سماج واد اور سیاست

سماج واد اور سیاست


جاوید اختر بھارتی


سیاست کی دنیا میں ایک نام، ایک جملہ بہت مشہور ہے جسے سماج واد کہا جاتا ہے تقریباً سبھی سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے اسٹیج سے اور اپنی اپنی تقریر میں سماج واد کا خوب نام لیتی ہیں کچھ پارٹیاں اور کچھ سیاسی لیڈران تو اپنی پارٹی، اپنی سیاست کی بنیاد ہی سماج واد بتلاتے ہیں لیکن سماج واد کیا ہے، سماج واد کی حقیقت کیا ہے، اصل سماج واد کی تصویر کیا ہے، حقیقت میں سماج واد کہتے کسے ہیں؟ یہ بات نہ کوئی پارٹی بتاتی ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی لیڈر بتاتا ہے. جیسے ہر سیاسی لیڈر کہتا ہے کہ ہم گاندھی جی کے خوابوں کا ہندوستان بنانا چاہتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں بتاتا کہ گاندھی جی کا خواب کیا تھا، گاندھی جی کیسا ہندوستان چاہتے تھے یعنی صرف بیان بازی سے کام لیا جاتا ہے. اسی طرح سیاسی پارٹیاں اور سیاسی لیڈران لفظ سماج واد کی تشریح نہیں کرتے بس ایک محاورے کے طور پر بولنا جانتے ہیں. ظاہر سی بات ہے کہ سماج واد وہ نہیں جو صرف بینر کی شکل میں ٹنگا ہوا نظر آئے، سماج واد وہ نہیں جو صرف کاغذ کے ٹکڑے پر لکھا ہوا نظر آئے، سماج واد وہ نہیں جو صرف اشتہاروں کی شکل میں چھپا ہوا نظر آئے، سماج واد وہ نہیں جو صرف اسٹیج سے چیختا اور نعرہ لگاتا ہوا نظر آئے، سماج واد وہ نہیں جو ایک دوسرے کے جذبات کو مجروح کرتا ہوا نظر آئے، سماج واد وہ نہیں جو صرف تنقید برائے تنقید کا نشانہ بناتا ہوا نظر آئے، سماج واد وہ نہیں جو حق و انصاف کی لڑائی لڑنے والوں کو نظر انداز کرتا ہوا نظر آئے، سماج واد وہ نہیں جو انسانوں کو انسانوں سے لڑاتا ہوا نظر آئے بلکہ سماج واد کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور جب سماجواد کو سمجھا جائے گا تو معلوم ہوگا کہ سماج واد کا انصاف سے بھی بڑا گہرا تعلق ہے. سماج واد کا مساوات سے بھی بڑا گہرا تعلق ہے. اور جب انصاف اور مساوات کا ماحول قائم ہوگا تو انسانیت کو فروغ حاصل ہوگا اور جب انسانیت کو فروغ حاصل ہوگا تو کوئی ایک مکان جلے گا تو کوئی یہ نہیں کہے گا کہ فلاں مذہب کے ماننے والے کا مکان جل رہا ہے بلکہ یہ کہے گا کہ ایک ہندوستانی کا مکان جل رہا ہے. جب کسی کا خون ہوگا تو کوئی یہ نہیں کہے گا کہ فلاں مذہب کے ماننے والے کا خون ہوا ہے بلکہ اس کے دل سے آہ نکلے گی اور وہ آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے کہے گا کہ ایک ھندوستانی کا خون ہوا ہے. اور جب ایسا ماحول قائم ہوگا تو رعایا کے اند حکمراں کی مقبولیت میں اضافہ بھی ہوگا اور جمہوریت میں چار چاند بھی لگے گا. جب حق اور انصاف کا بول بالا ہوگا تو امن و امان بھی قائم ہوگا، ملک ترقی کی راہوں پر گامزن ہوگا. ہر ایک کے چہروں پر خوشیوں کے آثار نظر آئیں گے اور ہونٹوں پر مسکراہٹ ہوگی اور اصل سماج واد یہی ہے کہ جس کا جو حق ہے وہ دیا جائے. سیاسی پارٹیوں میں، سماجی کمیٹیوں میں، ملی تنظیموں میں، ملازمت میں، تعلیمی اداروں میں کہیں کسی کے ساتھ حق تلفی نہ کی جائے اور اگر کہیں کسی کا حق مارا جارہا ہے تو اسے اس کا حق دلانے کی کوشش کی جائے. سرکاری جگہوں پر بھی اور غیر سرکاری جگہوں پر بھی. تب جا کر اصل سماج واد کی تصویر ابھر کر سامنے آئے گی-

یونیورسٹیوں میں صرف یہ سوچ رکھا جائے کہ یہ طلباء ہیں اور یہ اساتذہ ہیں، یہ پڑھ نے والے ہیں اور یہ پڑھانے والے ہیں، طلباء یہ سوچ رکھیں کہ ہمارے اساتذہ ہمارے والدین کے برابر ہیں اور اساتذہ یہ سوچ رکھیں کہ ہمارے طلباء ہماری اولاد کے برابر ہیں. اسپتالوں میں یہ سوچ رکھا جائے کہ یہ مریض ہیں اور یہ ڈاکٹر ہیں، مریض علاج کرانے کے لئے آیا ہے اور ڈاکٹر علاچ کرنے یعنی طبی خدمات انجام دینے کے لیے آئے ہیں. ان مقامات اور موقعوں پر کبھی یہ نہ خیال کیا جائے کہ ان کا تعلق فلاں مذہب سے ہے. نہیں ہرگز نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے جذبات کی قدر کرنا، قوم و ملت کی خدمت کرنا یہ سماج واد کا ایک حصہ ہے. اس سے منہ موڑ نے والا کبھی سماج وادی ہو ہی نہیں سکتا. صرف کسی پارٹی، کمیٹی، تنظیم کا نام رکھ لینے سے کوئی سماج وادی نہیں ہوسکتا بلکہ بلا تفریق سماج کی خدمات کو انجام دینے کا نام سماج واد ہے اور ایسی خدمات کو انجام دینے والا سماج وادی ہے. سیاست میں جو جرائم پیشہ افراد گھس پیٹھ کرچکے ہیں وہ اپنا محاسبہ کریں اور پاک دامنی کا راستہ اختیار کریں یا پھر سیاست سے دست بردار ہوجائیں. اگر ایسا نہیں کرتے ہیں اور پھر بھی سماج واد کا نعرہ لگاتے ہیں تو وہ جھوٹے اور مکار ہیں. سماج واد سے ان کا کوئی تعلق نہیں. اس لئے کہ جو سماج واد کا ماننے والا ہوگا وہ سچے دل سے ملک کی اور ملک کے عوام کی خدمت کرے گا اور ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ اسی کے اندر ہوتا ہے جو آئین کا احترام کرتا ہے اور جو آئین کا احترام کرے گا وہ جرائم پیشہ نہیں ہوسکتا اور ھندوستان میں تو اصل سماج واد اولیاء کرام کے آستانوں پر نظر آتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی بلا تفریق مذہب و ملت مرکزِ عقیدت بنے ہوئے ہیں. ہم اپنی زندگی کے منتخب و مختلف شعبوں میں کامیابی کے لیے ان کے توسط سے دعائیں کرتے ہیں لیکن کبھی یہ بھی غور کریں کہ ان کا بھی کوئی مذہب رہا ہوگا یہ اپنے مذہب کے اصولوں پر عمل کرتے رہے ہوں گے، تو آج مرنے کے بعد بھی جم غفیر کی شکل میں انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اتنے احترام و محبت کے ساتھ ہر ذات، ہر برادری اور ہر مذہب کے لوگ جاتے ہیں اور اپنے اپنے طریقے سے عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں تو کاش ان کی تعلیمات پر بھی عمل کیا جائے اور جیتے جی ایک دوسرے کے ساتھ ایسے ہی احترام و محبت کے ساتھ پیش آیا جائے تو کتنا اچھا ہوگا بلکہ یہی حقیقی سماج واد ہوگا اور جب ایسا ہوگا تو نفرت، فرقہ پرستی، تعصب، تنگ نظری کا خاتمہ ہوگا اور آج اسی کی ضرورت ہے کیونکہ سماج واد کا کھوکھلا نعرہ بہت لگ چکا اب سماج واد کے اصلی سانچے میں ڈھلنے کی ضرورت ہے اور اصلی گھی سے ڈالڈا کو نکالنے کی ضرورت ہے –
javedbharti508@gmail.com
– – – – –
جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یوپی
رابطہ :8299579972
صاحب مضمون کا پچھلا مضمون یہاں پڑھیں: دوا، علاج اور بیماری کا کوئی مذہب نہیں ہوتا!
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے