اشتہاری شاعر

اشتہاری شاعر

 ساجدؔ جلال پوری 
موبائل: 9415581432

ہمارے اس عنوان سے آپ یہ خوف نہ کھائیں کہ ہم شاعروں کو اشتہاری مجرم کی طرح عدالت میں یا”موسٹ وانٹیڈ “ ملزم کی طرح حوالات میں کھڑا کر رہے ہیں۔ ماشاء اللہ ہمارے شعرا محترم ہیں۔ ان کے دامن پر اس قسم کے داغ کا کوئی شائبہ نہیں۔ ہاں شاعری کی الجھنوں میں ان کا دامن مثل قیس تار تار مل سکتا ہے داغ دار نہیں۔ کیوں کہ ان پر شرافت کا ٹھپہ ہے شرارت کا دھبہ نہیں۔ یہ بہت معصوم مخلوق ہیں۔ ہاں اب اگر کسی مشاعرے میں اوچھی حرکتیں کرنے والے اسٹیج پر مل جائیں تو انھیں فوراً متشاعروں کے خانے یا کسی نزدیکی تھانے میں ڈال سکتے ہیں، یہ انہی کے کارنامے ہو سکتے ہیں۔
چونکہ آج کا دور اشتہارات کا ہے، جب کوئی ساز و سامان، انسان، حیوان، مصنع (فیکٹری)،مطبع، مزرع، بغیر اشتہار کے نہیں چل سکتا تو شاعروں کا مطلع و مقطع کیسے چلے۔ ہاں کوئی عورت بغیر برقع کے چلے تو چلے۔
ایک زمانہ وہ تھا کہ عطار کو بتانا ہی نہیں پڑتا تھا کہ میں مُشک فروخت کر رہا ہوں بلکہ خود مشک مہک کر اپنے مالک کی نشان دہی کر دیتی تھی لیکن زمانہ آہستہ آہستہ بدلتے ہوئے ترقی کی معراج پر پہنچ گیا تو شعرا کی فکریں بھی سدرۃ المنتہیٰ سے گذر کر”قاب قوسین“ سے ٹکرانے لگیں تو اشتہار کی ضرورت پڑ گئی۔
موجودہ دور میں نئے نئے انقلاب آئے۔ سبز انقلاب، سرخ انقلاب، سفید انقلاب، سیاہ انقلاب وغیرہ۔ اب شعرا انقلاب لانے میں پیچھے کیوں رہیں۔ لہٰذا اشتہاری انقلاب بھی لے آئے۔ در اصل ہمارے شعرا کو خود کی شناخت کرانے کا بڑا شوق ہے اور اس کا سب سے آسان راستہ مشاعروں کا اسٹیج ہے جہاں تک رسائی بہت آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ کیوں کہ سارے ویج، نان ویج، نیرو گیج، براڈ گیج سے گزر کر ہی اسٹیج پھولوں کا سیج بنتا ہے۔ اس کے زینہ تک رسائی کے لیے خون کو پسینہ بنا کر بہانا پڑتا ہے۔
شعرا اشتہار میں اپنا نام دیکھ کر نہایت خوشی محسوس کرتے ہیں۔ بہ لفظ اختصار، اشتہار کا انتظار کسی تیوہار سے کم نہیں ہو تا۔ اسی لیے اس میں شامل ہونے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑے تو لگا سکتے ہیں۔ کسی مخالف کو راستے سے ہٹانا پڑے تو ہٹا سکتے ہیں۔ کیونکہ آگے بڑھنے کے لیے نہ صرف کچھ کرنا پڑ سکتا ہے بلکہ سیاسی لیڈروں کی طرز پر خون خرابہ بھی کر نا پڑ سکتا ہے۔ بقول راحتؔ اندوری
؎ جو لوگ بہ ظاہر قدو قامت میں بڑے ہیں
وہ لوگ زمیں پر نہیں لاشوں پر کھڑے ہیں
اس شعر سے یہ مراد نہ لیں کہ ہم پولیس کی طرح بے قصور شعرا کو قاتلوں کے حضور پیش کر رہے ہیں۔ نہیں۔ یہ قبیلہ اتنا سادہ لوح و شریف النفس ہوتا ہے کہ فقط داد و تحسین کے کلمات پر مثل طاؤس محو رقص ہوتا ہے اور ویسے بھی یہ مقتول قوم ہیں جن کو قتل کرنے کے لیے محبوبہ کی نازک ادائیں ہی کافی ہیں۔
چونکہ یہ دور نئی نئی ایجادات کا ہے لہٰذا شعرا نے بھی نئی نئی تکنیک کے اشتہارات سے خود کو منسلک کیا۔
ایک شاعر اس مزاج کے ہیں جو بہ ذات خود مغل اعظم ادب کے سامراج کے ہیں۔ انھیں خود کو اشتہار کے آئینہ میں دیکھنے کا بڑا شوق ہے کہ انھیں لوگ ”اشتہارکھوج“ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ اگر کسی مشاعرے، نشست میں ان کا نام نظر نہیں آتا تو صاحب مشاعرے کو تلاش کر اپنی شکایت درج کر اپنا نام زبردستی شامل کرواتے ہوئے کہتے ہیں کہ چاہے مجھ کو مشاعرہ میں مدعو مت کیجئے، اسٹیج پر مت بٹھائیے لیکن کم سے کم میرا نام تو شامل ہو جائے تا کہ شہر والوں کو میرے قد و قامت کا اندازہ ہو سکے کہ میں کتنا عظیم شاعر ہوں۔ انھیں اشتہار میں نام درج کروانے کی اتنی بری عادت لگ گئی ہے کہ جیسے بعض نوجوانوں کو نشہ آور ادویات کی۔ اسی لیے وہ جیب میں پرکار و مختلف اوزار لے کر گھومتے ہیں۔ اور اگر صاحب مشاعرہ انکار کرتا ہے کہ میرے یہاں آپ کی شعری آزمائش کی گنجائش نہیں ہے، محضر شعرا میں آپ کا نام درج نہیں ہو سکتا۔ اس میں کچھ خاص، منتخب،مستند، برگزیدہ، سن رسیدہ اور پاورفل شخصیات ہی مدعو ہیں تو اس وقت وہ جوش کو ہوش میں لا کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ اور پھر رات کی تنہائی یا دن کے سناٹے میں منزل مقصود پر پہنچ کر پرکار سے دائرہ بنا کر اس میں اپنا نام درج کر دیتے ہیں۔جب عوام و خواص صبح اٹھ کر اشتہار پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ کرامت دیکھ کر حیران وششد رہ جاتے ہیں۔ اور ان کی باطنی بے حیائی و ظاہری خود نمائی کے قائل ہو کر ان کی ادائے اشتہاری سے گھائل ہو جاتے ہیں۔ کبھی کبھی اشتہار میں جگہ کی کمی کی وجہ سے اپنا اسم گرامی گرم نہیں کر پاتے۔ بے چارے اب کیا کریں۔ مایوس ہو کر کہتے ہیں کتنا بخیل اور کنجوس ہے یہ شخص۔ میرا بھی خیال نہیں رکھا۔ اور جگہ بھی اتنی تنگ کہ میں اشہاری جنگ نہ کر سکوں۔ یہ کہہ کر لعن طعن کر تے ہوئے اپنا دست کرخت اشتہار پر لے جا کر احتجاج درج کرتے ہوئے اس کو پھا ڑ ڈالتے ہیں۔ عوام کے درمیان یہ خبر اکثر گردش کرتی ہے کہ شہر میں جو اشہارات پھٹے ہوئے مل رہے ہیں، قسم ہے رب اشتہار کی یہ اسی ”اشتہاری مریض“ کی یادگار ہے۔ ایک روایت کے مطابق وہ کسی زمانے میں کتابت سے وابستہ تھے اس لیے خوش نویس ہیں لیکن کمپیوٹر کی ایجاد سے بے روزگار ہو کر فن کتابت سے بیزار ہو گئے اور اپنا غصہ اتارنے کے لیے شعر و شاعری میں سرشار ہوگئے۔ کہتے ہیں اسکول کے زمانے میں لاپرواہی کے طفیل کئی بار فیل ہوئے لیکن ان کو اقلیدس میں بہت دل چسپی تھی ”ریکھا گڑت“ میں ماہر تھے بلکہ اداکارہ ”ریکھا“ کے یک طرفہ عاشق باطن و ظاہر تھے۔ اس لیے ان کو پوسٹر میں مستطیل، مثلث، مربع، دائرہ بنانے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اتنی دفعہ امتحان میں فیل ہونے کے باوجود اشتہاری امتحان میں پاس ہو گئے۔ اب اپنا نام اشتہار میں دیکھ کر خوشی کااظہار ایسے کرتے ہیں گویا حشر میں صراط سے پار ہو گئے ہوں۔ اس لیے ان کی دیرینہ خواہش رہتی ہے کہ روزانہ کہیں نہ کہیں مشاعرہ برپا ہو کیوں کہ جب مشاعرہ برپا ہوگا تو داد و تحسین سے حشر برپا کریں گے۔ ویسے اگر قیامت برپا کرنے کی اتھارٹی حضرت اسرافیل کے صور میں ہے تو قیامت سے پہلے قیامت کی ذمہ داری شاعروں کے شعور میں ہے۔ اسی لیے اکثر شعرا کو دیکھا گیا ہے کہ جب کچھ دن کوئی نشست نہیں ہوتی، قحط سالی کا موسم رہتا ہے تو بڑے بے چین ہو جاتے ہیں۔ بھاگ دوڑ، جگاڑ سے تجار، لیڈرس کو پکڑ کر ایک عدد مشاعرہ پر راضی کر لیتے ہیں۔ ایک نقاد کے بہ قول یہ سرمایہ داروں کے ذہنوں میں ادبی جراثیم اور اشتہار میں راتوں رات اپنا اسم عظیم اتنی چالاکی، خاموشی سے داخل کرتے ہیں جیسے صحت مند آدمی کے جسم میں بیماری کا وائرس۔
بعض شعرا اپنا ”وزیٹنگ کارڈ“ شائع کر کے اس پر تعلیمی لیاقت، نزاکت، منصب، مکتب، مشغولیات، مصروفیات، محب اردو، طوالت گیسو، شہنشاہ ترنم، بادشاہ تکلم، بزم سخن، شاعر گنگ و جمن، بانی انجمن، محب وطن وغیرہ جیسے فرضی و حقیقی عہدے تحریر کر اپنا پرچار کرتے ہیں۔ جن کے پاس اس قسم کا کوئی لاحقہ و سابقہ نہیں ہوتا وہ کارڈ پر صرف ”شاعر“ لکھ کر حصول مشاعرہ کی مشین سمجھ کر اپنی ذہنی تسکین کرتے ہیں۔ اور مشاعروں میں سبحان اللہ مکرر ارشاد اور اچک اچک کر داد دینے والے سامعین و منتظمین کے گلے میں بغیر مانگ کے ٹانگ دیتے ہیں۔ تاکہ اسی بہانے مدعو کرنے والے میزبان آسانی سے مل جائیں۔ یہ بھی خدمت اردو کا ایک جذبہ ہے۔
بعض شاعر اپنے غریب خانہ پر ”نیم پلیٹ“ کھانے کی پلیٹ (مینو) جملہ اسناد کی نقول، نذرانوں کی قبض وصول، عروض کا پیمانۂ فعولن فعول، مشاعروں میں پہنا ہوا مرجھایا پھول تک سجا کر رکھتے ہیں۔ بعض اپنے مکان کے صدر دروازے پر اپنی قد آدم تصویر کی اس طرح نمائش کرتے ہیں جیسے مقبول فدا حسین مرحوم اپنے گھر کے اندر مادھوری دیکشت کی ”قد حوا“ تصویر اپنے ہاتھوں سے بنا کر دیدار کرتے تھے۔
ایک شاعر کے بہ قول ان اعمال و افعال سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ان سے مشاعرے اسی طرح پھنستے ہیں جیسے ندیوں، تالابوں میں جال لگانے سے مچھلیاں۔
اشتہارات میں شعرا کی تصویریں بولتی ہیں تو ان کے خد و خال پر تنقیدیں، تمہیدیں، سماعتوں میں رس گھولتی ہیں بلکہ دخول مشاعرہ کے بہت سے راز سر بستہ بھی کھولتی  ہیں۔ گویا اشتہار شعرا کا نہ صرف قد و قامت، ضخامت، جسامت، قدامت، عشرت، عسرت، تنگ دستی، بالا دستی، بلکہ ماضی، حال، مستقبل تک بتا دیتے ہیں۔ یعنی اگر کوئی اپنے پسندیدہ شاعر کے حالات کا برسوں بعد دیدار اور مشاعروں کا اودار دیکھنا چاہے تو دیوار کو کرید کر سہارا لے سکتا ہے۔ بہ قول عزیز بانو وفا ؔ
؎ ہماری بے بسی شہروں کی دیواروں پر چپکی ہے
ہمیں ڈھونڈھے گی دنیا کل پرانے اشتہاروں میں
اب صرف دیوار ہی نہیں اخبار کے”کلاسی فائیڈ“ اشتہار میں بھی مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ جس طرح اخبار میں ہر قسم کے ذہنی، روحانی، جسمانی، آسیبی، جنسی، امراض کا علاج گارنٹی سے کرنے والے مختلف حکیم و نباض اپنا اشتہار دیتے ہیں، اسی طرح بعض شعرا کے اشتہارات ان سرخیوں سے اخبارات کی زینت بنتے ہیں کہ”کسی بھی وقت ولادت، وفات، رسم ختنہ، عقیقہ، سہرا، رخصتی، تہنیت، تعزیت کے لیے رجوع کریں۔ معقول نذرانے پر گارنٹی کے ساتھ نظمیں دستیاب ہیں“
بعض شعرا دلیل دیتے ہیں کہ جب رحمٰن و رحیم خدا کی خواہش تھی کہ میں پہچانا جاؤں۔ اس لیے جن و انس، ملک، چرند، پرند کی تخلیق کی تاکہ وہ پہچان کر عبادت کریں۔ تو کیا ”تلامیذ رحمٰن“ کو یہ حق نہیں حاصل کہ اپنی ذات کی شناخت کے لیے اشتہار کا سہارا لیں۔ اس لیے مشتہر ہونے کے لیے مختلف حربے اپناتے ہیں۔ کبھی کبھی دوسروں کے وعدے کاٹ کر خود ان کے قائم مقام بن کر مشاعرے میں قیام کرتے ہیں۔ اگر ایک وعدہ کہیں سے نبھا کر آتے ہیں تو اگلے سال کا وعدہ سلامت رکھنے کی خاطر نہ صرف خدا سے دعا مانگتے ہیں بلکہ صاحب مشاعرہ سے سال بھر خط و کتابت، مراسلات، فون سے حال حقیقت دریافت کر فرضی ہمدردیاں بھی ظاہر کرتے ہیں۔ ان کی ہر تقریب تخریب کے موقع پر ہی نہیں بلکہ مرغی، مرغا کی ولادت، وفات پر تہنیت و تعزیت پیش کرتے ہیں۔ اس میں ان کو کوئی قباحت و شرمندگی نہیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر میر تقی میر ؔ صاحب اپنے مرغا، بلی کی جنگ کو شعری قالب میں ڈھال سکتے ہیں، مرغے کی موت پر مرثیہ لکھ سکتے ہیں تو کیا جدید شعرا اپنے پیٹ کے لیے چند کلمات تعزیت ادا نہیں کر سکتے۔
چونکہ زمانہ ”ڈیجیٹل انڈیا“ (رنگین بھارت) کا ہے تو اشتہارات بھی رنگین ہو گئے۔ قدیم زمانے میں شعرا کی تحریریں، تصویریں، اخباروں، رسالوں میں بلیک اینڈ وہائٹ پر منحصر تھیں۔ اب تو شعرا، ادبا کے شعری مجموعے دیوان، کلیات، ادبی ذخیرے، کمپیوٹر کی ویب سائٹ پر منتشر ہیں۔ پیپر بک، ای بک، فیس بک، فلیکس، فیکس، ای میل، فی میل، فون، رنگ ٹون، مراسلات، مکالمات، مقالات، اسٹیکر، لاوڈ اسپیکر، شور و شر وغیرہ ان گنت ابلاغ کے ذرائع ایجاد ہو کر قارئین و سامعین و ناظرین سے با ادب با ملا حظہ ہوشیار کی فریاد کررہے ہیں۔
جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ اشتہار کے نئے طریقے رائج ہو چکے ہیں لہٰذا ”جوشیلے شاعر“ بیرون وطن مشاعروں کا اشتہار خود اپنے دست مبارک سے وطن عزیز میں چسپاں کر دیتے ہیں۔ ”شرمیلے شاعر“ یہ فریضہ اپنے عزیزوں، شاگردوں، بچوں کو سونپ کر قلبی تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ اس نہج پر چلنے پر ان کو فائدہ ہو نہ ہو کم سے کم اہل وطن تو جان لیں گے کہ ان کی شہرت وطن کی سرحدوں کو عبور کر ریاستی، ملکی، بین الاقوامی پیمانے تک پھیل چکی ہے۔ لہٰذا عزت و تکریم میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ پھرشہرت کا لبادہ اوڑھ کر سینہ کشادہ کرکے کہیں گے۔
؎ عزت ملی اسے جو وطن سے نکل گیا
وہ پھول سر چڑھا جو چمن سے نکل گیا
کبھی کبھی جب مشاعروں کا قحط پڑتا ہے اور اشتہار نظر نہیں آتا تو موسم مشاعرہ کی آمد کے لیے فیض کے شعر میں تحریف کرتے ہوئے مکرر دہراتے ہیں۔
؎ گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ شاعر کا کاروبار چلے
شعرا اتنی ہی کوشش کرتے ہیں اشتہار بازی کے لیے جتنا سیاست داں حکومت سازی کے لیے۔ ان کرامات و خرافات کے نتیجہ میں ایک اشتہار کئی کئی دفعہ شائع ہوتے ہیں۔ کبھی یہ شاعر داخل وہ شاعر خارج۔ ان عمل دخول و خروج سے شعرا کے درمیان کبھی اشتہاری جنگ شروع ہو جاتی ہے تو کبھی حاسدانہ جنگ۔ اور ان سرد جنگ کے نتیجہ میں اشتہار کئی ٹکروں میں اس طرح بٹ جاتا ہے جس طرح عہد ”گوربا چوف“ میں ”سوویت روس“ کئی ملکوں میں تقسیم ہوا تھا۔ اشتہاری جنگ میں فاتح شعرا دبنگ ہو جاتے ہیں تو شکست خوردہ تنگ آ کر داخل سرنگ۔
بعض شعرا کی اشتہا (بھوک) کا وہ عالم ہے کہ اگر ہفتہ دو ہفتہ اشتہار میں ان کا نام نظر نہ آئے تو شعری آنت ”قل ہو اللہ“ ہی نہیں پورا ”کلام اللہ“ ختم کر دیتی ہے۔
پہلے شعرا اپنی نظموں، غزلوں، گیتوں، چال چلن، مقناطیسی بدن، منفرد طرز سخن سے پہچانے جاتے تھے۔آگے چل کر اشتہار میں باتصویر بھی آنے لگے۔ اولاً جب اس بدعت کاآغاز ہوا تو بعض کم علم و سادہ لوح اسے ”تلاش گمشدہ“ کا اشتہار سمجھ کر لوگوں سے پوچھتے کہ یہ کون صاحب گم ہو گئے ہیں تو انھیں بتایا جاتا کہ یہ کھوئے نہیں بلکہ مل گئے ہیں۔ فلاں تاریخ کو فلاں مقام پر منعقد مشاعرے میں انھیں دیکھ آؤ۔
چونکہ شاعروں کا سینہ صرف کینہ ہی نہیں مختلف علوم و فتون کا خزینہ بھی ہوتا ہے۔ اس لیے یہ جس حلیہ میں آنا چاہیں آ سکتے ہیں۔ اگر”الف لیلہ“ کے جنات جذبات میں آکر خالی بوتل میں سما سکتے ہیں تو یہ فرط خوشی میں اشعار سنانے کے لیے چائے کے ہوٹل میں سما سکتے ہیں۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ ہوٹلیں شعرا کی نشست گاہیں ہیں۔ دوسرے رخ سے سوچو تو چائے خانے بھی ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔
یہ ابن الوقت ہی نہیں بنت الوقت بھی بن سکتے ہیں۔ اگر دیش کی آزادی کے لیے عدم تشدد تحریک، عدم تعاون تحریک، نمک تحریک، بھارت چھوڑو تحریک، چل رہی ہو تو یہ ادب کی آزادی کے لیے ترقی پسند تحریک، رومانی تحریک، جدید تحریک چھیڑ دیتے ہیں۔ اگر ملک کی آزادی کے بعد حکومت انسانوں سے زیادہ حیوانوں سے محبت کا اظہار کرکے گئو شالہ، پشو شالہ کا افتتاح کرے تو فوراً یُو ٹرن لے کر ”کوی شالہ“ اور ”ادب شالہ“ کی بنیاد ڈال دیتے ہیں۔
اشتہار کی وہ دوڑ لگی ہے کہ زمانہ دنگ ہے۔ ہورڈنگ کی وہ ہڑدنگ کہ شاہ راہ تنگ ہے۔ جدھر بھی نظر اٹھاؤ شعرا لٹکے ہوئے ہیں (اس لٹکنے سے دار ورسن، پھانسی نہ سمجھیں) جس کے نتیجہ میں شاہ راہوں پر اتنا انبار لگ جاتا ہے جتنا عہد خطوط نویسی میں عاشق و معشوق کے محبت نامے سے۔ اس کے لیے حکومت کو بھی نہ صرف حرکت میں آنا پڑا بلکہ ”سریع الحرکت دستہ“ تعینات کرنا پڑا۔ صفائی مہم کے منصوبے بنائے گئے۔اشتہار کی کثرت سے ایک رضا کار نے جا بجا بورڈ آویزاں کیا جس کا عنوان تھا ”اپنے شہر کی شاعراؤں کو صاف رکھیں“ اب خدا معلوم اس کا مقصد شاہ راہوں کو صاف کرنا تھا یا اسٹیج سے شاعرات کو معاف کرنا تھا۔
شاعروں کی متعدد قد آدم تصویریں دیکھ کر ایک نقاد تو یہاں تک کہنے لگے کہ اب وہ دن دور نہیں جیسے فلمی اداکار سلمان خان، شاہ رخ خان وغیرہ پیپسی، سیون اپ جیسے مشروبات اشتہار میں بیچتے نظر آتے ہیں اسی طرز پر شعرا اپنی نظموں، غزلوں، گیتوں، دیوانوں کو بیچتے نظر آئیں گے۔ پھر بازاروں، دیواروں، اخباروں میں اس انداز سے اشتہار دکھائی دے گا۔
”ادبی راجدھانی میں زور دار دھماکہ۔۔۔دہشتؔ دہلوی کے قلم سے“
”قلمی میدان میں زبردست معرکہ۔۔۔خنجرؔ پانی پتی کے نوک قلم سے“
”شعری ہونٹوں پر شاندار مسکراہٹ۔۔۔ محترمہ تبسم  صاحبہ کی دل فریب آہٹ سے“ وغیرہ
چونکہ پہلے لکھنؤ، دہلی، حیدرآباد ہی نہیں تمام دبستانوں، شہروں، قصبوں، گاؤں میں اس قسم کے بازار لگتے تھے جہاں شعرا اپنی نظمیں، غزلیں صاحبان ذوق و صاحبان عشق کو فروخت کرتے تھے۔ لگتا ہے کہ ماضی قریب میں بھی ان بازاروں میں رونق تھی جیسا کہ ساحر لدھیانوی مرحوم نے ایک بار یہ تجارت کرتے ہوئے کہا تھا
؎ میں نے جو گیت ترے پیار کی خاطر لکھے
آج ان گیتوں کو بازار میں لے آیا ہوں
مشہور و مقبول ہونے میں ذرائع ابلاغ ” میڈیا“ کا بھی بڑا ہاتھ ہے. یہ جس کو چاہیں وزیر اعظم تک بنا سکتے ہیں۔ اس لیے جس کا ان پر قبضہ ہو جائے وہ شاعر اپنے کو خوش نصیب ہی نہیں اردو کا خطیب و نقیب سمجھے۔ کہتے ہیں قدیم زمانے میں بعض شعرا کے کلام کو طوائفوں نے اتنا مقبول کیا کہ زمین سے اٹھا کر آسمان پر بٹھا دیا۔ آخر یہ طبقہ بھی تو ایک زمانے میں شعرا و شرفا کا میڈیا تھا۔
جس طرح شیر شکار کے بغیر، مسلمان گوشت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ویسے شعرا کا بغیر اشتہار زندہ رہنا دشوار ہے۔ جو شاعر جتنا بڑا بننا چاہتا ہے اتنی ہی بڑی تصویر کے ساتھ نظر آنا چاہتا ہے۔ قدآدم اشتہار کے بے شمار فوائد ہیں۔ شاعروں کے پر کشش، حسین و جمیل چہروں کو دیکھ کر ان کا ہمسر بننے والی خواتین کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔یہی نہیں آگے چل کر ان پر مختلف کمپنیوں سے اشتہارات کی برسات ہونے لگتی ہے۔ فلمی دنیا سے نغمہ نگاری، اداکاری و ہدایت کاری کے آفر بھی ملنے لگتے ہیں اور پھر تیزی سے کامیابی کی منزلیں طے کرتے ہوئے نہ صرف آگے نکل جاتے ہیں بلکہ بہت سے شاعروں، مشاعروں کو نگل جاتے ہیں اور پھر مقبولیت کا وہ عالم کہ آئے دن اخبارات، اشتہارات، نیوز چینل والے”انٹر ویو“ کے لیے دروازے پر دستک دیتے ہیں اور ان سے مشتہر ہونے کی عظیم کامیابی کا راز، مقبولیت کا ”شارٹ کٹ“ پوچھتے ہیں تو یہ اپنا رعب و دبدبہ نہیں دکھاتے بلکہ نصیحت کے انداز میں ”اپنے اشتہارات کی طرف نہایت سادگی سے اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں“
؎ انہیں راستوں سے ہو کر اگر ہو سکے تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

کچھ انشائیہ نگار کے بارے میں :

نام: عزادار حسین ساجد
قلمی نام : ساجد جلال پوری
ولادت: ١٤ جون ١٩٧٩
والد کا نام : تنویر حسین (مرحوم)
پتہ: محلہ جعفر آباد، پوسٹ و تحصیل جلال پور، ضلع امبیڈکر نگر، اترپردیش پردیش، پن : ٢٢٤١٤٩
رابطہ: 7571867185
برقی پتہ: royalinternetpoint@gmail.com
ملازمت: اسسٹنٹ ٹیچر، گورنمنٹ جونئیر ہائی اسکول، جلال پور (2008) سے
تصنیف:‌ رنگ رنگ کے شاعر ( انشائیوں‌کا مجموعہ) اشاعت 2020
زیر ترتیب : شعری و نعتیہ مجموعے
ادبی مشاغل : کتب بینی، شعرو شاعری، نثر نگاری
ادبی سلسلے کا آغاز: 1997 سے
رسایل، جراید اور اخبارات جن میں‌تخلیقات شائع ہوئیں‌:‌ ماہ نامہ ایوان اردو دہلی، ماہ نامہ شگوفہ حیدر آباد، ماہ نامہ تریاق ممبئی، ماہ نامہ اصلاح لکھنؤ، روزنامہ انقلاب لکھنؤ، روزنامہ منصف حیدر آباد، روزنامہ صحافت لکھنؤ، روزنامہ اودھ نامہ لکھنؤ، ماہ نامہ مدینۃ العلوم لکھنؤ، نیا نظریہ اجین، سہ ماہی انتساب، ماہ نامہ پیش رفت دہلی، شاعر ممبئی، ادبی نشیمن لکھنؤ، آجکل دہلی، خوشبو کا سفر حیدر آباد، ادبی محاذ کٹک اڑیسہ، انشا کلکتہ،
نایب مدیر:‌ رسالہ تجلیات سجاد جلا پور (چودہ سو سالہ نمبر)
مشاہیر جنھوں‌نے تخلیقات کو سراہا:‌ پروفیسر شارب ردولوی، پروفیسر علی احمد فاطمی، پروفیسر عباس رضا نیر جلال پوری 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے