شور

شور

ارم رحمن
لاہور، پاکستان

مختاراں نے درد زہ میں مبتلا اپنی بھینس رانی کی کراہتی ہوئی آوازوں سے اپنے دس سال کے بچے کی توجہ ہٹانے کے لیے شرفو کو آواز دی کہ ذرا وہ گانا تو لگا دے. 
شرفو مختاراں کی آواز میں چھپا اشارہ سمجھ گیا، اس نے فوراً ہی نور جہاں کا ایک بھڑکیلا گانا عام دنوں کی نسبت ذرا اونچی آواز میں لگا دیا اور ان دونوں کے اکلوتے بیٹے حامد کی توجہ اب گانے پر مرکوز ہوگئی. 
"ماں ، کیا تجھے گانے پسند ہیں؟" حامد نے معصومیت سے پوچھا. 
مختاراں مسکراتے ہوئے بولی "کیا تجھے پسند نہیں."
"نہیں" حامد نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا
"کیوں" مختاراں نے پھر پوچھا
” گانوں کے شور میں سب آوازیں دب جاتی ہیں۔"
ہماری بھینس رو رہی تھی اب اس کی آواز نہیں آرہی۔"
حامد کے الفاظ میں اداسی تھی. 
مختاراں حیران رہ گئی کہ حامد کتنا سمجھ دار ہے، بے شک وہ پوری بات نہیں سمجھا پھر بھی بہت کچھ سمجھ گیا. 
کچھ دیر گانے چلتے رہے، ادھر بھینس نے پوری قوت سے چیخ ماری، بچھیا کو جنم دینے کی جدوجہد میں شرفو اور اس کے ساتھی نے مدد کی، پھر وہ تھک کر چپ ہوگئی، شرفو نے بچھیا کی صفائی کرکے رانی کے ساتھ ہی لٹا دیا. اور یہ موسیقی کا شور اس وقت تک سب کے کانوں کے پردے پھاڑتا رہا جب تک شرفو صاف ستھرا ہوکر مختاراں اور حامد کے پاس نہیں پہنچ گیا. 
گانوں کی کیسٹ چل چل کر گھس چکی تھی، ٹیپ ریکارڈر بھی پرانا تھا، نور جہاں کی مدھر سریلی آواز بالکل پھٹی ہوئی اور بے سری محسوس ہورہی تھی، 
جب ٹیپ ریکارڈر بند ہوا تو حامد نے خوشی سے تالی بجائی کہ "شکر ہے شور بند ہوا"
پھر بڑے لاڈ سے بولا  "ابا اب یہ گانے مت چلانا، سر میں درد ہوتا ہے."، شرفو نے اسے گلے لگایا، ماتھا چوما اور بولا کہ ٹھیک ہے اب نہیں چلاؤں گا۔
شرفو نے نورجہاں کے گانوں کی کیسٹ اور ٹیپ ریکارڈر اپنے باپ کی یاد میں رکھا ہوا تھا، باپ کو نور جہاں کے گانے پسند تھے، کبھی کبھی سنتا تھا اور اتفاق سے آج تو سننے کی وجہ کچھ اور ہی تھی۔
حامد سوگیا تو دونوں میاں بیوی باڑے میں گئے، نوزائیدہ بچھیا کسمسا رہی تھی اور پھر دھیرے دھیرے ماں کے تھنوں کو ڈھونڈ کر منہ لگا لیا، کچھ دھاریں حلق میں اتری ہوں گی کہ شرفو نے اسے بھینس سے الگ کرنے کی کوشش کی، مختاراں نے اونچی آواز میں کہا: "پینے دے شرفو اس کی ماں کے دودھ پر پہلا حق اس کا ہی تو ہے."شرفو نے پھر پیچھے ہٹایا تو مختاراں چیخی
"شرفو ظالم نہ بن، دو چار دن تو پینے دے، کچھ جان پکڑ لے تو پھر الگ کرنا، ویسے بھی دودھ تو شروع کا ہے ہم سے زیادہ تو اسی کے کام کا ہے."
شرفو کو غصہ آگیا وہ بھی جواب میں زور سے بولا: "یہ پی لے اور ہم بھوکے مرجائیں؟"
مختاراں نے دوبدو جواب دیا:
"نہیں مرتے بھوکے، ارے ہماری رانی کو دیکھ کتنے سکون میں ہے، بچھیا کے منہ میں اپنے تھن ڈالے کیسے مطمئن کھڑی ہے، بچھیا کو دودھ پلانے اس کی مامتا کو بھی تو تسکین مل رہی ہوگی."
مختاراں کی آنکھیں چھم چھم نیر بہانے لگیں، شرفو نے اس کے آگے ہاتھ جوڑے پر بولا کچھ نہیں، خاموشی سے کمرے میں چلا گیا اور حامد کے پاس جا کر لیٹ گیا،
مختاراں کافی دیر تک بچھیا کے دودھ پینے کا منظر دیکھتی رہی اور اپنی روح میں اس کی تاثیر اترتی محسوس کرتی رہی، وہ بے چاری ترس گئی تھی ماں بننے کے لیے، حالانکہ چھوٹی عمر میں شادی ہو گئی تھی، کیونکہ سب یہ سمجھتے تھے کہ لڑکا بھلا بڑی عمر کا ہو لیکن لڑکی کی کم عمری میں شادی کر دینی چاہیے، جلدی ماں بنتی ہے، مختاراں شادی کے وقت سترہ سال کی تھی، شرفو بیس کا، دونوں صحت مند، جوان، خوب صورت، مگر شادی کے دس سال تک بھی اولاد نہ ہوئی، شرفو کو طعنے پڑنے لگے کہ شرفو میں خرابی ہے یا مختاراں بانجھ ہے، کچھ نے دبے لفظوں شرفو کو دوسری شادی کے لیے بھی کہا، لیکن شرفو کو مختاراں سے بہت محبت تھی اور بچوں کا شوق بھی مگر اتنا نہیں کہ دوسری شادی کرلے، ویسے بھی وہ دونوں بالکل جوان تھے. اللہ ان کی گود کبھی بھی بھر سکتا تھا لیکن گاؤں والوں کی زبانیں کون بند کرتا، ایک دن تنگ آکر بیوی کا ہاتھ تھاما اور شہر چلا آیا. 

شہر آکر اس نے بہت جلدی اپنے ہنر سے اپنالوہا منوا لیا، بہترین ترکھان تھا، لکڑی کو ایسے تراشتا کہ جیسے موم، اس کی رگڑائی اتنی زبردست کہ چھو کر دیکھو تو ملائی، اس نے کچھ ہی دن شہر میں بے روزگار گزارے ہوں گے، پھر تو کام کا انبار لگ گیا، ایک سال کے اندر اندر اس نے شہر سے تھوڑا باہر اپنا گھر بنا لیا، دو کمروں کی دیواریں اور چھتیں پکی کرلیں، باقی صحن وغیرہ کچا ہی رہا، غسل خانے پر ٹین کی چھت ڈالی، برآمدے پر سوکھی ٹہنیوں کا چھپر ڈال لیا، کچھ مرغیاں اور ایک عدد بھینس پال لی، کھانا پینا ٹھیک چل رہا تھا، انڈے کھانے کا شوق تھا دونوں کو، اور دودھ بھی گھر میں کام آجاتا اور جتنا بچتا اس دودھ سے مختاراں دیسی گھی بنالیتی، جو شرفو اپنے ساتھیوں کو بیچ ڈالتا یا لوگ خود ہی مانگ لیتے، اولاد تھی نہیں، مختاراں گھر کے کام کاج اور بھینس کی دیکھ بھال کرتی، سردیوں کا موسم تھا، ایک دن شرفو نے بتایاکہ ایک نیا گھر بن رہا ہے بہت بڑا، اس میں لکڑی کا بہت کام ہے اور مالک نے جلدی کام کرنے کے لیے ڈبل پیسے دینے کو کہا ہے اگر یہ کام ہوگیا تو ہم غسل خانے کی اور برآمدے کی چھت بھی پکی کرلیں گے لیکن سارا دن مجھے وہاں رہنا ہوگا اور شاید رات کو بھی دیر سے گھر آنا ہوا کرے گا، 
مختاراں سن کر اداس تو ہوئی، مگر خوش زیادہ کہ چلو گھر پکا ہوجائے گا. ہر عورت کی طرح اس کا خواب تھا ایک پکا مضبوط بڑا گھر، اداسی کی وجہ کہ شرفو سے سارا دن دور رہنا پڑے گا، ورنہ تو دس منٹ کے فاصلے پر دکان تھی شرفو کام کے وقت جاتا، فارغ ہوتے ہی گھر آجاتا، دوپہر کا کھانا تو گھر میں مختاراں کے ساتھ ہی کھاتا، اتنے سالوں میں کبھی بھی ایک دوسرے سے کچھ گھنٹوں سے زیادہ دور نہیں رہے تھے، خیر ایسے مواقع کہاں بار بار ملتے ہیں، ویسے بھی ایک دو ماہ کی بات تھی اور رقم بھی اچھی ملنی تھی، شرفو نے جوش و خروش سے کام شروع کردیا، مختاراں نے بھی ساتھ نبھایا، صبح منہ اندھیرے کہرے میں چلا جاتا اور رات کو مغرب کے بعد پلٹتا، جب دھند اترنے لگتی. 
ایک رات شرفو کو آتے ہوئے کافی دیر ہوگئی کہ گلیاں سڑکیں بالکل سنسان ہو چکی تھیں، شرفو پیدل ہی آتا جاتا تھا، نئے گھر سے اپنے گھر تک راستہ صرف تیس منٹ کا تھا لیکن پالا شدید پڑ رہاتھا، اس کے وجود کی قلفی جمنے لگی تو اس نے تیز تیز چلنا شروع کردیا تاکہ جسم میں گرمی آئے، ابھی وہ ایک گلی کے نکڑ سے گزرنے ہی والا تھا کہ کسی بچے کے رونے کی آواز آئی، اس نے نظر انداز کیا، مگر چال میں سستی آگئی، پھر اسے ایک دم کچھ عجیب سی آوازیں سنائی دیں، پہلے کچھ گرنے کی آواز، کسی کے بھاگنے کی، پھر بچے کے رونے کی تیز آواز، شرفو کے کان کھڑے ہوگئے، قدم جم گئے، شرفو ایک قدم نہ ہل سکا، شدید سردی میں ہتھیلی اور ماتھے پر پسینہ محسوس ہونے لگا. 
شرفو نے اس ساری ہلچل کو کسی بچے کا اغوا سمجھا، 
اس نے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی تیز لہریں اٹھتی محسوس کیں، لیکن بچے کی رونے کی آواز اونچی ہوتی گئی، اس نے فوراً مڑکر دیکھا، ایک بچہ کپڑے میں لپٹا بالکل گلی کے نکڑ پر پڑا تھا، شرفو نے بچے کو اٹھالیا، دائیں بائیں دیکھا کوئی نہیں تھا، بچے کی رونے کی آواز اونچی تھی، بچہ نوزائیدہ نہیں لگ رہا تھا، تقریباً ایک دو ماہ کا تھا، بچے نے موسم کی مناسبت سے کپڑے پہنے ہوئے تھے، موٹے کمبل میں لپٹا ہوا تھا، شرفو کا دماغ تیز تیز کام کرنے لگا، اس نے فوراً کڑی سے کڑی جوڑی اسے واضح طور پر محسوس ہورہا تھا کہ اس کے یہاں آنے سے پہلے کوئی بچہ لیے کھڑا تھا اور وہ شخص انتظار میں تھا کہ کوئی آئے اور وہ مرد یا عورت بچہ چھوڑ کر بھاگے تاکہ آنے والا بچہ اٹھالے. 
پھر اسے خیال آیا ایسا تو نہیں کہ بچہ اٹھانے والے نے یہ سمجھا کہ میں نے اسے دیکھ لیا اور وہ گھبراکر بھاگا، بچہ نیچے گر گیا یا بچہ اغوا کر رہا تھا اس لیے چھوڑ کر بھاگا، لیکن اغوا کیا تھا تو بچہ ساتھ لے کر بھاگتا، اور اگر بچہ چھوڑ کر بھاگنا ہی تھا تو کسی کا انتظار کیوں کر رہا تھا. 
انھیں سوالوں کو سوچتے ہوئے وہ گھر پہنچ گیا، اسے بالکل خیال نہیں آیا کہ کوئی اس کا پیچھا تو نہیں کر رہا، لیکن گھر پہنچتے ہی جب اس نے دروازے پر دستک دی تو مختاراں نے اتنی جلدی بے تابی سے دروازہ کھولا جیسے دروازے کے ساتھ ہی لگی کھڑی تھی، شرفو کے ہاتھ میں کمبل دیکھاتو بولی یہ کیا ہے؟
شرفو نے اسے اندر چلنے کو کہا، پھر کمبل بستر پر رکھ دیا. مختاراں حیران تھی، جب کمبل کھولا تو چاند کا ٹکڑا انگوٹھا منہ میں ڈالے چوس رہا تھا، مختاراں کی تو بانچھیں کھل گئیں، وہ تو خوشی سے نہال ہوگئی، اس اللہ کی بندی کو ہوش ہی نہیں رہا کچھ پوچھنے کا، بچہ کس کا ہے؟ کہاں سے آیا ہے ؟ کس نے دیا؟
اس نے بچے کو گود میں اٹھا کر سینے سے لپٹا لیا، پھر شرفو نے ساری بات بتائی اور جب دونوں کے جذبات قابو میں آئے تب جاکر دونوں کو تشویش ہونا شروع ہوئی. گرماگرمی میں دونوں بچہ پاکر خوش تھے مگر جب سر جوڑ کر سوچنے بیٹھے تو دونوں کی ہی ہوائیاں اڑگئیں. ایک ڈیڑھ گھنٹے دونوں بچے کولے کر بیٹھے سوچتے رہے کہ کس کا بچہ ہے؟ کس نے اٹھایا؟ کسی کی دشمنی میں اغواء کیا گیا؟ کہیں ان پر اغوا کا پرچہ نہ ہوجائے؟
اور بالکل آخری خیال جو بجلی بن کر کوندا کہ کیا یہ بچہ حرام کاری کا نتیجہ تو نہیں اور بدنامی کے ڈر سے ماں یا اس کا باپ یونہی راہ چلتے پھینک گئے ہوں؟
غرضیکہ سوچوں کے سارے گھوڑے دوڑائے گئے مگر کچھ سمجھ نہ آئی. 
بچہ پھر چیخا اور اب کی بار اس کے رونے میں شدت بہت تھی، بھوک لگنے کا اشارہ تھا شرفو نے کہا: "دودھ کیسے پلائیں کوئی دودھ کی بوتل تو ہے نہیں پھر اتنا چھوٹا بچہ عام بوتل کو منہ لگاکر نہیں پی سکتا، ایک تو اتنی شدید سردی، اوپر سے رات کے گیارہ بج رہے ہیں کون سی دکان کھلی ہوں گی" پھر شرفو نے مختاراں سے کہا:
"تو اسے چپ کروا میں دودھ گرم کرکے کپ میں لاتا ہوں، چمچ سے تھوڑا تھوڑا پلادیں گے."
مختاراں نے ہاں میں سر ہلایا، شرفو جیسے ہی باورچی خانے میں گیا، مختاراں نے ایک دم اپنی قمیص اٹھائی اور بچے کے ہونٹ چھاتی سے لگا لیے، بچے کے نرم ملائم ہونٹوں نے جب چھاتی کو چوسنا شروع کیا مختاراں کو بہت سکون، ملا بچہ کچھ دیر تک شدت سے چوستا رہا لیکن وہاں کچھ ہوتا تو اس کا پیٹ بھرتا نا، بچے نے پھر بلک بلک کے رونا شروع کردیا. 
اتنے میں شرفو دودھ لے آیا، بیوی کی اس حرکت پر وہ متحیر تھا لیکن اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے دیکھے تو وہ چپ ہی رہا مگر سمجھ گیا کہ مختاراں کی مامتا تسکین چاہتی تھی لیکن قدرت کو یہ منظور نہیں تھا، وہ رات تو گزر گئی، بچے کو چمچ سے تھوڑا تھوڑا دودھ پلا دیا گیا، دیر تو لگی مگر شکر تھا کہ بچے کا پیٹ بھر گیا، وہ سکون سے سوگیا. 
بچے کا حلیہ بتا رہا تھا کہ وہ اچھے گھر کا ہے یا کسی اچھے شخص کے پاس تھا کیونکہ اس کے کپڑے سوئیٹر، کمبل سب کافی قیمتی تھا. صبح ہوئی تو شرفو نے سب سے پہلے بچے کے دودھ پینے کا انتظام کیا. سردی میں دکانیں دیر سے کھلتی تھیں. وہ تو صبح سویرے ہی کام پر چلا جاتا تھا لیکن اس صبح وہ دس بجے تک گھر رہا، بچے کو کپ اور چمچ سے دودھ دیاجاتا رہا لیکن مستقل حل تو فیڈر اور دوسری ضروریات تھیں جو پوری کرنا لازمی تھیں. سب کچھ مختاراں کے حوالے کرکے پھر وہ کام پر گیا، وہ دونوں ایک ہی رات میں ماں باپ بن چکے تھے، دونوں کا رنگ ڈھنگ اور رویہ بھی اصلی ماں باپ والا بن گیا تھا، شرفو نے تو فوراً ذمہ داری اٹھا لی، جب وہ بچے کے ماتھے کو چوم کر گھر سے باہر نکلا تو اس کا زمین پر پڑنے والا ہر قدم ایسا احساس دلارہا تھا کہ وہ باپ بن گیا ہے اور اس نے بلا کسی خوف و خطر راستے سے مٹھائی لی، گرچہ کام پر کافی دیر سے پہنچا، مگر چہرے پر خوشگوار تاثرات، ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ پکڑا ہوا، سب ساتھی صورت حال دیکھ کر بھانپ گئے کہ کوئی خوش خبری ہے. 
شرفو نے بس اتنا کہا کہ "کل رات میں باپ بن گیا"
ایکدن شور مچ گیا، مبارکبادیاں ملنے لگیں اور تو اور مالک نے بھی بیٹے کی پیدائش کی مبارکباد کے ساتھ اچھی خاصی رقم بھی دی اور ساتھ دو دن کی چھٹی بھی۔ مختاراں بچے کے چھن جانے سے ڈر رہی تھی، لیکن شرفو سینہ تان کر چل رہا تھا جیسے وہ واقعی بیٹے کاباپ بن گیا، شادی کے بارہ سال بعد اسے اولاد کا سکھ دیکھنا نصیب ہوا، وہ بھی چاند جیسے بیٹے کی صورت میں، ادھر مختاراں بھی جب بچہ بھوک سے روتا جھٹ اس کا منہ اپنی چھاتیوں سے لگا دیتی، اس کے نرم وگداز ہونٹوں کا لمس اسے عجیب سی طمانیت بخشتا، اس کی روح تک کو سر شار کر دیتا، وہ دودھ نہ ہونے کے باوجود ان لمحات سے بہت لطف اندوزہوتی، تب اسے محسوس ہوا کہ قدرت نے ماں کے سینے میں اولاد کے لیے کتنی محبت ڈالی ہے کہ بچہ نو ماہ کوکھ میں رکھ کر بھی خوش ہوتی ہے، بچہ جننے کی تکلیف بھی صبر سے سہتی ہے، دودھ پلانے سے بھی اس کی مامتا کو تسکین ملتی ہے، اس سارے عمل میں رب نے جو سکون رکھا ہے وہ ماں ہی جان سکتی ہے، بچے کا نام شرفو نے حامد رکھا، جسے مختاراں نے بہت پسند کیا اور حامد ان دونوں کی محبت کے سائے تلے پروان چڑھتا رہا، اب دس سال کا ہوگیا تھا اور ان دس سالوں میں شرفو نے اتنی محنت کی کہ سارا گھر پکاکر لیا، بلکہ دوسری منزل بھی بنا دی، بس صحن کا تھوڑا حصہ کچا رکھا تاکہ ایک دو بھینسیں اور کچھ مرغیاں مزید بھی پالی جاسکیں۔ حامد کو بہترین خوراک مل سکے اور حامد بھی بہت صحت مند اور مضبوط لڑکا بن رہا تھا۔ پڑھائی میں بھی اچھا اور کھیل میں بھی۔ دس سال میں قد کاٹھ عام بچوں سے کہیں زیادہ نکالا تھا، شرفو اسے بہت پڑھانا چاہتا تھا، خود بھی بہت محنت کرتا، زیادہ آمدنی کے لیے اس نے اپنے گھر کی دوسری منزل بہت اچھے کرائے پر ایک بے اولاد جوڑے کودے دی، ہر ماہ معقول رقم آنے لگی، کرائے دار اختر علی پینٹ بوٹ پہننے والا شہری بابو لگتا تھا، عمر تو شرفو سے زیادہ ہی تھی، مگر اپنا بہت خیال رکھتا، بہترین کپڑے پہنتا، خوشبو لگاتا، ایک بھی بال سفید نہیں تھا، اگر تھا بھی تو رنگا ہوا، اس کی بیوی رابعہ، گھریلو سی سادہ، خوش مزاج عورت جسے مختاراں نے ملتے ہی پسند کرلیا۔ درحقیقت منزل کرائے پر دینے سے پہلے دونوں میاں بیوی اس جوڑے سے ملے تھے کیونکہ شرفو کا خیال تھا کہ مرد تو باہر چلے جاتے ہیں عورتیں گھر ہوتی ہیں تو ایسی عورت ہو جو مختاراں کو تنگ نہ کرے، لہذا مختاراں کی مرضی کے مطابق انھیں گھر دے دیا گیا۔ چھ سات ماہ ہوچکے تھے، کرایہ وقت پر باقاعدگی سے ملتا رہا، وہ سب حامد کے لیے جمع ہو رہا تھا، کوئی تنگی نہ تھی، زندگی خوشگوار اور مناسب منصوبہ بندی کے تحت گزر رہی تھی کہ ایک دن بھینس کا تازہ چارہ لا کر شرفو نے رکھا ہی تھا، ابھی اسے کھلا بھی نہیں پایا تھا کہ شرفو کی زور دار چیخ نے مختاراں اور حامد کے ساتھ ساتھ اختر اور رابعہ کو بھی بھاگنے پر مجبور کر دیا، شرفو کے پاس پہنچے تو شرفو کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا، سارا جسم نیلا پڑنے لگا تھا، ابھی سب بوکھلاہٹ کا شکار تھے کہ شرفو مر گیا، ہاں شرفو مر چکا تھا، پانچ دس منٹ کے اندر اندر ہٹا کٹا جیتا جاگتا شرفو زندہ نہیں رہا تھا، مختاراں شرفو کی یہ حالت دیکھ غش کھا کر گر پڑی جب ہوش آیا تو شرفو کا جنازہ تیار تھا، اختر اور رابعہ نے انسانیت کا حق ادا کردیا، ان دونوں نے سب کام سنبھالے، مختاراں کو جب ہوش آتا تو گھڑی دو گھڑی سسکتی پھر شرفو کانام لے کر بے ہوش ہوجاتی۔ جنازہ اٹھ گیا، حتی کہ قل ہوگیا، مختاراں بے حال، حامد کا دکھ دیکھنے والا تھا، دس سال کا یتیم بچہ اپنی ماں کو سنبھالنے میں لگا تھا، سب کو ترس آرہا تھا، لیکن کوئی کیا کرسکتا تھا، یہ مشیت ایزدی تھی یا کاتب تقدیر کا لکھا، شرفو کو جتنی سانسیں اور وقت ملا تھا ختم ہوگیا تھا۔
وقت کی یہ ہی تو خوبی ہوتی ہے کہ گزر جاتا ہے۔ زخم مندمل ہوجاتے ہیں۔ آنسو خشک ہو جاتے ہیں۔ زندگی ہر صورت چلتی رہتی ہے۔ کوئی روکنا بھی چاہے توقدرت کا نظام ہی ایسا ہے کہ زندگی کا سفر نہیں رکتا۔ وقت کبھی کسی کے لیے نہیں ٹھہرتا۔ اب بندے پر منحصر ہے کہ ہنس کر گزارے یا روکر، موسم گزرتے گئے، شرفو کو مرے پانچ ماہ گزر گئے، مختاراں کی عدت ختم ہوگئی۔ وہ شرفو کے نام سے آزاد ہوگئ تھی، اب وہ غش کھاکر نہیں گر رہی تھی نہ ہی روروکر ہلکان تھی بلکہ شرفو کی پسند کا کھانا پکا کر دائیں بائیں گھروں میں بانٹ رہی تھی، رابعہ ساتھ ساتھ کام کرتی رہتی، عدت کی مدت گزرتے ہی اختر نے بھی مختاراں سے سرعام بات کرنا اور خیال رکھنا شروع کر دیا، کرایہ وقت پر مل رہا تھا، اختر تو باہر آتے جاتے مختاراں سے پوچھتا کہ کچھ چاہیے تو نہیں، کوئی ضرورت تو نہیں. 
حامد اسکول باقاعدگی سے جاتا، سارا نظام اگرچہ پہلے جیسا نہیں رہا تھا لیکن مالی تنگی بھی نہیں تھی، شرفو کی دکان پر بیٹھنے والے کاریگر بھی پوری ایمان داری سے کرایہ دیتے، بھینسوں کا چارہ بھی وقت پر آجاتا، سب چل رہا تھا مگر شرفو نہیں تھا، کہنے کو تو شرفو اور مختاراں کی شادی شدہ زندگی اکیس بائیس سال رہی لیکن مختاراں تو اب بھی جوان تھی، وہ تو دیکھنے میں بھی اپنی عمر سے کم لگتی اور ارد گرد کی کچھ خواتین نے اسے دوسرے نکاح کا بھی مشورہ دے دیا کہ سینتیس اڑتیس سال کی عمر بڑی خطرناک ہوتی ہے، عورت کو مرد کی ضرورت تو ہمیشہ رہتی ہے، مگر تیس سے پینتالس تک شدت اختیار کر جاتی ہے، بہکنے کا ڈر ہوتا ہے اور نہ جانے کیا اول فول سننے کو ملتا، ادھر اختر میاں کی بڑھتی نوازشات بھی لوگوں کی نظروں میں مختاراں کو مشکوک بنا رہی تھیں، پھر اختر کی بیوی بانجھ تھی، عمر میں اختر سے دو چار سال بڑی بھی، اولاد کا بندھن بھی نہیں تھا، شاید بےاولادی کے دکھ کو سہتے سہتے اپنی عمر سے بھی پانچ دس سال بڑی لگنے لگی پینتالیس سال تو خود بتائی تھی لیکن لگتی پچاس کے اوپر ہی کی تھی، اس پر اولاد کے حصول کے لیے، ڈاکٹروں حکیموں کی طرح طرح کی دوائیاں کھا کھا کر کہ کسی طرح سونی گود بھر جائے اس کے جسم کا بیڑہ غرق ہوچکا تھا، ایسا پھیلا وجود کہ مرد کی نظر نہ اٹھے، ادھر اختر علی چھریرا بدن خضاب سے رنگے بال، بانکا چھیل چھبیلا بنا پھرتا، شرفو کے مرنے کے بعد تو اور بھی شوخیاں جھاڑنے لگا، آہستہ آہستہ رابعہ سمجھ گئی کہ اختر مختاراں میں دل چسپی لے رہاہے۔ دو چار بار اس نے ذکر بھی کیا تو اختر نے طلاق کی دھمکی دے کر چپ کروا دیا کہ اس سے شادی کروں یا نہیں تجھے طلاق ضرور دوں گا۔ وہ چپ ہوگئی۔
مختاراں بھی سمجھ دار تھی، عورت ذات تو مرد کی نگاہ فوراً پہچانتی ہے، اسے بھی اختر کی چال ڈھال کچھ اشارے دے رہے تھے، لیکن کیا کرتی، کیونکہ وہ اس کا بہت خیال رکھتا تھا۔
جب حامد کو بخار ہوا تو رات کو وہی ڈاکٹر کے پاس لے کر بھاگا، پھر جب کوئی رات کو دروازے پر آتا وہ ہی نیچے بھاگ کر آتا، مختاراں کو منع کردیا تھا کہ اس کی موجودگی میں وہ دروازہ نہیں کھولے گی، مرد ہی دروازہ کھول کر غیروں سے بات کرتے ہیں، مختاراں ساری صورت حال دیکھ کر کبھی کبھی ڈانواں ڈول ہوجاتی، لیکن سوچتی تو شرفو کی محبت کی یادیں، حامد کا مضبوط ساتھ اس کے جینے کے لیے اتنا سہارا کافی تھا، دو چار ماہ مزید گزرے تو اختر نے کھل کھلا کر عامیانہ لفظوں میں مختاراں کے حسن اور جوانی کی تعریف کرنی شروع کردی، کچھ باتیں تو حامد کو بھی بری لگیں، حامد گیارہ سال کا ہوکر بارہویں میں لگ گیا تھا اور حالات نے اسے باقی بچوں سے زیادہ سمجھ دار بنا دیا تھا۔ آئے دن اختر کا عمل دخل ان ماں بیٹے کی زندگی میں کچھ زیادہ ہی بڑھ رہا تھا، پھر شام کو دفتر سے آتے ہی اختر کا سیدھا مختاراں کے پاس آجانا، بے تکلف ہونے کی کوشش کرنا دونوں ماں بیٹے کو بہت کھلتا، جب ایک دن اختر نے مختاراں کا ہاتھ پکڑ کر اظہار محبت کیا تو مختاراں نے جس طرح ہاتھ پیچھے کھینچا اور ہلکی سی تھرتھرائی، حامد نے یہ منظر دیکھ لیا، اس وقت تو مختاراں نے خاموشی سے ہاتھ چھڑا لیا لیکن اپنی جگہ لرزتی رہی، حامد نے بالکل ظاہر نہیں کیا کہ وہ اختر کی حرکت دیکھ بھی چکا ہے اور سمجھ بھی، اختر نے اس کی گھبراہٹ کو عورت کی فطری شرم گردانا، اسے کانپتا دیکھ کر مسکرایا، پھر جوش میں مختاراں سے کہا کہ ’’سوچ لو مجھ سے اچھا مرد نہیں ملے گا، کل تمھارا جواب مجھے ہاں میں چاہیے۔ تمھارے منہ سے ناں نہیں سن سکتا، عاشق ہوں جان دے دوں گا‘‘، اس بکواس کے بعد اس نے ایک بے ڈھنگا ساقہقہہ لگایا اور سیڑھیاں چڑھ گیا۔
مختاراں ابھی بھی تھرتھر کانپ رہی تھی، حامد ماں کی کیفیت کو سمجھ رہا تھا، اس نے ماں کو پانی پیش کیا، اس کی آنکھوں سے بہتے آنسؤوں کو صاف کیا، دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی، بے شک بولا ایک لفظ نہیں لیکن اپنے دل کی بات ماں تک پہنچا دی، اگلی صبح دیکھا کہ اختر رابعہ کو لے کر گھر سے نکل رہا ہے، مختاراں کو دیکھ کر بولا "یہ کچھ دنوں کے لیے اپنی ماں کے گھر رہنے جارہی ہے مگر میں شام کو ضرورواپس آؤں گا۔‘‘
اختر کی آنکھوں میں شیطانی چمک اور ہونٹوں پر مکروہ مسکراہٹ تھی، ادھر رابعہ کا منہ اترا ہوا لگ رہا تھا، آنکھیں سوجی ہوئی جیسے بہت روئی ہو، یہ سارا منظر دیکھ کر مختاراں کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات نمایاں ہوگئے، سارا دن مختاراں ڈرتی رہی کہ اب کیا ہوگا، حامد اسکول سے گھر آیا تو ماں کو پریشان دیکھ کر سمجھ گیا کہ اختر نے پھر کوئی بات کی ہے، اس نے ماں سے پوچھا نہیں بلکہ ماں کے ساتھ گھر رہنے کی خاطر ٹیوشن سے چھٹی کرلی، دوست بھی لینے آئے مگر ان کے ساتھ بھی کرکٹ کھیلنے نہیں گیا، شام ڈھلی رات ہوئی، دروازے پر دستک ہوئی، تو حامد نے دروازہ کھولا سامنے اختر کو دیکھ کر کمرے میں بھاگ گیا، مختاراں وہیں برآمدے میں کھڑی تھی، اختر سیدھا اس کے پاس آیا لیکن مختاراں کچھ کہے سنے بنا کمرے میں چلی گئی اور جاکر بستر پر بیٹھ گئ،
اختر کچھ ٹھٹھکا، پھر اس کے پیچھے کمرے میں جا گھسا، مختاراں کی مسلسل خاموشی کو اس نے اس کی رضامندی سمجھا، دبے ہونٹوں مسکراتے ہوئے کمرے کا دروازہ بند کرنے لگا، ابھی کنڈی بند نہیں کرنے پایا تھا کہ کوئی بھاری چیز زور سے سر پر لگی، پھر نور جہاں کے گانے ٹیپ ریکارڈر پر زور سے بجنے لگے، گھسی پٹی کیسٹ سے ابھرنے والی نورجہاں کی بے سری آواز میں ہر طرح کا شور دب گیا۔
****
ارم رحمان کا گذشتہ افسانہ یہاں پڑھیں:فصیل
***

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے