عبـ۔ــــــــــــــــــدالرحمٰن
نئی دہلی
(سابق چیف منیجر، الہ آباد بینک)
rahman20645@gmail.com
9650539878
لڑکپن کا زمانہ بچپن کے زمانے جیسا ہی نہیں، بلکہ زیادہ دل چسپ ہوتا ہے۔ ایک بچہ کی حیثیت میں جو چھوٹی بڑی باتیں اور واقعات خاموشی کے ساتھ سن کر اور دیکھ کر ذہن نشین ہوتے رہتے ہیں، لڑکپن میں نئی نئی جہتوں کے ساتھ ان کا اظہار ایک دریافت (discovery) کی شکل میں ہوتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی کی اپنی دریافت ہمیشہ ہی بے انتہا خوشی کا سبب بنتی ہے، اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب یہ مقولہ کہ اسکائی از دی لمٹ (sky is the limit) ایک مقولہ کی حیثیت سے جانے بغیر بھی سچ ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔
ماشاءاللہ، میرا لڑکپن بھی گونا گوں خوبیوں سے لبریز رہا ہے۔ مجھے اپنے لڑکپن کا ایک بہت ہی سبق آموز تجربہ یاد آتا ہے، جو کچھ اس طرح سے ہے:
یہ تقریباً 50 سال پہلے کا واقعہ ہے، جب کہ میری عمر دس سال سے زائد ہوچکی تھی۔
ریاست اترپردیش کے ضلع مرادآباد میں ایک جگہ سے میرا گزر ہوا جہاں سڑک کے کنارے ایک پیڑ کے سائے میں ایک بزرگ بیٹھے سستا رہے تھے۔ وہ اپنے کھیت پر جانے کا ارادہ رکھتے تھے، ان کے پاس ایک لوہے کی بڑی ترازو اور باٹ۔ بٹا وغیرہ سامان تھا۔ قریب دیکھ کر اُنھوں نے مجھے پکارا۔
میں نے ترازو ان کے سر پر رکھنے میں ان کی مدد کی۔ دریں اثنا، میری نظر ترازو میں باٹوں کے نیچے رکھی ایک چادر پر پڑی۔ میں نے فوراً ترازو ان کے سر سے اُتار لی اور ترازو میں موجود چادر کو تہ کر کے پہلے ان کے سر پر رکھا اور پھر ترازو کے پلہ کو۔ سر اور لوہے کے پلہ کے درمیان تہ کی ہوئی چادر کے آجانے سے ان کو ایسا لگا جیسے سر پر کوئی بوجھ ہی نہیں ہے، کیوں کہ ابھی تک وہ چادر کو ترازو میں رکھ کر ہی لا رہے تھے۔ اس نئے تجربہ سے وہ اتنے زیادہ خوش ہوئے، گویا کہ کوئی بڑا خزانہ ان کے ہاتھ لگ گیا ہے۔
کوئی بھی نئی ایجاد (invention) یا دریافت (discovery) انسان کو ایسی ہی بڑی خوشی دیتی ہے کہ یقین نہ آئے! معروف سائنس داں ارشمیدس (Archimedes) کی یوریکا (eureka) والی مشہور زمانہ کہانی سے، ان لوگوں میں سے جو کبھی اسکول گئے ہیں، کون واقف نہیں ہو گا؟
مذکورہ بزرگ نے تشکر بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور یوں گویا ہوئے ’عقل ہی بڑی ہے، بھینس کا کچھ بڑا نہیں!’
’عقل بڑی یا بھینس؟‘ فقرہ پر یہ بہترین تبصرہ تھا۔ مزید، یہ واقعہ میرے لیے بھی اس بات کی عملی تصدیق بن گیا کہ بھینس کے مقابلے میں عقل ہی بڑی ہوتی ہے اور مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے یہ حقیقت، گویا کہ میری ہی کوئی دریافت ہے۔
مذکورہ حقیقت کی تصدیق خود خالق کائنات نے کردی ہے کہ کائنات کو انسان کے لیے مسخر کر دیا گیا ہے (سورہ ابراھیم: 33 )۔ خود انسان کے بارے میں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ انسان کو اس نے اپنی عبادت یا دوسرے الفاظ میں، اپنی معرفت کے لیے پیدا کیا ہے( سورة الذارات: 56)۔
مندرجہ بالا قرآنی بیانات کی روشنی میں انسان کو مخاطب کرتے ہوئے کسی شاعر نے کہا ہے:
سب جہاں تیرے لیے اور تو خدا کے واسطے
کائنات کو انسان کے لیے مسخر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہر چیز کو قوانین فطرت (Laws of nature) سے وابستہ کر دیا ہے تاکہ انسان اپنی علمی تگ و دو سے ان کائناتی قوانین کو دریافت کر سکے، قوانین کے عملی نتائج کے طور پر اپنی تہذیب و تمدن کو عروج و فراز سے ہم کنار کرسکے اور اس طرح خوش گوار زندگی حاصل کرکے، اپنے رب کا شکر، جیسا کہ اس کا حق ہے، ادا کر سکے۔ اللہ تعالی اپنے شکر گزار بندوں سے بہت خوش ہوتا ہے۔ شکر گزار اور پاک صاف ایمان والوں کے لیے ہی پاکیزہ اور بے مثال جنت کی خوش خبری دی گئی ہے!
علم کے بغیر نہ تو’رب کون و مکان‘ کی معرفت ممکن ہے اور نہ ہی دنیاوی ترقی۔ اسی سچائی کے پیش نظر، اللہ تعالی نے خود ہی انسانوں کو علم حاصل کرنے کی تاکید کی ہے( سورة العلق:1)
اللہ تعالی کی یہ مزید خصوصی مہربانی ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو کائنات میں بکھری پڑی ربانی نشانیوں پر غور و فکر کرنے کی رغبت دلائی، تاکہ وہ اپنے رب کی معرفت حاصل کرسکیں اور اپنی دنیاوی زندگی کو بھی بامعنی اور شاندار بنا سکیں(سورة الجاثیة: 2-6 )۔
مشہور سائنس داں سر آئزک نیوٹن(Sir Issac Newton) کو جب غور و فکر کی توفیق ملی، تو پیڑ سے سیب کے گرنے کے ایک عام مشاہدہ نے اس کو نہ صرف کرہ ارض کی قوت کشش( Gravity) کے قانون کو دریافت کرنے میں مدد کی، بلکہ یہ جاننے کے راستے بھی ہموار کیے کہ کائنات کی وسیع خلا میں بے شمار سیاروں، ستاروں یہاں تک کہ کہکشاﺅں کے مابین لا آف گریویٹیشنل فورسز (Law of Gravitational Forces) کس طرح کام کرتا ہے۔
نیوٹن کے بنیادی کام سے بہت سے دوسرے سائنس دانوں کو بہت تقویت حاصل ہوئی اور آج سائنس داں ایک سے بڑھ کر ایک کائناتی عجائبات دریافت کرتے ہوئے مختلف منازل طے کررہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ’غور و فکر‘ کیا کمال کی چیز ہے اور انسان کو کہاں سے کہاں لے جا سکتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس طرح کے کمالات مخلص اور سنجیدہ لوگوں کا ہی نصیب ہوتے ہیں۔
موجودہ مسلم معاشرے میں غور و فکر کے فقدان نے ہی مسلمانوں کو کیسی کیسی پستی سے دوچار کیا ہے؟
یقیناً بھینس (بالفاظ دیگر، علمی پستی) کے مقابلے میں عقل ( بالفاظ دیگر، علمی فرازی) بڑی ہوتی ہے۔ ایک بار علمی فرازی سے محروم ہوجانے کے بعد اس مسئلہ پر غور کرنا ہر صاحب عقل و شعور کی بنیادی ذمہ داری ہو جاتی ہے کہ اب کیا کیا جانا چاہیے؟
صاحبِ بصیرت انسانوں کا ماننا ہے کہ تباہ و برباد ہوجانے کی صورت میں، سب سے پہلے سرزد ہوئیں اپنی کوتاہیوں کی نشان دہی کی جائے اور پھر غلطی کرنے کا اعلانیہ اعتراف کیا جائے کہ میں نے یا ہم نے غلطی کی:
I was or we were wrong.
اخلاص اور سنجیدگی کے ساتھ غلطیوں کا اعتراف کرنے کے بعد، کام کو پھر سے ’الف‘ سے شروع کیا جاسکتا ہے۔ الف سے شروع کرنے کے ضمن میں مسلمانوں کا موجودہ گروہ جو کچھ بہت اچھا کرسکتا ہے وہ یہ ہے کہ پیدا شدہ صورت حال (status quo ) کو مزید بگڑنے نہ دیا جائے، اور سب مل کر نئی نسل کی تعمیر کا کام پورے اخلاص اور ذمہ داری سے کریں۔ اس راستے میں، عقل و شعور کے ساتھ وقت اور سرمایہ کا بہترین استعمال کیا جائے اور بخل سے کام نہ لیا جائے۔
نئی نسل کی تعمیر کے سلسلے میں، چھوٹے بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت کو یقینی بنانا بنیادی کام ہے۔ یہاں بچوں کی جامع پرورش کے متعلق آج کی علمی دریافتوں کے تناظر میں، کچھ منفرد پہلوؤں پر روشنی ڈالنا موزوں رہے گا۔ زندگی کے شروعاتی چند سالوں (سات سال تک) میں ہی بچہ کے اندر گھر کی تہذیب و ثقافت، خاندانی رسم و رواج، معاشرتی اطوار، اخلاقی اقدار اور علمی افکار کی نشو و نما والدین کی زیر تربیت گھر میں ہی ہوتی رہنی چاہیے۔
ہمارے بچپن کے زمانے میں بچے عام طور پر چار یا پانچ سال کی عمر میں اسکول جانا شروع کرتے تھے اور درجہ اول سے پڑھائی شروع ہوتی تھی۔ نرسری، ایل کے جی، یوکے جی جیسی کوئی چیز اس وقت موجود نہ تھی۔ آج کل بھی، ان ساری اصطلاحات کے عمل میں آنے کے باوجود ماہر نفسیات کو بچوں کی نشو و نما کے لیے پرانا طریقہ ہی صحیح محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے، دو سال کی عمر میں بچہ کو اسکول بھیج دینا مناسب نہیں۔ یہ طریقہ بچوں کے ذہنی ارتقا کا ذریعہ تو نہیں بن پاتا، نقصان کا باعث ضرور ہو جاتاہے۔
معاشرہ میں شائع و ذائع کہاوتیں، محاورے اور تمام دوسرے قصے کہانیاں چھوٹے بچوں کو بچپن میں ہی ان کے والدین، بڑے بہن بھائی، دادی دادا اور عزیز اقارب کے عملی توسط سے منتقل ہوتی رہنی چاہئیں۔ مادری زبان اور اس کی نزاکتوں کا تعارف سنجیدگی سے ہونا چاہیے، کیوں کہ مادری زبان کے ذریعے بچہ کے سیکھنے کی رفتار بہت بڑھ جاتی ہے۔ مذہب اور اس سے متعلق متفرق علمی و عملی معلومات بھی بچہ کو اپنے ماں باپ اور متعلقین کے قول و فعل سے ہی اسکول جانے کے دنوں سے پہلے پہلے حاصل ہوجانی چاہئیں۔ گویا کہ، زندگی کا ایسا کوئی بھی شعبہ باقی نہیں رہنا چاہیے جو بچے نے اپنے گھر میں سنا یا دیکھا نہ ہو۔ گھر اور والدین سے حاصل کردہ معلومات براہ راست (first hand) کا درجہ رکھتی ہیں، اور اس درجہ کا کوئی بدل نہیں۔
میرے ہم عمر لوگوں کے اپنے بچے، عموماً نوجوانی کے بعد کے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں، اس لیے ہمارے خود کے لیے نصیحت کی زیادہ بات کرنا بے موقع ہو سکتا ہے، مگر ہماری کوتاہیوں سے سبق ضرور لیا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی، ہمارے بچوں کے لیے پورا موقع ہے کہ وہ اپنے بچوں کی پرورش کے متعلق ہوش مند رہیں اور اس ضمن میں علمائے سماجیات اور ماہر نفسیات کی تحقیق و دریافت کو نظر انداز نہ کریں۔
اسکول جانے پر کتابوں اور اساتذہ کے توسط سے اخذ کیے گئے حقائق کا بچہ اپنی کم سنی کے زمانے میں’سمع و بصر‘ (سننے اور دیکھنے) کے عمل کے ذریعے سیکھے گئے علوم سے موازنہ کرنا شروع کر دیتا ہے، جس کی وجہ سے اس کے اندر حقائق سے واقفیت کا تجسس بڑھنے لگتا ہے اور نتیجتاً، اس کے اندر سوال پیدا ہونے لگتے ہیں۔ اس طرح بچہ بہت جلد اپنے اساتذہ سے سوال پوچھ کر نہ صرف اپنے علم کو مستحکم کرتا ہے، بلکہ اساتذہ کو بھی سیکھتے رہنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
بچوں کے سوالات سے وہی اساتذہ خوش ہوتے ہیں جو نہ صرف پڑھانے میں، بلکہ خود پڑھنے میں بھی دل چسپی رکھتے ہیں۔ بچوں کے لیے وہ استاد بہت مضر ہوتے ہیں جو اپنی بات ہی ان سے منوانا چاہتے ہیں۔ تاریخ میں ایسے بڑے لوگ بھی ہوئے ہیں جنھیں اپنے بچپن میں سوال پوچھنے کی وجہ سے ہی اسکول سے نکال دیا گیا تھا۔
چھوٹے بچے جب بولنا شروع کرتے ہیں، اس وقت ان کے اندر سوال ہی سوال ہوتے ہیں۔ بچوں کا ٹیچر صرف انھی لوگوں کو بننا چاہیے جو بچوں کی نفسیاتی نزاکتوں کا احترام کرسکے۔
بچے اگر اساتذہ سے سیکھتے ہیں، تو یقیناً، اساتذہ کو سکھانے کے لیے بھی، بچوں کے پاس بہت کچھ ہوتا ہے۔
فطری طور پر سبھی انسانوں کے پاس کوئی نہ کوئی استثنائی خوبی ضرور ہوتی ہے۔ انسانی کارخانہ کو خوب صورتی سے منظم کرنے کے لیے، اللہ تعالی نے بعض کو بعض پر فوقیت دی ہے۔( سورة النساء:34)
اگر سبھی انسان ہر کسی چھوٹے بڑے سے کچھ نہ کچھ سیکھتے رہنے کا عزم کرلیں تو کسی بھی قوم یا معاشرہ کو علمی ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا، اور فی الحال، ہمارے معاشرہ کی جو درد ناک صورتِ حال ہے اس میں یقینا اصلاح کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالی کے نقشہ امتحان کے تحت، ہر ملک و ملت میں کوئی نہ کوئی، ایک یا زیادہ عالم و دانشور ہمیشہ ہی اس حیثیت میں موجود ہوتے ہیں کہ وہ اپنی قوم کے خاص و عام کو علمی و فکری رہ نمائی فراہم کرسکیں۔ مقام بدنصیبی مگر یہ ہے کہ بیش تر لوگ نہ صرف استفادہ سے محروم رہتے ہیں، بلکہ ان علمی شخصیات کے تعلق سے بھی بغض و کینہ اور حسد جیسی مہلک برائیوں میں خود کو مبتلا کر لیتے ہیں۔ علمی تنقید کی لیاقت نہ ہونے پر بھی تحریری یا تقریری تنقید ضرور کرتے ہیں، پھر چاہے وہ تنقیص ہی کیوں نہ ہو۔ بہ قول علامہ اقبال:
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں.
***
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش:استحصال نہیں، بلکہ لیاقت کا اعتراف

عقل بڑی کہ بھینس؟
شیئر کیجیے