مرزا غالب کی فارسی نعت گوئی

مرزا غالب کی فارسی نعت گوئی

 

طفیل احمد مصباحی 


مرزا اسد اللہ خاں غالب کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ۔ غالب کے غلبۂ شعر و سخن اور علوئے فکر و فن کا ایک جہاں قائل ہے ۔ وہ کون سی شعری عظمت ہے جو  اس بادہ خوار شاعر کو حاصل نہیں اور وہ کون سا فکری امتیاز ہے جو اس دانائے سخن کو میسر نہیں ۔ شاعر ، ادیب ، مفکر ، فلسفی ، باکمال غزل گو ، قصیدہ و مثنوی نگار اور نعت و منقبت کے ایک عظیم المرتبت شاعر کی حیثیت سے ان کا رتبہ کافی بلند ہے ۔ وہ اردو و فارسی کے ایسے مایۂ ناز شاعر تھے ، جن کو شعرائے متقدمین کی یادگار اور متاخرین کا پیشوا کہا جاتا ہے ۔ غالب نہایت ذہین ، طباع ، بلند فکر اور جینئس تھے ۔ ان کی بلند قامت شاعری نے اردو زبان کا سر فخر سے بلند کر دیا ۔ اردو اور فارسی زبان و ادب پر انہیں غیر معمولی دسترس حاصل تھی ۔ انہوں نے اردو و فارسی شاعری کی مختلف اصناف غزل ، قصیدہ ، مثنوی ، نعت و منقبت ، قطعات اور رباعی میں طبع آزمائی کی ہے ۔ لیکن غزل و قصیدہ ان کا خاص میدان تھا ۔

غالب کا شمار عالمی سطح پر اردو کے صفِ اول کے شعرا میں ہوتا ہے ۔ غالب کو شہرت و مقبولیت ان کے اردو ” دیوان ” کی بدولت ملی ۔ حالاں کہ یہ خود اپنی اردو شاعری کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے اور اسے پارٹ ٹائم جاب سمجھتے تھے ۔ غالب نے اس حقیقت کا بارہا اظہار کیا ہے کہ شعر و سخن کا اصل جوہر دیکھنا ہو تو میری فارسی نظم اور فارسی کلام کا مطالعہ کرو ۔ غالب کے فارسی دیوان و کلیات واقعی اس لائق ہیں کہ ان کو فارسی کے قادر الکلام شعرا کے دواوین و کلیات کے مقابل رکھا جا سکے ۔

غالب کی حیات اور ان کی اردو شاعری کے مختلف گوشوں پر اب تک ہزاروں مضامین اور سینکڑوں کتب و رسائل تحریر کیے جا چکے ہیں ، لیکن ان کی فارسی شاعری و فارسی نعت گوئی کو وہ اہمیت نہیں دی گئی ، جس کی وہ مستحق تھی ۔ غالب اردو کے علاوہ فارسی کے ایک عظیم المرتبت اور مسلم الثبوت شاعر تھے ۔ عربی و فارسی ادبیات پر ان کی گہری نظر تھی ۔
غالب نے اردو کی طرح فارسی زبان میں بھی مختلف اصناف پر طبع آزمائی کی ہے ۔ کلیاتِ غالب و دیوانِ غالب میں غزل ، قصیدہ ، مثنوی ، قطعات ، رباعی اور تاریخ گوئی کے شہکار نمونے موجود ہیں ۔ غالب کی فارسی نعت گوئی کے نمونے غزل ، قصیدہ ، مثنوی اور مخمس کے فارم میں دستیاب ہیں ۔ لیکن انہوں نے سب سے زیادہ نعتیں ، مثنوی کے انداز میں کہی ہیں ۔ ” مثنوی ابرِ گہر بار ” کا معتد بہ حصہ ان کی فارسی نعت گوئی کا قابلِ قدر نمونہ ہے ۔ مجموعی اعتبار سے اس مثنوی کو اگر ” گنجینۂ معنی کا طلسم ” کہا جائے تو بجا ہے ۔ غالب کی چھوٹی بڑی مثنویوں کی تعداد چودہ ( 14 ) ہے ۔ ” ابرِ گہر بار ” سب سے طویل مثنوی ہے ، جس کے اشعار کی کُل تعداد باختلافِ روایت ایک ہزار یا اس سے بھی زائد ہے ۔ مثنوی ابرِ گہر بار کا چوتھائی حصہ نعت پر مشتمل ہے ۔ حمد و مناجات اور منقبتِ مولیٰ علی کو چھوڑ کر نعتیہ مضامین پر مشتمل اشعار کی تعداد تین سو سینتیس ( 337 ) ہے ۔ 57 / اشعار میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و محاسن اور 280 / اشعار میں واقعۂ معراج کے تفصیلی احوال قلم بند کیے گئے ہیں ۔ نعت گوئی کے حوالے سے اگر غالب کچھ نہ بھی لکھتے تو یہی مثنوی ، نعت گو شاعر کی حیثیت سے ان کے تعارف کے لیے کافی ہوتی ۔ ” مثنوی ابرِ گہر بار ” کی ابتدا حمد سے ہوتی ہے ۔ حمدیہ اشعار کی تعداد ایک سو سے زائد ہے ۔

سپاسے کزو نامہ نامی شود
سخن در گذارش گرامی شود

( اس حمد سے مثنوی کا آغاز کرتا ہوں جس سے تحریر کی آبرو بڑھ جاتی ہے اور سخن کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوتا ہے )

حمد و مناجات کے بعد نعت گوئی کا زرّیں سلسلہ شروع ہوتا ہے اور غالب اپنے مخصوص لب و لہجے میں اپنے نبی کی مدحت سرائی کا یوں آغاز کرتا ہے :

بنامِ ایزد اے کلکِ قدسی صریر
بہر جنبش از غیب نیرو پذیر

دل آویز تر جنبشے ساز کن
بجنبش رقم سنجے آغاز کن

اے وہ قلم جس کی سرسراہٹ فرشتے کے نزول جیسی ہے ، اللہ کے نام سے شروع کر ۔ تیری ہر جنبش کو غیب سے قوت ملتی ہے ۔ اے قلم ! اپنی دل آویز حرکت دکھا اور اس سے نعت گوئی کی ابتدا کر ۔

درودے بہ عنوانِ دفتر نویس
بہ دیباچہ نعتِ پیمبر نویس

محمد کز آئینۂ روئے دوست
جز اینش ندانست دانا کہ او ست

زہے روشن آئینۂ ایزدے
کہ دروے نگنجیدہ زنگِ خودے

ز رازِ نہاں پردۂ بر زدہ
ز ذاتِ خدا معجزے سرزدہ

تمنائے دیرینۂ کردگار
بوے ایزد از خویش امید وار

( مثنوی ابرِ گہر بار ، ص : 14 ، ناشر : اکمل المطابع ، دہلی )

ترجمہ : اے قلم ! دفتر یعنی مثنوی کے سرنامے پر درود شریف لکھ اور نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام کا آغاز کر ۔ حضور علیہ السلام کی ذات جلوۂ پرور دگار ہے ۔ عقل مندوں کو اللہ اور اس کے آخری نبی میں معبود و عبد کے علاوہ کوئی فرق نظر نہیں آتا ۔ اللہ عز و جل کے اس روشن آئینے کا کیا کہنا ، جس میں خودی ( یعنی الگ سے اپنے وجود ) کا زنگ تک نہیں لگا ۔ حضور کی ذات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک معجزہ ہے ۔ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم مشیتِ الہیٰ کی ایک خوب صورت مثال ہیں ۔ خدا کی رضا ان کی رضا میں شامل ہے ۔

اس کے علاوہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے نورانی جسم ، آپ کی رفتار و گفتار ، صدورِ معجزات ، کشادہ قلبی ، نرم مزاجی ، زبانِ مبارک کی تاثیر ، صدورِ معجزات اور دنیا و آخرت میں بندگانِ خدا پر آپ کی شفقت و رافت کا تذکرہ غالب نے دریائے عشق و الفت میں ڈوب کر کیا ہے ۔ یہ اشعار دیکھیں اور غالب کی نعتیہ شاعری کا رنگ و آہنگ ملاحظہ کریں :

تن از نور آلودہ سرچشمۂ
و لے ہمچوں مہتاب در چشمۂ

بہر جام از و تشنۂ جرعہ خواہ
بہر گام از و معجزے سر براہ

کلامش بہ دل در فرود آمدن
زدم جستہ پیشی بزود آمدن

خرامش بہ سنگ از قدم نقش بند
بہ رنگے کہ نادیدہ پایش گزند

بہ دستش کشادِ قلم نا رسا
بہ کلکش سوادِ رقم نا رسا

دل امید  جائے زیاں دیدگاں
نظر قبلہ گاہِ جہاں دیدگاں

بہ رفتا صحرا گلستاں کنے
بہ گفتار کافر مسلماں کنے

بہ دنیا ز دیں روشنائی دہے
بہ عقبیٰ ز آتش رہائی دہے


( مثنوی ابرِ گہر بار ، ص : 14 )

( 1 ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسمِ اقدس نور سے ڈھکا ہوا ایک سرچشمہ ہے ، جیسے چاند کا عکس کسی چشمے میں محدود ہو ۔
( 2 ) پیاسا انسان ان کے قطرۂ جام کا محتاج ہے ۔ ان کی ذات سے ہر گھڑی معجزے کا ظہور ہوتا ہے ۔
( 3 ) آپ کا کلام بڑی آسانی سے دل میں اتر جاتا ہے ۔ گویا نیچے اترنے میں وہ سانس پر سبقت لے جاتا ہے ۔
( 4 ) جب آپ قدم رکھتے ہیں تو پتھروں پر اس کے نشان ابھر آتے ہیں اور آپ کے قدم کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ۔
( 5 ) آپ کے مبارک ہاتھوں میں قلم پہنچ جانے کے بعد اپنی جولانی بھول جاتا ہے اور ان کے قلم تک تحریر کی سیاہی پہنچ نہیں پاتی ۔
( 6 ) ان کا دل زیاں کاروں یعنی نقصان اٹھانے والوں کی امید گاہ ہے اور ان کی نظر جہاں دیدہ لوگوں کا قبلہ ہے ۔
( 7 ) آپ کے قدموں کی برکت سے صحرا میں پھول کھِل جاتے ہیں اور آپ کی میٹھی گفتگو سے کافر مسلمان ہو جاتا ہے ۔
( 8 ) آپ دنیا میں دین کی روشنی پھیلاتے ہیں اور آخرت میں گنہگاروں کو جہنم سے بچاتے ہیں ۔

نعت گوئی کے لیے جس حسنِ عقیدت اور ادب و احترام کو ملحوظ رکھنا چاہیے ، غالب نے حتی المقدور اس کا خیال رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ اندازِ بیان منفرد اور طرزِ ادا محتاط ہے ۔ ہر شعر عشق و عقیدت کے جذبوں سے سرشار ہے ۔ نعت گوئی کے دوران اگر چہ وہ اپنے رہوارِ تخیل کو تیز گام کرتے ہیں ، بایں ہمہ اپنے قدم کو دائرۂ شریعت سے باہر نہیں جانے دیتے ۔

پروفیسر نیر مسعود لکھتے ہیں :

غالب جب خود اپنا بیان کرتے ہیں تو ایک عالمِ بے اختیاری میں تخیل کو بے لگام چھوڑ دیتے ہیں اور جب ذاتِ رسول و نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کرتے ہیں تو احتیاط کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے چوکس ( محتاط ) ہو جاتے ہیں ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا نعتیہ کلام گرمیِ اندیشہ ( گرمیِ خیال ) سے خالی یا معنیٰ آفرینی و نازک خیالی سے محروم ہے ۔ تقابلی مطالعے کے بعد بھی محسوس ہوتا ہے کہ غالب کی فارسی شاعری کی تقریباً تمام اعلیٰ خصوصیتیں ان کے نعتیہ کلام میں بھی موجود ہیں ۔ ان کا یہ شعر نعتیہ شاعری کے عمدہ نمونوں میں رکھا جا سکتا ہے :

چناں بود کہ ببیند بہ خواب کس خود را
از او مشاہدۂ حق بہ عین بیداری

( مجلہ غالب نامہ ، ص : 221 ؛ 222 ، ناشر : غالب انسٹی ٹیوٹ ، دہلی )

نعت کے حوالے سے اس قسم کے سینکڑوں دل آویز اشعار ” مثنوی ابرِ گہر بار ” میں موجود ہیں ۔ صفحات کی قلت تفصیل کی اجازت نہیں دیتی ۔ اس مثنوی کے علاوہ ” مثنوی بیانِ نمو داری شانِ نبوت و ولایت ” میں بھی نعت کے تعلق سے مواد موجود ہے ۔ غالب نے اس مثنوی میں ” حقیقتِ نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ” پر بڑی نفیس گفتگو کی ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

صورتِ فکر ایں کہ باری چوں کند
تا ز جیبِ غیب سر بیروں کند

جلوہ کرد از خویش ہم بر خویشتن
داد خلوت را فروغِ انجمن

جلوۂ اول کہ حق بر خویش کرد
مشعل از نورِ محمد پیش کرد

شد عیاں زاں نور در بزمِ ظہور
ہر چہ پنہاں بود از نزدیک و دور

نورِ حق ست احمد و لمعانِ نور
از نبی بر اولیا دارد ظہور

( مثنویاتِ غالب ، ص : 95 ، ناشر : غالب انسٹی ٹیوٹ ، دہلی )

یعنی جب اللہ عز و جل نے اپنی ربوبیت کا جلوہ دکھانا چاہا اور غیب کے پردے سے ظہور کا ارادہ فرمایا تو اس نے اپنی ذات پر تجلی کر کے خلوت کو جلوت کی رونق عطا کر دی ۔ جنابِ باری تعالیٰ نے جب اپنے اوپر جلوہ کیا تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نور کی مشعل سامنے رکھ دی ۔ ( یعنی اللہ نے اپنے نور سے حضور کے نور کو پیدا کیا ) اور اس نور کی مشعل سے کائنات روشن ہو گئی ۔ احمد یعنی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نورِ الہیٰ ہیں ۔ آپ کے نور سے اولیائے کرام مستفید و مستنیر ہوتے ہیں ۔

فصاحت و بلاغت ، زورِ تخیل ، بلند آہنگی ، فکر و جذبہ کی باہمی آمیزش ، نظریہ و فلسفہ ، مضمون آفرینی و معنی آفرینی کلامِ غالب کی نمایاں ترین خصوصیت ہے ۔ غالب کی مشکل پسندی اپنی جگہ ، لیکن مجموعی اعتبار سے ان کے فکر و خیال میں تنوع اور معنوی تہہ داری پائی جاتی ہے ۔ ان کی فارسی نعتیہ شاعری بھی انہی اوصاف سے متصف ہے ۔ دیوانِ غالب ( فارسی ) کا وہ نعتیہ قصیدہ جس کا مطلع ” آں بلبلم کہ در چمنستاں بہ ساخسار ” ہے ، اس میں غالب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و کمالات کا تذکرہ بڑے والہانہ انداز میں کیا ہے ۔ آپ کو فخرِ بشر ، امامِ رسل ، قبلۂ امم ، جیسے اوصاف سے یاد کیا ہے اور آپ کے جسمِ اطہر کا سایہ نہ ہونے کا سبب یہ بتایا ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجودِ پاک نورِ خداوندی کا مظہر ہے ، لہٰذا وہ نور ہوئے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا ۔

فخرِ بشر ، امامِ رسل ، قبلۂ امم
کز شرع او ست قاعدۂ دانس استوار

دانی چہ است کہ اثرِ جلوۂ قدس
بر خاک نقشِ سایہ نہ گردید آشکار

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمِ گرامی ” احمد ” کے حوالے سے غالب نے جو نکتہ بیان کیا ہے ، وہ اپنی جگہ قابلِ قدر اور شاعر کی بلند پرواز فکر کا واضح ثبوت ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ کا نام ” احمد ” اپنے اندر ایک طلسمی خزانہ رکھتا ہے ۔ اس طلسم کی نقاب کشائی کے لیے قدرت نے ایک قاعدہ مقرر کیا ہے اور وہ اس طرح کہ لفظِ احمد سے حرفِ میم کو ہٹا دیا جائے ، جو ذاتِ نبی کا پردہ دار ہے ۔ تو اب لفظِ احمد ، احد بن جائے گا ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے نام ( احمد ) کو اپنے نام ( احد ) پر رکھا ہے ، لیکن عبد و معبود میں فرق و امتیاز کے لیے بیچ میں ” میم ” کا پردہ ڈال دیا ہے اور جب ذاتِ احمدی کی معرفت کی برکت سے میم کا پردہ ہٹ گیا اور ” احد ” ظاہر ہو گیا تو اسمِ جلالت ” اللہ ” کا ” الف ” اپنا جلوہ دکھا رہا ہے ۔ اب حاء و دال کو آپس میں جوڑ دو تو بارہ کا عدد برآمد ہوگا جو کہ ائمہ اہلِ بیت کی تعداد ہے ۔

حقا کہ لفظِ احمد و لطفے کہ تحت او ست
گنجے است شائیگاں و طلمسے است استوار

اما پئے کشایشِ ایں معنوی طلسم
فطرت شگرف قاعدۂ کردہ اختیار

باید نخست میم ز احمد فرا گرفت
کاں میم اسمِ ذاتِ نبی را ست پردہ دار

ہر کہ بہ یمنِ معرفتِ ذاتِ احمدی
میم از میانہ رفت و احد گشت آشکار

بے پردہ بنگر از الف اللہ جلوہ گر
و ز حاء و دال بشمرد و دریاب ہشت و چار

( دیوانِ غالب فارسی ، ص : 125 ، ناشر دار السلام ، دہلی )

اسی طرح غالب کا مندرجہ ذیل نعتیہ کلام کافی مشہور ہوا اور اس کا مقطع ( غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتم ) تو آج بھی صنفِ نعت گوئی کی دشواری کے حوالے سے بطورِ سند پیش کیا جاتا ہے ۔ اس کلام کا ہر ایک شعر بلکہ ہر مصرع فکری و فنی اور معنوی لحاظ سے عمدہ ہے ۔ غالب نے اس کلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شایانِ شان تعریف و توصیف کی ہے اور قرآن و حدیث کی روشنی میں حضور کے فضائل و کمالات اور بالخصوص آپ کے اختیار و معجزہ کو اجاگر کیا ہے ۔ مطلع کا دوسرا مصرع ” آرے کلامِ حق بزبانِ محمد است ” در اصل قرآن کی مشہور آیت ” و ما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحیٰ ” کی ایک خوب صورت ترجمانی ہے ۔ تیسرا شعر ( تیرِ قضا ہر آئنہ در ترکشِ حق است ) ندرتِ فکر اور جدتِ اسلوب کی اچھوتی مثال ہے ۔

حق جلوہ گر ز طرزِ بیانِ محمد ﷺ است​
آرے کلامِ حق بزبانِ محمد ﷺ است​

آئینہ دارِ پرتوِ مہر است ماہتاب​
شانِ حق آشکار زِ شان محمد ﷺ است

تیرِ قضا ہر آئنہ در ترکشِ حق است​
اما کشادِ آں ز کمانِ محمد ﷺ است​

غالبؔ ثنائے خواجہ بہ یزدان گزاشتم​
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد ﷺ است

( دیوانِ غالب فارسی ، ص : 35 ، ناشر : مطبع منشی نولکشور ، لکھنؤ )



دیوانِ غالب فارسی میں موجود دونوں نعتیہ قصیدے بھی اپنے اندر بڑی وسعت و معنویت رکھتے ہیں ۔ غالب نے قصیدے کے اجزائے ترکیبی اور اس کے پُر شکوہ اسلوب کا لحاظ رکھتے ہوئے نہایت اچھوتے انداز میں نعتیہ اشعار پیش کیے ہیں ، جن کے لفظ لفظ سے عشق و وفا کی خوشبو پھوٹتی ہے ۔ یہ دو شعر دیکھیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مُطاعِ آدم و عالَم ، وکیلِ مطلق اور دستورِ باری کہا گیا ہے اور پوری کائنات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض و کرم اور جود و بخشش کا دریا رواں ہونے کی بات کی گئی ہے ۔

مطاعِ آدم و عالم محمدِ عربی
وکیلِ مطلق و دستورِ حضرتِ باری

افاضۂ کرمش در حقائقِ آفاق
بسانِ روح در اعضائے جانور ساری

( دیوان غالب فارسی ، ناشر : دار السلام ، دہلی )


فارسی شاعری میں جان محمد قدسی کی نعتیہ غزل ” مرحبا سیدِ مکی مدنی العربی ” کو بے پناہ شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی اور اس کی تضمین بڑے بڑے شعرا اور قد آور اساتذہ نے لکھی ، جس کا مجموعہ ” حدیثِ قدسی ” کے نام سے شائع ہو چکا ہے ۔ مرزا غالب نے بھی اس نعتیہ غزل کی تضمین کی ہے ، جو فصاحت و بلاغت ، سلاست و روانی ، جدت و ندرت اور حسنِ عقیدت کا ایک دل آویز مرقع ہے ۔ غالب کی یہ نعتیہ تضمین شرعی اور فنی نقطۂ نظر سے ایک کامیاب تضمین ہے ، جس میں تضمین نگاری کے اصول و شرائط بدرجۂ اتم موجود ہیں ۔ یہ شعر دیکھیں :

اے کہ روئے تو دہد روشنی ایمانم
کافرم کافر ، اگر مہرِ منیرش خوانم
صورتِ خویش کشید است مصور دائم
” من بیدل بجمالِ تو عجب حیرانم
اللہ اللہ ! چہ جمالست بدیں بو العجبی "

غالب کے خامۂ اعجاز رقم نے اس جگہ غایت درجہ عقیدت کا اظہار کیا ہے اور اس حقیقت کا برملا اعتراف کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخِ زیبا میرے ایمان کو روشنی فراہم کرتا ہے ۔ مہر یعنی سورج آپ کے رخِ پُر نور کا عکس اور پرتو ہے ، لہٰذا آپ کو ” مہرِ منیر ” کہوں تو میں کافر ہوں ۔

اے گلِ تازہ کہ زیبِ چمنی آدم را
باعثِ رابطۂ جان و تنی آدم را
کردہ دریوزۂ فیض غنی آدم را
” نسبتِ نیست بذاتِ تو بنی آدم را
برتر از عالم و آدم تو چہ عالی نسبی "

حسبِ سابق غالب کے یہ تینوں تضمینی مصرعے عشق و عقیدت کے ترجمان ہیں ۔ ” گلِ تازہ ” اور ” زیبِ چمنِ آدم ” کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضل و کمال کا غالب نے بڑے والہانہ انداز میں خطبہ پڑھا ہے ۔ نیز حضور کو آدم علیہ السلام کے جسم و روح کے درمیان رابطے کا سبب گردانا ہے اور آپ کے ابرِ بارانِ فیض سے حضرت آدم کے فیض یاب ہونے کا مبنی بر حقیقت تذکرہ کیا ہے ۔

خلاصۂ کلام یہ کہ غالب کی فارسی نعت گوئی قابلِ قدر ہے اور فکری و فنی لحاظ سے اس میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں ، جو ان کی دیگر اصناف میں پائی جاتی ہیں ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ غالب کا تعارف شاعرِ نعت کی حیثیت سے بھی کیا جائے ۔ اخلاق و کردار کے لحاظ سے غالب کی پوزیشن جو بھی ہو ، لیکن عشق و عقیدت سے آراستہ ان کی نعت و منقبت گوئی سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔

طفیل مصباحی کی پچھلی نگارش : سید امجد ربانی کے نعتیہ کلام کا جمالیاتی کینوس

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے