احمد علی برقی اعظمی: ایک ہمہ جہت شخص، ایک بے مثال فن کار

احمد علی برقی اعظمی: ایک ہمہ جہت شخص، ایک بے مثال فن کار

عزیز بلگامی

غالباً ٢٠٠٧ء کی بات ہے، اُردو بندھن ڈاٹ کام جدہ، سعودی عربیہ کے ناظمِ اعلا جناب سالم باشوار صاحب نے گو کہ پہلی بار کال کی تھی، لیکن یہ پہلی کال ہونے کے باوجود پہلی کال نظر نہیں آتی تھی، کیوں کہ صاحبِ اُردو بندھن نے اپنی پہلی ہی کال میں ہم سے اِتنی طویل گفتگو فرمائی تھی، کہ گمان ہوتا تھا، جیسے وہ ہم سے زمانہ دراز سے رفاقت کے بندھن میں بندھے ہوئے ہوں. گفتگو کا موضوع تھا صرف اور صرف اردو اور اِس کا فروغ. دراصل سالم باشوار صاحب کا شمار اُردو کے اُن عشاق میں ہوتا ہے، جنھوں نے انٹرنیٹ پرخدمتِ زبان و ادب کی قسم کھا رکھی ہے۔ یہ وہ احباب ہیں جن کی خدماتِ اُردو کا ثانی بڑی مشکل سے ملتا ہے۔ جب فیس بک سے لوگ ابھی مانوس بھی نہیں تھے، جیسا کہ آج نظر آتے ہیں، تبھی سے سالم باشوار صاحب نے بڑے اہتمام کے ساتھ اُردو بندھن ڈاٹ کام کے نام سے ایک عالمی محفل شعر و سخن کی سجا رکھی تھی، جہاں شعرا جوق در جوق حاضری دیتے، کلام پوسٹ کرتے اور اِس طرح داد و تحسین کا دو طرفہ دورگرم رہتا، جو آج بھی جاری ہے۔ اِس سائٹ پر ہماری شعری تخلیقات کے علاوہ ہماری نثر بھی شائع ہونے لگی۔ سا لم صاحب ہماری نثرنگاری سے بہت متاثر تھے اور یہی شے اُن کے مذکورہ کال کا محرک بنی تھی۔ چونکہ ہم بھی اِسی سائٹ کے ذریعہ انٹر نیٹ پر نیے نیے وارد ہوئے تھے، تو نیے میڈیا کے آداب سے ابھی ناواقف ہی تھے، چنانچہ اُردو بندھن پر مصروفِ شعر و سخن فنکاروں سے ہمیں زیادہ واقف ہونے کا موقع نہیں ملا تھا۔ سالم بھائی نے اپنی پہلی گفتگو کے دوران ہمیں سب سے پہلے جس شخصیت سے متعارف کرایا تھا اُن کا نام تھا احمد علی برقی اعظمی۔ موصوف کے فون نمبر سے بھی سالم بھائی نے یہ کہتے ہوئے واقف کرایا تھا کہ ہم اُن سے رابطہ کریں. لیکن ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گیے تھے کہ ہم سے پہلے ہی برقی صاحب نے فون پر ہم سے رابطہ کیا تھا اور وہ کیفیت پیدا کر دی تھی کہ فی الواقع پہلی ہی ملاقات میں ہم اُن کے گرویدہ ہوگیے تھے، اور یہ گرویدگی یہ تاحال برقرار ہے اور اِن شاءاللہ جب تک جان رہے گی، رفاقت کا یہ تعلق برقرار رہے گا۔ پہلی ہی ٹیلی فونک گفتگو میں ہمیں یہ احساس ہو گیا تھا کہ ایک نہا یت ہی نفیس انسان ہمارے حلقہ احباب کا حصہ بن گیا ہے اور جس کی رفاقت پر بجا طور پر ناز کیا جاسکتا ہے۔
٢٠١٠ء کے اوائل میں مشرقی ادیان اور اِسلام کے موضوع پر دہلی میں ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی تھی، جس میں ہم نے بھی اپنا مقالہ پیش کیا تھا، اِس موقع پر وہ ہماری قیام گاہ پر تشریف لائے اور یہی ہماری پہلی ملاقات تھی اور جب تک دہلی میں ہمارا قیام رہا اُن سے ملاقاتیں اور گفتگوئیں ہوتی رہیں۔ وہ اپنے دولت کدے پر بھی لے گیے، اپنی کتابیں عنایت کیں اور ہماری خوب مہمان نوازی فرمائی۔ اِس سارے عرصے میں اُن کی یادوں کا جو پیکر قلب و ذہن میں اُتر آیا تھا وہ بالکل وہی تھا، جو ملاقات سے پہلے بنا ہوا تھا۔ یعنی ایک شریف النفس انسان کا پیکر، جو اُس تصوری پیکر کے عین مطابق تھا جوہمارے مذکورہ پہلے کے وقت وجود میں آیا تھا۔ اُن کے مزاج کی سادگی اور اُن کے محبانہ سلوک کی گرمی کو قریب سے محسوس کرنے کا موقع ملا۔ اُن کی عطا کردہ کتابوں میں اُن کے والد محترم کا ضخیم مجموعہ کلام بھی تھا، جسے دیکھ کربے ساختہ علامہ اِقبال علیہ رحمہ کا یہ شعر ہماری زبان پر جاری ہوگیا
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر وارثِ میراثِ پدر کیوں کر ہو
اور تب کہیں جاکراُن کی زبان دانی اور زود گوئی، کئی زبانوں پر اُن کا عبور، خصوصاً فارسی زبان سے اُن کا شغف، اُن کی متنوع شعری اور ادبی مصروفیتوں کے راز پر سے پردہ اُٹھ گیا اور یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ ایک باکمال بیٹا اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کے ذریعہ ایک ذی مرتبت فن کار باپ کی فکری و علمی وراثت کی ہرشق کو ازبر کیے ہوئے، اُن کی روایتوں کا پاسدار اور میراث پدر کا وارث بنا ہوا ہے۔ اور چونکہ وہ خود بھی بے پناہ شعری صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے۔ چنانچہ اُس کی شعری و علمی گل افشانیاں محض اُس کے ذاتی تسکین کا سامان ہر گز نہیں ہیں، بلکہ وہ اِسی علمی و ادبی وراثت کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے۔ دریں اثنا انٹرنیٹ کے لیے اُن کا مثبت رویہ یا رجحان وہ کام کرگیا کہ حضرت برقی، برقی لہروں کے دوش پر سوار ہوکر مذکورہ وراثت کے ساتھ دنیا کے اُن گوشوں میں پہنچ گیے، جہاں اُردو ادب کی شمعیں اِن ہی روایات کے اُجالے پھیلانے میں مصروف ہیں اور برقی صاحب جیسے صاحب فکر و فن کے استقبال کے لیے آنکھیں بچھائے کھڑی ہیں۔
جہاں تک اُن کی فکری جولان گاہ اور اِس کی وسعت کی بات ہے، تو جیسا کہ ہم نے عرض کیا، اِس کا دائرہ عالمی سطح تک پھیل گیا ہے اور فکر و فن کی مختلف جہتوں کے ساتھ وہ مصروفِ سخن نظر آتے ہیں۔ آج دُنیا کی کوئی معروف آن لائن انجمن ایسی نہیں جہاں حضرتِ برقی کی برق رفتار شاعری کی رسائی نہ ہوئی ہو۔ ایک طرف وہ ہر صنفِ سخن میں اپنی تخلیقیت کے کامیاب تجربے کرتے ہیں، تودوسری طرف تازہ تخلیقات کو معرضِ وجود میں لانے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ مثلاً کسی انجمن پر کسی مصرعِ طرح کا اعلان ہوتا ہے تو سب سے پہلی غزل برق رفتاری کے ساتھ کسی کی پہنچتی ہے تو وہ حضرتِ برقی کی ہی ہوتی ہے۔ کسی کتاب کی تقریبِ رونمائی ہو، کسی کتاب کا اجرا ہورہا ہو تو برقی صاحب کی رگِ سخن پھڑک جاتی ہے او ر کم از کم ۷ شعروں پر مشتمل منظوم خراج تحسین پیش کر ہی دیتے ہیں. خود بھی خوش ہوتے ہیں اور اپنے ممدوح کو بھی بے شمار خوشیاں عطا کر جاتے ہیں۔
یادِ رفتگان، کے ذیل میں تو اُنھوں نے وہ کارنامہ انجام دیا ہے کہ مرحومین کی روحیں تک فرحت محسوس کرتی ہوں گی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اِس ضمن میں اُنھوں نے قابلِ قدر و قابل تقلید مثالیں قائم کی ہیں۔ شعرا اور ادبا سمیت زندگی کے مختلف میدانوں میں مصروف مختلف شخصیات کی رحلت پر وہ ملول ہو اُٹھتے ہیں اور جب تک اُن پر تعزیتی نظم نہیں کہہ لیتے اُنھیں چین نہیں آتا۔ ایسا کرتے ہوئے وہ کسی قسم کی ذہنی تحفظات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ہر قسم کی شخصیت کو اپنا موضوعِ سخن بناتے ہیں۔ ایک طرف علامہ اِقبال پر شعر کہتے ہیں تو دوسری طرف فلمی اداکار راجیش کھنہ کو بھی اپنے شعروں کا موضوع بنا تے ہوئے کسی قسم کا تامل محسوس نہیں فرماتے۔
اِس سے نہ صرف اُن کی بے پناہ دردمندی اِنسانیت کا اِظہار ہوتا ہے، بلکہ وہ آرٹ اورفن کی دُنیا کے ہر فرد کے لیے اپنے دل میں قدردانی کے حقیقی جذبات کی پرورش کرتے نظر آتے ہیں ۔ وہ اِنسانیت نواز شاعر ہیں اور یہی اِنسانیت نوازی اُنھیں مولانا الطاف حسین حالی کے ساتھ ایم ایف حسین جیسے کسی مصور پر بھی شعر کہنے سے کبھی روک نہیں پاتی ہے۔ دراصل اِس کے لیے بڑی اعلیٰ ظرفی کی ضرورت ہوتی ہے، اللہ تعالی نے اِس ظرفِ عالی سے برقی صاحب کو خوب نوازا ہے۔ ایک ایسے زمانے میں جب ایک شاعر دوسرے شاعر کی ٹانگ کھینچنے سے کبھی نہیں ہچکچاتا، دوسروں کی شاعری کو ہدفِ ملامت بنانے سے ذرہ برابر نہیں چوکتا، اورصرف خود کو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنانے کی فکر میں لگا رہتا ہے، ایسے میں برقی صاحب جیسے اِنسان دوست شاعر کا وجود بسا غنیمت ہے، اوراِن کا یہ طرز عمل قابلِ ستائش ہی نہیں بلکہ قابلِ تقلیدبھی ہے۔
یہ برقی صاحب ہی کا ظرف ہے کہ ایک طرف وہ فراق گورکھپوری،نظیر اکبر آبادی، ابن انشا، اِظہار اثر، علامہ اِقبال، امیر خسرو،آرزو لکھنوی،حفیظ میرٹھی، احمد فراز، رحمت اِلٰہی برق اعظمی،اصغر گونڈوی، ناصر کاظمی، جوش ملیح آبادی، دلاور فگار،حسرت موہانی، میر تقی میر،مظہراِمام،راغب مراد آبادی،صبا اکبر آبادی، عمر خیام،عزم بہزاد،خواجہ الطاف حسین حالی، مرزا غالب،جیسے شعرا کو بعد از مرگ اپنا منظوم خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں، تو دوسری جانب فلمی شعرا جیسے کیف بھوپالی،کیفی اعظمی، مجروح سلطان پوری پر نظمیں کہہ کر ہمارے متذکرہ دعووں کا ثبوت پیش فرماتے ہیں۔ پھر یہ کہ وہ صرف شعر و سخن اور علم و ادب ہی کے میدانوں میں کام کرنے والوں کو یاد نہیں کرتے، بلکہ زندگی کے ہر میدان میں اپنی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے فنکاران مرحومین پر اُن کی موت پر منظوم شعری عقیدت کا اِظہار کرتے ہیں۔ حتیٰ کے فلمی اداکاروں، موسیقاروں، مصوروں اور غزل گائیکی کے شہسواروں کو بھی اپنی منظومات کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، جیسے نوشاد علی،جانی واکر، راجیش کھنہ، محمد رفیع،جگجیت سنگھ،مہدی حسن، مقبول فدا حسین، منصور علی خان پٹودی۔ہمارے بزرگ شعرا کو بھی وہ بھولتے نہیں ہیں، جیسے اسرار الحق مجاز،بابائے اُردو عبدالحق، پروفیسر مغنی تبسم،میر انیس،مظفر رزمی،مظفر وارثی، شہید اردو نرائن پانڈے،پروفیسر وہاب اشرفی، وغیرہ۔ یہاں تک کہ پڑوسی ملک پاکستان کے فنکاران معین اختر،پروین شاکر،مقبول صابری قوال، فیض احمد فیض،کو بھی یاد رکھتے ہیں. اِن کے علاوہ،طمنشی پریم چند،نوح ناروی،پروفیسرامیر حسن عابدی، ابو الکلام آزاد، امام غزالی،شبلی نعمانی، سرسید احمد خان،سید صادقین نقوی، سعادت حسن منٹو،رضیہ بٹ،ہاجرہ مسرور،حکیم اجمل خان صاحب،مولانا انیس احمد اصلاحی، حیدر علی ریاستِ میسور،کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ثابت کرتے ہیں کہ وہ وسیع الظرفی کی عظیم نعمتِ خداوندی سے نوازے گیے ہیں۔
وہ کسی کی ستائش بھی کرتے ہیں تو بہ زبانِ شعر کرتے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں کہ اُن کی نس نس میں شاعری بھری ہوئی ہے۔ اُن کی رگِ سخن وقفے وقفے سے نہیں پھڑکتی، بلکہ وہ مسلسل حالتِ اِرتعاش میں رہتی ہے۔ پھر اُن کے مزاج کایہ پہلو بھی نہایت شان دار ہے کہ اُنھوں نے کبھی کسی پر تنقید نہیں کی نہ کسی فن کار کو دکھ پہنچایا۔ ہر فنکار کا احترم کیا اور ستائش ہی سے نوازا۔ کسی کی تخلیق پرکمنٹس بھی دیے تو دل کھول کر تعریف کے ساتھ ہی دیے۔
ہم نموتاً اُن کے کچھ تعزیتی شعر پیش کرتے ہیں۔ نشتر خیر آبادی کے بار ے میں جو نظم کہی اُس کے یہ شعر ملاحظہ ہوں:
بادہ عرفاں سے ہے سرشار اِن کی شاعری
رنگ میں ہے اُن کے فکر وفن کا دل کش اہتمام
اُن کی غزلیں بخشتی ہیں ذہن کو اک تازگی
دیتی ہیں وہ اہلِ دِل کوبادہ عرفاں کا جام

مشتاق احمد یوسفی
اُردو ادب کو اُن پہ ہمیشہ رہے گا ناز
اُن کی نگارشات ہیں عالم میں انتخاب
گلہائے رنگا رنگ کی خوش بو سے جا بجا
ہے گلشنِ ادب میں معطر ہر اک کتاب

فرمان فتح پوری کی موت پر یہ شعر کہے:
ممتاز ہیں اُردو میں سب اُن کے ادب پارے
اس دور کی تھے عظمت فرمان فتح پوری
آیا ہے یہاں جو بھی جانا ہے اُسے برقی
کیوں کرتے نہ پھر رحلت فرمان فتح پوری

کیفیتِ آمد سے مملو اِن اشعار سے یہ اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں کہ وہ ایسے شعر رسماً نہیں کہتے بلکہ اِن میں مکمل فن کارانہ خلوص کارفرما ہوتا ہے۔ بلاشبہ برقی صاحب ایک زُود گوشاعر ہیں۔ اِن کا بس چلے تو گفتگو بھی شاعری میں کریں گے۔ بس کیوں نہیں چلے گا، بس تو ضرورچلے گا، لیکن اُن کا ساتھ دینے کے لیے اُن کا ہم پلہ اور زود گو شاعر کہاں سے آئے گا۔ اُن کی طرحی غزلوں، فی البدیہہ نعتوں، مختلف تہواروں، تاریخی ایام کے سلسلے میں اُن کی منظومات کا ایک دفتر ہے جو انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔چونکہ وہ فارسی، اردو اور انگریزی زبانوں پر مہارت رکھتے ہیں اِس لیے اُنھوں نے منظوم تراجم بھی دُنیائے ادب کی خدمت میں پیش کیے ہیں۔ تعجب ہوتا ہے کہ اِس قدر شریف النفس شاعر و ادیب اِس دورِ بے ضمیرمیں پیدا کیسے ہوا کہ اِتنی زبردست صلاحیتوں کے باوجود وہ اپنی سادہ مزاجی کے حوالے سے ایک لمحے کو بھی کسی کویہ محسوس کرنے نہیں دیتا کہ وہ ایک عظیم شخصیت کا مالک عالمی شہرت یافتہ قلم کار و شاعر ہے، جس کے سینے میں ایک ایسا دھڑکتا دل ہے، جس میں انسانوں سے عموماً اور فنکاروں سے خصوصاً، التفات و اُلفت کا ایک ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر موج زن ہے۔
انٹرنیٹ اِس دور کے مثبت سوچ رکھنے والے تخلیق کار انسانوں کے لیے اللہ کا ایک انعام ہے، اور اُن ہی کے لیے انعام ہے، جن کے پاس عالمِ اِنسانیت کو دینے کے لیے ضرورکوئی نہ کوئی پیغام ہے۔ لیکن افسوس کہ ابھی یہ عام نہیں ہے۔ بہت کم شعرا ہیں جو اِس سے جڑے ہوئے ہیں ۔ ممکن ہے ابھی دو دہے تو ضرور درکار ہوں گے جب اردو کے باکمال فنکار اپنے فکر و فن سے عوام کو روشناس کرانے کے لیے انٹر نیٹ کی دُنیا میں قدم رکھیں گے اور خود اپنے مقام و مرتبے کا ادراک کر پائیں گے۔ خوش نصیب ہیں وہ شعرا جنھیں فی زمانہ یہ موقع ملا ہوا ہے کہ وہ انٹرنیٹ کو اپنی شاعری و قلم کاری کے فروغ کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ عام نہیں اِس لیے ہم سب ایک غیر محسوس حقیقت کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں کہ انٹر نیٹ کے شعرا کو عالمی شہرت تو مل جاتی ہے، لیکن عوام میں پھر بھی وہ غیر مقبول ہو کر رہ جاتے ہیں۔ وہ توکہیے کہ برقی صاحب اور ہم جیسے شعرا کا شعری سفر انٹرنیٹ کی ایجاد سے پہلے بہت طویل عرصے سے جاری رہاہے، تو بجا طور پرہم پریہ بات یقینا صادق نہیں آتی، ہاں، ہمیں اِس حقیقت کا اعتراف توہے کہ انٹرنیٹ ہماری شہرت سے زیادہ ہماری موجودہ شہرت کو چار چاند لگانے کا باعث ضرور بن گیا ہے۔
جہاں تک اُن کے فن اور اُن کی شاعری کی بات ہے تو الحمد للہ علم و ہنر کی کئی نامور شخصیتوں نے اِس فریضے کو خوب نبھایا ہے اور اُن کی شاعری پر سیر حاصل گفتگو اور اِظہار خیال کا حق ادا کر دیا ہے۔ اِس لیے ہم صرف اپنے اِن ہی تاثرات پر اکتفا کرنا چاہتے ہیں، جو گزشتہ سطور میں پیش کیے جا چکے ہیں۔ اور دُعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ملت کے اِس عظیم شاعر کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور اُس کے نقشِ قدم پر ہمیں بھی اپنے شعری سفر کی سمتیں متعین کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
***
Azeez Belgaumi
No. 43/373 First Floor
Bhuvaneshwari Nagar Main Road
Gopalappa layour, M K Ahmed Road,Kempapura Hebbal Post
BANGALORE – 560024
Email: azeezbelgaumi@hotmail.com Url : http://www.azeezbelgaumi.com
Mbl: 00919900222551 00919845291581

شیئر کیجیے

2 thoughts on “احمد علی برقی اعظمی: ایک ہمہ جہت شخص، ایک بے مثال فن کار

  1. ماشاءاللہ👍 بہت عمدہ تحریر ہے💕
    شکریہ محترم عزیز بلگام صاحب آپ نے
    جناب احمد علی برقی اعظمی جیسی
    اعلیٰ ظرف اور ہمہ جہت شخصیت کو
    بہت خوبصورت اور موثر انداز میں قلم بند کیا ہے
    اللہ آپ کو سلامت رکھے آمین

ابو اسامہ صدیقی کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے