’نیا حمام‘ کی کہانیاں

’نیا حمام‘ کی کہانیاں

ساجد جلال پوری

’نیا حمام‘ نوجوان افسانہ نگار ذاکر فیضی کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے۔ ذاکر فیضی کا تقریباََ تیس سالوں سے قرطاس و قلم سے رشتہ رہا ہے۔ اس دوران مختلف رسائل و جرائد میں ان کی کہانیاں شائع ہوتی رہی ہیں۔ اُن کی کہانیاں ریڈیو سے بھی نشر ہوتی رہی ہیں۔ ذاکر فیضی نے اپنے افسانوں میں سماج، معاشرہ اور مُلک کے مسائل، میڈیا کی کارستانی، نوجوان نسل کی تن آسانی، اولاد کی نافرمانی، غرض کہ جو کُچھ انھوں نے دیکھا، محسوس کیا، اسے کہانی کے روپ میں پیش کر نے کی کوشش کی ہے۔
کتاب کا آغاز پروفیسر عباس رضا نیّر کی نظم ’خواب کو موت آتی نہیں‘ سے کیا گیا ہے۔ کیوں کہ افسانہ نگار نے جو بھی خواب دیکھے ہیں، اسے لفظوں سے تعبیر و تعمیر کرکے افسانوں کی شکل دی ہے۔
اس کتاب میں کُل پچیس افسانے اور پانچ افسانچے شامل ہیں۔ جن میں نیا حمام، ٹوٹے گملے کا پودا، فنکار، ٹی او ڈی، وائرس، اسٹوری میں دم نہیں ہے، ایک جھوٹی کہانی، ہریا کی حیرانیاں، میں آدمی وہ انسان، اتفاق، میرا کمرہ، جنگ جاری ہے، ہم دھرتی پر بوجھ ہیں، عجوبے کا عجائب گھر، گیتا اور قرآن، آدی مانو، مُردوں کی الف لیلہ، کوڑا گھر، ورثے میں ملی بارود، ہٹ بے، کلائمکس، اخبار کی اولاد، بدری، لرزتی کھڑکی، دعوتِ نون ویج کے علاوہ افسانچے جھٹکے کا گوشت، اکیسویں صدی کی داستان، دلہن، انسان کی موت اور کپڑوں میں پیشاب کرنے والے شامل ہیں۔
اس کتاب کا پہلا افسانہ ’نیا حمام‘ جو صرف مُجھ جیسے قاری اور مصنف کی نگاہ میں بہترین افسانہ ہے۔ شاید اسی لیے کتاب کا نام ’نیاحمام‘ رکھا گیا ہے۔ اس کہانی میں آج کے الیکٹرانک میڈیا کی حرکتوں، سازشوں سے پردہ اٹھا نے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے کہ آج کے صحافی، میڈیا مالکان، چینل کی ٹی آر پی بڑھانے کے لیے کس طرح نئے نئے منصوبے بناتے ہیں۔ اب تو خبریں حادثات سے نہیں بنتیں بلکہ حادثے کر کے بنائی جاتی ہیں اور بیچی جاتی ہیں۔ ان میں میڈیا کا سارا عملہ، حکومت کے اراکین، سفید پوش قائدین، شہر کے عمائدین سب شامل ہیں۔ گویا اس حمام میں سب کے سب ننگے ہیں۔ کسی کے جسم پر شرم و حیا کا پیراہن نہیں ہے۔ ذاکر فیضی نے اس افسانے میں اسی نئے حمام کا انکشاف کیاہے۔
دوسرا افسانہ ’ٹوٹے گملے کا پودا‘ ہے۔ جس میں مادیت پرستی، بدلتی قدریں، ختم ہوتے رشتے، مسلم معاشرے کی حالتِ زار کا نقشہ بہت ہی عمدہ انداز میں کھینچا گیا ہے۔ اس کہانی میں حنا نام کی لڑکی مرکزی کردار میں ہے، جس کے دادا زمین داری کے خاتمے کے بعد گاؤں کی پُشتینی حویلی چھوڑ کر شہر میں آبسے تھے۔ پھر وہ ایک طوائف کے عشق میں گرفتار ہو گئے تو سارا اثاثہ ختم ہو گیا۔ اُن کے انتقال کے بعد بیٹوں کے حصّے میں جو بچا کھچا مکان ملا، بعد میں اسے بھی فروخت کرنے کی نوبت آگئی۔ اس پر بھی حنا کی پھوپھی جھوٹی شان دکھاتے ہوئے کہہ رہی تھیں:
”ارے جس زمانے میں کسی کے پاس سائیکل ہونا فخر کی بات ہوتی تھی اس زمانے میں تیرے دادا کے
پاس گاڑی تھی۔ درجنوں تو مُلازم تھے۔“
حنا کو ایسی باتوں سے سخت نفرت تھی۔ کیوں کہ وہ تو ٹوٹے گملے کا ایک ایسا معصوم پودا تھی کہ جس کا وجود ہی جیسے نہ تھا اور باغ تو جانے کب کا اُجڑ چکا تھا۔
آج کل اس مصروفیت و صارفیت کے ظالم ماحول میں کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔ ہر انسان، ہر طبقہ اس قدر مصروف ہے کہ کسی کو اپنے بچّوں کے پاس بیٹھنے کا بھی وقت نہیں ہے۔ کہانی ’اتفاق‘ نام نہاد مصروف طبقے کی داستان ہے۔ جس کا اختتام نہایت دردناک اندازمیں ٹرین میں بچّے کی موت پر ہوتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ آپ زندگی میں اتنے مصروف ہوجائیں گے تو اس کا فائدہ ڈرائیور اور اسی قبیل کے دوسرے لوگ اٹھانے لگیں گے اور اس کا نتیجہ کسی حادثے کی شکل میں سامنے آئے گا اور پھر زندگی میں شرمندگی و پشیمانی ہی اٹھانی پڑے گی۔
ایک ایک کہانی بڑی محنت سے خونِ جگر صرف کر کے تیس سالوں کی محنت میں تحریر کی گئی ہے۔ اگر اس کتاب کی اشاعت میں مزید تاخیر ہوتی تو خطرہ ذاکر فیضی کی عزّت و آبرو پر آجانا تھا۔ اُن کی شریکِ حیات انھیں ”فرضی رائٹر“ گھوشت کر دیتیں۔ بہرحال اللہ نے ان کی عزّت محفوظ رکھی۔
اس مجموعے کی ایک ایک کہانی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ زبان عام فہم اور سلیس ہے۔ کہیں بھی بوریت کا احساس نہیں ہوتا۔ لفظوں، جُملوں کا تانا بانا ایسا ہے کہ کہانی قارئین کے دل و دماغ پر تا دیر اثر چھوڑتی ہے۔ یہ کتاب ان شااللہ ذاکر فیضی کے اردو ادب میں ادبی مقام کی راہ ہموار کرے گی۔ میں نے اس کتاب کا مطالعہ دو بار کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ’نیاحمام‘ نہایت دل چسپ اور فکر انگیز کتاب ہے۔

آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :ڈا کٹر ذاکر فیضی نئی نسل کا افسانہ نگار

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے