اقبال کی وطنی شاعری کی معنویت

اقبال کی وطنی شاعری کی معنویت

ایک تنقیدی مطالعہ

ڈاکٹر سیّد شاہد اقبال(گیا)

علامہ اقبال پر روزانہ کچھ نہ کچھ لکھاجارہاہے لیکن ایسا نہیں کہ یہ موضوع اب مکمل ہو گیا ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ہمیشہ نامکمل ہی رہے گا۔ علامہ اقبال کی شاعری کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے ان کی زندگی کی مختلف اسرار و رموز کو سمجھنا لازمی ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ علامہ اقبال غلام ہندستان میں پیدا ہوئے اور ہندستان کی آزادی کو نہ دیکھ سکے یعنی غلام ہندستان میں ہی داعی اجل کو لبیک کہا۔
اقبال کو پاکستان کا خالق کہا جاتاہے اور انھیں ہندستان بدر کیا جاتا رہا ہے۔ شکر ہے کہ جگن ناتھ آزادنے اقبال پرستی کی ساری حدیں پار کرلی اور آزاد ہندستان میں اقبال کا نام زندہ جاوید کردیا۔ جگن ناتھ آزاد نے ہندستان میں اقبال پرستی میں سارے معاصرین کو پیچھے چھوڑ دیا۔ آزاد نے اقبال کے قصیدے اس شان و شوکت سے پڑھنے شروع کردیے جس کا ثانی کوئی دوسرا نہ ہوسکا۔
اس حقیقت کوجاننے کے لیے پہلے یہ جانناچاہیے کہ علامہ اقبال اور جگن ناتھ آزاد میں کیا مناسبت ہے۔ اقبال اور آزاد دونوں کے اجداد کشمیری نژاد تھے۔ دونوں نے پنجاب میں توطن اختیارکی۔ اقبال کاخاندان پہلے سیالکوٹ بعد ازاں لاہور میں قیام پذیرہوا جب کہ جگن ناتھ آزاد کے اجداد راولپنڈی میں قیام فرما ہوئے۔
اقبال کی ابتدائی نظمیں ”بانگ درا“ میں موجود ہیں. جو ہندستان کی تہذیب و ثقافت کی آئینہ دارہیں۔ اقبال نے وطن کا راگ الاپا ہے۔
ہندستان میں بنگال اور پنجاب کے باشندوں کو وطن پرستی کی زیادہ چاہت ہے۔ بنگال کے بارے میں تو دنیا جانتی ہے اور پنجاب سے تعلق رکھنے والا ہر پنجابی کو اپنی مٹی، پہاڑ اور دریا سے محبت ہے۔ اقبال کو وطن سے محبت کا تصور تلوک چند محروم سے ملا ہے۔ محروم کی نظم ’سندھ کو پیغام` کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
اے رودِ کرم کیجیو پیغام رسانی
جب دورسے آجائے نظر سندھ کا پانی
جو کچھ کہوں للہ اسے یاد سے کہنا
حسرت بھری آواز میں فریاد سے کہنا
کہنا کہ کوئی مسافر آوارہ غربت
دیتا تھا سلام اور یہ کہتا تھا بہ حسرت
اے آب اباسین کہ بصد موج رواں ہے
معلوم ہے تجھ کو، تیرا شیدائی کہاں ہے
بحوالہ کلیات محروم(گنج معانی)
یہ نظم آج بھی پاکستان کے اسکولوں کے تعلیمی نصاب میں شامل ہے اور طالب علموں کو دریائے سندھ سے محبت کادرس دیتی ہے۔
دریائے سندھ پر تلوک چند محروم سے زیادہ بہتر اور کسی شاعرنے کوئی نظم آج تک نہیں لکھی ہے۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی نے بھی دریائے سندھ کو محبت بھرا پیغام دیا ہے۔
اقبال نے دریائے گنگا کو موضوع بنایا ہے لیکن دریائے سندھ پر ان کے یہاں کوئی نظم نہیں ملتی ہے. انھوں نے دریائے گنگا کو ہندستان میں مسلمانوں کی آمد کا گواہ بنایاہے۔
اے آبرود گنگا وہ دن ہے یاد مجھ کو
اُترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا
اقبال نے وطن سے محبت کا درس تلوک چند محروم کی شاعری سے اخذ کیا ہے۔ دریائے سندھ دنیا کی ان چند مشہور دریاؤں میں شامل ہے جس طرح مصر میں دریائے نیل، اور چین میں دریائے یانگ سی اورلاطینی امریکہ میں دریائے آمیزن ہیں۔
دریائے سندھ اس متحدہ پنجاب کی اہم ترین دریا ہے جس کو پنجاب میں دریائے اٹک بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ پانچ بڑے دریا شامل ہوجاتے ہیں۔ (جھیلم، چناب، راوی، ستلج اوربیاس) دریائے سندھ پنجاب اور سندھ میں ایک اہم دریا ہے جو قدیم تہذیب و تمدن (موہن جودڑو اور ہڑپا) سے بھی وابستہ ہے۔ جسے دریائے سندھ سے محبت نہیں وہ سچا سندھی یا پنجابی بھی نہیں ہوسکتا۔
اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اقبال نے وطن دوستی اور وطن پرستی کی عظیم تر روایت تلوک چند محروم کی شاعری سے اخذکی ہے۔
گرچہ بعد کے زمانے میں ان کی وطن پرستی کے نظریے میں کئی تبدیلیاں بھی نظرآتی ہیں۔ لیکن یہ سب سیاسی حالات سے متاثر ہیں جس کا اظہار مصنفہ ڈاکٹر فرحت زیبا نے باب دوم میں کیا ہے۔ اقبال کی وطنی شاعری، تاریخی اور تحقیقی پس منظر میں موصوفہ نے شاہ ولی اللہ اور سید احمد شہید کو تحریک آزادی کے اولین پیش رو سنہ سنتاون کا انقلاب مسلم علما اور صحافت اور شاعری کا اساس اور تاریخی رول۔ سنہ سنتاون کے بعد انگریزی تسلط اورغلبے کا ردعمل اور قوم پروارنہ جذبات اور تحریک آزادی وطن کی ابتدا سے تفصیلی بحث کی ہے جواقبال کی وطنی شاعری کا امتیاز ہے۔
ڈاکٹر فرحت زیبا نے دراصل باب دوم میں بھی علامہ اقبال کی وطنی شاعری کا تاریخی و تخلیقی پس منظر بیان کیا ہے۔
اقبال کے یہاں ہندستان میں مسلمانوں کی حکومت کی پوری تاریخ سامنے نظر آتی ہے، جس میں آزادی کی تڑپ بھی شامل ہے۔ سنہ سنتاون کا انقلاب ان کے نزدیک ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ دہلی کی تباہی و بربادی پر جو شہر آشوب مرقعے لکھے گئے تھے وہ سلطنت دہلی کا ماتم ہے۔ وہ مسلمانان ہند کی بے چارگی اور بے بسی کا رونا تھا۔ یہ عجیب بات ہے کہ سید احمد شہید کی تحریک کوانگریزوں کے بجائے سکھوں کے خلاف تحریک کارنگ دے دیاتھا (ص۵۹) یہ وہ چنگاری تھی جس کی لو نے سنہ سنتاون کی آگ لگادی لیکن یہ جدوجہد آزادی بھی ناکامیاب رہی اورانگریزوں کے خلاف کوئی تدبیر کامیاب نہ ہوسکی اور ایسالگنے لگا کہ پوری قوم سرنگوں ہوچکی ہے۔
اقبال کے سامنے یہ سب پس منظر تھا جس کا درد و غم وہ سمیٹے ہوئے تھے۔
سیدصاحب (سیداحمدشہید) مسلمانوں سے بھی شمشیر بہ کف ہوتے رہے اور سرحد میں سیدصاحب کی ناکامی کی بڑی وجہ وہابیانہ عقاید، بیجا تشدد اور بات بات پر کفر کے فتوے تھے۔ بالآخر مولوی محمداسماعیل اور سیدصاحب ١٨٣١ ء قلعہ بالاکوٹ کے قریب معرکے میں کام آئے اورعقیدت مندوں نے شہید مشہور کردیا مگر یہ بات بھی تشنہ تحقیق ہے کہ وہ کسی سکھ کے ہاتھوں مارے گئے یاسرحدی پٹھان کے ہاتھوں؟
(بہ حوالہ باغی ہندوستان ضمیمہ از شاہدخاں شیروانی ص ۴۲۴ تحریر ازعلامہ فضل حق خیرآبادی)
سرسید لکھتے ہیں:
١٨٢٤ء میں وہابیوں نے پہاڑوں میں جاکر قیام کیا اور انھوں نے اس بات کا قصد کیا کہ سکھوں پر ہم لوگ جہاد کریں اور شہید ہوں لیکن چونکہ پہاڑی قومیں ان کے عقائد کے مخالف تھیں اس لیے وہ وہاں ان پہاڑیوں کو ہرگز اس بات پر راضی نہ کرسکے کہ وہ ان کے مسائل کو بھی اچھا سمجھتے۔
لیکن چونکہ وہ سکھوں کے جوروستم سے نہایت تنگ تھے۔ اس سبب سے وہ وہابیوں کے اس منصوبہ میں بھی شریک ہوئے کہ سکھوں پرحملہ بھی کیا لیکن چونکہ یہ قوم مذہبی مخالفت میں نہایت سخت ہے۔ اس سبب سے اس قوم نے اخیر میں وہابیوں سے دغا کرکے سکھوں سے اتفاق کرلیااورمولوی محمداسماعیل اور سید احمد صاحب کو شہید کردیا۔“
(بہ حوالہ مقالات سرسید جلد نہم مجلس ترقی ادب لاہور ص ١٣٩۔١٤٠)
پروفیسرجگن ناتھ آزاد نے اپنے ایک مضمون ”شعر اقبال کاہندوستانی پس منظر“ میں اقبال کی وطنی شاعری کی معنویت کو واضح کرتے دوباتوں کی بہ طور خاص نشان دہی کی ہے۔
اوّل یہ کہ ہندستان کے تمدن، اس کی عظیم قومی، وطنی اورمذہبی روایات وہ فلسفہ جو وید، اپنشید، ریشیوں، فقیروں اور درویشوں کے اقوال اور سیرت کی صورت میں ایک قیمتی ورثہ کے طور پر ہم تک پہنچا ہے۔ اس قیمتی ورثے سے اقبال کی محبت معترضین کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔(ص:١٧٢)
دوم یہ کہ اقبال دراصل یوروپین نیشنلزم کے خلاف تھے۔جس کی بنیاد پر اہل یورپ مسلم ممالک کے ساتھ ناگفتنی سلوک کرکے اور انھیں ایک دوسرے سے علاحدہ کرکے ان پر اپنا شنکجہ مضبوط کرتے جارہے تھے اور اس لیے وہ ان ممالک کو ایک روحانی رشتے میں منسلک کرنا چاہتے تھے۔(ص:١٧٢)
الغرض میں یہ کہنے میں حق بہ جانب ہوں کہ ڈاکٹر فرحت زیبا نے اقبال کی وطنی شاعری کی معنویت کو ہندستانی روح عطا کی ہے اور اس کی جڑیں قدیم ہندستان کی تہذیب و تمدن میں پیوست کردی ہیں۔میرا خیال تویہ ہے کہ وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہیں …………!
DR. S. SHAHID IQBAL Ph.D
At: ASTANA-E-HAQUE, ROAD NO: 10
WEST BLOCK, NEW KARIMGANJ
GAYA-823001 (BIHAR)
Mob: 09430092930/ 09155308710
E-mai:drsshahidiqbal@gmail.com
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: کلاسیکی نثرکے اسالیب: ایک طائرانہ نظر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے