ہاؤس ہوسٹس

ہاؤس ہوسٹس

پروفیسر غضنفر علی

ایرکنڈیشنڈ آفس میں ایزی چیئر پربھی مسٹرچوپڑا دباؤ اور تناؤ لیے بیٹھے تھے۔وہ ایک نئی قسم کے بواسیر میں مبتلاتھے۔مسّے ان کے دماغ میں تھے۔جس دن مسّے زیادہ پھول جاتے مسّوں میں ہل چل سی مچ جاتی اوردباؤ سے چہرے کا تناؤ بڑھ جاتا۔
آفیسر بیگ میز پر کب سے تیارپڑا تھا مگر وہ اسے اُٹھانہیں پارہے تھے،جیسے اس میں کسی نے آتش گیر مادہ رکھ دیاہو۔آتش گیرمادہ تواس میں نہیں تھا مگر گھرجاکر جب بھی وہ بیگ رات میں کھلتاتودھماکاضرور ہوجاتا۔کاغذوں کے پھیلتے ہی گھرمیں بھونچال آجاتا۔ماحول کی دھجیاں بکھرجاتیں۔ درودیوار میں دھواں بھرجاتا۔یہ اور بات ہے کہ گھرکے بھونچال، ماحول کے بکھراؤ اور درودیوارکے دھویں کا سبب صرف یہ بیگ ہی نہیں تھا بل کہ گھر کے اردگرد آئے دن کھلنے والے وہ بکسیز بھی تھے جن سے نکلنے والاتیز رنگوں اور بوؤں کا بارودی غبار کھڑکیوں، دروازوں اور روشن دانوں سے گھس کر دل ودماغ پر چڑھتا اورسانسوں میں بستا جا رہا تھا۔کچھ اورچیزیں بھی تھیں جو باہری دباؤ کے باعث اندرسے اٹھ رہی تھیں اوران سب سے گھرکا توازن بگڑتا جارہاتھا۔
گھرکے بگڑے ہوئے توازن سے نکلنے والی بے ہنگم،کرخت اور بے رس آوازیں حسبِ معمول مسزچوپڑا کے کانوں میں ادھم مچا رہی تھیں اور توازن کے اس بگاڑسے بننے والی بد رنگ بے کیف اور بدہیئت صورتیں آنکھوں میں بچھوؤں کی طرح اپنا ڈنک چبھورہی تھیں۔
مسٹرچوپڑاکے مشتعل مسّوں کا ایک علاج سنکائی ضرور تھا جس کا انہیں تجربہ بھی تھا۔ وہ کسی بار یا کیبرے میں چلے جاتے۔ شراب کا نشہ انہیں سن کردیتا یا کیبرے ڈانسرکے عریاں بدن سے نکلنے والی گرمی دماغ کے مسّوں کوگرما کرنرم بنا دیتی۔کولھوں کے جھٹکوں سے انہیں آرام مل جاتا مگر گھر پہنچتے ہی سوئے ہوئے مسّے اپنی آنکھیں کھول دیتے۔
جب بھی تناؤ بڑھتا مسٹرچوپڑا کا ذہن ادرھرادھر بھٹکتا ہوا اپنی فیکٹری کے بنے کھلونوں پر آکر رک جاتا۔ان کے سامنے طرح طرح کے کھلونے گھومنے لگتے۔ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے جو روتے بچّوں کو ہنسا دیتے،ضدّی بچّوں کی ضد کودبا دیتے ،ان کا دھیان ایک طرف سے دوسری جانب موڑ دیتے،اپنے کرتب سے بچّوں کے پیٹ میں گدگدیاں بھردیتے۔پژمردہ چہروں پرشادابیاں سجا دیتے۔ ویران آنکھوں میں چراغ جلادیتے۔
آج بھی ان کا ذہن کھلونوں پرآکررک گیاتھا۔
کھلونوں کے سامنے بچّوں کی جگہ جوان اوربوڑھے کھڑے تھے،جن کی ویران آنکھیں، کھنچے ہوئے چہرے ، خشک ہونٹ، پرشکن پیشانی،سخت سپاٹ پیٹ،سب کے سب کھلونوں کی سمت ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے۔
’’سرابھی تک——‘‘مسٹر چوپڑا آوازپرچونک پڑے۔سامنے ان کے مینجر ملہوترا کھڑے تھے۔
’ہاں مگرآپ!مسٹر چوپڑا نے ملہوترا کی طرف تعجب سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’سر آپ کو ایک خوش خبری سنانی ہے۔‘‘
’’سنائیے۔‘‘
’’آپ کے خوابوں کی تعبیرمل گئی سر!‘‘
’’کون سے خواب؟کیسی تعبیر؟‘‘مسٹرچوپڑا کی آنکھیں پھیل گئیں۔
’’سرہم نے ہاؤس ہوسٹس تلاش کرلی ہے۔‘‘
ہاؤس ہوسٹس؟
’’یس سر!‘‘
مسٹر چوپڑاکے ذہن میں ہوائی جہازاڑنے لگے ۔آس پاس خلائی دوشیزائیں سجی سنوری مہکتی اور مسکراتی ہوئی پھرنے لگیں۔ شگفتہ جسموں کی تازگی دل ودماغ کو تروتازہ کرنے لگی۔
سفرکی گردچھٹنے لگی۔تناؤ ڈھیلا پڑنے لگا۔ کاروباری اُلجھنوں،گھریلو جھمیلوں، سودوزیاں کی جھنجھٹوں اور جھنجھلاہٹوں سے مکتی ملنے لگی۔ماضی کی تلخیوں پرپردہ پڑگیا۔مستقبل کی چنتاؤں پر غلاف چڑھ گیا۔حال ہواکی طرح ہلکا ہوگیا۔
’’کیاسچ مچ ہاؤس ہوسٹس مل گئی؟‘‘
’’یس سر!‘‘
’’کیا یہ ہاؤس ہوسٹس بھی ویسی ہی ہوگی جیسی کہ جہازوں میں ہوتی ہیں جوپورے سفر میں ہرایک مسافر کی شریک حیات بنی رہتی ہیں،جن سے بنا ضرورت بولنے کو جی چاہتاہے۔ بنا بھوک پیاس کے بھی جن سے کھانے پینے کی چیزوں کی فرمائش کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ جنھیں ہر کوئی اپنی آنکھوں میں قیدکرلیناچاہتا ہے۔جن کی بدولت ہوائی جہازکا سفر ہوا کی طرح سبک ہوجاتا ہے؟
’’سران سے بھی بہتر ہے ہماری ہاؤس ہوسٹس۔‘‘
کیا؟’’آنکھوں کے ساتھ مسٹر چوپڑا کے ہونٹ بھی پھیل گئے۔
’’میں سچ کہہ رہاہوں سر!آپ کے خوابوں کی تعبیرکی تلاش میں ہم کئی ہوائی میزبانوں کے گھربھی گئے مگر گھروں کے اندران کے جسموں پر ہوائی جہازوالا رنگ ونورنظرنہ آیا۔ان کا چہرہ پھیکا،باسی اوربوسیدہ لگا۔ان سے بات کرتے وقت ان کے لہجوں میں جھنجھلاہٹ اور اکھڑپن بھی محسوس ہوا۔سر !ہم نے جوہاؤس ہوسٹس حاصل کی ہے اس کا رنگ وروپ ہمیشہ تروتازہ رہے گا۔ اس کا لب ولہجہ بھی سداپرسکون اورپرکیف بنارہے گا۔‘‘
’’مجھے یقین نہیں آرہاہے۔‘‘
’’یقین آجائے گا!جب آپ اسے دیکھیں گے۔‘‘
’’میں جلد سے جلد دیکھناچاہتاہوں۔‘‘
’’میں تواسی لیے حاضر ہواہوںسر۔‘‘
مسٹر چوپڑا اسپرنگ کی طرح اچھل کراپنی کرسی سے اترے اور ملہوترا کے پیچھے پیچھے اپنی فیکٹری کے گیسٹ ہاؤس تک پہنچ گئے۔ملہوترا نے آگے بڑھ کر کال بٹن کودبادیا۔بٹن کے دبتے ہی دروازہ کھل گیا۔
ایک نہایت حسین وجمیل دوشیزہ نے جاں بخش مسکراہٹ سے استقبال کیا۔ مسٹر چوپڑا کی نگاہیں دوشیزہ کے مقناطیسی رنگ وروپ پرکسی کم زور لوہے کی طرح فوراً چپک گئیں۔ متناسب، سڈول،شگفتہ،شاداب اور پرآب جسم نے مسٹر چوپڑا کی پژمردہ اورویران آنکھوں کے آگے رنگ و نور بکھیر دیے۔
چند لمحے بعد اس حسنِ مجسم کے لب لعلیں بھی کھل گئے۔
’’یہ کیا؟آپ نے پھر چہرے کوتَناؤ سے بھرلیا؟میں کہتی ہوں آخراتنی سوچ فکرکیوں؟ یہ بھاگ دوڑکس لیے؟——زندگی مسکرانے کے لیے ملی ہے،اُداس ہونے کے لیے نہیں۔میں اس چہرے پرپھول دیکھنا چاہتی ہوں،خار نہیں۔آئیے گرم پانی تیارہے،منہ ہاتھ دھو لیجیے،کچھ ریلیف مل جائے گا۔‘‘
مسٹر چوپڑا حیرت واستعجاب سے اس حسینہ کی طرف دیکھتے ہوئے باتھ روم کی جانب بڑھ گئے۔اس کی آواز کاجادو اور لہجے کی اعتمادی قوت نے انہیں واش بیسن تک پہنچادیا۔باتھ روم سے باہر نکلے تووہ پھران کے پاس آگئی۔
’’کیالیں گے؟چائے ،کافی؟یاکوئی سافٹ ڈرنک؟ کہیے تو وہسکی کا ایک پیگ بنادوں؟‘‘
مسٹر چوپڑا اس کی آنکھوں کے پرخلوص بھاؤ اور باتوں کے مترنم بہاؤ میں بہنے لگے۔ چہرے کا کھنچاؤ کم ہونے لگا۔بوجھل من سبک ہونے لگا جیسے ان کے مسّوں کو ٹھنڈک پہنچ گئی ہو۔
’’سر!اب ذرااس کاایک دوسرا رول دیکھیے۔ملہوترا نے ایک اسکول بوائے کوبلوایا جو اپنی پیٹھ پرکتابوں کا بستہ لادے ایک دوسرے کمرے میں تیار بیٹھاتھا۔بچّہ اشارہ پاکر دروازے کی طرف بڑھا۔پیچھے پیچھے دروازے تک ہاؤس ہوسٹس بھی پہنچ گئی۔
’’دیکھو بیٹے!ٹھیک سے اسکول جانا۔راستے میں کہیں اِدھر اُدھر نہ رکنا۔چھٹی ہونے پر سیدھے گھرپہنچنا۔ لنچ ٹائم میں لنچ ضرور کھا لینا۔بھولنا نہیں۔پیاس لگے توپانی صرف اپنی بوتل کا پینا۔اورسنو ایک قدم آگے بڑھ کر اس نے بچّے کی پیشانی پرایک پیاربھر ا بوسہ ثبت کردیا۔
بچّہ لمسِ محبت سے سرشار ہوکر جھومتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
ہاؤس ہوسٹس کے ہونٹوں سے چھلکتی ہوئی ممتا مسٹر چوپڑا کے من کے پیالے میں بھرگئی۔ ان کا سراپامعصوم بچّے کی طرح مسکرا اُٹھا۔
’’سرایک اورروپ ملاحظہ فرمائیے۔‘‘ملہوترانے آگے بڑھ کر دروازہ بندکردیا۔
تھوڑی دیربعدکال بیل بجی اورہاؤس ہوسٹس دروازے پرپہنچ گئی۔دروازہ کھلا۔سامان سے لدی پھندی ایک عورت اندرداخل ہوئی۔
’’میم صاحب!شاپنگ کیسی رہی؟لگتا ہے آپ بہت تھک گئی ہیں۔بیٹھیے پہلے میں آپ کے لیے گرماگرم کافی لاتی ہوں۔پھر آپ کے جسم کا مساج کردوں گی۔آپ پھرسے فریش ہوجائیں گی۔‘‘
’’کیسی لگی سر؟‘‘
’’بہت اچھّی۔بہت ہی پیاری۔ایک دم فنٹاسٹک!‘‘
’’تھینک یوسر!‘‘
’’مگرملہوترا!‘‘
’’سر؟‘‘
’’گھر کے اندرجاکر کہیں یہ بھی ایرہوسٹس کی طرح باسی اورپھیکی تونہیں ہوجائے گی۔‘‘
’’بالکل نہیں سر!ذرااسے غور سے تودیکھیے۔اس کی جلد میں جوکساؤ ہے وہ کبھی ڈھیلا نہیں پڑے گا۔ اوراس کا رنگ تواتنا پختہ ہے کہ کسی بھی موسم کا واراسے پھیکا نہیں کرسکتا۔اوراس کے لب ولہجے میں ایسی جاذبیت ہے کہ قیامت تک بھی ختم نہیں ہوگی۔‘‘
’’توکیا یہ——؟‘‘حیرت سے مسٹر چوپڑا ملہوتراکی طرف دیکھنے لگے۔
’’یس سر!‘‘
’’ونڈرفل !میں تو سمجھ رہاتھا کہ——بھئی ملہوترا تم نے واقعی کمال کردیا۔آئی ایم پراؤڈ آف یو۔‘‘
’’سر!کمال تو اس کا ہے جو اس کے اندرہے۔جو اتنا sensative ہے کہ پیروں کی چاپ سے سمجھ جاتا ہے کہ آنے یاجانے والا مردہے یاعورت ہے۔ جوان ہے یا بوڑھا ہے۔ یابچّہ ہے۔ جویہ بھی محسوس کرلیتاہے کہ کوئی آرہاہے یا جارہاہے۔ جسے وقت کا بھی احساس رہتا ہے اورجو جنس، عمر،وقت،حیثیت،موقع،ماحول،موسم سب کو نگاہ میں رکھتا ہے اور اسی کے مطابق اپنا رول پلے کرتا ہے۔‘‘
’’واہ ملہوترا واہ !آج پتہ چلا کہ تم ایک کام یاب بزنس مین اوراچھّے سائنس داں ہی نہیں بل کہ ایک عظیم تخلیق کاربھی ہو۔سچ مچ تم نے میرے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنکالی ہے ۔اب جلد سے جلد یہ تخلیق میرے گھر پہنچ جانی چاہیے۔
’’سر!لیکن ایک درخواست ہے‘‘
’’بولو‘‘
’’سر ہم اس کی نمائش کرناچاہتے ہیں اگر آپ اجازت دیں تو۔‘‘
’’ مسٹر چوپڑا سوچ میں پڑگئے‘‘کچھ دیرکے بعد بولے۔
’’ٹھیک ہے مگر نمائش میں دیرنہیں ہونی چاہیے۔‘‘
’’بالکل دیر نہیں ہوگی سر!‘‘
بہت جلد نمائش کی تیاریاں مکمل کرلی گئیں۔ہاؤس ہوسٹس نمائش کے لیے شہرکے سب سے بڑی آرٹ گیلری میں رکھی گئی۔ دیکھنے والوں کا تانتا لگ گیا۔ ہاؤس ہوسٹس کے مختلف طرزوں اور روپ کا مظاہرہ دیکھ کر لوگ دنگ رہ گئے۔
نمائش کے بعد ملہوترا نے ایک موٹا سا رجسٹر مسٹر چوپڑا کے سامنے رکھ دیا۔
یہ کیا ہے؟
’’سر! اس میں لوگوں کے کمنٹس Comments ہیں۔‘‘
مسٹر چوپڑا نے رجسٹرکھول کراِدھر اُدھر سے پڑھناشروع کیا۔
’’آپ کی فیکٹری نے یہ ایک ایسا جان دار کھلونابنایا ہے جو بے جان جسموں میں بھی جان ڈال دیتاہے اور جو بچّہ، بوڑھا،جوان،مرد،عورت سب کے لیے کشش رکھتاہے۔ (رپورٹر)
’’اس تخلیق کودیکھ کرمیری طرح بہت سےادیب تخلیق کرنابھول جائیں گے۔‘‘
(ادیب)
’’آپ اسے بیچناچاہیں تومیں اس کے منہ مانگے دام دے سکتا ہوں۔‘‘
(تاجر)
’’روبوٹ سائنس کی ایک بہت بڑی دین ہے مگر اس میں خوب صورتی پیدانہیں کی جا سکی۔ آپ نے اس ماڈل کو حسن عطاکرکے سائنس کو بہت آگے بڑھادیاہے۔
(سائنس داں)
’’آپ اسے میرے گھرپہنچا دیجیے۔بدلے میں جوچاہے کرالیجیے‘‘ (منسٹر)
’’مجھے یہ اتنی اچھّی لگی کہ میں اپنے ممی پاپاکوبھی بھول گئی۔‘‘ (طالبہ)
’’میں ایک کم تنخواہ والاملازم ہوں۔اسے خریدنہیں سکتا۔اس لیے جی چاہتا ہے اسے چراکراپنے گھرلے جاؤں۔‘‘ (ٹیچر)
’’نوکری اگرنہیں،تویہ ہاؤس ہوسٹس ہی مجھے دے دی جائے۔‘‘
(بے روزگار)
’’یہ تواتنی قیمتی ہے کہ اگراس کی اسمگلنگ کی جائے توہیرا،سونا،چرس، حشیش، افیون، براؤن شوگر سب پرپانی پھرسکتا ہے۔ (اسمگلر)
’’اتنی پیاری چیزکوآپ نے یہاں بندکررکھا ہے۔اسے گھر لائیے نا۔‘‘
مسز اوشا ملہوترا ،وائف آف ایم۔آر۔ملہوترا
مینجر ٹوائز کمپنی


تبصرہ و تجزیہ :
نثار انجم ،ہوڑہ، کلکتہ

غضنفر صاحب کی شریعت کہانی میں
کہانی، سوز, ساز ,رمز اور راز بھی ہے ۔
"رنگ”,نور ,خوشبو اور لمس کے "پنڈولم” میں "درد کی کمی کا کرب” جھیلتی زندگی پر لرزیدہ موسم کی مار بھی ہے۔
اور اضطراب زدہ حیات کی "بالکونی میں کیکٹس” پر دراز زیست کی درد سے اٹی وہ تصویر بھی ہے۔
یہ فکر کی "پرزہ” پرزہ حیات کی تفسیر ہے. "محبت کے رنگ” و نور میں ڈوبی کسی "ہاؤس ہوسٹیس” کے سکون بھری زیست کی مصنوعی سفیر ہے۔
"تیزابی محبت” کی آگ میں
خواہشوں کے منڈیر پر
"ہون کنڈ” میں آب سے حسرتوں کی آگ میں جھلستی
خواب کی تعبیر ہے۔
سرد الاؤ میں بجھی
راکھ کو چھیڑتی چنگاری کریدتی آہوں کی نیر ہے
حرف سے پیکر
لفظ سے منظر بناتا *”یک اور منتھن” کا ایک بڑا کھیل ہے
جو صوت سے سر سمندر نکالتی اور کارگہہ حیات میں نغمگی گھولتی دل نشیں تحریر ہے ۔
موسیقی سے لہریں
أگ کو پانی کرتی جراءت تقدیر ہے
پھر "سرسوتی اشنان” کراتی
*اٹے کے دلدل* میں گردن تک پھنسی زندگی کی کہانی
بیان کرتی لرزتے آنسوؤں کا دست گیر ہے
جو کہا نہ گیا
وہ بھی سناتی ہے
کسی "ڈوبر مین*”کے صفات سے محروم "سائبر اسپیس” کی خلاؤں میں "مسنگ مین” کے ورچویل رشتوں کی کہانی دہراتی ہے۔
غضنفر دنیاے ادب میں زیست کے dam میں "پانی” کے ذخیرے پر دل کو بہلانے والے کےایک "آبیاژے” کے ساتھ ملتے ہیں۔جب "حکایتیں اورکہانی”داستانوں کے "حیرت فروش” "جنگل” سے نکل "بے راستوں کا سفر” طے کرتی ہوئی جدیدیت کے "بھیڑ چال” والے "پارکنگ ایریا” میں کسی مست "سانڈ” کی طرح علامتوں کی "ڈگڈگی "کلہا ڑا” اور "منگول بچہ” کے ساتھ داخل ہوتی ہے۔
جدید افسانہ cuneiform کے "ملبے پر کھڑی عمارت” کے "در و دیواروں” پر کندہ ekphrasis کا علامتی اظہار ہے ، جو کہانی کی کوکھ میں چبھتی ہوئی” بھڑ ” کی ڈنک اس کے مخفی اور "پہچان” پر طاری اجنبیت کے "تانا بانا” کو علامت کے تیشہ افکار سے وا کرتا ہے،اور بتاتا ہے کہ زندگی کی "بالکونی میں کیکٹس” کے خار پڑی اضظراب زیست اور مرجھاۓ "یوکلپٹس” کے رنگا "رنگ” پھول سے چہرے پر”اس نے کیا دیکھا” جس پر علامتوں کی دبیز چادر تان دی گئ ہے۔
غضنفر کے یہاں علامتیں ترسیل کے المیے کا شکار نہیں ہوتیں بل کہ تجسس کو برقرار رکھنےکی تکنیک سے آشنا ہیں ۔ قاری کے ادراک سے ربط بناتے ہوۓ علامتیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔ ان کے افسانوں میں علامتیں ترسیل و تفہیم کی پالکی سے اتر اپنا نقاب بھی اتارتی ہیں۔ یہ وصف ان کے تقریباً سبھی علامتی نوعیت کے افسانوں میں موجود ہے۔ہاؤس ہوسٹیس میں غضنفر کا یہ ہنر کچھ زیادہ ہی روشن نظر آتا ہے۔ "ہاؤس ہوسٹیس ” علامتوں میں بندھے کردار ،حسنِ بیان کا نادر اسلوب، مطالعاتی وصف کے حسن سے مالا مال افسانہ ہے جس میں انسانی زندگی کے شب وروز پر کہرے کی طرح چھائی ہوئی بے اطمینانی ،نفسیاتی ملال اور زندگی کے تمام شعبہ ٔحیات پر گہنائی ہوئی مسرت کی بے کلی اور رشتوں کی مٹھاس کی بد مزگی کو بڑی نفسیاتی ژرف بینی سے علامتوں اور استعاروں کے دبیز پردے میں بیان کیا گیا ہے۔ ایسی ہی بیکل، مضطرب اجتما عی زندگی کی تحلیل نفسی psychoanalysis کے بعد ڈاکٹر ملہوترا ایک ایسا پروڈکٹ ” ہاوس ہوسٹیس ” تفریحی ٹواۓ تیار کرتا ہے جو اپنے وجود پر landing lips
سجاۓ نفسیاتی طور پر نڈھال اور سیرو ٹینین زدہ زندگی کی ذہنی نفسیاتی اور جبلی آسودگی کا سامان رشتوں کے ہر روپ اور رنگ میں کرنے میں طاق ہے۔وہ اپنے ہمہ رنگ multi portraying کردار کے ذریعہ اس کی stunt therapy کرتی ہے ۔ تزکیۂ مسرت اور اس کی دل بستگی کے سامان سے مزین ہے۔کولھوں کے جھٹکوں سے انہیں آرام مل جاتا مگر گھر پہنچتے ہی سوئے ہوئے مسّے اپنی آنکھیں کھول دیتے۔یہ ہر عمر اور ہر جنس کے تمام لوگوں کے جذبوں کے الگ الگ flavour کی زبان اور اس کی جبلی تشنگی کے معیار پر کھری اترتی ہے ۔ہر طرح کی مسرت بانٹنے والی اس نئ ہاؤس ہوسٹس کا موجد ملہوترا ہے جو زندگی کا رمز شناس بن کر سامنے آتا ہے ۔ لیکن المیہ یہ ہے کی بے رمق اوربے رنگ زندگی میں خوشی کے رنگ گھولنے والے کھلونے کے موجد کی بیوی کی زندگی بھی رنگ و نور سے خالی ہے۔ اس کی بھی شدید خواہش ہے کہ کاش اس کی روٹھی ہوئی مسرت اور بجھی بجھی سی زندگی میں بھی کوئی ہاؤس ہوسٹس ہوتی جو اس کی ویران سی مضمحل زندگی میں رشتوں اور اخلاص کی خوشبو بکھیر دے۔اس کی صحرائی زندگی میں مسرت کا آبشار بن کر اتر جاۓ اور اسے سرشار کردے۔
کہانی کے پہلے پیرا میں علا مت اور استعارے سے مزین مرکزی کردار قارئین سے متعارف ہوتا ہے۔
یہاں مصنف لفظ کے معنی سے الگ علامت کے پردے میں نئے سانچے بناتا دکھا ئی دیتا ہے. 
"وہ ایک نئی قسم کے بواسیر میں مبتلاتھے۔مسّے ان کے دماغ میں تھے۔جس دن مسّے زیادہ پھول جاتے مسّوں میں ہل چل سی مچ جاتی اوردباؤ سے چہرے کا تناؤ بڑھ جاتا۔"
یہاں مسّے دراصل نئ زندگی کی جبلی ضرورتیں Basic instinct desire ہیں۔
ضرورت ،تسکین اور طلب اور اس کی عدم حصولی پر دماغ میں ایک خشکی پیدا ہوتی ہے اور جب اس کی ذہنی اور جبلی سیرابی کے لیے وہ تمام تفریحات مہیا کردی جاتی ہیں تو دماغ ایک serotonin نامی کمیکل خارج کرتا ہے۔
مسے ،خونی بواسیر ،جیسے نادر اور ان کہی علا متوں کے ذریعہ مصنف نے اس عہد کے ایک عالمی نفسیاتی کڑھن اور اس کے درد و کرب کو بیان کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتاہے جیسے زندگی جذبوں کے آبگینے میں رشتوں کی مصنوعی آنچ کی زد پر اور کانچ کی سیج پر ہے اور مصنف ایک ماہر نفسیات کی طرح ایک آبیاژہ دے کر اسے بہلانے کی کوشش کررہا ہے :
"جب بھی تناؤ بڑھتا مسٹرچوپڑا کا ذہن ادرھرادھر بھٹکتا ہوا اپنی فیکٹری کے بنے کھلونوں پر آکر رک جاتا۔ان کے سامنے طرح طرح کے کھلونے گھومنے لگتے۔ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے جو روتے بچّوں کو ہنسا دیتے،ضدّی بچّوں کی ضد کودبا دیتے ،ان کا دھیان ایک طرف سے دوسری جانب موڑ دیتے،اپنے کرتب سے بچّوں کے پیٹ میں گدگدیاں بھردیتے۔پژمردہ چہروں پر شادابیاں سجا دیتے۔ویران آنکھوں میں چراغ جلادیتے۔”
یہاں کھلونا بھی بچوں کی چھوٹی سی لا شعوری کائنات کے رنگا رنگ جذبوں کو شگفتگی اور گدازگی کے حوالے سے ایک بالغ ذہن کے ذہنی کرب کے تنا ظر میں آگیا ہے۔
یہ آبیاژہ دراصل ایک serotonin ہے ۔اعصاب کو تھپکنے والی Diazapem کی گولیاں ہیں۔یہ عدم اطمینان اس صدی کی ایک بزی زندگی پر طاری ہے۔پوری دنیا اضطراب کے کانٹوں پر دراز بے سکونی کی شکا ر ہےاور ہر قیمت پر سکون حاصل کرنا چا ہتی ہے۔ سکون سبھی کو چا ہیے مگر لوگ اس کی بھی مارکیٹنگ کرنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ سکون کو بھنانے اور اس میں بھی کمائی کا پہلو ڈھونڈ نکالتے ہیں۔
ملہوترا نے بے سکونی کی اس کیفیت کو میٹرالائز کرنے کے لیے ایک ایسی ربر کی گڑیا بنائی ہے جو ہر آدمی کے اضطراب کو سکون میں بدل دینے میں طاق ہے۔
یہ کھلونا اس مقصد سے بنایا گیا ہے کہ ماں باپ سے ملنے والی خوشی اور مسرت کا وہ پل بھی بچہ اس نئے تفریحی ٹواۓ میں ڈھونڈ لے۔
یہ وہی گولی ہے جو کساؤ دباؤ اور stress میں عارضی ریلیف کے لیے دی جاتی ہے۔انسان زندگی میں سکون کے مرکز اعصاب پر اس مسے کی موجودگی کے روکھے پن کو دور کرنے کے لیے ایسی مسرت بکھیرنے والی ایر ہوسٹیس ہوائی حسیینا ئیں اضطراب کے جسم پر چبھنے والے ببول کے کانٹوں پر اپنی مسکان کا پھا ہا رکھ سرشار تو کردیتی ہیں لیکن وہ بھی بجھ جاتی ہیں۔
ہاؤس ہوسٹیس ہی وہ اینٹی اسٹریس آبیاژہ ہے جو کسی بھی موسم کی مار سے بچنے کے لیے تیر بہدف ہے۔لیکن المیہ یہ ہے کہ سکون کی متلاشی مخلوق کو مسرت فراہم کرنے والے کے گھرمیں اس کی اپنی بیوی بھی بے سکونی کی مار جھیل رہی ہے۔
یہ ایک بہترین علامتی افسانہ ہے جسے بڑی اونچی جگہ سے بہترین اسلوب اور کرافٹ میں پیش کیا گیا ہے. 
میری اس بات کی تصدیق مصطفےٰ کریم کے اس طویل خط سے بھی ہوتی ہے جسے انھوں نے شب خون کے افسانہ نمبر پر تبصرہ کرتے ہوۓ شب خون کے شمارے میں لکھا تھا کہ اچھی علامتی کہانی کی بڑی پہچان یہ ہے کہ کہانی پوری طرح کھلے بھی نہیں اور بند بھی نہ رہے۔علامت کا کمال یہ ہے کہ وہ کہانی کے بال و پر کھول کر اس کے کینوس کو وسیع کردے. اچھی علامتی کہانیوں کی مثال پیش کرتے ہوۓ انھوں نے "تلقارمس” کے ساتھ ساتھ "ہاؤس ہوسٹس” کا بھی حوالہ دیا تھا ۔
بلا شبہ ہاؤس ہوسٹس ایک کامیاب علامتی کہانی ہے جو اردو کی اچھی علامتی کہانیوں کی صف میں جگہ پاۓ گی۔

نثار انجم کا یہ تجزیہ بھی ملاحظہ فرمائیں : اسلم جمشید پوری کے افسانہ یہ ہے دلی میری جان کا تجزیاتی مطالعہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے