آؤ مل کر ایسا رواج لائیں کہ جس سے بیٹیاں جیت جائیں!

آؤ مل کر ایسا رواج لائیں کہ جس سے بیٹیاں جیت جائیں!


محمدقمرانجم فیضی


رسم جہیز نے مار دی ہیں بےشمار بیٹیاں
اب تو اس رواج سے ہیں بے زار بیٹیاں
کیسے انھیں جہیز دے کیسے شادیاں کرے
جس غریب باپ کی ہوں دو چار بیٹیاں

ہمارے مسلم معاشرے میں بچیوں کی شادی کرنا کسی ایک گھر کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ مجھ سمیت ہم سب سفید پوش یا مڈل کلاس لوگوں کے گھر زیادہ تر اسی پریشانی میں مبتلا ہیں ۔ہماری خود ساختہ لعنتوں نے ہمارے معاشرے میں ایسا گھر کیا ہے کہ وہ یا تو گھر بسنے ہی نہیں دیتیں یا اکثر بسے ہوئے گھروں کو اجاڑ دیتی ہیں۔ باقی لعنتوں کے ساتھ ساتھ ان میں ایک سب سے بڑی لعنت جہیز کی ہے۔اس جہیز کی لعنت نے کتنے ہی گھر بسنے سے روک رکھے ہیں۔ غریب گھرانے جو دو وقت کی روٹی مشکل سے پوری کرتے ہیں، بھلا وہ اپنی زندگی کی سب سے قیمتی شے جب بیٹی یا بہن کی صورت میں کسی کے گھر بھیجتے ہیں تو کیا ابھی بھی کسی اور شے کی ضرورت ہے؟ مگر یہ کیا یہاں ابھی رشتہ طے نہیں ہوا کہ لڑکے والوں کی جانب سے ٹی وی، فریج ،بیڈ،صوفہ سیٹ اور موٹر سائیکل سمیت اشیاء کی لسٹ تھما دی جاتی ہے اور اگر لسٹ نہ بھی ملے تو ہمارے گھر کی بوڑھی عورتوں کا آپس میں کانا پھوسی کے ذریعہ یہ پیغام پہنچانا کہ اگر تمہاری بیٹی یہ یہ سامان جہیز میں نہ لے کے آئی تو اپنے گھر ہی بٹھائے رکھنا وغیرہ وغیرہ ۔ دوسری جانب اگر کوئی لڑکی جہیز لے بھی جاتی ہے تو ہمیشہ طعنہ دیا جاتا رہے گا کہ فلاں کی بہو اتنا سامان لائی اور تم کیا لائی؟ بڑی بہو کا لایا ٹی وی بُرج خلیفہ جیسا اور تیرا لایا بہت چھوٹا ۔ اب اگر آپ کی بڑی بہو کسی سیٹھ کی نسل سے ہے اور چھوٹی غریب مزدور کی اولاد تو اس میں قصور آپ کا اپنا ہوا کہ اپنے جیسے کسی لالچی سیٹھ کی بیٹی کو دوسری بہو کیوں نہ بنایا ؟ صرف اسی پر اکتفا نہیں بعض اوقات یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ شادی کے بعد بھی لڑکے کی ڈیمانڈز ہی ختم نہیں ہو رہیں۔ مجھے بھائی سے قرض دلواؤ ، سسر سے گاڑی دلواؤ اور بعض کو تو بیویوں کو والدین سے اپنا حصہ لینا چاہیے کا اسلامی حکم بھی اسی وقت یاد آتا ہے. یہ الگ بات کہ ہم اپنی بہنوں یا بیٹیوں کو جائداد میں سے حصہ دیتے وقت سو روپئے کا فتوی محلے کے مولوی صاحب سے کسی تعویذ کی مانند لے کے گھر کی دہلیز پہ لٹکا دیتے ہیں ۔ آخر یہ سب کیا ہے؟ خدا را سوچو کہ جس نے اپنا وجود تمھیں سونپ دیا، اپنی ماں کی نرم گود کو خیر باد کہہ دیا، باپ کی محبت کو پیچھے چھوڑ کر ایک انجان گھر تمہارے پاس چلی آئی ،کیا ابھی بھی اس سے مزید تقاضا کرنے کی کوئی گنجائش باقی رہتی ہے؟ کیا اس طرح مطالبات کرنا ایک قبیح فعل نہیں ہے۔؟حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو مال بڑھانے کے لیے سوال کرتا ہے وہ انگارے کا سوال کرتا ہے تو چاہے زیادہ مانگے یا کم (ابن ماجہ) جہیز ایک ناسور ہے جو ہمارے معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل چکا ہے. اس لعنت نے لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں کی زندگی کو جہنم بنا رکھا ہے ا.ن کی معصوم آنکھوں میں بسنے والے رنگین خواب چھین لئے ہیں، ان کی آرزوؤں، تمناؤں اور حسین زندگی کے سپنوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ انہیں نا امیدی، مایوسی اور اندھیروں کی اُن گہری وادیوں میں ڈھکیل دیا ہے جہاں سے اُجالے کا سفر نا ممکن ہو چکا ہے۔ یہ ایک رسم ہے جس سے صرف غریب والدین زندہ درگور ہو رہے ہیں ،اور اس آس پر زندہ ہیں کہ کوئی انسان اس لعنت سے پاک دو جوڑا کپڑوں میں ان کے لخت جگر کو قبول کر لے، لیکن ہمارے معاشرے میں جو رسمیں رواج پا چکی ہیں اور وہ وقت گزرنے کے ساتھ اپنے قدم مضبوطی سے جما لیتی ہیں ان سے چھٹکارا پانا ناممکن ہے۔ مگر یہ بھی درست ہے کہ کچھ سال قبل جن اشیاء کو قیمتی شمار کیا جاتا تھا وہ آج معمولی ضروریات زندگی بن چکی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جہیز کے نام پر لڑکی کے والدین کو قرض کے سمندر میں ڈبو دیا جائے۔ اگر غور سے مطالعہ کیا جائے تو آج کل انسان ایک سائنسی دور سے گزر رہا ہے۔ بالخصوص ہمارے معاشرے میں غریبوں کی کوئی اہمیت نہیں وہ محض رینگتے کیڑے مکوڑے ہیں جنہیں ہر کوئی مسلتا ہوا آگے نکل جاتا ہے۔ غریب کے گھر اگر بیٹی پیدا ہو جائے تو ایک طرف خدا کی رحمت اور جب شادی کی عمر کو ہوجائے تو زحمت بن جاتی ہے. کیوں کہ لڑکے والے جہیز جیسی لعنت کا تقاضا کرتے ہیں. جہیز کی اصل حقیقت اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ لڑکی کے والدین جنہوں نے اسے پال پوس کر بڑا کیا اور گھر کی دہلیز سے رخصت ہوتے وقت اگر کچھ تحفے دیتے ہیں تو اسے جہیز نہیں بلکہ اپنی اولاد سے محبت و تعلق کی بناء پر فطری عمل ہے. لیکن موجودہ دور میں ان تحائف کی جو حالت بنا دی گئی ہے وہ پہلے کبھی نہ تھی. ماں باپ کے ان تحفوں کو لڑکے والوں نے فرمائشی پروگرام بنا دیا ہے اور پورا نہ ہونے پر ظلم و زیادتی کی جاتی ہے، جو کہ سرا سر نا انصافی ہے. یہی وجہ ہے کہ پہلے یہ سماجی رسم ہوا کرتی تھی آج جہیز بن گیا ہے. اس لعنت کی وجہ سے جو ظلم و ستم بہو بیٹیوں پر کئے جاتے ہیں وہ بیان نہیں کئے جا سکتے۔علماء کرام ومفتیان عظام کو چاہیے کہ جیسے رات گئے شادی بیاہ اور شور و غل پر پابندی عائد کی ہے ویسے ہی ایک قانون بنایا جائے جس سے جہیز لینے دینے کو جرم قرار دیا جائے اور جو اس جرم کا ارتکاب کرے گا اس سے شرعی گرفت اور بھاری جرمانے کئے جائیں تاکہ ایسا کوئی آئندہ گھناؤنا مطالبہ نہ کرے۔ اس کو ختم کرنے کے لیے سخت کاروائی کی ضرورت ہے. معاشرے میں جہیز جیسی لعنت کو ختم کرنے کے لیے والدین کو بھی سختی سے عمل کرنا ہو گا۔ وہ عہد کریں کہ نہ جہیز دیں گے اور نہ لیں گے۔ لوگوں کو بھی بتایا جائے کہ جہیز مانگنا ہی جرم نہیں بلکہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر تحائف کے نام پر جہیز دینا یا اپنی جائیداد وغیرہ فروخت کر کے جہیز کے مطالبات پورے کرنا ایک اخلاقی جرم ہے. ہمارے معاشرے میں جہیز کے علاوہ بہت سی غیراسلامی رسمیں بھی پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے سماج میں زبردست بے چینی بڑھ رہی ہے. امراء کےلیے  کوئی بات نہیں لیکن غریبوں کے لیے بیٹیاں مصیبت ثابت ہو رہی ہیں اور ہزاروں لڑکیاں اس ناسور کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ خودکشی کرنے پر مجبور ہو رہی ہیں۔جہیز کا لین دین غیر اسلامی ہے۔ اس گھناؤنی غیر اسلامی رسم کو ختم کرنے میں نوجوان اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب آج کی نسل جہیز کا لالچ اپنے دلوں سے نکال دے اور معاشرے میں اپنے اس مخلصانہ عمل سے انقلاب برپا کرے۔میں ایسے سفید پوش لوگوں کو بھی جانتا ہوں جن کی بیٹیاں صرف جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھروں میں بیٹھی ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ ذات پات، قوم قبیلے کی بحث میں پڑ کر بیٹیوں کو گھر بٹھائے رکھنا اور کسی دوسرے گھر سے بیٹی نہ لانے کی رسم زہر کی طرح پھیلتی جا رہی ہے۔اپنی قوم قبیلے سے باہر شادی نہ کرنا یا صرف اپنی ذات میں شادی کرنا، شیخ شیخ کے گھر رشتہ کرتا ہے، خان خان کے گھر ۔انصاری انصاری کے گھر ،صدیقی صدیقی کےگھر وغیرہ وغیرہ ، اور اس وجہ سے ہر قبیلے میں اکثر رشتے رُکے رہتے ہیں اور کئی بیٹیوں کو بن بیاہے اپنے والدین کے گھر میں ہی رہنا پڑتا ہے۔ہمارے معاشرے میں آج بھی برہمنوں کے دور میں ہندوؤں سے ادھار لی گئی سوچ موجود ہے ۔ کل میں ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا جس کے مطابق ہندوستان میں تقریبا ایک کروڑ لڑکیاں شادی کی منتظر ہیں جبکہ تقریبا 40 لاکھ لڑکیاں اس انتظار میں بال سفید کروا چکی ہیں۔جس کی بنیادی وجہ صرف یا تو انہیں اپنے برابر کا رشتہ نہیں ملتا  یا ان کے والدین جہیز نہیں دے سکتے۔مگر اس بارے میں سوچے گا کون؟ میں بھی نہیں سوچتا اور آپ بھی نہیں. کیوں کہ ہم اتنے خودغرض لوگ ہیں کہ ہمیں بس اپنا ہی نظر آتا ہے۔ ہاں اگر کسی جگہ بھی کوئی دکھاوے کا موقع ملا تو ہم سب سے آگے ہوں گے۔ جہیز کی رسم ایک ناسور کی طرح معاشرے میں پھیل چکی ہے جس کے باعث دیگر برائیاں ، خود کشی، چوری، طلاق، پرتشدد اموات، دھوکہ دہی اور دیگر کئی سماجی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔اوپر سےشادی میں فرسودہ رسومات کی پیوند کاری نے بھی اس کو مہنگا ترین بنا دیا ہے. امیر گھرانے میں موجود طرح طرح کی رسومات کی دیکھا دیکھی ہم متوسط طبقے کے لوگ معاشرے کو جس جانب جھونک رہے ہیں اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ بھلا خود سوچیں جس نئی زندگی کا آغاز ہی حرام کاموں سے ہو اس زندگی میں برکتیں آئیں گی یا فتنے؟ خود ساختہ رسوم نے اس مقدس رشتے کا اصل چہرہ ہی بگاڑ کے رکھ دیا ہے اور ہم نے خود شادیوں کو مشکل ترین کر دیا ہے۔تین واقعے درس عبرت کے لئے قارئین کی بارگاہ میں پیش ہیں. (1)رفیق چاچا پینٹ کرتے وقت باربار ہمارے فریج کی طرف دیکھ رہے تھے، ان کا پسینے میں شرابور چہرہ اور ان کی بوڑھی آنکھیں مڑ مڑ کر فریج کو دیکھتیں، مجھ سے رہا نا گیا میں نے پوچھا رفیق چاچا؟ پانی چاہئے آپ کو۔بولے نہیں بیٹا میں تو یوں ہی دیکھ رہا تھا، ویسے کمال کی شے ہے نہ یہ بھی، پھر تھوڑی سی خاموشی کے بعد بولے کہ ایک مناسب فریج کتنے روپئے کا آتاہے ۔میں نے پوچھا. چاچا کتنے روپئے آپ کے پاس ہیں۔بولے کہ ایک دن میں 300 روپئے کما لیتا ہوں، اور میں روز 50 روپئے بیٹی کے جہیز کے لئے رکھتا ہوں، لیکن روز کام نہیں ملتاہے اس لئے پچھلے دوسال میں صرف 10 ہزار ہی بچا پایا ہوں، لیکن بیٹی کے سسرال والوں نے فریج کی فرمائش کردی ہے۔ع
طلب جہیز نے چھین لیں ان کی تمام شوخیاں
دیکھو اداس بیٹھی ہیں حوّا کی بیٹیاں
(2)۔میر تقی میر نے اپنے گھر کا سودا خوشی سے کرکے اپنی بیٹی کو جہیز میں سب کچھ دیا۔ شادی کی رات بیٹی سےکسی نے کہہ دیا کہ تیرے باپ نے تیرا گھر بسا دیا.اپنا گھر اجاڑ کے.بیٹی یہ صدمہ برداشت نہ کرسکی اور شادی کی ہی رات میں فوت ہوگئی. میر تقی میر بیٹی کو دیکھنے گئے اور کفن کی چادر ہٹا کر اپنی زندگی کا آخری شعر کہہ دیا۔
اب آیا دھیان اے آرام جاں  اس نامرادی میں
کفن دینا تمھیں  بھولے تھے ہم  اسباب شادی میں 
(3)ابھی تازہ معاملہ گجرات کا ہے چہرے پر ہنسی اور دل میں اتنا درد کہ جان کر کوئی بھی جذباتی ہوجائے۔ اس ہنستی ہوئی لڑکی کا خود کشی سے پہلے آخری ویڈیو میں نے دیکھا۔اپنی فیملی کو ویڈیو بھیجنے کے بعد اس نے ندی میں چھلانگ لگا دی۔ وجہ جان کر آپ کو بھی کافی غصہ آئے گا۔ اس خاتون کا نام عائشہ ہے۔اس ویڈیو میں عائشہ کی خود کشی کے پیچھے کا دُکھ واضح طور پر جھلک رہا ہے، یہ معاملہ گجرات کے احمد آباد کا ہے۔عائشہ نے 25 فروری کو سابرمتی ندی میں چھلانگ لگا کر خودکشی کی تھی۔ عائشہ نے خود کشی کرنے سے پہلے اپنے والدین کو بھی فون کیا تھا۔ والدین نے سمجھانے کی کوشش کی، لیکن عائشہ نہیں مانی۔ اور آخر کار اس نے خود کشی کا راستہ منتخب کیا…کاش کہ ہمارے معاشرے میں موجود ان چند بنیادی لعنتوں کا خاتمہ ہوجائے اور ہمارے ذہن ان گنت خدشات سے پاک ہوجائیں. اور غریب والدین ان داخلی زنجیروں اور فرسودہ رسموں کے طوق سے آزاد ہوکر اپنے فرائض کو ادا کر سکیں ۔خدا را آؤ مل کر ایسا رواج لائیں کہ جس سے بیٹیاں جیت جائیں اور جہیز ہار جائے ۔والدین سے ہماری کچھ نصیحتیں۔جو لوگ جہیز میں پیسے مانگتے ہیں۔انہیں بھیک دیجئے اپنی پیاری سی بیٹی نہیں،میں نے والدین کو جہیز میں وہ سب چیزیں بھی دیتے ہوئے دیکھا، جو ان کے اپنے گھر میں بھی موجود نہیں تھیں. جب بیٹیوں کو رخصت کیا کریں تو انہیں بتادیا کریں کہ ہم نے انسان کا بچہ دیکھ کر رشتہ طے کیا ہے اگر خدانخواستہ وہ جانور کا بچہ نکل آئے تو گھر واپسی کا دروازہ ہمیشہ کھلاہے. کیوں کہ دوبارہ شادی ہوسکتی ہے زندگی ایک بار ملتی ہے اسے خود غرضوں اور نفسیاتی مریضوں کے لئے گنوانا سنگین جہالت ہے. بیٹیوں کو صحیح معنوں میں تحفظ اور محبت دیں۔اور انہیں سمجھائیں کہ خودکشی کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے. 

نوٹ از مدیر اشتراک : میرؔ ( تقی میر) کی ایک صاحبزادی کا ذکر بعض تذکروں میں ملتا ہے کہ وہ بھی شاعرہ تھیں اور ’بیگم‘ تخلص تھا۔ ان کے بارے میں یہ روایت بھی مشہور چلی آتی ہے کہ شادی کے معاً بعد ان کا انتقال ہوگیا تھا جس سے میرؔ کو بہت صدمہ ہوا اور انہوں نے یہ شعر کہا اب آیادھیان اے آرام جاں اس نامرادی میں کفن دینا تمہیں بھولے تھے ہم اسباب شادی میں. مگر یہ شعر نہ میرؔ کے کلیات مطبوعہ میں ملتا ہے نہ کسی قلمی نسخے میں۔کسی ہم عصر تذکرہ نگار نے بھی اسے میرؔ کی طرف منسوب نہیں کیا۔ظاہر ہے یہ واقعہ اختراعی ہے اور یہ شعر امیر اللغات جلد اول میں نادرؔ سے منسوب ہوا ہے اورسب سے پہلے تذکرہ شمیم سخن نے اسے میر کا زائیدہ لکھا ہے۔اس کی روایت کمزور ہے۔میر کی اس لڑکی کا ذکر مختلف تذکروں میں ملتا ہے۔بیگم تخلص تھا قیاس کہتا ہے کہ بیگم میر کلو عرش کی بہن تھیں۔میر نے دوسری شادی لکھنؤ میں (ہی )کی تھی۔ (بحوالہ دیوان عرش،مصنفہ ایم حبیب خاں،مطبوعہ انجمن ترقی اردو ہند، اشاعت 1987) اقتباس ماخوذ از ریختہ

محمد قمر انجم فیضی کی گذشتہ تحریر : مشعل راہ: حیات حضرت خواجہ غریب نواز

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے