سلیمانی تنقید کے مختلف اسالیب و جہات

سلیمانی تنقید کے مختلف اسالیب و جہات


طفیل احمد مصباحی

رئیس المحققین حضرت علامہ سید سلیمان اشرف بہاری علیہ الرحمہ ( سابق صدر شعبہ دینیات مسلم یونیورسیٹی ، علی گڑھ ) کی تنقید نگاری کی مختلف جہتیں ہیں ۔ انھوں نے ادبی تنقید کے اصول و شرائط کی رعایت کرتے ہوئے حضرت امیر خسرو کی ” مثنوی ہشت بہشت ” کا تنقیدی جائزہ لیتے وقت بیک وقت تاثراتی تنقید ، تجزیاتی تنقید ، عمرانی تنقید ، تقابلی تنقید اور تاریخی تنقید کا نمونہ پیش کیا ہے ۔ یعنی ان کی تنقید نگاری میں تنقید کے مذکورہ انواع و اقسام موجود ہیں اور اردو تنقید کی تاریخ میں یہ سارے تنقیدی اسالیب و جہات عام ہیں ۔ پروفیسر کلیم الدین احمد جیسے محتاط بلکہ سخت گیر نقاد کی کتاب ” عملی تنقید ” اور نیاز فتح پوری کی تنقیدی کتاب ” مالہ و ما علیہ ” ؛ تجزیاتی تنقید کی نمائندگی کرتی ہے ۔ شبلی نعمانی نے ” موازنۂ انیس و دبیر ” میں تقابلی و تاثراتی تنقید کا نمونہ پیش کیا ہے ۔ ڈاکٹر عبد الرحمٰن بجنوری کی ” محاسنِ کلام غالب ” تاثراتی و تقابلی تنقید کی آئینہ دار ہے ۔ آئندہ صفحات میں سید سلیمان اشرف کی تنقید نگاری کے مختلف پہلوؤں ( اسالیب و جہات ) کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جاتا ہے ۔

سید سلیمان اشرف کی تاثراتی تنقید :

تاثراتی تنقید ، تنقید کی نہایت مشہور لیکن ادنیٰ اور معمولی قسم ہے ، جس میں فن اور فنکار کا مطالعہ محض جذبات و تاثرات کی جہت سے کیا جاتا ہے ۔ ایک معمولی پڑھا لکھا یا نرا جاہل شخص کوئی شعر سن کر بعض اوقات رسماً اور کبھی حقیقتاً سبحان اللہ ، ماشاء اللہ اور واہ واہ کی صدا بلند کر کے شاعر کو داد و تحسین سے نوازتا ہے ، یہ ایک طرح سے ” تاثراتی تنقید ” ہے ۔ تاثراتی نقاد یہی کام کسی فن پارہ کے بارے میں قرطاس و قلم کے ذریعے انجام دیتا ہے ۔ اردو تنقید کی تاریخ میں دیگر دبستانوں کی طرح ” تاثراتی تنقید کا دبستان ” بھی شروع سے موجود رہا ہے ۔ اردو تنقید کے اولین نمونے شعرائے اردو کے تذکروں میں ملتے ہیں ۔ محمد حسین آزاد کو اس تنقید کا موجد کہا جاتا ہے ۔ شبلی نعمانی ، عبد الرحمٰن بجنوری ، مہدی افادی ، رشید احمد صدیقی ، حسن عسکری وغیرہ تاثراتی تنقید کے نمائندہ ارکان مانے جاتے ہیں ۔ بعض اہلِ علم جمالیاتی تنقید اور تاثراتی تنقید کو ایک ہی چیز خیال کرتے ہیں ، لیکن یہ درست نہیں ۔ دونوں میں کچھ خصوصیات مشترک ضرور ہیں ، مگر دونوں کا طریقۂ کار جدا گانہ ہے ۔ جمالیاتی تنقید میں اگر چہ تاثرات کو اہمیت دی جاتی ہے ، لیکن اس کے علاوہ دیگر امور کا بھی اس میں خیال رکھا جاتا ہے ۔ تاثراتی تنقید ادب کا صرف ایک رخ سے مطالعہ کرتی ہے اور صرف یہ دیکھتی ہے کہ کسی فن پارے سے ذہن و فکر پر کیا تاثرات و احساسات مرتب ہوتے ہیں ۔ اگر اس سے قارئین کے دلوں پر خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں ، تو یقینا وہ فن پارہ قابل قدر ہے ۔

ڈاکٹر سلیم شہزاد ” تاثراتی تنقید ” کی اصطلاحی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :

وہ تنقیدی عمل جس میں ناقد فن کے مواد و موضوع کو معروضی اور تجزیاتی ڈھنگ سے بیان کرنے کے بجائے فن سے حاصل ہونے والے اثرات ( تاثرات ) کو اپنے جذبات کی زبان میں بیان کرتا ہے ۔ اسے ” رومانی تنقید ” بھی کہتے ہیں ۔ فن سے جمالیاتی حظ کا اکتساب اور اس اکتساب کو شاعرانہ نثر میں بیان کرنا ، تاثراتی تنقید کا اہم مقصد ہے ۔ اس قسم کی تنقید میں زبان کے متنوع استعمالات کا تجزیہ کرتے ہوئے جمالیاتی تصورات کو خاص اہمیت دی جاتی ہے اور فنی اقدار کو نظر انداز نہیں کیا جاتا ۔ چوں کہ اس تنقید میں ناقد کے جذبات خاصے رو بعمل ہوتے ہیں ، اس لیے اس پر ذاتی پسند حاوی رہتی ہے ، جسے ناقد کی کمزوری سمجھنا چاہیے ۔ اردو میں تاثراتی تنقید کی ابتدا محمد حسین آزاد کی تحریروں ( آبِ حیات ) سے ہوتی ہے اور امداد امام اثر ، نیاز فتح پوری ، اختر اورینوی اور فراق گورکھپوری وغیرہ اس کے اہم ناقدین شمار کیے جاتے ہیں ۔ مولانا شبلی کے ” موازنے ” میں اس قسم کی تنقید کے نشانات جا بجا دیکھے جا سکتے ہیں ۔ نئے دور میں مولانا صلاح الدین احمد ، محمد حسن حسکری اور آل احمد سرور اس کے علم بر دار ہیں ۔
( فرہنگِ ادبیات ، ص : ٢٠٠ – ٢٠١ ، منظر نما پیلیشرز ، مالیگاؤں )

علامہ سلیمان اشرف کی تنقید نگاری میں اگر چہ تنقید کے مختلف اسالیب و جہات موجود ہیں ، تاہم شبلی نعمانی ، نیاز فتح پوری ، مہدی افادی اور رشید احمد صدیقی وغیرہ کی طرح وہ بنیادی طور پر تاثراتی نقاد ہیں اور تاثراتی تنقید کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ اگر چہ نقدِ سلیمانی کا نصف حصہ ” تاثراتی تنقید ” پر مشتمل ہے ۔ لیکن ان کی تنقید میں ہر جگہ تحقیقی و تخلیقی شان پائی جاتی ہے ۔ ” مقدمۂ مثنوی ہشت بہشت ” اور ” المبین ” ان کی اعلیٰ تنقیدی بصیرت کی منہ بولتی تصویر ہے ۔ وہ جہاں شعر و ادب کے خارجی پہلوؤں کو سراہتے ہوئے نہایت شاندار انداز اور انوکھے اسلوب میں اپنے جذبات و تاثرات کا اظہار کرتے ہیں ، وہاں اس کے داخلی اور معنوی پہلوؤں پر بھی نگاہ ڈالتے ہیں ۔
تاثراتی تنقید کی مثالیں ملاحظہ کریں :

امیر خسرو علیہ الرحمہ کو جو جامعیت کہ مبدئے فیاض سے عطا ہوئی ہے ، اس طرح کی بخششیں تاریخ کے صفحات میں بہت کم یاب و نادر ہیں ۔ خصوصاً سر زمین ہند کے لیے تو ان کی ذات ایک بے مثل مایۂ ناز و فخر ہے ۔ مختلف پہلوؤں سے ان کی ذات باکمالوں کی صف میں صدر نشیں پائی جاتی ہے ۔
اگر صوفی کی حیثیت سے دیکھو تو فانی فی اللہ ، ندیم کی حیثیت سے دیکھو تو ارسطوئے زمانہ ، عالم کی حیثیت سے دیکھو تو متبحر علامہ ، موسیقی کی حیثیت سے دیکھو تو امام المجتہد ، مؤرخ کی حیثیت سے دیکھو تو بے نظیر محقق ، شاعر کی حیثیت سے دیکھو تو ملک الشعراء ، ان کے ہر کمال کا دامن نہایت وسیع ہے اور اپنے بیان میں طوالت پذیر ۔

لیس علی اللہ بمستنکر
ان یجمع العالم فی واحد

( الانھار – مقدمۂ مثنوی ہشت بہشت ، ص ٦١ ، نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی ، لاہور )

خسرو علیہ الریمہ میں یہ کمال ہے کہ نظم کی کوئی قسم ایسی نہیں ہے جس میں ان کے قلم کی روانی دریا کی موجوں کی طرح لہریں نہ مارتی ہو ۔ اگر چہ ان کا وجود دورِ ثالث کے شعرا میں پایا جاتا ہے ، لیکن ان کے کلام کی یہ خصوصیت ہے کہ ہر دور کے محاسن ان کے کلام میں موجود ہیں ۔ سادگی و سنگینی و استواری جو دورِ اول کی ممتاز خصوصیت ہے ، ان کے کلام میں بکثرت اس کے نمونے پاؤگے ۔ رنگینی ، لطافت اور ملائمت جو دورِ ثانی کا کمالِ ہنر ہے ، اس آرائش سے بھی کلامِ خسرو بکمال و تمام مزین و مرصع ہے ۔ ہر طرح کے اساسِ مضامین ، اکثار و فراوانی کے ساتھ خزانۂ خسروی میں پائے جاتے ہیں ۔ یہ امر محتاجِ بیان نہیں کہ خسرو کا دور ایسے زمانے میں آتا ہے جب کہ نظم پوری آرائش سے آراستہ و پیراستہ ہو چکی تھی ۔ اسلاف نے ہر طرح کے مضامین کا احاطہ کر لیا ہے ۔ زبان بھی صنائع و بدائع سے مرصّع ہو چکی ہے ۔ شاعری کی بحث میں ابھی تم پڑھ چکے ہو کہ معانی کی کمی فردوسی نے پوری کر دی ۔ الفاظ میں تراش خراش اور رنگینی دورِ ثانی کے شعرا کر چکے ہیں ۔ اب تیسرے دور میں کیا رہ جاتا ہے ۔ بقولِ خود امیر خسرو :

در محفلِ وصالت دریا کشند مستاں
چوں دورِ خسرو آمد مے در سبو نماند

باوجود اس تنگی و کشاکش کے یہ صرف خسرو ہی کا کمال ہے کہ نہایت قادر الکلامی سے ایسا سدا بہار چمن کھِلا گئے جس کے پھول آج تک نہ کمہلائے اور اس کی شامّہ نواز لپٹ عطر مجموعہ کی طرح گوناگوں خوشبوؤں سے اربابِ ذوق کے دماغ کو معطر کرتی رہی ۔
( مصدرِ سابق ، ص : ٦٢ – ٦٣ )

تاثراتی تنقید میں بعض اوقات نقاد اندھے بھکت کا روپ دھار لیتے ہیں اور ہر قسم کے اچھے برے اشعار پر ان کا وجدان و قلم رقص کرنے لگتا ہے ۔ سلیمان اشرف صاحب کی تاثراتی تنقید میں یہ عیب نہیں پایا جاتا ۔ وہ کلام کی لفظی و معنوی خوبی دیکھ کر ہی اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہیں اور اس کے لیے ایسا پیرایۂ بیان اختیار کرتے ہیں کہ بس دیکھا کیجیے ۔ مثال حاضر ہے :

خسرو کے تخیل کا کمال اور کلام میں درد :

تصوف کا سب سے وسیع ترین حصہ وہ ہے جس میں عشقیہ روش ( عشقِ حقیقی کا اظہار ) کی آمیزش ہوتی ہے ۔ اس کی بنیاد سعدی علیہ الرحمہ نے ڈالی تھی ، جس پر ایک قصرِ عالی شان خسروِ اقلیمِ سخن نے تعمیر کردیا ۔ بیان کی اس صنف میں خصوصیت کے ساتھ ان کا تخیّل بہت ہی بلند ہے ، جس سے ان کا تخیل ، تخیل باقی نہیں رہتا بلکہ وہ گوشت و پوست و استخواں سے درست ملکوتی روح پھونکی ہوئی مورتیں ہوتی ہیں ۔ تمثیلاً ذیل کے اشعار دیکھو :

گل اندر خواب گاہِ نرگس افتد چوں و زو بویت
و لیکن عشق بازاں را کسک در خواب گاہ افتد

ز چشمت کاروانِ صبرِ من تاراج کافر شد
مسلماناں کسے دیدست کاندر شہرِ راہ افتد

فصلِ نو روز کہ آورد طرب بر ہمہ خلق
چشمِ بد دور ، مرا موسمِ باراں آورد

ہر سحر باد کہ بر سینۂ من کرد گزر
در چمن بوئے کباب از پئے مستاں آورد

ان اشعار کو دیکھو تخیل کیسا اعلیٰ ہے اور پھر کلام میں کس طرح درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہے کہ دل تڑپ کر رہ جاتا ہے ۔ وہ ( امیر خسرو ) شاعرانہ حیثیت سے بھی اعلیٰ مطہر ملکوتی عالم میں حسن و عشقِ حقیقی کے خیالات میں محو اور دوسرے نازک تر جذبات و لطائف میں غرق زندگی بسر کرتے تھے ۔
( الانھار – مقدمۂ مثنوی ہشت بہشت ، ص : ٤٥ – ٤٦ )

تنقیدِ شعر و ادب کے لیے سخن فہمی و نکتہ سنجی نہایت ضروری ہے ۔ تفہیمِ شعر اور تفہیمِ ادب کے بغیر تنقید کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ سید سلیمان اشرف کی سخن فہمی اور نکتہ سنجی کا زمانہ قائل ہے ۔ ان کا مطالعۂ ادب ( بشمول عربی و فارسی و اردو ) بڑا گہرا ہے ۔ وہ ادب کے جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں ، اسے آئینہ بنا کر چھوڑتے ہیں ۔ تحقیق و تنقید اور لسانیات سے متعلق ان کے جو فکر انگیز مباحث گذشتہ صفحات میں گذرے ، ہمارے دعویٰ کو ثبوت فراہم کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ موصوف نے حضرت امیر خسرو کے کلامِ بلاغت نظام کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا ہے ۔ کبھی کلامِ خسرو کی لفظیات کا محققانہ تجزیہ کرتے ہیں اور کبھی معنیاتِ خسروی پر تنقید کا نشتر چلاتے ہیں ۔ کبھی ان کی غزل گوئی و مثنوی نگاری پر مدلل و مفصل تبصرہ کرتے ہیں اور کبھی صنائع و بدائع کی تلاش میں کلامِ خسروی کے چہرے سے نقاب سرکاتے ہیں ۔ غرض کہ ایک بالغ نظر محقق اور دیدہ ور نقاد کا جو مقام و منصب ہے ، وہ اس کا بہر گام ثبوت دیتے ہیں ۔ پہلے امیر خسرو کے کلام میں تخیل ، درد آگیں لہجہ اور سوز و گداز کا ذکر کیا ( جیسا کہ مندرجہ بالا اقتباس میں بیان ہوا ) اور اب اس کے اسباب و عوامل کا پتہ لگاتے اور تاثراتی تنقید کا نمونہ پیش کرتے ہوئے خامۂ سلیمانی یوں گُہر افشانی کرتا ہے :

اس درد آگینی کی وجہ صاف ( ظاہر ) ہے ۔ ” آں چہ از دل خیزد بر دل ریزد ” ۔ ان کو اہلِ دل گروہ ( صوفیائے کرام ) سے واسطہ تھا ۔ ناسوت و ملکوت ، جبروت و لاہوت اور ان چاروں سے ماورا جو عالم ہیں ، ان کی سیر سے ان کی چشمِ بینا بصارت حاصل کیے ہوئے تھی اور انہیں عالَموں کی آب و ہوا میں ان کے قوائے باطنی نے پرورش پائی تھی ۔ دل خستہ تھا اور آتشِ عشق سے برشتہ ( بھُنا ہوا ) ۔ زبان صرف دل کی ترجمان تھی اور بس ۔ خسرو دل کی برشتگی و سوختگی کچھ ازل سے ہی لے کر آئے تھے ، جس کو چشتی نسبت نے اور بھی بھڑکا دیا تھا ۔ اس پر شیخ طریقت حضرت سیدنا نظام الدین اولیا سلطان المشائخ محبوبِ الہٰی رضی اللہ عنہ بحرمتہ کی توجہِ ظاہری و باطنی جب پڑتی تو اس آتش کی شعلہ فشانی افسردہ دلوں کو اور بھی جلا کر خاکستر کر دیتی ۔
( مصدرِ سابق ، ص : ٧٧ – ٧٨ )

تاثراتی تنقید کا یہ انداز کچھ حد تک ” عمرانی تنقید ” کا نمونہ بھی پیش کرتی ہے ۔

سید سلیمان اشرف مرحوم نے امیر خسرو کی غزلیہ شاعری پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ امیر خسرو غزل میں سعدی شیرازی کے متبع و مقلد ضرور تھے ، لیکن انہوں نے اپنی جودتِ طبع اور فکرِ رسا کے سہارے غزلیات میں اسلوب و مواد کے لحاظ سے گراں قدر اضافے بھی کیے ہیں ۔ تاثراتی و تجزیاتی اسلوبِ تنقید سے لبریز یہ پوری بحث پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ موضوع سے متعکق ہم یہاں صرف دو نمونہ قارئین کی بصارتوں کی نذر کرتے ہیں :

غزل کی صنف میں کس طرح کے اضافے ہیں جو خاص دماغِ خسرو کے مرہونِ منت ہیں ، ان کی مجمل فہرست یہ ہے :
بحروں کی موزونی ، تشبیہ و محاورات کی جدت ، بیان کا اعجوبہ اسلوب ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن سے غزل میں جان پڑ جاتی ہے ۔ غزل کا کمال یہ ہے کہ درد ، سوز و گداز ، شکستگی و نیاز ، عشق کی ہنگامہ آرائی ، حسن کی دلکشی و دلربائی اس طرح عام محاورہ اور روز مرہ کی بول چال میں ادا ہو کہ اس میں کسی طرح کی پیچیدگی نہ پائی جائے ۔ اسلوبِ بیان ایسا ہو جس سے دل شگفتہ ہو جائے ۔ تشبیہ ایسی لطیف ہو کہ جذبات میں ہلچل پڑ جائے ۔ واقعاتِ عشق اس طرح کہے جائیں کہ سننے والے کو بھی عاشق پر رحم آ جائے ۔ غزل میں شاعر کا بس یہی کمال ہے ۔ اس جگہ چند اشعار لکھے جاتے ہیں ، تاکہ ہر ایک کی مثال ناظرین کے سامنے ہو ۔ مثلاً : ایک وہ شخص جس کے مسلّمہ فضل و کمال نے اسے محسودِ خلائق بنا رکھا تھا ۔ عاشق ہو کر سب کچھ کھو بیٹھتا ہے ۔ اب وہ حاسدوں سے کہتا ہے : خوش ہو کہ تمہاری مرادیں پوری ہوئیں ۔ دیکھو میں وہی یکتائے زمانہ ہوں ، لیکن اب نہ فضل مجھ میں رہا نہ کمال ۔ اس مضمون کو خسرو اس انداز سے ادا کرتے ہیں کہ سننے والے کا دل بھر آتا ہے ۔

حسد می بردی اے دشمن بعقل و دانشِ خسرو
بیا تا بر مرادِ خاطرِ خود بینی اکنونش !!

( الانھار یعنی مقدمۂ مثنوی ہشت بہشت ، ص : ٨٣ – ٨٤ )

نظم کے پرکھنے والے اربابِ بصیرت کا یہ فیصلہ ہے کہ خسرو کے بعض بعض اشعار ایسا بلند پایہ رکھتے ہیں کہ ہر شعر ایک دیوان کی قوت رکھتا ہے ۔

زلفت ز ہر دو جانب خوں ریزِ عاشقان ست
چیزے نمی تواں گفت روئے تو درمیان ست

رخِ خود بپوش ، ورنہ رقمِ منجماں را
بہ حسابِ ہشتم آخر بہ شمار خواہی آمد

خلاصہ یہ کہ غزلوں میں خسرو کا مستانہ وار نعرہ دل ہلا دیتا ہے اور یہاں ان کا تیر بے خطا ثابت ہوتا ہے ۔ کہیں کہیں ان کی نمکینی سعدی کی شیرینی پر چشمک زن ہے ۔ اپنی تمنا ، اپنی آرزو ، اپنا انتظار ، اپنی ناکامی ، اپنی بے قراری ، اپنی پریشانی کی جو تصویریں اپنی غزلوں میں انہوں نے کھینچی ہیں ، وہ گویا جیتی جاگتی ، بولتی چالتی چڑیاں ہیں ، جو اپنی درد انگیز آواز سے دل ہلائے دیتی ہیں ۔
( ایضاً ، ص : ٨٦ – ٨٧ )

تاثراتی تنقید میں صرف یہی نہیں کہ ادب و فن اور شاعر و ادیب کی عظمتوں کا دل کھول کر قصیدہ پڑھاتا ہے ، بلکہ اس میں زبان و بیان کے متنوع استعمالات اور دیگر جمالیاتی اقدار و تصورات بھی زیرِ بحث لائے جاتے ہیں ۔ سید سلیمان اشرف کی تاثراتی تنقید میں یہ وصف و خصوصیت ہر جگہ موجود ہے ۔ موصوف نے مقدمۂ مثنوی ہشت بہشت میں ” فارسی شاعری کے لفظی و معنوی امتیازات و خصوصیات ” پر جس انداز سے ناقدانہ کلام کیا ہے ، وہ ہمارے لیے تحقیق و ادب کا مرقع اور تنقیدی شہ پارہ کی حیثیت رکھتا ہے اور جہاں تک زبان و بیان کے نوع بنوع استعمالات اور جمالیاتی اقدار و تصورات کی بات ہے تو اس سلسلے میں موصوف کی بلند پایہ تصنیف ” المبین ” اپنی نظیر نہیں رکھتی ۔ یہ کتاب بیک وقت لسانی تحقیق ، ادبی تنقید اور اس کے متعدد انواع و اسالیب کا ایک دل آویز نمونہ ہے ۔

سید سلیمان اشرف نے امیر خسرو کی مثنوی گوئی کی تنقید کے ضمن میں ان کی مذہبی شاعری ، غزل گوئی اور قصائد نگاری پر سیر حاصل بحث کی ہے اور ان اصنافِ سخن کی جمالیاتی قدروں کو بڑے دلنشیں پیرائے میں اجاگر کیا ہے ۔ مثال حاضر ہے :

شوکت و ندرتِ الفاظ ، مسائلِ علمیہ ، مقدماتِ حکمیہ ، دقائقِ سلوک و تصوف ، اصطلاحاتِ علومِ مختلفہ ، دقتِ معانی ، صنائع و بدائع لفظی و معنوی ، خصوصاً تجنیس و ترصیع ، بلند پروازی و مبالغہ وغیرہ ، قصائد نویسی کے زیور ہیں ۔ خسرو کا خزانۂ خیال ان سارے متاع ( قصیدہ کے اجزائے ترکیبی ) سے مالا مال تھا ۔ پھر جس فراونی سے وہ اس کو لٹا سکتے تھے ، وہ کچھ کہنے کی بات نہیں ۔ ان کے کلیات کو اٹھا کر دیکھو ۔ مختلف بحور و قوافی میں پچاسوں قصیدے پاؤگے اور نہایت سیر ( مکمل ) …………….. ہم یہاں محض ایک دو نمونے قصائد خسروی کے درج کرتے ہیں ، تاکہ ایک مجمل اندازہ ان کی قصائد نویسی کے متعلق ناظرین کر سکیں ۔ موعظت و اخلاق میں ان کا ایک قصیدہ ہے ، جس کا نام بحر الابرار یا دریائے ابرار ہے ، نہایت ہی مکمل اور سیر حاصل ہے ۔ اس میں یہ التزام ہے کہ ہر شعر کا پہلا مصرع دعویٰ اور دوسرا دلیل پر مشتمل ہے ۔ دو شعر اس کے یاد ہیں ، انہیں کو لکھتا ہوں :

عاشقی رنج ست و مرداں را بسینہ راحت ست
سلسلہ بند ست و شیراں را بگردن زیور ست

راہ رو چوں دریا کوشد او مرید شہوت ست
بیوہ زن چوں رخ بیاراید بہ بندِ شوہر ست

چند قصائد ان کے صنعتِ لف و نشر مرتب میں ہیں ، جن میں علاء الدین خلجی کی مدح کی ہے ۔ تین شعر نمونتاً اس میں سے بھی لکھ دیتا ہوں :

کجا خیزد چوں تو سروے جوان و نازک و نوبر
شکر گفتار و شیریں کار و گل رخسار و مہ پیکر

نباشد چوں لب و اندام و گیسو درخت ہرگز
شکر شیریں و گل رنگیں و شب مشکین و شب اذفر

( ایضاً ، ص : ١٠٠ / ١٠١ )

فلسفیانہ مسائل و موضوعات میں امیر خسرو کی مہارت اور ان کے بیان پر قدرتِ اظہار کے حوالے سے لکھتے ہیں :

شاعر کی جادو گری و سحر نگاری کے جو مواقع ہیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ خشک علمی مضامین کو اپنی رنگین بیانی سے ایسا آراستہ کرے کہ صحیح مسائل کا بیان دل آویز و دل پذیر ہوجائے ۔ جس نے فلسفہ و حکمت میں ان مسائل کو پڑھا ہوگا ، وہی سمجھ سکتا ہے کہ ان دقیق مسائل کو خسرو نے کس محققانہ طریقے سے ادا کیا ہے ۔ جو مسائل کتبِ حکمیہ میں چند صفحوں میں بیان ہوئے ہیں ، وہ انہیں چند اشعار میں بیان کر دیتے ہیں ۔
( الانھار ، ص : ١٠٢ )

تاثراتی تنقید جس میں بعض اوقات کلام کے لفظی محاسن اور ادب پارے کی ظاہری خصوصیات پر بھی ناقدانہ نظر ڈالی جاتی ہے ، نقدِ سلیمانی میں جا بجا اس کی مثالیں موجود ہیں ۔ اس ضمن میں فاضل ناقد نے ” مثنوی ہشت بہشت ” میں موجود صنائع و بدائع ، صنعتِ اقتباس از آیاتِ قرآنی اور ترکیبِ الفاظ سے لحن کی صورت و کیفیت ، ہندی الفاظ کا استعمال اور فصلِ بَہار وغیرہ جیسے جمالیاتی مباحث پر نہایت شاندار انداز میں گفتگو کی ہے ، جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یہ عبارت دیکھیں :

اختراعِ معانی و صنائع و بدائع میں خسرو ، خسروِ شاعرانِ سلف و خلف ہیں ۔ اگر ان کے اختراعات کی بحث چھیڑی جائے تو ایک دفتر طویل ہوگا ……………. ان کے کلام میں اکثر الفاظ کی ترکیب و نشست میں ایک لحنِ خاص پیدا ہوتا ہے اور اسی لحن کے تطابق سے پڑھنے والے کے دماغ میں جذبات کی لہریں موجیں مارنے لگتی ہیں ۔ مثلاً : ذیل کے اشعار اور مصرعے ملاحظہ ہوں :

گنج برد رنج دے گنج سنج
در کششِ گنج ہمی برد رنج

باش بکامم کہ بکامِ تو ام
زندہ و نازندہ بنامِ تو ام

سناں قاراں ، قلم ہاماں ، علم خاقاں ، دہل سنجر

…………………………………

ہندی ( اردو ) کے الفاظ بھی نہایت سلاست سے بے تکلف استعمال کر جاتے ہیں ، جس سے کلام میں چاشنی پیدا ہو جاتی ہے ۔ مثلاً :

ہم بہ نشستہ چوں در پالکی نہ چرخ کہار آمدہ

خان کڑہ جھجوے کشور کشا
کز لبِ شاہاں کڑا دارد بہ پا

دوسرے مصرع میں لفظ ” کڑہ ” سے وہی پاؤں کا زیور مراد ہے ۔

آیاتِ کلام الہٰی ( صنعتِ اقتباس ) سے اپنے کلام میں یہ ایسی مرصع کاری کرتے ہیں کہ دل پھڑک اٹھتا ہے ۔ تمثیلاً
ذیل کے اشعار ملاحظہ ہوں :

حرز کلہ بستہ ز ” اوحیٰ بہ ”
چتر سیہ کردہ ز ” اسریٰ بہ ”

زیر نگیں عرصۂ ملک جمش
خطبۂ ” ھب لی ” رقمِ خاتمش

” نعبد ایاک ” طرازِ علم
” فاخلع نعلیک ” مقامِ قدم

( مقدمۂ مثنوی ہشت بہشت ، ص : ١٣٨ / ١٣٩ )

تشبیہ و استعارہ کی خوبی :

تاثراتی تنقید کے ضمن میں سید سلیمان اشرف مرحوم نے امیر خسرو کی واقعہ گوئی ، تمثیل نگاری اور خصوصیت کے ساتھ ” کلامِ خسرو کے تشبیہاتی و استعاراتی نظام ” پر مدلل و مفصل گفتگو فرمائی ہے ۔ تفصیل کے لیے اصل کتاب کی جانب مراجعت کریں ۔ ہم یہاں صرف تشبیہ و استعارہ کے حسن و خوبی سے متعلق ایک اقتباس نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں ، تاکہ موصوف کے تنقیدی افکار کا اندازہ ہو سکے ۔ حسنِ تشبیہ و لطفِ استعارہ سے متعلق خامۂ سلیمانی یوں گوہر افشانی کرتا ہے :

نظم ہو یا نثر ، حالتِ فرحت و انبساط ہو یا رنج و اضمحلال ، تشبیہ و استعارہ سے شعرا کا کلام بہت کم خالی رہتا ہے ۔ بلکہ بعض اوقات بے ساختہ جذبات کا اظہار تشبیہ و استعارہ میں ہو جاتا ہے ۔ مثلاً : کمر ٹوٹ گئی ، چھاتی پھٹ گئی ، دل خون ہوگیا ۔ حالاں کہ ایک غم زدہ ، مصیبت کا مارا تصنع و تکلف کر نہیں سکتا ۔ یہ تو جذبات کا زور ہے جو اس کے منہ سے کلماتِ استعارہ میں نکل رہے ہیں ۔ اب ایک ایسی چیز جو اس قدر عام ہو ، سلسلۂ نظم میں کس قدر ندرت و لطافت چاہے گی ۔ شاعر کا اس صنفِ صنعت میں کمال یہ ہے کہ اس کے استعارے اور تشبیہ ایسی سلاست و روانی سے نظم ہوئے ہوں جس میں تکلف یا پیچیدگی کا شائبہ تک نہ ہو ۔ ایسی جدت و ندرت اس تشبیہ و استعارہ میں ہو کہ اسے سن کر سامع میں شگفتگی پیدا ہوجائے ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ استعارے میں پیچیدگی نہ ہو ۔ جدت ہو ۔ زور ہو ، لیکن سامع کو سمجھنے میں تکلف نہ ہو ۔
( الانھار ، ص : ٢٣٨ )

سید سلیمان اشرف کی تاریخی تنقید :

علامہ سید سلیمان اشرف کی خالص تنقیدی کتاب ” مقدمہ مثنوی ہشت بہشت ” کا تقریبا چوتھائی حصہ ” تاریخی تنقید ” پر مشتمل ہے ، جس میں انہوں نے فارسی زبان و ادب کی تاریخ ایک مؤرخ کی حیثیت سے بیان کی ہے اور اس کے آغاز ، تدریجی ارتقا اور متعلقہ ادوار کے تمدنی حالات پر سیر حاصل گفتگو کی ہے اور تاریخی تناظر میں ان اسباب و عوامل کا پتہ لگایا ہے جن سے فارسی شاعری اور بالخصوص صاحبِ مثنوی حضرت امیر خسرو کی شاعری متاثر ہوئی ہے ۔ اسی طرح فارسی شاعری کے دورِ اول ، دورِ دوم ، دورِ سوم اور دورِ چہارم و پنجم میں موجود شعراء کے کلام کی ادبی و فنی خصوصیات پر خالص تنقیدی انداز میں گفتگو کی ہے ۔ سید صاحب کے اس تنقیدی شہ پارے ( مقدمہ مثنوی ہشت بہشت – معروف بہ ” الانھار ” ) کا انداز و اسلوب تقریباً وہی ہے ، جو شبلی نعمانی کی ” شعر العجم ” کا ہے ۔ بلکہ زبان و بیان اور مواد کی وسعت کے لحاظ سے یہ اس سے بھی فائق و برتر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے ممتاز ادیب و محقق ، شبلی نعمانی کے رفیقِ خاص اور مولانا ابو الکلام آزاد کی ” غبارِ خاطر ” کے مکتوب الیہ نواب حبیب الرحمٰن خان شروانی نے سید سلیمان اشرف کے ” مقدمۂ مثنوی ہشت بہشت ” کو شبلی نعمانی کی ” شعر العجم ” سے بہتر کتاب قرار دیا ہے ۔ بہرکیف ! علامہ موصوف کی یہ کتاب بیک وقت تاثراتی تنقید ، تجزیاتی تنقید اور تقابلی و تاریخی تنقید کا گراں قدر مجموعہ ہے ۔ تاریخی تنقید کا مفہوم اور موصوف کی تاریخی تنقید سے متعلق چند معلومات افزا اقتباس ملاحظہ کریں ۔

تاریخی تنقید کیا ہے ؟

تاریخی تنقید میں شعر و ادب اور فنکار کو تاریخی تناظر میں تنقید کی دور بیں نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ۔ ادیب کے علمی و ادبی ماحول ، سماجی حالات و غیرہ کا گہرائی سے جائزہ لیا جاتا ہے اور اس کے فکر و فن کی قدر و قیمت متعین کی جاتی ہے ۔

پروفیسر گیان چند کے بقول :

تنقید کی دو قسمیں تاریخی اور سماجیاتی ہیں ۔ دونوں میں بہت کچھ مشترک ہے ۔ تاریخی تنقید میں فن پارے کو جانچنے کے لیے فنکار کو جاننا ضروری قرار دیا جاتا ہے اور اسے جاننے کے لیے اس کے تاریخی ماحول کو ۔ ان سب کے بارے میں واقفیت بہم پہنچانا تحقیق کا کام ہے ۔ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں نے ڈاکٹر سید عبد اللہ کے ایک مضمون کا اقتباس نقل کیا ہے ، جس کے چند جملے یہ ہیں :

تاریخی تنقید میں کسی ادیب کے ماحول کو تاریخ کی روشنی میں دیکھ کر تاریخ ہی کی طرح بیان کیا جاتا ہے …………. تنقید کسی طرح کی ہو ، اسے تاریخ ، تخلیقات ، اجتماعیات یا نفسیات سے قریب تر ہونا پڑتا ہے ۔
( تحقیق کا فن ، ص : ٤٠ ، قومی کونسل اردو ، دہلی )

سید سلیمان اشرف نے اپنی تاریخی تنقید میں حضرت امیر خسرو کے عہد کی تاریخ ، طرزِ معاشرت اور اس وقت کے ملکی و سماجی حالات سے قطعِ نظر صرف اس عہد کی ” ادبی تاریخ ” پر روشنی ڈالی ہے ۔ مصنف کا مقصد چوں کہ امیر خسرو کی شاعری اور بالخصوص ان کی مثنوی نگاری کا تنقیدی جائزہ لینا تھا ، اس لیے انہوں نے صاحبِ مثنوی کے عہد کی ملکی اور سیاسی و سماجی حالات سے تعرض نہ کرتے ہوئے ، صرف اس دور کے ادبی ماحول ، شعری مذاق اور مثنوی نگاری کی سمت و رفتار کا ناقدانہ تجزیہ کیا ہے اور چوں کہ کسی ادیب یا فنکار کے فن اور ادب کو جانچنے ، پرکھنے کے لیے شعری و نثری ادوار کا تحقیقی جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے ، اس لیے مصنف نے فارسی شاعری کے چھ ( ٦ ) ادوار کا ذکر تفصیل سے کیا ہے اور ہر دور کے شاعروں پر اپنے تنقیدی آرا پیش کرنے کے بعد امیر خسرو کے بارے میں بتایا ہے کہ ان کے کلام میں ہر دور کی ادبی و شعری خصوصیات موجود ہیں ۔

فارسی زبان کے اقسام ؛ تعارف و تجزیہ :

زبانِ فارسی کی سات قسمیں پائی جاتی ہیں :

( ١ ) فارسی ( ٢ ) دری ( ٣ ) پہلوی ( ٤ ) سغدی ( ٥ ) ہروی ( ٦ ) سکزی ( ٧ ) زاولی

ہمارے مصنفین جب ان زبانوں کی حقیقت بیان کرتے ہیں تو ان کا اضطراب عجیب عجیب پہلو سے کروٹیں لیتا ہے ۔ حالاں کہ بات صرف اس قدر ہے کہ یہ تقسیم کچھ تو باعتبار ان ملکی خصوصیات کے ہے جو بعض بعض حصصِ ملک میں پائے جاتے ہیں اور بعض وہ ہیں جو شہر اور دیہات کی وجہ سے ہوئیں ۔ مثلاً : ملک ہندوستان کو لو ۔ یہاں ایک زبان تو وہ ہے جو تقریبا تمام ہندوستان میں سمجی جاتی ہے اور جس سے کاروبار میں ، لین دین میں اور تبادلۂ خیالات میں کام لیا جاتا ہے ۔ اسے تھوڑی دیر کے لیے ” اردو ” کہہ لیجیے ۔ لیکن جب اس کو باعتبارِ حصص ملک یا شہر اور گاؤں کے آپ تقسیم کرنا چاہیں گے تو بیشمار اس کی قسمیں پیدا ہو جائیں گی ۔ کلکتہ کی اردو کو دہلی سے کیا مناسبت اور بمبئی کی زبان کا لکھنؤ کی اردو سے کیا علاقہ ۔ اردو زبان دہلی میں پیدا ہوئی اور اسی جگہ اس نے نشو و نما پائی ۔ اپنے آخر عہد میں یہ لکھنؤ پہنچی ۔ اس لیے یہ کہنے کا حق ہے کہ اردو وہی ہی ہے جو ان دونوں شہروں میں بولی جائے ۔ لیکن اگر اردو ایک نئی زبان نہ ہوتی تو کیا ملک کے مختلف گوشے کچھ اپنی خاص خصوصیت نہ رکھتے ؟؟

یہ ہر زبان کا قاعدہ ہے کہ تھوڑے تھوڑے بعد مسافت سے کچھ کچھ متغیر ہو جاتی ہے ۔ عربی زبان جو نہایت ہی کامل زبان ہے ، اس کو دیکھیے ، یہی اختلاف آپ کو وہاں بھی نظر آئے گا ۔ اہلِ عرب جہاں باعتبارِ قبائل آپ کو باہم ایک دوسرے سے ممتاز ملیں گے ، وہاں ان کے محاورات ، الفاظ بلکہ حروفِ تہجی کے اصوات و تلفظ میں بھی ایک علاحدہ شان ہوگی ۔ پس یہی حال ایران کے اقسامِ ہفت گانہ زبان کا ہے ۔ عہدِ قدیم میں فارس کا علاقہ کنارۂ جیحون سے فرات تک اور باب الابواب کنارۂ عمان تک پھیلا ہوا تھا ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ ملک کا علاقہ جب اس قدر وسیع ہوگا تو ہر وہ گوشۂ ملک جو دوسرے ملک کے ٹکڑے سے پیوستہ یا قریب ہوگا یا جن غیر ممالک کے باشندوں سے معاشرتی کاروبار میں سابقہ رہتا ہوگا ، ان کی زبان کا اثر اس گوشۂ ملک کی زبان پر ضرور پڑے گا ۔ پھر اسی کے ساتھ ہی ایک ایسی عام زبان ملکی ضرور ہوگی جو ہر گوشۂ ملک میں سمجھی جائے گی ۔ اب خیال فرمائیے !
فارسی : وہ زبان ہوئی جو تمام ملک میں بولی جاتی یا سمجھی جاتی تھی ۔

پہلوی : بیرونِ شہر کی زبان تھی ۔ اس میں قصبات و دیہات و درۂ کوہ کے باشندے متفق اللسان تھے ۔

دری : دربار کی زبان تھی جس میں صفائی اور نزاکت حروف کو گھٹا بڑھا کر پیدا کی گئی تھی ۔

سکزی : یہ وہ زبان ہے جو سیستان میں بولی جاتی تھی ۔ عہدِ قدیم میں سیستان کا نام سکزی تھا ۔

سغدی : سمرقند کے قرب و جوار میں سر سبز و شاداب قلعہ پر ایک نام ور اور آباد شہر تھا ۔ یہ زبان اس شہر کی طرف منسوب ہے ۔

زاولی : قندھار و غزنی و زابلستان کی گفتگو کا نام ہے ۔

ہروی : ہرات و ماژندران کی زبان ہے ۔

جسے عہدِ قدیم کی فارسی زبان دیکھنے کا شوق ہو ، وہ ژند و پاژند و دساتیر کو دیکھے ۔ ان کتابوں کے فقرات یا کچھ حصص ملتے ہیں ، ان کو جب عہدِ جدید کی فارسی سے مقابلہ کیا جاتا ہے تو صاف طور پر دکھائی دے جاتا ہے کہ یہ لفظ کیوں کر کیا سے کیا ہوتے گئے ۔ محض تفننِ طبع کے طور پر ہم چار پانچ لفظ لکھے دیتے ہیں ۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سخندانِ فارس ۔

انبار ( فارسی ) ——— انبار ( پہلوی ) ———- ہاں بار ( ژند ) ————– انبار ———- ( پاژند )

شرم ( فارسی و پہلوی پاژند ) ———- فشارما ( ژند )

ناسپاس ( فارسی ) ———– اسفاس ( پہلوی و ژند ) ——— ان سپاس ( پاژند )

اکنوں ( فارسی ) ——— اکنی ( پہلوی و ژند ) ———– اکنین ( پاژند )

خان ( فارسی ) ———- خوانو ( پہلوی و ژند ) ———– اخان ( پاژند )

انہیں چند لفظوں کو دیکھیے تو معلوم ہو جائے گا کہ تعلیم ، تہذیب و تمدن اور سویلیزیشن ، اس طرح آہستہ آہستہ زبان میں تصرف کرتے رہتے ہیں کہ ایک صدی کے الٹ پھیر کے بعد زبان کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے ۔ اہلِ شہر اور اربابِ علم کی زبان صفائی اور لچک رکھتی ہے ۔ قریہ و دیہہ ( دیہات ) کے باشندے اپنی زبان میں سختی اور لہجے میں درشتی رکھتے ہیں ۔ ان کی ضرورتیں تھوڑی ہوتی ہیں اور ضرورت پوری کرنے والی چیزیں ضرورت سے بھی کم ، خیالات محدود ، واقفیت کا دائرہ بہت ہی چھوٹا ، اس لیے الفاظ کا ذخیرہ بھی ان کی زبانوں میں قلیل ہوتا ہے ۔ لیکن ان کی خالص علمی زبان ہوتی ہے ۔ اس لیے شعرائے ایران کبھی کبھی پہلوی زبان کی مدح کا راگ گاتے ہیں ، چوں کہ وہ اصلیت پر قائم ہے ۔ شہر کے باشندے تمدن کے گہوارے میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔ ناز پروردگی و تنعم ضروریات روز افزوں کرتی رہتی ہے ۔ تبادلۂ خیالات سے دماغ میں وسعت پیدا ہوتی ہے ۔ علمی مضامین صیقل و جِلا کرتے رہتے ہیں ۔ اسی سے الفاظ کا اکثار ( وسعت و زیادتی ) ہوتا ہے اور ان میں لطافت پیدا ہوتی ہے ۔ شعرائے ایران جب زبان کی لطافت و نزاکت کا خیال کرتے ہیں تو ” دری زبان ” کی ثنا میں رطب اللسان نظر آتے ہیں ۔ نظامی گنجوی کہتے ہیں :

نظامی کہ نظمِ دری کارِ او ست
چنیں نظم کردن سزاوارِ او ست

اس کو سمجھنے کے لیے ہندوستان کی سرزمین میں جب اردو پیدا ہوئی ہے اس وقت کے الفاظ کو دیکھیے ، پھر جو ان میں تغیر پیدا ، اس کو دیکھیے ۔ مثلاً : ” سوں ” بجائے ” سے ” ۔ ” ہمن ” بجائے ” ہم کو ” ۔ ” نمن ” بجائے ” طرح یا مثل ” ۔ ” بھیتر ” بجائے ” اندر ” ۔

اسی طرح جب انگریزی سلطنت مع اپنے تمدن و علوم کے ہند پر حکومت کرنے لگی تو کتنے نئے انگریزی لفظ داخل ہو کر اردو کے دامن کو وسیع کرنے والے ہوئے اور کتنے الفاظ کے معنی و مفہوم متغیر و متبدل ہو گئے ۔ مثلاً : گلاس ، لالٹین ، فلالین ، کوچبان وغیرہ ۔ یہ سب یورپ سے آئے ہوئے ہیں ، جنہوں نے ہندی ( مراد ہندوستانی زبان یعنی اردو ) لباس پہن لیے ہیں ۔
( مقدمۂ مثنوی ہشت بہشت ، ص : ١٠ – ١٤ ، نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی ، لاہور )

اس اقتباس کی سطر سطر سے مصنف کی لسانی مہارت اور ” تاریخی تنقید نگاری ” میں ان کی بصیرت ظاہر ہے ۔

فارسی شاعری ؛ آغاز و ارتقا مع خصوصیاتِ کلام :

اب فارسی شاعری کی تاریخ اور اس کی تدریجی ترقی اور ان خصوصیات پر نظر ڈالنے کی حاجت ہے ، جو اس میں باعتبارِ مضمون  اور اندازِ بیان ( اسلوب ) کے پائی جاتی ہیں ۔ محققینِ السنۂ مشرقیہ ( مشرقی زبانوں کے محققین ) کا اس پر اتفاق ہے کہ فارسی زبان  اپنے حسن و دل آویزی یعنی مرتبۂ شاعری تک پہنچنے کے لیے عربوں کی سراپا انتظار تھی ۔ عرب استاد نے جب شعر کی حقیقت اور اس کی قوت و کیفیت سے اپنے تلامذہ کو آگاہ کیا اور کچھ ایسے خوش آئند لہجے میں دعوتِ شعر کی نغمہ سرائی کی کہ ایران کے تمام گوشے لبیک کی صدا سے گونج اٹھے ۔

فارسی شاعری کا پہلا دور :

یہ امر تو مسلّم ہو چکا کہ ایران میں شاعری کی ابتدا اکتسابی طور سے ہوئی ۔ اب غور طلب امر یہ ہے کہ تعلیم یافتہ ایرانیوں نے پہلے پہل جو شاعری کے لیے زبان کھولی ، وہ کلام کس زبان میں تھا ؟ اگر امعانِ نظر سے کام لیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلی مشق شاعری کی عربی زبان ہی میں کی گئی تاکہ استاد کی اصلاح سے کلام مرصع ہوجائے اور نکاتِ شعریہ کے دقیق مسائل اچھی طرح حل ہو کر سمجھ میں آجائیں ۔ جب عربی زبان میں شعر کی مشق ہو گئی اور شعر گوئی کا طریقہ اور صحت کی راہ معلوم ہو گئی تو اپنی ملکی اور مادری زبان کی طرف فورًا متوجہ ہو گئے ۔ اس لیے کہ علم ہو یا فن جب تک اس پر غیر زبان کا قفل چڑھا ہو ، اس میں کمال حاصل بہم پہنچانا اگر محالِ عقلی نہیں تو محالِ عادی ضرور ہے ۔ اس لیے اہلِ ایران نے اپنی بحور بھی علاحدہ قرار دیں اور جدید مقرر کردہ بحروں میں انہوں نے شاعری کی داغ بیل ڈال دی ۔ لیکن ابتدائی اشعار کی یہ حالت تھی کہ جس طرح ایک بھولا آدمی سیدھی سیدھی باتیں کرتا جاتا ہے ، اسی طرح فارسی کے وہ اشعار تھے جن میں بہت جلد رنگینی و چستی پیدا ہوگئی ۔
( مقدمۂ مثنوی ہشت بہشت – معروف بہ ” الانھار ” ، ص : ٣٢ – ٣٣ ؛ نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی ، لاہور )

حقیقت یوں ہے کہ پہلے پہل جس زبان میں شاعری کا آغاز ہوتا ہے ، اس میں ابتدائی رفتار آہستگی و سادگی سے ہوتی ہے ۔ ورنہ نظم کمالِ سخن کی جگہ اہمال و لغویت کا دفترِ بے معنی ہوجائے ۔  اگر آغاز ہی میں بلند پروازی کی جائے تو شاعری ملائے اعلیٰ پر پہنچنے کے بجائے تحت الثریٰ تک پہنچ جائے ۔ مثال کے لیے اردو شاعری کی ابتدا اور پھر مرتبۂ کمال تک پہنچنے پر غور کرنا کافی ہے ۔ شاعری نے جب ہندوستان کی اس زبان میں جو اب یہاں پیدا ہوگئی تھی ، اپنی جلوہ آرائی کی ۔ اس وقت اردو میں شعر کہنے والے وہ باکمال حضرات تھے جن کی نگاہوں میں عرب و عجم  دونوں شاعریاں موجود تھیں ۔ لیکن اردو میں چوں کہ کوئی نمونہ موجود نہیں تھا ، اس لیے سادگی ہی کا جامہ اس کے لیے مستحسن سمجا گیا ۔ اردو میں ولی کا وہی مرتبہ ہے جو فارسی میں رودکی کا ہے ۔ یہ کون کہہ سکتا ہے کہ ولی نے فارسی و عربی شاعری کا کافی مطالعہ نہیں کیا تھا ۔ پھر ولی کے کلام میں جو سادگی ہے اور الفاظ بغیر تراش خراش کے ادا ہوتے ہیں ، دور کے استعارات و تشبیہات بھی نہیں پائی جاتیں ، وہ بجز اس کے اور کس کا نتیجہ ہے کہ اردو میں اس وقت شاعری اپنی طفولیت کا عہد بسر کر رہی تھی ، گویا بچوں کی طرح گھٹنوں کے بل رہی تھی ………….. کچھ یہی حال فارسی شاعری کا ہے ۔ ابتدا میں ایران کی شاعری محض موزوں فقرات سے شروع ہو کر بہت جلد اس قابل ہوگئی کہ اس کو بزم شعرا میں پیش کیا جا سکے ۔ فارسی شاعری پر یہ رودکی کا احسان ہے جس کی دایۂ فکر نے اس طفلِ شیر خوار کو اپنی جودتِ طبع اور حدّتِ ذہن سے پرورش کر کے عالمِ تمیز تک پہنچایا ۔
( مرجعِ سابق ، ص : ٣٥ – ٣٦ ، مطبوعہ لاہور )

رودکی ، اسدی ، طوسی ، عنصری ، فرخی ، فردوسی اس دور کے باکمال شعرا تھے ، جن میں رودکی کو اولیت کی فضیلت حاصل ہے اور فردوسی کو خاتمیت کا فخر  ہے …………… دورِ اوّل کے شعرا کے کلام کو پڑھیے ، بندش ڈھیلی ، الفاظ پُھس پھسے ، بے ضرورت حروف کا گھٹنا ، بڑھنا ، بے قاعدہ متحرک کو ساکن اور ساکن کو متحرک بنا دینا ، نہایت بے موقع لفظِ فارسی کو مشدد کردینا آپ جا بجا پائیں گے ۔ اس پر الفاظ کا ثقل اور بھی غضب ڈھاتا ہے ۔ اضافتِ تشبیہی کا نام نہیں ۔ استعارہ خال خال ، جس میں کوئی ندرت نہیں ۔ اگر وزن کو توڑ دیجیے تو ڈھیلی عبارت نثر کی ( معلوم ہو ) ۔ شعر میں وہ چستی نہیں کہ الفاظ تھوڑے اور معنیٔ وسیع کو محیط ہو ، یعنی ایک شعر کے مضمون کو اگر نثر میں لایا جائے تو دو سطریں ہوں ۔ یہ سب اس امر کے بیّن ثبوت ہیں کہ ابھی شاعری کی مشقِ اول ہے ۔ زبان ترقی پا کر شاعری تک آ گئی ، لیکن شاعری اپنے عہد طفولیت میں ہے ۔ اس سے بڑھ کر یہ ثبوت ہے کہ اس وقت جو کلام دورِ اول کے شعرا کا پایا جاتا ہے ، اس میں اگر کوئی شعر اپنے معنی کی وجہ سے بلیغ ہے ، تو وہ بعینہٖ کسی عربی شعر کا ترجمہ ہے ۔ اس کثرت سے عربی اشعار کا ترجمہ قدیم شعرائے ایران کے کلام میں پایا جاتا ہے ، جس سے بعضوں کو شبہہ ہوا کہ ابتدائی مشق اس طرح کی گئی ہے کہ عربی اشعار کا گویا فارسی میں ترجمہ کر دیا گیا ہے ، پھر انہیں نظم میں لے آئے ہیں ۔
( مقدمہ مثنوی ہشت بہشت ، معرف بہ ” الانھار ” ، ص : ١٨ – ١٩ ، نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی ، لاہور )

سادگی کی تاثیر :

ایسا نہیں کہ سید سلیمان اشرف مرحوم نے قدیم فارسی شاعری کی صرف خامیاں بیان کی ہیں ، بلکہ شعری خصوصیات کا جائزہ لیتے ہوئے اس کی خوبیاں بھی بیان کی ہیں ۔ مثلاً : ایک جگہ ” کلام میں سادگی کی تاثیر ” کے عنوان سے اس وصفِ سخن کی تحسین کی ہے اور سادگی کی جہت سے رودکی کے کلام کو سراہا ہے ، لیکن شعریت و معنویت کے لحاظ سے عدمِ اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں :

طبقۂ اول وہ شعرا جو دورِ اول میں گذرے ، ان سب کا کلام ایک ہی انداز رکھتا ہے ۔ بندش کی چستی نہیں ۔ مضمون کی بلند پروازی نہیں ۔ سادہ الفاظ میں سیدھی باتیں جو آپس میں بولتے ہیں ، اکثر و بیشتر اسی کو نظم کر دیتے ہیں ۔ استعارے و تکلفات سے بہت کم کلام کو آراستہ کرتے ہیں ۔ مثلاً : رودکی جب بڈھا ہو جاتا ہے اور اس کے دانت ٹوٹ جاتے ہیں ، ضعیفی اعضا پر چھا جاتی ہے ، اس وقت جوانی کی یاد میں ایک قصیدہ کہتا ہے ۔ عمر کے آخر حصے میں جو کچھ کہتا ہے ، وہ دیکھنے کے قابل ہے ۔ سیدھی سادی باتیں ہیں ، جو نہایت سادگی کے ساتھ وزن و قافیہ کے محاصرہ میں لے آئی گئی ہیں ۔

فارسی شاعری کا دوسرا دور :

اب شاعری کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے ۔ اس طبقے میں خاقانی ، انوری ، حکیم سنائی ، مولانا روم ، عمر خیام وغیرہ گذرے ۔ دونوں دور کے شعرا میں یہ فرق ہے کہ پہلے طبقے کے شعرا قدرتی طبیعت سے شعر کہتے تھے ۔ پاس کی چیزوں سے تشبیہ لاتے اور پیش نظر اشیا سے استعارہ لیتے ۔ لیکن دورِ ثانی میں نگاہوں نے زیادہ غور پیدا کیا ۔ عرب کے علوم ملک میں عام ہو گئے تھے ۔ بلاغت کی کتابیں فارسی میں لکھی جا چکی تھیں ۔ اس لیے اس دور کی فارسی شاعری میں عربی الفاظ کا قبضہ زیادہ ہوا ۔ پھر الفاظ و معانی کو صنائع و بدائع نے علمی رنگ دے دیا ۔ دورِ اول میں سادگی ، سنگینی و استواری تھی ۔ اب رنگینی ، لطافت اور ملائمت پیدا ہوگئی ۔
( ایضاً ، ص : ٤٢ )

فارسی شاعری کا تیسرا دور :

دوسرا دور بھی ختم ہوا ۔ معانی و الفاظ دونوں ترقی پا کر اس دور میں کامل ہو گئے تھے ۔ اب شاعری کا تیسرا دور شروع ہوتا ہے ۔ اس طبقہ کے بہترین نمونہ سعدی ، امیر خسرو اور حافظ ہیں ۔ اس عہد میں غزل خوانی کی بڑی دھوم مچی ۔ امراء و سلاطین کی خوشامدوں میں خوب خوب قصیدے لکھے جانے لگے ۔ عاشقانہ مثنویوں کا رنگ گہرا ہوگیا ۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ چنگیز خان کے مشہور حملہ نے جو ٦١٧ هجری میں واقع ہوا ، دلوں کو ایسا سرد کر دیا تھا کہ بہادری و شجاعت کا خیال سروں سے جاتا رہا ۔ شعرا غزل و قصائد سے دلوں کو خوش کرنے لگے ۔ مردانہ خیالات ( بہادری کے اوصاف ) اس وقت سے جو مٹنے لگے تو آخر نیست ہو کر ہی رہے ۔
( مقدمۂ مثنوی ہشت بہشت ، ص : ٤٤ ، نوریہ رضویہ پبلشنگ ، لاہور )

فارسی شاعری کا چوتھا دور :

٩٠٠ هجری کے بعد فارسی شاعری کا چوتھا دور شروع ہوتا ہے ۔ فیضی ، عرفی ، نظیری ، طالب آملی ، ابو طالب کلیم ، مرزا صائب اس دور کے ممتاز اراکین ہیں ۔ لیکن فی الحقیقت یہ عہد ترقیِ غزل کا انتہائی اور آخری زینہ تھا ۔ اس دور کی یہ خصوصیت ہے کہ جو بات کہتے ہیں ، پیچ دے کر کہتے ہیں ۔ دور کی راہ سے سامعین کی فہم کو مطالب تک لاتے ہیں اور داد لیتے ہیں ۔ استعارہ کو استعارہ در استعارہ اور مجاز کو مجاز اندر مجاز کر کے معنوں میں نزاکت اور باریکی پیدا کرتے ہیں ۔ اس لیے بہت سے اشعار کی باریکی معشوقوں کی کمر کو بھی بارِ نزاکت سے خم کر دیتی ہے اور کبھی گم بھی ہو جاتی ہے ۔ مثال کے لیے یہ شعر کفایت کرتا ہے ۔

تا کے از عکسِ تو آئینہ گلستاں گردد
سوئے عاشق نگہے تا ہمہ تن جاں گردد

اس شعر کو سمجھنے کے لیے پہلے ان باتوں کو ذہن میں مجتمع کر لیجیے ۔ معشوق کا قد سرو و شمشاد ہے ۔ آنکھیں نرگس کے پھول ہیں ۔ رخسار گلابِ شگفتہ ہے ۔ زنخداں ( تھوڈی ) سیب ہے ۔ خط سبزہ ہے ۔ زلف تختۂ سنبل ہے وغیرہ وغیرہ ۔ اب جو معشوق آئینہ دیکھتا ہے اور اس کا عکس شیشے پر آتا ہے تو گویا آئینہ گلستاں بن جاتا ہے ۔ یہ تو پہلے مصرع کا حال ہے ۔ دوسرا تو اس سے بھی زیادہ دشوار ہے ۔

اسی طرح اس دور ( فارسی کے چوتھے دور ) میں مضامین کی بنیاد محالات اور دور از قیاس ایہام پر ہے ۔ الفاظ کی نئی تراشیں اور نئی ترکیبیں کثرت سے پیدا ہو رہی ہیں ۔ حقیقت و واقعیت سے بیگانگی اور بے بنیاد خیالات سے رشتہ جوڑا جا رہا ہے ۔ مثلاً : پہلے میکدہ اور آتش کدہ مستعمل تھے ، اب نشتر کدہ و مریم کدہ وغیرہ کی ترکیبیں پیدا ہوئیں ۔ پہلے ” یک گلشنِ گل ” کہتے تھے اور اب ” یک آغوشِ گل ” کہنے لگے ۔ اس طرح کی ترکیبیں فیضی اور عرفی نے کثرت سے پیدا کیں ……………… اس دور میں عرفی کی قصیدہ خوانی ایک خاص خصوصیت رکھتی ہے ۔ غزلیں بھی اس کی با سوز و گداز ہیں ۔ لیکن مرزا صائب کا کلام پھیکا اور سیٹھا ہے ۔ اس نے شاعری کیا کی ہے ، خشک علمی مباحث ردیف و قافیہ میں بیان کیے ہیں ۔
( مرجعِ سابق ، ص : ٤٦ – ٤٧ )

پانچویں صدی میں حسینوں کی بزم ہر طرح کے سامانِ اسلحہ سے آراستہ پائی جاتی تھی ۔ ابرو ، کمان تھے جن سے تیرِ مژگاں چل کر دلوں میں ترازو ( اتر ) ہو جاتے ۔ تیوری بدلی اور ابرو خنجر ہو گئے ۔ مژگاں نیزے بن گئے ۔ غرض معشوقوں کی بزمِ عشاق میں پہنچنے کی دیر تھی ۔ یہ پہنچے اور رستم و اسفند یار کے میدانِ جنگ بر پا ہو گئے ۔ لیکن چھٹی صدی میں رنگینی و نزاکت بڑھی ۔ مزاجوں میں تغیر ہوا ۔ طبیعت میں چستی و شجاعت نہ رہی ، راحت پسندی غالب آئی ۔ آخر اس کا اثر بھی کلام پر پڑا ۔ رفتہ رفتہ ایک وقت وہ آ پہنچا کہ رزمیہ کلام میں بھی ساغر و مینا کے دور چلنے لگے ۔ تشبیہیں بدلنے لگیں ۔ اب سپاہی میدانِ کارزار میں بھی جو پہنچتا ہے تو عشق کے نشہ میں چور ہو کر جاتا ہے ۔ قدسی ، قاسم ، کلیم ، علی قلی اور سلیم کی رزمیہ مثویاں اس پر گواہ ہیں ۔ بہرکیف ! یہ دور بھی ترقی سے خالی نہ رہا ۔ زبان زیادہ صاف ہو گئی اور مضمون آفرینی نے بہت ترقی کی ۔ خاقانی و انوری وغیرہ جو علمی اصطلاحات سے زبان کو زیرِ بار کرتے تھے ، یہ بات جاتی رہی ۔
( ایضاً ، ص : ٤٤ – ٤٥ )

مختلف شعرا کے کلام کا تجزیہ :

فارسی شاعری کی تاریخ و اقسام اور اس کے ابتدائی و ارتقائی ادوار پر مدلل روشنی ڈالنے کے بعد ہر دور کے شعرا اور ان کے کلام کا ان الفاظ میں تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ، جس سے فاضل مصنف کے ” تنقیدی افکار ” کو سمجھنے میں بڑی حد تک مدد ملتی ہے :

رودکی : تذکروں میں رودکی کا جو کلام منقول ہے ، اس میں ہر قسم موجود ہے ۔ جا بجا مضمون آفرینی بھی ہے ۔ کہیں تشبیہ و استعارے کا لطف بھی ہے ۔ اخلاق و موعظت کے پاک و شیریں مضامین بھی موجود ہیں ۔ کہنہ مشق ، دیرینہ سال شاعر کا جب بھی جی چاہتا ہے تو عشق و حسن کے ناز و نیاز بھی کر لیتا ہے ۔ قصیدے کی تشبیب میں غزل کا لطف آ جاتا ہے اور گریز میں بھی اس کی قوت و قابلیت نمایاں ہے ۔

فردوسی : اس دور کا آخری شاعر فردوسی ہے ۔ اس نے ” شاہنامہ ” کیا لکھا ، اپنی اس قوتِ دماغی اور جودتِ ذہن کا جو بشر میں ایک عطیۂ الہٰی ہے ، کا کامل ثبوت دیا ہے ۔ اس نے یہ مثنوی لکھ کر ثابت کر دیا کہ انسان کی دماغی قوت ، صانعِ حقیقی کی صنعت کا اعلیٰ نمونہ ہے ۔ میدانِ جنگ کی تصویر تو ایسی کھینچتا ہے کہ ہو بہو فوٹو ہوتا ہے ۔ اس کا کلام و کمال کسی کی تحسین اور قدر شناسی کا محتاج نہیں ۔

حاجتِ مشاطہ نیست روئے دل آرام را

یہ کہنا ایک امرِ واقعی کا بیان ہوگا کہ فردوسی ہی کی بدولت معانی کی کمی انتہائے کمال پر پہنچ کر اپنی شان کا جلوہ دکھانے لگی ۔
( مقدمۂ مثنوی ہشت ہشت ، ص : ٤٠ ، نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی ، لاہور )

نظامی : نظامی ، مثنوی کے بادشاہ ہیں ۔ ان کے کمال کی شاہد ان کی پانچ مثنویاں ہیں جو ” خمسۂ نظامی ” کے نام سے مشہور ہیں ۔ انہوں نے نظم نگاری میں نیا رنگ پیدا کیا ۔ تشبیہ اور استعارے کو رنگینی و قوت کے ساتھ برتا ۔ ان کے پیچ میں بھی بانکپن ہے ۔ ان کا کلام اقسامِ لطافت و نزاکت سے لبریز ہے ۔ فردوسی کے بعد رزمیہ مضمون کوئی دوسرا ان ( نظامی ) سے بہتر کیا ، برابر بھی نہ لکھ سکا ۔

انوری : انوری نے کلام میں مضمون آفرینی پیدا کی ۔ استعارہ کو لیا اور خوش نوائی سے برتا ۔ قصیدہ کہنے میں استاد ہے ۔

سنائی : حکیم سنائی پہلے شخص ہیں جنہوں نے تصوف کو مستقل طور پر نظم میں لکھا ہے ۔ ” حدیقہ ” ان کی مشہور کتاب ہے ۔ پختگی ، برجستگی اور صفائی میں ان کا کلام تمام معاصرین سے ممتاز ہے ۔

مولانا روم : مولانا رومی ، تصوف کے بادشاہ ہیں ۔ علم کلام و تصوف کے اہم ترین مسائل دل گیر و دل پذیر طریقے سے بیان کرتے ہیں ۔ مثنوی آپ کی چھ جلدوں میں شش جہاتِ عالم میں فیض رساں ہے ۔ عربی و فارسی میں ( ان کی ) متعدد شرحیں لکھی گئیں ۔ اربابِ سلوک آج تک اس کا درس دیتے ہیں ۔ اور حق تو یہ ہے کہ مردِ راہِ رفتہ ( وارفتگانِ شوق ) کوئی دوسرا اسے سمجھ بھی نہیں سکتا ۔

عمر خیام : عمر خیام ، علومِ عقلیہ میں کمال رکھتا تھا ۔ اقسامِ شعر میں ان کی رباعیاں ہیں ، جنہوں نے اس کو زندہ رکھا ہے ۔ مسلمانوں سے بڑھ کر اہلِ یورپ نے اس کے ساتھ اعتنا ( توجہ ) کیا ۔

سعدی شیرازی : شیخ سعدی علیہ الرحمہ اس طبقے ( فارسی شاعری کے تیسرے دور ) کے نہایت شیریں کلام شاعر ہیں ۔ ان کا مضمون آج تک پھیکا نہ ہوا ۔ نظم ہو یا نثر ، اصنافِ سخن پر قدرت رکھتے تھے ۔ ان کے کلام میں استعارے بھی ہیں ، لیکن پیچیدہ نہیں ۔ صفائی دکھاتے ہیں اور لطف بڑھاتے ہیں ۔ مبالغہ و استغراق سے کام نہیں لیتے ۔ ان کا کلام دین و دنیا کی سود مند نصائح سے پُر ہے ۔ اخلاقی مضامین کو ان کے مثل کسی نے نہیں ادا کیا ۔ مخلوق کی درد مندی ان کے ہر رگ و پے میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔ تجربہ کامل تھا ۔ اور سیاحت وسیع ، اس لیے جو ان کی زبان سے نکلتا ہے ، وہ دل میں جا بیٹھتا ہے ۔ گلستاں و بوستاں اور دواوین و قصائد ان کی مشہور تصانیف ہیں ۔ لیکن غزل کا رنگ بدلنے والے اور سوز و گداز کے ساتھ وقوعہ گوئی کی بنیاد ڈالنے والے بھی شیخ سعدی ہی ہیں ۔ اس لیے من حیث شاعر انہیں غزل کا استاد تسلیم کیا گیا ہے ۔

امیر خسرو : امیر خسرو کے والد امیر سیف الدین ترکستان سے آئے تھے ۔ امیر خسرو نے گو ہندوستان میں ولادت اور تربیت پائی تھی ، مگر دماغ دستِ قدرت سے وہ عطا ہوا تھا کہ ایجادِ مضامین کا طلسم خانہ تھا ۔ انہوں نے صنائعِ لفظی و معنوی کا عجائب خانہ کھول دیا ۔ تصانیف کی یہ کثرت ہے کہ ہمیشہ ان کا سمیٹنا دشوار رہا اور آج دشوار تر ہے ۔

خواجہ حافظ : خواجہ حافظ کا دیوان مشہور ہے ، اس کے سوا کچھ نہیں ۔ چند قصیدے برائے نام ہیں ، مگر غزل ایسی کہہ گئے کہ آج تک اس کا جواب نہیں ۔ نہ تصنع ہے ، نہ تلکف ۔ جیسی گذری ہے ، ویسا لکھا ہے ۔ عرفان و حقائق کا ایک بے بہا گنجینہ ہے ، جن پر نقوش و حروف کے قفل چڑھے ہوئے ہیں ۔ اربابِ بصیرت اسے عینک کی طرح لگائے پھرتے ہیں ۔

جامی : جامی علیہ الرحمہ کا زمانہ ٩٠٠ ہجری ہے ۔ ناظم ہروی نے امیر خسرو کے بعد شاعری کو ان پر ختم کر دیا ہے ، جیسا کہ اس کے ایک شعر سے ظاہر ہوتا ہے :

زخسرو چوں نوبت بجا می رسید
زجامی سخن را تمامی رسید

علاوہ عام شاعری کے صوفیانہ طرز میں بلند پایہ رکھتے تھے ۔ نقشبندیہ طریق کی تعلیم و مراقبات کی طرف عجب لطف سے اپنے کلام میں اشارا کرتے ہیں ۔
( مقدمۂ مثنوی ہشت بہشت – معروف بہ ” الانھار ” ، ص : ٤٣ – ٤٦ ، لاہور )

فارسی شاعری کے آغاز و ارتقا ، شاعری پر اثر انداز ہونے والے عوامل اور مختلف ادوار کے شعرا کے کلام کی ادبی خصوصیات پر تنقیدی نظر ڈالنے کے بعد علامہ موصوف اصل موضوع کی طرف پلٹتے ہیں اور حضرت امیر خسرو علیہ الرحمہ کی مثنوی کا تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

اربابِ فن نے کلامِ منظوم کی جو قسمیں بیان کی ہیں ، ان میں پانچ قسمیں اصل ہیں : ( ١ ) غزل ( ٢ ) قصیدہ ( ٣ ) مثنوی ( ٤ ) رباعی ( ٥ ) قطعہ ۔ پھر ان میں بھی باعتبارِ مضامین تنوّعاتِ گوناگوں پائے جاتے ہیں ، جن کا بیان اپنے اپنے موقع پر آئندہ آئے گا ۔ لیکن ناصحانہ ، حکیمانہ ، عشقیہ ، رزمیہ ، اخلاقی جذبات کی مصوری اور مناظر کی نقاشی ، یہ وہ اقسام ہیں جہاں شاعر کی طبیعت کا اصل جوہر کھُلتا ہے ۔
خسرو علیہ الریمہ میں یہ کمال ہے کہ نظم کی کوئی قسم ایسی نہیں ہے جس میں ان کے قلم کی روانی دریا کی موجوں کی طرح لہریں نہ مارتی ہو ۔ اگر چہ ان کا وجود دورِ ثالث کے شعرا میں پایا جاتا ہے ، لیکن ان کے کلام کی یہ خصوصیت ہے کہ ہر دور کے محاسن ان کے کلام میں موجود ہیں ۔ سادگی و سنگینی و استواری جو دورِ اول کی ممتاز خصوصیت ہے ، ان کے کلام میں بکثرت اس کے نمونے پاؤگے ۔ رنگینی ، لطافت اور ملائمت جو دورِ ثانی کا کمالِ ہنر ہے ، اس آرائش سے بھی کلامِ خسرو بکمال و تمام مزین و مرصع ہے ۔ ہر طرح کے اساسِ مضامین ، اکثار و فراوانی کے ساتھ خزانۂ خسروی میں پائے جاتے ہیں ۔ یہ امر محتاجِ بیان نہیں کہ خسرو کا دور ایسے زمانے میں آتا ہے جب کہ نظم پوری آرائش سے آراستہ و پیراستہ ہو چکی تھی ۔ اسلاف نے ہر طرح کے مضامین کا احاطہ کر لیا ہے ۔ زبان بھی صنائع و بدائع سے مرصّع ہو چکی ہے ۔ شاعری کی بحث میں ابھی تم پڑھ چکے ہو کہ معانی کی کمی فردوسی نے پوری کر دی ۔ الفاظ میں تراش خراش اور رنگینی دورِ ثانی کے شعرا کر چکے ہیں ۔ اب تیسرے دور میں کیا رہ جاتا ہے ۔ بقولِ خود امیر خسرو :

در محفلِ وصالت دریا کشند مستاں
چوں دورِ خسرو آمد مے در سبو نماند

باوجود اس تنگی و کشاکش کے یہ صرف خسرو ہی کا کمال ہے کہ نہایت قادر الکلامی سے ایسا سدا بہار چمن کھِلا گئے جس کے پھول آج تک نہ کمہلائے اور اس کی شامّہ نواز لپٹ عطر مجموعہ کی طرح گوناگوں خوشبوؤں سے اربابِ ذوق کے دماغ کو معطر کرتی رہی ۔
( مصدرِ سابق ، ص : ٦٢ – ٦٣ )

 

طفیل مصباحی کا پچھلا مقالہ ذیل میں ملاحظہ ہو :

 

سلیمانی نثر کی ادبی خصوصیات
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے