سلطان محمود غزنوی

سلطان محمود غزنوی


(طبع زاد تاریخی اردویکبابی ڈرامہ)

صادقہ نواب سحر

(کھوپولی، رائیگڈھ، مہاراشٹر)

 

منظر ۱
(سلطان محمود غزنوی کا دربارِ غزنی۔ شاہانہ لباس میں سلطان اسٹیج پر گھوم رہا ہے۔ اور ساتھ ہی بے چینی سے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر تا جاتا ہے۔)

محمود  :  ہائے افسوس خدایا!
وزیر اعظم: (قریب جاکر) سلطان کا اقبال بلند ہو۔ حضور نے یاد فرمایا؟
سلطان محمود: ہاں محترم وزیر اعظم قبلہ تشریف رکھئے۔ آج دل بڑا بیقرار ہورہا ہے۔ پتہ نہیں کیوں صبح ہی صبح آئینہ دیکھ لیا۔ پریشان ہو اٹھا۔
وزیر: حضور کی طبیعت تو ناز سازنہیں؟

سلطان محمود: طبیعت بیزار ہے۔
وزیر : وجہ!
سلطان محمود : (طنز سے) وجہ آپ نہیں جانتے؟ کیا آپ بیزار نہیں ہوتے مجھے دیکھ کر؟
وزیر : سلطان کو دیکھ کر تو میری آنکھوں کو ٹھنڈک ہوتی ہے۔
سلطان : یہ محض دل خوش کرنے والی باتیں ہیں۔

وزیر: (خوشی میں آکر) میں نے آپ کی پیدائش کے وقت آپ کے بابا امیرسبکتگین کے چہرے پر وہ خوشی دیکھی تھی سلطان، جو اس وقت تک کبھی نہیں دیکھی تھی۔
محمود : مجھ جیسی شکل والی اولادپا کر بھی۔
وزیر : اول تو چیچک نے آپ پر بعد میں حملہ کیا تھا۔
محمود : چیچک نہ ہوتی تو بھی شہزادوں کی صورتیں ایسی ہوتی ہیں کیا؟
وزیر : سلطان! آپ اس وقت شہزادے نہیں صرف بیٹے تھے، سامانی حکومت کے ایک وفادار وزیر کے بیٹے۔ اور پھر اولاد کی شکل و صورت سے ماں باپ کو کیا؟
محمود : پھر کیا ایسی شکل و صورت والی اولاد پر کوئی باپ خوش ہوتا ہوگا!
وزیر : سلطان میں آپ کی بات سے اتفاق نہیں کرتا۔ دوسری بات یہ کہ سن ۷۵۳ ہجری میں امیر سبکتگین ایک رات خواب میں دیکھا کہ ان کے قیام کے آتش کدہ سے ایک درخت بلند ہوا۔ اور اتنا بلند ہوا کہ ایک بہت بڑی آبادی کے سر پر سایہ کرنے لگا۔ امیر کو محسوس ہوا امیرا بچہ ضرور بادشاہ بنے گا۔، صبح تم پیدا ہوئے۔ بتاؤ کسی بھی باپ کے لئے یہ خوشی کی بات ہے یا نہیں!
محمود : محترم، یہ قصہ سنا کر آپ نے میرا اعتماد بڑھایا۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں۔
وزیر : شکر گزار میرا نہیں خدا کا ہونا چاہیے جس نے تمہیں خدمت خلق کا موقعہ دیا، غزنی وخرامان کا بادشاہ بنایا!
محمود : الحمد اللہ!محترم میں یہی کہنا چاہتا تھا۔ میرا درمیانہ قد،قوی الجثہ جسم، چیچک کے داغوں سے بے رونق چہرہ….. محترم ایک بات بتایئے۔ کہانیاں پڑھی ہیں، دیکھا بھی ہے، مشہور بھی ہے کہ بادشاہوں کا چہرہ دیکھنے سے آنکھوں کی روشنی بڑھتی ہے۔ لیکن میرا معاملہ تو الٹا ہے۔یقینا میری شکل دیکھ کر لوگوں کو کوفت ہوتی ہوگی۔ یہ چہرہ، یہ شخصیت اور یہ شاہانہ سجاوٹ…. اُف! محترم کم سے کم مجھے سادگی کا لباس پہننے کی اجازت تو دیجئے…. وزیر
سلطان کا اقبال بلند ہو۔ آپ کی شکل تو چند لوگ ہی دیکھ پاتے ہیں۔ لیکن سیرت اور خصلت سے ساری دنیا کو فائدہ پہنچتا ہے۔ خدا آپ کو توفیق دے۔ میری رائے میں مناسب یہی ہے کہ پسندیدہ خصلتیں اور نیک عادتیں اختیار فرمایئے۔ اور اپنی صورت کے تصور سے در گزر کیجئے۔ اس طرح سے رعایا میں آپ کی محبت بڑھے گی۔ اور ان کے دل و دماغ آپ کی محبت اور رعایا پروری کے خیال سے روشن رہیں گے۔
محمود : (جھک کر وزیر کا ہاتھ چومتے ہوئے) محترم وزیر کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ بادشاہ کی رہنمائی کرے۔ آپ نے جس طرح میری رہنمائی کی ہے کہ حقیقت میں سارا احساس کمتری جاتا رہا۔
وزیر : آج کے بعد دانستہ ایسے اوصاف اپنے میں پیدا کرو۔ انشاء اللہ دھن دولت، راج پاٹ میں کوئی ہوتو ہو، خصائل و شمائل میں کسی اور بادشاہ کو آپ پر فوقیت نہ ہوگی۔ انشا ء اللہ تاریخ اس کی گواہ رہے گی اور حقیقت کے سچے کھوجی آپ کے صفات صدیوں بعد بھی دریافت کریں گے۔
محمود : آمین۔
وزیر : ثم آمین۔


پردہ گرتا ہے۔


منظر۔ IIدو: (الف)


(سلطان کے محل کے عام دربار کا منظر۔ بادشاہ اپنے تخت پراوربہت سے درباری بادشاہ کے تخت کے دونوں جانب اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے ہیں۔ پردہ اٹھتے وقت اسٹیج کے درمیان بادشاہ کو ایک غریب شخص کو پیسوں کی تھیلی دیتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ وہ شخص جھک کر آداب بجا کر اسٹیج سے چلا جاتا ہے۔)

درباری : سلطان کا اقبال بلند ہو۔

سلطان انصاف کا مجسمہ ہیں۔
سلطان محمود : (تعریفوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اسٹیج کے ایک طرف کھڑے ایک شخص سے) تمہیں کیا شکایت ہے اگلے فریادی۔

فریادی : (جھک کر آداب بجا لاتے ہوئے) سلطان میری درخواست ہے کہ میری شکایت عام دربار میں سننے کے قابل نہیں۔ اگر مجھے تخلیہ میں عرض کرنے کی اجازت مل جائے تو مناسب ہوگا۔
محمود : (درباریوں سے) تخلیہ! (سبھی درباری اسٹیج سے چلے جاتے ہیں) کہو فریادی اور بے خوف ہوکر کہو۔
فریادی : مہینہ بھرپہلے ایک شخص رات کے وقت میرے گھر آیا۔ مجھے مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا۔ مگر میری بیوی کو باہر نکلنے نہیں دیا۔ وہ تڑپتی رہی بلبلاتی رہی۔ خدا کا واسطہ دیا۔ جسم پر پہنے زیور تک اس کے حوالے کردئے۔ مگر نہیں۔ اس نے دروازہ بند کیا۔ اور صبح گھر چھوڑ کر چلا گیا۔
محمود :تم نے داروغہ سے شکایت نہیں کی؟
فریادی : کی تھی۔ انھوں نے یقین دلایا تھا کہ اب ایسا نہیں ہوگا۔ مگر ہوا اور ایک بار نہیں کئی بار۔ شریعت کے احکام کی اس خلاف ورزی کو سبھی کھلی آنکھوں دیکھتے ہیں۔ اور خوف سے چپ رہتے ہیں۔
محمود : (غضب ناک ہوکر کھڑا ہوجاتا ہے) کس کے خوف سے؟
فریادی :خداوند تعالیٰ نے آپ کو بادشاہ بنایا ہے۔ اگر آپ میری فریاد سن کر اس کا انتظام کردیں تو بہتر ہوگا، ورنہ صبر کرکے بیٹھا رہوں گا اور خدائے برتر و حقیقی سے امیدوار رہوں گا کہ وہ ظالموں سے بدلہ لے۔
محمود : (غصہ سے) فریادی! تم بتاتے کیوں نہیں، کون ہے وہ بار سوخ شخص جو میری حکومت میں تمہارے ساتھ اس قدر ظلم کرتا ہے؟ کون ہے وہ نا ہنجار؟
فریادی : (بادشاہ کے غضب ناک لہجہ سے کانپ کر سرجھکاتے ہوئے) سلطان کا بھانجہ۔ محمود (اچانک سر نیچا کرکے لرزنے لگتا ہے۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ ایک لمحہ بعد وہ کہتا ہے) فریادی تم پہلی بار ہی میرے پاس کیوں نہ آئے؟ میں اُسی وقت انصاف کردیتا۔
فریادی : سلطان میں نے آپ تک پہنچنے کی بڑی کوشش کی مگر باریابی کا موقعہ نہیں ملا۔ دربان اور پہرے داروں سے نظر بچا کر آج حاضر ہوا ہوں۔
محمود : (تا لی بجا کر) دربانوں کو حاضر کیا جائے۔ (دربان سرجھکائے آتے ہیں اور کورنش کرتے ہیں۔سلطان ان سے کہتا ہے۔)

تم لوگ میرے انصاف کی راہ میں حائل ہو۔ بتاؤ اِس شخص اور اِس جیسے لوگوں کو دربارِ عام میں پہنچنے نہ دینے کی تمہیں کیا سزا دی جائے؟
ایک دربان : (اپنے ساتھیوں کے ساتھ گھبرا کر کانپتے ہوئے سر جھکا کر) ہمیں معاف کردیجئے۔ یہ ہماری پہلی خطا ہے۔
محمود : یہ تمہاری پہلی اور آخری خطا ہے، یاد رہے۔ اب جاؤ اور آئندہ یہ شخص جس وقت میرے پاس آنا چاہے آنے دیا جائے۔ اور اِسے مجھ تک پہنچا دیا جائے۔

(دربان رخصت ہوجاتے ہیں۔ سلطان محمود فریادی سے کہتا ہے) اب تم اطمینان سے اپنے گھر جاؤ کسی سے نہ کہنا کہ بادشاہ سے مل کر آئے ہو۔ اور جس وقت میرا وہ ناہنجار ظالم بھانجہ تمہارے گھر آئے۔ تم فوراً میرے پاس آکر مجھے مطلع کردو۔
فریادی : جہاں پناہ! مہینوں بعد آج بڑی مشکلوں سے حاضری کا موقعہ ملا ہے۔ ہوسکتا ہے دوبارہ نہ ملے۔
محمود : نہیں!اب ایسا نہیں ہوگا۔ دربانوں کو اپنی جان عزیز ہے لیکن اگر تم کسی ایسے وقت آئے جب میں آرام کررہا ہوں اوردربان تم کو آنے نہ دیں تو محل کے پچھواڑے نیم کے درخت کے سامنے والے دروازے پر آہستہ سے آواز دینا۔
(فریادی جھک کر کورنش بجا کر چلا جاتا ہے۔)

(فیڈ آؤٹ یعنی اسٹیج پر اندھیرا)

منظر ۲۔ (ب)

فریادی کے مکان کا منظر

(فریادی کے مکان کا ایک کمرہ۔ گھپ اندھیرا۔ کسی کے فرش پر گرنے اور ایک عورت کی چیخ کی آواز سنائی دیتی ہے۔ پھر سلطان محمود کی آواز سنائی دیتی ہے۔)

محمود : فریادی شمع جلا دو۔
(دھیرے دھیرے منظر صاف دکھائی دینے لگتا ہے۔ کمرے میں فرش پر ایک مرد زرق برق لباس میں گرا پڑا ہے۔ بکھرے بالوں والی ایک عورت سمٹی ہوئی سی نظریں جھکائے کھڑی ہے۔)
فریادی : سلطان کا اقبال بلند ہو۔ سلطان کا انصاف تا قیامت زندہ رہے۔
محمود : جلدی سے تھوڑا سا پانی پلا دو۔ بہت پیاساہوں۔ (فریادی پانی لا کر دیتا ہے۔ سلطان پانی پی کر کہتا ہے) اب جاؤ آرام کرو۔
فریادی : سلطان آدھی رات کو آپ کے آرام میں مخل ہو،ا آپ کی خواب گاہ پر آواز دے کر آپ کو جگانا پڑا۔
محمود : بادشاہ کی زندگی چین، آرام رعایا کے لئے وقف ہوتے ہیں۔
فریادی :  ایک بات کا تجسس ہے جہاں پناہ!
سلطان : کہو۔
فریادی :  مکان میں آتے ہی آپ نے شمع گُل کیوں کردی؟اور اندھیرے میں قتل کرکے پانی کیوں پیا؟
سلطان : شمع گُل کی کہ بھانجے کی صورت دیکھ کر دل نہ پگھل جائے،اور پانی اس لئے پیا کہ جب سے تمہاری فریاد سنی تھی۔ظالم کو سزا دلانے تک کھانا پینا اپنے پر حرام کرنے کی قسم کھالی تھی۔ تین دن کچھ کھایا نہ پیا۔ اب تمہارا انصاف پورا ہوچکا تو پیاس کا شدید احساس بھی ہوا۔
فریادی : سلطان کے عدل سے مجھے یہی امید تھی۔

منظر ۳

(سلطان محمود غزنوی کا عام دربار لگا ہوا ہے۔ سلطان کے تخت کے دونوں طرف چار وزیر بیٹھے اور سنتری کھڑے ہیں۔)


بڑھیا : جہاں پناہ! فریاد! قافلہ جارہا تھا اچانک ڈاکوؤں نے اُس پر حملہ کیا۔ مال لوٹ لیا اور میرے بیٹے کو مار ڈالا۔
سلطان محمود : قافلے میں کون کون تھا؟
بڑھیا : میں اور میرا بیٹا تجارت کی غرض سے تاجروں کے ایک قافلے میں شامل ہوگئے۔ بیچ میں مال و اسباب سے لدے اونٹوں کی لمبی قطار تھی اور سب محافظ اطراف میں تھے۔
وزیر :  تعجب ہے سلطان محمود نے قافلوں کومنزل تک پہنچانے کا معقول انتظام کر رکھا ہے۔ اب تک قافلے اطمینان اور سکون سے آیا جایا کرتے تھے۔
محمود : (مسکرا کر وزیر اعظم کی طرف دیکھتا ہے) ٹھہرئے قبلہ!(پھر تمسخر کے انداز میں بڑھیا سے کہتا ہے)اے نیک بی بی! جس علاقے میں تم نے اپنے قافلے کا لُٹنا بیان کیا ہے۔ وہ جگہ تو غزنی سے بڑی دور ہے بلکہ سیکڑوں میل کے فاصلے پر۔ میں اتنے فاصلے پر نہ ڈاکوؤں کی سر کوبی کرسکتا ہوں اور نہ ہی راستوں کو محفوظ رکھ سکتا ہوں۔
بڑھیا :  پھر آپ ایسے ملک فتح ہی کیوں کرتے ہیں جن کا انتظام نہیں کرسکتے ہیں؟ مرنے کے بعد خداوند تعالیٰ آپ ہی سے ایسے ملکوں کی بد انتظامی کے بارے میں ضرور سوال کرے گا۔
محمود :  (ہنستے ہوئے پیسوں کی تھیلی بڑھیا کو دیتے ہوئے) نیک بی بی تمہارے جواب نے دل خوش کردیا اور دماغ روشن۔ شکر خدا کا کہ سلطان محمود سے عوام خوف زدہ نہیں اور بے خوف ہوکر اسے دین و دنیا کا سبق دے سکتی ہے۔ (بڑھیا جھک کر پیسوں کی تھیلی لیتی ہے۔ سلطان وزیر اعظم سے کہتا ہے۔)
قبلہ! ڈاکوؤں نے واقعی تاجروں اور مسافروں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ غزنی سے دور دراز علاقوں میں بہترین بندوبست کردیا جائے۔
(وزیر اعظم سر خم تسلیم کرتا ہے۔)
محمود : (اپنی بات جاری رکھتے ہوئے) اب آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ سلطان محمود آج تک اپنی حکومت کے تینتیس سالوں میں سے تیس سال تک مصروف رہا۔ کبھی بغاوتوں کی سرکوبی کے لئے اور کبھی جہاد کی نیّت سے بھارت پر بھی سترہ حملے کئے مگر بغاوت ختم کرکے اُن علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل کیوں نہیں کیا!
وزیر حضور کا اقبال بلند ہو۔ میرے ذہن میں عرصے سے یہی سوال ابھرتا رہتا تھا۔ آج اُس کا جواب اِس بی بی کی وجہ سے مل گیا۔ مرحبامرحبا سلطان!


منظر۔ ۴


(جنگل کا منظر۔ اسٹیج کے پس منظر میں گھنے درختوں کا پردہ اور دونوں بازو درختوں کے کٹ آوٹ)


(پردہ اٹھتا ہے۔)

(اسٹیج کے پچھلے حصے سے سلطان محمود غزنوی اور اس کا ساتھی وزیر سامنے کی طرف آتے ہیں اور اسیٹج کے درمیان آکر کبھی رک جاتے ہیں اور کبھی ٹہلتے ہوئے باتیں کرتے ہیں۔ دونوں کے ہاتھوں میں ننگی تلوار یں ہیں۔)


سلطان محمود : ہمیں یاد ہے تم نے ایک دن دربار میں ہم سے کہا تھا کہ تم پرندوں کی بولی جانتے ہو۔
وزیر : جی ہاں سلطان!
محمود : بھئی یہ فن تم نے کہاں سے اور کب سیکھا؟
وزیر : حضور، میں نے بچپن میں ایک پیٖر مرد کے ساتھ اچھا سلوک کیا تھا۔ ان کی بڑی خدمت کی تھی، جس کے عوض انھوں نے مجھے پرندوں کی بولی سکھا دی تھی۔
محمود :  ہاتھ کنگن کو آرسی کیا! (اشارہ سے بتاتے ہوئے) وہ دیکھو، درخت کی اِس شاخ پر دو الّو آپس میں کچھ باتیں کررہے ہیں۔ اگر تم پرندوں کی بولیاں واقعی سمجھتے ہو تو بتاؤ یہ الّو آپس میں کیا باتیں کررہے ہیں؟
وزیر : (ایک لمحہ اپنے کانوں کے پیچھے ہاتھ رکھ کر غور سے آوازوں کو سنتا ہے) سلطان کا اقبال بلند ہو! یہ پرندے جو کچھ آپس میں باتیں کررہے ہیں، وہ جہاں پناہ کے گوش گزار کرنے کے قابل نہیں۔ میرا قصور معاف کیا جائے میں سلطان کے حکم کی تعمیل نہیں کرسکتا۔
محمود :  (خود سے) ایسا کیا کہہ رہے ہوں گے وہ! (وزیر سے) وہ جو کچھ بھی کہہ رہے ہوں،مجھے سنا دو۔
وزیر جہاں پناہ، بہادر عموماً رحم دل ہوتے ہیں اور اس کا ثبوت آپ ہیں۔ آپ نے ایسا دستوربنا لیا ہے کہ جنگ میں گرفتار ہوکر آئے کسی بھی طبقہ یا ذات کے لوگوں کو قتل نہ کروایا جائے۔ جن سے کچھ اندیشہ ہوا ہے، اُن کو آپ نے معتمد لوگوں کی نگرانی میں دیا اور جن پر کوئی شبہ نہ ہوا، اُن کو غلاموں میں شامل کرلیا۔ آپ کی خدمت میں غزنی ہندوستانی غلاموں کی کثرت کی وجہ سے ہندوستان کا ایک شہر بنا ہوا ہے۔
محمود :  پھر!
وزیر :  ممکن ہے ان غلاموں کو غزنی میں رکھنے کا سبب یہ ہو کہ وہ مسلمانوں میں رہ کر اسلام قبول کرلیں گے اور اِس طرح مسلمانوں کی تعداد بڑھتی رہے گی۔ تبدیلیئ مذہب اپنی خوشی سے ہورہا ہے اسی لئے اپنے مذہب پر جمے رہنے والے دوسرے مذہب والے ہمارے یہاں ہیں اور شاید ہمیشہ رہیں گے بھی…..
محمود : (مسکرا کر) اپنی بات کہنے کے لئے تمہید باندھ رہے ہو یا میری تعریف کے پل؟؟
وزیر : (بات جاری رکھتے ہوئے) جن راجاؤں بادشاہوں کو آپ نے جنگوں میں مفتوح بنایا، انھیں بھی قتل نہیں کروایا بلکہ اکثر و بیشتر ان کا تاج خراج کے عوض انھیں واپس کردیا۔ یہاں تک کہ پنجاب کے راجہ جے پال کو آپ نے تین بار شکست دی اور تینوں بار بغاوت ختم کرکے حکومت اسے واپس کردی۔ یہ اور بات ہے کہ اپنے وطن کے رسم و رواج کے مطابق اُسے خود کو آگ میں جلانا پڑا کیونکہ تین بار ہار کر آزاد ہونے پر اُن کے یہاں ایسا ہی کرنا پڑتا ہے۔
محمود : (طنز سے) وزیر محترم…. ہم آپ سے یہی جاننا چاہتے ہیں کہ اس درخت کی شاخ پر بیٹھے ہوئے الّو آپس میں کیا باتیں کررہے ہیں؟وزیر (سلطان کی بات کو درگزر کرتے ہوئے) اور جہاں پناہ صوبہ کے حکمران مجدالدولہ کی ناشائستہ حرکتوں کی وجہ سے جب اس کی ماں سیدہ خاتون نے اسے برطرف کرکے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو آپ نے اسے اپنی ماتحتی میں لینے کا ارادہ چھوڑدیا کہ صنف نازک ہیں۔
محمود :  (آنکھیں ترچھی کرتے ہوئے) وزیر صاحب!
وزیر : اور جہاں پناہ! ظہورِ اسلام سے اب تک اشاعتِ اسلام میں آپ نے جو کوششیں کی ہیں،وہ نہایت قابل ستائش ہیں۔ عرب خاندانوں نے اسلام کی اشاعت کرکے ہندوستان کو چھوڑ دیا۔ چند روز بعد ہندوستان کے راجاؤں نے پھر ان مقامات پر قبضہ کرلیا اور بہت کم مسلمان وہاں رہ گئے۔ آپ کی کوششوں نے شاندار نتائج پیدا کئے ہیں۔
محمود : (قہقہہ لگا کر ہنستے ہوئے) وزیر محترم میں سمجھ گیا۔ الّو جو کچھ کہہ رہے ہیں، میں ضرور سنوں گا۔ تم بے خوف ہوکر سناؤ۔ اس سے تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
وزیر : شکریہ عالی جاہ!….. ِان الوّؤں میں سے ایک کی بیٹی ہے اور دوسرے کا بیٹا۔ لڑکے کا باپ کہتا ہے، ”کیا تم اپنی بیٹی کی شادی میرے بیٹے سے کرنا چاہتے ہو؟ اگر کرنا چاہتے ہوتو تم کو پچاس ویران گاؤں بیٹی کے جہیز میں دینے پڑیں گے۔“
محمود :  (اشتیاق سے) پھر بیٹی کے باپ نے کیا کہا؟
وزیر : جہاں پناہ! اس نے کہا کہ،”خدا کے فضل سے جب تک ہمارا بادشاہ سلطان محمود حکومت کررہا ہے۔ ویران گاوؤں کی کیا کمی! میں بڑی خوشی سے پچاس گاؤں نہیں، پانچ سو گاؤں دے دوں گا۔
محمود :  ہوں….ں… ں! (ایک درخت پر ہاتھ ٹیک کر گہری سوچ میں ڈوب جاتا ہے۔)
وزیر : (سلطان کو فکر میں دیکھ کر) سلطان نے سیاسی باغیوں، ملحدوں اور ڈاکوؤں کے اڈّہ بنے شہروں کو اجاڑنے اور پھر بسانے کا حکم دیا تھا، تاکہ امن و امان کا گہوارہ بن سکیں اور گناہ گاروں کے ساتھ بے گناہوں کو نقصان توہوگا ہی۔ عالی جاہ! آپ الوّؤں کی باتوں کا بالکل خیال نہ کریں۔ اُلّو تو اُلوّ ہی ہیں۔
محمود :  اُلوّؤں کی باتیں صحیح ہوں یا غلط، لیکن اس میں شک نہیں کہ میرے مشیر حکومت اور عایا کے خیر خواہ ہیں۔ فرمان تیار کرو کہ آبادیوں کو ویران کرنے کا کام فوراً بند کیا جائے۔ اور ہاں، کل دربار میں تمہارے خطاب اور انعامات کا اعلان ہوگا۔
وزیر :  (دل ہی دل میں خوش ہوکر) مرحبا سلطان۔ مرحبا مرحبا!
ختم شد

ڈاکٹر صادقہ نواب سحر : مختصر تعارف

اصل نام: صادقہ آرا (ابتدائی اشاعتوں صادقہ آرا سحر) 

تعلیم : پی ایچ ڈی ، ایم اے (اردو) ،ایم اے (ہندی ) ،ایم اے (انگریزی) ، ڈی ایچ ای ، سیٹ

ادبی شناخت: ناول نگار ، افسانہ نگار، شاعر، ڈراما نگار، تنقید، بچوں کا ادب

ذریعہ معاش: درس و رتدریس ۔ ایسوسیٹ پروفیسر ، ریسرچ گائیڈ، و صدر شعبہ ہندی ، کے ایم سی کالج ، کھپولی ، (ممبئی یونیورسٹی ) ضلع رائے گڑھ ، مہاراشٹر ۴۱۰۲۰۳

شوہر : محمد اسلم نواب

والدین : خواجہ میاں صاحب اور شرف النسا بیگم 

پتہ: ۳۰۱ ، صادقہ مینشن ایکسس بینک کے اوپر ، شاشتری نگر ، کھوپولی ، ضلع رائے گڑھ ، مہاراشٹر، ۴۱۰۲۰۳

برقی پتہ : sadiquanawabsaher@hotmail.com

مطبوعات: (اردو کتابیں ) 

۱۔ انگاروں کے پھول (شعری مجموعہ ) ۱۹۹۶ ، مکتبہ فکرو فن ( مہاراشٹراردو ساہتیہ اکادمی کا ساحر لدھیانوی ایوارڈ، پروین شاکر ایوارڈ یافتہ ) 

۲۔ پھول سے پیارے جگنو ۲۰۰۳ ( بچوں کی نظموں کا مجموعہ ) اردو چینل پبلیکیشن 

۳۔ کہانی کوئی سنائو متاشا ( ناول ) ۲۰۰۸ ، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس ، دہلی ( بہار اردو اساہتیہ اکادمی کا رشیدت النسا ایوارڈ ، اترپردیش ساہتیہ اکادمی کا ’کل ہند ایوارڈ‘ ، بھارتیہ بھاشا پریشد ، کولکاتا کا یوا لیکھک پرکاشن سمان یافتہ ) ۲۰۱۰ میں پاکستان سے شائع شدہ 

۴۔ مکھوٹوں کے درمیان ( اردو ڈراموں کا مجموعہ ) ۲۰۱۲ تخلیق کا ر پبلشر ، دہلی ، (مہاراشٹر اردو ساہتیہ اکادمی کا فکشن ایوارڈ ، اور بیسٹ اسکرپٹ ایوارڈ یافتہ ) 

۵ ۔ خلش بے نام سی ( افسانوی مجموعہ ) ۳۰۱۳ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی ( بہار اردو ساہتیہ اکادمی کا شکیلہ اختر ایوارڈ ، اتر پردیش اردو ساہتیہ اکادمی کا کل ہند ایوارڈ ، مغربی بنگال اردو ساہتیہ اکادمی کا مولانا ابوالکلام آزاد ایوارڈ یافتہ ) 

۶ ۔ جس دن سے ۔۔۔ ! (ناول) ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی ( مہاراشٹرا اردو ساہتیہ اکادمی کا فکشن ایوارڈ ، بہار اردو اکادمی کا کل ہند ایوارڈ ، اتر پردیش اردو اکادمی کا کل ہند ایوارڈ یافتہ ) 

۷۔ پیج ندی کا مچھیرا ( افسانوی مجموعہ ) ۲۰۱۸  ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی 

۸۔ ست رنگی ( شعری مجموعہ ) ۲۰۱۸ ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی 

۹۔ باوجود ( شعری مجموعہ ) ۲۰۱۸ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی 

۱۰۔ چھوٹی سی یہ دھرتی (شعری مجموعہ ۲۰۱۸ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس 

۱۱۔ دریا کوئی سویا سا ( شعری مجموعہ ) ۲۰۱۸ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی 

۲۱ ۔ راجدیو کی امرائی (ناول ) ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس 

ان کے علاوہ ہندی ، تیلگو، انگریزی ، پنجابی اور دیگر زبانوں میں ان کی تخلیقات شائع ہوئی ہیں ۔ 

متعدد یونیورسٹیوں میں ایم فل کے مقالے لکھے گئے ہیں ۔ 

متعدد رسالوں کے نمبر شائع ہوئے ہیں ۔ 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے