تم مسلماں ہو یہ اندازِ مسلمانی ہے ؟

تم مسلماں ہو یہ اندازِ مسلمانی ہے ؟

شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام و خطیب: جامع مسجد شاہ میاں رہوا، ویشالی، بہار

اللہ رب العزت کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہم کو مسلمان بنایا اور ہمیں نبی صلی اللہ وسلم کی امت میں پیدا فرمایا اور سب سے پیارا اور آسان دین ہم کو دیا جس کے ذریعہ ہم اپنی پوری زندگی اللہ کے حکموں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں پر گزار سکتے ہیں اور اگر ہم دین پر چلیں گے تو اس کے بدلہ میں ہم کو دنیا کی اچھی زندگی اور ہمیشہ ہمیشہ کی جنت ملے گی ۔اللہ رب العزت کے ہاں ایمان کی بہت بڑی قیمت ہے بل کہ انسان کا مرتبہ ہی اس کے ایمان کی وجہ سے ہے. اگر ایمان نہ ہو تو انسان کی کوئی اوقات ہی نہیں. دیکھیں انسان چند عناصر سے مل کر بنا:آگ، پانی، ہوا اور مٹی۔ انسان جن اجزا سے مل کر بنا اگر آپ ان کا اندازہ لگائیں تو وہ پانی ہے، کار بن ہے، آکسیجن ہے، اور نائیٹروجن ہے۔ سائنس پڑھنے والے جانتے ہیں کہ انسان امائنوایسیڈ سے بنا، اگر ان تمام عناصر کی قیمت مارکیٹ کے حساب سے لگائی جائے تو ایک انگریز سائنس دان رابرٹ پیٹرسن نے کہا کہ انسان کے تمام عناصر کی کل قیمت ساڑھے چھ ڈالر ہے یعنی انسان جن عناصر سے مل کر بنا ان عناصر کی کل قیمت ساڑھے چھ ڈالر ہے. اگر ایمان الگ ہوجائے تو انسان کی کیا قیمت بنی؟ساڑھے چھ ڈالر. کتنا عظیم ہے وہ پروردگار جس نے اتنی بے قیمت چیزوں سے اتنا قیمتی انسان پیدا فرما دیا تو انسان کی قیمت ہی اس کے ایمان کی وجہ سے ہے ۔
سورہ بقرہ میں خداوند عالم جل جلالہٗ نے اپنے ایمان والے بندوں کو ایک بہت ہی اہم اور عظیم الشان فرمان سے سرفراز فرمایا ہے جو درحقیقت ایک صاحب ایمان مسلمان کی زندگی کے لئے بڑا ہی انمول دستورِ حیات اور نہایت ہی مکمل نظامِ حیات ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہے ۔
مفہوم ۔ اے ایمان والو تم اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ۔ اور شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے (سورۂ بقرہ)
شان نزول ! اس آیت کی شان نزول یہ ہے کہ یہ ایک بہت ہی جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں نازل ہوئی. یہ اسلام لانے سے پہلے یہودیوں کے ایک بہت ہی مقتدر پیشوا اور تورات و انجیل کے بہت متبحر عالم تھے جس وقت حضور اکرم صلی اللہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ منورہ میں رونق افروز ہوئے تو عبداللہ بن سلام رضی اللہ اپنے کھجور کے باغ میں کام کر رہے تھے. جب انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اور آمد آمد کا چرچا سنا تو رحمت عالم کے دیدار کے لئے بارگاہ نبوت میں حاضر ہوگئے. خدا کی شان کہ جس وقت یہ مجلس میں پہنچے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وعظ بیان فرمارہے تھے اور آپ کی زبان پر یہ کلمات جاری تھے ۔ اے لوگو بھوکوں کو کھانا کھلاؤ اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ سلام کا چرچا کرو اور جب تمام لوگ راتوں کو سکھ اور چین کی نیند سو رہے ہوں تو اس وقت تم لوگ اٹھ کر خدا کی بارگاہ میں عبادت کے لئے کھڑے ہو جاؤ تو تم لوگ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے ۔رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے یہ پیارے کلمات حضرت عبداللہ بن سلام کے کان میں پڑے اور انھوں نے ایک نگاہ بھر کر جمال محمدی کا نظارہ کیا تو انھیں رسول کے جمال نبوت میں حقانیت و صداقت کا ایک ایسا آفتاب عالم تاب نظر آگیا جس سے ایک دم ان کی دنیاۓ دل میں ہدایت کا اجالا ہو گیا اور اسلام کی حقانیت اور بانی اسلام کی صداقت کا نور ان کے دل و دماغ پر ہدایت کی روشنی بن کر اس طرح جگمگا نے لگا کہ یہ کلمہ پڑھ کر صدق دل سے مشرف بہ اسلام ہو گئے اور ان کے چند ساتھی بھی مسلمان ہو گئے ۔لیکن ایک زمانۂ دراز تک یہ لوگ یہودی دھرم کے پابند رہ چکے تھے اس لئے اسلام لانے کے بعد بھی یہ لوگ یہودی دھرم کے بعض احکام پر عمل کرتے رہے. چناں چہ یہ لوگ سنیچر کے دن کی تعظیم کرتے تھے اور اونٹ کا گوشت کھانے اور دودھ پینے سے پرہیز کرتے تھے اور یہ خیال کرتے تھے کہ یہ چیزیں اسلام میں مباح ہیں نہ ان کا کرنا ضروری ہے نہ چھوڑنا ضروری ہے اور توراۃ میں ان چیزوں سے بچنا ضروری ہے لہذا ان چیزوں کے چھوڑ دینے میں اسلام کی کوئی مخالفت نہیں ہوگی اور موسوی شریعت پر بھی عمل ہوتا رہے گا. اس طرح ہم قرآن اور تورات دونوں پر عمل کرتے رہیں گے لیکن ان لوگوں کا یہ طرزِ عمل خداوند قدوس کو پسند نہیں آیا. چناں چہ آیت نازل ہوئی اور پروردگار نے فرمادیا کہ: اے ایمان والو جب تم مسلمان ہوئے ہو تو پورے طور پر اسلام میں داخل ہوجاؤ اور صرف اسلام ہی کے احکام کی پوری پوری اطاعت و پابندی کرو. تورات و انجیل اور دوسری تمام کتابوں کو قرآن نے منسوخ کر دیا ہے اس لئے اب قرآن کے سوا دوسری کتابوں کے احکام پر چلنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمان بنے ہو تو آدھے تیتر آدھے بیٹر کی طرح ادھورے مسلمان نہ بنو بل کہ پورے پورے مسلمان بن جاؤ. آدھے یہودی اور آدھے مسلمان بننے کا خیال درحقیقت شیطانی وسوسوں کا ایک پرفریب جال ہے اس لئے تم لوگ شیطان کے ان نقوش قدم کی اطاعت اور پیروی نہ کرو کیوں کہ شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے اور دشمن کے بتاۓ ہوۓ راستے پر چلنا انتہائی خطرناک اور اس کا انجام بہت ہی افسوس ناک ہوتا ہے ۔
ایمان اور اسلام میں فرق ۔
اسلام تو ظاہری قول و فعل کا نام ہے کیوں کہ اسلام کے معنی ہیں عبادت کے واسطے گردن جھکانا. پس جو شخص مسلمان ہے وہ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کی گواہی دے کر اطاعتِ ظاہری کرتا ہے۔ نماز،روزہ،حج زکوٰۃ اور اوامر الہی کا مطیع ہے . اب یہ بات ممکن ہے کہ یہ سب باتیں ظاہر میں ہوں اور دل میں اس کو اعتقاد نہ ہو جیسے منافقین ہوتے ہیں. پھرجس شخص نے اعتقاد قلبی کے بغیر یہ افعال پورے کئے یعنی نماز روزہ وغیرہ تو شریعت کے قانون میں وہ شخص مسلمانوں کے معاشرے میں ہوگا اس کے ساتھ اسلامی برتاؤ کیا جائے گا ۔اور ایمان نام ہے اللہ تعالی کی خالص توحید اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر یقین لانے کا اور جو کچھ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ وسلم نے فرمایا ہے سب حق ہے اور یہ یقین اور اعتقاد دل میں جم جائے ۔
اسلام عربی زبان کا لفظ ہے. اسلام کے معنی ہیں اپنے آپ کو کسی کے آگے جھکا دینا. یعنی کسی بڑی طاقت کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کر دینا اور اپنے آپ کو اس کا تابع بنا لینا کہ جیسا وہ کہے اس کے مطابق انسان کرے. یہ ہیں اسلام کے معنی جس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف زبان سے کلمہ طیبہ پڑھ لینا اور اللہ کی وحدانیت پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر اور یوم آخرت پر ایمان لے آنا یہ باتیں اسلام میں داخل ہونے کے لیے کافی نہیں بل کہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان اپنے پورے وجود کو اللہ تعالی کے حکم اور رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی تعلیم کے آگے جھکا دے. جب تک یہ نہیں ہو گا اس وقت تک انسان صحیح معنی میں اسلام کے اندر داخل نہیں ہوگا ۔
فرمان خداوندی کہ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ یعنی یہ نہ ہو کہ ایمان اور عقیدے اور عبادات کی حد تک تو اسلام میں داخل ہوگئے کہ کلمہ طیبہ پڑھ لیا، نماز پڑھ لی، روزہ رکھ لیا، زکوٰۃ دے دی، حج کرلیا، عبادتیں انجام دے دیں اور جب مسجد میں پہنچے تو مسلمان لیکن جب بازار پہنچے، جب دفتر پہنچے یا گھر پہنچے تو وہاں مسلمان نہیں. حال آں کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ اسلام محض عبادتوں کا نام نہیں کہ صرف عبادتیں انجام دے دیں تو مسلمان ہو گیا بل کہ اپنی پوری زندگی کو اللہ کے حکم کے تابع بنانے کا نام اسلام ہے. لہذا مسلمان وہ ہے جو بازار میں بھی مسلمان ہو، گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ بھی مسلمان ہو، دوست احباب کے ساتھ بھی مسلمان ہو، دفتر میں بھی مسلمان ہو ۔
اسلام کے پانچ حصے ۔
دین اسلام کے اللہ تعالی نے پانچ حصے بنائے ہیں، ان پانچ حصوں پر دین مشتمل ہے ۔
(1) عقائد ۔ عقائد کے تحت تین چیزیں آتی ہیں (1) توحید: یعنی اللہ کی وحدانیت کا عقیدہ ہونا کہ اللہ کے سوا کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں. اس کا کوئی ہم سر نہیں. وہی خالق وہی راز ق وہی مالک حقیقی وہی موجود حقیقی وہی زندہ کرنے والا وہی موت دینے والا وہی کارساز اسی کی طاقت اسی کی مدد سے سب کچھ ہوتا ہے (2) رسالت : یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت، آپ کی سچائی، آپ کی صداقت، آپ کی سیرت، آپ کی نبوت، آپ کا اخلاق، آپ کا معجزہ، آپ کے خاتم الانبیاء ہونے کا عقیدہ ہونا (3) آخرت : آخرت کے عقیدہ کا مطلب یہ ہے کہ موت کے بعد برزخی حالات قبر میں بشیر و مبشر یا منکر و نکیر کے سوال و جواب اور قبر کے آرام و راحت اور میدان محشر میں حساب و کتاب اور جنت کے آرام و راحت، وہاں کی بے مثال نعمتوں اور جہنم کے عذاب اور مشقت وغیرہ کا عقیدہ ہونا ۔ تمام مسلمانوں میں ان امور کا عقیدہ اور ان میں پختگی ہونا لازم اور ضروری ہے. آج افسوس ہے کہ مسلمانوں کا عقیدہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے ۔
(2) عبادات : عبادات کے تحت چار چیز یں آتی ہیں۔ نماز، روزہ، زکوۃ، حج. یہ اعمال اللہ کے فرائض ہیں. ان کی ادائیگی ہر مکلف پر لازم ہے. نماز روزہ ہر مسلمان پر فرض ہے اور زکوۃ ہر صاحب نصاب پر اور حج بڑے سرمایہ دار مسلمان پر فرض ہے (3) معاملات : معاملات کے تحت ہر قسم کے لین دین خریدوفروخت ادھار نقد قرض وعدہ سب شامل ہیں. اسی طرح بیاہ شادی اور دیگر تمام حقوق کی ادائیگی معاملات کے دائرہ میں داخل ہیں. کوئی مسلمان اس وقت تک دین دار اور متقی نہیں بن سکتا جب تک اس کے معاملات درست نہ ہوں.
(4) معاشرات : معاشرہ کا مطلب یہ ہے فیملی، کنبہ، خاندان، قبیلے، اعزا واقربا، پڑوسیوں اور ماحول میں رہنے والوں کے ساتھ رہن سہن طریق زندگی اور گزر بسر سب اچھے طریقہ سے ہوں، نفرت کے بجائے محبت کا ماحول پیدا ہو جائے ۔
(5) اخلاقیات : اخلاق یعنی اچھی عادت اچھی خصلت خوش مزاجی نرم مزاجی بڑوں کی عزت وعظمت چھوٹوں کے ساتھ شفقت و محبت ماتحت لوگوں کے ساتھ رواداری اور لوگوں کی خطا و لغزشوں سے درگزر کرنا، کم زوروں کی مدد کرنا، مہمانوں اور بھوکوں کو کھانا کھلانا، مظلوموں کی مدد کرنا، ہر شخص کے ساتھ پیار و محبت کا معاملہ کرنا وغیرہ ۔ یہ دین کے پانچ بڑے بڑے ستون ہیں جن کے تحت دین اسلام کے تمام امور شامل ہیں ۔ لیکن افسوس آج ہم مسجد میں مسلمان ہیں لیکن جب بازار پہنچے تو لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں، امانت میں خیانت کر رہے ہیں، دوسروں کو تکلیف پہنچا رہے ہیں، ان کی دل آزاری کرہے ہیں. یہ تو اسلام میں پورا داخل ہونا نہ ہوا. اس لئے کہ اسلام کا ایک چوتھائی حصہ عبادات ہیں اور تین چوتھائی حصہ حقوق العباد سے متعلق ہے. لہذا جب تک انسان بندوں کے حقوق کا لحاظ نہیں رکھے گا پورا اسلام میں داخل نہ ہوگا ۔
ہاۓ اسلام ! تیرے چاہنے والے نہ رہے ۔ جن کا تو چاند ہے ۔ افسوس وہ ہالے نہ رہے.
صاحب تحریر کی یہ نگارش بھی پڑھیں :پیام عید لے کر آج پھر بادصبا آئی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے