تاریخ مسجد اقصٰی اور اس کے فضائل

تاریخ مسجد اقصٰی اور اس کے فضائل

محمد مصطفى كعبي أزهري
فاضل الازہر یونیورسٹی مصر عربیہ

مسئلہ فلسطین ایسا سلگتا ہوا سانحہ ہے جس نے عالم اسلام کو ایک رستا ہوا زخم دیا ہے جو دن بدن گہرا ہوتا جارہا ہے ۔ امت کی ہر کوشش وہاں پر دم توڑ دیتی ہے جس نے سبھی کے ہاتھ پاؤں اقوام متحدہ کی زنجیروں میں باندھ رکھے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائيل کی شیطنت کا جواز اور سربہ مہر تصدیق نامہ وہ فراہم کرتا ہے جس کا بغل بچہ خود اقوام متحدہ ہے اور یہ آقا امریکہ ہے جو اپنے ویٹو اختیار کے ذریعہ اس قضیہ کو حل کرنے کی بجائے مزید الجھائے ہوئے رہتا ہے ۔
حالیہ دنوں کی گیارہ روزہ جنگ بھی کسی نتیجہ خیز حل کے بغیر عارضی سمجھوتے اور لیپاپوتی پر اگرچہ ختم ہو چکی ہے تاہم تناؤ اور دباؤ کا خوف ہر لمحہ جاری رہتا ہے ۔ دوسری طرف مسلمان حکمرانوں کی الگ الگ کوششیں اپنے سیاسی مفادات سے اوپر اٹھ کر نہ ہونے کے باعث بحران کا دورانیہ اور مغلوبیت کی تاریخ مزید طویل ہوتی جارہی ہے ۔ اللہ رحم کرے فلسطینیوں پر جو اپنے جان و مال کی قربانیاں دے کر اکیلا ملک پوری امت کی جنگ لڑ رہا ہے ۔ اب آئيے اس کے تاریخی حقائق کا جائزہ لیتے ہیں ۔
◀️ یہ تاریخی مسجد، فلسطین کے شہر یروشلم (القدس) میں واقع ہے۔
پہلی صلیبی جنگ کے بعد، جب 15/جولائی 1099ء کوعیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہوا؛ تو انھوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔ پھرصلاح الدین ایوبی نے 583ھ/1187ء میں بیت المقدس کو فتح کیا؛ تو مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے خرافات سے پاک کیا۔ 88 سالوں کے علاوہ، عہد فاروقی سے بیت المقدس اور مسجد اقصی مسلمانوں کے قبضے میں رہے ہیں۔ افسوس ہے کہ ادھر چند سالوں سے پھر قدس اور مسجد اقصی غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے قبضے میں ہے۔
❶ مسجد اقصیٰ بابرکت زمین میں واقع ہے۔ ( الاعراف : 137 ، والانبیاء : 71 و 81 ، وسبا : 18)
❷ مسجد أقصی کے ارد گرد کی سر زمین بھی بابرکت ہے۔ ( الاسراء : 1)
❸ مسجد اقصیٰ کو انبیاء نے تعمیر کیا۔ ( اسنادہ صحیح : سنن النسائی : 693)
❹ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ۔ ( البخاری : 40 و388و4486 و4492 و7252، و مسلم : 524 ، و الترمذی : 540 و2962 )
❺ مسجد اقصیٰ سر زمین اسراء ومعراج ہے ۔ ( البخاری : 7517 ، ومسلم : 162 )
❻ مسجد اقصیٰ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء کرام کی امامت کی۔ ( البخاری : 3394 و 3437 ، ومسلم : 172 ، والترمذی : 3130 )
❼ مسجد اقصیٰ عبادت کی غرض سے بنائی گئی اس روئے زمین پر دوسری مسجد ہے۔ ( البخاری : 1189 ، ومسلم : 520)
❽ مسجد اقصیٰ کی طرف رخ کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے تقریبا سولہ یا سترہ مہینے تک نمازیں ادا کی۔ (البخارى : 40 ، ومسلم : 525 )
❾ مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنا تمام گناہوں کا کفارہ ہے ۔( اسنادہ صحیح : سنن النسائی : 693)
⓿❶ دجال مسجد الحرام ، مسجد نبوی ، مسجد اقصیٰ، مسجد طور میں داخل نہیں ہوسکتا – ( اسنادہ صحیح : مصنف ابن ابی شیبہ : 38661)
❶❶ مسجد الحرام ، مسجد نبویؐ ، مسجد اقصیٰ کی جانب عبادت کی غرض سے سفر کرنا جائز ہے ۔ ( البخاری : 1189 ، ومسلم : 1397 )
❷❶ بیت المقدس کی آبادی یثرب(مدینے) کی بے آبادی کا پیش خیمہ ہو گی۔ (اسنادہ حسن : سنن ابی داود : 4294 )
❸❶ مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی نذر ماننا جائز ہے۔ ( اسنادہ صحیح : سنن ابی داود : 3305 و 3306 )
❹❶ مسجد اقصیٰ پر سکون جگہ ہے ۔ ( المؤمنون : 50 )
❺❶ مسجد اقصٰی نماز پڑھنے کی بہترین جگہ ہے ۔ ( اسنادہ صحیح : المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 8553 )
❻❶ بیت المقدس کے قریب باب لحد کے پاس دجال کو قتل کیا جائے گا ۔ ( مسلم : 2997 )
❼❶ بیت المقدس کے قریب والا پہاڑ یاجوج ماجوج کی قتل گاہ ہے۔ ( مسلم : 2937 )
❽❶ بیت المقدس حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں 15 ہجری کو فتح ہوا۔ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے خلافت کے دوران چار دفعہ ملک شام تشریف لائے ۔
❾❶ بیت المقدس کےلئے عیسائیوں نے زمانہ خلافت کے بعد گیارہویں صدی کے آخر سے تیرہویں صدی کے آخر میں مسلمانوں کے خلاف جنگیں لڑیں، تاریخ عالم میں انھیں صلیبی جنگ کے نام سے جانا جاتا ہے اور اسی جنگ میں عیسائی بیت المقدس کو فتح کرنے میں کام یاب ہوگئے ۔
⓿❷ بیت المقدس 583 ہجری میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کو شکست دے کر فتح کیا ۔
*اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی قدس اور مسجد اقصی کو ان ظالم وجابر اور غاصب لوگوں کے قبضے سے آزاد کردے اور فلسطینیوں کی قربانی بار آور ثابت ہو ! آمین.

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے