جوہی کی کلی : نیلوفر پروین کی حسین ادبی کاوش

جوہی کی کلی : نیلوفر پروین کی حسین ادبی کاوش

مظفر نازنین، کولکاتہ

تقریباً ڈیڑھ مہینے سے ”جوہی کی کلی“ اپنی خوشبو سوشل میڈیا پر بکھیر رہی تھی اور فیس بک فرینڈس اس کی خوشبو سے خوب معطر، بڑے ہی ہشاش بشاش نظر آرہے تھے۔ ہرچند کہ ہر روز ریاست بہار کے کسی فرینڈ کو یہ کتاب ملتی اور بڑے ہی فخر کے ساتھ فیس بک پر اس کا اظہار کیا جاتا۔ کہیں کوئی محترمہ اپنے ہم سفر کے ساتھ اس کا مطالعہ کرتی نظر آتیں تو کبھی ”جوہی کی کلی“ کو ”جوہی کا کلا“ سے تشبیہہ دی جاتی۔ اس پر طرہ یہ کہ اس کی رسم اجرا میں محترم رفیع بھائی (رفیع حیدر انجم) کے دست مبارک سے ”جوہی کی کلی“ حاصل کرتے ہوئے شان بان کا مظاہرہ کیا جاتا۔ تب راقم الحروف (مظفرنازنین) کے جذبات امڈ رہے تھے کہ اس کلی کی خوشبو میرے مشام جاں میں بس جائے۔ رگ و پے میں سما جائے لیکن Biology کے Law of Diffusion کے مطابق جو molecules (ذرات) قریب ہوتے ہیں وہ جلد diffuse ہوتے ہیں۔ اور اس کی خوشبو (Fragrance) سے قریب والے جلد معطر ہوتے ہیں. بہ نسبت ان کے جو دور ہوتے ہیں۔
According to law of diffusion, "The molecules which are nearer get diffuse earlier than those which are farthar apart.
اس (Law of Diffusion) کے مطابق صبر کا دامن مضبوطی سے تھامے اس دن کا انتظار کر رہی تھی کہ ”جوہی کی کلی“ ملے اور اس کی پاکیزہ خوشبو روح کو معطر کرکے فرحت کا احساس دلائے۔ آخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور دو دن قبل نیلوفر آپی کی کتاب ”جوہی کی کلی“ بہ ذریعہ ڈاک موصول ہوئی۔ میں نیلوفر آپی کی بہت شکرگذار ہوں کہ انھوں نے اپنی شاہ کار تخلیق ”جوہی کی کلی“ مجھے بہ طور تحفہ عنایت کی۔
آج میری اسٹڈی ٹیبل پر بہت ساری کتابیں رکھی ہیں۔ میری بچپن سے ایک فطرت ہے کہ جس طرح Play group یا Kinder garten اور Montessori کے بچے رنگ برنگے Colourful کتابیں دیکھنے اور پڑھنے کی جانب مائل ہوتے ہیں، ٹھیک اسی طرح کتاب کا سرورق خوب صورت ہو تو ذہن اس طرف راغب ہوتا ہے اور میں اس کتاب کو پڑھنے کے لیے ترجیح دیتی ہوں جس کا گیٹ اَپ دل کش، نہایت خوب صورت، پُرکشش اور جاذب نظر ہو۔ چاہے وہ سائنس کی کتاب ہو یا انگریزی اردو لٹریچر۔ آج ساری رات بارش ہوئی۔ میرے بالکنی سے بارش ہونے کی آواز آرہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ساز بج رہا ہے۔ بہار کا موسم ہے۔ شاعر کا یہ شعر یاد آرہا ہے ؎
بہار آئی کھلے گل صحن بوستاں ہوکر
عنادل نے مچائی دھوم سرگرم فغاں ہوکر
موسم بہار، پُرکیف منظر، ہر چہار سو لہلہاتی ہوئی فصلیں، معطر فضا، باغوں میں خوب صورت رنگ برنگے خوشبودار کھلے ہوئے پھول، ذہن اور دماغ بالکل تازہ۔ اپنے روم میں آنے کے بعد میری نظر ٹیبل پر رکھی کتابوں پر پڑتی ہے۔ جن میں کچھ Medical books بھی تھیں۔ اچانک میری نظر ایک کتاب کے سرورق پر پڑی۔ دیکھ کر ایسے ماحول میں چلی گئی گویا سبز باغوں میں سفید خوب صورت کلیاں چٹک رہی ہوں۔ یہ کونپلیں پھوٹنے والی ہیں۔ greebase پر سفید پھول اور کلیاں بہت دل کش اور حسین ہیں۔ کتاب اٹھائی تو دراصل یہ کتاب نیلوفر آپی کے افسانوں کا مجموعہ ”جوہی کی کلی“ دکھی۔ ”جوہی کی کلی“ نیلوفر آپی یعنی محترمہ نیلوفر پروین صاحبہ کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔
نیلوفر آپی (نیلوفر پروین)  معروف افسانہ نگار ہیں۔ ان کا تعلق ضلع ارریہ (بہار) سے ہے۔ لیکن by origin ان کا تعلق شہر نشاط کولکاتا سے ہے اور کولکاتا کے زکریا اسٹریٹ اور کولو ٹولے میں ان کا خاصا وقت گذرا ہے۔ یہ اتفاق ہے کہ خاکسار کا تعلق بھی مرکزی کولکاتا کے کولو ٹولے سے ہے اور اس علاقے میں میرا بچپن گذرا ہے۔ کولوٹولہ، زکریا اسٹریٹ، چیت پور روڈ، چھوٹی مسجد (مرکز)، بڑی مسجد (مسجد ناخدا) یہ وہ علاقے ہیں جہاں سے ہمارے (میرے اور نیلوفر آپی) کے ماضی جڑے ہیں۔ ”جوہی کی کلی“ ہاتھ میں آئی توماضی کی یادیں ذہن کے پردے پر رقص کناں ہونے لگیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں پشاور، پنجاب، لاہور، چینوٹ، آنولے، دلی، لکھنؤ سے لوگ آکر بسے ہیں۔ بیشتر تقسیم ہند سے پہلے اور بیشتر تقسیم ہند کے بعد بسے۔ یہاں خالص اردو بولی جاتی ہے۔ اس علاقے کو شرف حاصل ہے کہ جو بچہ یا بچی یہاں پیدا ہوتا ہے، شیریں زبان اردو ان کی رگوں میں سرایت کر جاتی ہے۔ معذرت کے ساتھ میرے لکھنے کا یہ مقصد نہیں کہ کولکاتا کے دوسرے علاقے میں اردو والے نہیں ہیں یا اردو نہیں بولی جاتی ہے، ضرور بولی جاتی ہے لیکن دوسرے علاقے میں منتقل ہونے کے بعد ان کی اردو میں انگریزی اور بنگلہ کی آمیزش ہوتی ہے۔ یہاں اردو کی purity نہیں رہتی۔ میں بذاتِ خود ایک مثال ہوں۔
زیر نظر کتاب ”جوہی کی کلی“ میں 24 افسانے ہیں۔ اور یہ کتاب 144صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں معروف اردو اسکالرز کی تقاریظ شامل ہیں۔ جن میں فلیپ پر ڈاکٹر احمد حسین دانش، سابق صدر شعبہ اردو بی این منڈل یونی ورسٹی مدھے پورہ، بہار جب کہ آخری فلیپ پر جناب احسان قاسمی، نوری نگر پورنیہ، بہار کا ہے۔ آخری صفحے پر وادیِ کشمیر کے معروف اسکالر ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری صاحب کے خوب صورت تاثر ات ہیں اور افسانہ نگار محترمہ نیلوفر پروین صاحبہ کی خوب صورت تصویر بھی ہے۔
نیلوفر پروین کے افسانے پہلے بھی ہندستان کے مختلف جریدوں میں شائع ہوکر خراج تحسین حاصل کرچکے ہیں اور ارباب ذوق و نظر کو دعوت مطالعہ دیتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر احمد حسن دانش صاحب اپنا تاثر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں ”یہی وجہ ہے کہ اردو ڈائرکٹوریٹ، محکمہ کابینہ، حکومت بہار نے ان کے افسانوں کو اشاعت کے لیے منتخب کیا ہے۔“
زیر نظر کتاب ”جوہی کی کلی“ کی اشاعت 2021ء میں ہوئی اور موصوفہ نے اس کتاب کو اپنے والدین مرحومین جناب ایس ایم ابوبکر اور محترمہ زلیخا پروین کے نام منسوب کیا ہے۔ جن کی رہبری اور شفقتوں کی یادیں ان کا سرمایہ جاں ہیں۔ اللہ ان کی مغفرت کرے، جنت میں انھیں اعلیٰ مقام عطا کرے۔
مشہور و معروف اور سینئر افسانہ نگار ڈاکٹر نگار عظیم صاحبہ صفحہ 8 پر یوں رقم طراز ہیں ”نیلوفر صاحبہ کے افسانے عصری زندگی سے وابستہ ہیں۔ ان افسانوں کے واقعات کردار اور موضوعات ہمارے اور آپ کے آس پاس کے ہی ہیں۔“
صفحہ 12 پر نگار عظیم صاحبہ دہلی سے لکھتی ہیں ’’جوہی کی کلی‘ اس مجموعے کی ٹائٹل کہانی ہے جس میں مصنفہ نے بتانے کی کوشش کی ہے کہ باغ میں جو بھی پھول نظرانداز ہوگیا، کمہلاجائے گا جس میں جوہی بھی شامل ہے کیونکہ اس کی ڈیمانڈ کم ہے۔“
صفحہ13سے ڈاکٹر احمد علی جوہر اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونی ورسٹی، نئی دہلی اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں ”عصرحاضر میں بہار میں جو چند خواتین افسانہ نگار افسانے لکھ رہی ہیں، ان میں نیلوفر پروین کا نام سرفہرست ہے۔“ آگے لکھتے ہیں ”اس طرح محبت کو مرکز میں رکھ کر نیلوفر پروین نے مختلف سماجی برائیوں کو بے نقاب کیا اور اس کی تصویر کشی کی ہے۔“ کتاب میں پہلا افسانہ ”دائروں کے بیچ“ ہے جو آج بھی ہندستانی سماج اور معاشرے میں ذات پات کے بھید بھاؤ اور اونچ نیچ پر مبنی ہے تو صفحہ 118پر افسانچہ ’چہرہ در چہرہ‘ میں ’دولت اور دھن‘ دراصل عیش اور محبت پر غالب آجاتی ہے۔ اس میں عاشق ’وحید‘ ہے جو اپنی معشوقہ ’ثمرین‘ سے بے لوث محبت کرتا ہے لیکن والد کی فرمانبرداری نبھاتے ہوئے سچے عشق کو ٹھکرا دیتا ہے اور والد کی رضامندی سے کسی رئیس زادی سے شادی کرنے کے لیے راضی ہوجاتا ہے۔
نیلوفر پروین کا افسانچہ ’مریضہ‘ صفحہ120پر ہے جو آج کے معاشرے کو بتاتا ہے کہ ہمدردی، خلوص، ایثار سب کچھ ختم ہوچکا ہے۔ اور ایک ایسی بدنصیبی کی داستان ہے جہاں ایک بے بس مظلوم عورت اس دھرتی پر بوجھ بن جاتی ہے اور تلخ باتوں کو شربت کا گھونٹ سمجھ کر نوش کرتی ہے۔ یہ سماج کی ستائی ہوئی عورت کی داستان ہے۔
کتاب کے آخری فلیپ پر احسان قاسمی یوں رقم طراز ہیں ”نیلوفر پروین نے اپنے افسانوں میں عورت کے مختلف روپ پیش کیے ہیں۔“
ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری صاحب کہتے ہیں ”مطالعے سے ظاہر ہے نیلوفر پروین صاحبہ فن افسانہ نگاری کا اچھا ذوق رکھتی ہیں اور انھیں فنی برتاؤ پر دسترس حاصل ہے۔
صفحہ 193پر نیلوفر آپی نے اپنے تابناک ماضی کو یاد کرتے ہوئے ایک زبردست مضمون بہ عنوان ”یادوں کے جھروکے سے، گزرا زمانہ بچپن کا“ شامل کیا ہے جسے پڑھ کر تو جیسے میری یادیں تحت الشعور سے نکل کر شعوری سطح پر منتقل ہونے لگیں۔ کولو ٹولہ، زکریا اسٹریٹ اور مرکزی کلکتہ کے اس علاقے کا منظر ذہن کے پردے پر ابھرنے لگا۔ وہی چیت پور روڈ کا علاقہ جو رابندر سرانی کہلاتا ہے۔ عطر کی دکان کے لیے یہ علاقہ آج بھی مشہور ہے۔ آج بھی عطر اور پرفیومس کی دکانیں ہیں جو اس پورے علاقے کو معطر کیے ہوئی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نیلوفر آپی کو جو خوشبو یہاں سے ملی ہوگی، انھوں نے اسے ادبی سانچے میں ڈھال دیا اور اس کا نتیجہ ہے کہ ”جوہی کی کلی“ ہمارے سامنے ہے۔
صفحہ 137پر ”شیباڈے اسکول“ کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک زمانے میں شیباڈے اسکول مرکزی کولکاتا کا اہم اسکول تھا۔ شاید اب اس علاقے میں کافی تبدیلی آگئی ہے۔ یہ پورا علاقہ Commercial ہوچکا ہے۔
میں نے مکمل مضمون پڑھا اور سمجھ میں آیا کہ نیلوفر آپی نے جس عرق ریزی کے ساتھ لکھا ہے، ان کا قلم پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں ہے۔ ان کی کامیابی میں ان کے شریک سفر کا بھی تعاون ہے۔ کہتے ہیں مرد کی کامیابی میں عورت کا ہاتھ ہوتا ہے تو کوئی دورائے نہیں کہ عورت کی کامیابی میں مرد کا بھی حصہ ہوتا ہے جس کی مثال رفیع بھائی ہیں، جنھوں نے نیلوفر آپی کی خفیہ صلاحیتوں کو اجاگر کیا۔ آج ماشاء اللہ دونوں کی اچھی mutual intimacyہے جس کا نتیجہ یہ ”جوہی کی کلی“ ہے۔
میں نے اس کتاب ”جوہی کی کلی“ کے سبھی افسانوں کو پڑھا۔ اپنے شہر کولکاتا یا شہر نشاط کی خصوصیت ہے کہ جو ذرّہ یہاں سے اٹھتا ہے وہ نیر اعظم ہوتا ہے۔ علی گڑھ کے ترانے کے یہ خوب صورت اشعار شہر کولکاتا کے ادبا اور شعرا اور اس کتاب کے حوالے سے افسانہ نگار محترمہ نیلوفر پروین پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔
جو ابر یہاں سے اٹھے گا وہ سارے جہاں پر برسے گا
ہر سرو سمن پر برسے گا ہر دشت و دمن پر برسے گا
خود اپنے چمن پر برسے گا غیروں کے چمن پر برسے گا
ہر شہر طرف پر برسے گا ہر قصر طرف پر کڑکے گا
یہ ابر ہمیشہ برسا ہے یہ ابر ہمیشہ برسے گا
بلاشبہ نیلوفر آپی اس کی مصداق ہیں اور یہ ابر جو اپنے شہر شہر نشاط سے اٹھا وہ دیار غیر یعنی سیمانچل کی دھرتی پر جاکر پورے گرج اور کڑک کے ساتھ چار دہائیوں سے برس رہا ہے۔ ہمیں ناز ہے نیلوفر آپی پر جن کی شاہ کار تخلیق ”جوہی کی کلی“ ہے۔ اس کتاب سے بنگال کی سوندھی مٹی کی خوشبو آتی ہے۔ میں ان کی ابدی کاوش ”جوہی کی کلی“ کی اشاعت پر نیلوفر آپی (محترمہ نیلوفر پروین) اور معروف فکشن نگار رفیع بھائی (رفیع حیدر انجم) کو صمیم قلب سے پُرخلوص مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ امید ہے اس کی ادبی حلقے میں خوب پذیرائی ہوگی۔
مجھے خالق کائنات سے پوری امید ہے کہ مستقبل میں بنگال سے اٹھنے والا ابر (نیلوفرپروین) غیروں کے چمن (سیمانچل) پر برسے گا۔ خوب برسے گا۔ جم کر برسے گا۔ گھن، گرج کے ساتھ کڑکے گا۔
آسمانِ ادب پر اس بجلی کی کڑک سے سیمانچل کی دھرتی تو کیا پورے شمالی ہند کی دھرتی کانپ اٹھے گی۔ تھراجائے گی اور اس کے کڑکنے کی صدائے بازگشت ہندستان میں ہی نہیں بیرون ہند میں بھی سنائی دے گی۔ ان شاء اللہ۔
DR. MUZAFFAR NAZNEEN
36, SIR SYED AHMAD ROAD
KOLKATA – 700014
MOB. 9088470916
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں: پریم آشا کے زیر اہتمام جشن اہل بیت کا انعقاد

شیئر کیجیے

One thought on “جوہی کی کلی : نیلوفر پروین کی حسین ادبی کاوش

ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے