استحصال نہیں، بلکہ لیاقت کا اعتراف

استحصال نہیں، بلکہ لیاقت کا اعتراف

عبــــــــــــــد الرحمٰن
نئی دہلی
( سابق چیف منیجر، الہ آباد بینک )
9650539878
rahman20645@gmail.com

جب باس (Boss) آپ کی لیاقت اور استطاعت کے تناظر میں آپ کو بڑے بڑے پروجیکٹ ( Project) اور مشکل اسائنمنٹ (assignment) تفویض (allot) کرتا ہے، تو بہت سارے لوگ آپ کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ کا باس آپ کا استحصال (exploitation) کر رہاہے۔ "باس آپ کا استحصال کر رہاہے" ایک ایسا جملہ ہے جو اچھے اچھوں کو مضمحل کردیتا ہے۔ دفاتر میں رائج مذکورہ الفاظ پر اگر توجہ مرکوز کردی جائے، تو ترقی کی راہ میں بڑھتے ہوئے قدموں کے ڈھیلے پڑنے کا اندیشہ پیدا ہوسکتا ہے، کیونکہ یہاں ظالم و مظلوم کی نفسیات (psychology) حرکت میں آجاتی ہے۔ صرف اور صرف مثبت سوچ (positive thinking) ہی اس مسئلہ (problem) کا ازالہ کر سکتی ہے۔ مثبت سوچ کے بغیر مذکورہ نفسیات ہلاکت خیز ہو سکتی ہے۔ آج کے کارپوریٹ ورلڈ (corporate world ) کا جہاں تک تعلق ہے، لائق و فائق ملازمین تو خود بھی اپنی کمپنی کا استحصال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بڑی آسانی سے ایک کمپنی چھوڑ کر دوسری جوائن۔ (join ) کر تے رہتے ہیں۔
ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے ( قرآن: سورة الروم، آیت 30) ۔ انسان کی فطرت میں جو اوصاف رکھ دیے گئے ہیں، ان ہی میں شامل ہیں ــــ اپنی شناخت (identity) کا داعیہ، مسابقت (competition) کا داعیہ اور غلبہ (dominance) و برتری (supremacy) کی جبلت۔ اسی کے ساتھ انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی بھی دی گئی ہے۔ صرف "تقویٰ" ہی جبلت اور تمام داعیات کو حدود میں رکھنے کا ذریعہ ہوسکتا ہے، مگر آزمائش کی غرض سے دنیا میں انسان کے ساتھ، اس کو بے راہ کرنے کے لیے کوشاں، شیطان بھی موجود رہتا ہے۔ اسی تناظر میں، انسان اکثر اوقات اپنی آزادی کے حق کا غلط استعمال کرتا رہتا ہے۔ نتیجتاً، بد اخلاقی، لڑائی جھگڑے، حق تلفی، ظلم و زیادتی اور استحصال جیسی منفی کیفیات کا معاشرہ میں موجود رہنا ناگزیر ہوجاتاہے۔ احتجاج اور شکایات مذکورہ برائیوں کا حل نہیں۔ شکایتوں کو چیلنج (challenge) کے طور پر قبول کرنے سے ہی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
دو لوگوں نے کھڑکی کے باہر جھانک کر دیکھا، ایک کو گلی میں کیچڑ نظر آئی، جب کہ دوسرے کو آسمان میں ستارے!
انسانی نظر کے اس فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے، اگر استحصال کا حوالہ دینے والے شخص سے دریافت کیا جائے کہ وہ خود کس طرح استحصال کا شکار ہونے سے محفوظ رہتا ہے، تو اس سوال کا جواب یقیناً بہت دل چسپ ہوگا۔
اس ضمن میں، جو دریافت (discovery ) متوقع ہے وہ یہ ہے کہ ایسا ایک شخص اکثر اوقات، زیادہ اور مشکل کام کرنا تو بہت دور، وہ اپنے حصہ کا کام بھی بہ خوبی کرتا ہوا نہیں پایا جائےگا۔ اس طرح واضح ہوجائےگا کہ ایسے کسی شخص کا اپنا استحصال نہیں، بلکہ اس کے برعکس، وہ خود اپنے دفتر کی آسائش و سہولیات کا استحصال کرتا ہوا نظر آئےگا۔
در اصل، استحصال جیسے الفاظ کم زور لوگوں کی ایجاد ہیں، کیونکہ اللہ تعالی نے کائنات کو اس طرح تخلیق کیا ہے کہ یہاں ہر "مشکل کے ساتھ آسانی" رکھ دی گئی ہے۔ ( قرآن: سورة الشرح، آیات 5 اور 6)
عقل مندی یہ ہے کہ مشکلوں میں چھپی ہوئی آسانیوں یا دوسرے الفاظ میں، مواقع (opportunities ) کی نشان دہی کرکے ان کو استعمال کیا جائے۔
ایک سچائی یہ بھی ہے کہ مختلف اداروں اور دفاتر کے سربراہان کو، جن پر ملازمین کے استحصال کا الزام عائد کیا جاتاہے، مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں، بلکہ ان کے افعال کو قابل تحسین سمجھا جائے۔ ان کے عمل کو استحصال کی نظر سے نہیں، بلکہ کارکن کی اہلیت و لیاقت کے اعتراف کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
لیاقت اور استطاعت کے مطابق کام کا تفویض کیا جانا، نہ صرف ادارہ کے لیے مفید، بلکہ کارکن کے حق میں بھی احسان اور خیر خواہی کا ہی ایک واقعہ ہوتا ہے، کیونکہ چیلنج درپیش ہونے کی وجہ سے بالقوہ خصوصیات وقوع پذیر ہوتی ہیں اور وہ شخص پہلے کے مقابلے زیادہ باصلاحیت گردانا جاتا ہے۔
یہاں پر، "قابل تحسین" اور "خیر خواہی" جیسے الفاظ بہت سارے لوگوں کو عجیب و غریب معلوم ہوسکتے ہیں۔ مندرجہ ذیل سطور میں اسی "عجیب و غریب" فلسفہ کو خالق کائنات کے تخلیقی منصوبہ کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
موجودہ دور کے انسانوں کا، نہ صرف اتنا لمبا سفر، بلکہ بر صغیر ہند کے شعراے کرام کو ایک لمبی مدت تک ‘چاند سی محبوبہ` کا تصور عنایت کرنے والے "چاند" (moon ) پر مجسم اتر کر اس کے خد و خال کا جائزہ لینا کسی کو بھی آج عجیب معلوم نہیں ہوتا ہے۔ بہت سے دوسرے سیاروں (planets) پر ہی نہیں، سورج (sun ) جیسے دیو قامت اور شعلہ بدن ستارے (star) پر بھی انسان اپنی کمند ڈالنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ مریخ (Mars) پر جلد ہی پہنچنے کی تیاری میں بھی سائنس داں مصروف ہیں۔ جدید ترین عظیم دوربینوں (telescopes) کے ذریعے مختلف کہکشائیں (galaxies) اور ستاروں سے کھلونوں کی مانند کھیلنا ماہر فلکیات (Astronomers) کا عام مشغلہ بن کر رہ گیا ہے۔
یہ موضوع کہ بہ ظاہر ایک نحیف قد و قامت والا انسان دم بخود کردینے والے اتنے کمالات کا مالک کیونکر بن گیا ہے، کسی کو بھی تجسس سے بھر دینے کے لیے کافی ہے۔
اللہ تعالی نے انسان کو ایک ابدی مخلوق کی حیثیت میں پیدا کیا ہے، مگر امتحان کی مصلحت سے اس کی زندگی کو دو ادوار میں تقسیم کردیا ہے، یعنی قبل از مرگ اور بعد از مرگ۔
موت سے پہلے تقریباً 70، 80، 90، 100 یا کچھ کم یا کچھ زیادہ سال کے عرصہ کے لیے ارادہ و اختیار کی آزادی کے ساتھ انسان کو اس لیے موجودہ عارضی دنیا میں بسا دیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے علم و عمل اور اخلاق و کردار کو اختیاری طور سے پاکیزہ بنانے کا ثبوت فراہم کر سکے اور آخرت میں ہمیشہ قائم رہنے والی پاکیزہ جنت کے لیے اس کا انتخاب کیا جاسکے۔
چونکہ مرنے کے بعد انسان کو آخرت میں دائمی زندگی حاصل ہونے والی ہے، اس لیے اس کو دائمی اعتبار کی ممکنہ استعداد ( potential ) سے بھی مزین کردیا گیا ہے۔ انسان کا جسم دنیاوی زندگی کے لحاظ سے بنایا گیا ہے، جب کہ اس کا پوٹینشیل دائمی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لحاظ سے تخلیق کیا گیا ہے۔
انسان کی ممکنہ استعداد کی وسعت کا اندازہ اللہ تعالی کی معرفت حاصل کرنے کے متعلق قرآن کے اس ارشاد سے لگایا جاسکتا ہے کہ زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر (دوات بن جائے) جسے سات مزید سمندر روشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ کی باتیں(لکھنے سے) ختم نہ ہوں گی۔ بے شک اللہ زبردست اور حکیم ہے۔ (سورہ لقمان، آیت 27). انسان کے اندر تخلیق کی گئیں استعداد و صلاحیتیں بالقوہ (potentially ) شکل میں ہمیشہ موجود رہتی ہیں، اور عام حالات میں اسی حال میں پڑی رہتی ہیں۔ اپنی صلاحیتوں کو بالفعل (actually) ظہور پزیر کرانے کے لیے محنت و مشقت کے ساتھ ساتھ انسان کو علمی تدبر اور تفکر کی اعلا جدوجہد درکار ہوتی ہے۔
کائنات کے تمام حقائق اسی اصول سے وابستہ ہیں۔ انسان جتنی زیادہ جسمانی اور دماغی کوششیں کرتا ہے، اتنی ہی زیادہ اس کی پنہاں صلاحیتیں نمودار ہوتی ہیں اور اس کو ‘آفاق و انفس` کے نئے نئے حقائق دریافت ہوتے رہتے ہیں۔( حوالہ قرآن: سورہ فصلت، آیت 53)
اوپر کی سطور میں پیش کی گئیں تشریحات سے واضح ہوجاتا ہے کہ نئے نئے اور مشکل کام کرنے کے لیے محنت کے ساتھ ساتھ سوجھ بوجھ اور علم و ہنر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے، ایسے تمام کاموں کے مواقع فراہم کرنے والا کوئی شخص دشمن نہیں، بلکہ سہی معنی میں، ایک سچا دوست اور خیر خواہ ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں، محنت و مشقت کے ساتھ مشکل کام کرنے سے کبھی کسی کی وفات نہیں ہوئی۔ یہ تو ہوتا ہے کہ کم کام کرنے والے بیمار پڑ جائیں اور کام سے محروم افراد ڈپریشن (depression) کا شکار ہوکر دنیا سے ہی رخصت ہوجائیں. جسمانی اور دماغی، دونوں قسم کی کڑی محنت کرنے والوں میں بہترین مثال نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں کی ہوسکتی، جو نئی نئی دریافت کے تجسس اور اس کے حصول کی خوشی میں بڑی بڑی عمر تک بھی جوانی بھری زندگی جیتے رہتے ہیں۔ سنہ 2019ء میں نوبل انعام حاصل کرنے کے وقت ایک مشہور سائنس داں کی عمر 97 سال تھی۔
ان کا نام ہے: جوہن بی گڈ اینف
(John B Goodenough)۔
انھوں نے 25 جولائی، سنہ 2021ء کو اپنا 99 واں یوم پیدائش منایا ہے اور ابھی باحیات ہیں.
صاحب مضمون کی گذشتہ تحریر :بچہ کی پرورش، نئے عہد کا آغاز

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے