وہ بھول گیا مجھ سے برسوں کی شناسائی

وہ بھول گیا مجھ سے برسوں کی شناسائی

احمد علی برقی اعظمی

وہ بھول گیا مجھ سے برسوں کی شناسائی
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
حالات کا اب میں ہوں خاموش تماشائی
بھائی سے تڑپتا ہے ملنے کے لیے بھائی
تصویر تصور ہی بس ایک سہارا ہے
فرقت نے بنا ڈالا اس کی مجھے سودائی
جذبات تھے بے قابو کرتا بھی تو کیا کرتا
اس رشک گل تر کی جب یاد مجھے آئی
یادوں کے جھروکوں سے حسرت ہے اسے دیکھوں
پہلے تھا جو آنکھوں کی میرے کبھی بینائی
وہ دیکھنا مڑ مڑ کر اس کا مجھے حسرت سے
باقی نہ رہی میری جب طاقت گویائی
جو تار رگ جاں پر ہر وقت غزل خواں تھی
رس گھولتی ہے اب بھی کانوں میں وہ شہنائی
دزدیدہ نگاہی میں کھو جاتا تھا دل جن کی
ان جھیل سی آنکھوں کی یاد اتی ہے گہرائی
دیتا ہے کوئی دستک آ آ کے در دل پر
کاٹے نہیں کٹتی ہے ںرقی شب تنہائی
***
برقی اعظمی کی گذشتہ تخلیق :نئے پرانے چراغ ہیں جو وہ اپنے جلوے دکھا رہے ہیں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے