یہ دل تمہارے دل کا پتہ پوچھ رہا ہے (غزل)

یہ دل تمہارے دل کا پتہ پوچھ رہا ہے (غزل)


وارث جــمــــال (مــمـــبئی)


یہ دل تمہارے دل کا پتہ پوچھ رہا ہے
منزل ہے کہ منزل کا پتہ پوچھ رہا ہے

رستے سے میں منزل کا پتہ پوچھ رہا ہوں
رستہ مری منزل کا پتہ پوچھ رہا ہے

جو خود کو سمندر کا مسیحا ہے بتاتا
کشتی سے وہ ساحل کا پتہ پوچھ رہا

سر سبز و شاداب گلستاں اجاڑ کر
وہ سب سے عنادل کا پتہ پوچھ رہا ہے

انصاف پسندوں کی حکومت ہے یہاں پر
مقتول ہی قاتل کا پتہ پوچھ رہا ہے 

تو فرض نمازیں کبھی پڑھتا نہیں وارؔث
اور آج نوافل کا پتہ پوچھ رہا ہے

شاعر کا تعارف:

نام : محمد وارث انصاری
ولدیت: مولانا محمد صادق انصاری
قلمی نام : وارث جماؔل
تخلص : جماؔل

واٹس ایپ نمبر : 8879466780
رابطہ نمبر: 7700034494

ای میل: warisjamal780@gmail.com

ولادت : 9 نومبر 1996 رمضانی کا پورہ سلون رائے بریلی اتر پردیش الہند

عمر : 24 سال

تعلیم :
ھائی اسکول: ماپ خان اردو ھائی اسکول مرول اندھیری ممبئی مہاراشٹر الہند
جونیئر کالج: ماپ خان جونیئر کالج مرول اندھیری ممبئی مہاراشٹر الہند
گریجویشن:  انڈر گریجویٹ TY.BA
اسماعیل یوسف کالج ممبئی مہاراشٹر الہند

مشغلہ:
طالب علم (اسٹوڈنٹ)
شعر و سخن (شاعر)

اساتذہ کرام :
1 پروفیسر ظفر عباس حسینی (ماپ خان جونیئر کالج مرول اندھیری ممبئی مہاراشٹر الہند )
2 قطب الدین راہی مالیگاؤں مہاراشٹر الہند 
3 پروفیسر سبطین عالم(اسماعیل یوسف کالج جوگیشوری ممبئی مہاراشٹر الہند )

پسندیدہ قلم کار:

امام احمد رضؔا خان فاضِل بریلوی
علامہ مصطفی رضا خان(مفتی اعظم الہند)
حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا خان ازھؔری
علامہ محمد اقباؔل
مرزا اسد اللہ غالؔب
مولانا الطاف حسین حاؔلی
جون ایلؔیا
احمد فراؔز
منور راؔنا
نمرہ احمد

پسندیدہ کتابیں :
حدائق بخشش (امام احمد رضا خان )
سامانِ بخشش (مفتی اعظم الہند )
سفینہ بخشش (علامہ اختر رضا خان ازھری)
کلیات اقبال (علامہ اقبال )
دیوان غالب (مرزا غالب)
مسدسِ حالی (الطاف حسین حالی)
یانی، گمان ، گویا (جون ایلیا )
کلیات فراز (احمد فراز )
ماں ، مہاجر نامہ (منور رانا)
جنت کے پتے، پیرکامل، مصحف حالم (نمرہ احمد )

رھائش : فلم سٹی گورے گاؤں ایسٹ ممبئی مہاراشٹر الہند


مزید دو غزلیں:

غزل

نکلے سے جا رہے ہیں صنم کے جگر سے ہم
گھبرا رہے ہیں آپ کو کھونے کے ڈر سے ہم

اے زندگی ٹھہر جا ذرا سا یہاں پہ تو
تھک ہار کے رکے ہیں جہاں کے سفر سے ہم

اس زندگی کی دھوپ نے ایسا کیا کمال
تھوڑے سے رہ گئے ہیں بہت مختصر سے ہم

مر مر کے خود کے گھر میں ہمہی قید ہیں میاں
گھٹ گھٹ کے مر رہے ہیں زمانے کے ڈر سے ہم

بنگال کا وہ جادو کوئی کام کا نہیں
گھائل ہوئے ہیں آپ کی نظرِ اثر سے ہم

غزل

مجھ کو یاد آتا ہے گلشن سا مہکتا چہرہ
جب بھی دیکھوں مری جانا ترا ہنستا چہرہ

آئینے کو نہیں دیکھا ہے پلٹ کر تب سے
دل میں جب سے ہے نظر آیا تمہارا چہرہ

کاٹ لیں انگلیاں خود اپنی حسیناؤں نے
جب نظر آیا ھے یوسف کا چمکتا چہرا

اک زمانہ لگا انساں کو پرکھنے میں مجھے
ایک چہرے میں چھپا ہوتا ہے کتنا چہرہ

روز قرآن کے پاروں کی طرح پڑھتا ہوں
روز تکتا ہوں بڑے پیار سے ماں کا چہرہ

میں نے بس ذکر محبت کا کیا تھا وارث
کیسا مرجھا گیا وہ پھول سا ہنستا چہرہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے