ٹی او ڈی

ٹی او ڈی

ڈاکٹر ذاکر فیضی 

وہ اسٹوری ٹیلر کے نام سے اس قدر مشہور ہوچکی تھی کہ لوگ اس کا اصل نام تک نہیں جانتے تھے۔ کبھی کبھی اس کے فن اور شخصیت پر کوئی مضمون شائع ہوتا تھا تو اس کا اصل نام سامنے آجاتا تھا ورنہ وہ زمانے کے لئے اسٹوری ٹیلر ہی تھی۔ دنیا کے بہت سے ملکوں کے بڑے بڑے شہروں میں اس نے اپنے شو کئے تھے۔ وہ کئی زبانوں پر عبور رکھتی تھی، اس نے کہانی سنانے کے فن کو بلندیاں عطا کی تھی۔ وہ شاندار قصہ گو تھی۔ اس کی تخلیق کردہ کہانیاں بے حد دل چسپ اور نرالی ہوتی تھیں ۔ اس نے اپنی کہانیاں سنانے کے لئے داستانوی انداز اختیار کیا تھا۔ اسٹوری ٹیلر کے خیال میں لوگ وہاٹس ایپ، فیس بک اور سوشل میڈیا کی دیگر مصروفیات سے اکتا چکے تھے۔ اس نے کتابیں لکھنے اور فلم یا ٹی وی کے لئے اسکرپٹ لکھنے کے بجائے اسٹوری ٹیلنگ کا طریقہ اختیار کیا۔
وہ ایک پروگرام کی بڑی رقم وصول کیا کرتی تھی۔ اس کے شو بڑی بڑی کمپنیاں منعقد کرتی تھیں۔ جس کے ٹکٹ مہنگے دام میں فروخت ہوتے تھے۔ پروگرام کے منتظمین کو بہ مشکل تمام اس کی تاریخ ملا کرتی تھی۔ اس کی شہرت امیر اور اعلی طبقے میں زیادہ تھی۔ وہ معاشرے کی ہائی سوسائٹی کے لئے تفریح اور لطف اندوز ہونے کا نیا انداز بن کر ابھری تھی۔ اس کے مداحوں میں بڑے آفیسر، ڈاکٹر، بزنس مین، فن کار، اسپورٹس مین اور فلم اسٹار تھے۔ اس کے شو دیکھنے والوں کو سماج میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
آج کی اس کی یہ اسٹوری ٹیلنگ ایک بڑے ملک کی راجدھانی کے ایک عظیم الشان آڈیٹوریم میں منعقد کی جارہی تھی۔ وہ اس ملک میں اپنی داستان پہلی بار سنا رہی تھی۔ لوگ بے قراری سے اسٹوری ٹیلر کے اسٹیج پر جلوہ افروز ہونے کے منتظر تھے کہ پروگرام کا آرگنائزر اسٹیج پر آیا اور سامعین سے مخاطب ہوا:
’’دوستو! آپ کا انتظار اب ختم ہونے جارہا ہے۔ ہمارے ملک کے لئے، ہم سب کے لئے یہ فخر کا مقام ہے کہ اسٹوری ٹیلر نے ہماری درخواست پر ہمارے ملک میں شو کرنے کی منظوری دی۔ اب کچھ ہی دیر میں اسٹوری ٹیلر آپ سے رو برو ہوں گی ۔ ہم اپنے ملک کی طرف سے ، اپنی کمپنی کی طرف سے اور آپ سب کی طرف سے اسٹوری ٹیلر کا تہہ دل سے خیر مقدم کرتے ہیں۔ تو صاحبو! استقبال کریں اسٹوری ٹیلر کا۔‘‘
آرگنائزر شکریہ ادا کرکے چلا گیا تو اسٹوری ٹیلر اپنے مخصوص انداز میں اسٹیج پر جلوہ افروز ہوئی، وہ بے حد حسین اور دل فریب لگ رہی تھی۔ اس کا چست لباس اس کی دل کشی کو ابھار رہا تھا۔ اس نے ایک ادائے دل ربائی سے سامعین کی طرف فلائنگ کس اچھالی۔ مگر اسے بے حد حیرانی ہوئی کہ ناظرین محض اسے دیکھے جارہے تھے۔ اسے اپنی کس کا کوئی بھی رد عمل ان کی طرف سے نہیں ملا۔ ایسے موقعوں پر اکثر ناظرین سیٹیاں بجانا شروع کردیتے تھے اور تالیوں کی گڑ گڑاہٹ سے ہال کی دیواریں دہل جاتی تھیں۔
’’دوستو!‘‘ اسٹوری ٹیلر نے کان میں لگے مائک کو اپنے ہونٹوں کے آگے درست کرتے ہوئے کہا۔۔۔’’امید ہے کہ میری آج کی یہ کہانی، یہ تخلیق آپ کو ضرور پسند آئے گی۔ آپ اس سے یقینا لطف اندوز ہوں گے۔ میری آج کی کہانی کا نام ہے ٹی او ڈی۔‘‘
اس نے چند لمحے سامعین پر نگاہ دوڑائی تاکہ کہانی کے عنوان کا تاثر جان سکے، سارا مجمع دم بخود تھا۔ سب کی سانسیں تھم سی گئی تھیں۔ ایک سکوت کا عالم تھا۔ اسٹوری ٹیلر کو عجیب سا محسوس ہوا۔
اس نے کہانی سنانی شروع کی۔
’’ایک بہت عظیم الشان ملک تھا۔ جس کا نام گلستان تھا۔اس کی شاندار تاریخ، اس کی تہذیب و تمدن، ثقافت، اس کی شان و شوکت اور عظمت کا چرچا دنیا بھر میں تھا۔ مگر چند دہائیوں سے جن حکمرانوں نے ملک کی زمہ داری سنبھالی تھی وہ اس کی عظمت کو برقرار نہ رکھ سکےتھے۔ ‘‘
یہ کہہ کر اسٹوری ٹیلر نے چند لمحوں کے لئے خاموشی اختیار کی اور ہال میں موجود لوگوں کی جانب نگاہ دوڑائی۔ خاموشی مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔۔۔۔ اس نے آگے کہا۔۔۔ ’’ پھر اس ملک کی باگ ڈور ایک ایسے شخص نے اپنے ہاتھوں میں لے لی جو مکار، چالاک اور موقع پرست تھا۔ اس نے اپنے آس پاس خوشامد کرنے والوں کی فوج تیار کر رکھی تھی، جو اس کے اشارے پر کام کرتے تھے۔ دل چسپ بات یہ تھی کہ ملک کے کچھ دانشوروں کے خیال میں وہ بہت بڑا احمق تھا۔ اسی مناسبت سے وہ عوام کے ایک بڑے طبقے میں احمق ہی مشہور ہوگیا تھا۔۔۔۔ احمق کی ’حماقت‘ کے چرچے ملک سے نکل کر غیر ممالک میں بھی ہونے لگے تھے۔۔۔۔ ملک جادو نگری کو اس کی حماقتوں کا علم ہوا تو اس کے حاکم جادو گر نے فورا حکمت عملی تیار کی اور اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لئے احمق کے ملک کے سفر کا ارادہ کیا اور احمق کو بھی جادو نگری میں آنے کی دعوت دی۔ ‘‘
اسٹوری ٹیلر کچھ دیر رکی اور لمبا سانس کھینچ کر پھیپھڑوں کو تازگی بخشنے کے بعد گویا ہوئی۔۔۔

’’ معزز حاضرین! یہ بات واضح رہے کہ جادو نگری نے اپنی جادو گری سے کئی ملکوں پر غیر اعلانیہ قبضہ کر لیا تھا۔ جادو گر تمام دنیا پر اپنا جادو چلانا چاپتا تھا۔۔۔۔ اب اس کی نظریں گلستان پر تھیں۔ اس کے لئے یہ سنہری موقع تھا۔ جادوگر گلستان پر اور بالخصوص احمق کی کارگزاریوں پر گدھ کی نگاہ رکھے ہوئے تھا۔ ملک گلستان کی بائیں بازو کی خفیہ رپورٹ تو یہ بھی بتاتی تھی کہ احمق کا گلستاں کا حاکم بننے میں جادوگر کا ہاتھ تھا۔ احمق نے اب جادو نگری کی چوکھٹ پر حاضری دینا شروع کردی تھی۔
اس بار جب احمق جادو نگری کے سفر پر گیا تو جادو گر اسے اپنے طلسماتی محل کے خفیہ کمرے میں لے گیا اور بولا۔۔۔’’ دیکھئے حاکم گلستاں! ہم چاہتے ہیں کہ گلستان ترقی کرے، مگر ۔۔۔۔۔۔” جادو گر خاموش ہوگیا۔
’’مگر کیا حضور۔۔۔‘‘ احمق نے اپنی نہ نظر آنے والی دم ہلاکر وفاداری کا ثبوت دیا۔۔۔۔ ’’ آپ تو بس حکم کریں..؛؛
” در اصل بات یہ ہے کہ گلستان کی عوام بیدار مغز نہیں ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ خوابوں کی دنیا میں‌رہتی ہے، اپنی خیالی دنیا سے باہر ہی نہیں آتی.” جادو گر نے اپنے چہرے پر زبردستی فکر کے تاثرات لاتے ہوئے کہا.
” میں‌جانتا ہوں‌حضور، مجھے اپنے ملک کی عوام کی نادانیوں‌کا اعتراف ہے. ” احمق نے مایوسی کا اظہار کیا.

” حضور، آپ کچھ مدد کریں، میری رہنمائی فرمائیں.” ”ہاں ہاں کیوں‌ نہیں.” جادو گر کسی ایسے ہی موقع کی تلاش میں تھا. اس کے چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ تھی..

” اگر آپ چاہتے ہیں تو میں‌ مدد کو تیار ہوں. اس کے لیے آپ کو اپنی عوام سے ایک ٹٰیکس وصول کرنا ہوگا. اس ٹیکس کی وصولی کے لیے جس طرح کی بھی مدد کی ضرورت ہوگی جادو نگری کرے گی.” ایک اور نئے ٹیکس کے نام پر احمق خوش ہوگیا، اسے جنتا پر نئے نئے ٹیکس لگانے کا خبط تھا.

” حضور! اب یہ بھی بتادیجئے ، یہ ٹیکس کس طرح کا ہوگا اور مجھے کیا کرنا ہے؟ ” احمق نے پوچھا. ” دیکھئے ہم چاہتے ہیں کہ …..” جادو گر نے نہایت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا …” دنیا کا ہر ملک ترقی کرے. پس ماندہ ملک ہو یا پھر ترقی پزیر. ترقی کرنا، آگے بڑھنا، ہر انسان، طبقے، قوم اور ملک کا حق ہے. ہم نے ‘عالمی جادوئی تنظیم’ میں‌بھی اس بات کا اظہار کیا تھا کہ عوام کو ایک دوسرے سے نفرت اور خود غرضی سے دور رکھا جائے اور عالمی سطح پر بھی امن اور بھائی چارہ پھیلے. ہم چاہتے ہیں کہ آپ کا ملک خوب آگے بڑھے، کیوں‌ کہ آپ ہمارے دوست ہیں.” جادو گر نے ٹیبل سے مشروب اٹھا کر احمق کی طرف بڑھایا. جادو گر کے اس رویہ میں مہمان نوازی کا عنصر کم اور شکار کو پھانسنے کا معاملہ زیادہ محسوس ہورہا تھا. جادو گر نے آگے کہا….. دیکھئے حاکم گلستاں! جادو نگری کے ایک سائنس داں نے ایک ایسی ایجاد کی ہے، جس سے کسی بھی انسان کے خوابوں کو ریکارڈ کیا جاسکتا ہے. ایک بہت چھوٹی سی چپ جس کو انسان کے بازو میں‌ معمولی آپریشن کے زریعے فٹ کردیا جائے گا، وہ جب بھی کوئی خواب دیکھے گا، ایک مخصوص کمپیوٹر میں‌ریکارڈ ہوجائے گا، وہ خواب جاگتی آنکھوں کا ہو یا پھر نیند میں‌ آنے والا خواب ہو.

”تو پھر ۔۔۔؟ ‘‘ احمق نے اپنی حماقت دکھائی۔

’’پھر کیا۔۔۔سمجھو۔۔۔‘‘ جادو گر نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’ پھر یہ کہ آپ کو اپنے ملک کے ہر باشندے کے بازو میں یہ چپ فٹ کرانی ہوگی اور تب جو بھی کوئی خواب دیکھے گا، اس سے ٹیکس وصول کرنا ہوگا۔ اس سے دو فائدے ہوں گے ، اول یہ کہ ٹیکس کی رقم سے فلاحی کام کرائیے گا اور دوسرے آپ کی عوام خوابوں سے نکل کر عملی دنیا میں آجائے گی ۔ آپ کا ملک تیز رفتاری سے ترقی کرے گا۔ ‘‘ 

یہ سن کر احمق کو کچھ تشویش ہوئی ، اس نے اپنی ساری ہمت و حوصلہ سمیٹ کر کہا۔۔۔۔’’ حضور جان کی کی امان پاوٗں تو تو عرض کروں؟ ۔۔۔اس چپ کا استعمال آپ اپنے ملک کی عوام پر بھی کر رہے ہیں ؟‘‘

جادو گر نے احمق کو ایسے دیکھا جیسے یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو کہ اتنی سمجھ داری کی بات اس کے دماغ میں آئی کیسے ۔ وہ سمجھ نہیں پارہا تھا کہ کیا جواب دے۔۔۔’’ جادو نگری کی عوام خواب نہیں دیکھتی عمل کرتی ہے۔‘‘ یہ جملہ تیزی سے کہہ کر جادو گر نے میٹنگ کے خاتمے کا اشارہ کردیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احمق نیا سبق سیکھ کر اپنے ملک گلستان واپس آیا ۔ اس نے فورا ایمرجنسی میٹنگ بلائی ۔ جس میں اس نے تمام وزیروں اور عہدے داروں کو اس چپ کی اطلاع دی۔ پھر اس نے باضابطہ اعلان کیا۔۔۔۔’’ ایک نیا محکمہ خواب و خیال قائم کیا جائے۔ اس محکمے کی تمام ذمہ داریاں میں خود سنبھالوں گا۔ اس کی ضروری کاروائیاں جلد سے جلد شروع  کی جائیں، اس کا م میں کسی بھی طرح کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ ‘‘ 

کہانی سناتے سناتے اسٹوری ٹیلر اچانک خاموش ہوگئی ، وہ مجمع پر نگاہیں دوڑانے لگی۔ پر طرف خاموشی تھی، پوری طرح سناٹا۔ اس کا اندازہ غلط ثابت ہوا، وہ سوچ رہی تھی کہ لوگ اس پر سوال کریں گے، بھلا ایسے کیسے ہوسکتا ہے۔ مگر خاموشی بتا رہی تھی کہ انھوں نے اس بات کو قبول کرلیا ہے۔ 

اسٹوری ٹیلر نے اپنے مخصوص انداز میں دونوں ہاتھوں کو اوپر لے جا کر نیچے جھٹکا اور ٓگے کہا۔۔۔’’ اور جب یہ خبر عوام تک پہنچی تو پورے ملک میں ہنگامہ ہوگیا ۔ اس نئے قانون کی زبردست مخالفت کی گئی ۔ لوگ یہ ٹٰیکس دینے پر کسی صورت راضی نہ تھے۔ ان کا کہنا تھا ہم یہ آپریشن کرائیں گے ہی نہیں ۔ 

مرکزی سطح پر جو محکمہء خواب قائم کیا گیا تھا، اس کی صوبائی شاخیں بنائی جانے لگیں ۔ ساتھ ہی پر ضلع میں اس کے مراکز قائم کئے گئے۔ ہر ضلع کے سرکاری اسپتالوں میں اس کا مخصوص شعبہ تیار کیا جانے لگا۔ حکومت نے اس کام کو تحریک کی شکل دے دی تھی۔ دیگر محکموں سے بھی مدد لی جارہی تھی۔ عوام الناس سے سیدھا تعلق بنانے کے لئے سرکاری کارندے جونئیر ڈاکٹر کے ہم راہ گھر گھر جاکر آپریشن کرکے گیہوں کے دانے کے برابر چپ ہر شخص کے بازو میں لگا  رہے تھے اور اس کا رابطہ ضلع کے محکمہ خواب و خیال کے دفاتر میں رکھے کمپیوٹر سے جوڑا جارہا تھا تاکہ دیکھے گئے خوابوں کو ریکارڈ کیا جاسکے اور اس کا بل بنا کر رقم وصول کی جائے۔ 

ظاہر ہے یہ کوئی معمولی اور چھوٹا کام نہ تھا۔ اس کے لئے وقت درکار تھا۔ اس کام میں خرچ ہونے والی رقم کے لئے جادونگری فنڈنگ کر رہی تھی اور ساتھ ہی اس نے اس کا م کے لئے سائنس داں، ڈاکٹر اور دیگر ’ماہرین‘ کا بھی انتظام کیا تھا۔ 

دوسری طرف حکومت میں بائیں بازو کی طاقت اس ٹیکس کے سخت خلاف تھی۔ مگر ان کی ایک نہ چلی۔ حکومت کا کام جاری رہا ۔ عوام میں زبردست ہلچل تھی، اس کے خلاف جلسے اور دھرنا پردرشن ہورہے تھے۔ ملک کا ذہین دانشور طبقہ بھی سڑکوں پر اتر آیا تھا۔ ہر شہر کے پبلک پارکوں میں آوازیں بلند ہورہی تھیں ۔ 

دفتروں اور چائے خانوں میں بھی اسی کا ذکر ہورہا تھا۔ ایک دفتر میں بڑے بابو نے کہا۔۔۔۔’’ میرے خیال میں اس ٹیکس سے ملک کو بہت فائدہ ہوگا۔‘‘ 

’’ جناب! آپ کس بنیاد پر ایسا کہہ رہے ہیں ؟ ‘‘ دوسرے بابو نے مخالفت کی۔ 

’’ دیکھو بھائی ، میں تو اتنا جانتا ہوں کہ ہمارے ملک کا حکمراں اور اس کی ٹیم بہت قابل لوگ ہیں ۔ انھوں نے یہ فیصلہ کیا ہے تو کچھ سوچ کر ہی کیا ہوگا۔ ‘‘ پاس میں بیٹھے کلرک نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا۔

’’ وہی تو میں کہہ رہا ہوں ۔‘‘ بڑے بابو نے ٹیبل پر ہاتھ مارا ۔۔۔ ’’ ہم سب کو خوابوں کی دنیا سے باہر نکلنا ہوگا۔‘‘ 

’’ یہ مت بھولو ، دنیا میں جس کسی طرح کی ایجادات ہوئی ہیں یا انسان نے کامیابی حاصل کی ہے اس کے پیچھے انسانوں کے خواب ہی ہیں ۔ ‘‘ کلر نے فائل کو ایک طرف کرتے ہوئے جھنجھلاہٹ سے کہا۔  

’’مگر میرے بھائی ایسے لوگ دنیا میں چند ہوتے ہیں، جن کے خواب انسانی نسل کے لئے مفید ہوں ۔‘‘ دوسرے بابو نے کہا۔ 

’’ ہمارے ملک کی عوام جس خوابوں کی دنیا میں رہتی ہے وہ بے حد خطرناک ہے۔‘‘ بڑے بابو بولے۔

’’ آپ درست فرما رہے ہیں ۔ خوابوں پر ٹیکس لگنا ہی چاہئے۔‘‘ کلرک نے چاپلوسی والے انداز میں کہا۔ 

’’خوابوں پر ٹیکس ۔۔۔۔اونہہ۔۔۔‘‘ دوسرے بابو نے جھنجھلا کر اخبار ٹیبل پر پٹخ دیا اور دفتر سے باہر چلا گیا۔

ملک کی یونیورسٹیوں میں بھی اس کے خلاف چرچے ہورہے تھے۔ ملک کی ایک مرکزی یونیورسٹی میں برابر احتجاج ہو رہا تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں طالب علم آزادی کا پرچم اٹھا ئے نعرے لگاتے گھوم رہے تھے۔۔۔

’’ہم کیا چاہیں ، آزادی !‘‘

’’سپنے دیکھنے کی آزادی‘‘

’’جینے کی آزادی‘‘ 

’’آزادی۔۔۔آزادی۔۔۔۔آزادی۔۔‘‘

مگر ان سارے ہنگاموں کا حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا۔‘‘

اسٹوری ٹیلر نے دائیں جانب دیکھا جہاں کونے میں ٹیبل پر پانی کی چھوٹی چھوٹی بوتلیں رکھی ہوئی تھیں ۔ وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ٹیبل کے قریب گئی ۔ اس نے پانی کی بوتل اٹھائی ایک ہی سانس میں بوتل خالی کردی۔ اس کے حلق سے پانی اندر جانے کی ’غڑپ غڑپ ‘ کی آوازیں کان میں لگے مائک کی وجہ سے سب کو سنائی دے رہی تھیں ۔ 

اسٹوری ٹیلر بہت پریشان تھی آخر کیوں آج کوئی ہاتھ اٹھا کر سوال نہیں کر رہا ۔ ایسے کیسے ہوسکتا ہے کہ اس کہانی پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوا؟ دوسرے ملکوں میں تو اس کہانی پر کئی اعتراض ہوئے تھے۔ ۔۔۔ وہ آگے بولی ۔۔۔’’ اور دوستو آخر کار وہی ہوا جو احمق چاہتا تھا ۔۔۔غریب اور لاچار عوام پر ایک ٹیکس لاد دیا گیا۔۔۔۔ خواب دیکھنے کا ٹیکس ۔ جی ہاں ٹی او ڈی۔ یہ ٹیکس دو قسم کا تھا، ایک جاگتی آنکھوں والے خوابوں کا ٹیکس اور دوسرا نیند میں آنے والے خوابوں کا ٹیکس ۔ دوسرے قسم کے ٹیکس کی رقم ، پہلے والے ٹیکس سے کم تھی۔ 

سرکاری خزانے میں لگاتار رقم جمع ہورہی تھی۔ لوگ خود کو خواب دیکھنے سے باز نہیں رکھ پارہے تھے۔ وہ بہت کوشش کرتے کہ خواب نہ دیکھیں مگر۔۔۔۔ بے خیالی میں خوابوں میں کھوجاتے اور گھر پر لگا خوابی میٹر چل پڑتا۔ غریب لوگ جتنا کماتے تھے، اس کا زیادہ تر حصۃ ٹیکس میں چلا جاتا تھا۔ کبھی کبھی آمدنی سے زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا۔ امیر اور اعلا طبقے کے لوگوں کو شروع میں ٹیکس ادا کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی مگر بعد میں وہ بھی لگاتار پیسہ دیتے دیتے اکتا چکے تھے۔ تب ان لوگوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اب کبھی کسی بھی حالت میں  خواب نہیں دیکھیں گے۔‘‘

اسٹوری ٹیلر کا گلا خشک ہوچکا تھا۔ وہ تھکان محسوس کر رہی تھی ۔ اس نے ایک بار پھر پانی پیا۔ اور نئی توانائی کے ساتھ کہانی کو آگے بڑھایا ۔ 

۔۔۔۔تو دوستو آپ کو کیا لگتا ہے کہ آگے کیا ہوا ہوگا۔؟ ‘‘۔۔۔۔

اسٹوری ٹیلر خاموش ہوگئی اور جواب کا انتظار کرتے ہوئے ، آگے کی قطار میں بیٹھے لوگوں کا چہرہ تکنے لگی۔ کوئی کچھ نہیں بولا۔ اسٹوری ٹیلر کو اس بات کی بالکل توقع نہیں تھی ۔ وہ مایوسی کے انداز میں کہانی کو اختتام کی طرف لے جانے لگی۔ 

’’ کئی لوگوں پر تو اس بات کا ہی ٹیکس لگا دیا گیا کہ وہ خواب دیکھنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ ۔۔تو پھر دوستو ! چند سالوں میں ہی صورت حال کچھ اس طرح ہوگئی کہ امیر اور اعلا طبقے کے لوگ غیر ممالک میں جابسے ۔ متوسط طبقے کے لوگوں نے بڑی تعداد میں خود کشی کرلی۔ بے شمار لوگ حکومت سے بغاوت کرنے ، فسادات اور بھوک سے مارے گئے ۔ ایک سروے کے مطابق کل ۳۳ فی صد آبادی باقی رہ گئی تھی جس نے بنا خوابوں کے جینا سیکھ لیا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو ایک مشین میں تبدیل ہوچکے تھے۔ ان میں انسانی احساسات و جذبات ختم ہوچکے تھے۔ یہ لوگ سانس لیتے تھے، مشین کی طرح کام کرتے تھے ، مشین میں ڈالے جانے والے تیل ، پٹرول کی طرح کھانا کھاتے تھے اور جس طرح مشینوں کی کبھی کبھی صفائی ہوتی ہے، اس انداز میں سیکس کرتے تھے۔ کچھ دیر بستر پر آرام کے لئے ایسے جاتے تھے جیسے مشین چلتے چلتے گرم ہوجاتی ہے تو اس کو ٹھنڈا کرنے کے لئے معمولی وقت کے لئے بند کر دیا جاتا ہے۔ ترقی ، تنزلی ، عزت ، ذلت ، اچھائی ، برائی ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی تھی ۔ تمام طرح کی جمالیاتی حس سے وہ ناواقف ہوچکے تھے۔ ‘‘ 

اسٹوری ٹیلر ایک بات پھر خاموش ہوگئی ۔ اس نے مایوسی کا ایک لمبا سانس چھوڑا ۔ ۔۔۔ اور بولی۔۔۔۔’’ احمق جو ایک بار پھر ملک کا حکمراں منتخب ہوگیا تھا ، وہ جادو نگری کی چوکھٹ پر بیٹھا اپنے ملک کی بربادی کے لئے آنسو بہا رہا تھا۔۔۔ ’’ میں سمجھ نہیں پارہا ہوں سرکار، اب میں کیاکروں ۔۔۔۔ تمام طرح کی صلاحیتیں گلستان سے ناپید ہوگئی ہیں، اب گلستان برباد ہوچکا ہے۔ ‘‘ 

یہ سن کر جادوگر مسکرایا اور بولا۔۔۔۔’’ ارے تو اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے؟ ہم گلستان کی حفاظت کے لئے نہ صرف یہ کہ اپنی فوجی طاقت کو آپ کے یہاں بھیجیں گے بلکہ ساتھ ہی ہر طرح کی صلاحیتیں بھی بھیجیں گے اور یہی نہیں بلکہ ملک کو نئے سرے سے آباد کرنے کے لئے ہم جادونگری کی عوام بھی وہاں بھیجیں گے ۔۔۔۔۔۔ اب تو خوش ہو نا حاکم گلستان۔۔۔۔ اور بولو۔۔۔۔۔‘‘

یہ سن کر احمق خوش ہوگیا۔ اور شکریہ ادا کرنے کے لئے جادو گر کے جوتے اپنی قمیض کے دامن سے صاف کرنے لگا۔‘‘ 

اسٹوری ٹیلر نے ایک لمبا سانس چھوڑا اور تھک کر قریب رکھی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

’’بس اتنی سی تھی یہ کہانی ۔‘‘ 

اسٹوری ٹیلر کہانی مکمل کرچکی تھی۔ مگر اسٹوری ٹیلر کے لئے مقام حیرت تھا کہ سامعین میں سے کسی نے تالیاں نہیں بجائی تھیں ، کسی بھی طرح کے رد عمل کا اظیار نہیں کیا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ یہ کیسے لوگ ہیں ہر احساس سے عاری ۔ سارے سامعین  کہانی سن کر آڈیٹوریم سے اس طرح باہر نکل رہے تھے جیسے ان کے بازو میں بھی کوئی چپ نصب ہو۔ 

ذاکر فیضی کا پچھلا افسانہ : ہریا کی حیرانیاں
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے