مکافاتِ عمل

مکافاتِ عمل

✍️ وزیر احمد مصباحی
جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی

زمین جائیداد کی تقسیم کے باوجود چھوٹی چھوٹی باتوں پر وہ اکثر بھائیوں سے جھگڑ پڑتا تھا۔ والد صاحب تو بہت پہلے ہی داغ مفارقت دے چکے تھے، ماں بقید حیات تھیں مگر ان کا بھی ایک پاؤں، سمجھیں قبر میں ہی پہنچ چکا تھا۔ کبھی تو زور زور سے سانسوں کے بڑھتے گھٹتے اُتار چڑھاؤ اور یک بیک کی بے چینی کو دیکھ کر دل پہ یہ گمان گزرنے لگتا کہ اب آنکھ جھپکتے ہی یہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو جائے گی اور میں بالکلیہ اس کی بے وقت کی چیخ و پکار سے نجات پا جاؤں گا۔ نفیس اسی بے خودی کے عالم میں کبھی من ہی من بڑبڑانے لگتا اور ایک انجانی دنیا میں پہنچ کر پرتعیش زندگی کے سنہرے خواب دیکھنے لگتا۔
نفیس اپنے چار بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ اس کی اپنی شادی کے ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں، بمشکل سال/ ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرا ہوگا۔ اللہ پاک نے اسے ایک چاند جیسے خوب صورت بیٹے سے بھی نوازا ہے۔ محلے کی سب عورتیں یہی کہتی ہیں کہ نفیس کا یہ بیٹا بالکل اپنی ماں پر گیا ہے، وہی ناک نقشہ اور چہرہ مہرہ، جو قبیلے بھر میں اس کی ماں کی ایک منفرد شناخت بن کر رہ گئی ہے اور جب کبھی کوئی بہو بیٹی بیاہ کر اس کے محلے میں آتی ہے تو سب سے پہلے حسن و جمال میں اسی سے مقابلہ کیا جاتا ہے۔۔۔مگر، دشت تنہائی میں جب کبھی نفیس عالم تفکیر کی سیر کرتا تو وہ حیران ہو کر رہ جاتا کہ آخر اس عمر میں جب کہ وہ صاحب اولاد بھی ہو گیا ہے، اس کی حیات کے سنہرے صبح و شام اکثر غم زدہ و پژمردہ سے کیوں لگتے ہیں؟ آخر اللہ نے تو سب کچھ دیا ہے‌ نا۔ پھر۔۔۔بھی… یہ___ہاں! جب بھی اسے کوئی ٹھیس پہنچتی یا زندگی کی ریس میں کوئی زک لگتی تو اس کے ذہن میں عجیب و غریب خیالات سانپ بچھو کی طرح رینگنے لگتے، پورے وجود‌ میں ایک کلبلی سی مچ جاتی، بے کلی کی دوڑتی لہر انگ انگ میں سرایت کر جاتی اور دنیا بھر کی بے سر و پا باتیں اس کے ذہنی تار و پود کو جکڑنے کی کوشش کرنے لگتیں۔ مگر، وہ اپنے سینے میں دل ہی ایسا فولادی رکھتا تھا کہ یک لخت ان باتوں کو جھڑک کر آگے بڑھ جاتا اور عالم خواب کی ایسی سرحد پہ جا کر دم لیتا جہاں اس کے ہم زاد سے ملاقات پر ناچار اپنی پریشانیوں کی پوٹلی کھول دینا پڑتا۔
ہم زاد: نفیس! آخر تم اتنے پریشان کیوں ہو؟
نفیس: یار! کیا کروں؟ کچھ۔۔۔سمجھ.. ۔
ہم زاد: کیا مطلب، کیا کروں؟ زندگی کے یہ پل بہت خوب صورت ہیں، اسے رنگ و روغن سے دل ربا بنائیے اور خوب انجوائے کیجیے!
نفیس: دیکھیے نا! میں کبھی خوش نہیں رہ سکتا ہوں______!
ہم زاد: اُفف فف ف… اوہ ہووہہ… پریشانیاں تو سب کے ساتھ ہوتی ہیں جناب!!!
نفیس: لیکن۔۔۔حل کی صورتیں بھی تو۔۔۔!
ہم زاد: کوشش تو کرو! سب ٹھیک ہو جائے گا، تم اپنی زندگی میں کسی کو بوجھ کیوں سمجھتے ہو؟
نفیس: تمھارے اس جملے کا کیا مطلب ہے؟ میں نے تو کسی کو بوجھ نہیں جانا۔
ہم زاد: جھوٹ مت بولو، یاد رکھو! کل اللہ کے یہاں سخت پکڑ ہوگی، حیلوں کی آڑ کیوں تلاش کیے پھرتے ہو؟
نفیس: مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہی ہے، کیا بکے جا رہے ہو، بھائی! بہتر ہے اپنا یہ فلسفہ اپنے پاس رکھو۔
ہم زاد: ارے او..۔۔بندۂ خدا!!! ذہن پہ زور تو دو، پرتیں کھلیں گی تو باتیں بھیجے میں داخل ہوں گی نا۔۔۔!!!
نفیس جلدی جلدی دونوں ہاتھوں سے اپنا سر دباتا ہے، عالم خواب میں آنکھیں بند کرکے ذہن و خیال کی دہلیز پر دھکا مارتا ہے اور پھر شعور و لاشعور میں بکھرے ہوئے یادوں کے تمام تار ایک دوسرے سے جوڑ کر دیکھنے لگتا ہے۔
اوہ۔۔۔ہاں!!!یہ ہوئی نا بات۔۔۔اب یاد آیا، یہ بوڑھی، جی! یہی میری بوڑھی ماں ہی تو ساری پریشانیوں کی جڑ ہیں۔ انھی کی وجہ سے تو میں دن رات پریشان و حیران رہتا ہوں۔
اب نفیس کو احساس ہوا کہ جیسے منٹ بھر میں اس کی تمام پریشانیوں کا حل نکل آیا ہے، وہ اپنے ہم زاد کا شکریہ ادا کرتا ہے، مزید کوئی اور دوسری بات سنے بغیر اسے یک لخت جھڑک کر عالم خواب سے باہر آتے ہوئے برآمدے میں سامنے کی دیوار پہ لگی ٹک ٹک کرتی ہوئی گھڑی پر ٹارچ مارتا ہے اور گول دائرے میں گھومتی ہوئیں تینوں سوئیوں کو یوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگتا ہے جیسے اس کی زندگی میں رہ رہ کر دکھوں کا لاوا یہی پھوڑتی ہیں۔
"پانچ۔۔۔چھ۔۔۔سات۔۔۔آٹھ۔۔۔دس!!! اُفف ففف اوہ۔ہو ہو ابھی تو ٹھیک سے دس بھی نہیں بجے ہیں، رات کی دوسری پہر ڈھلنے میں تو بہت دیر ہے! آخر اتنی جلدی میں عالم خواب سے کیسے باہر آ سکتا ہوں؟ اور پھر وہ اپنے جسم کو ٹٹول ٹٹول کر یقین کا محور تلاش کرنے لگتا ہے.
تجسس کی نبض ابھی کچھ ڈھیلی پڑی ہی تھی کہ اندھیرے میں سامانوں کو ٹٹولتے ہوئے وہ آگے بڑھتا ہے اور آہستہ آہستہ بیوی کے کمرے کی طرف چلنے لگتا ہے۔ لیکن، اچانک ہی اسے برآمدے کی دائیں جانب اسٹور روم سے متصل اپنی بوڑھی ماں کا وہ مخدوش کمرہ یاد آ جاتا ہے جہاں چوہوں اور مچھروں کی حکومت قائم ہے اور دن کے اجالے میں بھی اگر کوئی ہمت باندھ کر اس میں داخل ہوتا بھی ہے تو وہ وہاں چند منٹ سے زیادہ نہیں رک سکتا۔ دروازہ نہ ہونے کے سبب نفیس جھٹ سے اندر داخل ہو جاتا ہے۔ ماں کی نظر پڑتے ہی پکار اٹھتی ہے:” بیٹا! ابھی تک تم سوئے نہیں ہو؟ اچھا۔۔۔ذرا‌ میری… مدد! ماں ٹھیک طرح سے اپنے جملے ابھی تمام بھی نہ کر پائی تھی کہ نفیس بڑے کرخت لہجے میں دھاڑتے ہوئے گویا ہو گیا: دیکھیں! صبح، اپنا ضروری سامان اور کپڑوں کا ایک جھولا تیار رکھیے گا، ہم کہیں چلیں گے"۔ اور پھر وہ تیوری چڑھاتے ہوئے کمرے سے باہر آ گیا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو ہمیشہ کے لیے آرام سے رہنے کی خوش خبری سنا دے۔ مگر۔۔۔کسی وجہ سے اگلے ہی لمحہ اس نے اپنے جذبات پر بڑی مشکل سے قابو پا لیا۔
آج اتوار کا دن تھا، دفتری تعطیل ہونے کی وجہ سے نفیس صبح میں ہوا خوری کے لیے نکل گیا اور ادھر آنکھ کھلتے ہی بوڑھی ماں تیاریوں میں مصروف ہو گئیں۔ وہ بہت خوش تھیں کہ آج برسوں بعد اس کا بیٹا اسے کہیں گھمانے اور سیر و تفریح کے لیے یا کسی رشتے دار کے یہاں مہمانی کرانے لے جا رہا ہے۔ یہ سوچ کر بوڑھی ماں کا جھری زدہ چہرہ کسی تازہ گلاب کی مانند کھل اٹھا اور مسرتیں اٹکھیلیاں کرتی ہوئیں بلائیں لینے لگیں۔ مسکراہٹوں کی یہ دل ربا بہاریں دیکھ کر تو اس کی بہو جل بھن کر ہی رہ گئ، ایک خوف ناک نفرت سے اس کی آنکھیں دہک اٹھیں، وہ یہ سوچ کر ہی یکا یک بحر تحیر میں غوطہ کھانے لگی کہ آخر کیا بات ہے کہ آج وہی بوڑھیا جو کل تک اپنے بستر سے اٹھ کر ٹھیک طرح سے بیٹھ تک نہیں سکتی تھی، وہ اس قدر پرجوش نظر آ رہی ہے، کیا اس نے آب حیات کا کوئی خوشنما گھونٹ پی لیا ہے کہ اب وہ کبھی مر ہی نہیں سکتی؟ اُفف!!! اب میں اور نفیس مزید کتنے دونوں تک پریشانیوں کا سامنا کریں گے، کتنا اچھا ہوتا کہ اس کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتیں۔ اتنے میں اس کے چاند جیسے بیٹے کی رونے کی آواز کانوں سے ٹکرائی اور بہو لپکتی جھپکتی اس کی طرف دوڑ پڑی۔
تقریباً، صبح کے آٹھ بج رہے ہوں گے، اب تک بوڑھی ماں خوشیوں کے ترنگ میں شرابور ہو چکی تھیں، خوشیوں کا غلبہ اتنا شدید تھا کہ ناشتے کے دو چند لقمے کے علاوہ انھوں نے پوری پلیٹ یوں ہی چھوڑ دی۔ بڑی مدت کے بعد تو آج اسے اپنے بیٹے کے ساتھ تفریح کے لیے نکلنے کا یہ خوب صورت لمحہ میسر آیا تھا، اچانک اس کی دم توڑتی فکر و خیال میں یاد ماضی نے کمندیں ڈالنا شروع کر دیا، اسے یوں لگا کہ جیسے ماضی کے جھروکوں سے کسی نے اس کے احساسات پر چوٹیں مار مار کر اسے سن کر دیا ہو، مگر دل تو احساسات و جذبات کا سنگم ہے نا، ہاں! یہ تو وہ گہوارہ ہے جس میں تمنائیں جھولتی اور آرزو مہکتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی فطرت کا وہ معصوم پھول جو برسوں سے پیار کی شبنم کو ترستا رہا تھا، آج نفیس کے ابو کے ساتھ شملہ اور جنت نشاں وادی کشمیر میں گزارے ہوئے سنہرے ایام یاد آتے ہی، خوشی سے جھوم اٹھا تھا۔ اُفف… ! ہائے!!! بوڑھی اماں کی تو آنکھیں ڈبڈبا گئیں، مسلسل ہچکیوں سے گلا رندھ سا گیا اور بے اختیارانہ پلکوں کے سائبان سے آنسوؤں کے دو موٹے موٹے قطرے تمتماتے ہوئے رخسار پہ ڈھلک آے۔
نفیس، نہا دھو کر تیار ہو گیا، ناشتہ کیا، بیوی کی پیشانی کو بوسہ دیا اور بوڑھی ماں کو گاڑی میں بیٹھا کر شہر کی جانب چل دیا۔ آدھے گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد گاڑی جب شہری حدود سے باہر ہو گئ تو نفیس نے یکا یک ایک بڑی سی بلڈنگ کے پاس گاڑی روک دی، اپنی کم زور آنکھوں پہ زور دیتے ہوئے ماں نے جب فلک بوس عمارت پہ نگاہ دوڑائی تو وہ مارے خوشی سے جھوم اٹھیں اور پوچھنے لگیں: بیٹا! کیا ہم یہاں رک کر دوپہر کا کھانا کھائیں گے؟۔لیکن نفیس نے کچھ جواب دیے بنا ماں کو ویٹنگ روم میں بیٹھا دیا اور وہ کڑھتے ہوئے آفس کی طرف بڑھ گیا۔
نفیس آفس میں داخل ہوتے ہی مینجر سے ہیلو کہتا ہے اور سامنے لگی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے، مینیجر بھی دبی مسکراہٹ کے ساتھ ہیلو کہتا ہے اور سامنے میز پہ پڑی ہوئی فائل پر نگاہ گاڑ لیتا ہے۔
نفیس: سر! میں اپنی اس بوڑھی ماں کو آپ کے اس Old Age Home میں رکھنا چاہتا ہوں۔
مینیجر: مشکل ہے بھائی!
نفیس: سر! پلیز، کوشش کریں کسی طرح، شاید..۔
مینیجر: بھائی صاحب! میں بہانہ کیوں بناؤں گا؟
نفیس: سر! میں ہر ماہ چارج کے علاوہ ایک خطیر اضافی رقم بھی آپ کے نام بھجوا جاؤں گا۔
مینیجر: (کچھ دیر کی خاموشی کے بعد) اچھا؛ ٹھیک ہے۔ آپ کہتے ہیں تو رکھ لیتا ہوں۔لیکن۔۔۔،اپنا وعدہ بھولیے گا مت!
نفیس: ٹھیک ہے سر!۔۔۔بالکل بھی نہیں بھولوں گا۔۔۔مجھے اپنا وعدہ یاد رہے گا۔
ماں، جو ویٹنگ روم میں تھی، اپ تک ایک ملازمہ اسے اندر لے گئ تھی اور نفیس اپنی بوڑھی اماں سے ملے بغیر ہی واپس ہو گیا۔ دو گھنٹے بعد جب باورچی خانے سے کھانے کا ایک پلیٹ بوڑھی ماں کے کمرے میں پہنچتا ہے تو وہ خادموں کے پیر پکڑنے اور ان سے خوب منت و سماجت کرنے لگتی ہے کہ وہ ان کے بیٹے کو بلا دیں، وہ ابھی تو یہیں تھا، اسی کے ساتھ ہی جانا ہے مجھ کو، پتہ نہیں اس نے کھانا کھایا یا نہیں یا بچپن کی طرح ماں سے ناراض ہونے پر بھوکے ہی تو نہیں سو گیا؟۔۔۔۔لیکن ملازموں نے اسے زور سے جھڑک دیا اور پھر کبھی دوبارہ نفیس نے خبر خیریت بھی نہیں لی‌۔
آج چالیس سال کا ایک طویل عرصہ گزر گیا تھا، اسی Old Age Home کے ایک کمرہ میں ٹھیک دوپہر بارہ بجے جب نفیس اپنے بستر پر لیٹے ہوئے چھت سے لگے گول گول گھومتے ہوئے پنکھے کو دیکھتا ہے تو اسے انتقام و خدا کی مار کی کئی ایک بھیانک تصویریں نظر آنے لگتی ہیں۔ بند کمرے میں جب دم گھٹنے لگتا ہے تو وہ اپنی بیساکھی کے سہارے باہر لان میں آ بیٹھتا ہے، مگر کسی پل اسے آرام نہیں ملتا، تھرتھری کی لہریں انگ انگ میں سرایت کر جاتی ہیں، اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وقت کا بے رحم پہیا اسے کچل کر تیزی سے آگے نکل گیا ہے اور وہ کہیں سنسان پہاڑی راستے میں بھٹک کر بے سدھ گرا پڑا ہے۔ ہاں! اسے اپنے ہم زاد کی وہ ساری باتیں بھی ایک ایک کرکے یاد آنے لگی ہیں جب آج سے چالیس سال قبل عالم خواب کی نامعلوم دہلیز پر اس سے ملاقات ہوئی تھی اور وہ اس کی ساری باتیں سنے بغیر ہی درمیان میں جھڑک کر واپس آ گیا تھا، اسے اپنی ماں کا وہ معصوم سا سوال بھی یاد آتا ہے جب پہلی دفعہ اسی Old Age Home کی آسمان چھوتی عمارت کو نہارتے ہوئے اس کی ماں نے کہا تھا:” بیٹا! کیا ہم یہاں رک کر دوپہر کا کھانا کھائیں گے؟”۔
یقیناً وقت کا قوی ہیکل دیو جب کسی سر پھرے پر نکیل کستا ہے تو اس لمحہ اس کے پاس حسرت و یاس کی دردناک آہوں کے سوا مزید اور کچھ نہیں بچتا۔ اسے اپنی سیاہ کرتوت کے سارے پول کھلتے ہوئے صاف صاف نظر آتے ہیں۔ آج نفیس بھی اپنے بیٹے پر لعنت و ملامت کرنے کی بجائے خود اپنے آپ کو کوس رہا تھا، یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوئے جا رہا تھا کہ” یقینا خدا کے یہاں دیر ہے، اندھیر نہیں ہے” اور پھر وہ اسی حسرت و یاس کے عالم میں لان کی داہنی جانب اپنی پیشانی پر ندامت و رسوائی کا یہ داغ لیے خوب ہچکولے کھاتا رہا یہاں تک کہ ہچکیوں و گرم گرم آنسؤوں کی ہی رفاقت میں ہمیشہ کے لیے اس کی سانسیں تھم گئیں.
wazirmisbahi87@gmail.com
وزیر احمد مصباحی کی یہ نگارش بھی پڑھیں :مکتوباتِ امینِ شریعت: ایک مطالعہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے