اِس عید کا پیغام

اِس عید کا پیغام

مسعود بیگ تشنہ
عید کے لغوی معنی خوشی، انبساط و مسرّت کے ہیں اور عید الفطر یعنی روزہ مکمل ہونے کی خوشی. ماہِ رمضان مہینہ بھر اللہ کی عبادت،روزوں کی ریاضت، تلاوتِ قرآن مجید میں مشغول ہونے کے بعد، عید کا دن یعنی خوشی کا دن کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس ماہ کی مبارک عبادت، ذکر و اذکار، روزوں اور قرآن مجید کی تلاوت کی سعادتوں سے نوازا اور اس سعادت پانے کے بدلے خوشی میں نماز دو گانہ کی ادائیگی. اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہم اہلیانِ اسلام کو اس دین پہ رکھا جس دین کا ہر دینی تہوار اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی خوشی کا پیغام کوئی اچھے انسانیت بھرے کام کی ترغیب دیتا ہے. خدا، خدا کے بندوں اور خدا کی قدرت اور کائنات سے محبت کرنا سکھاتا ہے.
بہت ہو چکی دنیا میں ادیان کی لڑائی، بہت ہوچکا دین و مذہب و مسلک، اپنی تہذیب، اپنے علاقے، اپنی زبان، اپنی دولت، اپنی شہرت، اپنی اولاد، اپنے نفس پر گھمنڈ. ہم انسانوں نے بلا تفریق مذہب و ملت ایک خدا کو، سب کے خدا کو تیرے میرے خداؤں میں بانٹ دیا، اپنے مسلکی و مذہبی تنگ نظری کو شعار بنا لیا، ہم نے اپنے علاقے اپنی تہذیب پر اس قدر گھمنڈ کیا کہ دوسروں سے نفرت کرنے لگے، زبان، تہذیب اور دین کے نام پر زمینیں ہتھیانے لگے. ہر دوسرے فرد یا جماعت کو غیر کیا، بے دخل کیا. ہم تہذیب و تمدن، تاریخ و جغرافیہ کے اچھے سبق بھول گئے. ہم نے ان چیزوں سے وہی لیا جو ہمیں کسی طرح باعثِ افتخار لگا، دوسری جماعت سے اعلیٰ. ہم اپنی تہذیب، اپنی نسل، اپنی زبان، اپنے علاقے کے گھمنڈ میں بھول گئے کہ یہ دنیا یہ کائنات صرف ہماری نہیں ہر ذی روح کی ہے. انسانیت سے کھلواڑ، قدرت سے کھلواڑ ہمارا وطیرہ بن گیا. اچھا اور بہترین صرف ہمارے پاس رہے اور دوسروں کا اس پر کیا حق. ہم یہ بھول گئے کہ دوسروں کے لئے بھی وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو. یہی سوچ رہی نا ہماری!، یہی دنیا کا گھمنڈ رہا نا ہمارا!. ہم نے دنیا کی ہر اچھی چیز پر اپنا حق سمجھا اور دوسروں کو محروم کیا. آج ساری دنیا کسی نہ کسی صورت مہاجرین کی بستی بن گئی ہے. پھر بھی ہم ایک دوسرے کے ہم درد نہیں ہیں. کیوں؟ آخر کیوں؟. اگر زمین پر صرف اپنے اور اپنے حق کی لڑائی لڑنا بند کر دیں، قدرت کے سارے ذخائر سبھی انسانوں سبھی مخلوقات کے لئے کھول دیں، قدرت کو بھی سانس لینے دیں، اسے زندہ رکھیں تو کیا ہی اچھا ہو. قدرت زندہ تو ہم زندہ. ورنہ قدرت اپنے آپ کو ہم سے پاک کر لے گی. آج وبا کی صورت میں کیا ہو رہا ہے؟ کیا قدرت خود کو ناپاک انسانوں سے پاک نہیں کر رہی، کیا انہیں دور نہیں کر رہی؟ کیا انہیں وبا میں موت کے گھاٹ نہیں اتار رہی ہے؟ کیا ہمارے گناہوں سے ظالم حکمراں ہم پر مسلط نہیں کر دیئے گئے ہیں؟. یاد رہے کہ قدرت اپنا بگڑا توازن خود بنانے کی اہل ہے. اس مادّی ترقی میں عام انسان کو کتنا مل رہا ہے؟ یہ دولت کمانے کی ہوس اور دولت کی لوٹ کھسوٹ تیز سے تیز تر کیوں ہے.
شکر مناؤ مسلمانو کہ تم اس دین کے ماننے والے ہو، چاہے زبانی ہی سہی جو دین فطرت ہے، جو کسی سے نفرت نہیں سکھاتا، جو انسان کو انسان سے جوڑنا سکھاتا ہے، جو نیکیاں یعنی اچھے کام بانٹنا سکھاتا ہے، جو معاشرتی خرافات، اخلاقی تنزل اور ہر برے کام سے روکتا ہے. اس سے بچنا اور بچانا سکھاتا ہے. بہتر سے بہتر انسانی معاشرے کی ترغیب دیتا ہے. جو دکھ میں دکھی کا ساتھی بننا سکھاتا ہے. اور خوشی میں خوشی بانٹنا. جو کسی کے پوجا کے طریقے سے اس پوجنے والے سے نفرت کرنا نہیں سکھاتا ہے، بلکہ تعلیم دیتا ہے کی تمہارا معبود تمہارے لئے، ہمارا ہمارے لئے، تم تمہارے معبود کو پوجو ہم اپنے معبود کو، تمہارا دین تمہارے لئے اور ہمارا دین ہمارے لئے کہ دین پر کوئی جھگڑا فساد نہیں،پسند اپنی اپنی. کیا اس سے بہتر کوئی اعلان آپسی بھروسے کا، اعتماد باہمی کا، مفاہمت عامہ کا ہو سکتا ہے؟ مگر نہیں ہمیں تو غیر دین والے کو مشرک، کافر کہ کر جھٹک دینا ہے، یہ اسلام کا راستہ نہیں ہے، یہ سلامتی کا راستہ نہیں ہے. مشرک اور منکر اللہ کی کتاب میں محض شناخت بھر کے خطابات ہیں جس سے تمہارا دین اور تم مختص ہو جاؤ نہ کہ دین کے نام پر فساد پھیلاؤ، دین پر زبردستی کرو .تم بھی تو اپنے پیدائشی دین پر ہی چل رہے ہو نا! تم دنیا کا بہترین معاشرہ بن سکتے ہو مگر بننا نہیں چاہتے، تم تعلیم سے دور، جہالت سے نزدیک، غصے کے پچاری، صبر و استقلال کے دشمن، تم ظالموں کے ساتھ، تم مطلب پرست، تم دنیا دار، تم بے غیرت، تم ایک کمینے نچلے سے نچلے درچے کے کمینے بن گئے ہو. تم نے اوقاف کی زمین جائداد کی ہیرا پھیری سیکھ لی، تم ان سے مساجد کے ساتھ کمیونٹی ہال بنا سکتے تھے، مارکیٹ بنا سکتے تھے، بہترین جدید تعلیمی ادارے کھول سکتے تھے. اٹھو جاگو، نئے معاشرے کی تعمیر کرو، ایمان کی اصل کو پہچانو، خدا سے جڑو اور خدا کے بندوں سے جڑو، معاشرے میں بہتر اکائی بہتر شہری بن کر دکھاؤ ، چاہے دنیا کے کسی خطے میں آباد رہو ، صدقات دو، خیر کرو، صاحب حیثیت ہو تو مالی طور پر دوسروں کی مدد کرو، تعلیم عام کرو، تعلیم پر خرچ کرو، تعلیم سب کے لئے عام اور سستی بناؤ، تعلیمی ادارے قائم کرو، اسپتال بنواؤ، بِنا تفریق مذہب و ملت سب پر فلاحی کام کھول دو، چاہے وہ تعلیم ہو، چاہے اسپتال ہو یا چاہے کوئی فلاحی ادارہ، دین کی سمجھ پیدا کرو اللہ کی کتاب کو پکڑو، قرآن فہمی پیدا کرو. مت بھروسے رہو کہ کوئی دینی عالم ہی تمہیں اللہ کی ہدایات سمجھانے میں مدد پہنچائے. تمہاری عقل، تمہارا دل اور تمہارا ایمان اس بات پر قائم ہے کہ تم نے کتنا اللہ کی کتاب کو پڑھا سمجھا اور اس پر عمل کیا. اپنی عقل سے کام لو. عقل السلیم(اچھی عقل) اور قلب السلیم (اچھے دل) والے بن جاؤ، کسی کا حق غصب نہ کرو، دولت کی تقسیم کرو. دنیا کا کمایا دنیا کو دو، مستحقین کو دو ، آخرت میں صرف نیک اعمال تمہارے ساتھ جائیں گے. کیا تم مسلمان ہو؟ ہاں ہو کہ تم مسلمان ماں باپ کے گھر پیدا ہوئے پیدائشی مسلمان ہو اور بس! ماں باپ نے تمہیں پیدائشی پہچان تو دے دی مگر تم کو اپنی پہچان خود بنانی ہے. سب سے پہلے خود سے سوال کرو کہ کیا تم اچھے انسان بھی ہو؟ اچھے والدین، اچھی اولاد، اچھے رشتہ دار، اچھے پڑوسی، اچھے شہری اور یتیموں، بے کسوں کے دستِ امداد ہو؟ اچھی تعلیم اچھا ہنر اچھا علم حاصل کرنے کی کتنی کوشش کی؟ جو اپنے اور معاشرے کے کام آئے. اگر ان سوالات کے جوابات نہیں میں ہیں تو، نہیں تم اچھے انسان نہیں ہو، تو پھر تم مومن کیسے ہو سکتے ہو؟ دراصل مومن ہی بہترین انسان ہے. اگر تم خدا سے جڑے اور خدا کے بندوں یعنی انسانوں سے نہ جڑے تو نام کے مسلمان ہو، کام کے نہیں. کیا تم نے اللہ کی نشانیوں کو پہچانا؟ ڈھونڈا؟ اس دھرتی پر سیاحت کی؟ اگر نہیں کی تو تم ادھورے انسان ہو، تمہاری عقل اور فکر میں وسعت نہیں پیدا ہوئی ہے. تم کیسے اللہ کی ثنا کر سکتے ہو. اللہ کی ثنا تو پیڑ پودے بھی دن رات کرتے ہیں. مگر تمہارا مرتبہ ان سب سے افضل ہے کہ تم اشرف المخلوقات ہو. تم سوچ بھی سکتے ہو، تم خود مختار بھی ہو، تم اچھے برے کی تمیز بھی کر سکتے ہو. تمہارا دین تمہیں ایک معبود کی عبادت کے ساتھ ساتھ اچھے برے کی تمیز کرنا سکھاتا ہے. نیک اور انسانیت کا کام کرنے والا بننا سکھاتا ہے، اسی لئے علم حاصل کرنا، قدرت کی نشانیوں پر غور و فکر کرنا(سائنسی مشاہدات و تجربات) تمہارا فریضہ عین بنایا گیا ہے. دشت و دریا میں بھی دوڑا دیے گھوڑے تم نے. چاہے تم مرد ہو یا عورت. تمہیں علم کی طلب کے دور دراز کے علاقے چھاننے کو بھی کہا گیا ہے. دنیا دیکھنا، دنیا گھومنا اسی کا نام ہے، نہ کہ دو چار دن کی چھٹی پر اپنے بال بچوں کے ساتھ گھوم آئے اور ہوٹلوں میں عمدہ سے عمدہ کھانا کھا لیا. جہاں گئے وہاں کی مٹی، وہاں کی ہوا، وہاں کے قدرتی نظاروں سے تم نے کیا سر گوشی کی؟ مٹی، ہوا ،پانی، آگ کا تم پر کیا قرض ہے؟ کیا تمہیں یہ چاروں عناصر اپنے بہتر استعمال اور بہتر تسخیر کی دعوت دیتے نظر نہیں آتے؟ کیا وہاں کے لوگوں کا رہن سہن، کھان پان، وہاں کی آب و ہوا اور مزاجِ آب و گِل کے مطابق نہیں ہے؟ کیا انہوں نے قدرت کے کارخانے سے بہتر طریقے پر اپنا اپنا حصہ نہیں چُنا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ قدرت کے خزانے کو بے دریغ تو خرچ نہیں کر رہے. یاد رہے کہ تمہارے اسلاف جہاں جہاں پہنچے وہاں کی مٹی سے پیار کیا. کہیں دنیاوی علم پھیلایا تو کہیں روحانی تربیت کی. دنیاوی علم پھیلایا تو یورپ کو تاریکی اور جہالت کے دور سے نکالا مگر خود عمل و سائنس چھوڑنے کی غفلت کی اور مسیحی جنگوں میں ہار بیٹھے. اور پورا کا پورا سائنس کا خزانہ یوروہینوں کے ہاتھ لگ گیا. اس سے وہ آگے بڑھے اور تمہاری کتابیں ترجمہ منتقلی کے بعد جلا دی گئیں.
بزرگانِ دین ہندوستان میں آئے تو یہاں انہوں نے دین حق کی تعلیم کے ساتھ ساتھ روحانیت کو فروغ دیا. بیشتر مسلم حکمرانوں نے بھی روحانیت کو فروغ دیا. آج بزرگانِ دین کی یہی روحانیت کا فیضِِ عام ہے کہ شیطانوں کی منافرتی چالوں کے باوجود ہم اپنے وجود کے ساتھ زندہ و سلامت ہیں. گنگا جمنی تہذیب کا فروغ انہی بزرگانِ دین کی دین ہے. جہاں زندہ معاشرے کے لئے حرکی زندگی ضروری ہے، وہیں، روحانی تربیت بھی. روحانیت میں خدائے واحد کی ذات سے لگاؤ بڑھتا ہے اور ہر ذی روح بالخصوص انسانوں سے محبت کا جذبہ بیدار ہوتا ہے اور بہترین طرز کی اخلاقی تعلیم ملتی ہے. رمضان المبارک میں ہم ربّ ملائکہ و الروح سے بھی جہنم کی آگ سے بچانے کی گُہار لگاتے ہوئے، روحانیت (پاکیزہ روح کی تربیت اور ہر ذی روح سے پیار) کی ترغیب ہی تو مانگتے ہیں. یہ روحانیت مجاوری نہیں، کچھ اور ہے. ہمیں فخر ہونا چاہئے کہ ہمارے اسلاف یہاں آئے اور یہیں کے ہو رہے. ہم میں سے بیشتر تو ہزاروں سال سے یہیں کے ہیں. ہماری پانچ ہزار سالہ تہذیب میں ہمارے اسلاف، ہمارے بزرگانِ دین نے جو رنگینی و چاشنی بخشی ہے اور اسے گنگا جمنی بنایا ہے ویسی مثال دنیا کے کسی اور خطے میں دیکھنے کو نہیں ملتی. سیاست اور احیاء تہذیب و ادیان کی چاہ نے بھلے ہی ہندوؤں اور مسلمانوں میں زمین کا خونی بٹوارا کرکے اس پیارے اور عظیم ہندوستان کے دو ٹکڑے کر دیے ہوں اور پھر زبان کے نام پر مزید ٹکڑے. ہماری مشترکہ تہذیب و روحانیت آج بھی زندہ ہے اور زندہ رہے گی چاہے تینوں ملکوں بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں انتہا پسندوں کی بن آئی ہو.
مسجد اقصیٰ میں شبِ قدر پہ اسرائیلی پولس نے جو ظلم ڈھائے. اس کی مثال ملنی مشکل ہے. ساری دنیا کے مسلمانوں میں اس سے بے چینی اور غم و غصہ ہے. اللہ تعالیٰ اسرائیل کے ناپاک عزائم کو نیست و نابود کرے. آمین!
آج انسان کی لالچ نے قدرت کے ذخیروں کا نہ صرف بے دردی سے استعمال کیا ہے بلکہ اسے کھوکھلا بنا کر رکھ دیا ہے؟ اپنے ماحول سے مطابقت پیدا کیجے اور ماحول کو اپنے مطابق بنانے کی زبردستی نہ کیجے. آج قدرت کو آکسیجن کی ضرورت ہے تو وہ ہم سے آکسیجن چھین رہی ہے کہ ہم نے اس سے اس کے پیڑ پودے، جنگلات چھین لئے، ندیوں کا رُخ اپنی مرضی سے بدل دیا، سیمنٹ اور کنکریٹ کے جنگلات اُگا دیے.
کورونا کی وبا نے پھر موقع دیا ہے مدد کا ہاتھ بڑھانے کا، اپنے غموں کو بھول کر دوسروں کے غم بانٹنے کا، تو آؤ اس حزن العام یعنی غموں کے سال میں دکھ درد بانٹو. نئے طریقوں سے جینا اور حالات سے لڑنا سیکھو اور سکھاؤ. تو اٹھو، اپنے رشتہ داروں، عزیزوں دوستوں، محلہ داروں، سے فون ملاؤ ان کی خیر خیریت طلب کرو، خوش رہو اور خوشیاں بانٹو. کسی بھی ضرورت مند کے کام آؤ. حکومت ظالم ہو سکتی ہے، بھید بھاؤ کر سکتی ہے، مگر تم نہیں کر سکتے کہ تم پر بہترین انسان بننے کا بوجھ اور اس کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے یہی تو اللہ کی نمائندگی (خلافت) کو نبھانا ہے.نفرت کرنے والوں کے دل موم کرو، اپنے ملک اپنی مٹی، اپنی آب و ہوا سے پیار کرو اس کا حق نبھاؤ، ہر غم کو غلط کرو، ہر اداسی اور اپنوں اور غیروں کی شکایت کرنا بند کرو. وہ غیر کہاں اپنے ہی تو ہیں. یہ عید اچھے دل اور اچھی عقل سے مناؤ . یہ حزن العام ہے، اسے عید العام بناؤ.
(13 مئی 2021 ،اندور ،انڈیا)
صاحب مضمون کی پچھلی تحریر یہاں پڑھیں : شادی اور طلاق

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے