جشن

جشن

محمودالحسن عالمیؔ

سُلگتی ہوئی مٹی کے سیاہ دھبوں پہ، لاکھوں لاشے خون سے لت پت آدھے ادھورے شریر کے ساتھ زمین پر پڑے ہوئے تھے۔ فضا مکمل طور پر تاحدِ نگاہ زہر آلود سیاہ بادلوں میں بدل چکی تھی۔ بلند و بالا عمارتیں شاید انسانیت کی اِس تذلیل سے دل برداشتہ ہو کر زمین بوس ہو چکی تھیں۔ آگ کے ہیبت ناک شعلے خلق کے تعمیر کردہ تمام گھروں، اداروں، پرُ ہجوم بازاروں، سڑکوں، گلیوں اور چوراہوں کے گرد اپنے دامن کا حلقۂ اختیار وسیع کر تے جا رہے تھے۔ چار سو آسمان کو چھوتے، آگ کے دہکتے ہوئے الاو، جلتے ہوئے اَن گنت جسموں سے اپنا ایندھن حاصل کر رہے تھے۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ گو یا کسی بیاباں میں کائنات کا کوئی بہت بڑا شہابِ ثاقب اپنی پوری شدت سے اِس خطۂ زمین سے آٹکرایا ہے اور اِس خطۂ زمین پر آج انسان تو دُور کوئی حیوان یا برگ و بار بھی نہ بچا ہے۔
ابھی چند لمحے قبل اِس عظیم تاریخی، خوش حال اور زندگی سے بھرپور شہر پر بموں کی بوچھار نے اِسے تاریخ کے اُس صفحے پہ منتقل کر دیا تھا۔ جہاں حضرتِ انسان کی ظلم و بربریت کے اِک نئے سفاک باب کا آغاز ہوتا تھا۔ جس کا آغاز تو میری قوم کے ہاتھ میں تھا لیکن اختتام ہر گز نہیں۔ اِس منصوبے کی تکمیل میں مجھے بنیادی اعزاز حاصل تھا۔ میرے اِک بٹن کے دبانے پر یہ سارا شہر آج شہر خاموشاں میں بدل گیا تھا۔
اِس کاروائی کو سر انجام دینے سے پہلے جب میں حکام اعلا کے آخری حکم کا انتظار کر رہا تھا تو میں اپنے جنگی طیارے میں بیٹھا ہوا اندر نصب کردہ اِک بڑی اِسکرین پر طیارے کے نیچے مختلف زاویوں پر لگے جدید دُور بین کیمروں کی مدد سے اپنے اہداف کو مدنظر رکھنے لیے یہ سارے مناظر ملا حظہ کر رہا تھا کہ آفتاب کی کر نیں اپنی پوری تاب کے ساتھ اپنے بازو پھیلائے ہر چیز کو منور کر رہی تھیں اور ہر چیز یکساں طور اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اِس روشنی سے مستفید ہو رہی تھی۔ سڑکوں پر نہایت مصروف زندگی کی چہل پہل تھی۔ کوئی کسی کے انتظار میں تو کوئی کسی کی یاد میں اپنے چہرے کے تاثرات کو بدل رہا تھا. کئی چہروں کی سنجیدگی میں نقاب پوش مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی تو کئی چہروں کی مسکراہٹ اپنی داستانِ غم سنا رہی تھی۔ زندگی کا قافلہ رُوز مرہ کے معمول کے مطابق یوں ہی رواں دواں تھا۔ اِک ننھی سی معصوم بچی اپنی ماں سے لپٹی ہوئی اپنی تعجب بھری نگاہوں سے ہر چیز کو تاک رہی تھی اور اِک تقریباََ 25 سالہ نوجوان اپنی شریکِ حیات کے ساتھ خرید و فروخت کا بھاری سامان اُٹھائے اپنی مشکوک حفاظتی نگاہوں سے راہ گیر اشخاص پر نظر رکھے ہو ئے تھا، البتہ اُس جوان کی نظر جب کسی جنس مخالف پر پڑتی تو چند لمحے وہ حسرت بھری نگاہ تعاقب کرتے ہوئے کسی گلی کے موڑ سے مُڑ جاتی اور پھر اِسی طرح کسی نئی تلاش میں سر گرداں ہو جاتی۔ یہ منظر مجھے دل چسپ لگا کہ یہ نُوجوان جو اپنی شریکِ حیات کے لیے عزت بھری نگاہ کا خواہش مند ہے جب کہ دوسری طرف یہ کسی کی شریکِ حیات، دختر یا ہمشیرہ کواپنی ہوس زدہ نگاہوں سے برہنہ کر رہا ہے۔
پھر جب میں نے اِسکرین کی دوسری جانب اپنے مرکزی ہدف پر نظر دوڑائی تو شفقتِ پدری سے سر شار اُس ضعیف العمر شخص کو دیکھا جو اپنے بیٹے کو کندھوں پر اُٹھائے ہوئے اسکول لے جا رہا تھا اور ساتھ ہی کی گلی میں کالج کی وردی پہنے دو ہم عمر دوست خوش گپیاں کرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف رواں تھے۔ اِک بانکا نوجوان لڑکا جو ہونٹوں پر مُسکان لیے نہایت اِنہماک سے ایک خوب صورت دو شیزہ کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا اور وہ محترمہ بے نیازی ظاہر کرواتے ہوئے نہایت مہذبانہ انداز میں اب اپنی آنکھوں کو پہلے سے زیادہ دل نشین حرکتوں کے ساتھ اِدھر اُدھر مٹکاتے ہوئے اُس نوجوان کو متوجہ کر رہی تھیں اور لمحہ بہ لمحہ اُس پر سرسری نگاہ ڈالنے کے فوراََ بعد اپنی مصنوعی ناگواری کے تاثرات سے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کرتے ہوئے اِس ناز نخرے سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔ اِس منظر کو دیکھ کر مجھے اپنے استادِ مرحوم کی وہ بات یاد آگئی جو اُنھوں نے مجھے میری عمر بلوغت کے آغاز میں کہی تھی کہ ’’دیکھو بیٹا! بے شک اِس دنیا کی ہر مخلوق میں ہر جنس کا اپنے جنسی جذبات کی نمائش و تسکین کا الگ الگ طریقہ کار ہے لیکن ہمارے معاشروں میں اِن جذبات کی نمائش و تسکین کے حوالے سے کئی معمولات میں عمومی طور مادہ کو مظلوم اور نر کو موردِالزام ٹھرایا جاتا ہے، بالکل اِسی طرح جیسا کہ ہم کئی معمولا ت میں نر کو معصوم اور مادہ کو قصور وار ٹھہراتے ہیں۔ لیکن جنسی جذبات کی تسکین و نمائش کے حوالے سے نر اور مادہ ایک ہی تصویر کے دو پہلو ہیں۔‘‘
ماضی کی اِس یاد نے میرے ہونٹوں پر اِک خوش کُن مسکراہٹ بکھیر دی تھی۔ بہرحال جب میں نے وقت کی نزاکت کے پیش نظر اپنے آخری ہدف پر نگاہ ڈالی تو یہاں کا نظارہ اپنی خوب صورتی کو سمیٹے کچھ یوں تھا کہ دو ننھے سے ہم شکل بہن بھائی مستی سے سرشار اپنے معصوم جذبات کی چھوٹی سی خیالی دنیا میں کھلونا بندوقوں سے کھیلتے ہوئے، دیواروں کی آڑ میں چُھپتے ہو ئے ایک دوسرے پر فائرنگ کر رہے تھے۔ یہ وہ خیالی دنیا تھی جو شاید ہمارے سفاک جذبات پر مشتمل اِس بہت بڑی حقیقی دنیا کے اُن خونخوار ہتھیاروں سے بہت پُرسکون اور آرام رساں تھی۔ جہاں ہم ذاتی، قومی اور مذہبی ناجائز اَنا کی خاطر ہار اور جیت، حاکم اور محکوم کی بازی کھیلتے ہوئے اور بے قصور انسانی جانوں کو داؤ پر لگاتے ہوئے ایک دوسرے پر فائرنگ کرتے ہیں۔میں ابھی اِنھی خیالات میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک میرے خیالوں کے ربط کو توڑتا ہوا مجھے اِک صوتی پیغام موصول ہوا جس میں مجھے نہایت ولولہ انگیز انداز میں تینوں اہداف کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے، شہر کے مرکزی حصوں پر بمبوں کو گرانے کا حکم ملا۔ یہ حکم مجھے اِس قدر پُر جوش انداز میں دیا گیا کہ میری انگلی لاشعوری طور بٹن کی طرف بڑھنے لگی اور بالآخر میں نے جذبات کی رو میں بہہ کر وہ بٹن دبا دیا تھا اور اب نہ جانے کتنے ہی حسین رشتے، قلبی احساسات اور جذبات جو وقت کی کمی کے باعث میری نگاہ اور دل میں سما نہ سکے تھے اور جو اب سے کچھ دیر قبل چلتے پھرتے، جیتے جاگتے اور زندہ و جاوید کردار تھے اب یہ سب مجھے خیالوں کے شکنجے میں جکڑے سوالیہ نظروں سے گھیرے ہوئے تھے. لیکن میں انسانیت کے اِس پُرسوز خاتمہ پر اپنے چیختے ضمیر کی آواز کو حب الوطنی کی مسکراہٹ میں چُھپانے کی ناکام کوشیش کر رہا تھا کہ اچانک میرے ساتھی پائلٹ کی پُرجوش اور جذباتی آواز میرے کانوں میں گونجی:
’’مبارک ہو، پائلٹ صاحب! ہم نے اپنے منصوبے کی تکمیل کرتے ہوئے آج اپنی پوری قوم کی فتح کا پرچم اِن دشمنوں کی سرزمین پر گاڑ دیا ہے کہ اِن کی نسلیں صدیوں تک یاد رکھیں گی اور ہم فخر محسوس کرتے ہیں اور شکر بجا لاتے ہیں کہ خدا نے ہمیں اِس عزت و مقام و منزلت کے لیے منتخب کیا۔‘‘ اِن الفاظ نے میرے ضمیر میں اِک طوفان بر پا کر دیا تھا۔ میں نے اُن تمام انسانوں کی چیخوں کی شدت اپنے اندر محسوس کی جو بمبوں کے پُر شور اور ہولناک دھماکوں نے اپنے اندر ضم کر لی تھیں۔ میرے لب بے اختیار بڑبڑائے، میں نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا: ’’کیا میں نے واقعی ہی ۔۔۔؟ نہیں ۔۔۔ہرگز نہیں۔۔۔‘‘
پائلٹ صاحب نے عالم حیرانگی میں مجھ سے متوجہ ہوتے ہوئے پوچھا کہ : ’’کیا مطلب، واقعی ہی۔۔۔ نہیں۔۔۔آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ جناب!‘‘
’’کیا میں اِتنی بڑی انسانیت کا قاتل ہو سکتا ہوں اور کیا میں اِن نہتے، معصوم لوگوں کی جانیں لے سکتا ہوں؟‘‘
’’میں کچھ سمجھا نہیں آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ کون سی انسانیت ۔۔۔؟ کیسے لوگ۔۔۔۔ ؟ ‘‘
’’کیا آپ نے اُن بےبس چیختے ہوئے معصوم انسانوں کی آوازیں نہیں سُنی جو ہم سے کہہ رہی ہیں کہ بتاو ہمارا قصور کیا تھا؟ اور کس جرم کی پاداش میں ہم پر قبل از قیامت، یہ قیامت نازل کی گئی؟
پائلٹ صاحب نے اپنی باریک خم دار مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا کہ:
’’جناب! آپ کو تو میری طرح فخر ہونا چاہیے کہ آج آپ اپنی قوم کے قائدین میں سے ہوگئے ہیں۔ ہم نے آج دشمن فوج کے دانت کھٹے کیے ہیں۔ مگر آپ یہ سب کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘
’’ لیکن! مجھے تو خود پر فخر ہونے کی بجائے، اب شدید ندامت محسوس ہو رہی ہے۔ اپنے وجود سے وحشت سی ہونے لگتی ہے، یہ سوچ کر کہ اِن معصوم، نہتے انسانوں کا کیا قصور تھا؟ جو آج قوم پرستی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ہماری لڑائی باحیثیت انسان جہالت، ظلم و بربریت کے خلاف ہونی چاہیے تھی مگر آج اِس حب الوطنی کے منفی تاثر کے تحت اِک سپاہی نے ہزاروں زندہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا. میں کس منہ سے خدا کے روبرو آوں گا ؟ ‘‘
پائلٹ صاحب حیرانی اور غصے کے مِلے جُلے جذبات میں بولے : ’’ارے جناب! اب آپ یہ بات جان لیں کہ اب ہم غازی ہیں کیونکہ ہمارا نام رہتی دنیا تک زندہ رہے گا اور خدا کا صد شکر کہ ہمیں یہ رتبہ ملا اور خدا سے ہمیں اِس کا عمدہ صلہ ملے گا۔ ہم نے صرف اپنی قوم کا دفاع کیا ہے اور اِس دفاع میں ہمیں اپنے، بےگانے کی تمیز یا مذہبی و سیاسی جانب داری روا نہیں رکھنی چاہیے۔ ہمارے لیے سب سے پہلے ہماری دھرتی ماں کا حق ہے۔ ہمیں یہی سکھایا گیا ہے۔‘‘
’’کیا کہا۔۔۔۔غازی؟ ہرگز نہیں۔۔۔! بلکہ ہم تو انسانیت کے وہ قاتل ہیں جو قوم پرستی کی آڑ میں چھپے ہوئے ہیں اور غازی تو دُور ہم اب حقیقی معنوں میں انسان بھی نہیں رہے کیونکہ انسانیت تو دشمن فوج کی نا بالغ اولاد، عورتوں اور جنگ میں غیر شریک افراد کو اور حتیٰ کہ شجر سایہ دار کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیتی، تو کیا ہم اپنی وطن پرستی کی آڑ میں مخصوص قومی مفادات یا نظریاتی اختلاف کی بنا پر انسانوں کو اِس بے دردی سے قتل کر سکتے ہیں؟ یہ عصبیت کس انسانی دھرم کس جمہوری آئین کا حصہ ہے؟ اور جہاں تک نام زندہ رہنے کی بات ہے تو اب واقعی ہی انسانی تاریخ میں ہمارا نام ایک عبرت ناک، سفاک اور سنگ دل سپاہی کے کردار کے طور پر زندہ رہے گا اور جہاں تک بات نیک نامی کی ہے تو جناب! نیک نامی کے طور پر صرف اپنی قوم کے لیے ہم تب تک زندہ رہیں گے کہ جب تک ہماری قوم رہے گی یا ہمیں اپنے نصاب میں من گھرٹ بہادری کے قصوں اور نام نہاد مذہبی و قومی پشت پناہی سے زندہ رکھے گی۔‘‘
پائلٹ صاحب نے اپنی خون بھری آنکھوں سے مجھے گھورا اور جذباتی انداز میں کہنے لگے کہ: ’’ہماری قوم جب تک زندہ رہے گی۔ اِس بات سے تمھارا کیا مطلب ہے؟ یہ بات کان کھول کے تم سن لو! ہماری قوم ہمیشہ زندہ باد تھی اور ہمیشہ زندہ اباد رہے گی کہ جب تک ہماری ماوں کے دلیر لعل، سپاہی بن کر اِس دھرتی ماں کی حفاظت کے لیے دشمن سے ٹکرا کر شہید ہوتے رہیں گے ‘‘
تاریخ گواہ ہے جناب! کہ ہمیشہ پُر امن قومیں ہی اِس دنیا میں مستقل قائم رہ سکی ہیں۔ جن کا نعرہ ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے اصول کی پاس داری کرتا ہے۔جب کہ میں اب اپنی قوم کی بقا کی مستقل ضمانت ہرگز نہیں دے سکتا، کیونکہ میری قوم نے اِس اصول کی مخالفت کی ہے اور ہر ملک کے باسی کے لیے اُس کا ملک زندہ باد ہے اور دشمن ملک مردہ باد، مگر آخر ایسا کون سا پیمانہ ہمارے پاس ہے کہ جس سے ہم کسی قوم کے واقعی زندہ یا مردہ ہونے کا اندازہ لگا سکتے ہیں؟ وہ پیمانہ یہ ہے کہ زندہ باد قومیں تو وہ ہیں جو پُر جوش قومی نعروں اور ترانوں سے نکل کر میدانِ عمل میں آتے ہوئے اور اپنی قوم کی حقوق کی پاس داری کر تے ہوئے، انسانی حقوق کی پامالی نہیں کرتیں اور جب بات عدل و انصاف کی آئے تو قومی و مذہبی تعصب اور مفاد سے غیر جانب دار ہو کر انسانیت کا ساتھ دیتی ہیں۔‘‘
پائلٹ صاحب نے طیش سے اپنے ہاتھوں کی اُنگلیاں اندر کو بھینچ لی اور مجھ پر برس پڑے :’’لگتا ہے کہ تمھارا دماغی توازن بگڑ گیا ہے. ہمیں دشمن کا خاتمہ کرنا تھا سو ہم نے کر دیا اب اِس قدر باریکیوں میں جا کر سوچنا ایک فوجی کا کام نہیں اور ویسے بھی یہ باتیں تو صرف افسانوں اور کتابوں میں ہی لکھی اچھی لگتی ہیں کہ اِس دنیا کی عملی زندگی میں یہ ہر گز قابل عمل نہیں ہے۔ کیا تمھیں یہ یاد نہیں کہ ٹریننگ کے دوران ہمیں یہ سمجھایا گیا تھا کہ ”Every Thing is Fair in Love and War” اور ایک فوجی کی سوچ زیادہ گہری ہو نے سے اُس کے اِرادے کم زور ہوجاتے ہیں، لہذا بس دشمن پر قہر بن کر ٹوٹ پڑو۔ مگر تمھاری باتوں نے تو یہ سوچنے پہ مجبور کر دیا کہ تم ایک سپاہی کیسے بن گئے ہو۔ جب کہ تمھارے نظریات ایک غدارِ وطن کی زبان بول رہے ہیں؟ لگتا ہے کہ تمھیں اِس عظیم کام کے لیے منتخب کرنا ہماری محض ایک عظیم حماقت تھی ۔‘‘
’’ہاں !واقعی ہی بالکل میرا دماغی توازن بگاڑ دیا گیا تھا۔ میرے ذہن سے اُن تمام انسانی اقدار و افکار اور دل سے اُن جذبات کو نکال دیا گیا تھا جو پوری انسانیت سے دوستی اور عالمی بھائی چارے کے علم بردار تھے ۔مجھ پر حب الوطنی کے نام نہاد جذبے کو مخصوص مذہبی رنگ تلے حاوی کیا گیا اور وہ پُر جوش فوجی بنا دیا گیا کہ جو شاید صرف اپنی ہی قوم اور اپنے ہم خیالوں کے لیے ایک انسان تھا۔ باقی تمام انسانوں کے لیے وہ خطرناک درندہ تھا، جو جذبات سے عاری چند اشاروں پر بغیر سوچے سمجھے کسی روبورٹ کی مانند بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے لا کھوں زندہ انسانوں کو بے بس وبے کفن لاشوں میں صرف”Yes Sir” کہتے ہوئے منتقل کر دیا۔ اگر محبت اور جنگ میں سب کچھ درست ہے تو جناب! آپ کی بیگم کو بھگا کر لے جانے والا وہ عاشق بھی درست ہے جو آپ کی بیگم کو آپ سے دُور کر کے انتشار اور فراق کا باعث بنا اور ہماری دشمن فوج کے وہ سپاہی بھی درست ہوں گے جو اب اِس کاروائی کے رد عمل کے طور پر، اپنے وطن کی محبت میں ہمارے سپاہیوں کو قتل کریں گے۔ مجھے تو بہ حیثیت انسان پوری انسانیت اور دنیا کے لیے ایک پُر امن انسان ہو نا چاہیے تھا۔ کیا یہ حب الوطنی اور مذہب کے نام پر کروائی جانے والی دہشت گردی نہیں ہے؟ اگر مجھے واقعی ہی ایک بھرپور زندگی جینے کے بعد یادگار موت چاہیے تھی تو شاید مجھے کسی فلاحی کام سے منسلک ہونا چاہیے تھا یا پھر کسی ایسی فوج سے وابستہ ہو جانا چاہیے تھا جہاں ایک فوجی کو اپنے وجود کے اندر ایک مکمل سپہ سالار بننے کی آزادی دی جاتی، یعنی کہ وہ اندھی تقلید سے بالاتر ہو کر ہاں اور ناں کا اختیار رکھتا ہوتا اور مذہبی اور وطنی جانب داری کو حق اور انسانیت پر ترجیح دے سکتا۔ ایک سپاہی کے لیے شیخ المذہب یا خارج المذہب اور محب الوطن یا غدارِ وطن کے القاب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ چاہے اپنی قوم کے لیے لڑے یا اُس کے خلاف اُس کا محور حق، انصاف اور مساوات ہو۔ کاش! میں آج غدارِ وطن بن کر اِس کاروائی کو سر انجام نہ دیتا اور محبِ انسانیت بن جا تا مگر میری حماقت تھی کہ میں نے اپنی قوم کو تمام انسانیت پر ناجائز برتری دی۔
’’تو آخر تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ دشمن کے خاتمے یا دفاع کے لیے جنگ لڑنا ناجائز ہے؟‘‘
میں نے اپنا لعاب تلخی سے نگلتے ہوئے جواب دیا: ’’تو کیا جنگ کو قومی مفادات کے تحت طوالت دینا، ناحق معصوم لوگوں کو بے دردی سے قتل کرنا، محض مخصوص خطۂ زمین، یا مال و زر کے حصول کے لیے کشت و خون ناجائز نہیں ہے اور ہمیں اپنا دفاع کرتے وقت بھی عالمی انسانی حقوق کی پاس داری کرنی چاہیے یا نہیں؟ اور اگر صرف وطن کی خاطر مر جانا ہی شہادت ہے تو پھر یہ فیصلہ کون کرے گا کہ سچے شہید ہم لوگ ہیں یا سامنے کی فوج اور اُن کے وہ معصوم لوگ جو ابھی ہم نے جلا کر راکھ کر دیے ہیں؟ یہ بھی تو وطن کی خاطر شہید ہوئے ہیں مگر ہم اِنھیں شہید نہیں کہیں گے کیونکہ اِن کا تعلق ہماری قومیت سے نہ تھا۔ ہر قوم اپنے رہ نما اور سپاہی کو شہید کہے گی مگر اِس بات کا کیا ثبوت ہے کہ خدا کے نزدیک شہید کون ہے؟ خدا کے نزدیک برحق اور سچے شہید تو وہ ہیں کہ جو قوم پرستی سے خود کو بڑا کر کے، انسانی بقا اور مسائل کے حل کے لیے، ظلم و بربریت سے لڑتے ہوئے مرتے ہیں۔ لیکن ہماری فوجوں کو ایسے انسانوں کی نہیں بلکہ صرف "Yes Sir” کہنے والے غلام ذہنیت، انسان نما ’’ربوٹز‘”Reboots”‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو صرف اِک اشارے پر حق و باطل کی تمیز کیے بغیر بتائے جانے والے دشمن پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ‘‘
پائلٹ صاحب نے اِک سرد آہ اندر کو بھری اور نفی میں سر جھٹکنے کے بعد بولے: ’’ تم تو اِس رتبہ کے لائق ہی نہیں تھے۔ تمھارے نظریات باغیانہ ہیں اور تم کوئی غیر ملکی جاسوس لگنے لگے ہو جو اپنے اِن نظریات سے ہماری نوجوانوں کی قومی ذہنیت کو تباہ کر دے گا یا اب تم مکمل طور پر گمراہ ہو چکے ہو۔ کیا تم جانتے ہو؟ کہ اب سے کچھ دیر بعد ہم اپنے وطن کی پاک سرزمین پر اُترنے والے ہیں۔ میں یہ تمھارے سب باغی نظریات اربابِ اختیار کو بتا کر تمھیں اِس کی کڑی سزا دِلوا سکتا ہوں. پھر تم جانتے ہو کہ خوددار فوجیں ضمیر فروش غداروں اور غیر ملکی جاسوں کے ساتھ کیا کرتی ہیں۔‘‘
میرے چہرے پر کچھ دیر کے لیے سنجیدگی کے تاثرات نمودار ہو ئے پھر میں نے آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے نہایت طنزیہ لہجے میں کہا : ’’آفریں صد آفریں، جناب! ہماری فوجوں کا ازل سے یہ دستور رہا ہے کہ جب ہماری فوجیں لاجواب ہو جاتی ہیں تو سوال اُٹھانے والے کو غدار اور غیر ملکی جاسوس کہہ کر ابدی یا عارضی نیند سُلا دیتی ہیں۔ مگر ہم لوگ مارے اور مٹائے تب تک نہیں جا سکتے، کہ جب تک ہماری فوجیں ہمیں کسی علمی نقطۂ نظر سے لا جواب نہ کر دیں یا اپنے اِس انسانیت مخالف طرزِ عمل کو بدل نہیں دیتیں۔ مجھے اب خود کو حُب الوطن ثابت کر نے کے لیے مزید کسی ایسے تمغہ کی ہر گز ضرورت نہیں، جسے انسانی لہو سے چمکایا گیا ہو۔ آخر سچا حب الوطن ہونے کے لیے دشمن ملک کے باشندوں سے عداوت و نفرت رکھنا اور اخلاقی ضابطوں کو پار کرنا ضروری ہے؟ اور آپ لوگ مجھے کیا سزا دیں گے کہ مجھے ابھی سے قدرت کی طرف سے سزا دی جا چکی ہے کہ اِس سنگین کشت و خون کرنے کے بعد اُس نے میرے ضمیر اور شعور کو بیدار کر دیا اور ان کو آواز عطا کر دی تاکہ میں تاعمر احساسِ گناہ کے بوجھ تلے سزا پاتا رہوں۔ میں نے کلمۂ حق کہا ہے لہذا مجھے اب تمھارا کوئی خوف نہیں اور خدا مجھے معاف کرے کہ۔۔۔۔‘‘
پائلٹ صاحب نے میری بات کو ٹوکتے ہوئے اپنی ہتھیلی اُکتاہٹ سے ماتھے پر ماری اور کہا کہ : ’’خدا کے لیے بند کرو، یہ اپنی بکواس لیکچر بازی! مجھ میں تماری یہ لغویات سننے کی اب مزید تاب نہیں رہی ہے میرے بس میں ہوتا تو یہیں تمھارا خاتمہ کر دیتا تاکہ تم میری قوم کو گمراہ نہ کر سکو۔ اگر تم نے مزید اب اِن باغی نظریات کا پرچار مجھ پہ کیا تو شاید میں بے اختیار ہوکر تمھارا یہیں پر خاتمہ کر دوں۔ ‘‘
میں نے اِک بلند قہقہ لگاتے ہوئے خود پر ایک لمبی خاموشی طاری کر لی۔ صرف یہ سوچ کر کہ اگر ہم زمانے کے نقطۂ احساس ہیں اور طاقتور نہیں ہیں تو پھر ذہنی اضطراب اور معاشرتی منفی رویے ہمارا مقدر ہیں۔ اِس صورت میں ہمیں ہماری راہ نجات خاموشی اور صبر میں نظر آتی ہے۔
اِس سب کے کچھ دیر بعد جب فوجی یونٹ کے قریب ہمارا طیارہ اُترا تو ہمارے استقبال کے لیے کئی اعلا فوجی حکام ہمارے منتظر تھے. مجھے خراج تحسین پیش کیا گیا لیکن میں اپنے اِس احساس گناہ کے بوجھ تلے دبا خاموشی سے سر جھکائے کھڑا رہا۔ جب ایک سنیئر میجر نے میری طرف مبارکباد دینے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں نے اُس خون سے رنگے ہاتھ کو سخت حقارت بھری نظروں سے جھٹک دیا۔ اِسی سوچ کے تحت جب میں نے بوکھلاہٹ میں اپنے ہاتھوں کو اُلٹ پلٹ کر کے دیکھا تو اپنے ہاتھوں کی اُنگلیوں سے بھی خون کی بوچھاڑ کو ٹپکتا ہوا محسوس کیا، میرے دل نے بے اختیار چاہا کہ میں اِس ٹپکتے ہوئے خون کو بھی اِس میجر کے اُنھی فوجی اعزازات پہ مل دوں کہ جو اِس کے اَکڑتے اور رنگین فوجی لباس میں مضبوطی سے پیوست تھے۔ میرے اِس نہایت غیر معمولی رویے اور کراہت آمیز حرکات و سکنات کو بھانپتے ہوئے فوجی حکام نے میرے ساتھی پائلٹ کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا. پائلٹ صاحب نے میرے سارے نظریات کا خلاصہ اپنے مخصوص فوجی انداز میں اُن سے بیان کر دیا۔ میجر صاحب کے ایک مخصوص اشارے پر میرے ہی ہم پلہ چند فوجی ساتھیوں نے مجھے بانہوں سے گرفت میں لیتے ہوئے فوجی عدالت میں لاکھڑا کیا۔ جج صاحبان نے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے آپس میں طویل بحث و تکرار کے بعد اپنا حتمی فیصلہ سنایا: ’’ہم سب نے متفقہ طور پر بالآخر یہ فیصلہ کیا ہے کہ تمھارے سابقہ اخلاقی رویے اور فوجی قابلیت و شجاعت کو مدنظر رکھتے ہوئے تمھارے اِن باغی اور لغو نظریات کے در پیش خطرات کے تحت تمھاری اِس سال کی تمام تعطیلات منسوح کی جاتی ہیں اور فی الحال تمہیں سنیئر پائلٹ کے اِس عہدے سے برخاست کر تے ہوئے آرمی اسپیشل کونسلنگ سیشن لینے کا پابند کیا جا تا ہے۔ اسپیشل سیشن کے سا تھ تمھارے نفسیاتی سیشن بھی آرمی ڈاکٹرز سے ہوں گے، حتمی فیصلہ چھ ماہ بعد کی نئی صورت حال کے مطابق ہوگا ۔‘‘
اگلے روز صُبح کے اخبار کی بالائی سرخیوں میں یہ خبر جلی حروف میں چھپی ہوئی تھی :’’دشمن ملک کی باطل للکار پر، ہماری فوج کا منہ توڑ جواب، ملک بھر میں آج یوم فتح کے جشن کو منانے کا اعلان کیا جاتا ہے۔‘‘
***
مصنف کے علمی و ادبی کوائف:
قلمی نام: محمود الحسن عالمیٓ
علمی و ادبی پہچان: افسانہ نگار، مضمون نگار اور سرگودھا یونی ورسٹی پاکستان،بی-ایس-اردو چار سالہ ڈگری کے زیر اہتمام اِک طالب علم۔
سوانحی کوائف:
ولدیت: محمد انصر مغل
موجودہ اور پیدائشی شہریت: پاکستانی
مذہب: اسلام
موجودہ عمر: 19 برس
موجودہ رہائش: محلہ رحمت آباد، سرگودھا روڈ گجرات، پنجاب، پاکستان۔

شیئر کیجیے

One thought on “جشن

  1. مجھے آپ کے اِس افسانے کی تعریف میں الفاظ نہیں مل رہے عالمی صاحب!
    لہذا بس اِتنا ہی کہوں کہ "انسانی ہمدردی و انسانیت سے لبریز اِس صدی کا بے مثال،لاجواب اور اِک شہکار افسانہ ہے۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے