ربیع الاول اور آج کا نوجوان

ربیع الاول اور آج کا نوجوان

محمد قمرانجم قادری فیضی

یقیناََ خالق کائنات عزوجل نے ہم کو بہت سی نعمتیں، انعام و اکرام اور وافر برکتوں سے نوازا ہے. اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے یہ لازم وضروری کیا ہے کہ ہم ان نعمتوں پر اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس نعمت کے ملنے پر خوشی اور مسرت وشادمانی کا بر ملا اظہار کریں، اس پاک پرور دگار عالم کا شکر بجالائیں، ان تمام نعمتوں میں سب سے افضل واعلا نعمت بلکہ تمام نعمتوں کی اصل و بنیاد سرکار دوعالم، رحمت عالم، نور مجسم، حضور سرکار مدینہ محمد عربی روحی فداہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ذات با برکات ہے. جن کی ولادت باسعادت ماہ ربیع الاول شریف کی بارہویں تاریخ کو ہوئی. اسی لیے ماہ ربیع النور شریف کے آتے ہی تمام عالم اسلام کے اہل ایمان کے قلوب میلاد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خوشیوں سے جھوم اٹھتے ہیں.

نثار تیری چہل پہل پر ہزاروں عیدیں ربیع الاول
سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں.

ربیع الاول کی وجہ تسمیہ: اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ربیع الاول شریف ہے. اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جب ابتدا میں اس کا نام رکھا گیا تو اس وقت ربیع یعنی فصل بہار کا آغاز تھا، یہ مہینہ فیوض و برکات کے اعتبار سے بہت ہی افضل واعلا ہے. کیونکہ اس ماہ مبارک میں باعث تخلیق، کائنات فخر موجودات حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا میں قدم رنجہ فرمایا. 12 ربیع الاول شریف بروز پیر مکۃ المکرمہ کے خاندان بنی ہاشم میں آپ کی ولادت باسعادت صبح صادق کے وقت ہوئی،
اس لیے تمام اہل ایمان اس ماہ مبارک کے آتے ہی خوشیوں سے جھوم جاتے ہیں، ہر طرف مسرت و شادمانی کا پرکیف سماں بندھ جاتاہے، اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ مصطفی جان رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت تاریخ انسانی کا سب سے بڑا واقعہ اور دُکھی وبےسہارا انسانیت کے لیے فرحت ومسرت کا سب سے بڑا سامان یے، نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا فضل و کرم، سب سے بڑا احسان، سب سے بڑی نعمت، اور تمام جہان والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمت ہے،
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے(یقیناً اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر سب سے بڑا احسان ہوا کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا، جو ان پر اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھتے ہیں انھیں پاک کرتے ہیں، انھیں کتاب و حکمت سکھاتے ہیں اور اس سے پہلے وہ لوگ ضرور کھلی گم راہی میں تھے)
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات کو واضح طور پر اپنا فضل و احسان قرار دیا ہے، لہذا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں اور بیاں ہوگئی کی نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی سب سے عظیم نعمت، سب سے بڑا فضل، سب سے بڑا احسان اور تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر ہمارے درمیان تشریف لائے تو ہمیں چاہیے کہ اس عظیم الشان نعمت کے ملنے پر خوب اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں.
محقق زمانہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ کا بارہ ربیع الاول کے دن میلاد منانا اور فیوض و برکات کا نازل ہونا. حضرت [شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ "میں نے بارہ ربیع الاول کے دن قدیم دستور کے مطابق قرآن مجید کی تلاوت کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نیاز تقسیم کی اور موئے مبارک کی زیارت کی، درمیان تلاوت ملاء اعلی [آسمانی مخلوقات] حاضر ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پر فتوح نے فقیر اور فقیر کے دوستوں کی طرف انتہائی توجہ فرمائی، اس وقت میں نے ملاء اعلی اور مسلمانوں کی جماعت کو ایک ایسے دائرہ کی شکل میں دیکھا کہ جن کے ناز و نیاز اوپر کی طرف جارہے ہیں اور برکات و نفحات اوپر سے ان پر فضیلت
ہورہے ہیں ثم و ثم.[القول الجلی،ص74]
بخاری شریف کی حدیث مبارکہ میں ایک صحابی بیان فرماتے ہیں کہ ایک رات نبوت و رسالت کے آفتاب و مہتاب، انبیا و مرسلین کے تاج دار، رحمت مجسم، شافع محشر، فخر دوعالم نورِ مجسم، سید ابرار، شاہِ دو عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم رونق افروز تھے کہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آسمان پر چودھویں کا چاند روشن تھا۔ کبھی میں آسمان پر چاند کو دیکھتا ہوں کبھی زمین پر آپ سرکار کا روشن چہرہ مبارک، کبھی میں چاند کو کبھی آپ کے چہرہ مبارک کو دیکھتا ہوں خدا کی قسم! آپ کا چہرہ مبارک چاند سے زیادہ روشن اور چمک دار تھا. اِسی طرح ایک دن فرشتوں کے سردار حضرت جبرائیل امین علیہ السلام آپ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ میں نے حضرت آدم سے لے کر آپ تک تمام انبیاے کرام کو دیکھا ہے، میں نے حضرت یوسف کو بھی دیکھا عرش پر اور فرش پر، مگر ایک بھی چہرہ آپ کے چہرہ مبارک سے زیادہ حسین اور روشن نہیں دیکھا، آپ سب سے خوب صورت اور روشن ہیں، آپ جیسا کوئی نہیں ہے. بلا شبہ خالقِ کائنات نے سب سے پہلے اپنے پیارے حبیب حضور محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا نور پیدا کیا پھر اِسی نور کو خلقِ عالم کا واسطہ ٹھہرایا۔
بارہویں کے چاند کا مجرا ہے سجدہ نور کا
بارہ برجوں سے جھکا اک اک ستارہ نور کا

جب اس ماہ مبارک کےچاند کی بارہ تاریخ آتی ہے تو ربیع الاول کی 12 تاریخ کی خوشی میں چاند سجدہ کرتا ہے. بلکہ عالم فلک کے بارہ برجوں کا ایک ایک ستارہ سر بہ سجود ہوتا ہے۔ اور یہ سب آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں نیاز مندی و عقیدت مندی و عاجزی بجا لاتے ہیں.
جہاں ایک طرف ربیع الاول شریف کی آمد پر مبارکبادیاں دی جا رہی ہیں وہیں میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے عجیب عجیب طرح کے بے تکے اعتراضات اور فضول میسیجز کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں، ہر سال ہی میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پر مسرت موقع پر اس طوفان بے ہودگی و بدتمیزی کو پھیلانے کی بھرپور کوششیں کی جاتی ہیں۔ میرا نہایت ہی مخلصانہ اور دردمندانہ مشورہ ہے کہ اپنا قیمتی وقت اور توانائی کسی بھی ایسے شخص کے ساتھ بحث و مباحثہ میں برباد نہ کرنا جسے میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے چِڑھ ہے.
محبت محض سکھائی نہیں جا سکتی۔ یہ تو ایک تحفہ ہے، ایک سعادت ہے، جو صرف نصیب والوں ہی کا حصہ ہے۔ افسوس ہے اس شخص پر جس کو اپنے پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی منانے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے۔ بہرحال مجھے اور آپ کو چاہیے کہ میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر اعتراضات یا ایسے کسی بھی میسیج پر کان نہ دھریں اور اخلاص کے ساتھ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے جشن میلاد النبی ﷺ کی تیاریوں میں مصروف رہیں۔
قارئین کرام یقین جانو! ہم پر کسی بھی بے سر و پا اعتراض کا جواب دینے کی کوئی پابندی نہیں۔ ہاں، ضرورت ہے تو اپنے عقائد و معمولات کی مکمل جانکاری کی۔ اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ہم اپنا رابطہ مستند و معتمد علمائے اہل سنت سے مضبوط تر بنائیں، ان کی صحبت میں بیٹھیں، ان کی کتب کا مطالعہ کریں اور ان کے ایمان افروز بیانات بہ غور سنتے رہیں۔ جن بے ادبوں نے اس میں خرافات شامل کیں وہ خود اس کے ذمہ دار ہیں مگر فی نفسہٖ جشنِ ولادت منانے کی اصل شرع میں موجود ہے، امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی جامع میں ایک باب باندھا باب ما جا میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم
اور میلاد کا معنی یہ ہے کہ جس میں ولادت کے واقعات و اذکار بیان کیے جائیں، سیدھی و سچی بات ہے، اب رہ گیا مروجہ طریقہ سے میلاد منانا تو یہ بھی جائز و مستحب ہے.
ہلڑ بازی، اختلاطِ مرد و زن، شور شرابہ، نمازیں قضا کرنا، سائلنسر نکال کر بائکس و کاروں کا دوڑانا، و دیگر افعال ویسے بھی ناجائز، حرام، فسق، فجور ہیں.
اس سے اہل سنت و جماعت بری ہیں، یہ جہال نے اس میں داخل کردیا جس سے نفسِ میلاد ناجائز و بدعت نہیں بن جاتا. اسی طرح ہم کہتے ہیں ان میں ناجائز امور کو روکا جائے.

حضور سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ سرور کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شان و عظمت اور بارگاہ خداوندی میں آپ کے علو مرتبت کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت سیدی شیخ اکبر امام محی الدین ابن عربی کے حوالہ سے رقم طراز ہیں :
"اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اپنی صفات مدح سے عرش پر استوا بیان فرمایا تو اس نے اپنے حبیب ﷺ کو بھی اس صفت استوا علی العرش کے پرتو سے مدح ومنقبت بخشی". (فتاوی رضویہ )

فرش والے تِری شوکت کا عُلو کیا جانیں
خُسروا عرش پہ اُڑتا ہے پَھریرا تیرا
میں تو مالِک ہی کہوں گا کہ ہو مالِک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:سید طاہر میاں بلگرامی: ایک دردمند شخصیت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے