ٹِکی کی دنیا

ٹِکی کی دنیا

منیرفراز، کویت
(منیر فراز کا زیر نظر افسانہ ٹکی کی دنیا ایک ایسے ورق چیں بچے کے جذبات و احساسات کی پیش کش پر مبنی ہے جو اپنی پانچ سال کی عمر تک محرومی کی چکی میں پستے پستے تمام طرح کے جذبات سے عاری ہوجاتا ہے سوائے خوف کے. اس خوف کی وجہ اس کا معاشرتی پس منظر ہے. بھوک کا خوف، قلیل آمدنی کا خوف یا تشدد کا خوف.
خوف کی نفسیات میں جیتے جیتے ایک دن وہ ہسپتال کے بستر تک پہنچ جاتا ہے. غربت یہاں بھی ڈاکٹروں اور نرسوں کی ہم دردی سمیٹنے میں رکاوٹ بن جاتی ہے. ہم دردی کے بغیر وہ خوف کی نفسیات سے کیسے باہر آئے؟
طبیعت کچھ بحال ہوتی ہے تو زندگی کا ایک نیا سورج طلوع ہوتا ہے. بیمار شخص کو ہم دردی کے بول امرت ہوتے ہیں. وہ بیمار نہ ہوتا تو اس کی ماں شاید میڈم نادرہ کے گھر سے لذیذ کھانا نہ لاتی. اس کی پیشانی کو نہ چومتی.
اس کی بیماری اس کی زندگی میں کچھ پل کے لیے ہم دردی سمیٹنے کا ذریعہ بن جاتی ہے.
تب اسے اپنے آس پاس کی دنیا پر غور کرنے اور سوال کرنے کا ایک خفیف سا موقع ہاتھ آجاتا ہے. اور اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ٹکی اپنا سوال مرتب کر ہی لیتا ہے.
مگر ایک امیر بچے کے قریب جاکر وہ لفظوں کے بغیر صرف آنکھوں سے سوال کرتا ہے. جواب میں اسے ذرا سی اور ہم دردی مل جاتی ہے. اور پھر وہ بیر کی گٹھلیوں کو اپنے بستر سے کھسکا دیتا ہے. کیا ہی عمدہ منظر ہے.
افسانہ تزکیہ و تطہیر نفس میں پوری طرح کامیاب ہے. افسانے کی دوسری اور تیسری قرات اس کی ہنرمندی کو مزید نکھارنے میں معاون ہے. طیب فرقانی)

یہ سول اسپتال کے بچوں کے وارڈ نمبر گیارہ کی دنیا ہے اور یہ دنیا اِس سے زیادہ حسین اُسے کبھی نہیں لگی تھی۔
ٹِکی کو جب اِس وارڈ میں لایا گیا تو اُس وقت وارڈ میں کوئی بیڈ خالی نہیں تھا۔ وہ پہلے دو گھنٹے اسپتال کے کوریڈور میں اپنی اماں کی گود میں نیم جان پڑا رہا اور جب اس کے بازو ڈھلک کر گود سے نیچے گر گئے تو اس کی اماں کی چیخ ہی نکل گئی اور جب ٹِکی کا چہرہ تیز بخار سے ایک طرف ڈھلکا، تب نرس نے انھیں وارڈ میں آنے کا کہا۔ یہ دونوں ماں بیٹا کل بھی آئے تھے۔ ڈاکٹر نے نمونیہ کی آٹھ گولیاں اور قوت بخش انجیکشن انھیں لکھ دیے تھے لیکن گزری رات ٹِکی کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تھی. اُسے بیہوشی کے دورے پڑ رہے تھے اور جب ٹِکی کو سفید جھاگ والی قے آئی تو اُس کی اماں اُسے اُٹھا کر اسپتال کی طرف بھاگی تھی، یہ اسپتال اسے قریب پڑتا تھا۔ ٹِکی کی اماں کا دوپٹہ کہیں راستے میں ہی گر گیا تھا. اس نے دو رنگی چپل پہن رکھی تھی جس کا ایک پیر انگوٹھے کے پاس سے کپڑے کی دھجی باندھ کر جوڑا گیا تھا. یہ خانہ بدوشوں کی اماں تھی. سول اسپتال سے چار گلیاں پیچھے، جوہڑ کے ساتھ جھونپڑیوں کی قطاروں میں ایک جھونپڑی میں تین ٹِکیوں اور اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گھسیٹنے والی اماں، تین ٹِکیوں اور ایک ٹِکے کو کھینچتے کھینچتے اس کے اُوپری بدن کی ساخت مردوں جیسی ہوگئی تھی جس سے کبھی زنانہ جنسی کشش پیدا نہیں ہوتی تھی۔ ٹِکی اُس کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا. اُسے بھی یاد نہیں تھا کہ ٹِکی کا نام کیا رکھا گیا تھا، رکھا بھی گیا تھا یا نہیں، شاید توقیر یا طارق جو بگڑ کر ٹِکی ہو گیا تھا، بس اُسے ٹِکی کہہ کر ہی پکارا جاتا تھا، شاید اُس کا قد چھوٹا رہ گیا تھا اور اسی نسبت سے اس کا نام ٹِکی پڑ گیا تھا، ہر کریانہ اسٹور پر ملنے والی مختلف رنگوں کے ورق میں لپٹی ٹِکی۔ میٹھی، کھٹی اور ہاضمے والی ٹِکی۔
یہ چھ سال کا ٹِکی تھا. جب اِس نے چلنا سیکھا تھا تو اِس کے گلے میں اُس کے قد سے ایک بالشت بڑی بوری ڈال دی گئی تھی اور اُس کا باپ اپنی نگرانی میں اُسے سڑکوں، گلیوں سے کاغذ چُننا سکھاتا تھا. اب تو وہ ایک ماہر ورق چیں ہو گیا تھا. سڑک کنارے کھڑے ٹھیلوں اور دکانوں سے آگے بڑھے ہوئے پھٹوں کے نیچے سے بھی پرانے کاغذ پلک جھپکتے اُٹھا لاتا تھا، قدرت نے اس کا قد چھوٹا رکھ کر یہ خاص ہنر اسے عطا کیا تھا. جب وہ پانچ سال کا ہوا تو باپ نے اُس کی نگرانی چھوڑ دی تھی. اب وہ اکیلا اپنے باپ کا یہ کاروبار چلا سکتا تھا۔ ٹکی نے کبھی چھٹی نہیں کی تھی۔ اسے خبر تھی کہ اتوار کے روز بھی سڑکوں پر کاغذ اسی طرح بکھرے ہوتے ہیں، جیسے عام دنوں میں، پھر اُسے وقت، دن، مہینہ اور سال کا علم ہی نہیں تھا کہ یہ کیا پیمانے ہیں۔ جس روز ٹِکی کو بخار ہوتا، اُس روز بھی اُسے چھٹی نہیں ملتی تھی. اُس روز اُسے اُس کی اماں اپنے ساتھ بیگم نادرہ کے بنگلہ لے جاتی، جہاں وہ سہ پہر تین بجے تک جھاڑو برتن کیا کرتی تھی۔ ٹِکی لان کے ٹھنڈے فرش پر بیٹھا رہتا اور اس کی مردوں جیسے سینے والی اماں، کام کے دوران نظریں اُٹھا اُٹھا کر اُسے دیکھتی رہتی، وہ ایک میلا کُچیلا ٹِکی تھا لیکن اُس کا لختِ جگر تھا۔ ٹِکی کے کھلونوں میں بیر کی گُٹھلیاں اور ماچس کی جلی ہوئی تیلیاں ہوتی تھیں جن سے وہ فارغ اوقات میں کھیلتا تھا۔ ٹِکی، غم اور خوشی سے نا آشنا تھا، محبت اور نفرت کا اُسے علم نہیں تھا، اُسے غصے کے معنی بھی نہیں آتے تھے، وہ صرف ڈر سے آشنا تھا، جب سڑک کے آوارہ کتے اُسے گھورتے یا اُس کے گلے میں لٹکی ہوئی بوری میں متوقع ہڈی کے خیال سے اُس کی جانب بڑھتے تو وہ دوڑ کر راہ گیروں کے درمیان آجاتا۔
عید تہوار بھی ٹِکی کے لیے عام دن تھے، اُسے کبھی خیال نہیں آیا کہ لوگ اُس روز اُجلے کپڑے کیوں پہنتے ہیں، باغ باغیچوں میں رونق کیوں ہوتی ہے اور لوگ مٹھائیاں کیوں خریدتے ہیں، وہ گلے ملنے کی روحانی تسکین سے بھی نا آشنا تھا۔
لیکن ایک روز اُسے خیال آیا، جس روز کوریڈور میں اُس کے بازو ڈھلک کر گود سے نیچے گر گئے تھے، جب خانہ بدوشوں کی اماں کی چیخ نکل گئی تھی اور نرس نے انھیں وارڈ میں آنے کا کہا تھا۔
وارڈ میں کُل چوبیس بستر تھے اور یہ بچوں کی ابتدائی طبی امداد اور نگہداشت کا وارڈ تھا جہاں مختلف امراض میں مبتلا بچوں کو رکھا جاتا تھا۔ ہسپتال میں اسٹاف اور مریضوں کے وارثوں کے درمیان لڑائی جھگڑے روز کا معمول تھا. کسی مریض کو کم وقت دینے اور کسی کو زیادہ وقت دینے کا جھگڑا، کسی مریض کو ڈاکٹر مار رہے تھے تو کسی کے اُن کے وارث اور کسی کو حکومتِ وقت کی عدم توجہ. اس وارڈ میں تین نرسیں، دو ڈاکٹر، نو چوہے اور تین بلیاں تعینات تھیں جہاں اکثر اوقات بلیاں چوہوں سے اور ڈاکٹر نرسوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے، جو وقت بچ جاتا اَُس میں بچوں کو بھی دیکھ لیا جاتا تھا۔ ایک ہلکے سبز رنگ کا دھاری دار دبیز پردہ اس وارڈ کو دوسرے وارڈ سے جدا کرتا تھا. اس دوسرے وارڈ میں نسبتاً صفائی کا اہتمام تھا اور چند مخصوص بچوں کو ہی یہاں رکھا جاتا تھا. یہ وارڈ چند با اثر اور بڑے تاجروں کی مالی معاونت سے چلتا تھا۔ جس روز ٹِکی کو پہلا خیال آیا اُس روز اُس نے اپنے بستر سے اِسی دوسرے وارڈ کے پہلے بستر پر پڑے اپنے ہم عمر مریض کو دیکھا تھا. اُس کا بستر قدرے صاف تھا، تکیہ کے غلاف اُجلے تھے اور بستر کے ساتھ اسٹیل کی ٹیبل رکھی تھی جس پر چند کھلونے اور بسکٹ، چاکلیٹ کے ڈبے رکھے تھے۔
بس اُس روز ٹِکی کو اپنی زندگی کا پہلا خیال آیا۔ اُس نے سوچا کہ جب یہ ہسپتال کا وارڈ ہے اور یہاں میرے جیسے بیمار بچوں کو لایا گیا ہے تو میرے بستر کے ساتھ اسٹیل کا ٹیبل کیوں نہیں ہے، کھلونے اور بسکٹ، چاکلیٹ کے ڈبے کیوں نہیں دھرے اور میرے بستر پر نرسیں اور ڈاکٹر بار بار چکر کیوں نہیں لگاتے؟ اُسے اِس کا کوئی جواب نہیں ملا۔
اُسی شام چار بجے جب تیمارداروں کے ہسپتال آنے کا وقت ہوا تو اِس خانہ بدوش کی اماں، بیگم نادرہ کے گھر سے لائی ہوئی دیسی گھی کی چوری اخباری کاغذ میں لپیٹ کر ٹِکی کے سرہانے بیٹھ گئی، اُس کا ماتھا چیک کیا اور اپنے ہاتھوں سے اُسے چوری کھلانے لگی. اس کا بخار پہلے سے کم تھا اور کل شام اسے ہسپتال سے چھٹی ملنے والی تھی۔
دفعتاً دوسرے وارڈ کے پہلے مریض سے ملنے والے کوریڈور سے وارڈ میں داخل ہوئے یہ تین لوگ تھے. مریض کے ماں باپ اور ایک بڑی بہن جو سولہ سال سے زیادہ کی دکھائی نہیں دیتی تھی اُس نے ہاتھ میں سنیکرز چاکلیٹ کا ڈبہ اور دوسرے ہاتھ میں چار رنگین گیسی غبارے پکڑ رکھے تھے۔ ٹِکی نے بس غبارے ہی دیکھے، اس لیے کہ یہ آنکھوں کی سطح سے کچھ اوپر تھے اور رنگوں کی وجہ سے پہلی نظر انہی پر پڑتی تھی۔ اُس کے خیال کا سلسلہ پھر بحال ہوا، میری اماں یہ غبارے کیوں نہیں لائی؟  ٹِکی کو یہ علم نہیں تھا کہ چیزیں بِکتی ہیں، وہ سمجھتا تھا کہ یہ بیر کی گُٹھلیوں اور ماچس کی جلی ہوئی تیلیوں کی طرح سڑک پر پڑی مل جاتی ہیں۔ خانہ بدوش کی اماں نے البتہ اُس لڑکی کے ہاتھ میں سنیکرز چاکلیٹ کا ڈبہ دیکھا، ایسے ڈبے وہ بیگم نادرہ کے گھر بھی دیکھتی ہے اور اسے علم ہے کہ اسے بچے شوق سے کھاتے ہیں۔ کون سے بچے؟ وہ یہ بھی جانتی ہے، آخر اُس کا سینہ یوں ہی تو مردوں کا سا نہیں ہوا تھا۔
رات آٹھ سے پہلے پہلے جب یہ وارڈ خالی ہونے لگا تو ٹِکی کی اماں نے اُسے ماتھے پر بوسہ دیا. جب وہ اٹھ کر جانے لگی تو اُس کی جھولی میں پڑا اخباری کاغذ، جس میں وہ چوری لپیٹ کر لائی تھی، بستر پر گر گیا۔ ٹِکی کے گلے میں بوری نہیں تھی، اُس نے چوری لپیٹ کر لایا ہوا یہ اخباری کاغذ جیب میں ڈال لیا، وہ اپنے باپ کا کاروبار چلانا جانتا تھا۔
رات نو بجے وارڈ تیمارداروں سے خالی ہوا، نرسیں اپنی لپ اسٹک اور غازہ درست کرنے لگیں، ڈاکٹر سروے کر کے جا چکے تھے اور اگلی شفٹ کا اسٹاف آچکا تھا۔ رات گیارہ بجے وارڈز کی اضافی لائٹیں بجھا دی گئیں اور سارا ہسپتال نیم تاریکی میں ڈوب گیا تھا۔ فارمیسی اور کیزیویلٹی کی لائٹیں البتہ روشن تھیں، دوسرے وارڈ کو جدا کرتا دبیز پردہ ہٹا دیا گیا تھا۔ ٹِکی کو بیڈ سے بندھے اوپر کو جھولتے ہوئے رنگین غبارے صاف نظر آرہے تھے، وہ اِن غباروں والے کو قریب سے دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ بچے کس طرح کے ہوتے ہیں۔ اُس نے کچھ سوچا، پھر وہ اپنے بستر سے اُتر کر دبیز پردوں کی دوسری طرف والے وارڈ میں پہنچ گیا۔ اُس کا ہم عمر مریض اُسے دیکھ کر مسکرانے لگا، وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے لیٹا تھا۔ ٹِکی کو قریب دیکھ کر وہ اُٹھ بیٹھا، دونوں کے درمیان مسکراہٹ کا تبادلہ ہوا. بچے مسکرانے کے لیے مقابل کی ذات پات نہیں دیکھتے۔ ٹِکی نے ایک لفظ نہیں کہا، بس غباروں کو دیکھتا رہا، اُس کے ہم عمر مریض نے اپنے بیڈ سے بندھے چار رنگین گیسی غباروں سے ایک غبارے کا دھاگا توڑ کر ٹِکی کے ہاتھ میں دے دیا اور ایک سنیکرز چاکلیٹ اُس کے دوسرے ہاتھ میں رکھ دی۔ ٹکی نے اسے محبت کی نظروں سے دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں اجازت چاہی کہ کیا وہ یہ غبارہ اپنے بستر پر لے جاسکتا ہے۔ غبارے کے مالک نے ہاں میں گردن ہلائی، ٹِکی غبارے کا دھاگا پکڑے اپنے بیڈ کی طرف دوڑ پڑا، اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ غبارہ اب اس کی ملکیت ہے وہ اپنے بیڈ پر چڑھ گیا اور بستر کے پیروں کی جانب لگے اسٹیل کے پائپ سے غبارہ باندھ دیا، پھر اس نے کھڑے کھڑے بیڈ کی چادر درست کی، سرہانے سے ٹیک لگا کر لیٹ گیا، ٹانگ پر ٹانگ رکھی، بالکل اپنے ہم عمر مریض کی طرح، اُس نے ہاتھ میں پکڑی چاکلیٹ کا ورق کھولا اور ناک کے قریب لے جا کر اُس کی بو سونگھنے لگا، یہ بو اُس کے لیے اجنبی تھی. پھر اُس نے زبان کی نوک سے چاکلیٹ کے سرے کو چھوا اور زبان اندر کر کے سرور سے آنکھیں بند کر لیں. کچھ دیر وہ اِسی عالم میں رہا پھر وہ آنکھیں کھول کر چھت کے ساتھ لگے اپنے غبارے کو مسرت بھری نظروں سے دیکھنے لگا، یہ اب اُس کا تھا، بلا شرکتِ غیرے، اُس نے تمکنت اور شانِ بے نیازی سے وارڈ میں چاروں طرف نظر دوڑائی، سب کچھ حسب معمول تھا، وارڈ سپرٹ اور مختلف ادویات کی بو سے اٹا ہوا تھا، ایک نرس ٹیبل پر سر ٹکائے اونگھ رہی تھی، دمے کے مرض اور کالی کھانسی کے کھانستے بچے، ملیریا اور نمونیہ کے بخار سے نیم جان جسم، زخموں کی پیپ اور اُن پر جما ہوا لہو، سب کچھ ویسا ہی تھا، اُسے ان بیماروں اور بیماریوں سے کوئی غرض نہیں تھی، وہ یہ سب بیماریاں پیدا ہونے کے بعد سے اپنی جھونپڑی میں دیکھتا آیا تھا. وہ منہ میں گُھلتی ہوئی چاکلیٹ کی انجانی لذت اور چھت سے لگے غبارے کو دیکھتا جاتا تھا۔ جب اُس نے کروٹ بدلی تو بیر کی تین گُٹھلیاں اُس کی جیب سے بستر پر گر گئیں، اُس نے پاؤں کی مدد سے انھیں فرش پر گرا دیا، وہ انھیں دیکھ کر مسکرانے لگا۔ اِس لمحے اُس کی ساری دنیا اِس وارڈ میں سمٹ آئی تھی اور دنیا اُسے اس سے زیادہ حسین کبھی نہیں لگی تھی.
(بہ شکریہ عالمی افسانہ فورم)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے