہاں صرف کتاب کے اہم عنوانات کا اشاریہ پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔کتاب کے اہم عنوانات ہیں: ”نکاح(کن عورتوں سے نکاح جائز نہیں اورکن عورتوں سے جائز ہے)“، ”ولی“، ”کفُو“، ”نسبت اور منگنی“، ”مہر“، ”نفقہ“، ”جہیزوتلک“، ”بارات“، ”وکیل“، ”گواہ اورلڑکی سے اجازت“، ”خطبہ“، ”ایجاب و قبول اور رخصتی“، ”ولیمہ“، ”آدابِ معاشرت“، ”ضبطِ ولادت“ اور ”میاں بیوی کے حقوق وفرائض“۔ ان تمام موضوعات پر مؤلف نے نہایت وضاحت اورشرح وبسط کے ساتھ تمام حقائق کو پیش کیے ہیں۔ یہ کتاب کامیاب ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب کا ایک نسخہ تمام مسلمانوں کے گھروں میں ضرورہونا چاہیے۔ ازدواجی زندگی کے تعلق سے اتنی ڈھیر ساری باتیں جاننے کے لیے کئی درجن کتابوں کا مطالعہ کرکے بھی تمام باتوں سے واقف ہونا مشکل ہے۔ جب کہ اکیلی یہ کتاب پوری ازدواجی زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ اسے پڑھ کر اور اس پر عمل کرکے ہم بہت سارے کارِ گناہ سے بچ سکتے ہیں اور اپنی دین دنیا سنوارسکتے ہیں۔ کتاب کے اختتام پر ”مآخذومراجع“ کے عنوان سے قرآن شریف کے علاوہ تمام کتابوں اور ان کے مصنف ومؤلف کے نام اور مطبع کی مکمل فہرست دی گئی ہے جو تین صفحات پر مشتمل ہے۔
کتاب ”ازدواجی زندگی“ کے تعلق سے ایک اہم بات یہ ہے کہ 334/صفحات پر مشتمل اس کتاب کی مؤلف نے کوئی قیمت نہیں رکھی ہے اور دین کی خدمت، فروغ اور اس کی اشاعت کی خاطر اسے تحفتاً تقسیم کررہے ہیں۔ مؤلف موصوف نے اس کے قبل بھی اپنی سبھی کتابیں تحفتاً ہی تقسیم کی ہیں اور کررہے ہیں۔ الحاج محمود عالم صاحب کا یہ نیک عمل نہ صرف لائق ستائش ہے بلکہ قابل تقلید بھی ہے۔ ملّت کے ہر اہل ثروت حضرات کو اس معاملے میں ان کی تقلید کرتے ہوئے دین کی خدمت اور اسلام کے فروغ و اشاعت کے کام میں اپنی حصّہ داری درج کرانی چاہیے۔ الحاج محمود عالم صاحب کی کسرنفسی کا یہ عالم ہے کہ انھوں نے اپنی کتاب پر نہ اپنا موبائل نمبر درج کیا ہے اور نہ اپنی قیام گاہ کا کوئی اتا پتا دیا ہے کہ جس کے ذریعہ ان سے رابطہ کیا جاسکے۔ البتّہ کتاب ملنے کا پتہ کتاب پر درج ہے، جو اس طرح ہے:
٭ حاجی رمضان علی چیریٹل ٹرسٹ 78،مدن موہن برمن اسٹریٹ،کولکاتہ 700007
٭ شان پبلیکیشن 12/ منساتلّہ روڈ،خضرپور،کولکاتہ۔23
دعاہے کہ اللہ تعالیٰ الحاج محمود عالم کی اس علمی ودینی کاوش کو شرفِ قبولیت بخشے اوراس کتاب کو ان کے لیے ذخیرہئ آخرت بنائے۔ آمین
٭٭٭
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : الحاج محمود عالم کی تالیف "ازدواجی زندگی" کا شان دار اجرا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے