دستک

دستک

محمد شمشاد
صبح سویرے کرن کے دروازہ پر کسی نے دستک دی. ایک دو نہیں کئی بار.نہ چاہ کر بھی وہ بستر سے اٹھی اوربڑبڑاتے ہوئے اس نے دروازے کی جانب اپنا قدم بڑھادیا ”پتہ نہیں اتنا سویرے سویرے کون آگیا، وہی ہوں گے مانگنے والے، انہیں بھی اتنی جلدی ہوتی ہے جیسے ان کی کوئی گاڑی چھو ٹنے والی ہو، نہ انہیں کسی کے آرام کرنے کا خیال ہے یا سونے کا لحاظ ہے اور نہ ہی کسی کی پریشانی کی، بس ڈیلی کا ایک ہی کام رہ گیا ہے انہیں،بھیک مانگنا،انہیں منہ سے کوئی آواز نکالنے کی بھی ضرورت نہیں،کسی دروازے سے وہ ایسے چپکے سے لگ کر کھڑے ہوجاتے ہیں جیسے کوئی گھر کا مالک کھڑا ہو،وہی ہوں گے ان کے علاوہ اور کون ہوگا“ اسی طرح بڑ بڑاتے ہوئے وہ دروازہ کے قریب آگئی
”کون ہے، کیا کام ہے؟ بولتے کیوں نہیں“کرن دروازے کو جھٹکے سے کھولتے ہوئے بولی ”بولو کیا بات ہے“
السلام علیکم کہہ کروہ اسے دیکھنے لگا. اس وقت وہ اسے ایک عجب سی نظروں سے دیکھ رہا تھا. شایدوہ اس با ت کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس نے صحیح دروازے پردستک لگائی ہے یا۔۔۔۔۔
کوئی پچاس سال کا آدمی ایک ٹرالی لئے ہوئے وہاں کھڑا تھا. کچھ دیر کے لئے اسے اس طرح چپ کھڑا دیکھ کرکرن کو تعجب بھی ہوا کہ اتنا صبح سویر ے اس کے گھر اس طرح کون آگیا اور کہاں سے آگیا. وہ اپنے دماغ پر زور دیتے ہوئے اسے نہارنے لگی. شاید وہ اسے پہچاننے کی کوشش کررہی تھی. ورنہ وہ اپنی بوجھل نظروں کو اس کے قریب لے جاکر دیکھنے کی کوشش نہیں کرتی وہ اسے دروازہ پر اس طرح کھڑا دیکھ کر چونک بھی گئی تھی اور چند ہی لمحہ بعد اسے ایسا محسوس ہوا کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہو”تم کب آئے اور کیسے؟ کوئی خط کتاب اور نہ ہی کوئی فون تمہیں میری کیسے یاد آگئی کیا تم شمس ہو؟“
”ہاں میں شمس ہوں“
”آؤ نا اندر تو چلو“ اور یہ کہتے ہوئے کرن نے اس کی ٹرالی کی جانب اپنا ہاتھ بڑھادیا
”تم نے مجھے پہچان لیا“
”ہاں کیوں نہیں پہچانتی کیا تم کوئی غیر ہو جو نہیں پہچان پاتی“
”ہاں میں غیر تو نہیں ہوں لیکن کوئی اپنا بھی تو نہیں“ اتنے میں دونوں باتیں کرتے ہوئے کرن کے کمرے میں آگئے
”تم بھی کیسی بہکی بہکی باتیں کر تے ہو تم تو صرف اپنے ہی نہیں بلکہ سگے رشتہ دار بھی ہو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر دل سے رشتہ ہے تمہارا،اس سے بڑھ کر اور کون ہو سکتا ہے ارے میں تو بھول ہی گئی کہ تم اتنی دور کے سفر سے آرہے ہو اور میں نے ذ را سے پانی کے لئے بھی نہیں پوچھا. تم بھی کیا کہو گے کہ میں کس قدر باتونی ہوں“ اور وہ معذرت کے انداز میں بولی”معاف کر نا میں بس لمحہ بھر کے لئے کچن میں جا رہی ہوں اگر تمیں کوئی ضرورت ہو تو اس باتھ روم کو استعمال کر سکتے ہو اورضروریات سے فارغ ہوسکتے ہو. تمہارے لئے کوئی حرج کی بات نہیں ویسے میرے علاوہ کوئی اور اسے استعمال نہیں کرتا ہے. میں فوراہی واپس آجاتی ہوں تمہیں یہاں میں بور ہونے بالکل نہیں دوں گی“
”یہ کیا بات ہے اگر صرف تم استعمال کرتی ہو تو میں کیوں استعمال کروں اگر کوئی کامن باتھ روم ہو تو بتا دو میں وہاں فارغ ہو جاتا ہوں“
”آج کے بعد سے یہ کمرہ ہی نہیں بلکہ اس کمرے کی ہر چیز نہ صرف میری ہے بلکہ تمہاری بھی ہے“
”کیا اس کمرے کی ساری جو اس کمرے میں موجود ہیں“
”ہاں!ہاں کیوں نہیں !سب کے سب! تمہیں اس میں شک لگ رہا ہے کیا “
”تم کچھ بھول رہی ہو کہیں تمہیں آگے چل کر پچھتانا نہ پڑے“
اگر تمہیں کوئی شک لگ رہا ہو تو میں بھی اس پر کھرا ثابت ہونے کی کوشش کروں گی“
”میں کوئی ان سے الگ ہوں کیا میں بھی تو ان جیسوں کی طرح ہی ایک انسان ہوں“
”ہاں کیوں نہیں وہ تو گھر کے لوگ ہیں اورتم میرے ایک مہمان ہو“
”کب تک“
”جب تک تم چاہو“ چند ہی لمحوں میں دونوں اپنے کام سے فارغ ہوگئے اورکرن ٹرے میں ایک کپ چائے اور ایک گلاس پانی لے کر آگئی
”صرف ایک ہی کپ چائے کیوں اس کے ساتھ کچھ وائے کیوں نہیں“ایک کپ چائے دیکھ کرشمس نے مذاق کرتے ہوئے پوچھا اوراس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی
”تم اٹھتے ساتھ صرف چائے پیتے ہو اسی لئے چائے لائی ہوں اور میں نہیں پیتی،نہا دھو لو تو میں اپنے ہاتھوں سے ناشتہ بنا کر لاؤں گی“
”کیا بات ہے لیکن چائے بالکل پھیکی ہے“
”تم میٹھی چائے کب سے پینے لگے میں جانتی ہوں کہ تم پھیکی چائے پیتے ہو اسی لئے میں نے ایسی بنائی ہے“
”تو کیا مجھے شوگر یا ڈائبٹیز Sugar/Diabeties ہے“
”نہیں میں ایسا کب کہہ رہی ہوں تم تو میٹھی چیزیں کھانے کے بھی بہت شوقین ہو“
”میرے بارے میں تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میں کیا کھاتا ہوں اور کیا پیتا ہوں“
”زیادہ بنو مت اور کبھی بننے کی کوشش بھی مت کرنا میں تمہاری ایک ایک عادت سے واقف ہوں بھلے ہی تمہیں اس کا احساس ہو یا نہیں“
یہ ان کی پہلی ملاقات تھی لیکن دونوں کچھ ہی لمحہ میں ا س طرح بے تکلف ہو گئے تھے کہ کسی دوسرے کوانہیں دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ انکی پہلی ملاقات ہوگی اتنا ہی نہیں شمس کو بھی بعض ا وقات ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ کرن اس کے بارے میں بہت کچھ جانتی ہے بلکہ کبھی کبھی اس کی ذہانت پر اسے حیرت بھی ہوتی تھی کہ وہ اس کے بارے میں اتنا سب کچھ کیسے جانتی ہے
جب شمس چائے پی کر فارغ ہوا توکرن بستر کو ٹھیک کرتے ہوئے بولی ”کچھ دیرکے لئے تم آرام کرلو جب تک میں ناشتہ کی تیاری کر لیتی ہوں اس کے بعد تم غسل کر کے فارغ ہوجاؤ گے توہم سب مل کر ایک ساتھ ناشتہ کر یں گے“
”ارے بھائی میں آرام ورام نہیں کر تا میں جب سوکر اٹھ جاتا ہوں تو بستر میں جانا میرا ناممکن ہوتاہے. ایسا کرتا ہوں میں غسل کر لیتا ہوں تب تک تم میرے لئے ناشتہ تیار کرلو“”میں جانتی ہوں کہ تم بستر سے اٹھنے کے بعد دوبارہ نہیں جاتے لیکن ابھی ناشتہ میں دیر ہے اور سارے لوگوں کو بھی تیار ہو نے میں دیر ہو گی میں یہ بھی جانتی ہوں کہ غسل کرنے کے بعد تمہیں بہت زور کی بھوک لگتی ہے جسے تم ایک منٹ بھی برداشت نہیں کرتے ہو“
”تو میں کیا کروں ایسا کرتا ہوں تنہا بور ہونے سے بہتر ہے کہ میں بھی تمہارے ساتھ کچن میں چلتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ تم کیا تیار کررہی ہو“
”ہاں چلو میں کب منع کرنے والی ہوں“اور دونوں کچن میں جا پہنچے
ان کی آوازیں سننے کے بعد کرن کی دوسری بہنیں جاگ گئیں اور آنکھ ملتے ہوئے کچن میں آگئیں اور بولیں ”اتنا صبح سویرے کون آیا ہے آپی جو کچن میں آپ کے ساتھ باتیں کررہا ہے“
”دیکھو کون آئے ہیں،پہچانو انہیں کون ہو سکتے ہیں،ذرا تم ابھی کچھ بولنا نہیں“
”بھائی جان“
”کون بھائی جان کیا نام ہے ان کاا اور کیسے جانتی ہو انہیں“
اور وہ اپنے دماغ پر زور دے کر سوچنے لگیں کو ن ہیں یہ۔۔۔کون۔۔۔۔ کون ہوسکتے ہیں۔۔۔۔۔ ان کا چہرہ کچھ جانا پہچانا تو لگ رہا ہے لیکن کب اور کہاں ان سے ملی ہوں کچھ یاد نہیں اور پھر جھٹ بولیں ”ارے شمسو بھائی“
تب جا کرشمس نے اپنی چپی توڑی ”میں شمسو نہیں شمس احمد ہوں“
”وہی تو میں بھی بول رہی ہوں“
”ارے پگلی،تم اسلام آباد والے شمسو بھائی کے بارے میں بول رہی ہو نا، وہ شمسو نہیں ہیں یہ شمس ہیں ابھی ابھی دہلی انڈیا سے آئے ہیں“
”تب تو کہیں کہ آپ اچھے اچھوں کو گھاس نہیں ڈالتی ہیں لیکن آج کون ہے جوآپ کے ساتھ باتیں کر رہا ہے اور وہ بھی کچن میں“ یہ سن کر کرن جھینپ سی گئی لیکن وہ یہ کہتے ہوئے شمس کا ہاتھ پکڑ کر کچن سے باہر کھینچ لائی اور آنگن میں لگی چوکی پر بیٹھ کر ان سے باتیں کرنے لگی
”آپ کب آئے کسی کو آپ کے آنے کی خبر تک نہ لگی برسوں سے نہ کوئی خیر خیریت اور نہ ہی کوئی خط یا فون، کیسے کیسے یکایک ہم لوگوں کی یاد آگئی. ہم لوگوں نے تو سوچ لیا تھا کہ شاید آپ اپنی زندگی اور گھر پریوارمیں اتنا مشغول ہو گئے ہیں کہ ہمیں بھول گئے یا آپی کی کوئی بات آپ کو اتنی بری لگ گئی ہو جس کی وجہ کرآپ کو آپی سے بات کرنا بھی گوارہ نہیں،لیکن ہم لوگ تو تھے مگر آپ نے سب کو در کنا ر کردیا تھا ایسا کیوں؟ دیکھئے بھائی جان آپی دل کی بہت اچھی ہیں لیکن ان کے من کی باتیں اگلوانا اچھے اچھوں کی بس کی بات نہیں ہے امی بتاتی تھیں کہ وہ شروع سے ہی خاموش مزاج کی ثابت ہوئی ہیں لیکن امی کی موت کے بعداور ادھر چند برسوں سے وہ بالکل خاموش رہنے لگی ہیں شاید ہی کبھی کسی نے ان کے منہ سے کوئی آواز نکلتے سنا ہو بلکہ اب تو وہ بہت ہی چڑ چڑی رہنے لگی ہیں ہم لوگ تو اس کی وجہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید ان کی تنہائی اس کا سبب بنی ہو یا ان کا چڑچڑاپن ان کے عمر کا تقاضہ بھی ہو سکتاہے لیکن آج انہیں دیکھیئے نا وہ کتنی بدلی بدلی سی اور کتنی خوش و خرم لگ رہی ہیں. آج وہ پھولے نہیں سما رہی ہیں اور کتنے دل کھول کر باتیں کرنے میں مگن ہیں. خدا ان کی اس خوشی کو ہمیشہ کے لئے قائم رکھے”آمین“، لیکن مجھے تو ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں وہ مجھ سے ناراض نہ ہوجائیں کہ میں انہیں ڈسٹرب کر رہی ہوں میں آپی کا موڈ دیکھ کر آتی ہوں“اور یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ ہی رہی تھی کہ کرن کچن سے ہی آواز لگاتے ہوئے آنگن میں آگئی ”ابھی تک تم ان کی باتوں میں ہی لگے ہو اگر ان کا بس چلے تو تمہیں سونے بھی نہیں دیں گی“اور بہن کو ڈانتے ہوئے وہ بولی ”کیا تمہیں آفس نہیں جانا ہے جاؤ تیاری کرو باتیں کرنے کے لئے پورا دن باقی ہے کیا یہ کہیں بھاگے جا رہے ہیں اب تو شمس ہمارے ساتھ ہی رہ رہے ہیں“اوروہ شمس کا ہاتھ پکڑ کر کمرے میں لے جاکر انہیں تیار ہونے کا انتظار کرنے لگی
ناشتہ کرنے کے بعد گھر کے سارے لوگ اپنے اپنے کام سے باہر چلے گئے اوروہ دونوں کرن کے کمرے میں آگئے ”شمس تم تھکے ماندے کئی روز کے سفر کے بعدآئے ہو کچھ دیر کے لئے آرام کر لو اور بستر پر لیٹ جاؤ میں تمہارے سر میں روغن بادام ڈال کر مالش کر دیتی ہوں جس سے تمہیں کافی آرا م ملے گا“یہ سنتے ہی شمس بستر پر دراز ہوگیا. کرن نے اس کے سر کی مالش کرتے ہوئے پوچھا ”کسی چیز کی پریشانی تو نہیں اگر کوئی بات ہو تو بتاؤ گے ہو سکتا ہے مجھ سے انجانے میں کوئی غلطی ہوجائے“
”مجھے کس بات کی پریشانی ہوگی. تمھیں دیکھتے ہی میری ساری پریشانیاں دور ہوگئیں ہیں اوریہاں پہ مجھے اتنا سکون ملا کہ میں اسے بیان نہیں کرسکتا ہوں. آخر کارمیں اپنی منزل تک آہی گیا“اس کی آواز نیند کی غوطے لگا رہی تھی. کرن کو بھی ایسا محسوس ہوا کہ سچ میں اسے کافی سکون ملا ہے شمس کو اس طرح نیند کی آغوش میں آتا دیکھ کر اس نے بھی چپ رہنا مناسب سمجھا اور وہ بالکل خاموش ہوگئی. لیکن اسی خاموشی نے اس کے ماضی کو کریدنا شروع کردیا. گزرے دنوں کی یادوں کا ایک ایک پل کمپیوٹر کی اسکرین کی طرح چمکنے لگا. وہ دن،وہ لمحے کس طرح اس نے گزارے تھے کیا کیا طعنے اور بھپتیاں اس نے سنی اور سہی تھیں. راہ چلتے سماج نے اسے کس کس انداز اور نظریہ سے دیکھنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ کرتی بھی کیا اسے سننے والا کون تھا اگر کوئی تھا بھی تو بہت دور. کوسوں دور اپنے آپ میں مگن تھا. اگر وہ کچھ کہنا چاہتی تو کس سے کہتی؟ لیکن اللہ نے وہ دن بھی اس کے سامنے لاکر کھڑا کر ہی دیا. آج وہ بہت خوش تھی حد سے زیادہ، وہ اللہ کا بار بار شکر ادا کررہی تھی لیکن اسی خوشی میں اس کی آنکھیں نم ہوگئیں اوراس کی آنکھوں سے آنسو نکل کر شمس کے چہرے پر گر پڑے
”کیا تم رورہی ہو“ یہ کہتے ہوئے شمس اٹھ کر بیٹھ گیا اوراسے دیکھنے لگا اس کی آنکھوں سے آنسو رواں دواں تھے. وہ اپنے ہاتھوں سے اس کے چہرہ سے آنسو’وں کو پوچھنے لگا. اس کا لمس اور پیار ملتے ہی وہ بچوں کی طرح بلک اٹھی اور اس کے گلے سے لگ کر زور زور سے رونے لگی. مانو کہ کوئی بچہ اپنی ماں کو یاد کر کے روئے جا رہا ہو. مانا کہ اس وقت اس کی عمرپچاس کے قریب پہنچ چکی تھی لیکن تھی تو بالکل بے سہارا. نہ ماں باپ اور نہ ہی اس کے گھر کا رکھوالا. کوئی تو نہیں،اس وقت شمس اسے تسلی دینے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ چپ ہونے کو تیار نہیں تھی بہت سمجھانے اور تسلی دینے کے بعد وہ تھو ڑی دیر کے لئے چپ بھی ہوئی لیکن پھر وہ اسی انداز سے بلک بلک کر بار بار روئے جا رہی تھی،نہ جانے کیوں وہ اس طرح روئے جا رہی تھی. اس کے دل میں بھی خیال آیا کہ کرن دل بھر کر رو لے اور اپنے دل کی بھڑاس نکال لے تاکہ اس سے وہ دل کھول کر باتیں کر سکے آخر کار وہ چپ ہوئی لیکن جب خاموش ہوئی تو وہ بالکل خاموشی کے ساتھ اسے ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے وہ کہہ رہی ہو کہ تم مجھے اس حال میں چھوڑ کر مت جانا اگر جانا ضروری ہو تو کچھ دنوں کے لئے میری تنہائی کو دور کرنے کے بعد ہی کوئی قدم اٹھانا
یکایک وہ بستر سے اٹھی اور ٹیبل پر رکھے کمپیوٹر کو آن کیا اور یوسف اور زلیخا کے سیریل کے آخری اپیسوڈ کو چلا کر اس کے قریب آکربیٹھ گئی. دونوں اس سیریل کو غور سے دیکھنے لگے اس وقت یوسف کی عمر تقریبا چالیس کی رہی ہوگی اور وہ اپنے دوبچوں اور بیوی سے بہت خوش تھے جب کہ زلیخاایک بیوہ عورت تھی اور اب بوڑھی ہوچلی تھی لیکن وہ یوسف کی دیدارکے لئے پاگل ہوئی جارہی تھی وہ یوسف کی صرف ایک جھلک پانے کے لئے بے قرارتھی اورسڑکوں پرماری ماری پھر رہی تھی بلکہ اس کی یاد میں اپنی بینائی تک گنوا چکی تھی لیکن جیسے ہی یوسف کو زلیخا کی اس حالت کے بارے میں پتہ چلا تو وہ بے چین ہو اٹھے اور سب کچھ جانتے ہوئے بھی انہوں نے زلیخا کو معاف کراسے اپنانا ہی مناسب سمجھااور انہوں نے اس سے نکاح کرلیا
یکایک کرن شمس کے ہاتھوں کو زور سے پکڑ کر دبانے لگی. اسے اس حالت میں دیکھ کرشمس نے اپنے کندھے کے سہارے لگا لیا. اس کے بال شمس کے چہرہ پر اس طرح بکھر گئے جیسے وہ اس سے اٹکھیلیاں کر رہی ہوں اور وہ اس کے بالوں سے بچوں کی طرح کھیلنے لگا. شمس کی یہ حرکت نہ جانے کیو ں اسے اچھی لگی اوراسے ایسا لگا کہ اس کے بدن میں جان آگئی ہو. وہ جوانی کی دہلیز تو پار کر چکی تھی لیکن جوانی کسے کہتے ہیں اس سے وہ بالکل نا آشنا تھی جسے تھوڑی سی حرکت نے حرکت میں لا دیا تھا. اسے اب محسوس ہونے لگا تھا کہ بے قراری کیا چیز ہوتی ہے اس وقت اسے بالکل سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنی ان پریشانیوں اور بے قراری سے کیسے نجات حاصل کرے اوروہ مچلنے لگی. اس کی بھینی بھینی خوشبو اسے قریب سے قریب تر ہونے کے لئے مجبور کر نے لگی اور وہ بھی بیتاب ہوئی جا رہی تھی وہ اسی لمحہ کو اپنے دل میں سجائے برسوں سے اس کے انتظار میں دن گزار رہی تھی. بس اشا رے کی دیر تھی کہ وہ اپنا سب کچھ اس پر نچھاور کردے. اس وقت گھر میں ان دونوں کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا. چاروں طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی. اس خاموشی میں اس کی سانس تیزی سے چل رہی تھی جس کی آواز انہیں صاف سنائی دے رہی تھی اسی لمحہ شمس نے کرن کرن دوبار آواز لگائی لیکن وہ صرف اوں آں کر کے رہ گئی
یکایک شمس نے اس خاموشی کوچیرتے ہو ئے کرن سے پوچھا ”کیا تم بھی زلیخا کی طرح اس عمر میں میرے نکاح میں آنا چاہتی ہو“یہ سن کر اس کا سر شرم سے جھک گیا وہ دل ہی دل میں کھل اٹھی اور اپنا دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ کا شکر ادا کرنے لگی اس وقت اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی برسوں کی تپسیا کارگرثابت ہوگئی ہواور دنیا کی ساری چیزیں ایک ساتھ اسے میسر ہوگئیں ہوں
”سنا ہے کہ لڑکیاں چالیس،پینتالیس کے بعد بوڑھی ہو جاتی ہیں لیکن تم تو ابھی۔۔۔۔۔۔“یہ سن کر وہ شرما تے ہوئے بولی ”آج مجھے پہلی بار ایسا محسوس ہوا کہ مرد کے سہارے سے ایک عورت کوکتنا سکون ملتا ہے اور میں اسی سکون کی تلاش میں ہمیشہ بھٹکتی رہی ہوں اوراب تک تمہارا انتظار کرتی رہی ہوں کہ کب تم۔۔۔۔۔ کچھ دن کی اوربات ہے اور۔۔۔۔۔۔۔ اور میں یہ بھی ثابت کردوںگی کہ ایک پچاس سال کی عورت بھی بچہ جنم دینے کی صلاحیت رکھتی ہے“اتنا کہتے ہوئے وہ ایک دم سے اپنا سینہ تان کر کھڑی ہو گئی
یکایک کرن پھر سے چست درست لگنے لگی تھی اس کے چہرہ کی جھریاں بھی ایک ایک کر کے غائب ہونے لگی تھیں. اس کی اس تبدیلی کو ہر کوئی آسانی سے محسوس کرسکتا تھااور کہہ سکتا تھا کہ جس کے انتظار میں گھٹ گھٹ کر وہ وقت سے قبل ہی بوڑھی ہوگئی تھی شاید اس نے دستک دے دی ہے.
اور۔۔۔۔۔اوراس روز جب گھر کے سارے لوگ جمع ہوگئے تو شمس نے اعلان کردیا کہ بعد نماز عشاء کرن کا نکاح ہونا ہے. نکاح کے بعد ہم سب مل کر ایک ساتھ ہی ڈنر کریں گے یہ سنتے ہی سبھوں کے منہ سے مبارکباد کی صدائیں گونجنے لگیں لیکن کسی کو اتنی ہمت کہاں کہ وہ پوچھیں کہ کرن کا دولہا کون ہوگا اتنے میں کرن شمس کے بغلگیر ہو کر بیٹھ گئی
Mohd Shamshad
موبائل نمبر +91-9910613313, 7011595123:-
Email:-mshamshad313@gmail.com
A-169/2,A.F.Enclave-2,Jamia Nagar,New Delhi-110025
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے