واقعۂ کربلا پر مبنی ناول ” ایک قطرۂ خون“

واقعۂ کربلا پر مبنی ناول ” ایک قطرۂ خون“

پروفیسر سیما صغیر

شعبۂ اردو
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ

اس تصور سے انکار ممکن نہیں کہ ادب اور سماج کا رشتہ ایک ناگزیر حقیقت ہے۔ زندگی کے اس عالم و رنگ و بو سے رویہ کی نوعیت میں افتراق ہونے کے سبب ادب میں اس کی شناخت ہوتی ہے۔ ایک ہی کیفیت، تجربہ یا احساس کے ساتھ اظہار کی سطح کیا رخ اختیار کرتی ہے یہی تخلیق کی بنیاد بنتی ہے اور جب بیان میں تخلیقیت کا عنصر شامل ہوتا ہے تو سوچنے اور سمجھنے کی راہیں ہم وار ہوتی ہیں۔ فن کار زمانے کے تغیر و تبدل، سماج کی بدلتی ہوئی صورتوں سے متاثر بھی ہوتا ہے اور اپنی بنائی کائنات کو تخلیق کرکے پیش کرنے کی سعی بھی کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ ایک ایسا عالم بھی ہو جہاں تفریق ختم ہوجائے اور مساوات کے رجحانات جاری و ساری ہوجائیں۔
تاریخ کے جھروکوں سے جھانکیں تو زمانۂ قدیم سے پدرانہ تسلط کے تحت زندگی کے تمام معاملات میں مرد کا ہی غلبہ رہا ہے۔ عورتوں میں زبان بندی کی رسم قانون کی طرح جاری تھی۔ علم کے دروازے اُن کے لیے بند تھے اور مذہبی رسومات کی پابندی لازم تھی. بل کہ اُنھیں مذہبی علم سے بھی بے بہرہ رکھا جاتا تھا۔ عالمی سطح پر اٹھارہویں صدی میں اور ہمارے یہاں انیسویں صدی میں دانشوروں نے بیداری کی تحریک چلائی جس کا بنیادی مقصد ملک و قوم کو ذلّت کی زندگی سے نکالنا، روشن خیالی پیدا کرنا اور حصولِ علم کے لیے قوم کو بیدار کرنا تھا۔ لہٰذانسائی بیداری، معاشرتی نظم، مذہبی تعلیم اور روشن خیالی کی طرف توجہ دی گئی۔ ساتھ ہی ساتھ انگریزی اور مغربی علوم حاصل کرنا اور یہ جاننا کہ مغربی اقوام کی ترقی اور عروج کا رازکیا ہے؟ جب راجا رام موہن رائے سے سر سید احمدخاں تک نے زندگی کے ہر شعبہ میں روشن خیالی اور تعلیمی بیداری کی تحریک چلائی تواسی زمانہ میں نواب سلطان جہاں بیگم نے بھی اس جانب سنجیدگی سے توجہ دی۔ شیخ عبداللہ جو ایم۔ اے۔ او۔کالج سے فارغ تھے، نے علم کی طرف عورتوں کو راغب کرنے کی کوشش کی۔ خواتین کے لیے اسکول قائم کیا جو بعد میں ویمنس کالج کے نام سے مشہور ہوا اورجس کی وجہ سے عورتوں کے اندر تعلیمی بیداری کا رجحان نہ صرف پیدا ہوا بل کہ اس کو فروغ حاصل ہوا۔ عصمت چغتائی نے یہیں تعلیم حاصل کی اور پھر اپنے ادب پاروں میں تہذیب و تمدن اور عقل و دانش سے مزیّن لافانی کردار خلق کرکے سماج میں عورت کی عظمت اور اس کی حرمت کو قائم کرکے ثابت کیا کہ عورت بھی کسی اعتبار سے مردوں سے کم نہیں ہے۔
بر صغیر ہند میں ڈاکٹر رشید جہاں کی ابتدائی کاوشوں کے بعد عصمت چغتائی کی تخلیقات میں نسائی شناخت و تشخص کے نشانات پہلی بار واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ نسائی تحریک کی بنیادی فکر یہ ہے کہ عورت مرد کے مقابلے میں کم تر درجے کی مخلوق نہیں ہے۔ یہ تحریک سماجی، معاشی اور سیاسی مساوات کا تقاضہ کرتی ہے۔
ماضی کے اوراق کو پلٹ کر دیکھیں توشاید تاریخ کے ہر عہد میں مرد اور عورت کے رشتے میں مساوات کے رویے کو پنپنے نہیں دیا گیا ہے۔ حاکم و محکوم اور فاتح و مفتوح کے تصور نے اسے اور بھی پختہ کیا ہے جس کی وجہ سے مسائل کی پیچیدگیوں میں اضافہ ہوتا گیا ہے۔ جب سماجی، تقافتی اور معاشرتی اعتبار سے ہی اسے کم تر ثابت کرنے کا جتن کیا گیا تو بھلا سیاسی اور تجارتی میدان میں اسے برابری کاحق کیسے مل جاتا۔
حالاں کہ مذاہب نے عورت کو مساوی عزت و احترام کے ساتھ بحیثیت فرد، معاشرے میں اہم مقام دیا ہے۔ اس کو حصولِ تعلیم کے علاوہ زندگی کے تمام اہم فیصلوں کا اختیار، وراثتی معاشی اور سماجی غرض ہر طرح کے حقوق سے نوازا گیا ہے۔ اس کی رائے اور مرضی کو اہمیت دی گئی ہے مگر ہمارے سماج نے نہ صرف ان سے چشم پوشی اختیار کی بل کہ اپنی انا کے پیشِ نظر حقوق کو پامال کیا ہے اور مذہبی احکامات کا اطلاق غلط ڈھنگ سے کیا اور مذہبی حقوق و فرائض کی غلط تفسیر پیش کرکے اپنے حاکمانہ رویہ کو اس غلط تفسیر کی روشنی میں بر قرار رکھا اور مذہب کی آڑ میں اسے تختۂ مشق بنایا۔
جاگیر داری نظام میں استحصالی رویہ کی کھلی چھوٹ، غربت اور جہالت، تعلیم سے دوری بنائے رکھنے، عورت کو شعور و آگہی سے دور رکھنے کی کوشش ہی نہیں، گھر کی چہار دیواری کو اس کے لیے محفوظ پناہ گاہ تصور کرنے، اس کو بحیثیت انسان زندگی کے معاملات میں حصہ دار نہ ماننے کی بنا پر تانیثی تحریک کی بنیاد پڑی۔ ١٨٣٠ء میں فرانس میں حصولِ علم اورحقوقِ نسواں پر بحثوں کا آغاز ہوا۔ ١٨٤٨ء میں امریکہ میں ان کے سیاسی حقوق کی حمایت کی گئی اور حقِ رائے دہندگی کی حصول یابی کی کوشش ہوئی۔ ١٨٦٠ء کے بعد یوروپ میں حقوق نسواں کی مختلف تنظیمیں منظرِ عام پر آئیں۔ ١٨٧٠ء میں آکسفورڈ اور کیمبرج میں ویمنس کالج قائم ہوئے اور فرانس میں حقوق کے لیے عملی جد و جہد کا آغاز ہوا۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد غور و فکر کے زاویے بدلے مگر دوسری جنگِ عظیم کے بعد منظر نامہ ہی بدل گیا۔ عصمت نے اِس تبدیلیِ فکر و عمل کو اپنی تخلیقات میں جذب کرنے کی امکانی کوشش کی۔ ایسا کرنا شاید ان کے لیے نا گزیر تھا کہ مشرقی معاشرے میں تہذیبی سطح پر خواتین کے صنفی اظہار کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اسی صورتِ حال کو عصمت چغتائی نے اپنا نقطۂ نگاہ بنایا ہے۔ تبھی تو وہ معتوب رہی عورتوں کی ترجمان ہیں۔ اُن کی تمام تخلیقات میں خواتین کے محض مسائل ہی نہیں ہیں بل کہ نئے عزم اور نئے حوصلوں کی نشان دہی بھی ملتی ہے۔ اس کی مثال ناول ”ایک قطرۂ خون“ سے دی جا سکتی ہے جس میں تاریخی واقعات اور کردار کو ناول کے پیرایے میں اس طرح پیش کر دیا گیا ہے کہ تاریخی ناول نگار بھی عش عش کر اٹھتے ہیں۔ بلا شبہ نسائی حسیّت کی اس بے باک ترجمان نے ناول کی دنیا میں ایک انوکھا تجربہ کیا ہے۔ ”ایک قطرۂ خون“ ان کے فکر و مزاج سے بالکل الگ ہے، اس کے خلق کرنے میں وہ بہت محتاط بھی رہی ہیں۔ شاید اسی وجہ سے یہ فن پارہ شاہ کار تو نہیں بن سکا مگر مکمل عصمت کو سمجھنے میں بہت معاون ہے۔ اس بات کو وہ خود لکھتی ہیں:
”میں نے ابتدا میں گھریلو الجھنوں پر، لڑکیوں پر، بال بچوں پر بہت کچھ لکھا۔ جب میں بمبئی آئی تو مجھ پر کمیونسٹ پارٹی کا اثر ہوا اور میں نے لال جھنڈے کی طاقت سے مرعوب ہو کر بہت سی ایسی کہانیاں لکھیں جن کا رنگ میری پرانی کہانیوں سے مختلف تھا۔ پھر میں طلسم میں غرق ہو گئی اور میں نے فلمی ماحول پر کہانیاں اور ناولیں لکھیں۔ آہستہ آہستہ میرا جی ان سب موضوعات سے اُکتا گیا۔ جب لکھنے کو کچھ نہ رہا تو میں نے انیس کے مرثیے پڑھنے شروع کیے۔ پانچ جلدیں پڑھیں۔ جن میں مجھے امام حسین کی بڑی دل کو چھولینے والی کہانی نظر آئی۔ پھر میں محرم کی مجلسوں میں شریک ہوئی، بہت سے ماتم دیکھے، جلوس دیکھے۔ میں نے سوچا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے لوگوں کو اتنا متاثر کیا۔ وہ موومنٹ کیا تھی؟ اس کو ذہن میں رکھ کر میں نے ایک ناول لکھی۔ ”ایک قطرۂ خون“ جس میں ایک شخص نے چودہ سو برس پہلے سامراجی طاقتوں کا کن ہتھیاروں سے مقابلہ کیا، گردن کٹائی، لیکن سر نہیں جھکایا، پورے خاندان کو مٹایا۔ گرچہ اور بھی بڑے بڑے سانحے گزرے ہیں لیکن ان کو بھلادیا گیا۔ چنگیز خاں، تیمور لنگ اور نادر شاہ پر ہندوستان میں کوئی کتاب یا ناول نہیں لکھی گئی۔ لیکن امام حسین پر سینکڑوں مرثیے، مضامین اور کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مجھ کو جتنی کتابیں ملیں میں نے پڑھیں۔ معلوم ہوا کہ اس واقعہ کو مذہب کا حصہ بنا لینے سے اتنی اہمیت حاصل ہو گئی اور اس کی وجہ سے یہ واقعہ آج تک اتنا تازہ معلوم ہوتا ہے کہ کل ہوا۔ میں نے اس واقعہ کو ناول کی شکل دی ہے۔“
یہ سچ ہے کہ واقعۂ کربلا کو ناول کی شکل دینے میں تاریخی حقائق سے زیادہ انھوں نے انیس کے مرثیوں پر توجہ دی ہے. بل کہ اکثر مثالیں دی جاتی ہیں کہ کہیں کہیں تو انھوں نے انیسؔ کے اشعار کی نثر کردی ہے جیسے ؎
یہ تو نہیں کہا کہ شہ مشرقین ہوں
مولا نے سر جھکا کے کہا میں حسین ہوں
جب کہ عصمت چغتائی لکھتی ہیں:
”امام اُس سے یہ تو نہ کہہ سکے کہ میں رسولِ خدا کا نواسہ، شیرِ خدا کا فرزند اور فاظمہ زہرا کا لعل ہوں۔ بڑی انکساری سے سر جھکا کر بولے ”میں حسین ہوں۔“
میر انیسؔ کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں ؎
پیاسی جو تھی سپاہ خدا تین رات کی
ساحل سے سر پٹختی تھیں موجیں فرات کی
اس شعر کو نثر کے پیرایے میں انھوں نے اس طرح تحلیل کر دیا ہے۔”فرات کی موجیں بے بسی سے ساحل سے سر پٹخ رہی تھیں………..“
اس طرح کی بہت سی مثالیں ناول میں کئی جگہ مل سکتی ہیں۔ عصمت نے مذکورہ ناول میں مرثیہ کے تمام اجزا کو اس طرح جذب کر لیا ہے کہ قاری بیک وقت دونوں اصناف کے یکجا ہوجانے سے حیرت و استعجاب میں مبتلا ہو جاتا ہے، مگر تاثر پوری طرح بر قرار رہتا ہے۔ کربلا کے تمام کردار اپنی جگہ، اپنی تمام صفات و کمالات کے ساتھ موجود ہیں لیکن فنّی کمال یہ ہے کہ نسوانی کرداروں میں انھوں نے ایک عجب شان پیدا کر دی ہے جو عصرِ حاضر کی غماز ہے۔ انیسؔ کے مرثیوں میں بین کرتے ہوئے کردار عصمت کے یہاں وقت اور حالات کا مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ موجودہ صورتِ حال کے مطابق باہمت اور دلیر ہیں۔ تاہم Ideal کرداروں کے فطری جذبات بھی مجروح نہیں ہونے پاتے ہیں۔ اسی لیے واقعۂ کربلا پر مبنی یہ ناول آج بھی عصری معنویت کا حامل ہے اور اس ناول میں بھی عصمت چغتائی کی فنّی خوبیوں میں جدید حسّیت، معنویت اور اسلوب کا متوازن اظہارملتا ہے۔ خصوصاً خواتین کا اپنا لب ولہجہ، روز مرہ محاوے کا آہنگ، موزونیت، لفظیات کا مناسب استعمال ان کی تخلیقات کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ یہ ناول بھی ان کی دیگر تخلیقات کی طرح یہ واضح کرتا ہے کہ نسائی شعور میں مرد و عورت دونوں ایک دوسرے کی زندگی میں برابر اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ اپنی انقلابی فکر اور نسائی حسّیت کی بدولت اردو فکشن نگاروں کی صف میں ایک معتبر مقام رکھتی ہیں۔
***

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے