جعلی دانشوروں کی پہچان

جعلی دانشوروں کی پہچان

فاروق طاہر، حیدرآباد دکن، انڈیا farooqaims@gmail.com,9700122826

جعلی دانشور(Pseduo Intellectual)؛۔
Pseudo یونانی لفظ Pseudes سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے”جھوٹا، جھوٹ بولنا“۔جس لفظ کے بھی آگے pseudo آئے گا اس سے جعلی، مصنوعی، کاذب یا فرضی معنی اخذ کیے جائیں گے۔ مثلاً Pseudonym (تخلص) ایک فرضی نام ہوتا ہے عام طور پر جسے مصنف یا شاعر استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک اور اصطلاح (لفظ) سیوڈو سائنس (PseudoScience)، جسے عقائد یا رسومات کے ایک ایسے مجموعے کے اظہار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کے ذریعے ان رسومات کو سائنس یا سائنسی طریقوں پر مبنی ہونے کا ”سوانگ“رچایا جاتا ہے۔ اس طرح اس سابقے سے کئی دیگر الفاظ و اصطلاحیں بھی وجود میں آتی ہیں جس میں آج کا ہمارا لفظ ”سیوڈو انٹلیکچول seduo Intellectual بھی شامل ہے۔ میریم ویب سٹر (Merriam-Webster) ڈکشنری کے مطابق جعلی دانشور(سیوڈو انٹیلیکچول Pseudo Intellectual) سے مراد ایک ایسا شخص جو حقیقت میں ذہین یا صاحب علم نہیں ہوتا لیکن چاہتا ہے کہ اسے ایک ذہین اور صاحب علم شخص کے طور پر جانا اور پہچانا جائے۔ بہ الفاظ دیگر جعلی دانشور سے مراد ایسے افراد ہوتے ہیں جو خود کو اپنی ذہانت سے زیادہ ذہین ظاہر و ثابت کرنے کی کوشش اور اداکاری میں مصروف رہتے ہیں۔ ذیل میں جعلی و حقیقی دانشوروں کے اوصاف کو مزید وضاحت کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔
حقیقی و جعلی دانشور کی لغوی تعریف و تفریق:
کولنز انگلش ڈکشنری میں ”دانشور“ کو اسم اور صفت دونوں کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ بطور اسم دانشور سے مراد ایک ایسا شخص جو پیچیدہ، گنجلک خیالات کا مطالعہ اور ان پر غور و فکر کرنے میں بہت زیادہ وقت صرف کرتا ہے۔“ بطور صفت یہ اصطلاح مذکورہ بالا خیالات و افراد سے متعلق اشیا کے بیان و اظہار کے لیے استعمال ہوتی ہے مثلاً ایک پروفیسر کو فکری سرگرمیوں سے لطف حاصل ہوتا ہے (The Professor enjoys the intellectual pursuits)۔ متذکرہ تعریف، تشبیہات و وضاحتوں کی بنیادپر وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ایک جعلی یا مصنوعی دانشور (سیوڈوانٹلیکچول) ایک ایسا فرد ہوتا ہے جو پیچیدہ مسائل و نظریات پر غور و خوض کرنے اور انھیں سمجھنے کا ”ڈھونگ“ رچاتا ہے جسے دراصل حقیقی دانشور ہی سوچ، سمجھ اور حل کرسکتے ہیں۔ امریکی صحافی سڈنی ہیرس نے کئی سال پہلے لکھے اپنے ایک مضمون "Telling the Real From the Pseudo” کے ذریعے حقیقی اور جعلی دانشوروں کے درمیان پائے جانے والے کئی اختلافات و امتیازات پر مفصل بحث کی ہے۔ جس کے مطابق حقیقی دانشور درست سوالات کا انتخاب کرتے ہیں، اس کے برعکس جعلی دانشور ہر سوال کے درست جوابات اپنے پاس موجود ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
حقیقی دانشور سچائی کی تلاش کو اہمیت دیتے ہیں جب کہ سیوڈو خود کو صحیح بتانے یا صحیح ثابت کرنے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔
حقیقی دانشور تسلیم کرتے ہیں کہ وہ سب کچھ نہیں جانتے جب کہ جعلی دانشور ہر موضوع کا علم رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
حقیقی دانشور تسلیم کرتے ہیں کہ ہمیشہ مخالف رائے و نظریات غلط نہیں ہوتے۔ جعلی دانشور مخالف رائے و نظریات کوکوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ان کی نظر ہمیشہ ”صحیح و غلط“ اور ”سیا ہ و سفید“ پر ٹکی رہتی ہے۔
حقیقی دانشور ہمیشہ حاضرین و سامعین کے معیار و سطح کو ملحوظ رکھ کر بات کرتے ہیں جب کہ جعلی دانشور اپنی بڑائی ثابت کرنے اور سامعین و حاضرین کو متاثر کرنے کی نیت سے معیار و سطح کو کبھی ملحوظ نہیں رکھتے۔ مذکورہ نکات کی روشنی میں ہیرس کا موازنہ بالکل درست معلوم ہوتا ہے۔ حقیقی دانشور کسی بھی شے کی گہری تفہیم حاصل کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں، جب کہ جعلی دانشوروں کو ہمیشہ اپنی شبہیہ (امیج) اور اپنا تاثر (امپریشن) قائم کرنے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ ذیل میں جعلی دانشوروں (سیوڈو انٹیلیکچولس) کی پہچان و شناخت میں معاون چند خصوصیات و علامتیں بیان کی جارہی ہیں۔
1۔جعلی دانشور دوسروں کو مطلع نہیں متاثر کرنا چاہتے ہیں۔
جعلی دانشوروں کے لیے معلومات کی فراہمی سے زیادہ عوام کو متاثر کرنا اہم ہوتا ہے۔ وہ پیچیدہ الفاظ اور فقروں کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں چاہے وہ سیاق و سباق سے باہر ہی کیوں نہ ہوں۔ لوگوں پر اپنی زبان دانی اور وسیع ذخیرہ الفاظ کی دھاک جمانا ان کا خاص مقصد ہوتا ہے۔ آپ صاف محسوس کریں گے کہ دوران گفتگو وہ معلومات و نظریات کی ترسیل کی کوشش کے بجائے آپ کو متاثر کرنے کی جستجو میں مصروف رہتے ہیں۔
2۔جعلی دانشور بڑے نام و بڑے حوالوں کے شیدائی ہوتے ہیں۔ ہمیشہ دوران گفتگو بڑے دانشوروں و نظریہ ساز افراد کے اقوال جیسا کہ سگمنڈفرائیڈ /جان لاک نے کہا وغیرہ کے ذریعے اپنی گفتگو کو معتبر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کوئی قابل گرفت و قابل اعتراض بات نہیں ہے کہ انھوں نے ان افراد کے اصل نظریات و تصورات کو پڑھا ہے سمجھا ہے یا نہیں۔ ہمیں اعتراض اس بات پر ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ معروف علما  کے نظریات و خیالات سے آگہی پیدا کیے بغیر صرف ان کے نام کی مالا جپنے سے وہ علق مند اور روشن خیال کیسے تصور کرلیے جائیں گے۔ جعلی دانشور اسی لیے دانشوروں کے نظریات و خیالات تک رسائی پیدا کرنے کے بجائے صرف ان کے نام کے استعمال سے عوام کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں۔ آج تک کوئی بھی انسان کسی بھی دانشور کے نام کی مالا جپنے سے ذکی، ہوشیار اور ذی عقل نہیں بنا ہے اور نہ بن سکتا ہے۔
3۔جعلی دانشور کبھی خود کو دانشوارانہ مشاغل و سرگرمیوں میں مصروف نہیں رکھتے۔
حقیقی دانشور ہمیشہ خود کو دانشوری کے حصول میں مسلسل مصروف رکھتے ہیں۔ حقیقی ریسرچ اسکالرس، طلبہ، محقق، سائنس داں وغیرہ اپنے میدان کار میں نہ صرف مسلسل محنت کرتے رہتے ہیں بلکہ اپنے کام میں ہمیشہ مخلص اور پرجوش بھی رہتے ہیں۔ اپنے پسندیدہ موضوعات و مضامین کے معلومات کو معتبر و مفید بنانے اور عصری ایجاد و دریافت سے آگہی کے حصول کے لیے ہمیشہ مطالعہ میں لگے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس جعلی دانشور خود کو کبھی محنت و مشقت میں نہیں ڈالتے بلکہ بلند بانگ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے ارسطو، سقراط، بقراط، افلاطون ،رازی، غزالی، غالب، اقبال، شیکسپیئر، ملٹن ورڈس ورتھ وغیرہ کی تمام تصانیف کا مطالعہ کیا ہے۔ ان کی گفتگو مشہور کردار اور حوالوں سے ہمیشہ بھری رہتی ہے۔ درحقیقت ان کتابوں تک ان کی کبھی رسائی ہی نہیں ہوتی ہے۔ اکثر یہ معروف نظریات پر مبنی مشہور بڑی کتابوں کے متعلق چند خلاصے پڑھے ہوتے ہیں یا پھر ان عنوانات و مضامین پر چند معروف مقررین کی ویڈیوز و فلموں کو دیکھا ہوتا ہے۔
4۔جعلی دانشور گفتگو کے دوران مداخلت کرتے ہیں۔
یہ اکثر گفتگو کے دوران مخل ہو جاتے ہیں۔ گفتگو کو ہائی جیک (اڑالیتے) کرلیتے ہیں۔ بات کرنے والوں کو درمیان میں ہی ٹوک دیتے ہیں اور انھیں اپنی بات مکمل کرنے نہیں دیتے۔ جعلی دانشور دوسروں کو بحث میں ان کا حصہ ڈالنے کا بہت ہی کم موقع فراہم کرتے ہیں۔ چاہے کوئی مضمون، موضوع یا کوئی موقع ہو وہ کہیں بھی اپنی فطرت سے باز نہیں آتے۔
بحث و حجت کو بہت زیادہ پسند کرتے ہیں۔
جعلی دانشوروں کے لیے بحث و مباحثہ و حجت دل پسند شے ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ لوگوں کو اپنے دلائل کے جال میں پھانس کر اپنی ”فکری صلاحیتیں“ کو بہتر طریقے سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جعلی دانشور کسی بھی، کوئی بھی موضوع چاہے وہ سیاست، مذہب، فلسفہ، جدید ٹیکنالوجی یا کچھ اور ہو؛ ہمیشہ ہر موضوع کا حصہ بننے کو تیار رہتے ہیں۔
نمائشی اصول پسندی:
جعلی دانشوران زبان و بیان کی ظاہری و نمائشی اصولوں کے پرستار ہوتے ہیں۔ لوگوں کی نظر انداز کی جانے والی غلطیوں جیسے قواعد (گرائمر) و املا کی اغلاط، تحریری و تقریری خرابیوں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ  معمولی سے معمولی غلطی جس کا موضوع سے کوئی تعلق نہ ہو، اسے بھی طشت ازبام کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ اغلاط پر تنقیدیں کرتے ہیں یا پھر زبردستی ان کی اصلاح کی خواہش رکھتے ہیں۔ ایسے ناقدین کو انگریزی میں گرائمر نازی Grammar Nazi کہاجاتا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ”یہ اس طرح کیوں کرتے ہیں؟“ وہ اس لیے کہ وہ اپنے آپ کو ہمیشہ صحیح سمجھتے ہیں، بس اسی لیے۔
7۔جعلی دانشور سب کچھ جاننے کا بھی دعویٰ کرتے ہیں
جیسا کہ مضمون کی ابتدا میں ہی بتایا گیا ہے کہ جعلی دانشور کے پاس ہر چیز کے بارے میں ہمیشہ کہنے کو کچھ نہ کچھ ہوتا ہے۔ کوئی موقع ہو اور موضوع کچھ بھی ہو ان کے پاس ہمیشہ تمام جوابات موجود رہتے ہیں اگرچیکہ وہ گفتگو کا حصہ ہو یا نہ ہو، گفتگو میں اپنی ٹانگ اڑانا ان کے لیے باعث فخر ہوتا ہے۔ اگر آپ کو کہیں بھی کوئی کسی بھی صورت حال میں مختلف موضوعات کا کوئی”ماہر“ بنتا دکھائی آئے تو آپ مطمئن ہوجائیے کہ آپ ایک جعلی دانشور کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ جعلی دانشور کہیں طب کا ماہر ہوگا تو کہیں ماہر معاشیات اور کہیں کچھ۔ سیاسی انتخابات کے زمانے میں خود کو ایک ماہر سیاسی تجزیہ نگار اور منجھا ہوا سیاست داں ظاہر کرنے کی کوشش کرے گا تو کھیلوں کے مقابلہ جات کے دوران بھی ایک تجربہ کار کھلاڑی کے طور پر اپنی تجزیہ نگاری سے لوگوں کو اپنی قابلیت سے مرعوب کرتا نظرآئے گا۔ الغرض جب چاہے، جہاں چاہے اورجیسا چاہے جعلی دانشوران بلاخوف و تردد ماہر بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
8۔جعلی دانشور اپنے ذاتی نظریے اور شخصی رائے کو مطلق اور ناقابل تبدیل سچ سمجھتے ہیں. 
جعلی دانشور عموماً اپنی ذاتی آرا  و خیالات کو مطلق اور ناقابل تردید سچ سمجھتے ہیں۔ محفل میں موجود دیگر افراد کی آرا و خیالات کی انھیں کوئی پروا ہوتی ہے اور نہ ان کی کوئی قدر و قیمت۔”تم غلط ہو، میں ٹھیک ہوں“ یہ ہی ان کاطرہ امتیاز ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک ان کی مخالفت کرنا گویا حق کے خلاف جانا ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو نہ صرف صحیح بلکہ حق پر بھی سمجھتے ہیں۔
جعلی دانشور دوسروں کے نقطہ نظر کو سمجھنے سے معذور ہوتے ہیں. 
چونکہ سیوڈو دانشور اپنے ذاتی نظریہ کو ہی مطلق سچ سمجھتے ہیں، اس لیے تصویر کے دوسرے پہلو کو دیکھنے سے ہمیشہ قاصر رہتے ہیں۔ ہمیشہ بحث و مباحثہ کے دوران دلائل کو سمجھنے اور دیگر زاویوں پر غور و فکر کرنے کے بجائے بہت زیادہ جوابی ردعمل پیش کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ جعلی دانشوروں سے بحث کرنا فضول ہے۔ آپ ان سے بحث کرتے ہوئے ہمیشہ خود کو صرف دائروں کے بیچ گردش کرتے اور گھومتے پائیں گے، ان سے بحث میں ملوث ہوکر آپ کو کبھی بحث سے باہر نکلنے کا راستہ نہیں ملے گا۔
10۔جعلی دانشور(سوڈو اینٹلیکچول)مکمل تصویر دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں. 
زیادہ تر جعلی دانشور ٹنل ویژن(Tunnel Vision) کا شکار ہوتے ہیں۔ ٹنل ویژن سے مراد کوتاہ نگاہی ہے یعنی ”آدمی وہی دیکھتا ہے جو وہ دیکھنا پسند کرتا ہے“۔ ایسے افراد خود سے کسی موضوع پر مختلف نقطہ ہائے نظر سے کبھی غور کرسکتے ہیں اور نہ غور کرنا چاہتے ہیں۔نتیجتاً مکمل تصویر دیکھنے اور سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ان کا نقطہ نظر ہمیشہ محدود رہتا ہے۔ جعلی دانشور باریک بینی کے اتنے عادی ہوتے ہیں کہ نظروں کے سامنے پڑے پہاڑ جیسے بڑے بڑے حقائق بھی انھیں نظر نہیں آتے۔ چھوٹی تصویر (Micro Picture) کی تلاش میں ہمیشہ بڑی تصویر (Macro Picture) کو نظر انداز کرجاتے ہیں۔ جیسے جان اور جوزف دونوں دوست چوک گئے تھے۔ جان اور جوزف نے اپنے لیے ایک ایک گھوڑا خریدا اور اسے اپنے گھر کے باہر باندھ دیا۔ دونوں کے گھوڑے ایک دوسرے سے خلط ملط نہ ہوجائیں یہ سوچ کر جان اپنے گھوڑے کی کان کی لو کو کاٹ دیتا ہے تاکہ شناخت میں آسانی ہو۔ محلے کے شریر لڑکے رات میں موقع پاکر جوزف کے گھوڑے کے کان کی لو بھی کاٹ دیتے ہیں۔ صبح جب جان نیند سے بیدار ہوتا ہے تو جوزف کے گھوڑے کے کان کو بھی کٹا دیکھ کر بہت پریشان ہوجاتا ہے۔ جوزف اس الجھن سے بچنے کے لیے اپنے گھوڑے کی تھوڑی سی دم کاٹ کر اطمینان کا سانس لیتا ہے۔ رات میں شریر بچے پھر سے جان کے گھوڑے کی دم کاٹ دیتے ہیں۔ اب جان اور جوزف بہت فکر مند ہوجاتے ہیں کہ یہ سلسلہ اگر یوں ہی جاری رہا تو ان کے گھوڑے بے شکل ہوجائیں گے۔ جان اور جوزف ہوٹل میں بیٹھ کر اس اہم مسئلہ پر غور و خوض میں مصروف تھے تبھی ایک ویٹر جو قریب کھڑا ان کی باتیں سن رہا تھا کہتا ہے ”جناب اس میں اتنا پریشان ہونے والی کون سی بات ہے، کالا گھوڑا آپ کا ہے اور سفید گھوڑا جوزف صاحب کا۔ جعلی دانشور بھی بالکل جان اور جوزف کی طرح باریک بینی سے اس قدر کام لیتے ہیں کہ وہ اکثر بڑی باتوں کو بالکل فراموش کردیتے ہیں۔(جاری ہے)۔

صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: گرمائی تعطیلات کے لیے دینی نصاب برائے اسکولی طلبہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے