شبیر احمد، کولکاتا
غضنفر ایک ہمہ جہت فن کار ہیں، جو شاعری، افسانہ، ناول، ڈراما، تنقید اور انشائیہ جیسی صنفوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ کہنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ کس صنف میں سب سے زیادہ ماہر ہیں۔ ان کی تخلیقی زندگی تقریباً نصف صدی پر مشتمل ہے اور اب تک مختلف موضوعات پر ان کی ڈھائی درجن سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں، جن میں نو ناول اور افسانوں کے دو مجموعے شامل ہیں۔
غضنفر جدید اردو افسانے کی ایک اہم آواز ہیں۔ ان کے افسانے محض کہانیاں نہیں، بلکہ ہمارے عہد کی حقیقی تصویریں ہیں، جہاں استحصال، عدم مساوات، فرد کی تنہائی اور معاشرتی جبر مختلف روپ میں نمایاں ہوتے ہیں۔ وہ اپنے افسانوں میں سماجی، سیاسی اور نفسیاتی موضوعات کو بڑی مہارت کے ساتھ سموتے ہیں۔ ان کا فن داستانوی رنگ، حقیقت نگاری اور علامتی اسلوب کا حسین امتزاج ہے۔ وہ کہانی کے روایتی سانچوں سے نکل کر نئی فکر، نئے اسلوب اور منفرد طرزِ اظہار کی جستجو کرتے ہیں، جس کے سبب ان کے افسانے نہ صرف عصری مسائل کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ اردو افسانے کے ارتقائی سفر میں بھی ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں معاشرتی اور سیاسی نظام پر گہرا طنز ملتا ہے، جو قاری کے ذہن میں کئی سوالات چھوڑ جاتا ہے۔
ان کا افسانہ "ایک اور منتھن" طبقاتی خلیج اور طاقت کی غیر منصفانہ تقسیم کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام اور اشرافیہ کے مفادات کو چیلنج کرتا ہے، جو محنت کش طبقے کی بدحالی کا سبب بنتے ہیں۔ یہ افسانہ دراصل سماجی ناانصافی، غربت، محنت کی بے قدری، اور حکمران طبقے کے کھوکھلے وعدوں کے خلاف ایک بھرپور احتجاج ہے۔ یہ اپنے علامتی اور استعاراتی اندازِ بیان کی وجہ سے قاری پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ اس میں قدیم دیومالائی قصے "ساگر منتھن" کو موجودہ صورتِ حال کے پس منظر میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ افسانہ ایک اساطیری کہانی پر مبنی ہے، جہاں دیوتا اور دانوؤں کے بجائے عام انسان ساگر منتھن (چیزوں کو کھوجنے یا الگ کرنے کا عمل) کر رہے ہیں۔ یہ جدید دور میں طاقت کے ارتکاز، استحصالی نظام، طبقاتی تقسیم اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم پر ایک گہرا طنز ہے۔ افسانے میں "رسی کھینچنے والے" دراصل محنت کش طبقے کے نمائندے ہیں، جو اپنی توانائی صرف کرکے قدرتی وسائل حاصل کر تے ہیں، مگر ان کے فائدے مراعات یافتہ طبقہ لوٹتے ہیں۔ دوسری طرف، کرسیوں پر بیٹھے لوگ سرمایہ دار اور اقتدار کے حامل افراد ہیں، جو محض احکامات جاری کرتے ہیں اور دوسروں کی محنت کا ثمر سمیٹتے ہیں۔ افسانے میں "ساگر" وسائل اور مواقع کی علامت ہے۔ "رسی کھینچنے والے" محنت کش طبقے کے لوگ ہیں جو وسائل پیدا کرتے ہیں۔ جب کہ کرسیوں پر بیٹھے افراد اشرافیہ اور طاقت ور طبقے سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو محنت کا استحصال کرتے ہیں۔ زہر کا نکلنا اس بات کی علامت ہے کہ آج کی دنیا میں جدوجہد کے بعد بھی عام لوگوں کو کچھ نہیں ملتا، بلکہ وہ نقصان ہی اٹھاتے ہیں۔ امرت نہ نکلنا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اب استحصالی نظام میں کوئی خیر باقی نہیں رہا۔ غرض یہ کہ افسانہ سماج کے اندر طبقاتی خلیج اور طاقت کی غیر منصفانہ تقسیم کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام اور اشرافیہ کے مفادات کو چیلنج بھی کرتا ہے، جو محنت کش طبقے کی بدحالی کا سبب بنتے ہیں۔ یہ دراصل سماجی ناانصافی، غربت، محنت کی بے قدری اور حکمران طبقے کے کھوکھلے وعدوں پر ایک بھرپور احتجاج ہے۔ افسانے کا اختتام چونکا دینے والا اور معنویت سے پُر ہے۔ جب گیا نیشور رشی کہتے ہیں:
"امرت ہوتب تو نکلے۔"
"ساگر کے گربھ سے امرت پہلے ہی نکل چکا ہے۔"
"کیا؟"
"ہاں، اسے نکال کر کچھ لوگوں نے پہلے ہی پی لیا۔"
یہ اس حقیقت کا انکشاف ہے کہ دنیا کے وسائل پہلے ہی طاقتور طبقے کے ہاتھ لگ چکے ہیں۔ اب جو کچھ بچا ہے، وہ زہر ہے، جس میں غریب اور محنت کش طبقے کو دھکیلا جا رہا ہے۔ یہ افسانہ درحقیقت ہمارے عہد کا نوحہ ہے۔ افسانے کی زبان انتہائی پُراثر، علامتی اور فلسفیانہ ہے۔ مکالمے جان دار اور اثر انگیز ہیں، جو قاری کو نہ صرف سوچنے پر مجبور کرتے ہیں بلکہ تجسس اور تجزیے کی کیفیت بھی پیدا کرتے ہیں۔
افسانہ، ’’آبیاژہ‘‘ بھی فکری اور علامتی سطح پر گہری معنویت کا حامل ہے، جو قاری کو ایک داخلی اور نفسیاتی تجربے سے گزارتا ہے۔ یہ فریب اور حقیقت کے درمیان انسانی جدوجہد؛ نیز بنیادی ضروریات اور مصنوعی آسودگی کے درمیان معاشی کش مکش کا ایک خوب صورت ادبی اظہار ہے۔ اگرچہ بعض جگہوں پر اس کی زبان بوجھل ہو جاتی ہے، لیکن مجموعی طور پر یہ ایک موثر اور قابلِ غور تمثیلی افسانہ ہے، جو قاری کو بیک وقت حقیقت اور فنتاسی کے بین بین لے کر جاتا ہے۔ افسانہ انسانی پیاس، تلاش، اضطراب اور خواہش کے مابین تعلق کو علامتی انداز میں بیان کرتا ہے۔ یہاں "پانی" محض مادی شے نہیں بلکہ داخلی سکون، روحانی سیرابی اور حقیقی ضرورت کا استعارہ بن کر ابھرتا ہے۔ اس کے برعکس جاں فزا اور پرستان کی دنیا فریبِ نظر، تخیلاتی آسودگی اور وقتی سکون کی نمائندہ ہے۔ جاں نثار کا جاں فزا کے پستانوں سے پانی کے لیے دست بردار ہو جانا دراصل انسانی جبلّت اور اس کی اصل ضروریات کے درمیان کش مکش کی علامت ہے۔ جاں نثار اس نوجوان کی علامت ہے جو اضطراب اور بے قراری کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ وہ پیاسا ہے، لیکن فریب کی دنیا میں بھی کھو جاتا ہے۔ آخرکار، وہ حقیقت کی تلاش میں لوٹ آتا ہے، جو اس کے کردار کی نفسیاتی پیچیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ جب کہ جاں فزا فریب، خواب، تمنا کی علامت ہے جو انسان کو وقتی آسودگی تو بخشتی ہے مگر اس کی اصل ضرورت پوری نہیں کرتی۔ وہ جمال، حسن اور سرور کی علامت ہونے کے باوجود حقیقت سے خالی ہے۔ افسانہ محض ایک کہانی نہیں بلکہ ایک فلسفیانہ اور نفسیاتی تجربہ ہے جو انسان کی بنیادی ضروریات اور مصنوعی آسودگی کے درمیان فرق واضح کرتا ہے۔ متن میں پرستان، خلائی مکالمے اور پرسرار عناصر ایک ایسی ماورائی فضا تخلیق کرتے ہیں جو اسے روایتی حقیقت پسند افسانوں سے الگ کرتی ہے۔جاں نثار کا جاں فزا کی رومانوی کشش کے باوجود پانی کے لیے لوٹ آنا انسان کی بنیادی جبلّت اور حقیقت کی طرف مراجعت کو ظاہر کرتا ہے۔ بعض مقامات پر زبان غیر ضروری طور پر خطیبانہ ہو گئی ہے، جو قاری پر قدرے گراں گزرتی ہے۔ کہانی کی طوالت بعض جگہوں پر غیر ضروری تفصیل کا باعث بنتی ہے، جس سے بیانیے کی اثر انگیزی متاثر ہوتی ہے۔ نیز جاں نثار اور جاں فزا کے مکالمے بعض جگہوں پر پیچیدہ اور فلسفیانہ ہوگئے ہیں، جو بیانیے کی روانی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
افسانہ "اتم چند والیہ“ میں غضنفر نے ایک عام سے تعلیمی تعامل کو گہرے سماجی اور نفسیاتی پہلوؤں سے جوڑ کر ایک منفرد کہانی تخلیق کی ہے، جو کئی اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے اور جن میں استاد اور شاگرد کے تعلقات، عقیدت، خلوص اور انسانی نفسیات کے عناصر شامل ہیں۔ اتم چند والیہ ایک غیر روایتی شاگرد ہے جو ادب سے محبت کرتا ہے اور اپنے جذبات کے اظہار کے لیے مخصوص طریقے اپناتا ہے۔ اس کا بار بار تحفے دینا دراصل اس کی نفسیاتی کش مکش کی علامت ہے۔ وہ عقیدت و احترام کے جذبات میں اس قدر گرفتار ہے کہ استاد کی ناپسندیدگی کے باوجود اپنے جذبات کو قابو میں نہیں رکھ پاتا۔ دوسری جانب، استاد(راوی) جو اصولی اور سنجیدہ شخصیت کا مالک ہے، والیہ کی عقیدت کو سمجھنے کے باوجود اسے ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھنے دیتا، جس سے ان کے کردار میں توازن اور وقار کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ یہاں تحائف دراصل ایک شاگرد کی عقیدت کا استعارہ ہیں۔ وہ لفظوں میں اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کے بجائے مادی اشیا کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ ابتدائی طور پر یہ ایک رسمی تعلیمی سلسلہ ہوتا ہے، لیکن رفتہ رفتہ یہ ایک جذباتی اور عقیدت بھرے تعلق میں بدل جاتا ہے، اور یہی اس افسانے کا حسن ہے۔ بیانیہ دل چسپ اور مربوط ہے، جو قاری کو اختتام تک باندھے رکھتا ہے۔ افسانہ نگار نے بڑی مہارت سے ایک عام تعلیمی معاملے کو جذباتی گہرائی میں تبدیل کر دیا ہے.
***
قسط دوم:
"پارکنگ ایریا" غضنفر کے قلم سے نکلی ہوئی ایک دل چسپ اور فکر انگیز کہانی ہے جو شہری زندگی کے بدلتے ہوئے منظرناموں، سماجی رشتوں کی پیچیدگیوں اور انسانی احساسات کے اتار چڑھاؤ کو بڑی خوب صورتی سے پیش کرتی ہے۔ اس کا اصل موضوع شہری ترقی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تنگی اور گھٹن ہے۔یہاں دہلی کے ایک محلے کی تبدیلی کو دکھایا گیا ہے جہاں کشادہ مکانات اب بلند و بالا فلیٹس میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ یہ تبدیلی نہ صرف عمارتوں بلکہ رشتوں اور انسانی جذبات کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ایک طرف دیہات سے شہر آنے والے نوجوان کی حیرت اور دوسری طرف شہری زندگی کے دباؤ سے چور بزرگ کی بے بسی۔ نیز کہانی میں رشتوں کی نزاکت اور بدلتے سماجی رویوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اشفاق کے خالو اور خالہ کا رویہ، صفیہ کی سرد مہری، اور پارکنگ ایریا والے بزرگ کے بیٹوں کی بے توجہی اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ مادی ترقی نے خاندانی رشتوں کو کس حد تک کم زور کردیا ہے۔ اشفاق ایک سادہ دل دیہاتی نوجوان ہے جو شہر کی چکاچوند اور اس کی پیچیدگیوں سے نابلد ہے۔ اس کی حیرت، اس کی الجھن اور اس کی امید کہانی کو ایک جذباتی گہرائی دیتی ہے۔ دوسری طرف، پارکنگ ایریا کا بزرگ کردار کہانی کا سب سے مضبوط ستون ہے۔ اس کی باتوں میں زندگی کا تجربہ، ماضی کی حسرت اور حال کی تنگی جھلکتی ہے۔ وہ ایک دانشور اور فلسفی کی طرح باتیں کرتا ہے، جو کہانی کو واقعات سے آگے ایک فکری سطح پر لے جاتا ہے۔ خالو (خلیل اللہ) اور خالہ کے کردار شہری زندگی کے عملی پہلوؤں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کا مہمان نواز لیکن محدود رویہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی مصروفیات اور مفادات میں الجھے ہوئے ہیں۔ صفیہ کا کردار پس منظر میں رہتا ہے، لیکن اس کی موجودگی (یا عدم موجودگی) اشفاق کے لیے ایک جذباتی کش مکش پیدا کرتی ہے، جو افسانے کا ایک لطیف مگر اہم عنصر ہے۔ افسانے میں جزئیات نگاری بھی کمال کی ہے۔ فلیٹ کے اندرونی مناظر، پارکنگ ایریا کی گندگی، اور بدلتے محلے کا نقشہ قاری کے سامنے ایک واضح تصویر کھینچتے ہیں۔ البتہ، بعض جگہوں پر تفصیلات شاید ضرورت سے زیادہ طویل ہو گئی ہیں، جو کہانی کے بہاؤ کو سست کر دیتی ہیں۔ مجموعی طور پر افسانہ قاری پر ایک گہرا جذباتی اور فکری اثر چھوڑتا ہے۔ یہ نہ صرف شہری زندگی کی حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ ترقی کی دوڑ میں ہم کیا کیا کھو رہے ہیں۔ پارکنگ ایریا کا بزرگ ایک علامت بن کر ابھرتا ہے جو پرانی اقدار، کشادگی اور رشتوں کی گرمی کو یاد دلاتا ہے، جب کہ اشفاق مستقبل کی امید اور نئی نسل کی جدوجہد کی نمائندگی کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ غضنفر نے اس افسانے کے ذریعے ایک ایسی دنیا تخلیق کی ہے جو قاری کے دل و دماغ میں دیر تک گونجتی رہتی ہے۔
افسانہ "پنڈولم" کا عنوان علامتی ہے، جو کہانی کے بنیادی موضوع کی عکاسی کرتا ہے۔ کہانی بنیادی طور پر وقت کے ساتھ بدلتی ہوئی خاندانی اقدار، نسلوں کے مابین تفاوت، اور انسان کی داخلی تنہائی کے موضوعات کے گرد گھومتی ہے۔ سورج موہن، جو کہانی کے مرکزی کردار ہیں، اپنے بیٹوں رمیش اور بلدیو کی زندگیوں میں موجود مسائل کو دیکھ کر اپنے ماضی کی خوش حال زندگی اور حال کی تلخ حقیقتوں کے درمیان پنڈولم کی مانند جھول رہے ہیں۔ ان کا کردار ایک ایسے باپ کا ہے جو روایتی قدروں پر یقین رکھتا ہے اور جو اپنے بیٹوں کی زندگیوں میں گہری دل چسپی لینا چاہتا ہے، مگر دوری اور بےگانگی کے باعث ایسا نہیں کر پاتا۔ کہانی کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ جدید زندگی نے رشتوں کی قربت، جذباتی ہم آہنگی اور خاندانی بندھنوں کو کم زور کر ڈالا ہے۔ رمیش معاشی جدوجہد میں اس قدر الجھ چکا ہے کہ وہ اپنی ذاتی اور خاندانی زندگی کی خوشیوں سے محروم ہو چکا ہے۔ اس کی زندگی مشینی بن گئی ہے، اس کے کمرے کی خاموشی اور اس کی بیوی اوشا کی زوال پذیر صحت اس بات کی علامت ہے کہ کس طرح جدید زندگی ازدواجی اور خاندانی رشتوں پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ بلدیو ایک فلسفیانہ اور نفسیاتی الجھن میں مبتلا نوجوان ہے۔ اس کی گفتگو میں "بے معنویت" (Meaninglessness) اور "بےگانگی" (Alienation) جیسے الفاظ کا استعمال، جدید فلسفیانہ نظریہ، وجودیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ وہ اپنے باپ کی طرح جذباتی طور پر جڑے رہنے کے بجائے ذہنی طور پر کٹے ہوئے شخص کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ الغرض "پنڈولم" ایک گہری سماجی اور نفسیاتی کہانی ہے جو وقت کے ساتھ بدلتی ہوئی خاندانی اقدار، رشتوں میں بڑھتی ہوئی دوری، اور جدید انسان کی تنہائی جیسے موضوعات کو اجاگر کرتی ہے۔ کہانی میں ماضی اور حال کے درمیان تضاد کو انتہائی مہارت سے دکھایا گیا ہے، جہاں ایک طرف سورج موہن کا ماضی روایتی خاندانی نظام اور جذباتی قربت کی علامت ہے، تو دوسری طرف رمیش اور بلدیو کی زندگی جدید دور کی تلخ حقیقتوں اور بے معنویت کی عکاسی کرتی ہے۔ کہانی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سورج موہن اپنے بیٹوں کی زندگیوں میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ ان سے باتیں کرنا چاہتے ہیں، ان کے مسائل جاننا چاہتے ہیں، مگر وہ ایسا کر نہیں پاتے۔ اور یہی جدید معاشرتی زندگی کی سب سے بڑی سچائی ہے—انسان جسمانی طور پر قریب ہوتے ہوئے بھی جذباتی طور پر ایک دوسرے سے کٹ چکے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو "پنڈولم" نہ صرف ایک عام خاندانی کہانی ہے بلکہ نفسیاتی اور فلسفیانہ پس منظر کی حامل ایک ایسی تخلیق ہے جو قارئین کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
افسانہ "خالد کا ختنہ" ایک گہری سماجی و نفسیاتی بصیرت پر مبنی ہے، جو علامتی اور استعاراتی انداز میں مسلم معاشرے کے مخصوص نفسیاتی اور سماجی رویوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ غضنفر نے ایک بظاہر عام سی مذہبی و ثقافتی رسم، یعنی ختنہ، کو ایک وسیع تر معنویت کے ساتھ جوڑ کر اسے انسانی نفسیات، خوف، اور معاشرتی دباؤ کی علامت بنادیا ہے۔ یہ افسانہ ایک ایسے بچے کی کہانی ہے جو روایتی ختنہ کی رسم سے گزرنے سے خوفزدہ ہے، مگر اس کے خوف کی نوعیت محض جسمانی اذیت سے متعلق نہیں بلکہ اس کا گہرا تعلق ایک وسیع تر سماجی حقیقت سے ہے۔ افسانے کے آخری حصے میں یہ انکشاف ہوتا ہے کہ خالد کا اصل خوف ختنہ نہیں بلکہ وہ مخصوص جملہ ہے جو اس نے اپنے باپ سے سنا تھا: "جن کا ختنہ ہوتا ہے، بدمعاش انھیں جان سے مار دیتے ہیں۔" یہ جملہ ایک خوفناک حقیقت کی نشان دہی کرتا ہے، یعنی مسلم شناخت کی وہ تشخیص، جو بعض مخصوص حالات میں جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ یہاں ختنہ محض ایک مذہبی رسم نہیں، بلکہ ایک ایسی پہچان بن جاتا ہے جس کی بنیاد پر افراد کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ افسانے میں ثقافتی رسوم اور سماجی جبر کے درمیان تصادم کا بڑی باریک بینی سے احاطہ کیا گیا ہے۔ ایک عام گھریلو تقریب محض ایک مذہبی و ثقافتی رسم کے تحت جوش و خروش سے منائی جاتی ہے۔ پورا ماحول روشنیوں، خوشبوؤں، قہقہوں، اور رنگ برنگے کپڑوں سے جگمگا اٹھتا ہے، لیکن جیسے ہی خالد انکار کرتا ہے، یہ جوش و خروش رفتہ رفتہ ایک گہرے سکوت میں بدل جاتا ہے۔ یہ تبدیلی اس بات کی علامت ہے کہ مسلم معاشروں میں بعض مذہبی و ثقافتی روایات سے انکار یا اختلاف کسی صورت قابل قبول نہیں، اور بچوں کو بھی ان کے مطابق چلنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ افسانے کا اہم موڑ تب آتا ہے جب خالد کا خوف محض جسمانی اذیت سے ہٹ کر شناختی سیاست (Identity Politics) سے جُڑ جاتا ہے۔ اس کے والد نے ایک جملہ غیر ارادی طور پر کہہ دیا تھا، لیکن بچے کے ذہن میں یہ گہرے خوف کی صورت محفوظ ہو گیا۔ جب پاکستان والے خالو کہتے ہیں کہ اگر وہ ختنہ نہیں کرائے گا تو "ختنہ والے بدمعاش" اسے مار ڈالیں گے، تو وہ فوراً تیار ہو جاتا ہے، کیونکہ اب ختنہ محض ایک رسم نہیں بلکہ زندگی اور موت کا سوال بن چکا ہے۔ افسانے کا اسلوب موثر اور علامتی ہے۔ اس کا بیانیہ پیکری اور منظر نگاری اس قدر طاقتور ہے کہ قاری خود کو اس ماحول کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے۔ غرض یہ کہ "خالد کا ختنہ" ایک سادہ مگر نہایت گہری معنویت کا حامل افسانہ ہے جو معاشرتی رسوم، شناختی سیاست، اور نفسیاتی جبر کو علامتی انداز میں پیش کرتا ہے۔ غضنفر نے بڑی مہارت سے ایک عام سے واقعے کو فلسفیانہ اور نفسیاتی جہت عطا کی ہے، اور قاری کو اس فکر میں مبتلا کر دیا ہے کہ مذہبی و ثقافتی شناخت کے ساتھ ساتھ معاشرتی دباؤ اور فرقہ وارانہ خوف کس طرح انسان کے ذہن پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
اسی طرح "کڑوا تیل" محض ایک بیل، کولھو اور تیل نکالنے کی کہانی نہیں بلکہ جدید صنعتی، معاشرتی اور معاشی استحصال کا ایک بلیغ استعارہ بھی ہے۔ بیل کا کردار ایک ایسے محنت کش طبقے کی نمائندگی کرتا ہے جو ساری زندگی محنت و مشقت کرتا ہے مگر اس کی اپنی حالت دن بدن زبوں حالی کا شکار ہوتی چلی جاتی ہے۔ بیل کولھو میں جتا رہتا ہے، اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے تاکہ اسے اپنی محدودیت اور جبر کا احساس نہ ہو۔ یہ پٹی دراصل محنت کش طبقے کے شعور کو قابو میں رکھنے کی علامت ہے تاکہ وہ اپنی حالتِ زار کے خلاف بغاوت نہ کرسکے۔ شاہ جی کا جملہ، "یہ سدھا ہوا ہے۔ اپنے کام سے اچھی طرح واقف ہے۔ اس کی جگہ جوان بیل جوتنے میں کافی دقت ہوگی۔ جوان بیل کھینچے گا کم بدکے گا زیادہ۔ اس لیے فی الحال یہی ٹھیک ہے۔‘‘ دراصل اُس استحصالی نظام کی عکاسی کرتا ہے جو محنت کشوں کو اُسی وقت قابلِ قبول سمجھتا ہے جب وہ سر جھکائے مشقت کریں اور بغاوت نہ کریں۔ بیل کی حالت زار، اس کی مسلسل مشقت، اس کی بوڑھی ہڈیوں میں موجود ” کمزور جان" کے باوجود اس کا مسلسل کولھو کھینچنا دراصل سرمایہ دارانہ نظام کا استعارہ ہے۔ یہاں ایک مزدور پوری زندگی کام کرتا ہے، مگر اس کا استحصال جاری رہتا ہے۔ جیسے بیل کی ہڈیاں نکل آئی ہیں، اس کا جسم کمزور پڑ گیا ہے، مگر اسے ریٹائرڈ نہیں کیا جاتا۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے سرمایہ دارانہ نظام میں مزدوروں کو ان کی آخری سانس تک مشقت میں جکڑ کر رکھا جاتا ہے۔ افسانے میں بیل کے ساتھ ساتھ بچھڑے کی تیاری کا ذکر بھی انتہائی معنی خیز ہے۔ بیل اپنی زندگی کے آخری مرحلے میں ہے۔ اس کی جگہ ایک جوان بچھڑے کو تیار کیا جا رہا ہے۔ بچھڑے کا جوان اور توانا ہونا ایک امید پیدا کرتا ہے، لیکن فوراً ہی اس کا مستقبل دکھا دیا جاتا ہے کہ وہ بھی رفتہ رفتہ ایسے ہی بیل میں تبدیل ہو جائے گا۔ یعنی یہ اس سماجی حقیقت کی عکاسی ہے جہاں محنت کش طبقے کے لوگ نسل در نسل غلامی اور استحصال کا شکار رہتے ہیں۔ افسانے کا اختتام نہایت چونکانے والا ہے۔ راوی بیل کے استحصال کو دیکھ کر اس کی آزادی کا خواب دیکھتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ خود بھی "کولھو" میں جُتا ہوا ہے۔ وہ بچھڑے کی آزادی کا تصور کرتا ہے مگر خود بھی اپنی "گھانی کا تیل نکلنے" کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ چنانچہ یہ اس معاشرے کے ان افراد کی نمائندگی کرتا ہے جو استحصالی نظام کو دیکھ کر بھی کچھ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ مختصر یہ کہ "کڑوا تیل" ایک طاقتور علامتی افسانہ ہے جو انسانی مشقت، استحصالی نظام، مزدوروں کی بے بسی اور سرمایہ داری کے ظالمانہ ڈھانچے کو پُر معنی انداز میں پیش کرتا ہے۔یہ غضنفر کے فن کارانہ کمال کا مظہر ہے کہ انھوں نے نہایت سادہ اورعام فہم زبان میں ایک پیچیدہ اور گہرا سماجی سوال ہمارے سامنے پیش کر دیا ہے۔ افسانے کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ وہ قاری کے ذہن میں دیر تک اپنا اثر قائم رکھتا ہے۔
افسانہ "حیرت فروش" ہمارے سامنے ایک سماجی و تہذیبی تمثیل کے طور پر نمایاں ہوتا ہے۔ غضنفر نے بڑی مہارت کے ساتھ انسانی بے حسی، اخلاقی زوال اور معاشرتی انحطاط کی عکاسی کی ہے۔ افسانے کا بنیادی موضوع حیرت کا مفقود ہو جانا ہے، یعنی وہ واقعات جو کسی بھی حساس انسان کے لیے حیرت انگیز، لرزہ خیز اور دل دہلا دینے والے ہونے چاہیے تھے، وہ اب معمول بن چکے ہیں۔ اب ان پر کوئی حیران نہیں ہوتا۔ حتی کہ "ادارہ حیرت" بھی ایسی خبروں اور واقعات کو حیرت کے درجے میں شمار نہیں کرتا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ اپنے غیر انسانی رویوں کو اتنا عام اور معمولی سمجھنے لگا ہے کہ کسی بھی گھناؤنے عمل پر اس کے احساسات نہیں جاگتے۔ افسانہ اُس فرد یا طبقے کی علامت ہے جو اب بھی دنیا کو حساس نگاہوں سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ مختلف سماجی مظاہر جیسے زنا، ظلم، دھوکہ، رہبر کا رہزن بن جانا—یہ سب معاشرتی زوال اور اخلاقی گراوٹ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ حیرتوں کا بک نہ پانا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ معاشرے میں برے افعال عام ہو چکے ہیں اور ان پر کوئی تعجب نہیں کرتا۔ افسانے کا انجام المناک ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ معاشرے میں اتنی برائیاں پھیل چکی ہیں کہ اب کوئی اچھا کام ہونا ہی سب سے بڑی حیرت کی بات ہے۔ یہاں افسانہ نگار نے براہ راست کوئی تنقید نہیں کی، بلکہ ایک تمثیل کے ذریعے تہذیبی زوال کو بے نقاب کیا ہے۔ حیرت فروش کا اضطراب اور ادارہ حیرت کی بے حسی آپس میں زبردست تضاد پیدا کرتے ہیں، جو قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ افسانے کا انجام طنزیہ ہے، جہاں ایک معمولی انصاف کو حیرت انگیز قرار دے کر انعام کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔
قسط سوم بعد میں :

غضنفر کے افسانوں میں عصری مسائل
شیئر کیجیے