ایسے تھے ہمارے حق صاحب!

ایسے تھے ہمارے حق صاحب!

(معروف افسانچہ نگارایم اے حق کی پہلی برسی پر خصوصی تحریر) 

ڈاکٹر تسلیم عارف
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو، جی ایل اے کالج، میدنی نگر، پلامو

محمد ابرار الحق یعنی ایم اے حق صاحب سے میرا رابطہ کوئی سات برس رہا ہوگا لیکن انھوں نے اس قلیل عرصے میں مجھے جس محبت و شفقت سے نوازا، محسوس ہوتا ہے شاید یہ سات برس ستّر برس کے برابر تھے۔ ان کو بہ نفسِ نفیس دیکھنے کا موقع مجھے استاذی محترم پروفیسر جمشید قمر کے دولت کدے پر مِلا لیکن اس وقت صرف علیک سلیک سے آگے بات بڑھ نہ سکی۔ اس کے بعد سنہ ٢٠١٥ء میں ڈاکٹریٹ کے بعد استادِ محترم صفدر امام قادری نے کسی کام سے ان کی خدمت میں مجھے بھیجا اور اس کے بعد ان سے ربط و ضبط رفتہ رفتہ کچھ یوں بڑھے کہ ان کے گھر کے ایک فرد سے کم میری حیثیت نہیں تھی۔
جب ان سے میری ملاقات ہوئی تو انھیں اپنے رسالہ ’عالمی انوارِ تخلیق‘ کے سلسلے سے ایک کارکن کی ضرورت تھی جو اس کی ترتیب و تہذیب میں ان کی مدد کرے۔ مجھے بھی پی ایچ۔ڈی کے بعد کام کی تلاش تھی، اس لیے مجھے انھوں نے اپنے ساتھ کام میں شامل کر لیا۔ اس طرح ان کے گھر لگاتار آمد و رفت ہوتی۔ بعد میں انھوں نے میرے کام سے خوش ہو کر اس رسالے میں معاون مدیر کا عہدہ بھی عنایت کیا۔
٢٠١٨ میں جب جی ایل اے کالج میں بہ طور اسسٹنٹ پروفیسر میرا تقرر ہوا تو رانچی آنے جانے کی میری سہولت میں اضافہ ہوا۔ پتا نہیں انھیں کیسے یہ اندازہ ہو جاتا کہ میں رانچی آنے والا ہوں، رانچی پہنچ چکا ہوں یا رانچی آ رہا ہوں۔ فون پر چھوٹتے ہی کہتے: ”رانچی کب آئے؟“ ان کی وفات کے بعد تو ایک دو مرتبہ ان کی اہلیہ نے بھی اسی طرح فون پر سوال کیا تو ان کی یاد سے دل غم گین ہو گیا۔ اگر میں رانچی میں رہتا تو تقریباً ہر روز حق صاحب کے گھر پر ضرور پہنچتا۔ کبھی کسی کام کی غرض سے کبھی ان کی فرمایش پر۔ کبھی کبھی اس سے وقت کا زیاں بھی ہوتا۔ رسالے کے ہنگامی کام کے لیے بُلا کر ادھر ادھر کی باتیں کر کے مجھے فارغ کر دیتے۔ ایسا نہیں تھا کہ کام ضروری نہیں تھا لیکن حق صاحب شاید ”ہر فکر کو دھوئیں میں اُڑا تے چلے جانے“ کے قائل تھے۔ جہاں تک میں نے ان کو دیکھا وہ ایک ’ٹنشن فری‘ (Tension Free) انسان تھے۔ اللہ نے حددرجہ محبت کرنے والی بیوی عطا فرمائی تھی۔ کم ہی لوگوں کو دیکھا کہ ان کی اہلیہ ان کا اس قدر خیال رکھتیں جیسا ایم اے حق کی اہلیہ’سُریّہ‘ صاحبہ رکھتیں۔ اولاد بھی ویسی ہی لائق اور فرماں بردار۔ اللہ نے آزمایش کے طور پر بڑا بیٹا عابد عطا کیا۔ انھوں نے اسے بھی بہ خوشی منظور کیا اور باقی تین بچّوں سے عابد کی اہمیت کسی اعتبار سے کم نہیں کی۔ عام طور پر ہندستانی گھرانوں میں جسمانی اعتبار سے کمزور یا معذور اولاد سے عدم توجہی برتی جاتی ہے لیکن انھوں نے کچھ ایسے انداز میں عابد کی تربیت کا انتظام کیا کہ بڑے بڑے اخبارات نے ان کی تربیت پر خصوصی رپورٹیں شایع کیں۔ اس سلسلے سے ان کی کتاب ’میں اور میرا بچّہ‘(ہندی) منظرِ عام پر آئی اور اس کی کافی پذیرائی بھی ہوئی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ فرزندِ اول ہونے کے ناطے عابد کا درجہ گھر میں اونچا ہی رہا۔
ان کی اہلیہ جیسا کہ میں نے عرض کیا، حق صاحب اور ان کی شخصیت کی ایسی دیوانی کہ کیا کہیں۔ حق صاحب انھیں اپنی زندگی کی ایک نعمت تصور کرتے تھے۔ ان کے مختلف قصے بھی سناتے تھے۔ ایک مرتبہ فرمانے لگے کہ کبھی کبھی جب کام کے سلسلے سے انھیں شہر کے باہر  جانا ہوتا تو فون پر بیوی کو جلانے کے لیے پائل یا چوڑی لے کر اس سے آواز کرتے تاکہ ان کی اہلیہ کو لگے کہ وہ کسی دوسری خاتون کے ساتھ ہیں، لیکن ان کی اہلیہ یہ سمجھ جاتیں اورفرماتیں: ”آپ کو میں جانتی ہوں، آپ ایسا نہیں کر سکتے، مجھے اطمینان ہے۔“ اور یہ صرف کہنے کی بات نہیں۔ سریّہ صاحبہ کی بہن کے ساتھ جب کچھ نا گفتہ بہہ حالات پیش آئے اور ان کے شوہر کا ساتھ چھوٹا تو انھوں نے حق صاحب سے کہا: ”اگر اسلام میں دو بہنوں کو ایک شوہر کے نکاح میں رہنے کی اجازت ہوتی تو میں اپنی بہن کا نکاح بھی آپ سے ہی کرا دیتی۔“ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حق صاحب کی شخصیت ان کی اہلیہ کی نگاہ میں کس درجہ عزیز تھی۔ عابد کے علاوہ صبا، عابد اور ثنا ان کی اولاد ہیں۔ سبھی اچھے تعلیم یافتہ اور بہترین اوصاف کے مالک۔ ملازمت سے سبک دوشی کے بعد والد کو تصنیف و تالیف میں مصروف دیکھ کر اہلیہ اور اولاد نے انھیں گھر کے روزمرّہ کے کاموں سے  فارغ کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں بچّیوں کی شادی میں متوازی طور پر ادبی پروگرام بھی انھوں نے بہ حسن و خو منعقد کیے۔ انھوں نے اولاد کی تربیت کس طرح کی یہ تو ایک علاحدہ باب ہے جس پر کبھی اور بات ہوگی۔
اردو کے وہ عاشق اور مجاہد تو تھے، لیکن ایسے منفرد عاشقِ اردو میں نے کم ہی دیکھے۔ ان کی اردو کی صلاحیت بہت زیادہ نہیں تھی لیکن وہ ایک ہونہار اور محنتی طالبِ علم تھے اور اپنی محنت و لگن سے انھوں نے اردو ادب میں ا یک خاص پہچان بنائی۔ اردو سے محبت کا انداز ایسا کہ گھر کے کمروں کے نام ’افسانہ‘، ’داستان‘ اور ’ناول‘ رکھے گئے۔ ایک دو مرتبہ میرے سامنے عابد کو بُلا کر کہا: ”عابد داستان سے فلاں چیز لے آؤ تو۔“ جب میں نے دریافت کیا تو مجھے اس کی تفصیل بتائی۔ چھوٹے چھوٹے اسٹیکر چھپواتے جس پر”مجھے اردو پڑھنے لکھنے پر فخر ہے۔“ وغیرہ جیسے جملے اور سلوگن لکھے ہوتے۔ کوئی ادیب و شاعر یا دیگر شخصیت رانچی شہر تشریف لاتی تو ان کے پاس اتنے انتظامات ہوتے کہ ایک دن میں اچھی خاصی ادبی نشست منعقد کر لی جاتی جس میں مختلف اعزازات و انعامات سے بھی آنے والے کو نوازا جاتا۔ ادبی شخصیات کے ساتھ سماجی اور فلاحی کام کرنے والے لوگوں کے بھی اچھے روابط تھے۔ خاص کر وکالت کے پیشے سے تعلق رکھنے والے افراد سے ان کی گہرے مراسم تھے اور اس حلقے میں وہ کافی احترام کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے۔
مختلف بیماریوں کے بارے میں بھی انھیں کافی علم تھا۔ طرح طرح کے نسخے ذیابیطس(شوگر) کے مریضوں کو تجویز فرماتے۔ غالب روزے کو بہلانے کے قائل تھے اور حق صاحب شوگر کو بہلانے کے۔ فرماتے تھے کہ شروع شروع جب انھیں شوگر ہوا تو کھانے پینے میں کمی سے اچانک شوگر کو کنٹرول میں لے آتے اور اس پر فخر کرتے۔ یعنی تقریباً اس مرض سے کھیل کرتے۔ بعد میں یہ کام انھوں نے چھوڑ دیا۔ شوگر کو بہلانے کا ان کا انداز میں نے ان کی دختر ثنا کی شادی میں دیکھا جب استادی محترم صفدر امام قادری اور میں ان کے ساتھ ناشتے کی ٹیبل پر تھے۔ ہم سب ناشتہ کر رہے تھے اور ٹیبل پر گلاب جامن رکھے ہوئے تھے۔ صفدر سر کو بھی شوگر تھا اس لیے وہ دوسری چیزیں تناول فرما رہے تھے۔ اچانک حق صاحب کا ہاتھ لہرایا اور ایک مکمل گلاب جامن ان کے گلے سے نیچے اُتر گیا۔ حق صاحب کی تیزی دیکھ کر صفدر سر نے بڑا لطف لیا اور ان کی اس حرکت پر ہم سب ہنسنے لگے اور حق صاحب بھی اپنے منفرد انداز میں مسکرانے لگے۔
حق صاحب پابندِ صوم و صلوۃ تو تھے ہی لیکن کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ جھاڑ پھونک میں بھی ماہر تھے۔ حالاں کہ وہ گھر کے افراد اور اپنے جاننے والوں پر ہی ہاتھ آزماتے تھے۔ ان کو اگر کسی دعا یا وظیفہ کا پتا لگ گیا جس سے کوئی بیماری ٹھیک ہوتی ہے تو وہ اسے ضرور آزمائیں گے۔ بریاتو میں میرے محلّے سے قریب دوسرے محلّے میں ان کے ایک قریبی دوست دوٗبے جی رہتے ہیں۔ ان کے یہاں حق صاحب کا اکثر جانا ہوتا۔ انھیں جب ایک بیماری ہوئی تو ایک طویل عرصے تک اپنے وظائف سے دم کیا ہوا پانی لاکر دوبے جی کو پلاتے اور اس سے انھیں کافی فائدہ بھی ہوا۔ مختلف اوقات میں تبادلۂ خیال کے دوران انھوں نے اس سلسلے سے اپنے کافی تجربات مجھے بتائے۔
حق صاحب معاملات کے پکّے انسان تھے۔ مجھ سے اکثر فرماتے: ”مجھ سے اگر کہو گے تو میں سیکڑوں روپے کسی پر خرچ کر دوں گا لیکن اگر اسی نے مجھے سے دس روپے بھی ادھار لیے ہیں تو اس کو وہ ادھار واپس کرنا ہوگا۔“ ان کی یہ بات مجھے کافی پسند آئی۔ ان کی شخصیت کی کچھ ادائیں تھیں جو مجھے کافی بھاتی تھیں۔ اپنے تعلقات کے افراد کا خیال کرنا بھی ان میں سے ایک تھا۔ کئی مرتبہ جب مجھے بھی مالی طور پر ان کی مدد کی ضرورت ہوئی تو انھوں نے مجھے مایوس نہیں کیا۔ قرض دیا لیکن کبھی تقاضا نہیں کیا۔ الفا گرافکس کے دانش ایاز جو اُن کے رسالوں کی کمپوزنگ کا کام کرتے تھے، اس نے مجھے بتایا کہ ایک دن حق صاحب اس کی دکان پر تشریف فرما تھے۔ بجلی نے دغا دی تو پریشانی ہوئی۔ دانش سے اس کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا: ”بجلی کے اس رویے سے کافی پریشانی ہوتی ہے۔“ فوراً کچھ رقم دے کر نیا اِن وَرٹر (Inverter) لگوا دیا۔ اسی طرح اپنے رسالے کے دوسرے کمپوزر اور گرافک ڈیزائنر محمد آصف (الحرم گرافکس) کو بھی مالی امداد فرماتے۔ ایک مرتبہ شہر سے باہر کہیں سفر پر گئے تھے۔ غالباً دسمبر کے آخری ایام تھے۔ مجھے فون کرکے بتایا کہ کچھ رقم بھیجی ہے۔ میں نے کہا: ”کیوں؟“ فرمایا: ”ارے! نیا سال ہے۔ تمھارے لیے تحفہ سمجھ لو۔“
حق صاحب کافی خوش مزاج انسان تھے اور حسِ مزاح بھی ان میں کافی زیادہ تھا۔ واٹس ایپ پر مختلف چٹکلے یا میم (MEME) بھیجا کرتے۔ میں کوئی مزاحیہ ویڈیو انھیں ارسال کرتا تو بہت لطف لیتے۔ کھل کر ہنستے اور اپنے دوستوں کو بھی شیئر کرتے۔ ان کا یہ منفرد انداز لوگوں کی تعریف کے وقت بھی کام آتا۔ میرے گھر تشریف لاتے تو بچّوں سے مل کر اور ان کی اردو اور عربی دیکھ کر کافی خوش ہوتے۔ مجھ سے مذاقاً کہتے: ”تمھارے بچّوں سے کافی ڈر لگتا ہے، ایسی اردو عربی بولتے ہیں۔“ میرے بچّوں کے سلام کا انداز نقل کرکے فرماتے: ”السّلامُ ’عَ‘لیکم“ ع پر زور دیتے اور خوب ہنستے۔ کبھی فون پر بات کر تے اور مزاج خوش ہوتا تو میرے بچّوں کے بارے میں فرماتے: ”تمھارا بچّہ تو تلفّظ سے روتا ہے۔“ اور خوب ہنسنے لگتے۔
بنیادی طَور پر تو حق صاحب افسانچہ نگار تھے اور اختصار میں اپنی تحریروں کو پیش کرنے کے لیے مہارت رکھتے تھے لیکن فون پر گفتگوٗ کرتے ہوئے یہ صورت بالکل بدل جاتی۔ میں ان سے کہتا: ”آپ تو لکھنے میں افسانچہ نگار ہیں لیکن فون پر بات کرتے ہیں تو داستان گو ہو جاتے ہیں۔“ دو چار مرتبہ جب میں نے ان سے شکایت کی کہ آپ فون پر زیادہ وقت لے لیتے ہیں تو ایک نسخہ بتایا جس سے وہ جلدی فون کاٹ دیں۔ فرمانے لگے: ”ایسا کِیا کرو کہ جب تمھیں لگے کہ بات لمبی ہو رہی ہے توبولا کرو- مودی۔۔۔۔مودی۔“ ایک مرتبہ میں نے اس نسخے کو آزمانا چاہا اوربات کرتے ہوئے کہنے لگا ”مودی- مودی“ مجھے لگا تھا وہ سمجھ جائیں گے لیکن شاید وہ اس بات کو بھول چکے تھے۔ فرمانے لگے:”کیا؟“ مجھے مودی کہتے ہوئے ہی ہنسی آ رہی تھی۔ جب وہ اپنا دیا ہوا نسخہ ہی بھول گئے تو اتنی ہنسی آئی کہ پیٹ پر بَل پڑ گئے۔
اپنی تنقید کو بھی وہ مثبت انداز میں لیتے۔ افسانچوں کے تعلق سے ان پر کافی افراد نے سخت باتیں لکھیں۔ ان میں استادِ گرامی سرور ساجد نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ”افسانچہ اردو افسانے کی ناجائزہ اولاد ہے۔“ انھوں نے اس ایک جملے پر اپنے رسالے "عالمی انوارِ تخلیق" میں دو تین قسطوں میں مباحثہ شایع کیا اور کثیر تعداد میں اردو کے ادیبوں نے اس سلسلے سے اپنی آرا پیش کی۔ جب انھوں نے افسانچہۂ اطفال کی پہلی کتاب ’اونچی اڑان‘ شایع کی تو کئی مرتبہ مجھ سے بولے: ”سرور کو جب کتاب دوں گا تو اس پر لکھوں گا کہ اردو افسانے کا ناجائز پوتا بھی ہو گیا۔“ اور اپنے مخصوص انداز میں ہنسنے لگتے۔ قدرت نے انھیں یہ موقع نہیں دیا ورنہ وہ ضرور ایسا کرتے۔
کوئی انسان چاہے کتنا ہی بڑا ہو۔ اس کی ادبی حیثیت کیوں نہ بہت زیادہ ہو۔ اگر وہ حق صاحب کو پسند نہ آیا تو بس ایک مخصوص جملہ ادا کرتے: ”ایک دم فالتو آدمی ہے۔“ اور اس انداز سے یہ جملہ ان کی زبان سے ادا ہوتا کہ اس شخصیت کا سارا جاہ و جلال دھڑام سے زمین پر گر جاتا۔ شخصیت کی کجی نہ ان میں تھی اور نہ وہ اس کو پسند فرماتے تھے۔
اپنے تعلقات کے افراد کو اپنی کہانیوں اور افسانچوں میں جگہ دینے میں وہ ماہر تھے۔ جب ’ڈنک‘ شایع ہوا تو میں نے دیکھا کہ اس میں اکثر افسانچے ان کے دوستوں کے نام مَعنوَن ہیں جن میں ادبی شخصیات اور سماجی شخصیات شامل ہیں۔ صفحات اُلٹتے الٹتے ایک افسانچے پر میری نظر پڑی جس کا عنوان ”شاباشی“ تھا۔ اس کے اوپر خاکسار کا نام درج تھا۔ میں دیکھ کر چونک پڑا۔ ’اونچی اُڑان‘ میں شامل کہانیوں میں ان کے دوستوں کے نام کئی جگہ پر مل جائیں گے۔ ایک افسانچۂ اطفال بچّہ مزدور میں تو میرے تینوں بچّوں کے نام درج ہیں۔ اس میں تین مصرعوں کی ایک چھوٹی سی نظم درج ہے جو حق صاحب کی ہی تخلیق ہے: ”بچہ مزدور ہے + چھوٹا ہے لیکن + بچپن سے دور ہے“۔ اسے میں نے اپنے بچّوں کو ایک مترنم دھن پر گانا سکھادیا اور حق صاحب کو جب میرے بچّوں نے یہ گانا سُنایا تو وہ کافی خوش ہو ئے اور اپنی پسندیدگی کا اظہار فرمایا۔
اپنے دوستوں اور حلقۂ احباب کی خبر گیری بھی ان کا خاص وصف تھا۔ اسلم جمشید پوری کا جب برین ہیم ریج ہوا تو کافی رنجیدہ ہوئے اور تقریباً ہر دن ان کی عیادت اور مزاج پرسی کے لیے ان کے شاگرد کے پاس فون کرتے۔ مختلف اوقات میں ادبی دوستوں کے گزر جانے سے بھی ان پر غم کی کیفیت طاری ہو جاتی۔
لوگوں سے جڑے رہنے کے لیے فیس بک ان کا سب سے بڑا ساتھی تھا۔ دنیا جہان سے وہ لوگوں سے اس کے ذریعے رابطے میں رہتے۔ وہ خالی بیٹھے رہنے والوں میں سے نہیں تھے۔ نئی تکنیک اور علوم سے واقفیت رکھنے کی ان میں ہمیشہ لَلک دکھائی دیتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ملازمت سے سبک دوشی کے بعد انھوں نے وکالت کی پڑھائی کی اور ہائی کورٹ میں مختلف وکیلوں کے ساتھ وکالت میں ہاتھ آزماتے رہے۔ اس کے علاوہ اردو میں ٹائپنگ بھی انھوں نے سیکھی تھی اور اپنے اکثر افسانچے اور کہانیاں وہ خود ہی ٹائپ کیا کرتے۔
اپنی عمر کے بارے میں بھی وہ غور و فکر کرتے اور مختلف حربوں سے خود کو چھوٹی عمر کا دِکھانے کی کوشش کرتے۔ مختلف ضعیف ادبا اور شعرا سے اپنے سِن کا موازنہ کرکے مجھ سے مختلف اوقات میں فرماتے: ”دیکھو! فلاں صاحب کی عمر اتنی ہے؟“ میں کہتا: ”جی ہے تو!“ فرماتے: ”تب تو میری عمر ابھی کم ہی ہے۔“ اور اس سے ان کو کافی خوشی ملتی۔ قسمت کا لکھا کیا تھا شاید انھیں پہلے سے ہی اس کا احساس ہو گیا تھا۔ پہلے پہل جب کورونا کی وباعام ہوئی تو فون پر بات کرتے ہوئے میں نے مذاقاً ان سے کہا: ”آواز ٹھیک سے نہیں آ رہی ہے، کورونا تو نہیں ہو گیا۔“ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس بیماری سے کس قدر خوف زدہ ہیں۔ یہ کہتے ہی وہ کافی برہم ہو گئے اور فون کاٹ دیا۔ لگ بھگ تین دنوں تک مجھ سے بات نہیں کی۔ جب بھی کورونا کا تذکرہ آتا، فوراً موضوع بدل دیتے۔ دوسری لہر میں گھر میں رہتے ہوئے ان کو اس منحوس بیماری نے اپنے قبضے میں لے لیا اور انھیں اس دنیا سے رخصت کرکے چھوڑا۔ مجھے حق صاحب کو غسل دینے کا شرف بھی حاصل ہوا لیکن انھیں غسل دیتے ہوئے ایسا محسوس ہوا کہ وہ پورے وقت مسکرا رہے ہیں اور اب بول پڑیں گے تب بول پڑیں گے۔ انتقال کے تقریباً ایک ہفتے کے بعد خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ میں ان کے گھر پر ہوں اور وہ پہلے کی طرح اپنی سیٹ پر بیٹھے ہیں اور مجھ سے گفتگو فرمارہے ہیں۔ میں بات کرتے ہوئے حیرت میں پڑا ہوں کہ آخر قبر سے حق صاحب کیسے نکلے اور اتنے دن کیسے وہ وہاں بچے رہے۔ لیکن جب تک وہ صحیح و سالم تھے، خوش مزاجی اور محبت کا پیکر بنے رہے۔ وہ دنیا سے گئے تو لگا کہ جیسے میرے والدین میں سے کوئی مجھ سے جدا ہو گیا ہے۔ ان کی برسی کے موقعے پر غالب کایہ مصرع ان کی شخصیت کے تعلق سے بالکل موزوں معلوم ہوتا ہے جس پر میں اپنی گفتگو تمام کرنا چاہوں گا: ”حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا“۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ ان کے گناہوں کی مغفرت فرمائے اوران کے درجات کو بلند فرمائے۔
٭٭٭
ڈاکٹر تسلیم عارف کی گذشتہ نگارش: موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس!

شیئر کیجیے

One thought on “ایسے تھے ہمارے حق صاحب!

  1. اچھا مضمون لکھا ہے تسلیم عارف صاحب نے ایم اے حق صاحب سے میری بھی اچھی دوستی تھی فیس بک اور خط و کتابت سے اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے آمین

انجینئر فیروز مظفر کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے