ظریفانہ شاعری کا مہذب نام : زبیر الحسن غافلؔ

ظریفانہ شاعری کا مہذب نام : زبیر الحسن غافلؔ

داؤد احمد

اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو، فخرالدین علی احمد گورنمنٹ پی جی کالج محموداۤباد، سیتاپور (یو۔پی)

شاعری میں طنز و مزاح کی اہمیت سے انکارنہیں کیا جاسکتا ہے۔ زندگی کی کڑواہٹ انسان کو غم کا شکار بنا دیتی ہے۔ اسی غم کو کم کرنے کے لیے شاعر و ادیب طنز و مزاح کو وسیلہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ طنز و مزاح کی تعریف اس طرح بھی کی جا سکتی ہے کہ معاشرے اور تہذیب میں پھیلی بد عنوانیوں اور نا ہم واریوں کو زندہ دلی کے ساتھ پیش کرکے قارئین ادب کو دعوت فکر دینے کا نام طنز و مزاح ہے۔ زبیر الحسن غافلؔ بنیادی طور پر طنز و مزاح کے شاعر ہیں مگر ان کی سنجیدہ شاعری بھی ادبی حلقے میں اسناد کا درجہ رکھتی ہے۔ اکبر الہ آبادی کے سلسلۂ ظرافت اور طرز فکر سے تعلق رکھنے والے غافلؔ صاحب کی شاعری سماجی سروکار کی شاعری ہے۔ ان کی شاعری میں جہاں سماجی درد مندی کا گہرا احساس ہے وہیں معاشرتی اقدار کے زیاں اور زوال کا احساس بھی نمایاں ہے۔ ان کی پوری شاعری انسانی رشتے کے انہدام کے خلاف احتجاج بھی ہے اور انسانی رشتوں کا انسلاک بھی۔ ان کی سنجیدہ شاعری ہو یا مزاحیہ، ہر جگہ اسی عظیم تر انسانی رشتے کی زنجیر سی نظر آتی ہے۔ وہ طنز و مزاح نگار ضمیر جعفری، دلاور فگار، سید محمد جعفری، شوق بہرائچی، شہباز امروہوی، ماچس لکھنوی، ٹی این راز، ساغر خیامی، رضا نقوی واہی اور ہلال سیوہاروی کے سلسلے کی ایک اہم کڑی ہیں۔ ان کے کلام میں گہرا سیاسی، سماجی اور ثقافتی شعور روشن ہے۔ وہ معاشرے کی نبض پر بہت گہری نظر رکھتے ہیں۔ انھیں سماج کے رستے زخموں کا مکمل ادراک ہے۔ ان کی شاعری صرف درد کے احساس سے عبارت نہیں ہے بلکہ درد کا درماں اور انسانی اضطراب کا مداوا بھی ہے۔
زبیر الحسن غافلؔ نے سیاسی، سماجی نظام کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کی ظریفانہ نظموں میں گہری سیاسی اور سماجی معنویت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔انھوں نے جن موضوعات پر اظہار خیال کیا وہ ہنگامی نوعیت کے تو ہیں مگر غافلؔ نے اپنی شعری اور فنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر انھیں آفاقیت عطا کر دی ہے، نیز الفاظ کے استعاراتی و علامتی اظہار نے انھیں ہنگامی اور وقتی ہوتے ہوئے بھی ایک نوع کی جاویدانی عطا کردی ہے۔ ان کے یہاں مہذب، شائستہ طنز ہے جس میں مزاح کے عنصر کے ساتھ مقصدیت اور ایقاظی پہلو بھی ہے۔ ان کا مقصد کسی کی تذلیل یا تضحیک نہیں بلکہ انسانی اقدار کی ترفیع و تمجید ہے۔ ان کے موضوعاتی دائرے میں سیاسی اور سماجی احوال و کوائف نمایاں ہیں۔ معاشرتی مکروہات و مرغوبات پر ان کی طنزیہ و مزاحیہ نظمیں انسانی احساس کو زندہ اور ضمیر کو بیدار کرتی ہیں۔ رشوت، چارہ گر اور اس قبیل کی دوسری نظموں کی زبان اور آہنگ پر غور کیجئے، کتنی خوش سلیقگی اور شائستگی کے ساتھ پورے مکروہ سماجی، سیاسی منظر نامے کی عکاسی کی گئی ہے :
ہو کام منتری سے یا کالج میں داخلہ
یا چا ہتے ہیں اچھی جگہ پر تبادلہ
منٹوں میں طے کراتی ہے یہ سارا معاملہ
ہوتا نہیں ہے اس کے بنا حق میں فیصلہ
سب کے قلم پہ آج تو اس کا ہی زور ہے
سب دفتروں میں گھسنے کا یہ بیک ڈور ہے
(رشوت)
رائٹ کا کاروبار بھی کیا روزگار ہے
گھر میں مرے اسی کی وجہ سے بہار ہے
ٹی وی، فرج کے ساتھ ہی اک وی سی آر ہے
چاروں جوان بیٹوں کے پاس اپنی کار ہے
بچے بھی میرا ہاتھ بٹانے لگے ہیں اب
گھر دوسروں کا وہ بھی جلانے لگے ہیں اب
ماہر وہ ہوگئے ہیں بہت لوٹ مار میں
چاروں پسر ہیں میرے اسی روزگار میں
(روزگار)
یہ اشعار ان کے گہرے سماجی شعور کی گواہی کا ثبوت ہیں۔ صرف ہنسی پیدا کرنے کا نام طنز و مزاح نہیں بلکہ طنز و مزاح کے لیے ذکاوت حس، احساس، تناسب، ذوق لطیف اور زندہ دلی کافی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ گہرے عرفان ذات یا معاشرے کے شعور سے پیدا ہوتا ہے۔ آج کے سماج میں انحطاط اور زوال ہے اور سماجی قدریں تیزی سے بدل رہی ہیں۔ نئی تہذیب کی عریانی کو بھی انھوں نے اپنے طنز کا نشانہ بنایا ہے اور پرانی اقدار اور اخلاقیات کی وکالت کی ہے مگر اس میں دھیماپن اور شکایتی لہجہ ہے :
شرم آنکھوں سے رخ سے حیا لے گئی
جانے تہذیب نو اور کیا لے گئی
زبیر الحسن غافلؔ کو طالب علمی کے زمانے سے ہی شعر و شاعری کا ذوق رہا ہے۔ شعر و شاعری ان کو وراثت میں ملی تھی۔ ان کے آبا و اجداد میں شعر و شاعری کا ماحول سر گرم تھا۔ ان کے نانا فرزند علی اردو اور فارسی میں ظریفانہ شاعری کرتے تھے۔ اپنے چاہنے والوں کے اصرار پر اپنا شعری مجموعہ ”اجنبی شہر“ ٢٠٠٧ ء میں شائع کرایا۔ جس کی ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ہوئی۔ اس شعری مجموعہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس مجموعہ کا دوسرا ایڈیشن ٢٠١٥ء میں شائع ہو چکا ہے۔ اس مجموعہ میں شاعر نے غزلیں، نظمیں، قطعات، پیروڈی اور ماہیوں کو شامل کیا ہے۔ اس شعری مجموعہ میں سیاسی، سماجی اور ہندستانی تہذیب و ثقافت کا شعور روشن ہے۔ شاعر نے بڑی صاف گوئی اور بے باکی کے ساتھ اپنی شاعری کے ابتدائی دور کے سلسلے میں اپنے خیالات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے اس کتاب میں رقم طراز ہے:
”اس طرح میرے اندر شاعری، وکالت کے جراثیم وراثتاً منتقل ہوئے لیکن میں نہ تو کام یاب شاعر بن سکا اور نہ میں ایک کام یاب وکیل۔ ویسے میرے دوستوں و کرم فرماؤں کی بے جا تعریف نے مجھے اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیا کہ میں اچھے اشعار کہہ سکتا ہوں لیکن اس غلط فہمی کے باوجود میں کبھی اپنی بے تکی غزلیں و نظمیں کسی معیاری رسالہ میں اشاعت کی غرض سے بھیجنے کی ہمت نہ کر سکا۔ میری پہلی نظم جو کسی رسالہ میں شائع ہوئی وہ”اجنبی شہر“ تھی۔ جب وہ نظم میں نے پہلی بار ارریا کے ایک مقامی مشاعرے میں پڑھی تھی جس کی صدارت اس وقت ارریا کے سول ایس۔ڈی۔او (جن کا نام مجھے ابھی یاد نہیں) کر رہے تھے۔ سامعین نے میری کافی ہمت افزائی کی۔ ایس۔ڈی۔او صاحب کو بھی وہ نظم پسند آئی اور انھوں نے مجھ سے وہ نظم لے کر ماہنامہ ”پاسبان“ کو بغرض اشاعت بھیج دی اور اتفاق سے شائع بھی ہوگئی۔ اس کے بعد تو مقامی شاعروں کے درمیان مجھے استاد سخن سمجھا جانے لگا۔“ (اجنبی شہر: صفحہ۔ ۱۱)
اعلا اور معیاری ظریفانہ شاعری کے لیے صرف طنز و مزاح کی حسین آمیزش ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ اس میں فکری عنصر کا بھی ہونا ضروری ہے۔ ایک شاعر اسی وقت معیاری ظریفانہ شاعری کا خالق ہوسکتا ہے جب طنز و مزاح کی آمیزش فکر کی بنیادوں پر کی جائے۔معاشرے کی برائی، بد عنوانی اور کم زوریوں کے خلاف رد عمل کا نام ظریفانہ شاعری نہیں کیوں کہ اس طرح کا رد عمل انتہا پسندانہ ہوتا ہے اور ایک انتہا پسندی دوسری انتہا پسندی کو ختم کر دیتی ہے اور اس کے نتیجے میں رد عمل کا ایک سلسلہ قائم ہوجاتا ہے جو اصلاح حال کے بدلے حالات کو اور پیچیدہ اور غیر صحت مند بنا دیتا ہے. لیکن اگر فکر کی بنیادوں پر طنز و مزاح کی آمیزش ہوتی ہے تو ظریفانہ شاعری میں ہم دردی کے عناصر شامل ہوتے ہیں اور شاعر معاشرے کی کم زوریوں کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے اس انداز میں اس کو پیش کرتا ہے کہ قارئین یا سامعین کا ذہن اصلاح حال کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
زبیر الحسن غافلؔ طنزیہ و مزاحیہ شاعری کے ساتھ ساتھ سنجیدہ شاعری بھی بڑی ہنر مندی اور کام یابی کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کے مجموعہ کلام”اجنبی شہر“ میں ”چارہ گر“ ”رشوت“ ”ترک شاعری“ ”بہار کی موجودہ حالت“ ”اینٹی شوہر کانفرنس“ ”ایک لیڈر سے انٹر ویو“ ”مسئلہ“ ”یوم اردو“ ”صاحب دیوان“ ”نیا الیکشن“ ”منصف صاحب“ ”روزگار“ ”لیڈر“ ” نسخۂ لیڈری“ ”شاعر“ ”پروفیسر“ ”جشن جمہوریہ“ اور”ہولی“ وغیرہ شامل نظمیں طنز ومزاح کی عمدہ مثال ہیں۔
شاعر کو اگر شب میں کہیں ڈھونڈنا چاہیں
پیتا ہوا ٹھرا کسی ٹھیکے میں ملے گا
اور شام کو بس چائے کی اک پیالی کی خاطر
ہمسایہ کو مکھن وہ لگانے میں ملے گا
(شاعر)
لیڈر کو اگر آپ کہیں ڈھونڈنا چاہیں
وہ رات کو دعوت کہیں کھانے میں ملے گا
اور صبح کو صندوق نما توند کو بھر کر
بیٹھا ہوا وہ چمچوں کے نرغے میں ملے گا
(لیڈر)
کالج کے مدرس کو اگر ڈھونڈنا چاہیں
وہ رات میں بچوں کو سلانے میں ملے گا
اور صبح کو پی کر کسی شاگرد کی سگریٹ
اخلاق کا معیار بتانے میں ملے گا
اور دن میں وہ لڑکوں کی جماعت کو لیے ساتھ
ہر روز ہی ہڑتال کرانے میں ملے گا
اور شام کو گھر میں وہ تھکا ماندہ بے چارہ
بیوی کے لیے چائے بنانے میں ملے گا
(پروفیسر)
زبیر الحسن غافلؔ نے شاعری کے مختلف اصناف جیسے غزل، نظم، مرثیہ اور ماہیہ وغیرہ میں طبع آزمائی کی اور اسے بلندیوں سے ہم کنار کیا ہے۔ ان کی نظمیں الفاظ کے سانچے میں ڈھل کر قاری کے جذبات کو مشتعل کرتی ہوئی ذہن کے پردے پر ایک مجسم صورت میں سامنے آتی ہیں اور قاری اس جذبے اور احساس میں مکمل طور پر اپنے آپ کو شریک سمجھتا ہے۔ ان کی غزلیں تغزل سے بھر پور ہیں۔ ان کا فکری رشتہ جہاں ترقی پسند مسائل اور موضوعات سے ہم آہنگ ہے وہیں ان کا اسلوبی آہنگ فیض احمدفیضؔ سے زیادہ قریب ہے۔ یہ ان کی قدرت کلامی کی دلیل ہے کہ ہر ایک صنف میں انھوں نے اپنی تخلیقی جدت اور جودت کا مظاہرہ کیا ہے۔
شخصی مر ثیے کے ضمن میں بھی ان کا نام نہایت احترام سے لیا جائے گا کہ انھوں نے والد محترم اور لخت جگر کا مرثیہ خون جگر سے لکھا ہے جو قاری کی آنکھوں سے آنسو بن کر ٹپکتا ہے۔ ان مراثی میں انھوں نے دل کو درد و کرب اور رنج وغم کو بڑی الم ناکی اور غم ناکی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اپنے مرحوم بیٹے”اشعر حسن(آشی) کی نذر“ میں اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
کیوں ہوئے اتنے بدگماں آشی؟
چھپ گئے مجھ سے تم کہاں آشی؟
جس کی لالچ میں چھوڑی یہ دنیا
کتنا پیارا ہے وہ جہاں آشی؟
کس کے سینے سے لگ کے سوتے ہو؟
کون دیتا ہے تھپکیاں آشی؟
تیرے جانے سے ہوگیا کتنا
سونا سونا تیرا مکاں آشی
میری یادوں میں اب بھی تازہ ہے
تیری سانسوں کی گرمیاں آشی
زبیر الحسن غافلؔ کی شاعری کا مطالعہ و محاسبہ اس حقیقت کا انکشاف کرتا ہے کہ ان کی شاعری میں درد و کرب، رنج و الم اور دل کی المناکی کا اظہار بے باکی سے ہوا ہے۔ وہ چاہے اپنوں سے بچھڑنے کا غم ہو یادنیا کی بے ڈھنگی چال کا مرثیہ، فسادات کے تذکرے ہوں یا انسانی دکھ درد کا المیہ۔ انھوں نے اپنے شعری آئینہ خانے میں زندگی کے نت نئے تجربات اور مشاہدات اور زندگی کی رنگا رنگی کو شعری پیکر میں ڈھال کر بڑی خوش اسلوبی اور ہنر مندی کے ساتھ قارئین اور سامعین کے سامنے پیش کیا ہے۔
زبیر الحسن غافلؔ کا شمار اردو کے کلاسیکل شعرا میں کیا جا سکتا ہے۔ ان کے ذہن میں بھی کلاسیکی شعرا کی طرح جنون اور دیوانگی کی کیفیت نظر آتی ہے۔ دل کے درد و کرب، رنج و غم کا اظہار ان کی ظریفانہ شاعری میں جا بجا نظر آتا ہے۔ جہاں قارئین کو نشاط کی کیفیت ملتی ہے وہیں درد و کرب بھی ملتا ہے۔ یہی ایک شاعر کا اصل جوہر ہے۔ انھوں نے سماج میں اپنی کھلی آنکھوں سے جو دیکھا ہے، محسوس کیا ہے اور برتا ہے، اس کو انھوں نے اپنی شاعری میں بڑے ہی فنی لطافت کے ساتھ طنز و مزاح کو چاشنی میں گھول کر ہمارے قارئین کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ وہ حساس دل کے مالک ہیں۔ وہ سماجی مسائل کو طنز و مزاح کی چاشنی میں برتنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ غافلؔ کی شاعری پر اپنے پر مغز اور معنی خیز خیالات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے حقانی القاسمی نے فرمایا ہے :
”زبیر الحسن غافلؔ کی شاعری میں نشاط کرب کی بھی بہت مثالیں ملتی ہیں۔ دراصل یہی نشاط غم ہے جو زندگی کا اصل فلسفہ ہے اور اسی فلسفہ سے انسانی زندگی میں امید اور رجا کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ تمام تر خطرات کے باوجود امید و رجا کا شاعر زندگی کو نہایت آزاد روی کے ساتھ گزار دیتا ہے۔ دیکھا جائے تو کلاسیکی شاعروں کی طرح غافلؔ میں بھی ایک جنون اور دیوانگی کی کیفیت ہے اور اسی مقدس دیوانگی نے ان کی زندگی کے زاویے اور حیات و کائنات کے نظریے کو اثباتی رنگ عطا کیا ہے۔ حیات و کائنات کے تضاد ات میں انھوں نے جو افق تلاش کیا ہے، وہ افق ان کے اندرون اور ذہنی و فکری صحت مندی کا اشاریہ ہے۔“ (اجنبی شہر، صفحہ۔۱۳)
جس طرح فیض احمد فیضؔ مظلوموں، محکوموں، مجبوروں کے ساتھ ہمیشہ رہے اور ان کے استحصال کے خلاف آواز بلند کرتے رہے اسی طرح زبیر الحسن غافلؔ کی شاعری میں بھی مظلوموں، محکوموں کا درد نظر آتا ہے اور اسی درد کے احساس نے ان کی شاعری کی فکری جڑوں کو فیض سے نہایت قریب کر دیا ہے۔ فیض کے جو علائم، استعارات و تراکیب ہیں، ویسی ہی ترکیبیں زبیر الحسن غافلؔ کے یہاں بھی ملتی ہیں۔ باوجودے کہ فیض نے سنجیدہ شاعری کی مگر زبیر الحسن غافلؔ نے انھیں مزاحیہ رنگ و آہنگ میں تبدیل کر دیا۔ فیض کی ہی طرح ان کے یہاں رومانیت یا رومانوی ارتعاشات ہیں جن میں ساری اذیتوں کے باوجود ایک احساس طمانیت اور اضطراب کے باوجود ایک تسکین ہے۔ وہ نا امید نہیں ہوتے بلکہ مشکل سے مشکل راہوں سے بھی اپنے عزم و ایقان کے سہارے گزرتے رہتے ہیں۔
زبیر الحسن غافلؔ کی شاعری میں سادگی اور روانی کا پیکر ہے۔ لفظوں کے انتخاب میں بڑی چابک دستی کا مظاہرہ نظر آتا ہے۔ یہی ان کی شاعری کا امتیازی وصف ہے۔ ان کی شاعری ظریفانہ شاعری کے باب میں اہم مقام رکھتی ہے۔ ان کے طنزیہ و مزاحیہ کلام کو ادبی نقطۂ نگاہ سے پرکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے کلام کی ادبی قدرو قیمت کا تعین کیا جا سکے۔

زبیرالحسن غافل سے متعلق یہ نگارش بھی پڑھیں :زبیرالحسن غافل : اجنبی شہر کا شناسا چہرہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے