غصہ۔۔۔ہو اگر قابو تو طاقت ورنہ تذلیل کا ساماں

غصہ۔۔۔ہو اگر قابو تو طاقت ورنہ تذلیل کا ساماں

فاروق طاہر 
عیدی بازار، حیدرآباد، ہند farooqaims@gmail.com,9700122826

بعض کمزوریاں اور خامیاں عمر کے ساتھ ساتھ انسان میں در آتی ہیں۔ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر انسان چند ایسی عادات کو اختیار کر لیتا ہے جس سے اس کی شخصیت اپنا وقار کھو بیٹھتی ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ اختیار کی جانے والی انسانی خامیوں کو اختیار کردہ خرابی یا کمزوری (Acquired Weakness) کہا جاتا ہے۔ رویوں اور برتاؤ کی اصلاح کی معروف شخصیت ڈاکٹر الیاس نجمی نے رویوں کی اصلاح (attitude therapy) میں ان امور پر خاطر خواہ روشنی ڈالی ہے۔انسان اپنی صحت، بیماری، خوشی و غم، اتحاد، وحشت و مسرت اور دیگر مسائل کو اپنے رویوں، انداز فکر، عادات خورد و نوش، سونا جاگنا اور بات چیت کے طور طریقوں سے از خود جنم دیتا ہے۔ نا قص غذا کا استعمال، ورزش سے پہلو تہی، حد سے زیادہ یا کم سونا، اور ذہنی و جذباتی توانائی کو سطحی سرگرمیوں پر ضائع کرتے ہوئے آدمی اپنی جسمانی اور ذہنی صحت و تندرستی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اضطراب، خلفشار اور دباؤ جب ایک دائمی کیفیت اخیتار کر لیتے ہیں تب جسم و ذہن بتدریج کمزور اور زوال پذیر ہو کر بیمار اور کمزور ہونے لگتا ہے۔ ڈاکٹر نجمی کے مطابق ”آدمی اپنی زندگی، صحت و تندرستی اور بیماری کے لیے خود ذمہ دار ہوتا ہے۔“ رویوں کو کامیابی کے حصول میں نہایت معاون اور مددگار عنصر گردانا گیا ہے۔ اس مضمون میں ایسی کمزوریوں کا احاطہ کیا گیا ہے جن کو انسان دانستہ یا غیر دانستہ طور پر عمر کے ساتھ ساتھ اختیار کر تا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ زندگی میں ناکامی، اضطراب اور مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اختیار کردہ انسانی کمزوریوں میں غصہ اور احساس کمتری کو خاص اہمیت حا صل ہے۔ اس مضمون میں غصہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ غصہ فطرت انسانی کا ایک اہم جزو ہے۔ ہر انسان میں فطری اور جبلتی طور پر غصہ پایا جاتا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا انسان ہو جس کو غصہ نہ آتا ہو۔ غصہ کی موجودگی کو غیرت اور خود داری پر بھی محمول کیا گیا ہے۔ کیونکہ ایک غیرت مند اور خود دار شخص ہی اپنے دشمن کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ امام شافعی کا قول ہے ”جو غصہ کے موقع پر غضبناک نہ ہو تو وہ انسان نہیں بلکہ گدھا ہے۔“ اللہ تعالی نے انسان کو جتنی بھی طاقتیں بخشی ہیں ان میں سے کوئی بھی بے کار اور لایعنی نہیں ہیں۔ غصہ کو منفی اور مثبت توانائی کا سر چشمہ کہا گیا ہے۔ غصہ انسانی حمیت، غیرت اور وقار کا پاسبان ہوتا ہے۔ غصہ جو ایک نعمت اور طاقت ہے اس وقت ایک بری شے اور حرام ہوجاتا ہے جب اس کا غلط استعمال کیا جائے۔ غصہ کا صحیح استعمال انسان کی شخصیت کو با وقار بنا دیتا ہے۔ غصے کا انسان میں بالکل نہ پایا جانا بھی ایک خامی ہے اور اس کو غیر پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ لیکن غصہ میں افراط بھی ایک بہت بڑی برائی اور کمزوری ہے۔ ہماری زندگی میں زیادہ تر پریشانیاں غصہ میں افراط ہی کی وجہ سے پائی جاتی ہیں۔ غصہ جہاں ایک طاقت ہے وہیں ایک خطرناک شخصی کمزوری بھی ہے۔ اگر اس پر بر وقت قابو نہ پایا جائے تب برائیوں کے دیگر باب وا ہوجاتے ہیں اور شخصیت کی دل کشی اور جاذبیت مکمل مجروح ہوجاتی ہے۔ اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے۔ اسلام نے غصہ کی خرابیوں اور تباہیوں سے انسانوں کو واضح طور پر خبردار کیا ہے۔ غصہ پر قابو رکھنے اور عفو و درگزر سے کام لینے والوں کو اسلام پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے۔”جب ان کو غصہ آتا ہے تو اس کو پی جاتے ہیں یعنی اس کو چھپا لیتے ہیں اس پر عمل نہیں کرتے اور جنھوں نے برا کیا ہے ان کے ساتھ معافی اور درگزر کرتے ہیں۔“(سورہ آل عمران 134) غصے کو ابھار نے کی کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے لیکن بیشتر یہ وجہ معتبر نہیں ہوتی ہے اور اکثر و بیشتر موقعوں پر معقول بھی نہیں ہوتی ہے۔ غصہ طلبہ پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب کر تا ہے۔ غصہ سے خون منجمد ہوجاتا ہے، ایڈرنلین ہارمون کے اخراج کی وجہ سے دباؤ پیدا کرنے والے ہارمون کے اخراج میں بھی اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے دماغ کا توازن درہم برہم ہوجاتا ہے۔اسی وجہ سے غصے کی حالت میں اکثر لوگ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور قیمتی اشیا کو بھی توڑ نے پھوڑ نے سے بھی گریز نہیں کر تے اور بعض مرتبہ خود کو بھی زخمی کر لیتے ہیں۔
غصہ کی وجوہات: غصہ بذات خود کوئی فعل یا عمل نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ کسی شخص کی کارروائی پر آپ کا رد عمل ہوتا ہے۔ غصہ مایوسی، عدم اطمینان اور حسد کی وجہ سے ابھرتا ہے۔ اپنے مثبت فکر و استدلال کے ذریعہ ہم غصہ کو کچل سکتے ہیں۔ کچھ طلبہ اپنی کامیابی اور مقبولیت پر مطمئین رہنے کے بر خلاف دوسروں کی ان سے زیادہ کامیابی اور مقبولیت کی وجہ سے کبیدہ خاطر اور مضطرب رہتے ہیں۔ زندگی کے دیگر شعبہ جات میں ہم سے زیادہ خوش قسمت اور ہم سے کم تر خوش نصیب افراد بھی پائے جاتے ہیں۔ غصہ کی اہم وجوہات میں حسد بھی ایک اہم وجہ ہے۔ اپنی ذات سے عدم اطمینان کے باعث جب ہم اکثر دوسروں کی خوش بختی اور کامیابی سے اپنا تقابل اور موازنہ کرتے ہیں ایسے میں حسد کے جذبات ابھر نے کے بہت زیادہ امکانات پائے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جب آدمی اپنے آج کا بیتے ہوئے کل سے موازنہ کر کے دیکھے کہ وہ پہلے سے زیادہ عقل مند خوش نصیبی اور قسمت والا ہے کہ نہیں کیونکہ ایک کثیر تعداد کا آج کل سے اکثر بہتر ہی پایا جاتا ہے۔ یہ تقابل اور موازنہ انسان میں احساس طمانیت پیدا کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ طلبہ اپنی معلومات، علم اور قابلیت کا دوسروں سے موازنہ کرنے کے بجائے خود احتسابی کا احساس اپنے اندر جا گزیں کریں جس سے نہ صرف حسد سے چھٹکارا مل جائے گا بلکہ منفی غصہ کی کیفیت سے نجات مل جائے گی اور ساتھ ہی ساتھ طلبہ کی شخصیت بھی سنور جائے گی۔اپنے سے اعلا معیار پر جب نظر جائے گی تو ناشکری اور عدم اطمینان کی کیفیت پیدا ہوگی اور جب اپنے سے کم تر پر نظر پڑے گی تب انسان میں شکر گزاری کے جذبات پیدا ہوں گے اور وہ خود کو آسودہ اور مطمین بھی پائے گا۔ بچوں میں غصہ پیدا کرنے کی وجوہات میں والدین کا اپنی اولاد کی کارکردگی کا دیگر بچوں کی کارکردگی اور کامیابی سے تقابل اور موازنہ کرنا بھی شامل ہے۔ خوبیوں اور قابلیت کی بنا  ہر انسان ایک دوسرے سے مختلف واقع ہوا ہے۔ والدین اپنے بچے کو اس کی قابلیت اور انفرادیت کے دائرے میں ہی پرکھیں نہ کہ دیگر معیارات کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے اپنے بچوں کو ذہنی اور اعصابی خلفشار سے دوچار کریں۔ والدین کی آرزو ہوتی ہے کہ ان کا بچہ نصابی سرگرمیوں کے علاوہ مصوری سے لے کر موسیقی اور کھیل کود میں بھی اعلا مظاہرہ کرے۔ جب بچے والدین کی توقعات پر پورے نہیں اترپاتے ہیں تب ان کو ہدف تنقید و ملامت بنایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان میں دباؤ اور غصے کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے؛ جس کی وجہ سے وہ جارحانہ برتاؤ کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ بچے ذہنی اور جسمانی طور پر دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان میں منفی رجحانات: جیسے بے جا شرمانا، مردم بیزاری، غیر دوستانہ برتاؤ، جلن اور حسد نمو پانے لگتے ہیں؛ جس کی وجہ سے وہ بالکل یک و تنہا ہوکر دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں اور نتیجتاً ان سے غصے کا اظہار ہونے لگتا ہے۔ ہم تمام مصائب، غم و اندوہ اور مایوسی سے بھرا ہوا ایک نظر نہ آنے والا سوٹ کیس اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ اور جب یہ سوٹ کیس کھل جاتا ہے تب ہم والدین، دوست و احباب، اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کو بلی کا بکرا بنا کر اور ان کو مورد الزام ٹھہرا کر اپنی ناگواری اور غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے جو اپنی ہر خرابی کے لیے دوسروں کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتے ہیں بلکہ اپنی خرابی اور خامی کا اعتراف کرتے ہیں اور اس کی اصلاح کا جذبہ بھی رکھتے ہیں وہ لوگ غصے کا شکار نہیں ہوتے ہیں۔
غصے سے نبرد آزمائی: اپنی مایوسی اور محرومی کو چھپانے کے لیے غصے کا سہارا لینے والے طلبہ اپنی پڑھائی پر توجہ مرکوز نہیں کر پاتے ہیں۔ غصہ پر قابو پانے کے عمل کو (Tuning) مطابقت پیدا کر نا کہا جاتا ہے۔ یہ جان کر آپ کو حیرت ہو گی کہ ہم اپنے ذہن کو tune یعنی حالات سے مطابقت کرنے کے لیے تیار کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہوجاتا ہے تو دیکھا گیا ہے کہ بیوہ عورت دھاڑیں مار مارکر روتی ہے، آہ و فغاں کرتی ہے اور سینہ کوبی کرتی نظر آتی ہے۔ لیکن جب کسی کی بیوی کا انتقال ہوتا ہے تب شوہر کو صرف سسکیاں بھرتے ہی دیکھا جاتا ہے۔ دونوں کی محبت میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے. پھر کیوں طرز اظہار میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ زمانے کے مروجہ رسم و رواج اور طریقے ہیں جس کے زیر اثر ہماری تربیت اور پرورش کی گئی ہے اور سکھایا گیا ہے کہ ”مرد نہیں روتے۔“ اور عورتیں ”اپنے غم کے اظہار کے لیے اشک شوئی سے کام لیتی ہیں۔“ آپ اگر چاہیں تو خود کو ٹیون ٹیون کرتے ہوئے کسی بھی واقعہ پر اپنا ردعمل ظاہر کر سکتے ہیں۔ذہن کو حالات کے مطابق بنانے میں صرف لمحوں کی ضرورت در پیش ہوتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے ردعمل کے اظہار سے پہلے اپنے ذہن کو tune کر لیں۔tuning مطابقت پیدا کرنے میں صرف ایک آدھا سیکنڈ کی ضرورت ہوتی ہے. درج ذیل واقعے کے ذریعہ یہ بات واضح کر نے کی کو شش کی جارہی ہے۔
”فرض کیجیے کہ آپ سڑک کے کنارے سے گزر رہے ہیں، اچانک کوئی آپ کو پیچھے سے لات مارتا ہے۔ پہلے تو آپ حیران ہوں گے، پھر الجھن کا شکار ہو جائیں گے اور مڑکر دیکھیں گے۔ لات مارنے والا آپ کو دیکھ کر مسکرا رہا ہے۔ آپ ناراض ہوجائیں گے لیکن تہذیب کا دامن نہ چھوڑتے ہوئے اس شخص سے پوچھیں گے ”کیا بات ہے، مجھے کیوں مارا؟ کیا تم پاگل ہو؟“وہ مسکر اتے ہوئے کہتا ہے ”گدھوں کو پالتو بنانے کے لیے ان کی پیٹھ پر مارا جاتا ہے۔ میں نے آپ کو اس لیے مارا ہے کہ آپ گدھے کی طر ح ہو۔“ آپ اپنی مٹھیاں بھینج کر چلاتے ہیں ”کیا میں تم کو گدھا لگتا ہوں؟“وہ شخص مزید قریب آکر آپ کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے معذرت کرتا ہے ”معاف کرنا، آپ گدھے کی طرح نہیں لگتے۔“ ایک لمحہ کے توقف کے بعد کہتا ہے ”آپ تو بندر لگتے ہو۔“ آپ بے قابو ہوکر اسے ایک زور دار طمانچہ رسید کر دیتے ہیں اور آپ کی ایک انگلی اس کی آنکھ میں جا لگتی ہے اور آنکھ سے خون بہنے لگتا ہے۔ قریب قریب وہ اپنی آنکھ کھو دیتا ہے۔ اسی وقت دو آدمی سادہ لباس میں ایک عمارت سے دوڑ کر اس کو پکڑلیتے ہیں اور آ پ کو بتاتے ہیں کہ یہ دواخانے سے بھاگ آیا ہے۔ تب آپ نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں کہ عمارت پر پاگل خانے کا بورڈ لگا ہوا ہے۔اب آپ کو احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک پاگل شخص ہے۔ آپ کے ہاتھ پیر شل ہوجاتے ہیں۔ خون سے پاگل کی شرٹ بھیگ چکی ہے۔ پاگل خانے کے ذمہ دار اسے پکڑ کر لے جارہے ہیں۔ وہ شخص اپنے زخم سے بے پرواہ آپ کو ہاتھ ہلاکر آپ کے بہتر مستقبل کے لیے اپنے چہرے پر معصوم اور مجنون مسکراہٹ سجائے نیک تمنائیں پیش کر رہاہے۔“ اب آپ کے غصے کا کیا ہوا؟ غصے کی جگہ کون سے جذبات نے جگہ لے لی۔ غصہ، قہر اور جھنجھلاہٹ کو شرمندگی، شفقت اور ہم دردی میں تبدیل ہونے میں کتنی دیر لگی؟ بہ مشکل ایک سیکنڈ۔ اگر آپ صرف ایک سیکنڈ کے لیے انتظار کر لیتے اور خود پر قابو کر لیتے تب بالکل ایک دوسرا ہی منظر سامنے ہوتا۔ اسی ایک سیکنڈ کے توقف کو نفسیات میں tuning کہاجاتا ہے۔ tuning توقف کے ضمن میں شہرۂ آفاق کتاب ”سیون ہیابٹس آف ہائلی ایفکٹیو پیپل“ کے مصنف اسٹیفن آر کوے (Stephen R.Covey) نے tuning کے لیے ایک بہترین تکنیک ”توقف بٹن تکنیک“ (Pause Button Technique) کو متعارف کروایا ہے۔ کوے کہتا ہے کہ ”جذبات سے مغلوب ہوکر آپے سے باہر ہونے سے پہلے آپ اپنے ذہن کے ٹیپ ریکارڈ کے توقف بٹن(pause button) کو صرف ایک سکینڈ کے لیے دبائیں اور چار اہم عوامل و عناصر پر غور کریں۔
(1)احتساب نفس (Introspection): اگروہ پاگل نہیں ہے تو مجھے کیوں لات مارتا؟ یہ ایک ادنی سی بات محسوس ہوتی ہے لیکن آپ کی ایک لمحہ کی یہ سوچ آپ کے ردعمل کو مثبت توانائی فراہم کرتی ہے اور آپ خو د سے کہنے لگتے ہیں کہ میں اس کو پلٹ کر کیوں لات ماروں کیا میں بھی پاگل ہوں؟ یہ ہی احتساب آپ کی توانائی کو ضائع ہونے سے بچاتا ہے۔ ہر چھوٹے سے چھوٹے عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم دوسروں کے افعال و اعمال پر قابو (کنٹرول) نہیں پاسکتے ہیں لیکن یہ بھی ایک آفاقی سچائی ہے کہ یقینا ہم اپنے افعال و اعمال پر ضرور کنٹرول کر سکتے ہیں۔ہمارے غموں اور دکھوں کا نوے فی صد (90%) سبب دوسروں کے افعال و اعمال نہیں ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کے افعال و اعمال پر ہمارے ردعمل کی وجہ سے ہم غم اور مایوسی کی ظلمتوں میں گم ہوجاتے ہیں۔ دوسروں کے افعال پر کف افسوس ملنے، جلنے اور کڑھنے کے بجائے ہم اپنے مثبت ردعمل کے ذریعہ یقینا خود کو مصائب، مایوسی اور غموں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ ان چاہے اور پریشان کن اور اشتعال انگیز واقعات پر جب ہم چند لمحات کے لیے غور و خوص کرتے ہیں یہ وقتی احتساب و توقف ہم کو دائمی مصائب، پریشانیوں اور پشیمانی سے بچا لیتا ہے۔ ہر انسان بالخصوص طلبہ پریشان کن اور اشتعال انگیز واقعات پر فی الفور اپنا ردعمل پیش کرنے  سے احتراز کریں۔ طلبہ کا یہ ایک دانش مندانہ اقدام ان کو مستقبل کی ذلت اور رسوائی سے محفوظ کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
(2)شعور (Consciousness): عارضی ردعمل کی ہمارے جذبات اور مستقل (دائمی) ردعمل کی ہمارا شعور رہ بری و رہ نمائی کرتا ہے۔ اپنے ضمیر کو اپنا منصف (جج) بناکر پوچھیے کہ آپ کے اعمال و افعال کو وہ قبول کرتا ہے؟ یا پھر آپ کو بعد میں پشیمان ہونا پڑے گا۔ ہم میں اکثر حضرات اپنے افعال کے لیے بعد میں پشیمانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہمارا شعور ہمارے افعال و اعمال کو عارضی طور پر نہیں بلکہ دائمی طور پر قبول کرے۔ کسی بھی صورت حال میں اپنا ردعمل ظاہر کرنے سے پہلے آپ مطمئن ہوجائیں کہ بعد میں آپ کو اس ردعمل کی بنا پر رسوائی اور پشیمانی کا سامنا توکرنا نہیں پڑے گا۔
(3)تخلیقیت(Creativity): اس نے آپ کو مارا۔ پلٹ کر آپ نے بھی اس کو مارا۔ کیا آپ نے اس سے بہتر انداز میں اپنا ردعمل یا جواب پیش کیا ہے۔ دوسروں کے کسی بھی عمل پر اپنا ردعمل مختلف، بہتر اور تخلیقی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کریں۔ ایک سیب اگر درخت سے آپ کے سر پر گر پڑے تب آپ اس کو کھانے کے بجائے اگر غور کرتے ہیں کہ سیب درخت سے ٹوٹنے کے بعد زمین پر کیوں آگرا وہ آسمان کی طرف پرواز کیوں نہیں کر گیا۔ اس طرح کی فکر و استدلال آپ کو ضرور آئی زیاگ نیوٹن (Issac Newton) کی طرح ایک سائنس داں بنا دے گا۔ مروجہ انداز میں غور و فکر کے بجائے خول کے باہر جھانکنے کی کوشش نیا اور مختلف زاویہ نگاہ اورتخلیقی سرگرمیوں پر عمل پیرائی کے ذریعے ہم اپنے ذہن کو حالات سے مطابقت پیدا کرنے یا بہ الفاظ دیگر tuning کے لائق بنا سکتے ہیں۔ طلبہ کا اس طرح کا طرز عمل ذہنی توازن کی تعمیر و برقراری میں کار آمد ہوتا ہے۔
(4) آزادی فکر(Freedom of thought): منطقی و استدلالی فکر کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شک، وہم اور مایوسی سے کسی بھی عمل کو انجام دینا بھی دانش مندی سے بعید اقدام ہوتا ہے۔ آپ کے بزرگ اور سماج آپ کی رہ بری میں نمایاں کردار انجام دیتے ہیں لیکن فرسودہ و غیر عقلی و غیر منطقی عقائد اور غیر معقول توہم پرستی آپ کو اپنی منزل سے گمراہ کر دیتی ہے۔کوشش کر یں کہ آپ کے ردعمل کو آپ کے مضحکہ خیز عقائد کنٹرول نہ کرنے پائیں۔ غصہ کی اہم وجہ مایوسی ہوتی ہے۔ خراب تعلقات کی وجہ سے در آنے والی مایوسی، معاشی اضمحلال یا معاشی عدم تحفظ، حالات کا امیدوں کے برعکس کروٹ لینا، مستقبل کا خوف و ڈر، غیر حاصل کردہ اہداف و مقاصد وغیرہ غصے کے دائمی وجوہات ہوتے ہیں۔ مایوسی پیدا کرنے والے عارضی واقعات (جب حالات امید کے برخلاف جائیں) بھی غصہ کی وجہ ہوسکتے ہیں۔ مذکورہ بالا چار عناصر پر عمل پیرا ہوکر ہم اپنے غصے پر قابو پاسکتے ہیں۔ ابتدا میں یہ ناممکن اور غیر حقیقی لگتے ہیں لیکن میرا تجربہ ہے کہ جب اس کی مشق کی جائے تو یہ بالکل ممکن ہے۔ دائمی غصہ انسان کو تباہ کردیتا ہے۔ دل و دماغ پر برے اثرات مرتب کرتے ہوئے اسے کمزور اور مضمحل کر دیتا ہے۔ جو شخص اپنی حیثیت، صحت اور دین کا خیر خواہ ہے وہ اس کا سختی سے مقابلہ کرے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے ”نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کہ تم پہلوان کس کو سمجھتے ہو، صحابہ نے عرض کیا کہ جس کو لوگ پچھاڑ نہ سکیں، آپ ﷺ نے فرمایا ایسا نہیں ہے۔ پہلوان وہ ہے جو اپنے نفس پر غصے کے وقت قابو رکھے۔“ اور آپ ﷺ نے فرمایا ”سب سے افضل گھونٹ جو انسان پیتا ہے وہ غصہ ہے اور اللہ اس کا بدلہ اور جزا یہ دیں گے کہ اس کے دل کو ایمان سے بھر دیں گے۔“ ہم کو ہر پل یہ خیال رہنا چاہیے کہ غصہ ہمارے اعصابی کنٹرول کو نہ چھین لے، ہماری عفت و عزت اور وقار و عظمت کو پامال نہ کردے۔ غصہ ہر جگہ اور ہر حال میں برا، ناپسندیدہ اور نقصان دہ نہیں ہوتا ہے بلکہ اگر غصے کو مناسب موقعوں اور صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ ہماری زندگی کے لیے بہت سود مند ثابت ہوتا ہے۔ غصہ کو بالکل ختم کردینے کے بجائے اس طاقت و توانائی پر قابو پانے کی بچوں کو تربیت فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن ہر حال میں خیال رکھیں کہ غصہ عقل پر کبھی بھی بالا دستی نہ حاصل کر پائے۔
***
فاروق طاہر کی گذشتہ نگارش :سیل فون و انٹرنیٹ! ذہنی و جسمانی امراض اور فکری بے راہ روی کا طوفان

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے