انجینئر محمد عادل فرازؔ
ہلال ہاؤس4/114
نگلہ ملّاح سول لائن علی گڑھ
Email:mohdadil75@yahoo.com
mob: 8273672110
عصر حاضر جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی اپنے پورے شباب پر ہے اگر اس کو مشینی دور کہا جائے تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ کیوں کہ انسان موجودہ دور میں مشینوں پر اس قدر منحصر ہے کہ وہ خود بھی چلتی پھرتی مشینوں میں تبدیل ہوگیا ہے۔ یہاں تک کہ یہ مشینیں اس کے جسم میں بھی پیوست ہو چکی ہیں۔ جن کی مدد سے انسان زندگی گزار رہا ہے۔ اس لیے ایسے ماحول میں جہاں انسان چاروں طرف سے مشینوں سے گھرا ہوا ہے تو یہ سوال لازمی اٹھتا ہے کہ ”کیا ہم زندہ ہیں؟“
علیزے نجف کی یہ کتاب نہ صرف ہمیں اپنی زندگی کے مسائل کے بارے میں غور و فکرکے لیے آمادہ کرتی ہے۔ بلکہ اس کی تلخ حقیقت سے بھی آشنائی کراتی ہے۔ جس کو پڑھ کر خود آگہی کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ یہ کتاب خود آگہی کے موضوع پر اردو زبان کی ایک ایسی منفرد کتاب ہے، جس میں تفصیل سے انسانی نفسیات اور اس کے مسائل سے متعلق موضوعات پر اہم معلومات دیکھنے کو ملتی ہیں۔
کتاب کا نام مصنفہ نے بہت سوچ سمجھ کر رکھا ہے”کیا ہم زندہ ہیں؟“. اس سے پہلے کہ ہم اس نتیجے پر پہنچیں کہ کیا ہم واقعی زندہ ہیں؟ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ زندہ ہونا اور زندگی کس کو کہتے ہیں؟ کیا صرف سانوں کا چلنا اور دل کے دھڑکنے کا نام زندگی ہے؟ اس موقعے پر برج نرائن چکبست کا ایک شعر ذہن میں آتا ہے، جس میں وہ زندگی اور موت کی عمدہ ترجمانی کر رہے ہیں:
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
چکبستؔ نے اپنے اس شعر کے ذریعے زندگی اور موت سے متعلق اہم معلومات کو یک جا کر دیا ہے۔ زندگی جسم کے عناصر کے ظہور ترتیب کا نام ہے اور موت ان اجزا کے اندر پیدا ہونے والے خلل کے سبب وجود میں آتی ہے۔ اس لیے اگر انسان کو اپنی صحت سے متعلق درست آگہی حاصل ہو جائے تو وہ صحت مند اور طویل زندگی گزار سکتا ہے۔ جسم کی وہ کیفیت اور حالت جو معمول کے مطابق ہو، جس میں کسی قسم کی کوئی بیماری لاحق نہ ہو صحت کہلاتی ہے۔ اس میں ذہن اور جسم دونوں کا صحیح و سالم ہونا لازمی ہے۔
اگر ہم درست معنوں میں جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند ہیں تبھی ہم حقیقی طور پر زندہ ہیں۔ ہم جسمانی بیماریوں کا تو علاج کرانے معالج کے پاس جاتے ہیں لیکن اپنے ذہنی امراض کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔کیوں کہ ہمیں اس سے متعلق آگہی نہیں ہوتی۔
علیزے نجف کی کتاب ”کیا ہم زندہ ہیں“ ہمیں عصر حاضر کے مشینی دور میں پیدا ہونے والے انسانی نفسیات اور ذہنی مسائل کی آگہی سے متعلق اہم معلومات فراہم کرتی ہے۔ ساتھ ہی اس بات پر بھی روشنی ڈالتی ہے کہ کس طرح ہم ایک خوش گوار زندگی گزار سکتے ہیں۔
پروفیسر خالد جاوید کتاب کی اہمیت و افادیت سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”علیزے نجف کی یہ کتاب اردو میں اپنی طرز کی انوکھی کتاب ہے۔ انسانی زندگی کے مختلف پہلووں اور جہات کو موضوع بنا کر لکھے گئے یہ مضامین نہایت ہی عمدہ، اور سنجیدہ علمی نوعیت کے ہیں۔ اخلاقی، سماجی، نفسیاتی اور فلسفیانہ بصیرت ان مضامین کو ایک چیزے دیگر بنا دیتی ہے اور جس کی کوئی مثال کم از کم مجھے اردو میں فی الحال نظر نہیں آتی۔ انگریزی اور دوسری زبانوں میں Self Help کے موضوع پر کتابیں لکھنے کا رواج عام رہا ہے، مگر اردو میں اس موضوع کی طرف توجہ کم دی گئی ہے۔ اگر کچھ مضامین لکھے بھی گئے ہیں تو وہ انشائیوں کی شکل میں ہیں۔ سنجیدہ، فکر انگیز اور علمی ڈسپلن کے ساتھ باقاعدہ طور پر لکھی گئی یہ وہ پہلی کتاب ہے جو میری نظر سے گزری ہے۔ ان مضامین کو پڑھنے کے بعد علیزے نجف کی اپنی علمیت، بصیرت، ذہانت اور فراست کا واضح سراغ ملتا ہے۔
کتاب کا انتساب علیزے نجف نے اپنی والدہ سیدہ وحید کے نام کیا ہے جن سے انھوں نے سوچنا سیکھا۔ ظاہر ہے ہر بچے کی تعلیم و تربیت میں ان کے والدین کا اہم کردار ہوتا ہے۔ خاص طور سے ماں کا رول بہت اہم ہے۔ کیوں کہ ماں ہی بچے کی پہلی استاد ہوتی ہے۔ یہ قول بھی مشہور ہے کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے”ایک خاتون کا ہاتھ ہوتا ہے“۔ اور میرے نزدیک وہ خاتون ماں کے علاوہ کون ہو سکتی ہے۔ جو زندگی کی ابتدا سے ہی اپنی اولاد کی کامیابی و کامرانی کے لیے ہر لمحہ کوشاں رہتی ہے۔ بچے کی ذہنی اور جسمانی نشو و نما میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے ایسی بھی مائیں گزری ہیں جن کی تعلیم و تربیت نے نفسیاتی اور ذہنی طور پر کمزور سمجھے جانے والے بچوں کی اس طرح تربیت کی کہ وہ دنیا میں بڑے ذہین اور عظیم تصور کیے گئے۔ اس سلسلے سے تھامس ایڈیسن کا نام لیا جا سکتا ہے۔ اس کی ماں نے ایڈیسن کی اس طرح تربیت کی کہ ایک ذہنی کمزور تصور کیے جانے والا بچّہ اپنی صدی کا ایک عظیم سائنس داں بن کر ابھرا۔ علیزے نجف کی زندگی کی تمام کامیابیوں کا کریڈٹ ان کی والدہ سیدہ وحید کو ہی جاتا ہے۔ جن کی کوششوں کے سبب علیزے نجف نے ایک حساس ذہن پایا اور اس منفرد کتاب کو تخلیق کیا۔
کتاب میں کل ملا کر ۲۲ مضامین اور ایک آزاد نظم شامل ہے۔ جس کا عنوان بھی علیزے نجف نے ”کیا ہم زندہ ہیں؟“ رکھا ہے۔ نظم کی شروعات اس طرح ہوتی ہے:
جانے کیوں ہم جسم سے روح کے
نکل جانے سے خوفزدہ ہوتے ہیں
ہم صرف انھیں لاشوں پہ روتے ہیں
جو حرکت نہیں کر سکتیں
پتہ نہیں کیوں لوگ شمشان اور قبرستان تک
پہنچ جانے والوں کو مردہ کہتے ہیں
جب کہ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں
جنھیں مرے ہوئے ایک زمانہ گزرجاتا ہے
لیکن انھیں قبر جیسی آرام گاہ نہیں ملتی
نظم کے آخر میں بھی علیزے قاری سے زندگی اور موت کے حوالے سے سوالات کرتی ہیں:
خدائے لم یزل نے تو ہمیں زندگی بخش دی
لیکن اس زندگی کے اسرار پر
آج بھی ایک سوالیہ نشان لگا ہوا ہے
موت اور زندگی نامی دو انتہاؤں کے بیچ
ہم معلق ہیں
صحیح معنوں میں دونوں ہی
ہماری حد دسترس میں نہیں
آئیں ایک سوال ہم خود سے پوچھتے ہیں
کیا ہم زندہ ہیں؟
آخر ہم کہاں ہیں؟
کہ ہمیں خود سے ملے ایک زمانہ بیت چکا ہے
کتاب کی شروعات میں علیزے نے ایک قول رقم کیا ہے:
”کچھ لوگ پچیس سال کی عمر میں مر جاتے ہیں، لیکن پچھتر سال کی عمر میں انھیں دفن کیا جاتا ہے۔“ (بنجامن فرینکلن)
اس قول کو اس پوری نظم کا نچوڑ کہا جاسکتا ہے۔ پوری نظم میں علیزے نجف سوالات کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ دراصل اس کے پیچھے ان کا مقصد قاری کے سوئے ہوئے اذہان کو جگانا ہے۔ تاکہ وہ اس مشینی دور میں اپنی ذات کے مسائل سے متعلق غور و فکر کر سکے۔ وہ نظم میں طنز کے نشتر بھی چلاتی ہیں۔ لیکن اس کے پس پشت قاری کی فکر رسا کو متحرک کرنا ہوتا ہے۔
نظم کو پڑھ کر علیزے کی شاعرانہ فکر کی پرواز کا بھی بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ شاعری اور نثر میں موصوفہ کی برابر دسترس معلوم ہوتی ہے۔ اس کتاب کی تخلیق میں علیزے نجف نے بہت سی باتوں کا مخصوص خیال رکھا ہے۔ کتاب کی زبان سادہ اور سلیس ہے۔ کہیں قاری کو کوئی بات سمجھنے میں دشواری پیدا نہیں ہوتی ہے۔ اور نہ کوئی معمہ پیش آتاہے۔ وہ اس بات کا بھی خیال رکھتی ہیں کہ عبارت متروک اور ثقیل الفاظ سے پاک رہے۔ اس لیے وہ ان کی جگہ انگریزی اور ہندی کے رائج الفاظ کو استعمال کر لیتی ہیں تاکہ قاری کو آسانی کے ساتھ کسی بات کو سمجھایا جاسکے۔
علیزے نے اپنی تحریر کو دل چسپ بنانے کے لیے مختلف کہانیوں کو بھی پیش کیا ہے۔ جس میں پیش کیے گئے کردار عصر حاضر کے مشینی دور سے وابستہ ہیں۔موصوفہ نے ان کرداروں کے ذریعے بدلتے ہوئے انسانی رشتوں، معاشرے میں جنم لیتی ہوئی تنہائی، بے چینی اور مایوسی اور نفسیاتی مسائل کی جیتی جاگتی منظر کشی کی ہے۔
علیزے اپنی کتاب میں ماہرین نفسیات، سماجیات، مفکرین، اور عظیم شخصیات کے اقوال بھی پیش کیے ہیں تاکہ ہم ان کی روشنی میں اپنی زندگی کا تجزیہ کرسکیں۔
کتاب میں شامل مضامین کے عنوان بھی حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ اتنے جاذب ہیں کہ ان کو پڑھ کر ہی قاری کی فکر متحرک ہونے لگتی ہے۔ چند عنوانات دیکھیں:
”مسائل حل کرنے والا ذہن، نرگسیت کی وبا، ٹاکسک پازٹیٹیوٹی (Toxic Positivity)، ناکامی کی ذمے داری، سوچنا ایک آرٹ ہے، عادت کی طاقت، کمفرٹ زون (Comfort Zone) کی قید، مواقع کبھی ختم نہیں ہوتے، فیصلہ سازی کی صلاحیت، اوور تھنکنگ (Over Thinking) کے مضر اثرات، ذہنی غربت ایک سنگین مسئلہ، موٹیویشن مع ڈسپلن (Motivation with Discipline)، نفسیاتی صحت کی دیکھ بھال، مقصد زندگی کا تعین“ وغیرہ۔
کتاب کا پہلا مضمون جس کا عنوان بھی ”کیا ہم زندہ ہیں۔۔۔۔۔؟“ہے۔ جس میں مصنفہ نے انسانی وجود اور زندگی کے اصل معنی پر روشنی ڈالی ہے۔ مضمون کی شروعات میں نیپولین بوناپارٹ کا قول”موت کچھ بھی نہیں ہے؛ لیکن شکست و ریخت کے ساتھ جینا روز مرنے کے جیسا ہے۔“ اس قول کی روشنی میں جب قاری اس مضمون کو پڑھتا ہے تو خود اپنی ذات کی گہرائیوں میں ڈوب کر اپنے نفسیاتی مسائل کا تجزیہ کرنے لگتا ہے۔مشینی دور میں جہاں انسان بہت سے مسائل میں مبتلا ہے، ان مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے لازم ہے کہ وہ خود اپنا تجزیہ کرے۔ ماہرین نفسیات سے اپنی ذہنی بیماریوں کا علاج بر وقت کرا سکے اور اپنے آپ کو اس قابل بنا سکے کہ وہ حقیقی معنوں میں زندگی گزارے۔
کتاب کا دوسرا مضمون ”مسائل حل کرنے والا ذہن“ بھی ایک اہم مضمون ہے۔ اس میں علیزے نجف نے ذہن کی طاقت اور قوت کے بارے میں بتایا ہے کہ بہت سے مسائل اس وقت حل ہو جاتے ہیں، جب ہم ان کے بارے میں غور و فکر کرنے لگتے ہیں۔
دیگر مضامین میں ”نرگسیت کی وبا“ بھی ایک اہم مضمون ہے، جس میں علیزے نے نرگسیت اور اس میں مبتلا افراد کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ عصر حاضر میں نرگسیت بھی ایک اہم نفسیاتی مسئلہ ہے۔جس میں مبتلا شخص صرف اپنی ذات کو دیگر افراد سے برتر سمجھتا ہے اور اپنے بارے میں کوئی مخالف بات کو برداشت نہیں کرتا ہے۔ اسے صرف اپنی فکر لاحق ہوتی ہے۔
دوسرے اہم مضامین میں ”ٹاکسک پازیٹیوٹی“ بھی ایک اہم مضمون ہے، جس میں حد سے زیادہ مثبت فکر کے نقصانات پر غور و فکر کرنے کی دعوت ملتی ہے۔ سوچنا ہماری زندگی میں کتنا اہم ہے اس کے بارے میں ہمیں ”سوچنا ایک آرٹ ہے“ میں پتا چلتا ہے۔ جس میں علیزے مہاتما گاندھی کے قول سے اپنی بات کا آغاز کیا ہے۔گاندھی جی کہتے ہیں ”انسان اپنی سوچ کی پیداوار ہے، جو وہ سوچتا ہے وہی بن جاتا ہے۔“ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد قاری اس بات سے آشنا ہوتا ہے کہ اس کی کردار سازی میں فہم و ادراک کی کتنی اہمیت ہے۔ وہ جو سوچتا ہے وہی کرتا ہے اور دھیرے دھیرے اسی رنگ میں ڈھلتا چلا جاتا ہے۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے سوچنے کاطریقہ اس طرح کا ہونا چاہئے جس سے ہم اپنی کردار سازی کر سکیں۔ ان خواہشات کو پایۂ تکمیل تک پہنچا سکیں جو ہماری زندگی کے لیے مفید ہیں۔
کتاب کے دیگر مضامین میں ”عادت کی طاقت، فیصلہ سازی کی صلاحیت، مقصد زندگی کا تعین، مثبت ذہنی رویہ“ وغیرہ بھی کافی اہم ہیں۔ ان مضامین کو پڑھ کر قاری اپنے اندر اچھی عادت، فیصلہ سازی کی صلاحیت، مثبت فکر اور اپنے مقصد حیات کا تعین کرنا سیکھ سکتا ہے۔
مشینی دور میں جہاں کثرت سے مشینوں کے استعمال نے انسان کو کمفرٹ زون کا عادی بنایا ہے وہیں مشینی استعمال نے انسان کے اندر بہت سے مسائل کو بھی جنم دیا ہے۔ ان مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کے لیے کتاب میں موجود مضامین ”ناکامی کی ذمہ داری، کمفرٹ زون کی قید، اوور تھنکنگ کے مضر اثرات، ذہنی غربت ایک سنگین مسئلہ، خوش رہنا سیکھنا پڑتا ہے“ وغیرہ سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
الغرض ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ علیزے نجف کی یہ کتاب عصر حاضر میں انسانی نفسیات کو سمجھنے اور ان کا درست حل تلاش کرنے میں ایک اہم کتاب ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کتاب کو ہر عمر کے افراد کو بہ غور مطالعہ کرنا چاہئے۔ کیوں کہ عصر حاضر کے مشینی دور نے ہماری غور و فکر کرنے کی صلاحیت کو بھی سلب کرنا شروع کر دیا ہے۔ جس کی عمدہ مثال آرٹیفیشل انٹیلیجینسی ہے جس میں چیٹ جی پی ٹی اور گروک کا نام لیا جاسکتا ہے۔ جس کا استعمال آج کی نئی نسلیں بڑی کثرت سے کر رہی ہیں۔ لہذا ایسے ماحول میں ہمیں اپنے معاشرے کی ذہن سازی کے لیے ایسی کتابوں کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ ہماری آنے والی پیڑھی انسان ہی بنی رہے، چلتی پھرتی مشینوں میں تبدیل نہ ہو جائے اور ہم حقیقی معنوں میں کہہ سکیں کہ ہاں ہم زندہ ہیں۔
***
انجینئر محمد عادل فرازؔ کی گذشتہ نگارش : سائنسی دور کا قیامت خیز ترجمان: "قیامت کے باوجود"

کتاب: کیا ہم زندہ ہیں؟
شیئر کیجیے