’حیاتِ اعلا حضرت‘: فنِ سوانح نگاری کے آئینے میں

’حیاتِ اعلا حضرت‘: فنِ سوانح نگاری کے آئینے میں

صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

سوانح نگاری ظاہر میں مشکل کام نہیں ہے. کیوں کہ کسی شخصیت کے بارے میں سلسلے وار طریقے سے حالات اور واقعات کو جمع کردینا کیوں مشکل کام مانا جائے۔ آسانی کی ایک صورت اس معاملے میں اور پیدا ہوجاتی ہے جب سوانح نگار صاحب سوانح کے عہد کا ہوتا ہے اور اس کے تعلّقات اور روابط بھی قائم رہتے ہیں۔ جسے آپ نے خود دیکھا اور سمجھا ہے یا جس کی شخصیت کے تاروپود سے سوانح نگار ایک قربت کے ساتھ آشنا ہے اور صاحبِ سوانح کی زندگی کے نشیب و فراز کے ہزاروں واقعات اس کی آنکھوں دیکھے ہیں، اس کے بارے میں کیوں لکھنا محال ہو؟
مولانا ظفرالدین بہاری کی کتاب ”حیاتِ اعلا حضرت“ کو سوانح نگاری کے مذکورہ زمرے میں رکھنے کے باوجود مختلف طرح کی آسانیوں کے مقابلے سوانح نگار کی مشکلات کا بھی اندازہ کرنا چاہیے۔ اگر صاحبِ سوانح اور سوانح نگار کے بیچ براہِ راست ربط نہیں اور سوانح نگار نے مختلف ذرائع سے تحقیق کرکے حیات و خدمات کے سلسلے سے مواد جمع کر لیا ہے تو سوانح نگار کے لیے قطع و برید کا مرحلہ آسان ہوجاتا ہے۔ کن واقعات کو شاملِ کتاب کرنا ہے اور کن واقعات کو سوانح میں جگہ نہیں دینی ہے، اس کا فیصلہ آسان ہوتا ہے۔ لیکن جیسے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ صاحبِ سوانح کی حیات کے ایک بڑے حصّے سے سوانح نگار بالمشافہ واقف ہے، اور مجلسی، غیر مجلسی، علمی اور نِجی زندگی میں سوانح نگار ہزاروں موڑ پر صاحبِ سوانح کے ساتھ موجود ہے؛ایسے میں سوانح نگار کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ کس طرح ہزاروں اور لاکھوں معلوم باتوں یا واقعات کو ترتیب و انتخاب کے مرحلے سے گزار کر آخری شکل عطا کرے، جس سے اس کی سوانح واقعات کی کھتونی نہیں معلوم ہو۔
اسی کے ساتھ سوانح نگار کے لیے ایک اور مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ اگر صاحبِ سوانح سے تعلّق کی نوعیت عقیدت اور عقیدے سے ہے تو امتحان کی دوسری منزل سے گزرنا ہوگا۔ سوانح نگاری اگر ایک علمی کام ہے تو عقیدت کی رہ نمائی میں واقعات اور حالات کی پیش کش میں یہ خدشہ شامل رہے گا کہ اہم اور غیر اہم کی تمیز جاتی رہے۔ نگاہِ عشق و مستی میں صاحبِ سوانح کا ہر ذرّہ سوانح نگار کے لیے ستارہ معلوم ہوگا۔ صاحبِ سوانح کی کوئی بھی بات اس کے لیے چشمِ عقیدت میں غیر اہم کیوں کر ہوگی؟ اسی کے ساتھ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اس سچّائی سے کیسے انکار کیا جائے کہ سوانح بالعموم اُسی کی لکھی جاتی ہے جس کی عظمت اور بلندی اظہر من الشمس ہو۔ اسی لیے سوانح نگاروں پر بے جا مدّاحی اور کبھی کبھی مدلّل مدّاحی کے الزامات عائد ہوتے رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے کتبِ سوانح کو واقعات کی کھتونی کہہ کر بھی اعتراض کیا جاتا رہا ہے۔
مولانا ظفرالدین بہاری نے اعلا حضرت کی حیات اور خدمات کو قلم بند کرنا شروع کیا ہوگا تو واقعتا مذکورہ مسائل ان کے پیشِ نظر ہوں گے۔ اردو کی حد تک غور کریں تو ان کے پیشِ نظر شبلیؔ اور حالیؔ کی سوانح عمریاں ضرور رہی ہوں گی۔ ”حیاتِ جاوید“ کے حوالہ جات اس سوانح میں موجود ہیں، اس لیے کم از کم اس بات کا یقین ہے کہ مولانا ظفرالدین بہاری نے ”حیاتِ اعلا حضرت“ لکھنے سے پہلے ”حیاتِ جاوید“ کے مشتملات پر غور کرلیا ہوگا۔ حالیؔ، سر سیّدؔ کو براہِ راست جانتے تھے اور ان کی زندگی اور کام سے ان کو عقیدت تھی۔ وہ سر سیّد کے شریکِ کار بھی تھے۔ مزید یہ کہ ان کا ذہن بھی تحقیقی تھا۔ اس کے علاوہ سر سیّد کے دوستوں اور دشمنوں دونوں کی سر سیّد کے سلسلے سے تحریروں سے وہ لفظ بہ لفظ واقف تھے۔
مولانا ظفرالدین بہاری کا معاملہ بھی یہی ہے کہ وہ اعلا حضرت سے بالمشافہ واقف ہیں۔ ان سے مولانا ظفرالدین بہاری کا رشتۂ تلمیذ بھی ہے جو برسوں تک قائم رہا اور بعد میں رفاقت میں تبدیل ہوا۔ اعلا حضرت سے انھیں صرف عقیدت نہیں بلکہ مولانا ظفرالدین بہاری تو یہ چاہتے ہیں کہ اعلا حضرت کے عقیدے کو تمام لوگ تسلیم کرلیں۔ مولانا ظفرالدین بہاری کو یہ فائدہ بھی حاصل ہے کہ وہ صرف اعلا حضرت کی زندگی اور کارناموں سے براہِ راست واقف نہیں بلکہ ان کے احباب، ہم عصر، شاگردان اور ہزاروں عقیدت مندوں کی تحریروں یا بیان کردہ واقعات سے بھی واقف ہیں۔ اسی لیے اعلا حضرت کا سوانح نگار کسے ہونا چاہیے، اس سوال پر غور کرتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ مولانا ظفرالدین بہاری نے یہ درست فیصلہ کیا کہ وہ یہ بڑی ذمّے داری اپنے سرلیں۔ ”یادگارِ غالب“ اور ”حیات جاوید“، حالی کو ہی لکھنی چاہیے تھی اور ”حیاتِ شبلی“ سیّد سلیمان ندوی کے حصّے میں ہی آنی چاہیے تھی۔ یہاں لازم و ملزوم والی بات پیدا ہو جاتی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ اعلا حضرت کی حیات و خدمات کو سوانح نگاری کے اصولوں کے ساتھ برتنے کا مولانا ظفرالدین بہاری کا یہ مناسب ترین فیصلہ ہے اور اس کام کے لیے وہ سب سے زیادہ لائق افراد میں سے تھے۔
سوانح نگاری کو بعض افراد دو دھاری تلوار کہتے ہیں۔ ۹۹/فی صد یہ سچّائی ہے کہ صاحبِ سوانح سے جب تک عقیدت نہیں ہوگی، اس وقت تک یہ کیسے سوچا جا سکتا ہے کہ کوئی شخص اس موضوع پر سو دو سو اور ہزار صفحات دل لگا کر قلم بند کرے گا۔ اس لیے یہ مان کر چلنا چاہیے کہ سوانح نگار چشمِ عقیدت کے ساتھ ہی صاحبِ سوانح کی زندگی اور کارناموں کو ملاحظہ کرے گا لیکن اسی کے ساتھ سوانح نگاری کا یہ اصول ہے کہ حالات اور واقعات کی پیش کش میں ایک معروضی نقطۂ نظر ہونا چاہیے۔ عقیدت میں سوانح نگار کو آنکھیں بند کر کے نہیں چلنا ہے۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ جو واقعہ قلم بند کیا جائے، اس کے لیے دلیل اور حقائق بھی پیش کیے جائیں۔ واقعات کے اہم اور غیر اہم ہونے کی تمیز بھی سوانح نگار کے لیے بھاری پتھّر ہے کیوں کہ پڑھنے والوں کے لیے یہ لازم نہیں کہ وہ آپ کے ہم خیال ہوں یا صاحبِ سوانح سے عقیدت رکھتے ہوں۔ ایک بڑا طبقہ اس لیے سوانح کا مطالعہ کرتا ہے کہ اسے معلوم ہو سکے کہ اپنے عہد کی بڑی شخصیات کی زندگی کے پوشیدہ پہلوؤں میں کون سی ایسی بات ہے جس پر روشنی نہیں پڑی ہے اور جسے جان کر اس کی معلومات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ عظیم شخصیات کی زندگی کے طلسم کو بھی وہ سمجھنا چاہتے ہیں لیکن لازمی طور پر عقیدت کی رہ نمائی کے بغیر۔
’حیاتِ اعلا حضرت‘ کے صفحات پر غور کرتے ہوئے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ مولانا ظفرالدین بہاری نے اس سوانح کو مستند، کار آمد اور علمی اعتبار سے گراں مایہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ واقعات اور خدمات کی پیش کش میں انھوں نے بات کو سمیٹنے میں زیادہ مہارت دکھائی اور پھیلانے سے اکثر مقامات پر گریز کیا جس کی وجہ سے اس سوانح کو کوئی واقعات کی کھتونی نہیں کہہ سکتا۔ معروضیت اور بیان میں احتیاط پسندی نے اس سوانح کو علمی اعتبار سے مزید محترم بنادیا ہے۔”حیاتِ اعلا حضرت“ کی مختلف جلدوں کی طباعت کا معاملہ دل چسپ ہونے کے ساتھ ساتھ بعض تنازعات یا کوتاہیوں کے احوال اپنے بطن میں رکھتا ہے۔ ان مراحل کی تفصیل اور متنِ اوّل کے سلسلے سے گفتگو سے صرفِ نظر کرتے ہوئے میں ”حیاتِ اعلا حضرت“ کی الجامعۃ الرضویہ، پٹنہ کے اہتمام میں مفتی محمد مطیع الرحمان رضوی کی ترتیب دادہ تین جلدوں میں شائع شدہ متن پر ہی خود کو مرکوز رکھتا ہوں۔ تین جلدوں پر مشتمل اس کتاب کی جلد اوّل ہی اصل میں سوانح کے زمرے میں آتی ہے۔ جلد دوم اور سوم کا تعلّق افادات اور انتخاب و تعارف سے ہے۔
انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں بّرِ صغیر کے مذہبی، علمی اور ادبی افق پر جن اصحاب کو ہم درخشندہ ستارے کے طور پر پیش کر سکتے ہیں، ان میں اعلا حضرت کی اہمیت مسلّم ہے۔ وہ زمانہ مدارسِ اسلامیہ کے تعلیمی وزن و وقار کے عروج کا ہے۔ علّامہ شبلی نعمانی، ابوالکلام آزاد، اعلا حضرت احمد رضا خاں، سیّد سلیمان ندوی وغیرہ کی مثالیں بہ یک نظر سامنے آتی ہیں جن کی علمی شخصیت کو اختلافِ مسلک و ملّت کے بغیر ہر کَس و ناکَس نے تسلیم کیا۔ مذکورہ چاروں اصحاب کی زندگی کا سفر عمومی ارتقا کے اعتبار سے حیرت انگیز ہے۔ سب لوگ بیس برس کی عمر میں قومی منظر نامے پر اپنی شناخت قائم کر چکے تھے اور تیس برس تک پہنچتے پہنچتے استاذ الاساتذہ کی طرح سے زمانہ انھیں قبول کرنے لگا تھا۔ مولانا ظفرالدین بہاری نے اعلا حضرت کی حیات کو پیش کرنے میں سوانح نگاری کے عام اصولوں کو تو سامنے رکھا اور کوشش کی کہ واقعات سلسلے وار طریقے سے شاملِ کتاب ہو سکیں لیکن صاحبِ سوانح کی زندگی کے اس حیرت انگیز پہلو پر بھی نظر رکھی جہاں حصولِ علم کا عمومی سلسلہ قائم نہیں رہتا: یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے۔
سوانح نگاری کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ صاحب سوانح کی زندگی کے انجانے پہلوؤں کی طرف بھی اشارے کیے جائیں۔ یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سوانح پڑھتے ہوئے کسی نئے قاری کو بعض مخفی اور اہمیت کے اعتبار سے انوکھے واقعات معلوم ہوجاتے ہیں۔ اعلا حضرت کی حیات و خدمات پر مواد کی کمی نہیں۔ تحریر کے علاوہ عقیدت مندوں نے زبانی روایت کا ایک ٹھوس سلسلہ قائم کررکھا ہے جس کی وجہ سے اعلا حضرت پہلے ہی سے ہماری زندگی میں چلتے پھرتے اور اٹھتے بیٹھتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے باوجود مولانا محمد ظفر الدین بہاری کی اس کتاب میں اعلا حضرت کی زندگی کے کئی ایسے پہلوؤں پر نگاہ چلی جاتی ہے جو عام طور پر ذکر میں نہیں آتے۔ اس سوانح کے ١٨، ١٩ اور ٢٠ نمبر کے ابواب میں اعلا حضرت میں جس حسِّ مزاح کو اجاگر کیا گیا ہے، وہ نہ عام بات تھی اور نہ ہی ان کی مذہبی اور علمی خدمات کے تناظر میں دوسرے لکھنے والے اس موضوع پر توجّہ دے سکتے تھے۔ لیکن ظفرالدین بہاری نے ان پہلوؤں کو درجِ گزٹ کرکے اعلا حضرت کی شخصیت کے الگ اور انوکھے پہلو کی پیش کش میں کامیابی پائی ہے۔
اس سوانح میں اعلا حضرت کے علمی اور روحانی کمالات کے بیان کے مرحلے میں ارضی پہلوؤں پر بھی بھرپور توجّہ دی گئی ہے۔ عام طور پر عقیدت مندوں کے ذریعہ لکھی گئی کتابوں میں ایسا توازن دیکھنے کو نہیں ملتا۔ یہ صحیح ہے کہ بڑی شخصیات میں حیرت انگیز صفات موجود رہیں گی اور سوانح نگار کو عقیدت ہو یا نہ ہو لیکن اس حقیقت کی پیش کش سے آزادی نہیں مل سکتی۔ لیکن اسی کے ساتھ سوانح نگار کا یہ فریضہ ہے کہ صاحب سوانح کے ان عام انسانی اور ارضی پہلوؤں کی طرف توجّہ مبذول کرائے جن کے بغیر صاحبِ سوانح ہی نہیں، کسی بھی انسان کی زندگی مکمّل نہیں ہو سکتی۔ دنیا کی عظیم شخصیّات کی سوانح عمریوں کو ہم اس لیے بھی پڑھتے ہیں تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ ہمارے بیچ کے لوگ عام حالات اور عمومی صورتِ حال کے باوجود کیسے کیسے عظیم کام کر چکے ہیں۔ اس کا افادی پہلو یہ بھی ہے کہ ہمیں ترغیب ملتی ہے کہ اپنی زندگی میں نئے خواب اور تمنّائیں سجا سکیں۔ مولانا ظفرالدین بہاری نے اعلا حضرت کی سوانح لکھتے ہوئے ہر قدم پر اس بات کا خیال رکھا کہ اعلا حضرت کی زندگی ایک ڈھلی ڈھلائی شکل میں ہمارے سامنے نہیں آئے بلکہ انھوں نے عمومی حالات میں ہی رہ کر اپنے وقت کا بہترین مصرف لیتے ہوئے وہ کارنامہ انجام دیا جو ہمارے لیے باعثِ ترغیب اور تقلید ہے۔
اس سوانح کا آخری باب ”اسفار“ کے عنوان سے شامل ہے، نہایت اختصار کے ساتھ سفر کے احوال بیان کرنے سے پہلے ماحول یا پیش بندی کی غرض سے ابتدا میں تین صفحات رقم کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد سلسلے وار طریقے سے اعلا حضرت کے درجنوں قریب اور دور کے اسفار کے خاص واقعات قلم بند ہوئے ہیں۔ محمد حسین آزاد نے ”آب ِحیات“ کے ہر دور میں شعرا کے حالات لکھنے سے قبل نہایت اختصار کے ساتھ پیش بندی کی غرض سے تمہیدیں لکھی ہیں۔ ان کی طوالت ایک صفحے سے ڈھائی صفحے کے درمیان ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سو صفحے میں جن شعرا کی تفصیلات رقم کی گئی ہیں، ان کی روح تمہید کے چند لفظوں میں اُتر آئی ہے۔اسی طرح مولانا ظفرالدین نے اس باب میں ان تین صفحوں میں وہ تما م اصول پیش کر دیے ہیں جن کی تفصیل کے لیے آگے واقعات درج کیے گئے ہیں۔ اس تمہید میں یہ بتایا گیا ہے کہ اعلا حضرت کو سفر سے کوفت ہوتی تھی اور اسی لیے شاید وہ کم سے کم اس کا قصد کرتے تھے۔ یہاں ایک اور بات سامنے آتی ہے کہ اعلا حضرت کی تحقیق یہ تھی کہ چلتی ہوئی ٹرین میں نماز درست نہیں۔ یہ بھی درج ہے کہ اعلاحضرت با جماعت نماز ادا کرنا نہایت ضروری خیال کرتے تھے۔ ایسی حالت میں اعلاحضرت کو جب بالعموم دینی ضرورتوں کے تحت طویل سفر کرنا پڑتا تو اس کے مسائل کیا ہوں گے، اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ چلتی ہوئی ٹرین میں نماز درست نہیں اور نماز ِباجماعت پڑھنا ضروری ہے۔ اس کشمکش اور اس سے نجات کی ایک مختصر جھلک مولانا ظفر الدین کی زبانی ملاحظہ کریں:
”قبلِ روانگی جس گاڑی سے سفر کرنا ہوتا، اور جس سے واپسی کا قصد ہوتا، پانچوں نمازوں کا وقت جس اسٹیشن پر ہوتا، اور جس جس اسٹیشن تک رہتا، ان جگہوں پر نشانِ اوقات دے دیا جاتا، اور وقتوں کے نام لکھ دیے جاتے۔ اس لیے ضروری تھا کہ ٹائم ٹیبل منگوا کر گاڑیوں کے رُکنے کے اوقات و مقامات معلوم کیے جاتے۔ پھر بہ قواعدِ علمِ ہیئت ان جگہوں کاطول و عرض معلوم کر کے اوقاتِ صلوٰۃ نکالے جاتے۔ جب اس طرح پورا اطمینان ہو جاتا کہ اس سفر میں سب نمازیں با جماعت وقت پر ادا ہوسکیں گی، تب قصدِ مصمّم فرماتے، اور وعدہ کرتے اور اسی مقرّرہ نقشہ کے مطابق ایک دو اسٹیشن پہلے سے وضو وغیرہ کر کے سب تیّار رہتے، اور جب وہ اسٹیشن آتا، جہاں نماز کا وقت لکھا ہے، جماعت کھڑی ہو جاتی۔“ مولانا نے لکھا ہے کہ اگر نماز کے وقت سے گاڑی کے ٹھہراؤ کا وقت متصادم ہوتا تو اعلا حضرت گاڑی چھوڑ دیتے اور اسٹیشن پر باجماعت نماز پڑھتے اور نماز کے بعد جو گاڑی ملتی، اس سے سفر پورا کرتے۔ نمازِ باجماعت دورانِ سفر ادا کر نے کا ایک واقعہ سوانح نگار نے اعلا حضرت کے آخری سفرِحج کے موقعے سے لکھا ہے۔ اس زمانے میں بریلی شریف سے آگرہ میں گاڑی بدلنے اور آگے بمبئی کی طرف روانہ ہونے کے مرحلے میں نماز فجر کی ادائیگی میں دشواری ہو رہی تھی۔ اعلا حضرت نے اس زمانے میں دو سو پینتیس روپے تیرہ آنے میں ریل کے سکنڈ کلاس کا ایک ڈبّہ ریزرو (reserve) کرایا جو سیدھے بمبئی والی گاڑی میں جوڑ دیا جاتا تھا اور اس دوران فجر کی نماز کی با جماعت ادائیگی میں کو ئی خلل نہیں پہنچتا تھا۔ مولانا ظفر الدین بہاری نے لکھا ہے:
”اس قدر کثیر رقم صَرف کر کے صرف نماز فجر با جماعت ادا کرنے کے لیے سکنڈ کلاس کا ایک ڈبّہ بریلی شریف سے بمبئی reserve کرکے سفر اختیار فرمایا۔ جب آگرہ پہنچے اور حضور نے با جماعت نماز ادا فرمائی تو اسٹیشن ہی سے خط تحریر فرمایا کہ الحمد اللہ نمازِ باجماعت ادا ہوگئی، میرے روپے وصول ہو گئے، آگے مفت میں جارہا ہوں۔“
سوانح نگار کا ایک بڑا فرض یہ بھی ہوتا ہے کہ صا حب ِسوانح کی زندگی کے اُن پہلوؤں کی طرف خاص طور سے اشارہ کرے جو اصولی اور اساسی اہمیت رکھتے ہوں۔ مولانا ظفر الدین بہاری نے تین صفحات میں اعلا حضرت کی شخصیت کے استحکام اور عمل کے معاملے میں حد درجہ سا لمیت کو جس طرح بغیر کسی اعلان، دعوا یا تشریح کے پیش کیا ہے، وہ سوانح نگار کی حیثیت سے ان کا بہترین کارنامہ ہے۔
اعلا حضرت کی شخصیت اور ان کی زندگی کے واقعات بالعموم عوام و خواص میں معروف ہیں۔ اس وجہ سے سوانح نگار کے لیے یہ امتحان کی بات ہوتی کہ کیا وہ معلوم اور مشہور واقعات کے تھکادینے والے سلسلے سے قارئین کو ہم آشنا کرائے یاصاحب سوانح کی شہرت اور عظمت کے باوجود انجانے لیکن نمایندہ پہلوؤں کو واشگاف کرتا چلے۔ سوانح نگار نے اس معاملے میں واقعتاً کامیابی پائی ہے۔ اعلاحضرت کی زندگی کے روشن تر گوشوں کو نہایت اختصار یا چند جملوں میں پیش کر دیا لیکن انوکھے، اَن ہونے اور نئے گوشوں کی طرف بہ صراحت توجّہ کی ہے۔ اعلاحضرت کی قوتِ حافظہ کے بارے میں سینکڑوں سچّے واقعات عام ہیں۔ ان کے فتاوے اس کا بھر پور ثبوت ہیں۔ سوانح نگار نے مولوی محمد حسین کا ایک بیان نقل کیا ہے۔ اس وقت اعلا حضرت کی طبیعت ناساز چل رہی تھی اور عمومی ملاقات کا سلسلہ بند تھا۔ ایک نشست میں مختلف موضوعات پر اور متعدّد مذہبی امور کے سلسلے سے سوالوں کے جوابات جس طرح مختلف اصحاب کو املا کرائے گئے، اس کی تفصیل خود سوانح نگار کی زبانی ملاحظہ کریں:
”اعلاحضرت نے ایک گڈّی خطوط کی مولانا امجد علی صاحب کو دے کر فر مایا: آج تیس خط آئے تھے، ایک میں نے کھول لیا ہے۔ یہ انتیس گِن لیجیے۔ انھوں نے انتیس گن کر ایک لفافہ کھولا، جس میں کئی ورق پر جو سوالات تھے، وہ سب سنائے۔ حضرت نے پہلے سوال کے جواب میں ایک فقرہ فرما دیا۔ وہ لکھنے لگے، اور لکھ کر عرض کی: حضور! کہتے۔ وہ سلسلہ وار اُس کے آگے کا فقرہ فرما دیا کرتے۔ اور دوسرے صاحب نے حضور کہنے کے درمیان میں اپنا خط سنانا شروع کیا۔ جب یہ حضور!کہتے، وہ رُک جاتے۔ اور جب یہ فقرہ سن کر لکھنے لگتے، تو وہ اپناخط سنانے لگتے۔ اسی طرح انھوں نے اپنا خط ختم کیا، اور ان کو بھی ان کے پہلے سوال کے متعلّق جو فقرہ مناسب تھا، وہ ارشاد فرمادیا۔ اب دونوں صاحب اپنا اپنا فقرہ ختم کرنے کے بعد حضور! کہتے اور جواب ملنے پر لکھنا شروع کرتے۔ اسی حالت میں ان دو حضور حضور سے جتنا وقت بچتا، اس میں تیسرے صاحب نے اپنا خط سنانا شروع کیا۔ اور اسی طرح ختم کر کے جواب لکھنا شروع کیا۔ اب چوتھے صاحب نے ان تین حضور حضور کے درمیان جو وقت بچتا، اپنا خط سنانا شروع کیا۔ اور اسی طرح ختم کر کے جواب لکھنا شروع کیا۔ یہ دیکھ کر مجھے حقیقتاً پسینہ آگیا۔ اور ایک صاحب جو میرے قریب بیٹھے تھے، اسی حالت میں کچھ مسئلے پو چھے، جنھیں سن کر مجھے بہت ملال اور غصہ ہوا کہ اس شخص کو ایسی حالت میں سوال کر نے کا کچھ خیال نہیں مگر اعلا حضرت نے ذرّہ بھر بھی ملال نہ فرمایا، اور بہت اطمینان سے اُن کو بھی برابر جواب دیے۔“
محض ایک مثال سے سوانح نگار نے اعلا حضرت کی اُس حیرت انگیز قوت حافظہ کا ثبوت فراہم کر دیا ہے۔ ایک ساتھ چار اور پانچ لوگوں کو الگ الگ سوالوں کے جواب املا کرانے کا سلسلہ ہے۔ کہیں ایک کی بات دوسرے میں ضم نہیں ہوتی اور تیسرے کے لیے مقرّر جملہ چوتھے کے متن میں سما نہیں جاتا۔ صلاحیتِ خداداد اِسے ہی کہتے ہیں۔ اختصار کے ساتھ سوانح نگار نے مختلف علوم و فنون میں اعلا حضرت کی مہارتِ علمی کا ذکر کیا ہے۔ریاضی دانی، علمِ ہئیت، تاریخ گوئی اور فتویٰ نویسی کے باب میں جستہ جستہ واقعات پیش کر کے مولانا محمد ظفرالدین بہاری نے اعلا حضرت کی فقید المثال شخصیت کی ایک جھلک صاف صاف پیش کر دی ہے۔
اس سوانح کے تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں باب میں اعلا حضرت کی شخصیت کے ارضی پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ قول اور فعل میں یکسانیت اور ہم واری کی درجنوں مثالیں اعلاحضرت کی زندگی کے واقعات پیش کرتے ہوئے سوانح نگار نے فراہم کی ہیں۔ شریعت اسلامی کی ہر حال میں اور صد فی صد پابندی اور ایک عام آدمی یا امّت ِمسلّمہ کے عام فرد کی طرح اعلا حضرت کی زندگی کے واقعات کا روشن ہونا اس سوانح کا سب سے کامیاب حصّہ ہے۔ سوانح نگار نے نمونے کے طور پر جو واقعات پیش کیے ہیں، وہ حد درجہ نمایندہ ہیں۔ درجنوں واقعات خود اُن کی آنکھوں دیکھے بھی ہیں۔ لیکن ایک اچھے سوانح نگار کی طرح انھوں نے سینکڑوں دوسری شہادتوں اور راویوں کی تحریروں یا بیان کردہ اطّلاعات سے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔ اس سے اس سوانح کی معروضیت اور حقیقت پسندی میں اضافہ ہوتا ہے۔
واقعات کے بیان میں مولانا بہاری نے اتنا بہتر انتخاب کیا ہے کہ سو اور ہزار باتوں میں سے صرف وہی لمحہ اپنے بیان کے لیے مخصوص کیا جس سے اعلاحضرت کی شخصیت کا ایک علاحدہ زاویہ اُبھر کر سامنے آتا۔ اخلاق اور مروّت کے سلسلے سے اعلا حضرت کے امتیازات روشن کرتے ہوئے سوانح نگار نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ اعلا حضرت کے نام کسی بد عقیدہ کی گالی سے بھرے خط پر جب ایک مرید خاص نے مقدمہ دائر کرنے اور سزا دلوانے کی تجویز پیش کی تو اعلا حضرت نے اس کا جواب اس طرح اپنے عمل سے فراہم کیا: ”اعلا حضرت نے فرمایا کہ تشریف رکھیے۔ اندر تشریف لے گئے اور دس پندرہ خطوط دستِ مبارک میں لیے ہوئے تشریف لائے اور فرمایا کہ ان کو پڑھیے۔ ہم لو گ متحیر تھے کہ کس قسم کے خطوط ہیں؟ خیال ہوا کہ شاید اسی قسم کے گالی نامے ہوں گے جن کو پڑھوانے سے یہ مقصود ہوگا کہ اس قسم کے خط آج کوئی نئی بات نہیں، بلکہ زمانے سے آرہے ہیں۔ میں اس کا عادی ہوں لیکن خط پڑھتے جاتے تھے اور ان صاحب کا چہرہ خوشی سے دَمکتا جاتا تھا۔ آخر جب سب خط پڑھ چکے، تواعلا حضرت نے فرمایا:
”پہلے ان تعریف کرنے والوں بلکہ تعریف کا پُل باندھنے والوں کو انعام و اکرام، جاگیر و عطیات سے مالا مال کردیجیے؛ پھر گالی دینے والوں کو سزا دلوانے کی فکر کیجیے گا۔ انھوں نے اپنی مجبوری و معذوری ظاہر کی اور کہا کہ جی تو یہی چاہتا ہے کہ ان سب کو اتنا انعام و اکرام دیا جائے کہ نہ صرف ان کو بلکہ ان کے پُشت ہا پشت کو کافی ہوگا۔ مگر میری وسعت سے باہر ہے۔ فرمایا:جب آپ مخلص کو نفع نہیں پہنچا سکتے تو مخالف کو نقصان بھی نہ پہنچائیے۔“
ایسے واقعات اس کتاب میں شامل کر کے سوانح نگار نے اسلامی کردار کا وہ مثالی نمونہ پیش کیا ہے جس کے لیے عام طور پر لوگ سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس کا سلسلہ اس سوانح کی تیسری جلد کے چھٹے باب میں پھر قائم ہوتا ہے جہاں تقریباً سو صفحات میں اعلا حضرت کی متعدّد کرامتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہر جگہ ثبوت کے لیے راوی و مشاہدین کے اسماے گرامی بھی درج ہیں۔ مولانا بہاری نے ایک بھی جگہ رنگ آمیزی یا رقّت و عقیدت کے بجا مظاہرے سے بھی گریز کیا ہے۔ سوانح نگار کی حیثیت سے یہ اُن پر لازم تھا کہ کسی بھی واقعہ پر اصرار یا بلند بانگ دعوا نہیں پیش کیا جائے۔ سوانح نگار واقعہ پیش کردیتا ہے، اسے قبول کرنے والے خود غور و فکر کرلیں۔
اس سوانح کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ ایک لمحے کے لیے بھی سوانح نگار صاحبِ سوانح سے غافل نہیں رہتا۔ معاصرین یا ہم عصر واقعات کی پیش کش میں سوانح نگار نے اعلا حضرت کی زندگی کی مرکزیت سے تھوڑے وقت کے لیے بھی گریز نہیں کیا جس کی وجہ سے سوانح نگار کی حیرت انگیز گرفت کا لوہا ماننا پڑتا ہے۔ ان باتوں کے ساتھ ساتھ اعلا حضرت کی زندگی کے مشہور اور ضروری گوشوں کو بھی توجّہ کے ساتھ پیش کیا۔ ان کے علمی اور روحانی کمالات کے بارے میں جستہ جستہ جو معلومات فراہم کی گئی ہیں، ان سے ان کی قدِّ آدم شبیہہ واضح ہوتی ہے۔ مولانا محمد ظفرالدین بہاری کی سوانح نگاری کا ایک پہلو اور بھی لائقِ تو جّہ ہے۔ ہم ابتدا میں یہ بات ظاہر کرچکے ہیں کہ اعلا حضرت سے انھیں شرفِ تلمّذ بھی حاصل تھا اور وہ ان کی بارگاہ میں طویل مدّت تک حاضر رہے۔ اس کا سوانح نگار نے مختلف واقعات اور حالات کے ذکر میں مقدور بھر استعمال کیا ہے جس سے سوانح کا پایۂ استناد مزید مستحکم ہوتا ہے اور کتاب کے واقعات زندگی بہ داماں معلوم ہوتے ہیں۔ حالیؔ کی سوانح عمریوں میں غالبؔ اور سر سیّدؔ اپنی حقیقی شکل میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح موجودہ سوانح میں اعلا حضرت ایک زندہ جاوید شخصیت کے بہ طور سامنے آتے ہیں۔ حیات اور خدمات کے عمومی جائزے کے بعد مولانا ظفرالدین بہاری نے یہ اچھّا کیا کہ اعلا حضرت کی تصنیفات سے اقتباسات کے لیے علاحدہ جلدیں تیّار کردیں۔ جو کوئی سوانح کے علاوہ خدمات کے لیے گہرائی سے مطالعہ کرنا چاہے گا، اس کے لیے یہ آسانی پیدا ہو جائے گی کہ حیاتِ اعلا حضرت کی دوسری اور تیسری جلد پر بہ نظرِ غائر توجّہ کرے۔ اردو ادب کے ایک عام طالب علم کے طور پر اس سوانح کو ایک مکمّل اور کار آمد کتاب کے طور پر دیکھتا ہوں۔ آئندہ اس کی ترتیب میں کمپیوٹر کے حروف کے پوائنٹ کم کرلیے جائیں تو یہ کتاب اتنی ضخیم نہیں معلوم ہوگی اور اس کا ہدیہ بھی کم رکھا جا سکے گا جس سے کتاب عوام میں بھی آسانی سے پھیل سکے گی۔ مولانا ظفرالدین بہاری کی زبان حالیؔ کی طرح تو نہیں ہے لیکن سادگی اور صراحت کے جوہروں سے مالا مال ہے۔ دقیق مسائل بھی سادگی اور صفائی کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں جو سوانح نگار کی مہارت کی دلیل ہے۔
ملک العلما حضرت مولانا محمد ظفر الدین بہاری کی سوانح ”حیات اعلا حضرت“ کے تین دفتر مل کر ایک بھر پور علمی ذائقہ عطا کراتے ہیں۔ بہ ظاہر تین جلد اور ہزاروں صفحات کی یہ کتاب معلوم ہوتی ہے لیکن بین السطور میں نہ جانے کتنے جہان معنیٰ روشن ہیں۔ استاد اور صاحب سوانح کے عالمانہ وقار اور مذہبی حیثیت کے ساتھ ساتھ لائق شاگرد اور بے مثل عالِم کی شخصیت کے نقوش بھی رہ رہ کر ابھرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ استاد سے قربت اور تعلّق کا اشتہار چسپاں نہیں کیا بلکہ اس کا صرف اس لیے ذکر ہوا کیوں کہ صداقت اور شہادت کے لیے تنہا خود کو پیش کرنے کی ضرورت آن پڑی تھی۔ بعض کمزور لکھنے والے دوسروں کے ذکر کے بہانے چپکے سے اپنے واقعات پیش کرکے اپنی شخصیت اُبھارنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ لیکن مولانا بہاری نے حالی اور شبلی کی عظیم کتابوں سے سوانح نگاری کے اصول اخذ کیے اور ہر موڑ پر اس بات کا دھیان رکھا کہ وہ اعلا حضرت جیسی عظیم شخصیت کی سوانح لکھ رہے ہیں۔ انھیں اپنا ذکر صرف آنکھوں دیکھے واقعات کے ذیل میں سمیٹ کر رکھنا ہے۔ مولانا بہاری نے اپنا ذکر اتنے انکسار کے ساتھ اس کتاب میں کیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے اور استاد کی بہترین تربیت کا اندازہ ہی نہیں بلکہ یقین ہوجاتا ہے۔ اس سوانح کی حیثیت اس اعتبار سے قاموسی ہے کیوں کہ یہاں اعلا حضرت کی حیات و خدمات کا شاید ہی کوئی اہم گوشہ ہو جس کی کوئی جھلک نہیں پیش کی گئی ہو۔ زیادہ معلومات اور بھر پور معلومات کی فراہمی کے مقابل ترتیبِ سوانح کے مرحلے میں یہ احتیاط مولانا بہاری کو ایک بہترین سوانح نگار کے طور پر مستند قرار دینے کے لیے کافی ہے۔ براہ ِ راست اردو ادب سے اس سوانح کا اتنا مختصر رشتہ ہونے کے باوجود ایک صاف ستھری، ترسیلی اور غیر پیچ دار زبان کی ہم واری کے ساتھ یہ کتاب منظرِ عام پر آئی۔ کہیں بھی بات کہنے میں سوانح نگار کو کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی اور جب ہم سوانح کے انجام تک پہنچتے ہیں، تب تک صاحب سوانح کی شخصیت ہمارے دلوں میں اُتر چکی ہوتی ہے۔
***
صفدر امام قادری کی یہ نگارش بھی پڑھیں: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی: مبصّر کی حیثیت سے

شیئر کیجیے

2 thoughts on “’حیاتِ اعلا حضرت‘: فنِ سوانح نگاری کے آئینے میں

  1. بہت خوب اور رعمدہ تنقیدی جائزہ پیش فرمایا ہے آپ نے، آپ کے اس تنقیدی تبصرہ نے کتاب کی عظمت کو اجا گر کیاہے-
    مگر ایک جگہ ایک تعبیر پر نظر رک گئی، پتہ نہیں نظر کا رکنا صحیح تھا کہ غلط، عبارت یہ ہے
    "اس لیے کم از کم اس بات کا یقین ہے کہ مولانا ظفرالدین بہاری نے ”حیاتِ اعلا حضرت“ لکھنے سے پہلے ”حیاتِ جاوید“ کے مشتملات پر غور کرلیا ہوگا”
    "غور کر لیا ہوگا” عدم یقین کو درجات ہے اور”اس بات کا یقین ہے کہ ” سے یقینیت واضح ہے
    تو کیا اس طرح کی تعبیر ہو سکتی ہے
    اردو زبان وادب کا طالب علم محمد شہروز کٹیہاری

شہروز کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے