ارم رحمن
لاہو، پاکستان
موضوع کتاب شخصیت کی گراں قدر خدمات کے حوالے سے لب کشائی کرنے سے پہلے میں ذرا کتاب کی ترتیب وتہذیب کرنے والے، چمکتی آنکھوں والے ذہین نوجوان کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گی۔
جب کتاب "پیش پیش" میرے ہاتھوں تک پہنچی تو حیرت ہوئی کہ اس پر خامہ فرسائی کرنے والا روشن چہرہ جوان جس نے بہت سلیقے سے خان حسنین عاقب صاحب جیسی ایک بلند پایہ ادبی شخصیت کی مختلف کتابوں کے پیش الفاظ کو جمع کرکے ان کی ترتیب و تدوین کی ہے، وہ کوئی اور نہیں بلکہ عاقب صاحب کے گھر کا چشم و چراغ اور ان کے خاندان کا درخشاں ستارہ فرمان احمد خان ہے۔
فرمان احمد کی پہلی کاوش نے ہی اپنے والد خان حسنین عاقب کے نام کے گرد چمکتے ہالے کی روشنی میں اضافہ کردیا ہے، ان کی عزت و وقار کی لو کو مزید تمازت بخشی ہے۔
قابل ذکر اور دل چسپ بات یہ ہے کہ فرمان احمد کا تعلق جس خانوادے سے ہے وہاں رگوں میں لہو سے زیادہ اردو دوڑتی ہے۔ امید قوی ہے فرمان احمد اردو ادب کی ترقی و ترویج میں بھی اپنے والد کی طرح خوب سے خوب ترکارنامے انجام دیں گے۔
اب پیش قدمی کرتے ہیں "پیش پیش" کی جانب۔
خان حسنین عاقب کی شخصیت صبح صادق کا وہ روشن ستارہ ہے جس کی چمک برصغیر پاک و ہند میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں ہی محسوس کی جاتی ہے۔
حسنین عاقب کی تحریروں میں الفاظ کی صاف شفاف ندیاں بہتی ہیں کہ دل چاہتاہے ایک ہی گھونٹ میں پی جایا جائے یا پھر چسکی چسکی لے لے کر ہر حرف کو روح میں اتار لیا جائے۔ جذبات اور احساسات کا ایسا تلاطم جس کے اتار چڑھاؤ میں ڈوبنے کو دل کرتا ہے، ہر جملہ الفاظ کے ایسے نایاب موتیوں سے پرویا ہوا ہے کہ ایک بھی لفظ نکال دیا جائے تو لفظوں کی مالا ادھوری لگنے لگے۔ "پیش پیش" حسنین عاقب کی اب تک شائع شدہ اٹھارہ کتابوں کے پیش الفاظ اور ان کے مقدمات پر مشتمل کتاب ہے۔
ان کتابوں میں ‘رم آہو، خامہ سجدہ ریز، اقبال بہ چشم دل، کم و بیش، آسماں کم ہے، تعلیمی عمل اور سماج، جدید تعلیمی رجحانات، انگریزی زبان کی چار کتابیں، شفيع الدین نیرکی کہانیوں کا کلیات، شفيع الدین نیر کی نظموں کا کلیات، غالب کی کہانی نیر کی زبانی، دیوار حرم کے سائے تلے، اور "میں ہوں نجود" شامل ہیں۔ ہمارے اس تجزیے میں چند منتخب کتابوں پر تبصرہ ممکن ہوپایا لیکن یہ کتاب نہایت اہم، دل چسپ اور وقیع ہے۔ پیش پیش کے سرورق پر حسنین عاقب کی جاذب نظر تصویر ان کی متانت اور سنجیدگی و بردباری کو ظاہر کرتی ہے، جب کہ کتاب کے پشت ورق پر فرمان احمد کی بولتی تصویر ان کی خوب صورتی اور دل فریب مسکراہٹ کو نمایاں کرتی ہے، جو ایک زندہ دل اور زندگی سے بھرپور نوجوان کی شخصیت کو واضح کرتی ہے۔ اس تصویر کے نیچے فرمان احمد اور اس کتاب کا مختصر تعارف کروایا ہے معروف افسانہ نگار اور ماہنامہ الفاظ ہند کے مدیر ریحان کوثر نے۔ کتاب کے سرورق سے آگے بڑھتے ہی "پیش الفاظ کا مقدمہ" کے عنوان کے تحت فرمان احمد کا بے تکلف انداز میں لکھا ہوا دیباچہ پڑھنے کو ملتا ہے۔ یہ مقدمہ واقعی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے بعد حسنین عاقب کا تحریر کردہ، "پیش لفظ" یا مقدمے کی روایت پر مشتمل انتہائی اہم اور مفید مضمون "پیش لفظ: تعارف، اشکالات اور گنجائشیں" قارئین اور محققین کی ضیافت طبع کا خصوصی اہتمام کرتا ہے۔
اب آئیے، "پیشں پیش" میں شامل مقدمات اور پیش الفاظ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
"رم آہو" حسنین عاقب کی غزلوں کا مجموعہ اور ان کی زندگی کی اولین کتاب ہے۔ میں نے جب رم آہو کا مقدمہ پڑھا تو ۔۔۔۔
آپ خود ذرا جملوں کی بنت دیکھیں اور حظ اٹھائیں:
"پانچویں چھٹی جماعت سے شروع ہونے والی صوفی سرمد کی سریلی تانوں کی باز گشت، خواجہ معین الدین غریب نواز کے تصوف کی لن ترانیوں کے سلسلے، حافظ اور سعدی کی رباعیات، سب یکے بعد دیگرے پھدک پھدک کر تحت الشعور کی منڈیر سے شعور کے آنگن میں اترنے کو تیار، باقی تھا اک مناسب موقع کا انتظار ۔۔۔۔۔"
ایک اور جگہ بہت خوب صورت جملہ "ضروریات کا پیٹ تنور کی بھٹی بناہواتھا اور میری کمائی منجن کا کوئلہ"
اسی طرح جب "خامہ سجدہ ریز" کا مقدمہ سامنے آیا تو یکایک شگفتہ مزاجی بہت بھلی لگی، حالانکہ مصنف بہت تکلیف دہ حادثے کا شکار ہوئے تھے لیکن اس واقعے کے بعد پیش آنے والے حالات پر کافی بذلہ سنجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسا نقشہ کھینچا کہ قاری اذیت محسوس کرنے کے باوجود مسکرائے بغیر نہ رہ سکے، جیسے یہ منظر کشی دیکھیے، "ناک کے دائیں جانب والا نصف پہلا حصہ متوسط طبقے کے صحت مند آدمی جیسا لگتاہے جس پر عمر کی کہن سالگی کا اثر موسموں جیسا ہے جب کہ ناک کے بائیں طرف والا نصف کسی نو دولتیے کی طرح یا محبوب سے روٹھی پھولی کسی حسینہ کے چہرے کی طرح تمتماتا رہتا ہے۔ پلاسٹک سرجری نے چہرے کو خوب صورتی دی البتہ اچھی خاصی کھڑی ناک اب پھولی لگتی ہے اور لوگ بلاوجہ گمان کرتے ہیں کہ میں غصے میں ہوں۔"
حالانکہ "خامہ سجدہ ریز" عقیدت اور محبت سے لبریز خوب صورت دیباچے اور حمد و نعت پر مشتمل کتاب ہے۔ کتاب تک پہنچنا تو دور، اس کا مقدمہ پڑھنے کے دوران ہی عجیب سی رقت طاری ہوجاتی ہے۔
نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی محبت دل و جاں میں ٹھاٹھںیں مارنے لگتی ہے، ایمان تازہ ہو جاتاہے، سرفروشی کی تمنا عجب کیفیت طاری کر دیتی ہے۔ مصنف نے جہاں اپنے خواب کا ذکر کیا بے، بے شک یہ بڑی سعادت مندی کی بات ہے جسے جان کر قاری کی قوت ایمانی جوش مارنے لگتی ہے۔ عشق رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم میں ڈوبے ان کے جملے روح کو جھنجھوڑکر رکھ دیتے ہیں اور ہم بھی کہہ اٹھتے ہیں کہ ہم جیسے گناہ گار، سیاہ کار، خطاکار کو بھی یہ سعادت نصیب ہو جائے، ہم بھی اپنے آلودہ وجود کو پاک کرنے اور الھم لبیک کہنے خانہ خدا پہنچ جائیں، جہاں ہم جیسوں کے تمام دکھوں کا مداوا ہوسکے۔ ہمارے گناہوں سے لتھڑے وجود پاک و صاف ہو کر دوبارہ زندگی کی شاہراہ پر قدم رکھنے، زندگی بندگی سے گزارنے کا سلیقہ سیکھنے کے قابل ہو سکیں۔ پھر مصنف نے انتہائی ادب و احترام سے اپنی نعت گوئی کے جو اصول مقرر کیے، وہ ہر نعت خواں اور نعت گو کے لیے مشعل راہ ہیں۔
"عقیدت، عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم،
احترام و تقدیس، شوکت الفاظ، غلو و یاوہ گوئی اور کذب گوئی سے اجتناب ۔۔۔۔"
قوت ایمانی کا خاصہ لیے ایک شعر میں اپنا سارا مطمح نظر بیان کر ڈالا۔
تم حد ادب رکھو جب نعت کہو عاقب
شوخی نہ ذرا بھی ہو اسلوب و اداؤں میں
پھر ایک شان دار و جان دار مکالمہ بھی شامل مقدمہ ہے جو بہت جاں گداز اور دل نشین ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے.
ایک جگہ محترم اپنی انگریزی شاعری کے حوالے سے کتنے پیارے انداز میں لکھتے ہیں: "ہماری انگریزی شاعری اتنی وفادار نکلی کہ لندن کے منروا پریس کے مدیر مائکل سائکس کو کہنا پڑا: "مسٹر حسنین کی شاعری انگریزی وزن و بحر اس کے عروض کے ساتھ ساتھ معنوی اعتبار سے بھی ایک طویل عرصہ تک قارئین کے حافظے میں زندہ رہنے والی شاعری ہے۔"
"اقبال بہ چشم دل" ان کی اگلی کتاب ہے جس کے پیش لفظ میں عاقب لکھتے ہیں: "اقبال سے عشق مجھے وراثت میں ملا ہے، میرا اقبال سے وہ تعلق پیدا ہو گیا جو اقبال کو اپنے مرشد رومی سے تھا اور ایسا رشتہ استوار ہوگیا کہ اقبال کی تقلید میں کچھ ستم ظریف لوگوں کی کتابیں پڑھ کر بھی اپنے دل سے ان کی محبت کھرچ کر مٹا نہیں سکا۔"
یہ عشق و عقیدت، روحانیت اور تصوف ان اوصاف کے حامل اقبال رحمۃ اللہ کی وجہ سے پیدا ہوئی اور مصنف میں اپنے باطنی تزکیے اور طہارت کی تمنا حضرت اقبال رح کی بدولت ودیعت ہوئی۔ اس کتاب میں نئی نسل کے ذہن و دل تک ان کے افکار کی ترسیل کو آسان بنا کر پیش کیے جانے کی کاوش نظر آتی ہے۔ اہل سیاست، صاحبان علم و ادب اور علمائے دین سب کی نظر میں اقبال کی اہمیت کو واضح کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔ "کم و بیش" عاقب کی اگلی کتاب ہے جس کے پیش لفظ کے تحت عاقب لکھتے ہیں:
"کم و بیش" میرے ان تنقیدی اور تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے جو میں نے گزشتہ ڈیڑھ دو دہائیوں کے دوران بڑے محتاط انداز میں بڑی محنت اور مشقت کے ساتھ قلم بند کیے ہیں۔ کوشش رہی کہ موضوعات بالکل نئے ہوں جن پر بہت کم لکھا گیا ہو."
"پیش پیش" میں فرمان احمد خان نے عاقب کی اس کتاب کا پیش لفظ بھی شامل کیا ہے جو ابھی زیر اشاعت ہے، ابھی تک قارئین کے ہاتھوں میں نہیں پہنچی ہے۔ یہ کتاب ہے:
” غالب کی کہانی نیر کی زبانی"۔
غالب جیسے شاعر نے بچوں کے لیے کب لکھا؟ مگر شفیع الدین نیر نے بچوں کے لے غالب کی زندگی پر، غالب کی کہانی اپنی زبانی اپنے الفاظ میں لکھی ہے تاکہ غالب کی عظمت و رفعت بچوں کے دل میں بھی پیدا ہوسکے۔ "تین شاعر" سیماب اکبر آبادی، ساحر لدھیانوی اور ابن انشاء کی ان نظموں پر مشتمل کتاب ہے جو بچوں کے لیے لکھی گئی تھیں۔ اس کتاب میں عاقب نے ان شاعروں کی سوانح انتہائی دل چسپ انداز میں تحریر کی ہے اور بچوں کے لیے لکھے جانی والی تحریروں کا احسن انداز میں احاطہ کیا ہے۔ بچوں کے لیے نظمیں لکھنا شفیع الدین نیر کا ایسا کارنامہ ہے جس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ ہر شاعر بچوں کی نفسیات نہیں سمجھ سکتا اور اگر سمجھ بھی جائے تو لکھ نہیں پاتا۔ لیکن عاقب نے انتہائی سلاست اور سادگی سے بچوں کے لیے دل چسپ ادب تخلیق کیا ہے۔ حسنین عاقب نے شفیع الدین نیرکی نظموں اور کہانیوں کی کتابیں مرتب کرکے بچوں کے اس ہمہ وقتی شاعر و ادیب کی تخلیقات کو دستبرد زمانہ سے محفوظ کردیا ہے۔
"آسمان کم ہے" بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیوں پر مشتمل حسنین عاقب کی تازہ ترین مطبوعہ کتاب ہے۔ کتاب کا عنوان جس قدر خوب صورت اور منفرد ہے اسی طرح اس کے مقدمے کی تحریر بھی بہت منفرد ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ سارے مقدمے کی جان اور بیان اس شعر میں ہی پوشیدہ ہے جو عاقب کی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا عکاس و ترجمان ہے:
مجھے بتا کہ مرا حوصلہ کہاں کم ہے
میری اڑان کے آگے تو آسماں کم ہے
فصاحت و بلاغت سے مرصع و مسجع یہ شعر ہی کافی ہے مصنف کا تخیل پرواز جاننے کے لیے۔
ان کتابوں کے علاوہ حسنین عاقب نے شعبۂ تعلیم، شعبۂ درس و تدریس کے تحت نصابات اور درسی مضامین پر مشتمل آٹھ کتابیں تحریر کی ہیں، جو یونی ورسٹی اور ریاست بھر کے کالجوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ ان درسی کتابوں کے پیش الفاظ یا مقدمات بھی دل چسپ و مفید معلومات سے بھرپور اور پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان آٹھ کتابوں میں چار کتابیں انگریزی میں ہیں جو زیر تربیت معلمین کے لیے انگریزی زبان کی تدریس کے فن پر مشتمل ہیں۔ یہ کتابیں انگریزی زبان کے خوف میں مبتلا اور بدیسی زبان نہ جاننے کے سبب احساس کمتری میں مبتلا بچوں کو اعتماد دلانے کے لیے ایک اہم وسیلہ ہیں۔ ان کتابوں کے مقدمات پڑھ کر ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حسنین عاقب درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ نہیں کیے گئے بلکہ وہ پیدا ہی دوسروں کو علم اور تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے ہوئے ہیں۔ ان کے طلبہ ان سے علم کا وہ خزانہ حاصل کر سکتے ہیں جو ان کو معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ مضبوط کردار اور اخلاق کا حامل بھی بناتا ہے. بلاشبہ تعلیم اور درس و تدریس کے شعبے میں ان کی کوششیں اور مہارت قابل ستائش و احترام ہے۔ اپنے استاد مخلص مصوری کو شان دار خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی کتاب "دیوار حرم کے سائے تلے" مرتب کی گئی ایسی کتاب ہے جس کے مقدمے کے لفظ لفظ سے استاد کی عظمت سے زیادہ شاگرد کی سعادت مندی، عجز و انکسار نمایاں ہوتا ہے۔اگرچہ عاقب اپنے ان استاد سے بہت کم استفادہ کر پائے اس کے باوجود انھوں نے مخلص مصوری کا دل سے احترام کیا اور آخری سانس تک اور ان کے پردہ کرجانے کے بعد بھی ان کو استاد ہونے کا اعزاز دینے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ باادب بامراد، بے ادب بے مراد۔ عاقب ایک اچھے شاگرد تھے اس لیے اب بہت اچھے استاد ہیں۔
اردو اور انگریزی ادب میں ایک بلند مقام پر پہنچ جانے کے باوجود عاقب کا یہ طرز عمل ایک شاگرد کی اعلا ظرفی کا ہی خاصہ ہوسکتا ہے۔ حسنین عاقب برصغیر میں ایک بہترین مترجم کے طور پر بھی معروف و مقبول ہیں۔ انھوں نے کلاسک شعرا سے لے کر معاصر شعرا تک کی نظموں کے منظوم تراجم اور دنیا بھر کے ادیبوں کے منتخب افسانوں کے تراجم کیے ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی "میں ہوں نجود" نامی کتاب ہے جو فرانسیسی زبان میں لکھی گئی ایک یمنی لڑکی کی کہانی ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ حسنین عاقب نے انتہائی سلجھے ہوئے اور شستہ اسلوب میں کیا ہے. اس ترجمے کی خوبی یہ ہے کہ پہلی سطر سے لے کر آخری لائن تک قاری کی دل چسپی کتاب میں قائم رہتی ہے۔
حرف آخر عرض ہے کہ "پیش پیش" میں پیش کیےجانے والے مقدمات نہ صرف عمدہ ہیں بلکہ ان کتابوں کو پڑھنے کی طرف رغبت دلاتے ہیں۔
عنوان اور انتساب سے لے کر زیر، زبر، پیش تک اسے ایک بروقت اور بہترین کاوش کہا جاسکتا ہے۔”پیش پیش" کے مطالعے سے حسنین عاقب کی ہمہ جہت شخصیت کھل کر سامنے آتی ہے۔ ایسی شخصیت جسے پرت در پرت اتارتے جائیے، تہہ در تہہ کھولتے جائیے، ایک دھلا دھلا سا، نکھرا نکھرا سا انسان آپ کے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے جو عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جذبے سے سرشار ہے۔
حضرت اقبال کے تصوف سے آراستہ و پیراستہ، درس و تدریس کے فن میں استاد اور طلبہ کی ذہنی و روحانی ترقی و فلاح کا مبلغ، بہترین شاعر، نعت گو، مثبت انداز فکر رکھنے والا محقق و نقاد، غرض کہ سارے مقدمات پڑھ کر مصنف کے بارے میں جو مجموعی تاثر پیدا ہوا اور ان کی شخصیت کے جو رنگ سامنے آئے، وہ دل کش اور دل چسپ ہی نہیں بلکہ باعث تقلید بھی ہیں۔ بلاشبہ ایک اچھا مصنف وہی ہوتا ہے جو اپنے مقلدین، اپنے قاری یا اپنے طلبہ پر اپنی سوچ کو مسلط کیے بنا لا شعوری طور ان کے سوچنے کا زاویہ بھی مثبت کردے، ان کو اپنے رنگ میں ڈھال دے، گمراہ کرنے کے بجائے اس راہ پہ گامزن کردے جو صراط مستقیم کہلاتی ہے۔
فرمان احمد خان کا شکریہ کہ انھوں نے مصنف کی تصانیف کے مقدمات عوام کے سامنے پش کرکے حسنین عاقب کی تخلیقی و ادبی صلاحیتوں کو اس منفرد انداز میں قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس کتاب کا کھلے دل سے استقبال کیجیے۔
***
ارم رحمن کی گذشتہ تخلیق :مستعار

کتاب: پیش پیش
شیئر کیجیے