آدمی کا جسم کیا ہے جس پہ شیدا ہے جہاں!

آدمی کا جسم کیا ہے جس پہ شیدا ہے جہاں!

جاوید اختر بھارتی
javedbharti508@gmail.com

آدمی کا جسم کیا ہے، جس پہ شیدا ہے جہاں
ایک مٹی کی عمارت ، ایک مٹی کا مکاں
خون کا گارا بنا ہے ،اینٹ جس میں ہڈیاں
چند سانسوں پر کھڑا ہے، یہ خیالی آسماں
موت کی پرزور آندھی جب اس سے ٹکرائے گی
یہ عمارت ٹوٹ کر پھر خاک میں مل جائے گی
رب کائنات نے انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایا، دیکھنے کے لئے آنکھیں عنایت کیں، پکڑنے کے لئے اور دوسروں کو سہارا دینے کے لیے ہاتھ عطا فرمایا، چلنے کے لئے پاؤں بخشا، سوچنے، سمجھنے اور فیصلہ لینے کے لئے دل اور دماغ بھی دیا. جب انسان کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے پیدا کیا اور جب وہ دنیا میں آیا تو اس کی مٹھی بند تھی. یعنی جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بند ہی رہتی ہیں اور جب انسان دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں کھلی رہتی ہیں. یہ دونوں مواقع کی نوعیت خود انسانوں کے لئے درس عبرت ہیں اگر غور کیا جائے تو دونوں موقعوں پر گہرا راز فاش ہوتا ہے-
جب انسان دنیا میں آیا تو دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں کا بند ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عہد و پیمان اسی بند مٹھی میں لے کر آیا ہے. اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کہتاہے کہ دنیا میں جاکر آخرت کو بھول نہ جانا بل کہ یہ یاد رکھنا کہ کل پھر تجھے دنیا کو خیرآباد کہنا ہے. قبر کے راستے تجھے پھر آخرت کی منزل تک آنا ہے. میں نے تیرے جسم کے اندر جو روح ڈالی ہے اسے پاکیزہ رکھنا. کیوں کہ تیرا جسم تو بعد میں میرے پاس آئے گا لیکن روح قفسِ عنصری سے پرواز کر کے تیرے جسم سے پہلے میرے پاس آئے گی اور مجھے تیری روح ویسی ہی چاہیے جیسی میں نے تجھے عطا کی تھی.. روح کے ساتھ خرد برد نہ کرنا، روح کو داغ دار نہ بنانا، روح کو زنگ آلود نہ بنانا. اور یہ تبھی ممکن ہے جب تو دنیا کو آخرت کی کھیتی سمجھے گا اور مانے گا. اس لیے ے تو دنیا میں ایک مسافر کی طرح رہنا. اگر تو ان باتوں کو بھول کر سو برس کا سامان بھی اکٹھا کرے گا تو اتنا یاد رکھنا کہ تجھے ایک پل کی بھی خبر نہیں ہوگی، وہ ساری چیزیں، خوب کھانا پینا جو میں نے حلال کی ہیں اور کھانے پینے کے بعد میرا شکر ادا کرنا لیکن ہاں زمین پر فساد برپا نہ کرنا، کسی کی مجبوری کا ناجائز فائدہ نہ اٹھانا، غریبوں اور مسکینوں سے نفرت نہ کرنا، یتیموں اور بیواؤں کا حق نہ مارنا، انسان ہوکر انسان کے ساتھ ناانصافی نہ کرنا، حکمرانی حاصل ہونے کے بعد رعایا پر ظلم نہ کرنا اور میری بندگی سے منہ نہ موڑنا، میرے محبوب کی نافرمانی نہ کرنااور اپنے بڑوں کی عزت کرنا اور اپنے سے چھوٹوں پر پیار، شفقت و محبت کی نظر رکھنا اور زنا کے قریب بھی مت جانا اور خبردار کسی بھی چیز پر گھمنڈ و تکبر نہ کرنا اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، انھیں کبھی بھی تکلیف نہ دینا، اتنا سب کچھ دنیا میں یاد رکھنا اور اس پر عمل کرنا تو تیری دنیا بھی کام یاب ہوگی اور آخرت بھی کامیاب ہوگی. معلوم یہ ہوا کہ بندہ جب دنیا میں آتا ہے تو اسی عہد و پیمان سے اس کی مٹھی بند رہتی ہے –
نو مہینے تک بچہ رحم مادر میں رہا، اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی خوراک کا انتظام کرتا رہا، اب بچہ دنیا میں آیا، موقع پر موجود خواتین نے نہلایا دھلایا اور کپڑا پہنایا، یہ بھی قابل غور بات ہے کہ پیدا ہوا تو بھی اپنے سے غسل نہ کرسکا اور جب مرا تب بھی اپنے سے غسل نہ کرسکا، پیدا ہوا تب بھی اپنے سے کپڑا نہ پہن سکا اور جب مرا تب بھی اپنے سے کفن نہ پہن سکا، پیدا ہوا تو بھی خود سے دوچار قدم نہ چل سکا اور جب مرا تو بھی اپنے سے چل کر اصلی مکان تک نہ پہچ سکا، یہ اللہ رب العالمین کی طرف سے واضح اشارہ ہے کہ اے میرے بندے دیکھ تیری کوئی حقیقت نہیں ہے، کوئی اوقات نہیں ہے، تجھے پیدا کرنے والا میں اور تجھے چلانے والا بھی میں، ورنہ تجھے پاؤں تو میں نے عطا کرہی دیا تھا پھر بھی تو کھڑا نہ ہوسکا اور چل نہ سکا، اس لیے کہ تیرے پاؤں کو ابھی میں نے چلنے کا حکم نہیں دیا تھا تاکہ تجھے یقین ہوجائے کہ بغیر حکم الٰہی کے ایک ذرہ بھی حرکت نہیں کرسکتا. اب بچے کے داہنے کان میں اذان دی جاتی ہے اور بائیں کان میں اقامت کہی جاتی ہے، یعنی پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے متنبہ کردیا کہ دیکھ اذان اور اقامت دونوں ہوچکی ہے اب صرف جماعت کا اہتمام باقی ہے. خوب اچھی طرح تو باخبر ہوجا اذان اور اقامت کے بعد جماعت کے مابین جو وقفہ ہے بس یہی تیری زندگی ہے. اب دوبارہ اذان بھی کہنے کا موقع نہیں دیا جائے گا بل کہ اب سیدھے جماعت قائم ہوگی. اتنے وقفے کے دوران کبھی تو اپنے قدم کو راہ حق سے بھٹکنے نہ دینا، جو مجھ سے وعدہ کرکے اپنی مٹھیوں میں بند کرکے تو دنیا میں گیا ہے اس وعدے پر قائم رہنا. اس لئے کہ کل پھر جب تیرا دوبارہ سفر شروع ہوگا تو میں تیرے ہاتھوں کو کھول کر دنیا کو دکھا دوں گا کہ تیرے دونوں ہاتھ خالی ہیں. اور یاد رکھنا تو میرے احکام کو صرف ایک فسانہ تصور نہ کرنا اور یہ بھی یاد رکھنا جب تو موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا ہوگا تو میں تیری آنکھوں سے پردہ ہٹا دوں گا اور تو میری جنت و جہنم کو دیکھ لے گا. ہاں اب اس کے بعد مہلت مانگے گا تو تجھے مہلت نہیں دی جائے گی. میں رحمٰن و رحیم ہوں تو جبار و قہار بھی ہوں. اس لیے تو صرف رحمٰن و رحیم سمجھ کر میری جباریت و قہاریت کو بھلا مت دینا-
قارئین کرام! آئیے ذرا زندگی کے نقشے پر نظر ڈالی جائے. زید نے اپنے بیٹے بکر کی شادی کی، زید کو بڑا ارمان تھا کہ میرے جیتے جی میرا بیٹا بھی باپ بن جائے لیکن ایسا نہ ہو سکا. زید نے داعی اجل کو لبیک کہا، اب زیادہ عرصہ گذر جانے کے بعد بھی بکر کو کوئی اولاد نہیں ہوئی تو بکر کافی فکرمند ہوا، مساجد میں دعا کرائی، نہ جانے کتنے ڈاکٹروں سے علاج کرایا، پیروں کا دروازہ کھٹکھٹایا، خانقاہوں اور آستانوں پر حاضری دی اور خود بھی مسلسل دعا کرتا رہا کہ اے اللہ مجھے نیک وصالح بیٹا دے. آخر اس کی دعا قبول ہوئی، اللہ نے بیٹا عطا فرمایا، اب مزاج میں تبدیلی آ گئی، ساتویں روز خوب دھوم دھام سے عقیقہ کیا، بڑے بڑے امراء و رؤسا کو دعوت دی اور غریبوں کو اپنے اردگرد ایک پل کے لئے بھٹکنے بھی نہیں دیا، بیٹا تھوڑا بڑا ہوا تو بکر یہ بھول گیا کہ میں نے اللہ سے نیک و صالح بیٹا مانگا تھا. اب کہتا ہے کہ بیٹے کو انگلش تعلیم دلانا ہے، علم دین کی تعلیم سے کچھ خاص آمدنی ہونے والی نہیں ہے، بیٹے کو ڈیڈی کہنا سکھایا، ٹاٹا کہنا سکھایا، انگلش اسکول میں نام لکھایا. بالآخر بیٹا بہت بڑا ڈاکٹر بن گیا، اس نے زبردست ہاسپیٹل تعمیر کرایا اور مریضوں کا علاج کرنا شروع کیا. بکر اب پھولے نہیں سمارہا ہے اور تکبر سے ہر ایک کو کہتا رہتا ہے کہ میرا بیٹا روزانہ لاکھوں روپے کماتا ہے، میرا بیٹا بہت بڑا ڈاکٹر ہے. ایک دن صبح سویرے بیٹا گھر سے اپنے ہاسپیٹل کے لئے چلا، تھوڑی ہی دیر میں خبر آئی کہ او ڈاکٹر کے باپ بکر! جلدی آ تیرے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہوگیا. ایک ٹرک نے تیرے بیٹے کی ہڈیوں اور پسلیوں کو توڑتے اور روندتے ہوئے گذر گیا. تیرا بیٹا موت کے گھاٹ اترگیا. بکر چیختے ہوئے کہتا ہے ہائے یہ کیا ہوا. آخر میں نے کون سی غلطی کی تھی کہ میرے بیٹے کے ساتھ ایسا ہوا. بکر موقع واردات پر پہنچتا ہے، خون کے آنسو روتا ہے، لاش کو ہاتھ لگانا چاہتا ہے تو سرکاری عملہ کہتا ہے خبردار ہاتھ نہیں لگانا، ابھی تمہارے بیٹے کی لاش کا پوسٹ مارٹم ہوگا. اور جب پوسٹ مارٹم کے بعد لاش ملتی ہے اور تجہیز و تکفین کا وقت آتا ہے تو ایک عالم دین سے جنازے کی نماز پڑھانے کے لیے بکر جب کہتا ہے تو وہ عالم دین بھی کہتا ہے کہ دیکھ میری آمدنی بہت کم ہے لیکن آج تو اپنے اس بیٹے کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے مجھ سے کہہ رہا ہے جو روزانہ لاکھوں روپے کماتا تھا. دیکھ اسی کو زندگی کہتے ہیں. تو چار دن کی چکاچوند روشنی میں سب کچھ بھول گیا. جب تیرا بیٹا پیدا ہوا تھا تو میں نے ہی اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی تھی. یہ اس بات کا اعلان تھا کہ بس اب جماعت کھڑی ہونا باقی ہے اور دیکھ اب جماعت ہونے جارہی ہے. یہی ہے زندگی کی حقیقت جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا –
جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے کانوں میں اذان دے کراللہ کی کبریائی اور بڑائی کا پیغام دیا جاتا ہے تاکہ جب ہوش سنبھالے تو جانے کہ اللہ بہت بڑا ہے، اللہ ایک ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، پہلی سانس سے آخری سانس تک کی کامیابی کی ضمانت نماز میں ہے اور چاہے کوئی بڑے سے بڑا طاقت ور کیوں نہ ہو لیکن اللہ کے آگے اس کی کوئی ہستی نہیں. بے شک اللہ ہی سب سے بڑا ہے اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں. اس کے بعد بچے کی سب سے پہلی درس گاہ ماں کی گود ہے، سب سے پہلا سبق ماں کا پاکیزہ حلال دودھ ہے اور اس درس گاہ کا ناظم و سرپرست باپ ہے. یعنی ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ اچھی تعلیم و تربیت سے بچے کو آراستہ کریے. جس طرح ربیع الفروخ کی بیوی نے اپنے بچے کی عظیم الشان تعلیم و تربیت کی تھی، جس طرح غوث اعظم سیدنا الشیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ کی والدہ نے غوث اعظم کی تعلیم و تربیت کی تھی –
جب بچہ بڑا ہوکر دینی مدارس میں پہنچتا ہے تو اساتذہ بھی الف پرھاکر اللہ کے ایک ہونے کی تعلیم دیتے ہیں ل سے اس کا کوئی شریک نہ ہونے کی تعلم دیتے ہیں، ح پڑھا کر اللہ کی حمد کرنے کا درس دیتے ہیں، میم اور دال پڑھاکر محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرماں برداری اور انھی کے وسیلے سے دعا کرنے کا درس دیتے ہیں اور دعا اللہ ہی سے کی جاتی ہے. اس طرح الحمد اللہ پڑھاتے ہیں تاکہ اب یہ اپنی زندگی کا سفر صراط مستقیم کے تحت طے کرے اور اسی راستے سے دنیا سے قبر تک اور قبر سے حشر تک کی منزل آسان ہوسکتی ہے –
دنیا میں جو آیا ہے اسے ایک دن اس دار فانی سے جانا ہے. کل نفسٍ ذائقۃ الموت کے تحت ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے. موت سے بچنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے. ایک شخص موت سے بچنے کے لیے دنیا کے مختلف ممالک میں پہنچتا ہے لیکن جہاں پہنچتا ہے وہاں دیکھتا اور سنتا ہے کہ کوئی بیماری کی وجہ سے تو کوئی مختلف وجوہات کی بنا پر لیکن موت کا شکار ضرور ہوتا ہے. وہ خانہ کعبہ پہنچتا ہے کہ شاید یہاں موت سے بچ جاؤں لیکن جیسے ہی فجر کی نماز ادا کرتا ہے تو نماز کے بعد صدا سنتا ہے الصلوۃ یرحمہم اللہ وہ بے چین ہوجاتا ہے پھر ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نماز کے بعد بھی یہی اعلان سنتا ہے پھر وہ دیکھتا ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ قرآن مقدس کی تلاوت کررہا ہے. وہ اس کے پاس جاکر بیٹھتا ہے، ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی ہے کہ وہ تلاوت کرنے والا پڑھتا ہے اینما تکونو یدرکم الموت ولو کنتم فی بروج مشیدۃ اب سوچتا ہے کہ ارے یہ تو قرآن اعلان کررہا ہے کہ موت سے بچنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے. خفیہ سے خفیہ مقام پر یعنی جہاں چاہو چلے جاؤ لیکن موت کے چنگل سے نہیں بچ سکتے. اب ہر طرف سے گھوم پھر کر اپنے گھر آتا ہے، آرام کرنے کے لیے چارپائی پر لیٹتا ہے، ابھی لیٹاہی ہے کہ ملک الموت کے آنے کی دھمک سنتا ہے، دائیں بائیں فرشتے بھی کھڑے ہیں، آنکھوں سے پردہ ہٹا دیا گیا ہے، اب صاف طور پر جنت و جہنم کے مناظر دیکھ رہا ہے، فرشتے کہتے ہیں کہ نیکی کا کام کرنے والوں کے لیے یہ جنت ہے اور اللہ و رسول کی نافرمانی کرنے والوں کے لیے یہ جہنم ہے. کل تک تیرے سامنے بیان کیا جاتا تھا تو تجھے یہ ایک کہانی لگتی تھی اب تو اپنی آنکھوں سے دیکھ. سارا منظر تیرے سامنے ہے. بندہ کہتا ہے کہ بس ایک موقع مل جائے میں صرف وہی کام کروں گا جس سے میرا رب راضی ہوجائے اور مجھے جنت کا حق دار بنادے. فرشتے کہتے ہیں کہ نہیں تیرا وقت ختم ہوگیا اب تجھے کوئی مہلت ملنے والی نہیں. تو نافرمانی پر نافرمانی کرتا رہا لیکن اللہ نے تیرے رزق میں کوئی کمی نہیں کی تاکہ تجھے اپنی غلطی کا احساس ہوجائے اور تو اپنے گناہوں سے توبہ کرلے، لیکن تونے ایسا نہیں کیا. اب تجھے بھی موقع ملنے والا نہیں ہے. اس کے بعد ملک الموت نے اس بندے کے پاؤں سے روح نکالنا شروع کیا، ٹخنے تک کا حصہ بے جان ہوا ، پھر گھٹنے تک کا حصہ بےجان ہوا، پھر کمر سے نیچے تک یعنی جسم کا آدھا حصہ بے جان ہوا، پھر پیٹ، سینہ، حلق، کان ناک نے کام کرنا بند کیا. ایک خاردار جھاڑی سے ریشمی کپڑے نوچ لینے کی طرح ہر حصے سے روح نکلتے ہوئے آنکھوں کے راستے سے باہر نکل گئی، آنکھ کھلی کی کھلی رہ گئی، پورا جسم بے جان ہوگیا. دنیا میں کل تک حکومت کرتا تھا، جس کے ایک اشارے پر فوج حرکت میں آجاتی تھی، جس علاقے میں جاتا تھا تو وہاں اس کی حفاظت کے لیے
بے شمار فورس تعینات کی جاتی تھی، آج جسم پر مکھی بیٹھ گئ تو اسے بھی ہانکنے کی طاقت نہیں ہے کیوں کہ اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی –
اپنی زندگی میں عالی شان مکان تعمیر کرایا، آٹومیٹک کھلنے والا دروازہ لگایا، فرش پر قیمتی ٹائلس لگوایا، بیرون ملک سے کاریگر بلاکر اے سی لگوایا، ہر کمرے میں مخمل کا بستر لگایا لیکن پھر بھی سارے بیٹوں میں سے ایک بیٹا بھی گھر کے کسی کمرے میں مقبرہ بنوانے کے لئے تیار نہیں ہے، قبرستان میں کوئی بھی رشتہ دار عزیز دوست و احباب دوچار دن ساتھ میں سونے کے لیے تیار نہیں ہیں. کافور و عطر مل کر تیار کرچلے، جب قبر میں اتارا، مٹی ڈالی، سب کے سب اپنے اپنے گھروں کو چلے آئے. یہی ہے انسان کی زندگی. ہاتھ کا لقمہ منہ میں پہنچنے کی گارنٹی نہیں، رات میں بستر پر سونے گیا صبح میں بیدار ہونے کی گارنٹی نہیں، کشتی میں بیٹھ تو گیا لیکن باحیات دریا کے اس پار پہنچنے کی گارنٹی نہیں، یہی ہے زندگی. اور اسی کا نام ہے زندگی. لیکن پھر بھی احساس نہیں، مٹی ڈالتے ہوئے بھی یہ نہیں احساس ہوتا کہ کل ہمارے اوپر بھی لوگ اسی طرح مٹی ڈالیں گے اور واپس چلے جائیں گے. حال آں کہ حکم یہی ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کرو. اس میں بھی بہت بڑا راز ہے، کیوں کہ جب بندہ موت کو یاد کرے گا تو ضرور کچھ نہ کچھ تیاری بھی کرے گا اور یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر حال میں موت کا سامنا کرنا ہے، ساری کی ساری مخلوق کو موت کے گھاٹ اترنا ہے، یہاں تک کہ زندگی اور موت بھی اللہ رب العالمین کی مخلوق ہے. زندگی کو تو موت آنی ہی آنی ہے، ارے موت کو بھی موت آنی ہے، موت کو بھی موت کے گھاٹ اتارا جائے گا. حشر کا میدان قائم ہوگا حساب کتاب ہوگا نیکیاں تولی جائیں گی نفسی نفسی کا عالم ہو گا کوئی کسی کا پرسان حال نہ ہوگا باپ بیٹا کوئی کسی کو نیکی دینے کے لیے تیار نہ ہوگا اور تو اور جب حضرت عیسٰی علیہ السلام کی نیکی تولی جائے گی تو حضرت مریم چھپ جائیں گی اور جب حضرت مریم کی نیکی تولی جائے گی تو حضرت عیسٰی علیہ السلام چھپ جائیں گے باقی لوگوں کا کیا حال ہوگا اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے. صرف ایک ہی مقدس ذات ہوگی جس کی خدا تک رسائی ہوگی اور وہ مقدس شخصیت ہوں گے محسن انسانیت خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنے امتیوں کی شفاعت کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ سے سفارش کریں گے اور آپ کی سفارش قبول کی جائے گی. یہ بھی یاد رہے کہ دنیا میں ہر نبی کو اللہ نے ایک مخصوص دعا بتلائی ہے بل کہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ خصوصی مطالبہ کا حق دیا ہے اور یہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دیا گیا لیکن ہر نبی نے دنیا میں وہ مطالبہ کیا مگر آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ذکر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کیا تو حضرت عائشہ نے کہا کہ آپ بھی وہ مطالبہ اللہ سے کیجیے تو قربان جائیے پیارے آقا پر آپ نے فرمایا اے عائشہ میں وہ دعا میدان محشر میں اللہ سے اپنی امت کی شفاعت کے لیے کروں گا. جب حساب و کتاب مکمل ہو جائے گا جنتیوں کو جنت میں اور جہنمیوں کو جہنم میں داخل کردیا جائے گا تب حکم خداوندی سے موت کی شکل میں ایک جانور کو لایا جائے گا اور اس پر چھری چلاکر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا پھر اس کے بعد فرشتہ اعلان کرے گا کہ اے جنتیو اور اے جہنمیو دیکھ لو اب کسی کو موت نہیں آئے گی کیوں کہ موت کو بھی موت آگئی موت کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا –
دنیا میں جسے ان ساری باتوں کا علم ہوگا وہ غافل رہ سکتا ہے مگر جسے احساس ہوگا اس کے دل میں خدا کا خوف ہوگا وہ نہ کبھی بھرپیٹ کھانا کھائے گا اور نہ پوری نیند سوسکے گا. سکندر بادشاہ اکثر قبرستان جاتا اور بوسیدہ ہڈیوں کو ہاتھوں میں لے کر یہی کہتا کہ اے ہڈیو کل تم میرے جیسی تھی اور کل میں تمہارے جیسا ہوجاؤں گا. اسے اتنا احساس تھا کہ اس نے وصیت کی تھی کہ مرنے کے بعد جب میری تکفین و تدفین کرنا تو میرے دونوں ہاتھوں کو کفن سے باہر نکال دینا تاکہ دنیا دیکھے کہ سکندر ذوالقرنین بند مٹھی لے کر دنیا میں آیا تھا لیکن کھلا ہاتھ اور خالی ہاتھ دنیا سے چلا گیا –

جاوید اختر بھارتی ( سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
برائے رابطہ 8299579972
صاحب تحریر کا یہ مضمون بھی ملاحظہ ہو : کورونا، لاک ڈاؤن، معاشرہ اور رسم و رواج!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے