ستوانسا

ستوانسا

صادقہ نواب سحر
اس بار بارشیں دسمبر تک چلیں۔بارش ختم ہوتے ہی اچانک موسم ٹھنڈا ہو گیا۔صبح ساڑھے گیارہ بجے میں نے کالج چھوڑا۔گھر کے راستے میں پکّی سڑک سے نیچے اُترتی ایک چھوٹی سی سیڑھی سے اتر کر تنگ گلی سے ہوتی ہوئی میں، اپنے گھر کی جانب مڑی۔
’آج گھر جلدی جا کر صفائی کرنے والی بائی کے آنے سے پہلے ذرا آرام کر لوں گی۔‘،میں یہ سوچ ہی رہی تھی کہ گلی میں پکّی عمروں کا مرد عورت کا جوڑا سامنے سے آتا دکھائی دیا۔مرد نے سفید ملگجا سا کرتا پاجامہ پہن رکھا تھا۔عورت کی ہلکی نارنجی لہری دار ساڑی کمر میں کسی ہوئی تھی، اس کی کھلی رنگت پرمدھم سی مسکراہٹ بھلی لگ رہی تھی۔دونوں باتیں کرتے جا رہے تھے۔میں نے مرد کی ہتھیلیوں میں کپڑے کی ایک پوٹلی دیکھی۔ مجھے اس میں ایک آدھ دن پہلے پیداہوئے بچّے کا گمان ہوا۔
”ارے اتنے چھوٹے بچّے کو کہاں لئے جا رہے ہو؟ کس کا ہے یہ؟“، میں نے ان سے پوچھا۔اُن دنوں بچہ چوروں کی افواہ زوروں پر تھی۔
”ذرا دکھانا تو!“،مرداور عورت چلتے چلتے رک گئے۔ مرد نے اپنی ہتھیلی نیچی کرکے بچے کا چہرا دکھا دیا۔ننھا فرشتہ ٹکرٹکر آسمان کی جانب دیکھ رہا تھا۔موٹی سی ناک، بڑی بڑی آنکھیں،گہرے گلابی ہونٹ، گورا چِٹّا، نوزاد….
۔”ساتویں مہینے کا ہے؟“، میں نے اندازہ لگایا۔
"ہاں۔“
”کہاں لئے جا رہے ہو؟“
”کل رات ایک بجے اِس کو بچہ ہوا۔“، مرد اپنے ساتھ والی عورت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بول رہا تھا، جو مفلر جیسا کوئی کپڑا اپنے کانوں پر لپیٹ رہی تھی۔
”اسپتال میں ہوا؟“میں نے پوچھا۔
”نہیں گھر میں….ابھی سرکاری اسپتال لے گیا تھا، دکھانے کو۔“
”سب ٹھیک تو ہے؟“
”بچہ کم زور ہے۔اِس کو کانچ میں رکھنے کو بولا ہے۔“
”نگر پالیکا اسپتال میں انکیوبیٹر نہیں ہے کیا؟“
”نہیں ہے۔“
”پھر!!!“، مجھے افسوس کے ساتھ حیرت بھی ہوئی۔ملک میں کتنے ہی چھوٹے چھوٹے گاؤں دیہات ہیں، وہاں کیا ہوتا ہوگا! یہ خیال مجھے پریشان کرنے لگا۔
”ڈاکٹر نے چٹھی دے کر بیکری کے سامنے والے اسپتال میں بھیجاہے۔“، اُس نے جواب دیا۔
”سیتارام اسپتال؟“
”ہاں۔“
”پھر رکھا کیوں نہیں؟“
”وہاں کی ڈاکٹرنی بولتی ہے، روز کا دو ہزار روپیہ لگے گا۔“
”کتنے دن رکھنا ہوگا؟“
”پندرہ دن۔“
”ڈاکٹرنی بولتی ہے، تیس ہزار روپیہ جمع کرادو۔ پندرہ دنوں میں بالکل اچھا بچہ ہاتھ میں دوں گی۔“
”رکھا کیوں نہیں؟“
”پیسہ کدھر ہے؟“
”….کیا کرتے ہو؟“
”پہلے بھنگار اٹھاتا تھا۔“
”اب کیا کرتے ہو؟“
”ردّی خریدتا ہوں۔“
”یہ کیا کرتی ہے؟“، میں نے عورت کی جانب اشارہ کیا۔
”پہلے یہ کچرا چُنتی تھی….اب بھیک مانگتی ہے….منع کرتا ہوں پھر بھی سنتی نہیں۔“
”کتنے بچّے ہیں؟“
”بڑی بیٹی کی شادی ہو چکی ہے۔دوسری دس سال کی…تیسری پانچ سال کی۔“
میں گہری سوچ میں ڈوب گئی۔
”چلو ایک کام کرو۔“، میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کس طرح ان کی مدد کروں! ”اِتنی سخت سردی ہے…اتنا چھوٹا بچّہ….گھومنا ٹھیک نہیں نا!“
میرا دماغ کام نہیں کر رہا تھا۔کیا کہنا چاہ رہی تھی،کیا کہہ رہی تھی!،”گھر لے جاؤ نہیں تو یہ کیسے بچے گا!“، میری بات اور کہنے کا انداز انھیں عجیب لگے۔میں دونوں کا منہ تکنے لگی۔مجھے بھی جھینپ ہوئی کہ بچّے کو پیدا ہوئے ابھی ایک دن بھی نہیں ہواکہ میں اُس کے نہ بچنے کی بات کرنے لگی تھی۔میں نے ان سے نظریں ہٹائیں اور کھڑے کھڑے سوچنے لگی۔
’کیا کروں؟….خالی انسانیت کی باتیں کرنے سے کیا ہوتا ہے! کچھ کیا نہیں تو یہ سچ مچ نہیں بچ پائے گا…..کیا کروں؟‘، ذہن میں تیزی سے سماج سیوا کرنے والے اداروں کا خیال آنے لگا۔
”میں کچھ کوشش کرتی ہوں۔“، میں نے اس سے کہا، ”تم ایسے کرو، اپنی بیوی کی گود میں بچّہ دے کر اِس دیوار پر بٹھادو اور میرے ساتھ چل کرمیرا گھر دیکھ لو۔لوٹ کر بیوی اور بچے کوگھر چھوڑ کر میرے گھر آجاؤ۔…تب تک میں دیکھتی ہوں، تمہارے لئے کیا کر سکتی ہوں۔“
وہ دونوں ایک دوسرے سے صلاح و مشورہ کرنے لگے۔میں ذرا سا آگے بڑھ آئی تھی، پلٹ کر پوچھا، ”تمھارا نام کیا ہے؟“،مجھے خیال آیا تھا کہ ان کا نام تو میں نے پوچھا ہی نہیں تھا۔
”میں یوسف اور یہ میری بیوی صابرہ۔“
مجھے ان پر بڑا رحم آ رہا تھا۔
”…میں اُس بچّے کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔“، گھر پہنچ کرمیں نے اپنے شوہر کو فون کیا۔
”تو چلی جاؤ ان کے ساتھ کلمبولی کے ایم جی ایم اسپتال…ایڈمٹ کروا آؤ، فریدہ میڈم!“، وہ ہنسے۔
میں چپ ہو گئی۔انھوں نے بیوی کے موڈکا اندازہ کیا اور بولے،
”اسپتال کا پتہ بتا دو اور کچھ پیسے دے کر ان کو بھیج دو۔“
”کیا وہ جا پائیں گے؟“
”یہ بھی مجھے ہی بتانا ہوگا؟“
”ہماری میونسپلٹی تو مہاراشٹر کی اے کلاس میونسپلٹی ہے نا!…پھر بھی ایک ڈھنگ کا اسپتال نہیں ہے۔“
”کیوں سرکاری اسپتال کے سامنے کی کھلی زمیں نہیں دیکھی کیا؟ یہاں ایک ہائی فائی اسپتال بنانے کے پلان کانشان لگا ہوا ہے۔“
”رشوت خوری کے چکّر میں نہیں بنا ہوگا نا!“
”ایک انجینئرکا قتل ہونے کے بعد سے کام بند ہو گیا۔“
”تو آپ جیسے بزنس مین کیوں نہیں بنا لیتے،ایک اچّھا اسپتال؟….علاج کے لئے لوگوں کو ساٹھ ساٹھ کلو میٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے!“، وہ اس بات کواتنے ہلکے پھلکے ڈھنگ سے لے رہے تھے کہ مجھے غصہ ہی آیا۔
”پھر تو وہ پرائیویٹ اسپتال ہو گا نا!….اور وہ بہت سے ہیں…جنھیں تم پتّھر دل کہتی ہو!….کہو گی کہ غریبوں کے کام کے نہیں…ہے نا فریدہ میڈم؟“
مجھے یادآیا، سندر نام کامیرا ایک پرانا طالب علم، سرکاری اسپتال میں وارڈ بوائے ہے۔میں نے سندر کوفون کیا اور حالت بتائی۔
”سندر، یہ لوگ بڑے غریب ہیں۔سرکاری اسپتال میں آج کل کچھ نہ کچھ خرچ تو آتا ہی ہے۔ان کی حالت…“
”آپ ایسے کیجئے۔ ان کو میرے پاس بھیج دیجئے۔ میں ان کو چٹھی لکھوا دوں گا۔تو علی باغ کے سرکاری اسپتال میں بچّے کا علاج فری ہو جائے گا۔“
”کیسا اسپتال ہے یہ؟وہاں انکیوبیٹر تو ہے؟“
”ہاں۔ اس کے لئے تو وہ مشہور ہے۔“
”بچّے کو لانے کی ضرورت نہیں نا؟“
”اس کو چیک کرکے ہی چٹھّی دیں گے نا!“
”وہ کچھ دیر پہلے ہی وہاں سے بچّے کو چیک کروا کر لائے ہیں…..اچّھا کوئی بات نہیں میں اس کو تمھارے پاس بھیج دیتی ہوں۔“
کوئی ساڑھے بارہ بجے یوسف بیوی بچے کو گھر چھوڑ کرلوٹا تو میں نے اسے ذرا سے شکایتی لہجے میں کہا”بڑی دیر لگا دی بھائی؟“، پھرمیں نے ایک پیپر پر سندر کا پورانام اور کام لکھ کر اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔
”…..اب فوراً گھر جاؤ اور بیوی اور بچے کو لے کے سرکاری اسپتال چلے جاؤ۔اِس آدمی سے ملو اور چٹھی لے کر آؤ۔ پھر علی باغ کے سرکاری اسپتال میں تم اپنے بچے کا بِنا پیسوں کے علاج کر پاؤگے۔وارڈ بوائے سندرسے چٹھی لے کر سیدھے میرے پاس آنا اور مجھ سے سفروغیرہ کے پیسے لے کرفوراً علی باغ کے لئے نکل جانا۔“
یوسف چلا گیا۔میرا جی چاہتا تھا کہ اس کے ساتھ جا کر خود اس کی مدد کروں مگر بے بس تھی۔کالج سے گھر لوٹ کرکھانا تیا رکرنا اور بائی کے ساتھ مل کر گھر کی صفائی کرنی تھی۔تین ساڑھے تین بجے سے پہلے تو میں بستر سے پیٹھ بھی لگا نہیں سکتی تھی۔ اس پر اس دن میرا بھانجا کسی کام سے یہیں آیا ہوا تھا۔اور کھانا ہمارے ساتھ کھانے والا تھا۔
دوپہر کے کھانے کے بعد بچا ہوا کھاناچھوٹے برتن میں نکال کر میں نے فرج میں رکھا اورجھوٹے برتن بائی کو دے رہی تھی کہ ایک دم یاد کیا،
”ارے عجیب آدمی ہے۔ساڑھے تین بج رہے ہیں۔ اب تک نہیں آیا۔“، میں نے سندر کو فون لگایا۔
”میڈم میں اُس کا رستہ دیکھ کر کھانا کھانے گھر چلا گیا تھا۔“
”ابھی نہیں آیا؟“
”نہیں۔“
”آ جائے تو ذرا ایک مسڈ کال دے دینا۔“
”آپ ہماری ڈین ڈاکٹر سے بات کر یں گی؟“،سندر نے پوچھا۔
”ہاں،کراؤ۔“
ڈین ڈاکٹر سے میں نے تفصیل سے بات کی تووہ بولیں،
”اس اسپتال میں انکیوبیٹر کی سہولت نہیں۔علی باغ کے سرکاری اسپتال لے جانا ہی ٹھیک ہے۔“
”آپ کا اپنااسپتال بھی ہے،اس میں انکیوبیٹرہے؟“
”ہاں۔“
”اس کی فیس کیا ہے؟“
”میں ابھی کچھ نہیں بتا سکتی۔میرے پتی ناسک گئے ہوئے ہیں۔وہ بچوں کے ڈاکٹر ہیں۔ اُنھی کو پتہ ہے۔“، ڈین ڈاکٹر نے شاید کنگال مریض سے بچنے کی کوشش کی تھی۔
شام چھے بجے میں نے دوبارہ سندر کو فون کیا۔وہ بولا،”میں ابھی آپ کو فون کرنے ہی جا رہا تھا۔وہ ابھی ابھی میرے پاس سے علی باغ کے سرکاری اسپتال کے لئے سفارشی خط لکھوا کرلے کر گیا ہے۔“
”اچّھا!اتنی دیر سے آیا؟“
”آپ نے کہا تھا، اسی لئے میں یہاں اتنی دیر تک رکا ہوا تھا۔ورنہ کب کا نکل جاتا۔“، اس نے احسان جتایا۔
”شکریہ سندر۔“، وہ خوش ہوا، بولا،
”میں نے اس سے کہا تھا کہ ایمبیولینس لے کر نہ جائے۔ہزار بارہ سو روپیے لگ جائیں گے۔ بس سے جائے گا تو سو روپیوں میں پہنچ جائے گا۔“
”اچّھا، اب وہاں سے نکلا ہے، تو سیدھے میرے پاس آئے گا…لیکن ٹھنڈ بڑھ رہی ہے۔اس وقت بھیجوں یا کل صبح؟“
”صبح ہی بھیجئے۔“
”شکریہ سندر!“،میرے دل کو سکون آیا۔
اس شام یوسف میرے پاس نہیں آیا۔مجھے بے چینی ہونے لگی۔جی چاہا، کاجو واڑی کی جھونپڑپٹّی میں جا کر اس کو ڈھونڈ لوں۔کہا تو اس نے یہی تھا کہ پہاڑی شروع ہوتے ہی کچھ گھر چھوڑ کر اس کا گھر ہے۔ میں نے گھڑی دیکھی۔رات کے نو بج رہے تھے۔ہمارے گھر سے اس کا گھر صرف دس منٹ کے فاصلے پر ہے، مگر اس وقت جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔رات کے وقت جھگّی جھونپڑپٹّیوں کے لوگ دن بھر کی مزدوری کے بعد تھوڑا یا بہت پی کر گھر لوٹتے ہیں۔میں نے دیسی دارو کی تیز بدبو اپنی سانسوں میں محسوس کی اور خود کووہاں نہ جانے پر راضی کر لیا۔پھر سوچنے لگی کہ کاجوواڑی کے کسی طالب علم یا اپنے شوہر کے کسی مزدور کو فون کرکے پتہ کرلوں۔ایک لڑکی کا خیال آیا، جو کالج کے آخری سال میں تھی۔دراصل ہمارا کالج کاجوواڑی کی پہاڑی سے بالکل سٹا ہوا ہے۔کاجو واڑی، جنگلاتی علاقے میں آتا ہے….یعنی سرکاری جائیداد! ووٹ بینک ہونے کی وجہ سے جب کبھی اِس علاقے کو، جھونپڑیوں سے پاک کرنے کا پروگرام بنتاہے، یہاں کی عورتیں بیلن لے کر نیتا کے پاس پہنچ جاتی ہیں۔ اور وہ انھیں یقین دلاتا کہ ان کے گھر کو ٹوٹنے نہیں دیگا۔پوری پہاڑی پر بنے ہوئے گھروں کی، پتہ نہیں کس طرح گھر پٹّے کی رسیدیں بھی موجود ہیں!یہاں کم سے کم دو ڈھائی سو گھر ہوں گے۔ کچھ لوگوں نے پکّے گھر بھی بنا لیے ہیں۔ایسے پکّے گھر والوں نے مل کر اپنا ایک ذاتی پاخانہ بنا لیا،جس کی ایک ایک چابی بھی وہ اپنے پاس رکھتے ہیں۔ باقی لوگوں کے لیے اس کا بندوبست ہائی وے کے قریب پرانے پولس سٹیشن کے پڑوس میں نگرپالیکا کے بنائے ہوئے شوچالیہ میں ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچّے پرانے ممبئی پونا ہائی وے کے کنارے، کاجو واڑی سے لگی چھوٹی سی برائے نام سڑک پر صبح آرام سے فارغ ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
”کیا کیا جائے؟“، میں نے اپنے شوہر سے پوچھا، ”بچّے کو پوری رات گھر میں رکھنا تو خطرے سے خالی نہیں ہے۔ایک دو دنوں کے لئے اپنے یہاں کے ہی دن کے دو ہزار والے اسپتال کے انکیوبیٹر میں رکھوا دیتے ہیں۔“
”کچھ فائدہ نہیں۔ پھر پرائیویٹ اسپتال والے کسی نہ کسی بہانے کئی دنوں تک روکے رکھیں گے۔تم تگڑی آسامی جو ہو!“
صبح تین بجے ہی میری آنکھ کھل گئی۔ مجھے بے چینی تھی۔ بچّے کو جلدی اسپتال پہنچانا تھا۔کتنی خوشی ملے گی مجھے،جب اس بچّے کو ہنستا، کھیلتا، بڑھتا دیکھوں گی۔ ہمارے سماج میں بیٹوں کا پیدا ہونا کتنی خوشی لاتا ہے۔کیسے عجیب لوگ ہیں! کیا اسے پتہ نہیں تھاکہ اس کی بیوی کے یہاں بچّہ ہونے والا ہے؟کہ نو مہینوں میں اس نے کچھ پیسے نہیں جُٹائے!
میں نے پلان بنایا کہ صبح پہلے یوسف کے گھر جاؤں گی۔روپئے دے کرانھیں جلدی نکلنے کو کہوں گی… مگر ہلکی سی ورزش کرکے، شوہر کے لئے ناشتہ تیار
کرکے،خود تیار ہو کر ایک کپ چائے پی کرنکلتے نکلتے ساڑھے سات بج گئے۔کالج کی پہلی گھنٹی پونے آٹھ بجے ہوتی ہے۔
’اِس وقت جاؤں گی تو کالج کے لئے دیر ہو جائے گی۔اور پھر گھر ڈھونڈنا بھی تو پڑے گا۔‘،میں نے اپنے آپ سے کہا۔
چوتھا لیکچر فاؤنڈیشن کورس کا تھا۔ لیکچر میں صرف دو لڑکے موجود تھے۔ سپورٹس شروع ہو رہے تھے۔ اور اس کے ادگھاٹن کا دن تھا۔ طلبا باہر پلے گراؤنڈ کی ریلنگ سے لگے کھڑے تھے۔ لیکچر کے دوران میں نے دونوں سے اُس سات مہینوں میں پیدا ہونے والے بچّے کے بات کی اور کہا،”یہ لوگ بے پروا ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ پتا نہیں ان کو سمجھ میں آئے گا کہ نہیں!کس بس میں بیٹھیں، کس میں نہیں! تم لوگ میرے ساتھ چلو اور انھیں علی باغ کی بس میں بٹھاکر ہی اپنے گھر جاؤ۔“
میں دونوں لڑکوں کو لے کر یوسف کے گھرکی طرف نکل پڑی۔ گھر ڈھونڈھنے میں تکلیف نہیں ہوئی۔ یوسف نے بتایا تھا، کاجو واڑی کے چھوٹے سے گیٹ میں داخل ہوتے ہی دائیں طرف ان کا گھر تھا۔
وہیں ایک جھونپڑے کی عورت سے، جو بال بنا رہی تھی، میں نے پوچھا،
”یوسف کہاں رہتا ہے؟“، وہ کنگھی ہاتھ میں لے کر سوچنے لگی۔
”جس کے گھر پرسوں بچّہ ہوا ہے…۔“، میں نے وضاحت کی۔ اس نے کنگھی سے سامنے کی طرف اشارہ کیا۔
میں آگے بڑھی۔ کاجو واڑی کے اس حصّے میں بے حد غریبی دکھائی دی۔ جھونپڑے ایک دوسرے سے لگے ہوئے تھے۔ ان کے درمیان تنگ گلیاں تھیں۔ پہاڑی کے اس چھور پر جھونپڑے کے سامنے کچھ بچّے اور تین عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ پیشانی پر بِندی نہیں لگانے کی وجہ سے وہ مجھے مسلمان محسوس ہوئیں ورنہ وہ توساجھے کلچر کا نمونہ ہی تھیں۔ ان کے پیچھے ذرا سی دوری پر گندی چٹائیوں سے بنا کھلی چھت کا باتھ روم تھا، جس میں کوئی نہا رہا تھا۔چٹائی کے نیچے سے صابن کا گندہ پانی پتّھروں کے درمیان سے بہتا ہوا اپنا راستہ بناتا اتر کر پہاڑی کی ڈھلانوں میں کہیں گم ہو رہا تھا۔ بغل میں ایک چھوٹا سا، ٹن کے پترے کی چھت اور بانس کی لکڑیوں کی دیواروں کابنا جھونپڑا تھا۔ میں نے جھونپڑے میں سرسری نظر دوڑائی۔دیواروں پر مٹّی لپی ہوئی تھی۔ دیوار میں لگی ہوئی لکڑی کے ٹکڑے پر کچھ صاف دھلے چمچماتے برتن سلیقے سے لگے ہوئے تھے۔ اُسی کے نیچے مٹّی کا چولھا تھا جس کے پاس کچھ سوکھی لکڑیاں پڑی تھیں۔ جھونپڑے میں دروازے کے قریب ایک کھاٹ پڑی ہوئی تھی۔ کھاٹ کے پیچھے جھونپڑے کو دو حصّوں میں تقسیم کرتا ہوا ایک پردہ رسّی سے باندھ کر لٹکا دیا گیا تھا۔
”بچّہ کیسا ہے؟“، میں نے یوسف کی بیوی صابرہ کو اسی کھاٹ کے پائنتے ایک پیر موڑکربیٹھے دیکھ کر پہچانا اور پوچھا۔مگر صابرہ کے بجائے جھونپڑے کے باہر بیٹھی ہوئی عورتوں میں سے گھنگریالے بالوں والی ایک موٹی سی بے ترتیب سی ساڑی پہنی ہوئی عورت نے جواب دیا،
”مر گیا۔“
”کب؟“، میرے اندر کی سانس اندر رہ گئی۔
”آج صبح، چھے بجے۔“
میں افسوس سے زمین میں گڑی جا رہی تھی۔
”کل تم گھر کیوں نہیں آئے؟،میں نے صابرہ سے پوچھا۔وہ چپ رہی مگر گھنگریالے بالوں والی بولی،
”اِن لوگوں نے اسپتال کی چٹّھی گما دی۔اور آپ کا گھر بھی نہیں ملا۔“
”گھر نہیں ملا؟“
”گھر تو میں نے یوسف کو دکھا دیا تھا۔“
”یوسف نے صابرہ کو آپ کے گھر کا راستہ سمجھا دیا تھا مگر اس کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ صابرہ جائے مگر یہ تو…“
”تم کون ہو؟“، گھنگریالے بالوں والی کے بار بار بات چیت میں حصہ لینے سے مجھے لگا، وہ یوسف کے گھر کی ہی ایک فرد ہے۔
”میں بھی یوسف کی عورت ہوں۔“مجھے عجیب سا محسوس ہوا۔
”ذرا بچّے کا چہرا دکھاؤ۔“، میں آہستہ آہستہ چلتی ہوئی یوسف کے گھر میں داخل ہوئی۔
کھاٹ پر پڑی ہوئی سفید چادر کو ہٹا کر صابرہ نے مجھ کو بچّے کا چہرہ دکھایا۔میرادل بری طرح دھڑکا۔ کل یہ بچّہ جس طرح دکھائی دے رہاتھا، یاد آیا، شاید زندہ رہنے کی خواہش ظاہر کر رہا تھا۔اس کے پھولے ہوئے گال دب چکے تھے۔رنگ سانولا ہو گیا تھا… آس پڑوس کتنابے حس ہے!… کہ ایسا تو ہوتا ہی رہتا ہوگا! میں نے دل میں سوچا۔
”تمہارا آدمی کہاں ہے؟“
”حافظ جی کو بولنے گیا ہے، میّت کے کام کے لئے۔“، گھنگریالے بالوں والی بولی۔
تبھی اچانک ایک، دو سال کا بچّہ تیزی کے ساتھ گھنگریالے بالوں والی عورت کی جانب دوڑتا ہوا آیا۔وہ پیر پسار کر بیٹھی ہوئی تھی۔ بچّے کو دیکھ کراس نے فوراً آلتی پالتی مار لی۔ بچّہ دوڑ کر اس کے پاؤں پر لیٹ گیا۔اور وہ بچّے کو دودھ پلانے لگی۔اسے اپنے کپڑوں کی سدھ بدھ کہاں تھی! مجھے شرم سی محسوس ہوئی۔ اب میں اس کے اور اپنے طلبا کے درمیان آ گئی۔
میرے دل نے کہا،’بچّے کو بچانے کے لئے کچھ پیسے خرچ کرنا چاہتی تھی، وہی شاید اس کی میّت میں کام آجائیں‘۔
”میّت کے لئے پیسوں کی ضرورت ہوگی۔“،میں نے پرس سے پیسے نکالتے ہوئے صابرہ سے کہا۔
”نہیں نہیں…میّت کے لئے پیسے مت دینا۔ میں یہاں بیٹھی ہوں۔“،گھنگریالے بالوں والی عورت کی بات سے میں اچنبھے میں تھی۔
”تم پہلی بیوی ہو یا دوسری؟“، میں نے پوچھا۔
”میں پہلی ہوں۔“
میں نے اسے غور سے دیکھا۔ یوسف کی دونوں بیویوں میں عمر یا شکل و صورت میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آیا۔
”تمہارے بچّے نہیں تھے،اس لئے اس نے دوسری شادی کر لی؟“
”میرے مرد کو اس سے پیار ہو گیا تھا۔ اسی لئے اس کے ساتھ بھاگ گیا تھا۔اس وقت تو میرا پہلا بچّہ میرے پیٹ میں تھا۔“
”میّت کے لئے نہ سہی کچھ خرچ کے لئے تو دینے دو اُسے۔“،میں نے گھنگریالے بالوں والی عورت سے صابرہ کو پیسے دینے کی اجازت مانگی۔
”میرے پاس میرے بچّے کے کام کے لئے پیسہ ہے۔ یہ میرا حق ہے۔ میں تو اس کو اور میرے مرد کو بہت بولی تھی کہ میں خرچہ کرنے کو تیّار ہوں، مجھے لڑکا دے دو۔ پھر میں اسے اسپتال لے چلتی ہوں۔ لیکن اس نے ایک نہیں سنی، جیسے کہ بچّہ بڑا ہو کر میرا ہی سہارا بننے والا تھا۔“، گھنگریالے بالوں والی عورت جب ایسا کہہ رہی تھی، تب مجھے اس کے چہرے پربڑی بیوی ہونے کا ٹھسّہ دکھائی دیا۔
میں نے پرس میں سے پانچ سو روپئے کا نوٹ نکال کر صابرہ کے ہاتھ میں رکھنا چاہا۔ پردے کے پیچھے سے ایک مرد باہر آیا۔اس کا چہرہ یوسف سے ملتا تھا۔مجھے لگا، یہ ضروراس کا بھائی ہوگا۔اس نے ہاتھ بڑھا کرروپیہ لینا چاہا۔ میں نے اپنا ہاتھ پیچھے ہٹا لیا تو اس نے صابرہ کو ہاتھ بڑھانے کا اشارہ کیا، جیسے کہہ رہا ہو کہ وہ بھی تو روپئے لے کر صابرہ کو ہی دینے والا تھا اور میں غلط سمجھ گئی ہوں۔
سست چال سے چلتی ہوئی گھر پہنچی۔دروازے پر کام والی بائی میرا انتظار کررہی تھی۔
”آپ نے بچّے کو علی باغ بھجوا دیا نا؟ اب ٹھیک ہو جائے گا۔کانچ کی پیٹی میں رکھتے ہی بچّے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔“، بائی نے مجھے دیکھتے ہی کہا۔
”بچّہ مر گیا۔“
”کب؟“
”آج صبح چھے بجے۔“
”آپ نے اس کو یہیں ایڈمٹ کروا لیا ہوتا تو وہ بچ جاتا نا؟“، بائی کی بات سن کر میں چونکی۔ میرے دل میں احساسِ جرم کچھ اور گہرا ہو گیا۔میں سٹپٹائی اور عام گرہستنوں کی طرح شوہر کا سہارا لے لیا۔
”صاحب نے منع کر دیا تھا کہ ’اس معاملہ میں زیادہ مت گھسنا۔اور اسپتال میں کچھ ہو جائے گا، تو یہ لوگ تمہیں کو الزام دیں گے۔‘،اب صاحب نے منع کیا تو میں کیا کر سکتی ہوں۔ہے نا؟“، اس کو جواب دیا اور احساس ِندامت سے مُکت ہو گئی۔
٭٭٭٭

تبصرہ و تجزیہ
نثارانجم
مصنفہ کا نام ذہن میں آتے ہی یہ فقرہ فکر کی چوپال پر الاؤ کے گرد بیٹھا مترنم آواز سے یوں مخاطب ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کہانی کوئی سناؤ متاشا"۔۔۔۔۔
یہاں ستوانسا ایک استعارہ ہے ہماری کم زور تار رباب سی انسانی ہم دردی کا، خدمت خلق کی کم زور ہوتی ہوئی اخلاص والی کڑی کا ، ایک فطری نسبت والی bonding کا۔
"بچہ کم زور ہے۔اِس کو کانچ میں رکھنے کو بولا ہے۔“
”نگر پالیکا اسپتال میں انکیوبیٹر نہیں ہے کیا؟“
”نہیں ہے۔“
”پھر!!!“، مجھے افسوس کے ساتھ حیرت بھی ہوئی۔ملک میں کتنے ہی چھوٹے چھوٹے گاؤں دیہات ہیں، وہاں کیا ہوتا ہوگا! یہ خیال مجھے پریشان کرنے لگا۔"
یہاں انکیو بیٹر کو اسی استعارے اور انسانی نظام والے ہم دردی کی human equipment کے تناظر میں رکھ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا نیا صارفینی کلچر، نیا معاشرتی کوڈ آف کنڈکٹ ایک نڈھال زندگی کو گرماہٹ بخشنے اور سانس پھونکنے کے عمل میں کتنا مخلص ہے۔
حال آں کہ طبی حیثیت سے انکیوبیٹرز incubater دوسرے آلات کے ساتھ استعمال ہونے والا medical equipment ہے جو اضافی مدد کی ضرورت والے بچوں کو ایک لائف سپورٹ سسٹمlife support system مہیا کراتاہے ۔ بہترین ماحول اور نگہہ داشت میں رکھنے والی ایک مشین ہے۔
قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کو اپنے پھیپھڑوں اور دیگر اہم اعضا کی نشوونما کے لیے اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ ان کی آنکھیں اور کان کے drum اتنے حساس ہوتے ہیں کہ معمولی روشنی اور آواز ان اعضا کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
نیز ، premature نو زائیدہ بچوں کے جلد کے نیچے چربی تیار کرنے کا وہ وقت نہیں مل پاتا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو گرم یا نئے ماحول سے مطابقت رکھ سکیں۔
سانس کے مسائل بھی بعض اوقات بچوں کے پھیپھڑوں میں میکونیم meconium کی موجودگی سے ہوتا ہے۔ اس سے انفیکشن اور اچھی طرح سانس لینے میں دشواری پیدا ہوسکتی ہے۔
ہم کرنا تو چاہتے ہیں کہ وقت سے پہلے عالم وجود میں آنے والے کے لیے اسباب حیات زندگی کے انکیوبٹر کا انتظام کر دیں۔لیکن ہمارا جذبہ خدمت خودی کے محور پر گردش کرتا ہوا ایک کم زور سی کوشش کرکے اپنے مسائل کے خول میں سمٹ اتا ہے۔
"کیا کروں؟….خالی انسانیت کی باتیں کرنے سے کیا ہوتا ہے! کچھ کیا نہیں تو یہ سچ مچ نہیں بچ پائے گا…..کیا کروں؟"
میں سمجھتا ہوں اردو ادب میں صادقہ نواب سحر کی فکر تنوع اظہار کا وہ کینوس ہے جس میں مقامی اور مخصوص کلچر کی زندگی اپنی قاشوں کے ساتھ اصناف ادب کے الگ الگ خانوں میں بکھری پڑی ملتی ہیں۔
یہاں صادقہ کی اس منفرد کائنات میں زندگی، رشتوں کی صلیب پر پامال، اور قدریں شکستگی سے چور چور بے حسی کی ردا اوڑھے، زندگی نفرت کی سیج پر لہو لہان ملتی ہے۔۔ان کے یہاں فکشن کے فنی لوازمات ، زبان وبیان سے منجھے ،اورندرت تکنیک کے نقش و نگار سے مزین ملتے ہیں .کردار کی تعمیر کی مٹی اپنے اطراف بکھری معاشرت سے اٹھاتی ہیں . ان کے یہاں کہانیاں احساس اور سوز و گداز سےگندھی ہوتی ہیں۔ان کے افسانوں میں تجربے کا ایک پیرا میٹر ہے جومشاہدے کی چاشنی میں گھلا ہے ،حادثات اور واقعات کے رولر کوسٹر پر
خودغرضی ، بے حسی سے نڈھال زندگی بھی ملتی ہے.
مقامی تہذیب کی جھانکیاں، زبان، لہجہ ، کردار، جگہ اور معا شرتی شناخت کے حوالے سے زیر نظر افسانے میں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔
’’کاجو واڑی کے اس حصے کی غربت کی ماری زندگی۔ ایک دوسرے سے لگے ہوئے جھونپڑے۔۔۔۔۔۔۔
ان کے درمیان تنگ گلیاں ِ۔۔۔۔پہاڑی کے اس چھور پر جھونپڑے کے سامنے کچھ بچے اور تین عورتیں
بیٹھی ہوئیں۔۔۔۔۔۔پیشانی پر بندی نہ ہونے کی وجہ سے وہ اسے مسلمان دیکھنا۔۔۔۔۔ ساجھے کلچر کا نمونہ ۔۔۔۔۔۔
"گندی چٹائیوں سے بناکھلی چھت کا باتھ روم تھا، جس میں کوئی نہا رہا تھا۔چٹائی کے نیچے سے صابن کا گندہ پانی پتّھروں کے درمیان سے بہتا ہوا اپنا راستہ بناتا اتر کر پہاڑی کی ڈھلانوں میں کہیں گم ہو رہا تھا۔ بغل میں ایک چھوٹا سا، ٹن کے پترے کی چھت اور بانس کی لکڑیوں کی دیواروں کا بنا جھونپڑا تھا۔میں نے جھونپڑے میں سرسری نظر دوڑائی۔ دیواروں پر مٹّی لپی ہوئی تھی۔ دیوار میں لگی ہوئی لکڑی کے ٹکڑے پر کچھ صاف دھلے چمچماتے برتن سلیقے سے لگے ہوئے تھے۔ اُسی کے نیچے مٹّی کا چولھا تھا جس کے پاس کچھ سوکھی لکڑیاں پڑی تھیں۔ جھونپڑے میں دروازے کے قریب ایک کھاٹ پڑی ہوئی تھی۔کھاٹ کے پیچھے جھونپڑے کو دو حصّوں میں تقسیم کرتا ہوا ایک پردہ رسّی سے باندھ کر لٹکا دیا گیا تھا."
صادقہ نواب نے اپنے مرکزی کردار کی تشکیل و تعمیر اسی علاقے کےساجھا کلچر کی زمین سے کشید کی ہے۔ زبان و بیان ،ترسیل و تشکیل گھر کے اندر کی زندگی ، پردے کی تقسیم سے الگ دو ساجھے داری زندگی کی مکینی اکائی، مشترکہ کلچر میں زندگی کے شب وروز اپنی زندہ تصویروں کے ساتھ افسانے میں مدغم ہو کر ایک عہد کی زندگی کی تاریخی دستا ویز بن کر جلوہ گر ہوتی ہیں۔
اور اس دستاویز میں ہندستان کے مختلف علاقے کی معاشرتی زندگی کی منھ بولتی تصویریں ہمارے ضمیر کے کان مروڑتی ملتی ہیں۔ ایک حساس قلم کار کا قلم مسائل کی ژرف بینی سے فکرکی ایک ایسی دیکھی بھالی دنیا خلق کرتا ہے مانو ہماری آنکھیں ان کی جھگی اور ٹین والی چھت سے چپکی ہوئی ہوں اور ہم سب کچھ فکر مندی کی نم آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور کچھ کرنے سے معذور صرف سوچ کر اور کسمسا کر رہ جاتے ہیں۔
” کل یہ بچّہ جس طرح دکھائی دے رہاتھا، یاد آیا، شاید زندہ رہنے کی خواہش ظاہر کر رہا تھا۔اس کے پھولے ہوئے گال دب چکے تھے۔رنگ سانولا ہو گیا تھا…آس پڑوس کتنابے حس ہے. "
ایک کم زور سی انسانی تار عنکبوت پر ٹنگی جذبوں کی پھپھوندی لگی کوشش ایک ستوانسی زندگی میں گرماہٹ بھرنے سے رہ جاتی ہے۔
”بچّہ مر گیا۔“
”کب؟“
”آج صبح چھے بجے۔“
”آپ نے اس کو یہیں ایڈمٹ کروا لیا ہوتا تو وہ بچ جاتا نا؟“، بائی کی بات سن کر میں چونکی۔ میرے دل میں احساسِ جرم کچھ اور گہرا ہو گیا۔
گھر سے دس منٹ کے فاصلے پر اکھڑتی سانس اور ٹھنڈا ہوتے جسم تک ہمارے مضبوط وسا ئل کے helping hands اور راحت پہنچانے کی فکر مندی بڑی سرعت کے ساتھ نہیں پہنچ پاتی کیوں۔؟
ایک سوال ہے جو ابھر کر آرہا ہے۔
احساس کی پیٹھ پر ضمیر کی ضرب کاری سے ہماری اپنی اور نئے سماجی تیور کی lame excusing عذر لنگ بھی دیکھیں۔
” صاحب نے منع کر دیا تھا کہ، ’اس معاملہ میں زیادہ مت گھسنا۔اور اسپتال میں کچھ ہو جائے گا، تو یہ لوگ تمہی کو الزام دیں گے۔‘،اب صاحب نے منع کیا تو میں کیا کر سکتی ہوں۔ہے نا؟“، اس کو جواب دیا اور احساسِ ندامت سے مُکت ہو گئی۔"
ننھا فرشتہ ٹکرٹکر آسمان کی جانب دیکھ رہا تھا۔موٹی سی ناک، بڑی بڑی آنکھیں، گہرے گلابی ہونٹ، گورا چِٹّا، نوزائیدہ۔۔۔۔۔
”ساتویں مہینے کا ہے؟“،
یہ منظر دیکھیں جینے کی خواہش لیے آسمان کو ٹکر ٹکر دیکھنا ۔۔۔۔
افسانے کے کلایمکس کو اسی جملے نے زندگی دی ہے لیکن کیا یہ سائنسی طور پر ممکن ہے کہ دن کے وقت جب سورج سر پر ہو ایک ساتوانسا بچہ آنکھیں کھول کر ٹکر ٹکر آسمان کو دیکھے۔
میم کو بڑی بڑی آنکھیں بھی دکھ گئیں۔۔۔۔۔۔۔
افسانے میں منظر نگاری خوب ہے لیکن افسانے کے پہلے منظر میں وہ تخلیقی ندرت اور ترجمانی نہیں جو کاجو واڑ ی کی زندگی کی قلمی تصویروں میں ہے.
ایک اچھے افسانے پر مصنفہ کو مبارک باد.
صادقہ نواب سحر کا ڈراما یہاں ملاحظہ فرمائیں : سلطان محمود غزنوی
نثار انجم کا یہ تجزیہ بھی پڑھیں : افضال انصاری کے افسانہ آئینوں بھرا کمرہ کا تجزیاتی مطالعہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے