دعا

دعا

سیدہ ایمن
لاتور، مہاراشٹر

پانی اپنے اندر گہرائی کے ساتھ ساتھ ایک ایسا سکون بھی رکھتا ہے جسے فقط محسوس کیا جاسکتا ہے. اپنے اندر لاکھوں تلاطم ہزاروں طوفان کو دبائے وہ اوپر سے پرسکون رہتا ہے. 
اپنے اندر ایک عظیم طاقت رکھتے ہوئے بھی وہ بالکل خاموش بیٹھا دیکھتا رہتا ہے. اپنے ساتھ سے پاس سے بہنے والی گرم و تپتی سلگتی ہوا کو بھی نرمی سے ٹھنڈی ، فرحت بخش اور اپنی حلاوت سے میٹھی و سعد بنا کر اس کا سفر آسان کردیتا ہے. 
پانی سے چھو کر آتی یہ ہوا کیسے راحت بخش سکون آور بن جاتی ہے، کیسے جسم کے ہر عضو کو مطمئن کر کے ہر تپش کو مٹانے لگتی ہے، ہر محرومی پر ہلکے سے تھپکی دیتے ہوئے تسلی دیتی ہے کہ جو بھی ہے ٹھیک ہے جو بھی ہوگا بہتر ہوگا. 
اللہ کا آج وہ جتنا شکر ادا کرتی اتنا کم ہی تھا. جب سے وہ باہر سے آئی تھی شکرانے کے سجدے میں مصروف تھی. شرجیل اسے دیکھ رہا تھا، اس کی گلابی رنگت مزید نکھر گئی تھی. 
اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں سکون و اطمینان کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مارتا تھا، جسے دیکھ کر شرجیل کے رگ رگ میں مسرت بھری جارہی تھی، پہلے بھی وہ اکثر عبادتیں کرتی تھی لیکن آج کچھ زیادہ مصروف تھی. 
” کیا بات کس بات کے لئے اللہ تعالیٰ کو منایا جارہا ہے….!!!" وہ جیسے ہی جائے نماز تہہ کرنے لگی شرجیل نے بے صبری سے پوچھا. 
” اگر منانا ہے تو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے اس کائنات میں جسے منا یا جائے اور الحمداللہ ……!!! اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ توفیق عطا کریں. آمین. لیکن آج تو میں اپنے رب کا ڈھیروں ڈھیر شکر ادا کررہی تھی اور اتنا کرنا چاہتی ہوں کہ دل چاہتا ہے سجدے سے سر ہی نہ اٹھاؤں …..!!" سنبلہ کی کہتے ہوئی آنکھیں بھر آئیں. شرجیل اسے بہ غور دیکھتا رہا. اکثر وہ ایسے ہی رو دیتی تھی. 
” ہمیں بھی تو کچھ پتا چلے …!!!" شرجیل اسے اپنے قریب کرتا محبت سے بولا. شکر تو اپنے رب کا دل ہی دل میں کررہا تھا کہ اتنی نیک سیرت خوب صورت اور سگھڑ شریک حیات اسے عطا کی گئی تھی. 
سنبلہ نے نہ صرف اسے بلکہ اس کے پورے گھر کو سنوارا تھا، اس کے تین معصوم سے پھول جیسے بچوں کو اس کی زندگی میں لاکر اس کی زندگی فردوس بریں جیسی بنا دی، اس کی باتوں اور ہر عمل سے وہ اپنے رب کا قرب حاصل کرتا تھا. 
” کچھ خاص نہیں ….!!! بس دل چاہ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کروں ….!!!" سنبلہ بھرپور طریقے سے مسکرا کر اس کے پہلو سے اٹھی، راحیل نیند سے جاگ گیا تھا اور کسمسانے لگا تھا. 
راحیل کو گود میں لے کر سنبلہ نے اسے پیار کیا اور آج مال میں گھومتے ہوئے وہ منظر یاد آیا. اس کے جسم پر پھر ایک بار کپکپی سی طاری ہوگئی. وہ اس منظر کو کیسے بھول سکتی تھی ……!!!
اس کو اس کے چہرے کو …..!!!
نہیں ہر گز نہیں …..!!!
اس کی زندگی کا وہ دن ….!!!
وہ ایک ایسا حادثہ تھا جس نے اس کی زندگی کا رخ موڑ دیا تھا اور شکر گزار تھی اپنے رب کی کہ اس نے اسے برباد کرنے سے بچا لیا تھا. اس نے اس رات کو یاد کرکے ایک جھرجھری سی لی. 
وہ جب پہلی بار کالج میں داخل ہوئی تو ایک عجیب سا خمار ذہن میں چھایا ہوا تھا، خود کی برتری کا احساس اور ایک نئی دنیا کا پہلا دن ….!!!!
اس کا تعلق ایک نہایت سلجھے ہوئے ایجوکیٹڈ اسلامی طرز و تعلیم پر سختی سے چلنے والے گھرانے سے تھا. پردہ معمول تھا. نمازوں کی پابندی روزوں کی رغبت قرآن اور فقہاے حدیث سے بے انتہا چاہت تھی. 
پردہ کے اہتمام کے ساتھ لڑکیوں کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی تھی. سنبلہ کے دل میں کالج جانے کے بڑے ارمان تھے. وہ جلد ہی اپنی کلاس فیلو سے گھل مل گئی، جو کچھ غیر مذہب بھی تھے اور کچھ مسلم بھی لڑکیاں تھی، کچھ اس کی اسکول کی سہیلیاں تھی. 
کالج میں ہر کسی کے پاس اپنا موبائل اور واٹس ایپ ایک کومن اور معمول زندگی کی چیز بن کر رہ گئی ہے. اساتذہ سے رابطے کا بھی یہی ذریعہ ہوا ہے کالج کلاس کے لیے واٹس گروپ بھی بنے تھے. 
لڑکے لڑکیوں میں کافی حد تک بات چیت بھی تھی اور آزادانہ ماحول بھی تھا. سنبلہ جانتی تھی کہ اس کی سہیلیوں نے اپنے اپنے لیے ایک ایک لڑکے کو چن کر بوائے فرینڈز بنا لیا ہے. 
اور بوائے فرینڈز یا گرل گرینڈ نہ ہونا کالج گروپ کے لیے ایک معیوب بات سمجھی جارہی تھی. سنبلہ کے لیے ایسا کوئی قدم اٹھانا نہایت مشکل اور ناممکنات میں سے تھا. 
” کالج پڑھائی کے لیے ہے نہ کسی غیر لڑکے یا لڑکی سے دوستی کرکے گروپس بنانے کے لیے ہے. یہ بھی کوئی بات ہے کہ جو لڑکی یا لڑکا کسی مخالف سے دوستی نہ کرے تو وہ ایک معیوب یا گری ہوئی بات ہوئی….!!!" سنبلہ نے جب دبے لفظوں میں اپنی آپا سے صلاح لینی چاہی تو وہ بھڑک اٹھی. 
” یہ کیا طریقہ ہے …!! یہ آخر کالج میں کیا ہورہا ہے، کون سے گروپ میں جانے کے لئے تمہیں کسی لڑکے سے دوستی کرنی ہے اللہ ….! اللہ….!! کتنی بری بے غیرتی کی بات ہے کہ لڑکوں سے دوستی کی جائے ….!! یہ گناہ تو نہیں گناہ کی شروعات تو ہے ….!!؟؟؟" آپا نے آواز دبا رکھی تھی تو بھی سنبلہ کا چہرہ سفید ہوگیا تھا. 
آپا بھی موقع کی نزاکت سمجھتی تھی، وہ بس سنبلہ کو ڈرا دھمکا کر بس اسے ان سب سے دور رکھنے کی کوشش کررہی تھی، سنبلہ کو یہ خوف تھا کہ کہیں اس بات پر اس کا کالج ختم کرکے آپا کی طرح بیاہ نہ رچا دیں. 
” آپا ….!!! می…میں….م….مج…مجھے معاف کردیں …!! آگے سے سوچوں گی بھی نہیں آپا، امی سے کچھ نہ کہیں ….!!" سنبلہ ایسے بھی ڈری ہوئی تھی، روہانسی ہوکر منتی لہجے میں بولی تو آپا نے سخت وارننگ دے کر اسے چھوڑ دیا. 
سنبلہ نے اس خیال سے توبہ کرلی. اس کی سہیلیاں اکثر اس کا مذاق اڑاتیں، اپنے دوستوں کے ساتھ جاتے ہوئے گری ہوئی نظروں سے دیکھتیں، سنبلہ کو برا تو لگتا تھا لیکن وہ اپنی حد جانتی تھی. اس لیے اس نے اب اسٹڈی ہر دھیان دینا شروع کیا. 
اس میں آپا کی دھمکی کا بھی بھاری رول تھا کہ وہ ان سب سے دور ہی رہ رہی تھی، وہ جانتی تھی کہ ان چکروں میں پھنس کر اپنے لیے مشکلیں کھڑی نہیں کرنی ہے. 
اس کی سال گرہ نزدیک تھی، گروپ کا رول تھا کہ جب بھی کسی کا برتھ ڈے یا کوئی اینی ورسری ہوتی ( جو کہ زیادہ ان کے جانو مانو کی پہلی ملاقات یا ایسے ہی کچھ اوٹ پٹانگ ہوتی تھی) تو سب مل کر پارٹی کرتے تھے. 
سنبلہ کئی بار ایسی پارٹیوں کا حصہ رہی تھی. اس کی ایک دوست شاہینہ جس کا اس کی طرح کوئی لڑکا دوست نہیں تھا، وہ اس کے ساتھ بیٹھتی تھی اور باقی سب اپنی جوڑی کے ساتھ آتے تھے، لیکن آج کل شاہینہ بھی اپنا دوست بنانے میں کامیاب ہوگئی تھی. ظاہر ہے یہ بھی اس کی انتھک کوششوں کا نتیجہ تھا. 
سنبلہ اب زیادہ تر اکیلی ہی ہوتی تھی، رول کے حساب سے اس کی سرپرائز پارٹی کا انتظام بڑے دھوم سے کیا تھا اور اچانک اسے بلا کر خوب ہکا گلا کیا جانے لگا. 
اس کی سبھی سہیلیاں اپنے ساتھی کے ساتھ وہاں موجود تھیں، یہ ایک ہوٹل میں آرگنائز کی گئی پارٹی تھی جہاں سب نے سنبلہ کو باری باری وش کیا. اس کی کچھ سہیلیوں کی آنکھوں میں آج عجیب سی حقیر چمک تھی جو سنبلہ کو اندر ہی اندر کاٹ رہی تھی. 
” سنبلہ…..!!! صدرا اب تھوڑی ہی دیر میں پنچ کے طور پر تمھارا کوئی بوائے فرینڈ نہیں نہ وہ ایشو بنانے والی ہے …..!!!" شاہینہ نے اسے ایک طرف لے جا کر سرگوشی میں کہا، سنبلہ کا چمکتا خوشی سے کھلتا چہرا تاریک ہوگیا. 
وہ جانتی تھی صدرا نے پہلے بھی اس کے عبایا کو مذاق بنایا تھا، جو مہینوں تک زبان عام میں پھیلا رہا تھا اور اب وہ اس کی اس دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے والی تھی. اس کا دل اچانک ہی اچاٹ ہوگیا وہ پاگلوں کی طرح ادھر ادھر دیکھنے لگی. 
وہ گھبرا گئی تھی اتنے سارے دوستوں اور ان کے ساتھیوں کے سامنے بےعزتی مطلب وہ کالج میں مشہور ہونے والی تھی، اسے صدرا پر بھی خوب غصہ تھا وہ اس کا پیچھا کیوں نہیں چھوڑدیتی. 
اچانک اس کی نظر ہوٹل کے ساتھ بنی بیکری کے سامنے کھڑے ایک شخص پر پڑی اور اندھیرے میں جیسے اسے روشنی کا احساس ہوگیا ہو، اس کے چہرے کی رونق لوٹ آئی. 
وہ تیزی سے باہر کی طرف نکلی تھی، اس کے کچھ دوست چونک پڑے، شاہینہ نے حیرتِ سے اسے جاتے دیکھا. سنبلہ اس شخص کے سامنے عجلت سے آئی. 
” ارے مشتاق …!!! آپ یہاں …!!" وہ تعجب سے بولی تو مشتاق نے بھی کچھ حیرت سے دیکھا، وہ سنبلہ کے محلے میں رہتا تھا اور اس کے کالج میں سینئر تھا. ان کی کئی بار ملاقات بھی ہوئی تھی لیکن بس رسمی سی کہ پہچان ہے اور پڑوسی ہیں. 
” میں کیک لینے آیا تھا تم یہاں …!!" وہ بے ساختہ بولا سنبلہ خواہ مخواہ ہی ہنسنے لگی. 
” آج میرا بھی برتھ ڈے ہے ….!!! وہ میری فرینڈز ہیں انھوں نے ہی مجھے پارٹی دی ہے …!!" سنبلہ جبرا ہنس کر انگلیاں مروڑنے لگی. مشتاق تعجب سے اسے دیکھنے لگا. 
” ہیپی برتھ ڈے سنبلہ، سوری مجھے بروقت پتہ نہ چلا، تمھارے لئے کوئی گفٹ نہ لا سکا …!!" مشتاق نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا تو سنبلہ نے مسکرا کر اس کی وش قبول کی. 
ان کے گھرانے میں کبھی کہاں برتھ ڈے منایا گیا تھا. سال میں دو عیدیں منائی جاتی تھی بس. 
” میں تمھیں اپنے برتھ ڈے پارٹی میں انوائیٹ کرنے آئی ہوں پلیز میرے ساتھ چلیں اور کچھ وقت کے لیے جوائن کریں ….!!" سنبلہ نے منت بھرے لہجے میں کہا. 
"تمھارے اتنے ارجنٹ انوٹیشن کا شکریہ …!! لیکن میں ذرا جلدی میں ہوں اور آج رات ہمارے گھر بھی پارٹی ہے میں اسی کا کیک لینے آیا ہوں …!!" وہ معذرت کرتا ہوا بولا تو سنبلہ کی جان چہرے میں اٹک گئی. 
” پلیز ….!! کچھ ہی دیر کی بات ہے اور پارٹی تو رات میں ہے نہ رات کو تو ابھی بہت وقت ہے …!!" وہ منمنا کر بولی. مشتاق کے لبوں پر ایک دل فریب مسکراہٹ اتر آئی. وہ سنبلہ کے فرینڈز کو دور سے تاک رہا تھا. 
” شاید تمھیں ایک عدد بوائے فرینڈ کی اشد ضرورت ہے…!!" مشتاق شوخی سے بولا. سنبلہ ادھر ادھر دیکھنے لگی. اس کی چوری پکڑی گئی تھی. خواہ مخواہ اپنے بیگ کی زپ کھول بند کرنے لگی. مشتاق نے اسے ایک نظر بہ غور دیکھا. 
” ٹھیک ہے میں آدھے گھنٹہ سے زیادہ نہیں رک سکتا، اگر تم جلدی کرو تو تمھیں بھی گھر چھوڑ دوں گا ….!!" مشتاق نے اپنی مضبوط سفید کلائی پر بندھی گھڑی پر نظریں گاڑھے ہوئے کہا تھا، سنبلہ خوشی سے زور سے اچھی. 
” اوہ تھینک یو ….!! ابھی تو میں نے کیک بھی نہیں کاٹا ہے ….!!" آدھے گھنٹہ کا سن کر وہ الجھنے لگی. 
” کوئی بات نہیں اب کاٹ لو چلو …!!" مشتاق نے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا تو سنبلہ کی رونق پھر سے لوٹ آئی اور وہ بڑے ہی ناز و انداز سے مشتاق کے ساتھ چلتی ہوئی اپنے فرینڈز کے گروپ میں آئی تو کئی سہیلیوں کے منہ کھلے ہوئے پائے. 
مشتاق اونچا پورا گورا چٹا ستواں ناک چاند پیشانی پر گھنگرالو بالوں والا ایک خوبرو نوجوان تھا. اس نے شربتی رنگ کی ٹی شرٹ اور بلیک پینٹ پہنی تھی. جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ سنبلہ کے ساتھ کھڑا خوب جچ رہا تھا. 
” میرے دوستو ….!! میں آپ سب کو اپنے ایک دوست سے ملوانا چاہتی ہوں یہ مشتاق ….!!! مشتاق یہ میری سہیلیاں ہیں …!!" آگے سنبلہ سب سے اسے ملوانے لگی. صدرا کا چہرہ سیاہ ہوگیا تھا. جانے کیوں اسے برا لگا تھا. وہ کیک کاٹنے سے پہلے ہی ایمرجنسی کا بہانہ کرکے وہاں سے نکل گئی. 
سنبلہ اس دن بہت خوش تھی، مشتاق نے اسے گھر بھی ڈراپ کیا تھا. اس نے یہ ساری باتیں نمک مرچ لگا کر آپا کو بھی بتائی. آپا اس کی ہر بات غور سے سنتی رہی تھی. وہ جانتی تھی سنبلہ ایسے ماننے والی نہیں تھی. 
وہ حد سے زیادہ خوش بھی تھی. وہ مشتاق کو بھی جانتی تھی. مشتاق کی فیملی سے بھی واقف تھی. مشتاق کی فیملی ایک آزادانہ ماحول میں پرورش پائی گئی تھی. جہاں اسلام دین کا کوئی تصور نہیں تھا. 
آپا نے امی سے اصل بات تو نہیں کہی تھی لیکن اپنے سسرال جاتے جاتے  سنبلہ کو ایک عالمہ فاضلہ خاتون کے پاس بھیجنے کا انتظام کرگئی. سنبلہ اس سے جھنجھلا گئی. 
لیکن جب وہ عائشہ صدیقہ سے ملی تو اس کی جھنجھلاہٹ ختم ہوگئی. اس کی طرح ہی اسی کی عمر کی کئی لڑکیاں ان کے پاس آتی تھیں. جن کی شادی ہونے والی تھی یا عن قریب شادی تھی. ان لڑکیوں ہر وہ خاص توجہ دیتی تھیں. 
عائشہ آپی کی عمر چالیس کے قریب قریب رہی ہوگی. ان کا اپنا ذاتی مکان تھا. چار بچے تھے، جو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیوی تعلیم بھی حاصل کرتے تھے. وہ بچیوں کی تعلیم کا سلسلہ ان کے ہی گھر میں بنے ایک بڑے ہال میں کرتی تھیں. 
سنبلہ کو وہاں جاکر اپنائیت کا گہرا احساس ہونے لگا. اتنی پاکیزہ اور مقدس جگہ پر وہ کھلنے لگی. اس جیسی لڑکیوں کے مسائل عائشہ آپی بڑی سمجھ داری سے حل کرتی تھیں. 
"اسلام دینِ فطرت ہے جو انسانوں میں موجود جذبہ محبت کا نہ صرف معترف ہے بلکہ اس جذبے کی تسکین کے لیے تعلقات، انس، محبت، دوستی اور رشتوں کی پاکیزہ و شفاف بنیادیں بھی فراہم کرتا ہے۔" سنبلہ کو آپی کا اس دن کا بیان جیسے ذہن سے چپک گیا تھا. 
” اسلامی معاشرے کی بنیاد خاندانی نظام ہے، اور خاندانی نظام کا قیام، اس کی پائیداری اور تسلسل باہمی الفت و محبت کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے اسلام ان تمام افراد سے محبت اور احترام کا تعلق قائم رکھنے کا حکم دیتا ہے جن کے ساتھ قرابت (خونی رشتہ)، رضاعت (دودھ شریک) یا مصاہرت (سسرالی رشتہ) کی وجہ سے نکاح کرنا حرام ہو۔
یہ رشتے، محرم رشتے کہلاتے ہیں۔ اگر مرد و عورت کے مابین قرابت، رضاعت یا مصاہرت کا کوئی رشتہ نہ ہو تو اسلام انھیں ایک دوسرے کے لیے نامَحرَم یا غیرمَحرَم قرار دیتا ہے."اس کا خیال اچانک ہی مشتاق کی طرف گیا.
” میں کون سا اس سے روز روز ملنے والی ہوں وہ تو بس ایک دن کی اتفاقی ملاقات تھی اللہ میری توبہ…!!" وہ جھٹ اپنے دونوں گال تھپکتے ہوئے استغفار کرنے لگی. جب کہ آپی پھر تفصیل سے بتانے لگی تھی تو ان کی طرف متوجہ ہو گئی. 
"اسلام غیرمحرم لڑکے اور لڑکی کے درمیان نکاح کے علاوہ محبت کا کوئی تصور قبول نہیں کرتا۔ اسلام کے طرزِ معاشرت میں بہ وقتِ ضرورت غیر محرم سے بات کرنے میں بھی انتہائی محتاط انداز اپنانے کا حکم دیا گیا ہے۔" عائشہ آپی کا نرم میٹھا لہجہ سنبلہ کے دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا تھا. 
"یہ حقیقت ہے کہ اسلام نے دنیا سے بے حیائی اور آوارگی کو ختم کرنے کے لیے اور عفت مآب معاشرہ عطا کرنے کے لیے حجاب کا حکم دیا ہے، اسلامی حجاب ہی وہ واحد شے ہے جس سے عورتوں کا صحیح معنی میں تحفظ ہوسکتا ہے. 
اس حجاب کو اپنائے بغیر نہ تو فواحش و منکرات پر بند لگ سکتا ہے اور نہ بے حیائی اور آوارگی ختم ہوسکتی ہے۔ حجاب کے بغیر عورتوں کے تحفظ کا خیال ایک ایسا خواب ہے جو کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا،…!!!" آپی نے مزید کہہ کر اپنی بات ختم کی، سنبلہ وہاں سے گھر آ گئی. 
چونکہ سنبلہ گھر میں سب سے چھوٹی تھی اور بے جا لاڈ پیار نے اسے سر چڑھا رکھا تھا. امی اکثر اس سے پریشان رہتی تھی اس کی شوخ زبانی سے سارا گھر پریشان تھا. 
عائشہ آپی کے پاس جانے سے سنبلہ میں یہ تبدیلی آئی تھی کہ وہ نماز کی پابندی کے ساتھ ساتھ امی کے چھوٹے موٹے کاموں میں بھی مدد کرنے لگی تھی، لہجہ نرم و ملائم ہوگیا تھا. اب وہ کسی بات پر چڑتی نہیں تھی. امی اس تبدیلی پر آپا کی بےحد ممنوع تھی. 
سنبلہ مشتاق کے میسیجز کا اکثر جواب دیتی رہتی تھی. اس سے کسی بھی طرح کی طویل گفتگو سے بہت پرہیز کرتی تھی. وہ لاکھ بے پرواہی برتتی اور عائشہ آپی کی باتوں کو سر سے گزارتی لیکن کہیں نہ کہیں اس کے ذہن میں خوف الہٰی کروٹ لیتا تھا، جس سے وہ بہت محتاط رہنے لگی تھی. 
” آج میرا برتھ ڈے ہے کیا تم مجھے وش کرنے نہیں آؤگی گرل فرینڈ …!!" مشتاق اسے مذاق سے ” گرل فرینڈ" کہہ کر چڑاتا تھا. سنبلہ نے کوئی جواب نہیں دیا، کچھ دیر بعد مشتاق کی کال آئی. 
” کل میرا برتھ ڈے ہے اور ایسا پہلی بار میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اسے تمھارے ساتھ ایک پرائیوٹ ریستوران میں سیلیبریٹ کروں. کل شام تیار رہنا میں لینے آجاؤں گا ….!!" مشتاق نے چند باتوں کے بعد جیسے حکم سنایا اور کال ختم کی. 
سنبلہ اپنی جگہ کھڑی سوچ میں پڑ گئی. مشتاق کی وجہیہ اور اسمارٹ پرسنالٹی سے وہ پہلے ہی مرعوب تھی. اس کے کال نے اسے آسمانوں پر بٹھادیا تھا اور اب اس کا اس طرح اپنائیت سے حق جتانا اسے بہت اچھا لگا. 
اس نے اپنے فرینڈز سے اس بات کا ذکر کیا. خاص طور سے اس نے صدرا کو خوب ستایا، زچ کیا اور اس کے سرخ چہرے کو دیکھ دیکھ کر ہنستی رہی تھی. 
شام کو وہ بڑے اہتمام سے تیار ہوکر اپنی سہیلی کی شادی کا بہانہ کرکے گھر سے نکلی تھی. کچھ فاصلے پر اسے خوشبوؤں میں بسا مشتاق اپنی بائیک لیے کھڑا نظر آیا. 
وہ ایک بہت ہی بڑے اور شان دار ریستوران کے ایک پرائیوٹ گوشہ میں بیٹھے ہلکی پھلکی باتیں کررہے تھے. چاروں طرف لگی شیشوں کی دیواریں مختلف رنگوں کی روشنیوں سے جگمگا رہی تھیں. 
سنبلہ کو رومانوی ماحول، خوب صورت ریستوران اور مشتاق کا ساتھ بہت اچھا لگ رہا تھا. مشتاق نے کیک کاٹ کر اسے کھلایا اور اس کے قریب ہی بیٹھ گیا. سنبلہ کی سانسوں میں اتھل پتھل شروع ہوگئی. 
یہ پہلا موقع تھا کہ کوئی اجنبی لڑکا اس کے قریب آیا تھا. مشتاق بڑے خوش گوار موڈ میں اسے اپنے دوستوں کے قصے سنارہا تھا. کچھ ہی دیر میں وہ مشتاق کی قربت سے پر سکون ہوئی. ابھی وہ باتیں کررہے تھے کہ عجیب سے شور کے ساتھ ریستوران میں بھاگ دوڑ شروع ہوگئی. 
سنبلہ اور مشتاق ہونق چہرہ لیے ابھی ایک دوسرے کو دیکھ ہی رہے تھے کہ دھڑام سے ان کے پرائیویٹ گوشہ کا دروازہ کھلا اور ایک حولدار لاٹھی لے کر اندر گھس آیا اور مشتاق کی پشت پر زور سے مارا. 
” یہ کیا بدتمیزی ہے …!! ہم نے کیا ..کیا ہے..؟" مشتاق بلبلا کر چیخا اور حوالدار کا ڈنڈا پکڑا. 
” ریڈ لائٹ کے ریستوران میں اس لڑکی( ایک گالی دی) کے ساتھ بیٹھا مجھ سے ہی پوچھتا ہے اور حوالدار کا ڈنڈا بھی پکڑتا ہے …!!" حوالدار نے مشتاق کو ایک زوردار جھٹکے سے باہر دھکیلا. سنبلہ کے پیروں سے زمین نکل گئی وہ گھبرا کر کھڑی ہوگئی. 
سنبلہ اپنی جگہ پتھر بنی کھڑی تھی. حوالدار نے جو ابھی اس کی عزت افزائی کی تھی اس کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا تھا. کسی عزت دار لڑکی پر یہ گالی تیزاب کا کام ہی کرسکتی تھی. سنبلہ ہر خوف، سکتہ اور بے عزتی کا صدمہ اتنا گہرا تھا کہ وہ بت بن گئی تھی. 
لیڈی کانسٹیبل اسے لے کر زبردستی باہر نکلی اور پولیس گاڑی میں بٹھا کر ہی دم لیا. سنبلہ کی کوئی منت سماجت گڑگڑاہٹیں کسی نے نہ سنی. خزاں رسیدہ پتے کی طرح کانپ رہی تھی. مستقبل کی رسوائی نے اس کا خون خشک کردیا تھا. 
اس کے ساتھ بیس سے زائد ریڈ ائیریا کی لڑکیاں تھیں. جو ایک دوسرے سے لڑنے باتیں کرنے ہنسی مذاق اور کچھ تلخ کلامی میں مصروف تھیں. ان کو اس گرفتاری کا زیادہ اثر نہیں ہوا تھا. 
سنبلہ ڈری سہمی ایک کونے میں سمٹی ہوئی بیٹھی تھی. مشتاق دوسری گاڑی میں تھا. اس نے ایک دو حوالدار پر ہاتھ بھی اٹھایا تھا. اس کے پاپا ایک بڑے بزنس مین تھے، ان کی دولت کا غرور مشتاق کے لہجے میں عیاں تھا. 
ایس پی  سب کو لائن سے بٹھا کر باری باری سب کو بلا کر نام لکھنے لگا. پتا پوچھنے لگا. سنبلہ کا رورو کر برا حال تھا. اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا. اس نے اپنی ہی نہیں سارے خاندان کی عزت مٹی میں ملادی تھی. 
رہ رہ کر اس کی نظروں کے سامنے والدین کے چہرے گھومنے لگے. وہ رو رو کر اپنے رب العالمین کو پکارنے لگی. پھر سے کسی محرم کے ساتھ باہر نہ نکلنے کی قسم کھانے لگی. وہ گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے خیر مانگ رہی تھی. 
اس کے پاس بیٹھی لڑکیاں اس کے رونے سے، سسکیوں سے نالاں تھیں. بار بار اسے جھڑک کر چپ کرا رہی تھیں. اب وہ انھیں کیا بتاتی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے …!!! اس کے ذہن میں عائشہ آپی کا بیان گونجنے لگا. 
الاحزاب، 33: 32
اگرچہ اس آیت مبارکہ میں ازواج مطہرات کو مخاطب کیا گیا ہے مگر اس کا پیغام قیامت تک آنے والی تمام عورتوں کے لیے ہے کہ کسی غیر محرم مرد سے ضروری بات کرتے ہوئے بھی نرم لہجہ اختیار نہ کیا جائے مبادا کہ نرم لہجہ اپنانے کو اشارہ و کنایہ ہی نہ سمجھ لیا جائے اور مخاطب اپنے دل میں کوئی جذبات پیدا کر لے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تنہائی میں غیر محرم عورت کے پاس جانے اور اس سے ضروری بات چیت سے بھی منع کیا ہے۔
حدیث مبارکہ میں شیطان کا خون کی طرح دوڑنا، محاورتاً بولا گیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب نامحرم عورت اور مرد تنہائی میں ہوتے ہیں تو جذبات ابھرتے ہیں اور شہوت جوش مارتی ہے جو برائی کی طرف مائل کرتی ہے۔
اسی طرح اگر غیرمحرم لڑکا اور لڑکی پریم پتر کریں، پیار و محبت کی باتیں کریں، تو قوی امکان ہے کہ وہ برائی پر آمادہ ہو جائیں گے۔
مشتاق اس کے قریب ہی خاموش بیٹھا تھا، اس کا منہ سوجا تھا. ایک آنکھ سرخ ہوکر حلقوں تک نیلا دائرہ بنانے لگی تھی. نئی شرٹ پھٹ چکی تھی. چہرے کے ساتھ ہاتھوں پر بھی خراشیں پڑی تھیں. مشتاق نے حوالدار کے ساتھ اچھی خاصی ہاتھا پائی کی تھی. 
” اے لڑکی یہاں آؤ…!!" ایس پی نے جھڑک کر اسے بلایا تو وہ کانپتی ہوئی اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی. 
” صورت شکل سے پہناوے سے کسی اچھے خاندان کی چشم وچراغ لگتی ہو اور پس پشت ایسے گھٹیا کام کرتی ہو شرم نہیں آتی …!!" پولیس ایس پی نے اس کا حجاب اور عبایا دیکھ کر اسے بری طرح جھڑکا. 
” یقینا اسلامی حجاب پوری انسانی برادری کو پرسکون اور باوقار زندگی عطا کرنے کی فطری تدبیر اور یقینی ضمانت ہے؛ اسی لیے اسلام نے پردہ کی بہت زیادہ تاکید کی ہے، قرآن کریم میں سات آیتیں پردۂ نسواں اور اس کی تفصیلات کے متعلق نازل ہوئیں اور ستر سے زیادہ احادیث میں قولاً اور عملاً پردے کے احکام بتائے گئے۔
اسلامی حجاب کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام نے عورتوں کو گھروں میں قید کردیا کہ وہ ہمیشہ اندر ہی رہیں کبھی باہر نہ نکلیں، جیسا کہ آج کے نام نہاد روشن خیال اور جدید تہذیب کے جھوٹے علمبرداروں کا خیال ہے؛ بلکہ اسلام نے خواتین کو ضرورت کے وقت پردہ کے ساتھ باہر نکلنے کی اجازت دی ہے…!!" عائشہ آپی کا نرم و ملائم لہجہ پھر سے گونج اٹھا. 
وہ اپنے وجود کو گٹھری کی طرح اپنے ہی بازوؤں میں لپٹی کسی خزاں رسیدہ پتے کی طرح کانپنے لگی. چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہوگیا تھا. دل کی دھڑکن ان الفاظ پر رکتی ہوئی محسوس ہورہی تھی. آنسو ابل ابل کر اس کا چہرہ تر کرنے لگے. گہری سرخ آنکھیں پہلے ہی اس کے رونے کی چغلی کھارہی تھیں. 
” کس کے ساتھ تھی تم …؟؟" سب انسپیکٹر نے دھمکا کر پوچھا. ایس پی نے انسپیکٹر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے روک دیا. شاید سنبلہ کی حالت پر اسے رحم آگیا تھا. 
” تم اپنے گھر سے کسی کو بلانا چاہتی ہو جو تمہاری ضمانت کرا سکے …!!" ایس پی نے کہا. اس کا لہجہ اب بھی سخت تھا. اس کی حالت سے معلوم ہوتا تھا کہ ذرا سا بھی مزید دھمکایا تو وہ غش کھاکر گر پڑے گی. 
سنبلہ نے اثبات میں سر ہلایا. وہ خود کو بڑی سختی سے سنبھالے ہوئے کھڑی تھی. اگر وہ بے ہوش ہوجاتی تو یہ پولیس والے اسے چیل کوے کی طرح نوچ کر کھا جاتے. اس نے جلدی سے پرس سے سہم کر موبائل نکالا. 
” پانڈے….!!! سب کے موبائل پرس لینے کو بولا تھا نہ یہ دیکھ یہ لڑکی کے پاس ابھی تک پرس پڑا ہے …!!" سب انسپیکٹر زور سے چیخا تو وہ ڈر کر بری طرح سے اچھلی. مشتاق چپ چاپ بیٹھا تھا. 
” آرام سے گوکھلے یہ چڑیا ادھر ہی جان چھوڑ دے گی …!! ایس پی نے سب انسپیکٹر کو ٹوکا تو وہ برا سا منہ بنا کر رہ گیا. 
” اے لڑکی گھر کال کرو …!!" پھر وہ کڑکتی آواز میں اس سے مخاطب ہوا تو سنبلہ کے ذہن میں پہلا نام آپی عائشہ کا ہی آیا، اس نے ان کا ہی نمبر ڈائل کیا. 

” ہی….ہی…ہیلو…..آپی….!!" سنبلہ کے گلے میں آواز اٹکنے لگی. جب کہ دوسری طرف سے پروقار زمانہ آواز میں پرتپاک سلام کیا گیا تھا. تبھی سب انسپیکٹر نے ایک جھٹکے سے اس کے ہاتھ سے موبائل چھین لیا. 

” جی ہاؤ….!!! میڈم …!! آپ کی لڑکی ادھر کاندے والی پولیس اسٹیشن میں بیٹھی ہے …!! اپنے کسی یار کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہے. آپ آکر اپنی لڑکی کی ضمانت کردیں …!!" سب انسپیکٹر نے کٹھور لہجے میں کہہ کر موبائل آف کیا. سنبلہ کے ہاتھ سے پرس لے کر اس کی تلاشی لینے لگا. سنبلہ کا خون خشک ہوگیا. کس بے ہودہ طریقے سے انسپیکٹر نے بات کی تھی. 
” ارے واہ صاحب…!! میم صاحب کے گھر والے کو بلاکے اس سے پیسہ لے کر چھوڑتا ہے …!! اور اپنے کو ادھر بیٹھ کے دھندا کروائے گا …!!" ایک منہ پھٹ لڑکی اٹھ کر لہراتی ہوئی بولی. 
” اے نیچے بیٹھ ….!! نیچے بیٹھ …!!" لیڈی کانسٹیبل نے اسے پیچھے سے دھموکے جڑے اور اسے دبا کر بٹھایا. وہ پرزور ہائے ہائے کرتی بیٹھ گئی. سنبلہ بہ مشکل اپنے کانپتے پیروں پر کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی. 
” اے ادھر کھڑی رہ اے کون ہے اگلا ادھر آ…!!" سب انسپیکٹر نے اسے ایک طرف کھڑے رہنے کے لیے کہا اور اس کے پیچھے اگلی لڑکی کو بلانے لگا. 
اس نے کبھی اس قسم کی فلمیں بھی نہیں دیکھی تھی جس طرح کا ماحول وہ برداشت کرنے کے لیے مجبور تھی. وہ سوچ رہی تھی:
” پتا نہیں عائشہ آپی آئیں گی بھی یا نہیں۔…؟؟
وہ کیوں اس کے لیے پولیس جھمیلوں میں پھنسیں گی ….؟؟؟؟
یا پھر وہ امی کو کال کر چکی ہوں گی ….!!!
ہائے..!!! ہائے میری امی پر کیسی قیامت گزرے گی …!!!
ہائے میرے ابا تو جیتے جی مر جائیں گے …!!
سارے محلے میں کتنی عزت تھی، ان کا کس قدر شریف النفس خاندان تھا …!!"
وہ سوچ سوچ کر پاگل ہورہی تھی تو رو کر اپنے اللہ کو مدد کے لیے پکار رہی تھی. اب اسے کوئی نہیں بچا سکتا تھا. وہ بری طرح سے اس بدنامی کے دلدل میں پھنس چکی تھی. وہ پوری طرح ڈوب چکی تھی. 
” سنبلہ …!! میری گڑیا ..!! گھبراؤ نہیں بھائی جان بھی ساتھ ہیں ….!!" وہ دوزخ کی آگ میں جل کر بھسم ہورہی تھی. تبھی عائشہ آپی کی نرم آواز نے اسے ایک دم اس جہنم سے کھینچ لیا. اس نے اپنی بجھتی آنکھیں کھول کر ان کی دھندلی سی شباہت دیکھی پھر جلدی سے انسؤؤں کی لڑیاں صاف کرکے سیدھی ان کی طرف لپکی. 
آپی بھی ہر کا لحاظ بالائے طاق رکھ کر تیر کی طرح میری طرف لپکی تھی میں ان کی ان ان کی بانہوں میں سمائی وہ پورے برقعے میں تھیں. انھیں اور ان کے ساتھ آنے والے ان کے شوہر کو دیکھ کر ایس پی اور سب انسپیکٹر تیزی سے کھڑے ہوگئے.  اس چھوٹے سے آفس میں ہلچل سی مچ گئی. سنبلہ نے عائشہ آپی کو سختی سے پکڑا تھا. اس پر بری طرح لزرا طاری تھا. 
” سر آپ …!!!بیٹھیں نہ …!!" ایس پی نے انھیں کرسی دی. بھائی جان نے نفی میں سر ہلایا. انھوں نے مشتاق کو بھی دیکھا اور اس وقت بالکل انجان بن گئے. ان کے چہرے پر سنجیدگی کھنڈ آئی تھی. 
” یہ لڑکی ریڈ ائیریا سے پکڑی گئی ہے کسی لڑکے کے ساتھ تھی…!!" ایس پی نے فائل آگے کی. 
” اپنے محلے کی بچی ہے انسپیکٹر صاحب ..!!! کچھ بھی درج مت کریں آپ کی خاطر تواضع کی قیمت بتادیں …!!" بھائی جان نے ذرا سختی سے کہا. وہ جلد از جلد ان دونوں کو لے کر یہاں سے نکلنا چاہتے تھے. 
” ارے صاحب…!! اب آپ سے بھی خاطر تواضع کروانی ہے…!! آپ کا دل جو چاہے دے دیں..!!" انسپیکٹر نے کہا. بھائی جان نے اس وقت سفید کرتا اور پائجامہ پہنا تھا. وہ اکثر ایسے ہی سفید لباس میں رہتے تھے. جھٹ انھوں نے کرتے کی لمبی جیب سے نوٹوں کی گڈیاں نکال کر انھیں تھمائی. رجسٹر چیک کیا اور دونوں کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا. 
مشتاق انھیں جاتا دیکھ اٹھ کر ان کے پاس آیا تو انھوں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے وہی رکنے کو کہا اور ان دونوں کو لے کر باہر آئے. باہر آتے ہی سنبلہ کی جان میں جان آئی. اسے ٹوٹ کر رونا آیا. 
” تم نے نام پتہ کچھ بھی نہیں بتایا تھا نہ…!!؟؟" بھائی جان اس کا پرس اور موبائل لے آئے تھے ساتھ میں، پوچھنے لگے، وہ نفی میں سر ہلانے لگی. 
” اس میں کیش اور جو قیمتی سامان تھا وہ تو انھوں نے لے لیا ہے البتہ میں سارے ڈاکیومینٹس اٹھا لایا ہوں…!" بھائی جان نے کار میں بٹھاتے ہوئے آپی سے کہا. 
” تم بالکل فکر مت کرو تمہاری امی کو کال کرکے کہہ دیا ہے کہ تم میرے پاس ہو اور ناظرہ قرآن میں حصہ لے رہی ہو تو دیر ہو جائے گی …!!" سنبلہ کار میں بیٹھتے ہی وقت دیکھنے لگی. دس بج چکے تھے آپی اس کا مفہوم سمجھ کر بولی. 
جب آپی نے کہا کہ امی کو کال کردی ہے تو اس کی جان حلق میں اٹک گئی تھی. آنکھوں سے بلا کا خوف جھانک رہا تھا. اپنوں کا سامنا کرنے کے ڈر سے اس نے ایک جھرجھری لی تھی، لیکن آگے آپی کی بات سن کر اس کے لبوں سے گہری سانس خارج ہوگئی. 
اس نے تشکر احسان مندی کے ملے جلے رنگوں سے آپی کو دیکھا جو آج آسمان پر سب سے اونچی جگہ پر بیٹھی محسوس ہورہی تھیں اور سنبلہ خود کو پستیوں میں گرتی محسوس کررہی تھی. اس نے شرمندگی سے گردن جھکا لی. 
کار خاموشی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی. سنبلہ اپنے رب کا شکر ادا کررہی تھی. ایک دعا نے اسے بچا لیا تھا. وہ آپی سے نظریں نہیں ملا پارہی تھی. عائشہ آپی اسے سیدھے اوپر والے پورشن میں لے گئیں. جہاں دو کمرے اور اٹیچ باتھ روم تھا. اسے آپی نے مہمان خانہ بنایا ہوا تھا. 
” سنبلہ گڑیا ….!! آپ آرام سے ہاتھ منہ دھو کر وضو بناکر عشاء کی نماز ادا کرو اپنے رب کا شکر ادا کرو میں ابھی آتی ہوں …!!" انھوں نے اسے گلے لگا کر خوب تسلی دی اور پیار سے کہتی ہوئی نیچے چلی گئیں. 
سنبلہ نے ان کی تاکید پر عمل کیا، وضو کرکے جب اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور کھڑی ہوئی تو آنکھوں سے اشکوں کی لڑیاں ٹوٹنے لگیں، اپنے گناہوں کی معافی خود بہ خود لبوں سے جاری ہوگئی. 
طویل سجدوں اور خوب رو کر معافی مانگنے کے بعد وہ دعا کرکے پلٹی تو آپی اس کی منتظر تھی. دو ڈھکی پلیٹ ٹیبل پر رکھی تھی، پانی کی بوتلوں کے ساتھ تھر ماس بھی رکھا تھا. 
” سنبلہ پہلے اپنی امی کو کال کرکے کہو کہ آپ خیریت سے ہو اور آج رات میرے پاس رکنے والی ہیں …!! رات کافی ہوگئی ہے وہ پریشان ہوں گی اور مجھے بھی دینا میں بھی بات کروں گی تاکہ وہ مطمئن ہو جائیں …!!" سنبلہ ان کے نرم لہجے سے پگھل گئی، ماں کے خیال نے دکھ کی سسکاری سی نکال دی، اس کے آنسو پھر سے بہہ نکلے. 
” اوں … ہوں … !! ایسے رو کر بات کروگی تو وہ ابھی یہاں پہنچ جائیں گی. کیا تم چاہتی ہو وہ تمھیں اس حال میں دیکھیں …!!" آپی نے محبت سے ٹوکا تو سنبلہ نے ہمت دکھائی اور فون لگایا. 
” امی ناظرہ قرآن طویل ہورہا ہے. اگر آپ کی اجازت ہو تو آج رات یہی رک جاؤں…!!" ماں کی آواز سنتے ہی سارے دکھ باہر نکلنے کو بے تاب ہوگئے. سنبلہ نے لب کاٹتے ہوئے اپنی آواز کو نارمل رکھا. 
” ہاں رک جاؤ…!! تمھاری آواز کو کیا ہوا ہے. طبیعت خراب ہوگئی ہے تمھاری …!!" وہ آخر ماں تھی آواز کی ذرا سی تبدیلی پر سب کچھ پہچان لیتی تھی، اتنے بڑے صدمے کو وہ نوٹ کیے بنا نہ رہ سکی. 
” امی پڑھنے سے آواز بیٹھ گئی ہے …!" وہ بہ مشکل بولی. 
” یہاں سے تو شادی کا کہہ کر نکلی تھی، کچھ بتایا بھی نہیں اور میں نے بھی پوچھا نہیں نو بجے تک نہیں لوٹی تو بھیا اور ابو کو کتنی تشویش ہورہی تھی تبھی عائشہ کا فون آیا تب ہم نے سکھ کا سانس لیا ….!!"
کیسا خراب زمانہ چل رہا ہے اور تم یوں بنا بتائے ..!! خیر ۔۔۔ٹھیک ہے رک جانا زیادہ دیر تک نہیں جاگنا اور صبح ناشتے سے پہلے لوٹ آنا. تمھارے ابو کتنی دفعہ پوچھ چکے ہیں …!! ذرا عائشہ کو فون پکڑانا …!!" امی نے کہتے ہوئے احتیاط سے آپی کو فون دینے کہا. وہ تو کب سے یہی چاہتی تھی فورا موبائل آپی کو تھما دیا. وہ دیر تک ان کی تسلی تشفی کرتی رہیں پھر اس کی طرف مڑیں. 
” چلو اب آرام سے کھانا کھالو ..!!" عائشہ آپی اسے پیار سے کہتی ہوئی کھانا پروانے لگی. ان کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں. چہرے پر ابھرتی ڈوبتی کش مکش پریشانی سنبلہ نے واضح طور پر دیکھی تھی. وہ مشکل سے چند لقمے کھانے میں کامیاب ہوئی اور پانی کی بوتل منہ سے لگائی. آپی اسے ٹوکتی رہ گئیں. پھر کہوں میں چائے نکالنے لگیں. 
” اب بتاؤ سنبلہ کیا ہوا تھا ….!!” جب وہ چائے کی چسکیاں لینے لگی تو عائشہ آپی نے دھیمے لہجے میں پوچھا. سنبلہ نے بھی اپنا دل کھول کے رکھ دیا. ساری باتیں ان کے گوش گزار کردی. عائشہ آپی اس کی ساری باتیں سنجیدگی اور متانت سے سنتی رہی تھیں. ایک سوال بھی بیچ میں نہیں پوچھا نہ روکا نہ ٹوکا ساری داستان غور سے سنتی رہیں. 
” دیکھو سنبلہ….!! تم ایک سمجھ دار لڑکی ہو، جو ہوا سو ہوا، اس بات کو یہیں دفن کرو. انسان اپنی استطاعت کے حساب سے کسی دوسرے انسان کی غلطی برداشت کرتا ہے. میرے اور میرے شوہر کے لب میری  ضمانت میں تمھیں دیتی ہوں، مرتے دم تک یہ بات ہمارے سینوں میں دفن رہے گی …!!!
اور اس بات کو بتا کر یا یاد کرکے کسی کا کیا بھلا ہوگا، اسے یہیں دفن کرو. اللہ کا شکر ادا کرو اور چپ چاپ اپنے گھر لوٹ جاؤ لیکن دوبارہ ایسی غلطی مت کرنا. عورت کی عزت پر آیا بال اور شیشے کی لکیر واضح ہوکر رہتی ہے …..!!" عائشہ آپی متانت سے کہہ رہی تھیں. سنبلہ منہ کھولے حیرت ذدہ اس فرشتہ صفت ہستی کو دیکھ رہی تھی. 
” آپی میری تو زندگی سے ساری امیدیں ختم ہوگئی ہیں…!!" وہ جلد ہی ہوش میں آئی اور روہانسی ہوکر بولی. 
"زندگی اور امید کا ساتھ چولی دامن کا سا ہے. وہ ایک دوسرے کے بغیر ادھوری نامکمل سی ہیں. زندگی ہے تو امید ہے اور امید ہے تو زندگی ہے. انسان ان دونوں میں سے کسی ایک بن نہیں سکتا. یہ دونوں ہی آگے پیچھے اوپر نیچے ہر وقت آس کا دامن تھامے اسے لے کر چلتی رہتی ہیں. 
جب تک زندگی ہے ہمارے جسموں میں جان باقی ہے. ہماری آس زندہ رہتی ہے. ہماری امیدوں میں جان ہوتی ہے. جب انسان کی موت ہوجاتی ہے تو امیدیں بھی کفن میں لپٹ کر سو جاتی ہیں. اپنی آخری سانسیں لے چکی ہوتی ہیں. پھر کوئی امید باقی نہیں رہتی. کیونکہ زندگی باقی نہیں ہوتی ……!!!" آپی نے کہا تو سنبلہ کو کافی حوصلہ ہوا. 
دوسرے دن اس کی حالت کافی بہتر تھی. عائشہ آپی رات اس کے ساتھ ہی سوئی تھیں. فجر کے بعد دینی تعلیم کا دور ختم ہوا تو عائشہ آپی نے اسے ناشتہ کروایا، اس کی آنکھیں سوج گئی تھی چہرہ مرجھا گیا تھا. 
” کیا ہوا خیریت تو ہے…!!" امی اسے دیکھ کر ہول گئی وہ جبرا مسکرائی. 
” کچھ نہیں امی رات بھر میں اور آپی جاگ رہے تھے. اس لیے آپ کو ایسا لگ رہا ہے. میں نے آپی کے پاس ہی ناشتہ کرلیا ہے اب سوؤں گی…!!" وہ امی سے لپٹ کر دیر تک کھڑی رہی. اس نے اپنے آنسو بہ مشکل روکے تھے. 
” ٹھیک ہے آرام کرو …!!" امی نے گہری سانس خارج کی اور اسے اپنے سے الگ کرنا چاہا لیکن وہ لپٹی رہی. 
” چھوڑو مجھے کیا ہوا ہے ..!!" امی اسے اپنے سامنے لاتے ہوئے جھنجھلا کر بولی ان کا چہرہ انجانے اندیشوں اور خوف سے لزرنے لگا تھا. 
” امی ایک رات آپ کے بغیر مجھ پر بہت بھاری گزری ہے آپ کی بہت یاد آرہی تھی اور آپ کی یہ جو دعا تھی نہ عزت کی زندگی اور عزت کی موت والی اس دعا نے ہر وقت میری حفاظت کی ہے …!!" سنبلہ ماں کا گال چومتے ہوئے پھر سے ان سے لپٹ گئی. 
” اچھا بس بس …!! تجھے کیا چاہیے یہ بول اتنا لاڈ کرنے کی ضرورت نہیں ہے…!!" امی پھر سے مطمئن ہوکر مسکرانے لگی اور دل ہی دل میں اپنے رب کا شکر ادا کرنے لگی. 
” کچھ نہیں امی ….!! بس آپ پر بہت پیار آرہا ہے، مس یو سو مچ …!!" سنبلہ ان سے الگ ہوتی پیار سے بولی. اس دن کے بعد سے سنبلہ کی کایا پلٹ ہوگئی تھی. 
وہ گھر سے باہر بھائی یا والد کے بغیر نہیں نکلتی تھی. اتنی نرم اور سنجیدہ ہوگئی تھی کہ امی کو اس کی خاموشی پر شک ہونے لگا تھا. پہلے جیسا الہڑ پن ڈھیٹ باتیں شوخ زبانی اپنی ضد اپنی ہی من مانی کرنے والی اچانک ہی کہاں جا سوئی تھی. 
یہ نئی سنبلہ پانچ وقت کی نماز کے ساتھ ساتھ امی نے اسے کئی بار راتوں کو سجدے میں روتے ہوئے بھی دیکھا تھا. صوم و صلاۃ کی پابندی کے ساتھ بڑوں کی فرماں برداری چھوٹوں سے محبت کتنی بردبار ہوگئی تھی. 
ایسا نہیں تھا کہ اس رات کے حادثے کا چرچا نہیں ہوا تھا بلکہ سنبلہ کو امی کے ذریعہ ہی معلوم ہوا تھا جس دن وہ ناظرہ قرآن کے لئے آپی کے پاس رکی تھی محلے کے کونے والے گھر جو مشتاق تھا کافی دیر تک ہنگامہ ہورہا تھا. مشتاق کو اس کے ابا پولیس اسٹیشن سے چھڑوا کر تو لائے تھے لیکن گھر پر خوب دھلائی کی تھی. ایک ہنگامہ ہوگیا تھا. 
اسے کچھ دن تک اڑتی اڑتی خبریں بھی آتی رہی تھیں کہ محلے کی کوئی لڑکی بھی ساتھ تھی. وہ اکیلا نہیں تھا. ریڈ ائیریا کی کئی لڑکیوں کے ساتھ وہ لڑکی بھی کہی چلی گئی. محلے کی کئی کھوجی خواتین کو اس میں خوب دل چسپی تھی کہ آخر وہ لڑکی کون تھی….!!!!
مشتاق نے شاید اس کا نام نہیں بتایا تھا یا بتایا بھی ہو تو اس کے والدین نے کسی اور کو بتا نا ضروری نہیں سمجھا. ویسے بھی ان کا خاندان پردے اور دینی ماحول کے لیے محلے بھر میں مشہور تھا تو شاید انھوں نے مشتاق کی بات پر دھیان بھی نہیں دیا تھا. 
اور اگر ایسی بات ہوتی تو اس رات سنبلہ کے گھر بھی کوئی نہ کوئی ہلچل ضرور ہوتی. کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا کہ بات کھل جاتی. اللہ کے اس پرداداری رکھنے پر سنبلہ دل سے عائشہ آپی کی بھی ممنوع تھی. 
یہ بات سنتے ہی سنبلہ کا چہرہ خوف کی شدت سے سفید پڑجاتا. وہ جلدی سے وضو کرکے اپنے رب کے سامنے سر بہ سجود ہو جاتی کہ اسے اس رسوائی سے بچا کے وہ پھر کبھی ایسی غلطی نہیں کرے گی. رو رو کے وہ اللہ سے پناہ مانگتی. اس کا وجود خشک پتے کی طرح لزرنے لگتا ۔۔۔۔!!!
امی اس کی کیفیات سے بے خبر نہیں تھی. سنبلہ کی روٹین جو بدلی وہ حیران رہ گئی. انھوں نے فوری طور پر آپا کو بلایا. 
” دیکھو سنبلہ اگر تمہیں کوئی پسند آگیا ہے تو صاف صاف بات کرو ایسے ڈرامے کی ضرورت نہیں ہے ..!! امی خوامخواہ پریشان ہورہی ہیں …!!" آپا نے ڈپٹ کر کہا. مشتاق کا نام انھوں نے جان بوجھ کر حذف کیا تھا. اس کے آنسو ذرا سی ٹھیس پر بہہ نکلے. اس حادثے کو دو ماہ ہوچکے تھے لیکن سنبلہ کی وحشت کم نہ ہوتی تھی. 
” سنبلہ میری گڑیا …!!کیا بات ہے کیوں پریشان ہے سچ بتا کوئی پسند ہے تو میں بات کروں گی ابو سے ….!!" آپی ایک دم نرم پڑ گئیں. اسے گلے لگا کر سر پر بوسہ دیا محبت سے پوچھنے لگی. 
” ایسی کوئی بات نہیں ہے آپا…!!" وہ جلد ہی خود پر قابو پاتے ہوئے بولی اور آنسو صاف کرنے لگی. 
” پھر کیا بات ہے…!!” آپا نے حیرت سے اسے دیکھا. وہ ایسی تو ہرگز نہیں تھی. اگر اسے کوئی پسند بھی آتا یا کوئی اور چیز یا مقصد بھی ہوتا تو وہ روتی کہاں تھی. ایک ہنگامہ ڈال دیتی تھی. خوب دھینگا مشتی کرتی تھی. اپنی بات منوا کر چھوڑتی تھی. 
” مجھے بس اپنے غلط رویے کا احساس ہوگیا ہے. میں آپ سے بھی اپنے رویہ کی معافی مانگتی ہوں آپا …!!" سنبلہ نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھام کر پیار سے کہا تو آپا پھر سے حیرتوں کے سمندر میں ڈوبنے لگی. سنبلہ سے انھیں اس نرمی اور سمجھ داری کی امید تو کبھی بھی نہیں رہی تھی. 
” آپی نے ایک رشتہ بھیجا ہے، دیکھا بھالا لڑکا ہے، ابو کے آفس میں کام کرتا ہے، جہاں بھائی جان بھی کام کرتے ہیں. گھر خاندان سب اچھا ہے، وہ تمھیں پسند بھی کر گئے ہیں …!!" وہ جو آپا کہ بات سنجیدگی سے سر جھکائے سن رہی تھی آخری بات پر سر اٹھا کر تعجب سے دیکھنے لگی. 
بھائی جان کو وہ کیسے بھول سکتی تھی. اسے تو بعد میں ابو سے پتہ چلا تھا کہ بھائی جان مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ایک اہم رکن ہیں. اس لیے پولیس والے ان سے سہمے ہوئے تھے. 
"پچھلے ہفتہ جو آنٹیاں امی کی سہیلیاں بن کے آئی تھیں اور تم نے جانے کیسے ان کی اتنی خدمت کی تھی …!!!" آپا نے تاسف سے سر ہلایا. سنبلہ کی آنکھوں میں خفگی اتری. 
” سچ کہہ رہی ہوں امی جب فون پر تمھاری تعریف کررہی تھی تو مجھے رتی بھر یقین نہیں تھا …!!" آپا نے گلے کو چٹکی بھر تے ہوئے کہا. سنبلہ ہولے سے مسکرائی. 
” امی تو تم سے ڈر کر یہ بات ہی نہیں کرپائیں. جانے تم اس اچانک افتاد پر کون سا ہنگامہ کھڑا کروگی. اس لیے فوری طور پر مجھے بلایا گیا ہے …!!" آپا نے شوخی سے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا. سنبلہ نے سر جھکا لیا. 
” تمھاری کایا پلٹ تو حیرت انگیز اور خوش گوار بھی ہے. اگر تمھیں کوئی اعتراض نہیں ہے تو میں امی کو تمھاری ” ہاں" کہہ دوں ..!!" آپا نے شرارت سے اسے چٹکی کاٹی. 
” امی جو بہتر سمجھیں. آپا کیا آپ نے اپنے وقت امی سے کچھ کہا تھا جو میں ان کے آگے جاؤں …!!" آپا اسے حیرت سے تکنے لگی. 
” امی واقعی سچ کہہ رہی تھی. ماشاءاللہ اللہ نظر بد سے محفوظ رکھے ….!! میں ابھی امی کو خوش خبری دے کر آتی ہوں..!!" آپا اسے گلے لگا کر چومتی ہوئی کہتی باہر نکل گئی. سنبلہ پر ایک اور خوف طاری ہونے لگا. 
” آپی …!! مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے …!!" وہ عائشہ آپی کے سامنے بیٹھی ان کا ہاتھ تھامے بول رہی تھی. شرجیل سے نسبت تو طے ہوگئی تھی لیکن سنبلہ بے حد پریشان تھی. 
” کس بات کا …!!" آپی کچھ حیران تھی. 
” اگر شرجیل یا ان کے گھر والوں کو اس حادثے کا پتا چل جائے تو ….!!" آگے وہ وحشت سے کپکپاتے ہوئے خاموش ہوگئی. 
” اچھا ہوا تم نے خود ہی اس مسئلے پر بات کی میں سوچ ہی رہی تھی کہ کیسے تم سے بات کروں …!!! دیکھو سنبلہ کچھ راز سینے میں ہی دفن ہوں تو اچھا ہوتا ہے اور پھر تو یہ بات بڑی رسوائی کی ہے. میں نے اس دن بھی تم سے کہا تھا کہ اب اس بات کو یہیں دفن کرنا ہے. پھر تم اس بارے میں سوچ کر کیوں پریشان ہوتی ہو ….!!” آپی نے کہا تو اسے تسلی ہونے لگی. 
جلد ہی اس کی شادی دھوم دھام سے شرجیل سے ہوگئی اور دوسرے شہر شفٹ ہوگئی. وہ اس کے ساتھ خوش تھی. دن مہینے اور مہینے سال میں بدلتے رہے وہ چھ سالوں میں تین بچوں کی ماں بن گئی. 
” آپی ….!! اللہ ایسے حادثے زندگی میں کیوں کرواتے ہیں کہ ایک دم سے زندگی بدل جاتی ہے..!!" وہ اکثر آپی سے پوچھتی. 
” جب بچہ حد سے تجاوز کر جائے تو ہلکی چپت لگانی پڑتی ہے تاکہ اسے پتا چلے کہ آگے کا راستہ غلط ہے. درست راستہ پر درست طریقے سے چلو ….!!" آپی ہنستے ہوئے کہتی تو سنبلہ بھی مسکرا پڑتی. 
اور آج اس نے اتنے سالوں بعد مشتاق کو دیکھا تھا جو نشے میں دھت تھا، اس کی صحت گری ہوئی تھی، وہ برسوں کا بیمار لگ رہا تھا، اپنی عمر سے کچھ زیادہ ہی بڑا محسوس ہوا، اس کے بارے میں اکثر خبریں آتی تھیں. وہ بعد میں بھی کئی دفعہ پولیس اسٹیشن کی سیر کو گیا اور وہ جو بدنام ہوا تو پھر کوئی ڈگر اسے سدھار والی نہ ملی. 
سنبلہ اپنے رب کا اس پر بھی شکر ادا کرتی تھی کہ مشتاق نے اس کا نام نہیں لیا اور نہ ہی پھر پلٹ کر اس کی طرف آیا. سنبلہ کو ایک دعا نے بچا لیا تھا. 

افسانہ نگار :
نام:  سیدہ ایمن عبدالستار

پتہ:  الحیات اپارٹمنٹ فلیٹ نمبر 1
ٹاکے نگر ریاض کالونی امباجوگائی روڈ
لاتور مہاراشٹرا
موبائل نمبر : 9423076202
 
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے