مستعار

مستعار

ارم رحمن
لاہور، پاکستان

مجھے وہ عورتیں بہت عجیب لگا کرتی تھیں، جنھیں صرف اپنے چہرے پر میک اپ کی دبیز تہیں چڑھانے اور بال کھول کر لہرانے کے سوا کسی چیز کا خیال نہیں ہوتا تھا کہ ان کا بد ہیئت بدن تنگ کپڑوں میں بھدا ہونے کی حد تک نمایاں لگ رہا ہے، ان کی بے ڈول چھاتیاں، غبارے کی طرح پھولی توند ان کو بدنما ثابت کر رہی ہے، نئے کپڑوں سے نکلتی ہوئی بو جو انھوں نے کسی تقریب کے لیے خاص طور پر خریدے ہوں گے، پرفیوم یا باڈی اسپرے لگانے کے باوجود ناخوش گوار تاثرات پیدا کر رہے ہیں،
لیکن وہ ٹک ٹک کرتی ہیل اور شیمپو زدہ بالوں کو دائیں بائیں ہلاتے جلاتے چلتی ہوئی خود کو ہیروئن سمجھا کرتی ہیں.
ان کی سہیلیاں یا تقریب میں شامل دیگر خواتین کھوکھلے انداز میں ان کے حلیے کی تعریف کرتی نظر آتی ہیں.
یہ ہی حال مردوں کا بھی ہے.
مرد خود سے بے حال اپنے حال میں مگن رہنا، ہیروپن محسوس کرتے ہیں، بڑھی داڑھی، موٹا پیٹ، ہاتھ میں سگریٹ یا کوئی نشہ آور مشروب ہاتھ میں تھامے دنیا سے بے نیاز خواتین کے بارے میں بات کرتے کرنے مضحکہ خیز لگا کرتے ہیں، ان کے مسلسل سگریٹ کے استعمال سے ہونٹ کالے اور سانسیں بدبودار ہوجاتی ہیں.
وہ اکثر اپنی کمائی غلط جگہوں پر خرچ کرکے خود کو کنگال بنا کر مظلوم نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں، اکثریت دعوے دار ہے کہ عورت بے وفا ہے، وہ صرف پیسے کے پیچھے بھاگتی ہے، ایک مرد کو لبھا کر لوٹ کر دوسرے مرد کے شکار کو چل پڑتی ہے، جب کہ یہ سارے مفروضے اور بیانات صداقت پر مبنی نہیں ہوتے یا شاید میرا واسطہ ایسے حالات سے نہیں پڑا تھا.
مجھے بھی کنوارا رہتے ہوئے اڑتیس سال گزر چکے تھے، ایک لگی بندھی روٹین نے مجھے ایسی خرافات کی طرف دھیان ہی نہیں دینے دیا.
میں وہی بچہ تھا جس کے والدین نے زندگی بھر محنت کی، مجھ میں بھی یہ ہی عادتیں سرایت کر دیں کہ محنت میں عظمت ہے، بہت محنت سے پڑھا، ملازمت کی، بالکل اچھے بیٹوں کی طرح والدین کی خدمت کی، اچھے بھائی کی طرح دو بہنوں کی شادیاں کیں، اپنا نہیں سوچا، اب والدین کے بڑھاپے میں شدت آگئی تو انھیں خیال آیا کہ گھر میں بہو ہونی چاہیے تاکہ تمام گھریلو معاملات سنبھال کر والدین کو سکھ دے سکے.
میرے عزیز رشتے داروں کی سب بیٹیاں بیاہی گئیں تقریباً ساری اچھی شکل و صورت کی لڑکیاں دو دو تین بچوں کی مائیں بن گئیں ان کی نزاکت نفاست وقت کے ساتھ اسی طرح ڈھل گئی جیسے مغرب کے وقت سورج کا رنگ روپ گہنا جاتا ہے، ان کا حلیہ بالکل ویسا ہی ہوگیا جیسا کہ میں عام عورتوں کے بارے میں سوچتا تھا. 
میرا گھر اچھا بن گیا تھا، سب سہولتیں تھیں، بڑی گاڑی اور کروڑوں کی انشورنس نے بھی میری شخصیت کو معتمد و بردبار بنا دیا تھا، مگر وہی ہلکا سا گنجا پن، پیٹ کا ابھار جو ایک بیٹھے رہنے والے مرد کا نکل آتا ہے، سارا دن دفتر میں بیٹھ کر اکاؤنٹس میں سر کھپانا بھی
مجھے گنجے پن کا شکار کر گیا تھا. 
میں وہی مرد تھا جس طرح کے مردوں کو میں اپنی جوانی میں دیکھ کر حیران ہوا کرتا تھا کہ عورت کی بات تو سمجھ میں آتی ہے مرد کیوں نہیں گلی سڑک پر جوگنگ کرتا، کیوں موٹا ہونے دیتا ہے خود کو، ورزش کرے، صحت مند غذا کھائے، لیکن اس سوچ کو آئے ہوئے بیس سال گزر گئے، پچھلے پندرہ سال سے تو میں بھی جوگنگ کو نہیں گیا، بلکہ گاڑی خریدنے کے باوجود کسی کھلے پارک میں آدھا ایک گھنٹہ چہل قدمی تک نہیں کی. 
زندگی کی بھاگ دوڑ میں فرصت نہیں ملی اور اب مجھے حیرت نہیں ہوتی کہ کمانے والے مرد موٹے کیوں ہوتے ہیں؟ اسی طرح سسرال کی ناز برداریاں اٹھانے اور کئی بچوں کی پیدائش کے بعد خواتین موٹی بھدی کیوں ہوجاتی ہیں؟
لیکن ایک بات یہ بھی قابل غور تھی کہ سب مصروفیات کے باوجود ان کا فوکس محض اپنے بالوں اور چہروں پر کیوں رہ جاتا ہے؟
زندگی بے درد تھی لیکن وقت پر ان تکلیفوں کا مداوا بھی ہوتا گیا، تلافی کے ازالے ہوتے گئے، میں سبک رفتاری سے آگے بڑھتا گیا، اب جب کہ کنپٹیوں کے بال سفید ہونا شروع ہوئے تو یکا یک شادی کا خیال بھی اچک اچک کے تصورات سے باہر آنے لگا. 
والدین نے بھی شدت سے احساس دلایا کہ اب ہم سے کام نہیں ہوتا، دوسرا اب مرنے کا وقت قریب تر ہوتا جارہا ہے، پوتے پوتی دیکھنا چاہتے ہیں. 
میں اب یہ روز کی تکرار سن کر حیرت زدہ ہونے لگا ہوں کہ مجھے یہ خیال کیوں نہیں آیا؟ کہ شادی کرنی چاہیے، میں کبھی کسی خوبرو نازک اندام حسینہ کی زلف گرہ گیر کا اسیر تک نہ ہوا کہ عشق کروں اور اسے پانے کے جنون میں گھر والوں سے لڑوں یا کم از کم کسی لڑکی کو پسند کرکے شادی کا پیغام بھیجوں، "کیا میری زندگی بے رونق تھی"؟
"کیا میں نامکمل تھا"؟
تو جواب ہے کہ "نہیں"
مجھے واقعی کبھی خیال نہیں آیا، نہ ہی کسی خاتون کی طرف ذہن گیا، یا کوئی لڑکی یا کولیگ کی نظر ملتفت سے آشکار ہوا، اب جب کہ میں مالی حیثیت سے معتبر و متمول ہوچکا ہوں، تو باقاعدگی سے ویک اینڈ پر مالز اور ریسٹورنٹ میں جاکر خواتین کو اسی نکتہ نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ "اگر اس خاتون سے میری شادی ہو جائے تو کیسا رہے گا" لیکن سمجھ ہی نہیں آتا کہ سامنے چلتی پھرتی ان خواتین میں مجھے کیوں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی؟
جو کنواری اور نوجوان ہیں وہ مجھے انکل کہتی اور سمجھتی ہیں، جو میری ہم عمر یا کچھ چھوٹی ہیں وہ سب شادی شدہ ہیں، ان کا حال بھی باقی خواتین کی طرح ہوچکا ہے. 
میرا دھیان بھی اب کم عمر لڑکیوں سے بالکل ہٹ چکا ہے کیونکہ خواتین کی اکثریت خود کو چھوٹا ثابت کرنے کے لیے سامنے والے کو بڑا بنانے کے چکر میں انکل آنٹی کہنے لگتی ہے. اب یہ بات کتنی مضحکہ خیز ہے کہ لڑکی کسی مرد کو انکل کہے اور جواب میں وہ مرد اسے شادی کے لیے پرپوز کرے، مجھے احساس کمتری نہیں تھا، نہ ہی میں دل پھینک، آوارہ منش تھا، جو ایسی باتوں کا برا مناتا، میں تو محض اپنے لیے ایک مناسب شریک سفر ڈھونڈ رہا تھا، کیوں کہ والدین کی دیگر فرمائشیں میں نے ہمیشہ پوری کی ہیں، اب یہ فرمائش بھی اسی سوچ کے تحت پوری کرنے کے مشن پر نکل پڑا تھا، اب میں جوانی کے دور کے بالکل برعکس کوئی فنکنشن نہیں چھوڑتا تھا، کیونکہ مجھے ایک سال کے اندر اندر شادی کرنا تھی، میرج بیورو میں نام دینے کی ضرورت نہیں محسوس ہوئی کیوں کہ میرا حلقہ احباب اتنا وسیع تھا کہ وہاں ہی ہر ہفتے آنے جانے سے بہت سی خواتین سے ٹکراو ہوجاتا تھا. 
آج بھی ایک کولیگ نے بھائی کی شادی پر مدعو کیا تھا، برات اور ولیمہ دو دن کی بہت پرزور دعوت ملی تھی، کولیگ کافی امیر خاندان سے تھا، ہائی کلاس میں خواتین جیسی بھی ہوں ان میں نفاست اور تہذیب ضرور ہوتی ہے، یہ بھی میرا مشاہدہ تھا لہذا اس دعوت کے لیے میں خصوصی طور پر تیار ہوا، بہترین کپڑے زیب تن کیے اور کوشش کی پیٹ اندر ہی سمٹا نظر آئے، پرفیوم کی کلیکشن بھی اچھی تھی، میری ڈریس سینس بھی نمایاں ہو چکی تھی، سچ تو یہ ہے کہ پیسہ پھینک اور تماشہ دیکھ والا حساب تھا، بچپن لڑکپن تو پرانے اور گھسے پٹے کپڑے پہنتے گزرا مگر اب ھذا من فضل ربی کا نمونہ بن گیا تھا. 
اس شادی میں پارکنگ ایریا سے ہی اتنی ہلچل اور رنگا رنگی نظر آئی کہ جی ہشاش بشاش ہوگیا، بہترین ملبوسات میں ملبوس شان دار گاڑیوں سے اترنے والے ہائی فائی لوگ جن کے بدنوں سے پھوٹنے والی خوشبوئیں سارے پارکنگ لاٹ کی فضا کو معطر بنا رہی تھیں اور جب یہ خوشبوؤں کے جھونکے شادی حال میں پہنچے تو راستے بھر میں خوشبوؤں کی لپٹیں کتنا مسحور کر گئیں کہ کچھ دیر میں باہر کھڑا اپنے نتھنوں میں ان خوشبودار فضاؤں سے سانس کشید کرکے محفوظ ہوتا رہا، شاید میں کچھ دیر مزید باہر ہی کھڑا رہتا کہ قریبی دوست نے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا "اندر آؤ، یہاں کیوں رک گئے"؟
اندر کا ماحول اور بھی مدہوش کن تھا، سگریٹ سگار پرفیوم اور اشتہا انگیز کھانوں کی خوشبوئیں آپس میں مل کر فضا کو بوجھل کر رہی تھیں. 
ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد یہ ہی ماحول مجھے گھٹن زدہ لگنے لگا، چونکہ آج بارات تھی اس لیے نکاح کی تقریب کے بعد فوراً کھانا شروع ہوگیا اور کھانے کے بعد ہم جیسے دوست احباب اکثر نکل جاتے ہیں، کیونکہ رسمیں تو قریبی رشتے دار ہی ادا کرتے ہیں. میں نے بھی وقت دیکھا ساڑھے گیارہ بجے تھے، مجھے اس تقریب میں آئے ڈھائی گھنٹے ہونے والے تھے اور اب اس ماحول میں جہاں میرا دم گھٹنے لگا تھا، باہر نکلنے کا سوچا تو دوست سے ملنے کا خیال آیا. 
اس سے ملے بغیر نکلنا مناسب نہیں تھا، میں اسے ڈھونڈتے ہوئے اسٹیج تک پہنچ گیا اسے اشارے سے بلایا کہ میں جارہا ہوں. 
لیکن اس نے رکنے کا اشارہ کیا  اور میرے قریب آکر شکریہ ادا کرنے کے بعد ایک خاتون سے متعارف کرواتے ہوئے بہت نرمی سے پوچھا کہ "عدنان یہ میری عزیزہ ہیں تمھارے گھر کے ساتھ والے بلاک میں رہتی ہیں کیا تم انہیں ڈراپ کردوگے"؟
"وائی ناٹ، شیور"، میرے منہ سے بے ساختہ نکلا اور جھٹ سے اس خاتون نے کولیگ کو خدا حافظ کہا اور میرے ساتھ چل لی، اسٹیج سے پارکنگ لاٹ تک اس خاتون کی ہائی ہیل دو تین بار قالین میں دھنسی یا پارک کی گھاس میں پھنسی تو اس نے میرا ہاتھ پکڑنے میں کوئی دیر نہ کی، بلکہ گاڑی سے کچھ فاصلے پر جو بالکل کچا تھا گھاس والا ایریا، مسلسل میرا بازو پکڑ کر چلتی رہی، دور سے کوئی دیکھتا تو ہمیں بھی ایک جوڑا سمجھتا کہ میاں بیوی فنکنشن اٹینڈ کرکے جارہے ہںں، ابھی تک میں اس خاتون پر بالکل غور نہیں کر سکا تھا، گاڑی میں فرنٹ پر بٹھانے سے پہلے لائٹ میں اسے بغور دیکھا تب محسوس ہوا کہ وہ میری ہم عمر نہ سہی لیکن پینتیس سے کم کی نہیں تھی، سانولے رنگ کی فربہی مائل خاتون جو ابھی موٹی توند نہ ہونے کی وجہ سے متناسب دکھائی دے رہی تھی قد اس کا ہیل سمیت میرے قد جتنا تھا، میرا قد مردوں میں اچھا تھا لہذا وہ عورتوں میں لمبی تھی اور عنقریب چوڑی بھی ہونے والی تھی، ہم دونوں گاڑی میں  خاموشی سے بیٹھ گئے، گاڑی چلی اور ہم دونوں نے ایک بھی لفظ نہیں بولا، کہ یکا یک اس نے اپنے”ای بلاک" پہنچنے سے دو منٹ پہلے پرس کھول کر ایک وزٹنگ کارڈ نکالا اور مجھے پکڑاتے ہوئے بولی "اپنا کارڈ دے دیں کل کی پلاننگ کرلیں گے"
میں بھونچکا رہ گیا اور جلدی سے کوٹ کی جیب ٹٹول کر اپنا کارڈ اسے تھما دیا. 
ای بلاک آتے ہی وہ اتری اور اپنے گھر کی بیل دینے سے پہلے ہی گیٹ کیپر نے دروازہ کھول دیا. 
میں نے ہاتھ ہلانا چاہا مگر اس نے مڑ کر نہیں دیکھا، 
گھر گیا، والدین منتظر تھے، انھوں نے تقریب کی روداد سننا چاہی، میں نے بھی فرماں بردار بچوں کی طرح سب سنا ڈالا، جو دیکھا جو محسوس کیا، سوائے اس خاتون کے ذکر کے. 
کمرے میں پہنچتے ہی جھٹپھٹ خود کو اس خوشبودار لباس سے آزاد کیا، نہایا اور سو گیا، صبح اٹھتے ہی مجھے پہلا خیال اس خاتون کا آیا، فریش ہونے سے پہلے کوٹ چیک کیا اور جیب سے اس کا کارڈ نکالا "غزالہ انور" اور وہ بیوٹیشن تھی اسی ایک بلاک میں اس کا بیوٹی سیلون تھا، وہ بورڈ میں نے بھی دیکھا تھا لیکن کبھی غور نہیں کیا تھا. 
میں نے کارڈ ٹیبل پر رکھا اور خود فریش ہوکر ناشتہ کیا، آفس کے لیے روانہ ہوگیا. 
شام سات بجے واپسی پر خیال آیا کہ کیوں نہ غزالہ سے ملتا جاؤں کہ وہ تیار ہو جائے اور ساڑھے آٹھ بجے تک نکلیں گے ولیمے کے لیے. 
میں نے غزالہ سے ملنے کے لیے ای بلاک گاڑی موڑی تو پہلے ہی موڑ پر بہت بڑا چمکتا دمکتا سیلون نظر آیا، جو گھر سے پہلے تھا، میں نے گیٹ کیپر سے کہا کہ "میڈم سے ملنا ہے"
تو اس نے جواب دیا ابھی پانچ منٹ پہلے ہی میڈم نکلی ہیں. 
ظاہری بات تھی، بیوٹی سیلون کے ساتھ والی گلی میں گھر تھا پانچ منٹ میں گھر پہنچ گئی ہوگی، میں نے ایک دم گھر جانا مناسب نہیں سمجھا. 
گھر پہنچتے ہی فون کیا تو ایک مترنم آواز سنائی دی
میں تھوڑا حیران ہو کر پوچھا کہ غزالہ صاحبہ سے بات ہوسکتی ہے، جواب ملا جی بات کر رہی ہوں. 
میں نے اپنا تعارف کروایا اور رات کے ڈراپ کرنے کی بابت بتایا تب وہ پہچانی، وہ بھی چونکی کیونکہ اسے یاد نہیں تھا، میں نے کہا "کمال ہے آپ نے ہی تو کہا تھا
کال کرنے کو کہ پلاننگ کریں گے ولیمہ اٹینڈ کرنے کی"
اس نے جواب میں خوشی سے کہا:
"بہت شکریہ بہت اچھا کریں گے جو مجھے ساڑھے آٹھ پک کر لیں"
اس کا مہذب رسپانس سن کر مجھے پہلی بار خاتون سے بات کرنا اچھا لگا. میں گنگناتے ہوئے تیار ہورہا تھا.  وقت سے پہلے ہی غزالہ کے گھر جا پہنچا. وہ بھی تیار تھی اور پہلے سے زیادہ اچھی لگ رہی تھی. گاڑی میں بیٹھ کر ہلکی پھلکی گفتگو ہوئی. وہ اپنے کام کے بارے میں بتاتی رہی میں اپنے کام کے بارے میں، ہلکی موسیقی میں یہ سفر بہت بھلا لگا آدھ پون گھنٹہ بہت جلدی گزر گیا. 
ولیمہ بہت شان دار تھا، روشنیاں بہت خوب صورت تھیں، ان کی چمک میں موجود وہاں سب مہمان بہت دل کش لگ رہے تھے، میری نظر غزالہ کے سراپے سے نہیں ہٹ رہی تھی، وہ میرون اور کالے کے امتزاج میں سلیقے سے پہنی ساڑھی میں بہت پیاری لگ رہی تھی، قد لمبا، اوپر سے ہائی ہیل، گداز وجود، کھلے چمکیلے بال سب سے بڑھ کر ملائم سانولی جلد، اسے بہت نمایاں کر رہے تھے. 
میرا سارا وقت بہت اچھا گزرا، یہ میری زندگی کا پہلا فنکشن تھا کہ میرا اٹھنے کو دل نہیں کر رہاتھا، اسٹیج پر بھی بیٹھا، دولہا دلہن کے ساتھ تصویر کھنچوائی اور خوش قسمتی سے ایک طرف میں اور دوسری طرف غزالہ تھی، تین گھنٹے بھرپور گزرے. 
غزالہ نے اگرچہ مجھ پر کوئی خاص توجہ نہیں دی شاید دو تین بار ہی نظر ٹکرائی ہو تو اس نے ہلکے سے تبسم سے موڑ لی، فنکنشن اختتام پذیر ہوا تب ہی میں نے بھی دوست سے اجازت لی اور غزالہ خود بخود میرے پاس کھڑی ہوگئی جیسے یہ سب طے تھا، راستے میں اجنبیت کی دیوار کافی حد تک گر چکی تھی، اس کی تعریف بھی کی میں نے، جواب میں اس کی مسکراہٹ بھی مثبت تھی، گھر پہنچتے ہی میں نے امی ابو کو تصویریں دکھائیں اور پھر غزالہ کی تصویر دکھاتے ہوئے پوچھا
” امی! یہ آپ کی بہو بنے تو کیسا رہے گا"
امی نے عینک درست کرتے ہوئے کہا کہ لڑکی تو نہیں لگ رہی، عمر بھی زیادہ ہے، ارے کوئی کم عمر لڑکی ڈھونڈو تاکہ اگلی نسل دیکھ سکیں"
والد صاحب نے دیکھا مگر خاموش رہے. 
والدہ کی بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا کہ کیا میں عجلت میں تو فیصلہ نہیں کر رہا، یہ تو طے ہے کہ غزالہ میری ہم عمر نہ بھی سہی لیکن پختہ عمر رکھتی ہے اور مجھے ویسے بھی کم عمر لڑکیاں کب پسند کرتی ہیں. 
میں نے غزالہ کو مزید ملنا اور جاننے کا سوچا، ابھی اسی شش و پنج میں تھا کہ ولیمے کے فنکشن کے بعد رابطہ کس طرح کیا جائے کیونکہ دو دن ہم نے ساری غیر ضروری باتیں کر ڈالی تھیں لیکن ذاتیات پر نہیں آئے، میں واقعی اس میں دل چسپی لے رہا تھا لیکن گھبرا بھی رہا تھا کہ کیسے بات کروں؟
اتفاق سے دو تین دن بعد غزالہ کا فون آگیا، اس نے بلا تکلف مجھے کہا:
"عدنان مجھ سے ملیں، کہاں کب بتا دیجیے گا" فون بند. 
مجھے اچھا لگا کہ ایک تو سیدھی بات دوسرا مجھے پہل نہیں کرنا پڑی. 
اسی رات آفس کے بعد ایک عمدہ ریسٹورنٹ میں ملاقات ہوئی تب پسند ناپسند کے حوالے سے بات ہوئی، میں نے بھی صاف بات کی کیونکہ ہم دونوں کے پاس ہی دیر کرنے کا وقت نہیں تھا اور اس عمر میں شرمانے گھبرانے سے زیادہ کام کی بات کرنا مناسب لگتا ہے، اس نے مجھے اپنی غربت اور مجبوراً کی جانے والی پہلی شادی اور بچے کے پیدا ہوتے ہی مرجانے کا سانحہ، پھر شوہر کا دبئی جاکر وہاں سے طلاق بھیج دینے کا واقعہ، سپاٹ لہجے میں بتایا، جسے کئی بار دہرایا گیا ہوگا اور اب اس سانحے میں جذبات رہے نہ تاسف، رٹا رٹایا سبق پانچ منٹ میں سنا دیا گیا. 
اس کے بعد اس کا بیوٹی پارلر کا کورس کرنا، بے اولاد بوڑھی مالکن کا اسے پسند کرنا اور مرنے سے پہلے یہ بیوٹی سیلون اس کے نام کردینا، فلمی انداز میں سنایا، بتایا گیا. 
میری جگہ کوئی اور ہوتا تو ضرور شک کرتا مگر یہاں میں بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کر چکا تھا. 
مجھے غربت نے شدید محنت کرنے کی طرف راغب کیا، اچھا طالب علم تھا، اچھے نمبر لے کر بڑے دفتر میں جا پہنچا، مالک بندہ شناس اور نیک دل تھا مجھے فوراً رکھ لیا، کام میں نے کر دکھایا اور اس نے بہت جلدی مجھے ترقی دے دی اور تین چار سالوں میں میرے پاس وہ سب کچھ آگیا جسے پانے کے لیے عام بندے کو دس پندرہ سال لگتے ہیں. 
ہم دونوں پہلی ہی ملاقات میں سب واضح کر چکے تھے
اگلی ملاقات تین دن بعد رکھی، سوچنے سمجھنے اور فیصلہ سنانے کے لیے. ٹھیک تین دن بعد ہم ریسٹورنٹ سے شادی کا فیصلہ کرکے اٹھے. 
والدہ نے اس کی 36 سال عمر کا سن کر منہ بنایا لیکن میں نے اپنی عمر کا احساس دلایا تو چپ ہوگئیں، انھیں طلاق یا بچے کے مرنے سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا، خیر بہنوں کو خوشی تھی اور میں نے غزالہ سے ان کی ملاقات کروائی تھی. 
شادی کا دن ایک ماہ بعد ہی آگیا، سب بخیر وخوبی انجام پاگیا، شب زفاف واقعی خوب صورت تھی، غزالہ کا حسن مسحور کن تھا، اس کی چکمتی جلد، لانبی گھنی پلکیں اور سلکی بالوں سے خوشبوؤں کی لپٹیں مجھے مدہوش کر رہی تھیں. میں تھوڑا ڈر رہا تھا مگر سب کچھ میری سوچ سے بڑھ کر ہوا. 
پرسکون نیند سو کر اٹھا گھڑی کی طرف دیکھا تو دس بج چکے تھے، غزالہ کمرے میں نہیں تھی، میں نے ہلکی سی آواز دی تو واش روم سے نکلی، مجھے دیکھ کر مسکرائی، گڈ مارننگ کہا اور بیڈ پر آکر بیٹھ گئی،
میں ہکا بکا رہ گیا کہ یہ کون خاتون ہے؟ بالکل اجنبی، انجان، کیا یہ غزالہ ہے؟ جس کے ساتھ کل ہی میری شادی ہوئی ہے؟
وہ میرے تاثرات کو حیرت سمجھی، جب کہ میں حیرت زدہ تھا، چہرے پر چھائیاں، جلد مرجھائی ہوئی، پلکیں بہت کم، ہلکے چھوٹے بال کندھوں پر بکھرے ہوئے تھے، جن سے پانی ٹپک رہا تھا. 
کیا یہ وہی غزالہ تھی جس کی چمک دار جلد اور لمبی گھنیری پلکیں مجھے بہت سحر انگیز لگا کرتی تھیں، کالے گھنے چمکیلے بال ہمیشہ شانوں سے نیچے تک بکھرے رہتے جن میں پھوٹتی خوشبو تازہ گھلی مہندی کی سی محسوس ہوتی تھی لیکن یہاں تو سب کچھ ہی مختلف تھا، جیسے مانگے کا حسن جو کسی نازنیں سے مستعار لیا ہوا، سنڈریلا کی طرح کہ رات کی تاریکی جب اجالے میں بدلے تو واپس پہلے حلیے میں آجایا جائے،
وہ سب منظر سوچ کر میں کچھ دیر تک پلکیں جھپکنا بھول گیا، سانس میرے بس میں نہیں تھا ورنہ شاید میں وہ بھی لینا بھول جاتا. 
ابھی میں اسے ٹک ٹکی باندھ کر تکے جارہا تھا تو وہ اسی مترنم آواز میں مسکرا کر بولی "اٹھیے جناب! کب تک ایسے دیکھتے رہیں گے، جلدی تیار ہوں نیچے سب ہمارا انتظار کر رہے ہیں. "
میں بددلی سے اٹھا اور کافی دیر تک واش روم میں رہا،
میں غزالہ سے بالکل متنفر ہوچکا تھا، مجھے لگا کہ میں اسے پہلے دن ہی طلاق دے دوں گا تو لوگ مجھے سنکی سمجھیں گے، غلطی تو میری ہی تھی کہ شادی کی تو اتنی دیر سے اور کرتے ہی بیوی کو چھوڑ دیا، میری پوزیشن غزالہ سے زیادہ مشکوک تھی، غزالہ تو پہلے سے ہی اپنا مکمل عورت ہونا ثابت کر چکی تھی، میں ہی ثابت نہ کر پاتا. 
بہرحال کڑوا گھونٹ پینا ہی تھا، اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ۔۔۔
ہر کام سست رفتاری سے کر رہاتھا، کیونکہ مجھے غزالہ کی شکل کا کبھی اندازہ ہی نہیں ہوا تھا، وہ مجھے ہمیشہ رات کو ہی ملی اور بہت پرکشش حلیے میں ہوا کرتی تھی. 
تقریباً آدھا گھنٹہ یا زیادہ ہی واش روم میں گزارا اور مکمل تیار ہوکر باہر نکلا تو پھر چونکا، وہی غزالہ مجھے سامنے بیٹھی نظر آئی جس سے میں ہمیشہ ملا کرتا تھا، بالکل تیار، فل میک اپ، وہی سحر انگیز حسن جس نے مجھے اس سے شادی پر مجبور کردیا تھا، غزالہ کے چہرے پر شرم کی لالی دوڑ رہی تھی. 
میں بالکل سنجیدہ رہا اور اس نے پہلی ملاقات کی طرح میرا بازو تھاما اور ہم دونوں نیچے سیڑھیاں اترنے لگے،
لیکن اس ساری واردات سے میں اتنا تو سمجھ ہی چکا تھا کہ بڑی عمر کی خواتین اتنا میک اپ کیوں کرتی ہیں!
***
ارم رحمن کا گذشتہ افسانہ :شور

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے