بے لگام آزادی صرف جنگل راج میں ہی حاصل ہوتی ہے : خواجہ عبد المنتقم

بے لگام آزادی صرف جنگل راج میں ہی حاصل ہوتی ہے : خواجہ عبد المنتقم

بیوروکریٹ خواجہ عبدالمنتقم سے علیزے نجف کی ایک ملاقات

انٹرویو نگار : علیزے نجف

قانون کسی بھی معاشرے کی سب سے مضبوط کڑی ہوتی ہے. اس کے ذریعے نظم و ضبط پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی تحفظ کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے. ایک جمہوری معاشرے میں قانون اور دستور ہی اصل بنیاد ہوتی ہے، جس پہ ایک فرد یا معاشرہ کھڑا ہوتا ہے۔ خواجہ عبدالمنتقم ایک ایسے ہی صحافی ہیں، جنھوں نے قانون کی روشنی میں صحافت و سیاست کی باریکیوں کو واضح کیا ہے اور عوام کو ان حقوق سے آگاہ کیا ہے، جو دستور ہند کے آئین میں انھیں حاصل ہے. یہ انسانی حقوق سوسائٹی کے رکن ہیں. اس حیثیت سے انسانی حقوق کی فراہمی ان کی سب سے پہلی ترجیح رہی ہے۔ انھوں نے قانونی ادب کے علاوہ معاشرتی زندگی سے متعلق اور دوسرے موضوعات پہ بھی لکھا ہے. یہ نہ صرف صحافی و مصنف ہیں بلکہ یہ بیوروکریٹ اور پروفیسر بھی رہ چکے ہیں. ان کی دو درجن سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں. اس کے علاوہ انھوں نے بہت سی کتابوں کا ترجمہ بھی کیا ہے۔
انھوں نے وزارت قانون میں انڈر سکریٹری، ڈپٹی سکریٹری و ڈائریکٹر کی سطح کے عہدوں پر کام کیا اور سینٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹریبیونل میں بہ طور رجسٹرار فائز رہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے دہلی ہائی کورٹ میں بہ طور انٹرپریٹر اور مشرا کمیشن میں بہ حیثیت ڈائریکٹر بھی کام کیا۔ اور CBI و انڈین لا انسٹی ٹیوٹ کے ریسورس پرسن رہے۔ خواجہ صاحب عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں۔ اس کے علاوہ ایک طویل عرصہ سے این سی پی یو ایل کے لا پینل کے رکن رہے ہیں۔ انھوں نے متعدد عہدوں پہ رہتے ہوئے ملک کے عوام کی خدمت کی ہے اور خلق خدا میں آسانیاں تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اتنی ساری خصوصیات کی حامل شخصیت اس وقت میرے روبرو ہیں، میں ان کے سامنے بہ طور انٹرویو نگار  موجود ہوں، آئیے اب مزید ان کے بارے میں انھی سے جانتے ہیں اور ان کی زندگی کے پیچ و خم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انھوں نے آٹھ دہائیوں پہ مشتمل اپنے سفر حیات کو کن اصولوں کے ساتھ طے کیا اور ان کے نظریات و خیالات کیا ہیں۔
علیزے نجف: ہم سب سے پہلے آپ کی جائے پیدائش، اس کی مختلف اعتبار سے اہمیت اور بچپن  کی زندگی کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں؟
خواجہ عبدالمنتقم: ہمارا یوم پیدائش 9 نومبر، 1943 اور جائے پیدائش لودھی سرائے، سنبھل ہے۔ اگرچہ ہماری جائے پیدائش سنبھل ہے مگر ہم دہلی ہی کو اپنا اصل وطن مانتے ہیں کیونکہ ہمارے بزرگ بھی اس شہر میں تقریباً ایک صدی قبل آباد ہوئے تھے اور اسی شہر میں ہمیں عزت، دولت اور یہاں تک کہ ایک نہایت وفادار شریک حیات ملی۔
سنبھل کونہ صرف تاریخی اعتبار سے بلکہ ادبی، ثقافتی، مذہبی وسیاسی اعتبار سے بھی ایک اہم شہر کی حیثیت حاصل ہے۔ پانچویں صدی سے لے کر سولہویں صدی تک اس پر مختلف راجاؤں اور بادشاہوں نے حکومت کی۔ پانچویں صدی میں اس پر پنچال راجاؤں کی حکومت تھی۔ اس کے بعد یہ راجا اشوک کی حکومت کے تحت رہا اور ما بعد اس پر لودھی اور مغل بادشاہوں نے حکومت کی۔ پرتھوی راج چوہان کے زمانے میں یہ اس کا دارالخلافہ رہا۔
اس شہر نے جن شعرا، ادیبوں صاحب طرز انشا پردازوں و صحافیوں کو اپنے دامن عافیت میں جگہ دی ان کی ایک طویل فہرست ہے۔ ان میں آج بھی کتنے ہی ادیب، اہل قلم و صحافی سرگرم عمل ہیں۔ ان کی تفصیل ریختہ کی سائٹ پر موجود ہے۔ ان کی مکمل تفصیل کے لیے صفحات کے صفحات درکار ہیں۔
یہ وہ شہر ہے جہاں ہندو اور مسلمان دونوں ہی نے جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جیل گئے اور ہر طرح کی صعوبتیں جھیلیں۔ ان میں منشی امام الدین ہادی، مولانا محمد اسماعیل، مولانا عبدالقیوم، منشی معین الدین انصاری، مولانا عبدالوحید، مولانا مبارک حسین محمودی، چیتن سروپ رستوگی، پنڈت جے نرائن شرما، مہاشے پیارے لال خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ کتنے ہی لوگوں کو پھانسی کی سزا بھی دی گئی۔
یہ شہر اہل ہنود کے لیے مذہبی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کلیگ میں کلکی اوتار سنبھل میں ہوگا۔ سنبھل میں ہندوؤں کے کئی مندر اور اہم مقامات ہیں۔ بابر کی تعمیر کرائی گئی سنبھل کی جامع مسجد آج بھی شہر کی شان ہے۔
میدان صحافت میں مولانا عتیق الرحمن سنبھلی، حفیظ نعمانی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ موجودہ دور میں طارق قمر، مظفر غزالی، اویس سنبھلی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان میں اور لوگ بھی شامل ہیں۔ ان لوگوں کے نام ہمارے سامنے اکثر آتے رہتے ہیں۔ ہم 1953ء میں دہلی آگئے اور آج تک اسی شہر میں رہائش پذیر ہیں۔
علیزے نجف: آپ ایک ذی علم انسان ہیں۔ آپ نے کن کن اداروں میں تعلیم حاصل کی اور کون کون سے مضامین میں آپ کو سب سے زیادہ دل چسپی رہی؟ طالب علمی کے دور کی  ایسی دل چسپ باتیں جنھیں آپ ہم سے شیئر کرنا چاہیں گے؟
خواجہ عبدالمنتقم: سیکنڈری اسکول کی سطح تک ہماری تعلیم اینگلو عربک سینئر سیکنڈری اسکول، اجمیری گیٹ، دہلی میں ہوئی۔ ہم نے اس اسکول میں 1953ء میں داخلہ لیا اور 1959ء میں ہائر سیکنڈری کیا۔ ہمیں کامرس اور اکنامکس مضامین ہماری مرضی کے خلاف دلائے گئے تھے، جب کہ ہماری دل چسپی اردو اور انگریزی ادب میں زیادہ تھی۔ ہم یونی ورسٹی کی لائبریری میں معاشیات اور کامرس کی کتابوں کی بجائے بیشتر انگریزی ادیبوں و شعرا کی تصانیف اور اے آر خاتون اور قرۃ العین حیدر کے افسانے پڑھا کرتے تھے۔ ہمارے ادبی ذوق کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 1959ء میں ہائر سیکنڈری کے اردو کے پرچے میں 4 یا 5 عنوانات میں سے جس عنوان پر ہم نے مضمون لکھا تھا وہ تھا:
کسی بے کس کو اے بیداد گر مارا تو کیا مارا
جو آپ ہی مر رہا ہو اس کو گر مارا تو کیا مارا
اسکول کے عقبی حصے میں ایک چشمہ تھا اور کسی کا مزار۔ وہاں اسکول کے قرب میں واقع جی بی روڈ نامی بازار حسن کی پریاں ہر جمعرات کو حاضری دیتی تھیں اور گڑگڑا کر دعائیں مانگتی تھیں۔ روزی میں برکت کی یا حصول نجات کی؟ کیا دعائیں مانگتی تھیں اللہ یعلم الغیب۔ اس بات کا ذکر کرنا ہماری عمر کے اس پڑاؤ پر مناسب تو نہیں معلوم ہوتا مگر جو حقیقت ہے وہ حقیقت ہے اور حقیقت کو نظر انداز کرنا حقیقت کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔
ہائر سیکنڈری کرنے کے بعد ہم نے 1959 میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں بی کام میں داخلہ لیا اور وہیں سے یہ کورس پورا کیا۔ اس داخلے کے بھی ایک بڑی دل چسپ کہانی ہے. وہ یہ کہ ہمارے والد کے ایک ساتھی جناب سلیمان عباس صاحب جو ایک شیعہ عالم اور مجتہد بھی تھے، اور بعد میں بنارس ہندو یونی ورسٹی میں فارسی کے پروفیسر رہے، نے اس دور کے وائس چانسلر کرنل بشیر زیدی صاحب کے نام ایک خط لکھ کر دے دیا اور ہم سے کہا کہ ان کی کوٹھی پر جاکر انھیں دے دینا۔ جیسے ہی ہم نے وہ خط دربان کو دیا تو وائس چانسلر صاحب فوراً باہر آگئے اور اسی پرچے پر FF/RR لکھ دیا۔ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ ان اشارتی حروف کے کیا معانی ہیں۔ FF سے مراد Full freeship یعنی پوری فیس معاف اور RR سے مراد Reduced rates یعنی رعایتی در پر تمام سہولیات کی فراہمی تھی۔ جب ہم یہ خط لے کر داخلے کے لیے یونی ورسٹی کے اسٹریچی ہال میں پہنچے تو ہمیں وہاں VIP ٹریٹ منٹ ملا۔ یہ بات دوسری ہے کہ ہم اس وقت وی آئی پی اصطلاح تک سے بھی واقف نہیں تھے۔ علی گڑھ سے بی کام کرنے کے بعد ہم دہلی آگئے. یہاں آکر ہم نے اکنامکس، کامرس و قانون کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد شملہ سے انگریزی میں ایم۔ اے کیا اور اردو ہندی ادب کے کئی امتحانات پاس کیے۔ سبک دوشی کے بعد انسانی حقوق میں ایم اے کیا اور علاوہ ازیں ہم نے انسٹی ٹیوٹ آف جوڈیشل ٹریننگ اینڈ ریسرچ، لکھنؤ سے لیجسلیٹو ڈرافٹنگ کا کورس بھی مکمل کیا۔ اس کورس کے دوران ہمیں ادارے کی جانب سے بابری مسجد-رام جنم بھومی کے انہدام سے کچھ عرصہ قبل وہاں لے جایا گیا تھا اور ہمیں اس مسجد کے انہدام سے کچھ عرصہ قبل اس کے دیدار اور اس میں داخل ہونے کا موقع بھی ملا۔ ہوسکتا ہے کہ اس مسجد میں اس کے مسمار کیے جانے سے قبل داخل ہونے والے ہم آخری مسلمان ہوں۔
علیزے نجف: آپ ایک صحافی ہیں. بہ طور صحافی  آپ کئی دہائیوں سے اپنی خدمات انجام دیتے آ رہے ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ آپ نے میدان صحافت میں کب قدم رکھا، آزاد صحافی کی حیثیت سے کیا آپ نے خود کو مکمل آزاد محسوس کیا اور آپ نے کن اخبارات کے لیے اب تک لکھا ہے؟
خواجہ عبدالمنتقم: ہمیں لکھنے لکھانے کا شوق کم عمری سے ہی تھا اور اسکول و کالج کے زمانے میں غالباً دو تین مضمون بھی ہمارے شائع ہوئے تھے، لیکن اس شوق کی باقاعدہ ابتدا اس وقت ہوئی جب ہم نے الٰہ آباد میں رجسٹرار کا عہدہ سنبھالا اور وہاں ہم 1995سے 1998 تک تعینات رہے۔ ہمارا پہلا مضمون Constitution of India and the minorities (بھارت کا آئین اور اقلیتیں) الٰہ آباد (جس کا اب نیا نام پریاگ راج ہے) سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار پتریکا، جو بہ ظاہر ہندی نام ہے، میں شائع ہوا اور اس کے بعد یہ سلسلہ جب تک ہم الٰہ آباد میں رہے تب تک چلتا رہا۔ اس کے علاوہ ان تینوں سال میں آکاش وانی کے قانون اور ہم پروگرام میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے۔ اس کے بعد ہم دہلی آگئے اور اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات میں مشغول ہو گئے۔ کئی سال کے وقفے کے بعد ہم نے قومی آواز میں اس دور میں لکھنا شروع کیا جب موہن چراغی اس کے ایڈیٹر تھے۔ ان کا تعلق کشمیر سے تھا۔ قومی آواز میں ہمارا پہلا مضمون ’کشمیریوں کو تاہنوز انتظار سحر‘ شائع ہوا اور اس کے بعد یہ سلسلہ اس اخبار کے بند ہونے تک جاری رہا۔ ہم نے جن اخبارات و جرائد کے لیے لکھا اور جن میں سے کچھ کے لیے اب بھی لکھ رے ہیں ان میں روز نامہ راشٹریہ سہارا، انقلاب، میرا وطن، اردو دنیا، چوتھی دنیا، ایوان اردو، مطالعات، خواتین دنیا، بچوں کی دنیا، عالمی سہارا و بزم سہارا (ان دونوں کی اشاعت بند ہو چکی ہے) شامل ہیں۔ ہمارے ایک ہزار سے زائد مضامین مختلف اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں۔
علیزے نجف: زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو اس کی بقا و ترقی کا انحصار صلاحیت اور اصول پہ ہوتا ہے. آپ کے نزدیک کسی صحافی کو میدان صحافت میں اپنی پیشہ وارانہ صحافتی صلاحیت منوانے کے لیے کیا کیا خوبیاں درکار ہوتی ہیں اور اسے کن کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟
خواجہ عبدالمنتقم: ایک باصلاحیت صحافی کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ ہمیشہ پیشہ ورانہ صحافتی ضابطۂ اخلاق کا پابند رہے۔ ہر صحافی کو جن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے اور اس میں جو خوبیاں ہونی چاہئیں وہ ہیں سچائی و دیانت داری، اشاعت سے قبل حقائق کی تصدیق، قیاس آرائی سے احتراز، بغیر اجازت کسی کی گفتگو ٹیپ نہ کرنا، محض قیاس آرائی کی بنیاد پر کسی کو خطاوار نہ ٹھہرانا اور میڈیا ٹرائل کی راہ اختیار نہ کرنا، عدالتی کارروائی سے متعلق خبروں کی معروضی رپورٹنگ، فحش نگاری اور سماجی برائیوں کو فخریہ انداز میں پیش نہ کر نا، فرقہ وارانہ تنازعات/تصادم کو اس طرح کور نہ کرنا کہ مختلف فرقوں اور طبقوں کے جذبات برانگیختہ ہوں، سنسنی خیز و اشتعال انگیز صحافت (yellow journalism) سے دوری اختیار کرنا، قدرتی آفات سے متعلق رپورٹنگ اس طرح کرنا کہ عوام میں بے چینی اور انتشار نہ پیدا ہو، ایچ آئی وی/ایڈس، کووڈ و دیگر خطرناک بیماریوں وےشدید آفات کے بارے میں عوام تک ضروری معلومات پہنچانا، فوٹو جرنلزم کے لیے ضابطۂ کار کو دیانت داری سے رو بہ عمل لانا، مثلاً کسی حادثے، سانحہ وغیرہ سے متعلق بکھری ہوئی لاشوں کی تصویریں اس طرح پیش نہ کرنا کہ اس سے عوام یا مختلف فرقوں یا طبقوں کے جذبات مجروح یا برانگیختہ ہوں۔
یہ ماننا کہ آئین کے تحت دیگر شہریوں کی طرح صحافیوں کو بھی اظہار رائے کا حق حاصل ہے لیکن اس قسم کی آزادی پر بھارت کے اقتدار اعلا اور سالمیت، مملکت کی سلامتی، دوسرے ممالک سے دوستانہ تعلقات، امن عامہ، شائستگی یا اخلاق عامہ وغیرہ کی اغراض کے لیے پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔ اسی لیے اس آزادی کو بے لگام آزادی نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ بے لگام آزادی تو صرف جنگل راج میں ہی حاصل ہوتی ہے نہ کہ کسی جمہوری نظام حکومت میں۔
علیزے نجف: ادب کی کئی جہات اور کئی اصناف ہیں اور آپ کی بیشتر طبع آزمائیاں قانونی ادب پہ مبنی ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ ادب کی دیگر جہات کے مقابلے میں آپ نے اپنی تصانیف اور مضامین میں قانونی ادب کو ہی کیوں ترجیح دی؟ کیا آپ کے قانونی موضوعات پر لکھے گئے مضامین سے عوام کو کوئی فائدہ ہوا یا ان میں بیداری پیدا ہوئی؟
خواجہ عبدالمنتقم: آپ نے صحیح فرمایا کہ ہم نے اپنی تصانیف اور مضامین میں قانونی ادب کو ہی ترجیح دی لیکن ہمیں صرف قانونی ادب کے دائرہ میں ہی مقید رکھنا ایک ادبی زیادتی ہوگی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے تمام زندگی قانونی اداروں میں ہی گزاری. جیسے دہلی کورٹ، وزارت قانون وغیرہ۔ یہ مانا کہ ہمارا زیادہ تر زور قانونی موضوعات پر ہی رہا ہے لیکن ہم نے لسانیاتی، ادبی، مطالعاتی، سماجی، بشریاتی اور ثقافتی موضوعات پر بھی کثیر تعداد میں مضامین لکھے ہیں۔ویسے بھی قانونی ادب تمام موضوعات کا احاطہ کرتاہے اور ہر شعبۂ حیات کی ضابطہ بندی کے لیے قانون بنائے جاتے ہیں۔ ہم نے اپنے ساتھی صحافیوں اور قارئین کو ہمیشہ ضروری و اہم قانونی معلومات دستیاب کرانے کی کوشش کی اور وضاحت طلب اصطلاحات کے صحیح مفہوم سے بر قت و بر موقع باور کرایا۔آ ج بھی ہمارے بہت سے صحافی UN کو UNO لکھتے ہیں جب کہ اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر واضح طور پر (The United Nations) درج ہے۔ اقوام متحدہ ایک تنظیم ضرور ہے مگر لفظ organization اس کے نام کا حصہ نہیں ہے۔ اسی طرح ہم صحافیوں کو انگریزی کے متروک الفاظ سے بھی واقف کراتے رہے ہیں۔ مثلاً اب mankind کی جگہ لفظ humankind کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ میں وضع کی جانے والی دستاویز ات میں بھی لفظ humankind کا استعمال کیا جارہا ہے۔
علیزے نجف: آپ کو کئی زبانوں پہ دسترس حاصل ہے، ان میں سے ایک زبان اردو بھی ہے، آپ نے اس زبان میں اب تک بہت کچھ لکھا اور پڑھا بھی ہے، یوں اردو زبان کی حیثیت کے ساتھ ساتھ اس کو درپیش مسائل کا بھی اندازہ ہے. میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ آپ کی نظر میں ہندستان میں اردو کا مستقبل کیسا ہے اور آج کی تاریخ مین اس کے اثرات کا دائرہ کیا ہے؟
خواجہ عبدالمنتقم: جہاں تک اردو کے مستقبل کی بات ہے، اگر اس کا مستقبل بہت روشن نہیں تو تاریک بھی نہیں، مگر یاد رہے کہ جب کوئی زبان عاملہ اور عدلیہ کی زبان رہی ہو وہ کبھی مٹ نہیں سکتی۔ ہوسکتا ہے کہ کسی خاص شعبہ کے بارے میں ہماری یہ رائے غلط ثابت ہو مگر جہاں تک قانون کا سوال ہے، ان اصطلاحات کا استعمال آنے والی صدیوں تک ہوتا رہے گا. جس طرح گزشتہ کئی صدیوں سے ہوتا آرہا ہے۔ جائیداد کے انتقال یا اس طرح کے دیگر امور سے متعلق دستاویزات ثبوت کے طور پرعدالت میں پیش کی جاتی رہیں گی۔ آج بھی مغلیہ دور کے فرمان عدالتوں کے روبرو دستاویزی شہادت کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں اور بیع نامہ، رہن، قرقی، فرد مقبوضگی، جامہ تلاشی، فرد آلۂ جرم، نقشۂ مرگ (inquest report)، روزنامچہ جیسے الفاظ قانونی دستاویزات میں استعمال کیے جارہے ہیں، خواہ رسم الخط کوئی بھی ہو۔
علیزے نجف: آپ کی زندگی میںpassion ، profession دونوں ہی شامل رہے ہیں، آپ نے ایک طویل عرصے تک سرکاری ملازمت کی اور اس کے بعد آپ نے تصنیف و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھا، تو کیا آپ اپنی تصانیف اور ملازمت کے بارے میں ہمیں کچھ بتانا چاہیں گے؟
خواہ عبدالمنتقم: جہاں تک ہماری تصانیف کی بات ہے، ہماری زائد از 15ہزار صفحات پر مشتمل تقریباً چار درجن کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ بیشتر کتابیں اردو میں ہیں۔ ہماری پہلی انگریزی کتاب ‘Protection of Human Rights-National and International Perspectives”، جس کا پیش لفظ چیف جسٹس آف انڈیا نے لکھا تھا 2004ء میں شائع ہوئی اور لگ بھگ اس کے ساتھ ہی اردو کتاب بعنوان ’ہندو مسلم اتحاد اور مسلم سماج‘ اور Islam’s Big No to Terrorism‘شائع ہوئیں۔ جب ہم نے دہشت گردی سے متعلق کتاب صدر جارج بش کو بھیجی تو امریکا سے ہندستان میں امریکی سفارت خانہ کو یہ ہدایت دی گئی کہ وہ ہم سے اس سلسلہ میں تبادلۂ خیالات کریں۔ ہماری دیگر تصانیف میں اول سہ لسانی قانونی لغت، اول سہ لسانی لغت صحافت، بھارت کا آئین سہ لسانی ایڈیشن مع تاریخ، تنقید و تبصرہ، فرہنگ قانونی، تجارتی و مالیاتی اصطلاحات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ جن موضوعات پر ہم نے کتابیں لکھی ہیں وہ ہیں: ہمارے پیغمبرؐ، انسانی حقوق، ہندوستانی نظام قانون، ہندو مسلم اتحاد، خواتین کی اختیار کاری، جنسی جرائم، تعزیری قوانین، پریس کی آزادی، پرسنل لا، وقف، تحفظ صارفین، ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر، ا ے پی جے عبدالکلام وغیرہ۔ ان میں تقریباً ایک درجن کتابیں این سی پی یو ایل نے شائع کی ہیں یا ان کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ہیں۔
جہاں تک ملازمت کی بات ہے، ہم نے وزارت قانون میں انڈر سکریٹری، ڈپٹی سکریٹری و ڈائریکٹر کی سطح کے عہدوں پر کام کیا اور سینٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹریبیونل میں بہ طور رجسٹرار فائز رہے۔ اس کے علاوہ ہم نے دہلی ہائی کورٹ میں بہ طور انٹرپریٹر اورمشرا کمیشن میں بہ حیثیت ڈائریکٹر بھی کام کیا۔ یو پی ایس سی نے ماہر قانون کی حیثیت سے ہم سے بہ طور صلاح کار کام لیا۔بعد از سبک دوشی ہم نے بہ حیثیت وزٹنگ پروفیسر ایمٹی یونی ورسٹی میں کئی سال تک ایل ایل۔ایم کے طلبا کو پڑھایا اور ریسرچ اسکالرز کی رہنمائی کی اور CBI و انڈین لا انسٹی ٹیوٹ کے ریسورس پرسن رہے۔ ہم عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں۔ اس کے علاوہ ایک طویل عرصہ سے این سی پی یو ایل کے لا پینل کے رکن رہے ہیں۔
علیزے نجف: انسان کا شمار اشرف المخلوقات میں ہوتا ہے لیکن وہ پھر بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر دست و گریباں ہو جاتے ہیں اور کبھی کبھی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ آپ نے اپنی تصانیف میں ان امور کا کافی تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ کیا آپٖ اس موضوع پر روشنی ڈالنا چاہیں گے؟
خواجہ عبدالمنتقم: اس ضمن میں ہم صرف اتنا ہی کہنا چاہیں گے کہ ہمارے ملک ہندستان میں ہندومسلم اتحاد ایک مسئلہ بھی ہے اور ہندستانی سیکولرازم کی روح بھی۔ یہ تقسیم ہند کا شاخسانہ تو ہے ہی لیکن تنگ ذہن سیاست دانوں اور نام نہاد مذہبی تنظیموں نے بھی جلتی ہوئی آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا اور کر رہی ہیں۔ تقسیم ہند کے ناخوشگوار واقعات کو لوگوں نے کافی حد تک بھلا دیا تھا مگر بابری-رام جنم بھومی معاملے نے فرقہ پر ست و متعصب افراد کو پھر سرگرم ہونے کا موقع دے دیا۔ ہندستان جیسے مہذب ملک میں، جس کے سیکورٹی کونسل کا مستقل رکن بننے کی بات نوشتۂ دیوار ہے، لنچنگ، سر تن سے جدا، پتھر بازی، عبادت گاہوں پر حملے، غذا و لباس کی بابت بے تکے اعتراضات جیسے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ اس پر قدغن لگانے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ نفرت مستقل صورت اختیار کرلے تو اس سے قومیں کی قومیں اور ملک کے ملک تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔
علیزے نجف: نظریات انسانی زندگی میں انتہائی [کذا] کے حامل ہوتے ہیں اور کامیاب زندگی گزارنے کے لیے ایک واضح نظریہ کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ آپ کی نظر میں وہ نظریہ کیا ہے جو کامیابی کے حصول میں معاون ہوتا ہے؟
خواجہ عبدالمنتقم: اپنے پیشہ ورانہ و معاشرتی فرائض کی ایمان دارانہ ادائیگی اور ہر صورت حال میں صبر و تحمل کا مظاہرہ۔
علیزے نجف: آپ نے بتایا کہ آپ دنیا کے کئی ممالک بہ شمول امریکا جا چکے ہیں. آپ نے وہاں کی تہذیب کو قریب سے دیکھا ہے. کیا آپ ہمیں امریکی کلچر، امریکی اقدار، ان کے مزاج، سوچ و طرز زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟
خواجہ عبدالمنتقم: امریکی معاشرہ رنگا رنگ، کثیر نوعی، کثیر لسانی، کثیر ثقافتی و کثیر نسلی ہے۔ اس کی 320 ملین کی آبادی میں امریکا کے اصل باشندے، لاطینی امریکی، انگریز مہاجرین اور دنیا کے تمام ممالک سے بہ شمول ایشیا و افریقہ، ہجرت کرکے آنے والے شامل ہیں۔ اسی لیے امریکی کلچر کو Melting Pot کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ week end میں کوئی نہ کوئی تفریحی پروگرام ضرور بناتے ہیں، چاہے اس کے لیے انھیں کسی ضروری تقریب یا کسی ضروری کام کو ہی کیوں نہ چھوڑ نا پڑے یا ان کی تنخواہ ہی کیوں نہ کٹ جائے۔Barbecue ان کا خاص شوق ہے۔ امریکیوں کو بچپن سے ہی آزاد رہنے اور کسی پر منحصر نہ رہنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ بچوں کو ماں باپ کے ساتھ سونے تک کی اجازت نہیں۔ اسی لیے خونی رشتوں میں بھی وہ حرارت نہیں پائی جاتی جو ہمارے ملک میں ہے۔ البتہ civic sense کے معاملے میں وہ ہم سے بہت آگے ہیں۔
علیزے نجف: آپ نے ایک عرصہ میڈیا اور صحافت کے میدان میں گذارا ہے اور اس کے پیچ و خم سے متعلق گہرا علم رکھتے ہیں. آپ اپنے تجربات کی روشنی میں نوجوان صحافیوں اور میڈیاکو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
خواجہ عبدالمنتقم: جیسا کہ ہم نے آپ کے ایک سوال کے جواب میں کہا، وہ صحافتی ضابطۂ اخلاق کی ایمانےداری سے پابندی کریں اور ہمیشہ تحقیقی تجسس کا جذبہ رکھیں۔ انسان تاحیات طالب علم رہتا ہے اور کچھ نہ کچھ سیکھتا رہتا ہے۔ ہم بھی پبلک اسکول میں پڑھنے والے پوتا پوتی سے نئے نئے الفاظ سیکھتے رہتے ہیں۔ اپنے سینئر صحافیوں سے کچھ نہ کچھ سیکھتے رہیں اور ان کا ہمیشہ احترام کریں۔
علیزے نجف: اس دنیا کی سب سے اہم مخلوق انسان ہے اور یہ ترقی اور آسانیاں انسانوں کے لیے ہی وجود پزیر ہوئی ہیں، لیکن وہیں ایک المیہ بھی ہے کہ اسی انسانی معاشرے میں انسانی حقوق کو پامال کیے جانے والے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں. آپ انسانی حقوق سے متعلق کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ اپ کو کیا لگتا ہے کیا انسانی حقوق کے تحفظ میں میڈیا ایک فعال رول ادا کر سکتا ہے؟
خواجہ عبدالمنتقم: میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق واقعات کو دنیا کے سامنے لائے، مگر اس کی رپورٹنگ سے قومی پیمانے پر مختلف فرقوں و گروپوں کے بیچ کوئی من مٹاؤ نہ پیدا ہو اور بین الاقوامی پیمانے پر مختلف قوموں کے بیچ نئے اختلافات نہ پیدا ہوں یا موجودہ اختلافات کو دور کرنے میں مزید رکاوٹیں نہ پیدا ہوں۔
علیزے نجف: ہر جمہوری ملک میں سبھی کویہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی بات کہہ سکیں۔ کیا ارباب حکومت کو ان کی عدم توجہی کے سبب پرامن احتجاج کے ذریعہ اپنے مسائل سے گوش گزار کرایا جا سکتا ہے، کیا حکومتیں ایسے احتجاج کو نتیجہ خیز بننے دیں گی؟
خواجہ عبدالمنتقم: متاثرین اور ان کے حامیوں کو پر امن احتجاج کر نے کا آئینی حق حاصل ہے لیکن احتجاج کی نوعیت، خواہ احتجاج کسی بھی غرض کے لیے کیا جائے، ایسی نہیں ہونی چاہئے کہ جس سے عوام کے مابین مزید بد مزگی پیدا ہو۔ مظاہرین کے ہاتھوں میں اگر پھول نہیں تو کم از کم پتھر تو نہیں ہونے چاہئیں اور صدائے احتجاج بھی بد زبانی اور کلام دشنام آمیز سے مبرا ہونا چاہئے۔
علیزے نجف: اس وقت اردو زبان کو جو مسائل درپیش ہیں، اس سے اردو صحافت بھی متاثر ہے، جو کہ فطری ہے. ایسے میں کیا یہ الزام درست ہے کہ اردو صحافی دیگر زبانوں کے صحافیوں سے کم درجہ ہیں اور وہ وقت کی تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے میں ناکام رہے ہیں؟
خواجہ عبدالمنتقم: ہمارے اردو صحافی دوسرے زبانوں کے صحافیوں سے کسی بھی صورت میں کم نہیں، لیکن کبھی کبھی ان سے صرف اس لیے لغزش ہوجاتی ہے کہ ایک صحافی سے، جس کا تعلق صرف ادب سے ہو کبھی کھیلوں پر، کبھی گلوبل وارمنگ پر تو کبھی مصنوعی ذہانت پر لکھنے کے لیے کہا جاتا ہے. جب کہ انگریزی، ہندی و دیگر بڑی زبانوں میں ایسا نہیں ہے۔
علیزے نجف: کچھ کالم نگاروں اور صحافیوں نے کسی بھی ایشو کی بابت غیرجانب دارانہ سوچ کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اپنے ذاتی رجحان و نظریات کو قارئین کے روبرو پیش کرنا اپنا وطیرہ بنالیا ہے؟ آپ اس کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟
خواجہ عبدالمنتقم: ایک اچھا کالم نگار وہ ہے جو ایک تاریخ داں کی طرح سچائی کا متلاشی ہو اور کسی اثر و رسوخ کے بغیر میلان طبع یا جانب دارانہ فکر و عمل سے پہلو تہی کرتے ہوئے معروضی اور غیر جانب دارانہ صحافتی خدمات انجام دے۔
علیزے نجف: کسی اخبار کے مدیر کو اپنی ادارتی خدمات کی انجام دہی میں، خاص طور پر اداریہ لکھتے وقت، کن کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے اور اس کے اختیار تمیزی کی حدود کیا ہیں؟
خواجہ عبدالمنتقم: اداریہ لکھنے کے سلسلے میں ایڈیٹر کو کافی حد تک آزادی اور اختیارتمیزی حاصل ہے۔ اداریے کا موضوع کیا ہوگا اور وہ اس کے لیے کیا زبان استعمال کرے گا اس کا انتخاب ایڈیٹر کو ہی کرنا ہوتا ہے۔ البتہ اسے اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہ اداریہ قانون کی حدود کو پار نہ کرے اور اس سے صحافت کے اصولوں کو زک نہ پہنچے اور اداریے میں کی گئی تنقید/ تبصرے اور اظہار کردہ خیالات سنجیدگی و شائستگی کے ساتھ ایسی زبان میں شائع کیے جائیں جنھیں ہمارا معاشرہ بہ آسانی قبول کرلے۔
علیزے نجف: آج عظمت رفتہ سے محروم مسلمانان ہند ہر شعبہ جات میں دیگر برادرن وطن سے پیچھے ہیں۔میرا سوال یہ ہے کہ کیا انھیں اپنی بدحالی کو دور کرنے کے لیے اپنا احتساب کرنے اور وقت کے تقاضوں کے مدنظر بہترحکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے؟
خواجہ عبدالمنتقم: عظمت رفتہ کو یاد رکھتے ہوئے عظمت حال و عظمت مستقبل کی فکر کریں، جدید تعلیم حاصل کریں اور دوسرے لوگوں کی طرح ہر میدان میں حتی المقدور برابر آنے کی کوشش کریں۔ مایوسی کفر ہے۔
علیزے نجف: کیا آپ اپنے خاندان کے بارے میں کچھ باتیں ہم سے شیئر کرنا چاہیں گے؟
خواجہ عبدالمنتقم: ہمارے خاندان میں تقریباً سبھی لوگ اعلا تعلیم یافتہ ہیں اور مرد حضرات اعلا عہدوں پر فائزہیں یا فائز رہ چکے ہیں۔ ہمارے والد مفسر قرآن خواجہ عبدالمقتدر اپنے وقت کے جید و مستند عالم دین مولانا مولوی مفتی و محدث جناب خواجہ ولایت احمد صاحب کے صاحب زادے تھے۔ وہ تا حیات پیشۂ تدریس سے وابستہ رہے۔ انھیں اردو، ہندی، عربی، فارسی اور انگریزی پانچوں زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا۔ وہ اردو اور عربی میں ایم اے تھے اور انھوں نے انگریزی ادب کے ساتھ بی۔اے کیا تھا. انھوں نے مدرسہ عالیہ فتحپوری سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انگریزی تعلیم حاصل کی۔ جب امام حرم ہندستان تشریف لائے تو ان کی تقریر کا بر موقع ترجمہ کرنے کے لیے ہمارے والد کی خدمات حاصل کی گئیں۔
اس کے علاوہ ہمارے بیٹے، بہو، بہن، بھائی، بھانجے، بھتیجے اور خاندان کے سبھی لوگ ماشاء اللہ تعلیم یافتہ ہیں۔ ہمارے بیٹے، بھتیجے و بھانجے اعلا تکنیکی و تدریسی عہدوں پر فائز ہیں۔ ہمارے بھائی خواجہ افتخار احمد عالمی شہرت یافتہ بین الاقوامی مذہبی ہم آہنگی فاؤنڈیشن کے صدر ہیں اور علی گڑھ مسلم یونی وسٹی میں منٹو سرکل کے پرنسپل رہ چکے ہیں۔ ایک اچھے قلم کار ہونے کے ساتھ ساتھ کئی معیاری کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ دوسرے بھائی خواجہ عبدالحفیظ سینٹرل انفارمیشن سروس کے رکن رہ چکے ہیں اور قومی انسانی حقوق کمیشن میں بہ طور ڈپٹی رجسٹرار (لاء) خدمات انجام دے چکے ہیں۔
علیزے نجف: آپ اپنی صحافتی زندگی میں پیش آنے والے کس واقعہ کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں؟
خواجہ عبدالمنتقم: تقریباً 11 سال قبل کی بات ہے کہ عالمی شہرت یافتہ اور ہمارے ملک کے نامور صحافی جناب خوشونت سنگھ نے انگریزی روزنامہ ہندوستان ٹائمز مؤرخہ یکم مئی 2011 میں اپنے Malice کالم میں برقعے اور برقعہ پوش خواتین کے بارے میں لکھا تھا کہ جب وہ برقعے میں کسی خاتون کو دیکھتے ہیں تو انھیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان کی دل شکنی ہورہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ برقعہ پہننا جہالت کی نشانی ہے۔ راقم الحروف نے ان کے اس مضمون کا جواب ان مختصر تین سوالات کی شکل میں دیا جسے ایڈٹ کرکے اسی اخبار نے آسمانی رنگ میں ہائی لائٹ کرتے ہوئے اپنی 8 مئی 2011 کی اشاعت میں شائع کیا۔
-1 کیا کوئی برقع پوش عورت جس کے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگری ہو، یونی ورسٹی میں پروفیسر ہو، کئی کتابوں کی مصنفہ ہو، ان سے ملاقات کے لیے آئے تو کیا وہ اسے جاہل کہیں گے؟
-2 کیا ایرانی خواتین جو انجینئرنگ و میڈیسن کے میدان میں نہایت نمایاں کردار ادا کررہی ہیں اور اپنے جسم کو مکمل طور پر ڈھانک کر رکھتی ہیں وہ سب کی سب جاہل ہیں؟
-3 کیا ہر وہ عورت جو برقع نہیں پہنتی اور اپنے دستخط بھی نہیں کرسکتے، ایک تعلیم یافتہ برقع پوش عورت کے مقابلے میں جاہل کہلائے گی یا تعلیم یافتہ؟
سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ خشونت جیسے عظیم المرتبت صحافی نے ہمارے جواب کے بعد جواب الجواب نہیں دیا اور ان کی یہ خاموشی ہمارے لیے ایک ادبی سرمایہ ہے۔
علیزے نجف: آپ نے انٹرویو کے دوران کیسا محسوس کیا؟ کیا آپ اس کی نوعیت اور سوالات سے مکمل طور پر مطمئن تھے؟
خواجہ عبدالمنتقم: ہر سوال اس بات کا مظہرتھا کہ انٹرویو لینے والی محترمہ نہ صرف عصری صورت حال سے باخبر ہیں بلکہ عہد رفتہ کے اہم واقعات و حالات سے بھی پوری طرح واقف ہیں مگر وہ ماضی میں جینے کے بجائے حال اور مستقبل کے تقاضوں کے مدنظر ایک ایمان دار صحافی کے طور پر سچائی کی متلاشی ہیں۔
***
علیزے نجف کی یہ گفتگو بھی ملاحظہ فرمائیں:لڑکیوں کا اعلی تعلیم یافتہ ہونا انتہائی ضروری ہے: مظفر نازنین

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے