امام احمد رضا اور فتاویٰ رضویہ

امام احمد رضا اور فتاویٰ رضویہ

صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل کے برصغیر کی تعلیمی اور دانش درانہ فکر کے محور پر غور کریں تو ایسا معلوم ہوگا کہ مسلمانوں کے گھروں سے جو چراغ روشنی کا مینار بن رہے تھے، ان میں بیش از بیش دینی تعلیم گاہوں کے فارغین تھے۔ کسی نے کالج یا یونی ورسٹی کے دروازے [نہیں] کھٹکٹائے. سلیمان ندوی یا امام احمد رضا خاں –– سب کے سب روایتی مدارسِ اسلامیہ کے فرزندانِ ارجمند ہیں۔ سب عربی او فارسی یا دینی تعلیم کی بنیاد پر کھڑے ہیں لیکن اس زمانے کی یونی ورسٹیوں سے نکلے افراد شاید ہی ان مولویوں کے مقابلے میں اپنے موضوعات کے بڑے واقف کار ہوں۔ ان تمام علماے کرام کی مذہبی تعلیم اتنی پختہ تھی جس کے سہارے انھوں نے عصری مسائل و مباحث پر بھی اپنی گرفت قائم کرلی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ان مولویوں میں سے کوئی جارج پنجم کے لیے استقبالیہ خطبہ دے رہا ہے تو کوئی گول میز کا نفرنس میں شرکت کررہا ہے اور کوئی وزارتِ تعلیم کی ذمے داری کامیابی کے ساتھ انجام دے رہا ہے کہ مذکورہ تمام افراد دینی تعلیم گاہوں سے جس دانش اور فکر کو لے کر باہر آئے، اس سے وہ وسیع و عریض دنیا اُن کے لیے اجنبی نہ معلوم ہوئی اور اپنی دانش ورانہ فکر اور علمی مہارت کا انھوں نے عصری منچ پر بھی لوہا منوایا۔
علّامہ شبلی ہوں یا امام احمد رضا، ابوالکلام آزاد ہوں یا سید سلیمان ندوی، ان تمام کی تصنیفی اور علمی سرگرمیاں پندرہ برس کے آس پاس شروع ہوجاتی ہیں۔ ٢٥/ برس کی عمر میں یہ شخصیات قومی اہمیت حاصل کرلیتی ہیں۔ کیا اس بات پہ غور کرنے کی ضرورت نہیں کہ گھریلو اور مدرسے کی تعلیم میں کون سی صفت تھی جس کی وجہ سے یہ علما ابتداے عمر میں ہی اپنی علمی سمت متعیّن کرنے میں کامیاب ہوجاتے تھے؟ اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنا چاہیے کہ کم عمری کے باوجود اپنے موضوعات اور مضامین میں گہرائی کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں کے تحت مختلف النوع خدمات کے لیے مذکورہ شخصیات تربیت یافتہ کیسے ہوجاتی تھیں۔ اِن کے والدین اور مدرّسین پر قربان جائیے جن کی محنت سے یہ لوگ عنفوانِ شباب میں ہی آفتاب و ماہتاب کی طرح روشن ہوجاتے تھے. جب کہ اُس عہد کی مغربی دانش گاہوں اور ہندستانی یونی ورسٹیوں سے نکلنے والے لوگ عمر کے تناسب میں ایسی صلاحیت کے مالک ہرگز ہرگز نہیں دکھائی دیتے۔ اپنی قوم میں انھیں کم عمری میں کسی نے قبول بھی نہیں کیا۔
مغربی تعلیم کے طوفان نے پچھلے ایک سو برسوں میں ہمیں یہ موقع ہی نہیں دیا کہ ہم اس بات کا جائزہ لے سکیں کہ ہماری روایتی اور مذہبی تعلیم کے بطن سے جو نابغۂ روزگار بر آمد ہوتے تھے، آخر آج ہزار سہولیات کے باوجود وہ گنج ہائے گراں مایہ کہاں گئے۔ روایتی اور مغربی دونوں تعلیمات کے فیضان کے باوجود خاک کے پردے سے ایسے انسان نہیں نکلتے جیسے ایک صدی پہلے ہماری بزم میں رونق افروز تھے۔ پچھلے سو برسوں سے ہم اوسط درجے کی صلاحیتوں سے آگے نہیں بڑھ پائے جس کا اجتماعی نقصان یہ ہوا کہ قائدانہ اعتبار سے آج ہم کہیں نہیں ہیں۔ سیاست، تعلیم، طب، سائنس اور ٹکنالاجی میں صفِ اوّل کی تمام نشستوں سے ہم غائب ہیں۔ میں معذرت خواہ ہوں یہ کہنے کے لیے کہ ہماری مذہبی قیادت بھی اپنے کردار اور دانش ورانہ فکر کے اعتبار سے اوسط درجے سے فزوں نہیں ہے اور امتحان کی ہر گھڑی میں اسی لیے نامراد ثابت ہوتی رہی ہے۔ ہماری مذہبی تعلیم گاہیں بھی مینارۂ نور نہیں ثابت ہورہی ہیں۔ اگر ان کے داخل میں اُتریے تو معلوم ہوگا کہ یہاں بھی وہی افرا تفری اور حرکات موجود ہیں جس کے بطلان کے لیے یہ ادارے قائم ہوئے تھے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہبی تعلیم کی روایات کا بہ غور مطالعہ کیا جائے اور عصری تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا نظام ترتیب دیا جائے جس سے ہماری عبقری شخصیات گُم نہ ہوجائیں یا شناخت کے بغیر ضائع نہ ہوجائیں۔
انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز کے زمانے میں خاص طور سے مدارس اسلامیہ سے فارغ افراد کے کارناموں پر غور کرتے ہوئے کبھی کبھی اس بات کے لیے پریشانی ہوجاتی ہے کہ آخر اتنا گہرا اور اسی کے ساتھ اِس قدر وسیع علم انھوں نے کس طرح حاصل کیا؟ سب کی صلاحیتیں شش جہات ہیں اور کمال یہ ہے کہ جس موضوع پر ان کی تحریر ملاحظہ کیجیے، معلوم ہوگا، وہ اسی کے ماہر و یکتا ہیں۔ سید سلیمان ندوی لسانیات پر گفتگو کررہے ہوں اور مولانا آزاد فلسفے کی دقیق بحث میں الجھے ہوں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ افراد انھی موضوعات کے لیے پیدا ہوئے تھے۔ سید سلیمان ندوی شبلی کے شاگردِ خاص ہیں اور مولانا آزاد کو قومی سطح پر سب سے پہلے شبلی نے پہچانا تھا۔ اُن کے علم، ان کی عظمت پر کون سوال کر سکتا ہے؟ لیکن سید سلیمان ندوی کی تحریر سے محض ایک جملہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں، ملاحظہ کریں:
”جس قدر مولانا مرحوم (امام احمد رضا خاں) کی تحریروں میں گہرائی پائی جاتی ہے، اس قدر گہرائی تو میرے استاذ مکرم جناب مولانا شبلی صاحب اور حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی اور حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندی اور حضرت علّامہ شبّیراحمد عثمانی کی کتابوں کے اندر بھی نہیں۔“
سید سلیمان ندوی اظہارِ عقیدت نہیں، اظہارِ حقیقت فرما رہے ہیں۔ خاص طور سے امام احمد رضا خاں کے فتاویٰ کے جلد در جلد مطالعے کے بعد عقل حیرت زدہ رہ جاتی ہے کہ کوئی ایک شخص ایک مختصر سی زندگی مین کتنی ہمہ جہت تعلیم حاصل کر سکتا ہے؟ مسئلہ معمولی ہو یا غیر معمولی، کسی ایک کی زندگی سے متعلق ہو یا پوری قوم سے تعلق رکھتا ہو، جب امام احمد رضا کے سامنے آتا ہے تو اس کے درجنوں حصّے ہوجاتے ہیں اور ایک ایک پرت وہ سلسلے وار طریقے سے ادھیڑتے جاتے ہیں۔ اعلا حضرت کی گفتگو کے دوران جو ماخذات آئے، ان کا تعلق مختلف علوم و فنون سے ہے لیکن ہر جگہ وہی گہرائی اور معروضیت ہے۔ چوں کہ انھیں مسئلے کا شافی حل نکالنا ہے، اس لیے ایک بات کے لیے دس دلیل جمع کرتے ہیں۔ انہماک، عمق اور علمی وسعت کا ایسا نمونہ تاریخ میں خال خال ملتا ہے۔ فتاویِٰ رضویہ کی اہمیت کو دلائل کی گہرائی، دائرہ کار کے پھیلاو اور طرزِ استدلال کی معروضیت کے پہلوؤں سے بہ تفصیل دیکھنے کی ضرورت ہے۔
جمہوریت کی آندھی اور مغربی تعلیم اور متعدد اداروں نے فتاویٰ نگاری کے زور اور تسلسل کو محدود کردیا ہے جس کی وجہ سے اکثر و بیشتر مدارس اسلامیہ میں باضابطہ فتاویِٰ نگاری کے شعبے معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ عوام اور خواص دونوں میں فتاویٰ نگاری کی اہمیت گھٹتی چلی جارہی ہے۔ لیکن اب سے محض ایک سو برس پیچھے پلٹ کر ہندستان کے مختلف گوشوں کی طرف توجہ کیجیے تو اندازہ ہوجائے گا کہ جہاں جہاں مسلمان بااثر تھے، وہاں ایسے باضابطہ ادارے موجود تھے اور سب سے بڑی بات یہ کہ فتویٰ طلب کرنے والے اور اُن کا عالمانہ جواب عطا کرنے والے مفتیانِ عظام موجود تھے۔ دیوبند اور بریلی شریف کے مذہبی اداروں کے ساتھ ساتھ بھوپال اور ٹونک کی ریاستوں کے مفتیان کے فتاویٰ اتنی بڑی تعداد میں مطبوعہ اور غیر مطبوعہ شکل میں آج بھی محفوظ ہیں جنھیں ہزاروں جلدوں میں جمع کیا جا سکتا ہے۔ ان فتاویٰ میں ہزار ہا ایسے امور زیرِ بحث آئے ہیں جنھیں پڑھ کر عام و خواص مزید روشنی حاصل کر سکتے ہیں۔ ان مذہبی مباحث سے ہمارے آج کے سینکروں مسائل سُلجھ سکتے ہیں اور ملک و قوم کو زیادہ سے زیادہ امن اور آشتی کا پیغام حاصل ہو سکتا ہے۔ یہ ایک خوش آیند بات ہے کہ ان فتاویٰ کے دفاتر کی طرف فی زمانہ توجہ عام ہوئی ہے۔ فتاویِٰ رضویہ کے علاوہ بھوپال اور ٹونک کے مفتیان کے فتاویٰ بھی مناسب تدوین کے ساتھ زیورِ اشاعت سے آراستہ ہوئے ہیں اور آیندہ بھی اُن کی اشاعت کا کام شاید جاری ہے۔ جناب اشرف مارہروی کا ایک شعر ہے:
مینارِ قصر رضا تو بلند کافی ہے، تم اُس کے ایک ہی زینے پہ چڑھ کے دکھلادو
’فتاویِٰ رضویہ‘ تو اک کرامت ہے، ذرا ’حدائقِ بخشش‘ ہی پڑھ کے دکھلادو
’فتاویِٰ رضویہ‘ کو کرامت کہنا کسی بھی طرح سے مبالغہ نہیں ہے۔ ایک غیر عربی داں اور مذہبی تعلیم سے بے بہرہ مجھ جیسے اردو ادب کے ایک معمولی طالب علم کے لیے یہ ناممکنات میں ہے کہ وہ امام احمد رضا کے فتاویٰ کا جائزہ لے۔ لیکن ان فتاویٰ کی ضرورت اور اہمیت کے بارے میں چند الفاظ گوش گزار کرنا بھی شاید جرأتِ رندانہ تصوّر کیا جائے۔ علماے کرام مجھے طفلانہ خیالات کے لیے معاف فرمائیں۔
’فتاویٰ رضویہ‘ کے سرسری مطالعے سے ہی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ امام احمد رضا نے اسلام کے امن پسند، محبت شعار اور صلح جو کردار کو ثبوت درثبوت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان فتاویٰ کی تحریر کا زمانہ انگریزی تعلیم کے پھیلنے اور اُس کے طرح طرح کے عتابات سے متعلق ہے۔ ایسے میں مذہبِ اسلام کے احکامات کے تعلق سے سماج میں جن غلط فہمیوں کو عام کرنے کی کوشش ہورہی تھیں، ان کا نہایت عالمانہ جواب چاہیے تھا۔ امام احمد رضا کے فتاویٰ کی یہ خاص شان تھی کہ وہ ہر سوال کے پیچھے چھپے درجنوں سوالوں کو بھی اپنے جواب کا حصّہ بنالیتے تھے۔ جواب دیتے ہوئے ان کی نگاہ میں تمام سماجی مسائل بھی سامنے ہوتے ہیں ورنہ بہ ظاہر معمولی معلوم ہونے والے سوالوں کو اس قدر صراحت کے ساتھ اعلا حضرت مرکزِ توجہ کیوں بناتے۔ محض ایک مثال سے اسے سمجھا جا سکتا ہے۔ مسئلہ یہ تھا:
’کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ آبِ مطلق کہ وضو و غسل کے لیے درکار ہے، اس کی کیا تعریف ہے؟ آبِ مقّید کسے کہتے ہیں؟
اس کے جواب کے لیے ’فتاویِٰ رضویہ‘ کی جلد دوم کے ٢٤٥/ صفحات وقف ہوئے ہیں۔ آبِ مطلق کے لیے ٣٠٧/امور زیرِ بحث رکھا اور کون سی ایسی بات ہے جس کے لیے کتبِ فتاویٰ و احادیث کی مثالیں موجود نہ ہوں۔ اس صَراحت کا علمی فائدہ تو یہی ہے کہ وضو یا غسل کے لیے کون سا پانی جائز ہے اور کون نہیں، اس مسئلے پر یہ ایک فتویٰ دراصل مکمل کتاب یار رسالہ ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ متوقع سوالات کی شمولیت سے اس کی افادیت بڑھ گئی ہے۔ تفصیل کے سبب اس فتویٰ کا تعلیمی اور اصلاحی پہلو بھی روشن ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ جہالت کی وجہ سے اگر دورِ غلامی میں مذہب کے خلاف تبلیغ کا کام کوئی گروہ کررہا ہو تو اس سے عوام کو بچایا جا سکتا ہے۔ امام احمد رضا نے اپنے عالمانہ فتاویٰ سے قومی اور مذہبی بیداری کا بڑا کام کیا ہے۔
***
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش: ’حیاتِ اعلا حضرت‘: فنِ سوانح نگاری کے آئینے میں

شیئر کیجیے

3 thoughts on “امام احمد رضا اور فتاویٰ رضویہ

نثاردیناج پوری کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے