رسم خط کا تعلق جسم اور لباس کا نہیں بلکہ جسم اور کھال کا ہے: سید محمد اشرف

رسم خط کا تعلق جسم اور لباس کا نہیں بلکہ جسم اور کھال کا ہے: سید محمد اشرف

معروف فکشن نگار سید محمد اشرف کا خصوصی انٹرویو

انٹرویو نگار: علیزے نجف

اس وقت اردو فکشن کی دنیا میں کئی ایسی جید اور معتبر ہستیاں موجود ہیں جنھوں نے اردو فکشن کو اس بلند و بالا مقام پر پہنچا دیا ہے جس پر فکشن شاید خود بھی خود پر نازاں ہو، انھی میں سے ایک مستند نام سید محمد اشرف کا ہے، مجھے نہیں لگتا کہ ادبی دنیا کے کسی قاری کے لیے ان کی شخصیت محتاج تعارف ہوگی، اس لیے ان کے علمی و ادبی کمال کے حوالے سے ان کا تعارف پیش کرنا بالکل ایسا ہی ہوگا جیسے میں سورج کو چراغ دکھا رہی ہوں، اردو فکشن کی بساط پر ان کی شخصیت روشن آفتاب کے مانند ہے جن سے چھوٹے بڑے ذرات روشنی حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں، سید محمد اشرف فن کے اعتبار جس قدر قد آور اور قابل فخر ہستی ہیں، اپنی عام زندگی میں بھی بہ طور انسان اسی قدر اعلا اخلاقی قدروں کے حامل ہیں، علم و حلم ان کے یہاں بدرجۂ اتم پایا جاتا ہے، انتہائی درویش صفت اور حلیم الطبع انسان ہیں، ادبی اعتبار سے بلند قامت ہوتے ہوئے اپنے سے کئی گنا چھوٹے لوگوں کے سر پر جس طرح وہ جھک کر دست شفقت رکھتے ہیں وہ ہم جیسے لوگوں میں احساس تفاخر پیدا کرنے کے لیے کافی ہے۔ میں نے ان سے انٹرویو لینے کی خواہش ظاہر کی، انھوں نے جس طرح بنا کسی رد و کدح کے رضامندی ظاہر کی یہ میرے اعزاز کا باعث ہے، انھوں نے اپنے قیمتی اوقات میں سے اس کے لیے وقت نکالا، میں نے ان سے انٹرویو میں ان کے ناول "ڈار سے بچھڑے"، "نمبر دار کا نیلا" پر بات کرتے ہوئے ان کے یہاں پائے جانے والے علامتی کردار کے پیچھے موجود ان کی سوچ، آج کی فکشن نگاری اور اس میں ہو رہے تنقیدی و تحقیقی کام کے ساتھ ساتھ انسانی نظریات کی تشکیل میں تعلیمی نظام کا کردار اور مارہرہ اور علی گڑھ کے ماحول سے متعلق متعدد سوالات کیے جن کا انھوں نے بہت واضح علمی انداز میں جواب دیا، ان کے فکشن کے بیانیے کی طرح ان کے جوابات کے انداز میں بھی ایک انفرادیت ہے، یہ قیمتی گفتگو سوال و جواب کی صورت میں اس وقت آپ کے سامنے ہے مجھے یقین ہے کہ یہ انٹرویو ضرور آپ کے علم میں اضافے کا باعث یوگا۔

علیزے نجف: آپ مارہرہ کے صوفی سجادہ نشین خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، آپ کا بچپن عام بچوں سے کس طرح مختلف تھا، اس وقت آپ کی فکر پہ صوفی ماحول کے کیا اثرات تھے؟
سید محمد اشرف: میرا بچپن ویسا ہی تھا جیسا سب بچوں کا ہوتا ہے۔ والدین نے مجھے ایک ہرا بھرا شاداب بچپن عطا کیا۔ والدین اگر کوئی سبق بھی دیتے تھے تو اس میں پند و وعظ کا انداز نہیں ہوتا تھا۔ وہ اپنے عمل سے، اپنے کردار سے ہم بچوں کو وہ سب سکھانے کی کوشش کرتے تھے جو وہ چاہتے تھے۔ مجھے اس زمانے کے تمام مروجہ کھیلوں میں حصہ لینے کی اجازت تھی۔
والدین کچھ معاملات میں بہت مدد کرتے تھے، غریب کی بیٹی کی شادی، سردیوں میں غربا کو جڑاول تقسیم کرنا، کسی کے گھر کی چھت کم زور ہو تو اس کو درست کرانا اور غریب بچوں کی اسکول کی فیس میں تعاون کرنا۔ یہ تمام باتیں ہم بچے اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے اور رفتہ رفتہ یہ سب باتیں دِل پر نقش ہو گئیں اور ایسا لگا کہ اسی قسم کے کام سب کو کرنے چاہئیں۔
میری والدہ محترمہ میں ایک خاص عادت تھی کہ جب بھی باغ سے فصل کے پھل آتے تو وہ ان میں سے بڑے بڑے پھل الگ چھانٹ لیتیں اور ان کو اعزہ اور پڑوس میں تقسیم کردیتیں۔ ہم بچوں کے لیے چھوٹے سائز کے پھل بچتے۔ ہم کبھی اس بات پر شکوہ کرتے تو کہتیں کہ بڑے اور چھوٹے پھل کے ذایقے میں فرق نہیں ہوتا۔ تم مزے سے کھاؤ۔ ہاں یہ یاد رکھو کہ بڑے پھل اپنے گھر رکھنا اور چھوٹے پھل اعزہ اور پڑوس میں تقسیم کرنا دِل کو ندامت میں مبتلا کرتا ہے۔ ہم لوگوں کو اس وقت ندامت کے معنیٰ بھی نہیں معلوم تھے لیکن اتنا یقین تھا کہ والدہ نے جو کیا وہ صحیح تھا۔
علیزے نجف: مارہرہ کے صوفی ماحول سے نکل کر جب آپ علی گڑھ کے سیکولر ماحول میں پہنچے تو آپ کے افکار و خیالات میں کس طرح کی تبدیلیاں پیدا ہوئیں؟ اس نے آپ کے ادبی سفر کو کس طرح متاثر کیا؟
سید محمد اشرف: خود میرے گھر کا ماحول بہت سیکولر تھا۔ ہمارے ذاتی ملازمین اور باغات کے ملازمین میں ہندو بھی شامل تھے۔ ان کے تیوہار کے موقع پر ان کو نئے کپڑے اور پیسے دیے جاتے تھے۔ ہمارے گھر عید بقر عید اہل ہنود عید ملنے آتے تو ہم لوگ ان کی خاطر تواضع کرتے تھے۔ علی گڑھ آنے کے بعد دین و مذہب سے متعلق خود میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں محسوس کی۔ البتہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی جو جدید تعلیم کا بہت بڑا گہوارہ تھی اور ہے، اپنی جدید تعلیم، شعر و ادب کی مسلسل و متواتر سرگرمیوں اور مختلف علاقوں کے اساتذہ اور طلبہ کی رنگا رنگی کے باوصف خوب اثر انداز ہوئی۔ اس زمانے میں علی گڑھ میں تھائی لینڈ، ایران اور براعظم افریقہ کے طالب علم بڑی تعداد میں آتے تھے۔ ان کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ یونی ورسٹی کے سبزہ زار، کشادہ سڑکیں، وسیع عمارتیں، رات کو ہمہ وقت بجلی کی فراہمی، کسی بھی وقت ہاسٹل سے باہر نکل کر کچھ گھومنے اور کھانے کی آزادی، ادبی و ثقافتی سرگرمیاں، طرح طرح کے کھیل اور ان کے میدان۔ یہ وہ باتیں تھیں جن کو دیکھ کر ذہن میں وسعت اور دِل میں جذبہ پیدا ہوتا تھا۔ مارہرہ شریف میں نناوے فی صد مسلمان اہل سنت والجماعت تھے۔ علی گڑھ میں آکر محسوس ہوا کہ یہاں دین اسلام کے ماننے والوں کے کئی فرقے ایک ساتھ زندگی جیتے ہیں۔ فرقے اور مسلک کی بنیاد پر کسی سے کبھی کوئی نازیبا بحث تک نہیں ہوئی لیکن ہم نے زندگی کے پندرہ سولہ سال جو مارہرہ شریف میں گزارے تھے اور ان برسوں میں دین اور مذہب کو جس طرح سمجھا تھا وہی نقش ذہن پر گہرا تھا اور آج بھی وہی ہے۔ ہمارے صوفی خاندان کے بزرگوں نے بہت سے مذہبی معاملات میں غلو کرنے سے منع فرمایا تھا۔ اس پر بھی آج تک قائم ہیں۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ علی گڑھ میں بھی ہمیں اس کی ضرورت نہیں پیش آئی کہ ہم مذہبی اور مسلکی معاملات میں غیر منطقی بحثوں میں پڑیں۔ جو لوگ ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے وہ دھیرے دھیرے ہمارے ہم مزاج ہو گئے۔
علیزے نجف: کسی انسان کے فکر و نظر کی تشکیل میں تعلیمی نظام کیا کردار ادا کرتا ہے، اس حوالے سے خود آپ کا تجربہ و مشاہدہ کیا رہا ہے؟
سید محمد اشرف: انسان کے فکر و نظر کی تشکیل میں تعلیمی نظام کا کردار ایک حد تک ضرور ہوتا ہے لیکن اصل چیز جو فکر و نظر کی تشکیل کرتی ہے اور پھر اسے مضبوط کرتی ہے وہ انسان کا مطالعہ ہے۔ یہ مطالعے کی رنگا رنگی اور کیفیت و کمیت ہی ہوتی ہے جو انسانوں کی فکر و نظر میں فرق پیدا کرتی ہے۔ اگر صرف تعلیمی نظام ہی فکر و نظر کو تشکیل کرتا ہو تا تو ایک ہی جامعہ کے تمام طالب علم ایک ہی فکر و نظر کے حامل ہوتے جو کہ امرِ واقعہ نہیں ہے۔ کتابوں کا مطالعہ اور پڑھے لکھے صاحبِ کردار انسانوں کی صحبت ہی دراصل فکر و نظر کی تشکیل کے سب سے بڑے اوزار ہیں۔
علیزے نجف: آپ نے جب لکھنا شروع کیا تھا اس وقت آپ کن ادیبوں کو بہ صد شوق پڑھا کرتے تھے، ابتدائی دور میں کیا کسی ادیب سے اس حد تک متاثر ہوئے کہ لاشعوری طور پر اس جیسا لکھنے کی خواہش دل میں جاگی ہو؟
سید محمد اشرف: جب لکھنا شروع کیا اس سے بہت پہلے پڑھنا شروع کر چکے تھے۔ گھر پر مذہبی رسائل کے علاوہ محمود ایاز کا ”سوغات“ آتا تھا، بچوں کا رسالہ ”کھلونا“ آتا تھا، رسالہ”نور“ بھی آتا تھا۔ گھر میں ”داستان امیر حمزہ“ کی جلدیں تھیں اور ان کے علاوہ سید رئیس احمد جعفری کی مختصر کی ہوئی بارہ سو صفحات کی ”طلسم ہو ش رُبا“ بھی تھی، پھر ابن صفی کی جاسوسی دنیا کا شوق لگا۔ اسے بھی چوری چھپے پابندی سے منگانے لگے۔ ہمارے قصبے کے حافظ شریف احمد صاحب کی دکان ایک لائبریری جیسی تھی۔ وہ ایک آنہ روز پر ایک کتاب کرائے پر دیتے تھے۔ سراج انور کے تین ناوِل پڑھے۔ خوفناک جزیرہ، کالی دنیا اور نیلی دنیا۔ فکشن سے دل چسپی کا سبب یہی کتا بیں تھیں۔ ہمارے دادا جان سید آلِ عبا عرف حضرت آوارہ بہت بڑے انشا پرداز اور ڈِراما نویس تھے۔ ان کے ریڈیائی ڈرامے بھی سنتے تھے۔ دادا جان نے ماہ نامہ ”آج کل“ اور ”ماہ نو“ کے بارہ بارہ رسائل کی جلدیں بنوا کر اپنی الماری میں رکھ لی تھیں۔ ان میں ماہ نو کی جلدوں میں غلام عباس کا ناوِل ”گوندنی والا تکیہ“ قسطوں میں پڑھا۔ اس وقت مبلغ عمر بارہ برس بھی نہیں تھی۔ جب تک مارہرہ میں قیام رہا یہی کتابیں ساتھی تھیں۔ جاسوسی دنیا کے کردار کرنل فریدی جیسے کار نامے انجام دینے کا جی چاہتا تھا۔ کبھی کبھی حضرت امیز حمزہ کے نبیرے اسد بن کرب غازی کی شجاعت سے متأثر ہو کر ان کی طرح تلوار چلانے لگتے۔ مطلب یہ کہ بہت ڈوب کے پڑھتے تھے اور جو کچھ پڑھتے تھے اسے اپنے اوپر چھا لیتے تھے۔ اس زمانے میں رفیق حسین اور جم کاربٹ کو بھی پڑھا۔
شعوری یا لا شعوری طور پر کسی ادیب سے متأثر ہو کر ویسا لکھنے کی کوشش کبھی نہیں کی۔ اس ابتدائی دور میں در اصل کچھ لکھا ہی نہیں۔ اس دور میں منٹو، کرشن چند، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر اور قاضی عبد الستار کو بھی پڑھا لیکن یہ خیال کبھی نہیں آیا کہ ہمیں ان کے انداز میں لکھنا چاہیے کیوں کہ بنیادی طور پر اس وقت تک فکشن لکھنے کی خواہش ہی نہیں پیدا ہوئی تھی۔ جب یہ خواہش پیدا ہوئی تو ایک کہانی لکھی لیکن وہ بالکل اس طرح سے لکھی جیسی مجھے لکھنی چاہیے تھی۔ اس پر کسی کا اثر نہیں تھا۔ وہ ایسا آشفتہ مزاجی کا دور تھا کہ اپنے اوپر صرف اپنا ہی اثر اچھا لگتا تھا۔ وہ کہانی آج تک شایع نہیں ہوئی اور اب کاغذوں کے انبار میں کھوچکی ہے۔
علیزے نجف: ایک فکشن نگار بنیادی طور پر معاشرے میں کس طرح کا کردار ادا کرتا ہے اور وہ کیا عناصر ہیں جو ایک فکشن نگار کو معتبر بناتے ہے؟
سید محمد اشرف: معلوم نہیں۔ کبھی غور نہیں کیا۔
فکشن نگار کو مفید بنانے میں صرف ایک ہی چیز کام آتی ہے اور وہ خلوص کے ساتھ لکھا ہوا اس کا فکشن۔
علیزے نجف: کسی تخلیق کی تنقیح کیا ایک ناقد کے بغیر ممکن ہے؟ آج کی تنقید نگاری کی بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
سید محمد اشرف: ایک سچے ناقد کا کام بہت محنت کا ہوتا ہے۔ کسی ایک فن پارے پر کام کرتے ہوئے اسے کبھی ناقد بننا پڑتا ہے کبھی محقق اور کبھی کبھی اسے خود کو تخلیق کار تسلیم کرکے یہ سوچنا ہوتا ہے کہ اس فن پارے کا خالق اسے خلق کرتے وقت کن کن مراحل سے گزرا ہوگا۔ ایک نارمل قاری اتنا دشوار گزار کام نہیں کر سکتا۔ وہ صرف فن پارے سے لطف لے سکتا ہے اور اپنی بساط بھر مسرت اور بصیرت حاصل کر سکتا ہے۔ نقاد کے سلسلے میں جو مندرجہ بالا جملے کہے ہیں وہ ایک سچے اور کھرے نقاد کے لیے کہے ہیں۔
آج کی تنقید نگاری بھی اپنے عمل سے بیگانہ نہیں ہے۔ ہماری صفوں میں بہت عمدہ نقاد موجود ہیں۔ عتیق اللہ، شافع قدوائی، شمس الحق عثمانی، پروفیسر صغیر افراہیم، انتخاب حمید، مقصود دانش۔ بس مجھے ایک ہی خطرے کا احساس رہتا ہے کہ تنقید نگار اپنے کام کو معروضی انداز سے ہی کریں۔ دوستی ہو تو تعریف، کسی وجہ سے بغض ہو تو خامیوں اور برائیوں کے انبار نہ لگانا شروع کر دیں۔ فکشن کی تنقید اور بہتر ہو سکتی ہے اگر ہمارے تنقید نگار فکشن کی تنقید کے اوزار بنا کر تنقید کریں۔ شاعری کی تنقید کو یہ مشکل در پیش نہیں آتی کہ شاعری کی تنقید کی روایت بہت پرانی ہے۔ تذکروں سے اس کی ابتدا ہوتی ہے۔ فکشن کی تنقید ابھی الھڑ دوشیزہ ہے اور اسے دِل جیتنے کے بہت سے فن سکھانے ہوں گے۔ صرف شاعری کی تنقید کے اوزاروں سے فکشن کی تنقید آخر کب تک ہوگی؟ ہمارے فاضل تنقید نگاروں کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا ہے۔
علیزے نجف: انکم ٹیکس آفیسر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیتے ہوئے آپ نے اپنے ادبی سفر کو کس طرح جاری رکھا، اس دوران کیا کبھی آپ کے اندر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میں بہ طور پروفیسر درس و تدریس سے جڑا ہوتا تو یہ میرا تخلیقی سفر زیادہ رواں ہوتا؟
سید محمد اشرف: نہیں! میں نے کبھی ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچا کہ کاش میں درس و تدریس سے وابستہ ہوتا تو میرا تخلیقی سفر زیادہ رواں ہوتا۔
محکمۂ انکم ٹیکس میں انکم ٹیکس افسر سے لے کر چیف کمشنر انکم ٹیکس تک کوئی دورانیہ ایسا نہیں جب میں نے لکھنے میں کوئی دقت محسوس کی ہو۔ سرکاری نوکری میں وقت بہت صرف کرنا ہوتا ہے اور ادب سے وابستگی بھی وقت کا تقاضا کرتی ہے۔ ادب کو وقت دینے میں نیند، صحت اور دیگر تفریحات کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات فیملی اور بچوں کو بھی وقتی طور سے نظر انداز کرنا ہوتا ہے۔ شکر ہے کہ میرے اہل خانہ نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا جس کے لیے میں ان کا ہمیشہ ممنون رہوں گا خصوصاً اپنی شریک حیات نشاط اشرف کا۔
میں پچھلے تین سال سے شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا وزیٹنگ پروفیسر (Adjunct Faculty) ہوں اور میں نے ایک دِن بھی یہ نہیں محسوس کیا کہ اس عہدے کی وجہ سے میرے قلم کو کوئی خاص طاقت مل گئی ہو۔
علیزے نجف: آج کے اس سائنسی دور میں ادب کی کیا اہمیت ہے، آج کا اردو ادیب دیگر عالمی زبانوں کے ادیبوں کے مقابلے میں احساس کمتری کا شکار کیوں ہے؟
سید محمد اشرف: سائنس اور ادب میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ میں ایسے بڑے سائنس دانوں سے ذاتی طورپر واقف ہوں جو اپنی سائنسی تحقیق سے فرصت پاتے ہی کسی اچھی ادبی تخلیق کو پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ آج کا اردو ادب دیگر عالمی زبانوں کے معاملے میں احساس کمتری کا شکار کیوں ہوگا؟ صرف ایک میدان ایسا ہے جہاں اُسے احساس ہوتا ہوگا کہ ولایتی زبانوں کے ادیبوں کو لکھنے کا معاوضہ بہت ملتا ہے جو اُردو ادیب کو نہیں ملتا۔ لیکن ہماری زبان کے ادیبوں کو معاوضہ نہ سہی، انعامات کی شکل میں رقم مل جاتی ہے۔ دوسری زبانوں کے ادیبوں میں سارے ادیبوں کو معاوضہ زیادہ تھوڑے ہی ملتا ہے۔ ایک اور مقام ہے جہاں اردو میں احساسِ کمتری تو نہیں، احساسِ رنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اردو ادیبوں کے یہاں اتنی بڑی تعداد میں قاری نہیں۔ اس بات کا تعلق براہِ راست اردو کی تعلیم کی صورت حال سے ہے۔ پھر بھی آج کل اردو ادیبوں کی رسائی ترجموں کے ذریعے اپنے نئے قارئین سے ہونے لگی ہے۔
علیزے نجف: آپ نے اپنا ناول ‘نمبردار کا نیلا’ 48 گھنٹوں میں لکھا ہے لکھنے سے پہلے کیا آپ کے پیش نظر قاری کو کوئی پیغام دینا تھا یا یوں ہی چلتے گئے اور راستہ بنتا چلا گیا تھا؟
سید محمد اشرف: ادیب پیغامبر نہیں ہوتا۔ وہ جھوٹ (فکشن) لکھتا ہے تاکہ اس کے ذریعے سچ تک پہنچا جاسکے۔
ایک ناول اپنی تقریباً مکمل شکل و صورت میں مجھ پر چھایا ہوا تھا۔ ذہن کا بوجھ بن گیا تھا۔ سلام بن رزاق، انور خاں، انور قمر اور ساجد رشید اور میں ایک محفل میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ میں ایک ناول لکھنا چاہتا ہوں۔ جہاں تک لکھ پاؤں، لکھوں گا۔ پھر آپ میں سے کوئی اس کا اگلا باب لکھ دے۔ پھر اس کے بعد آپ میں سے کوئی اگلا باب لکھ دے۔ اور آخر میں آپ میں سے کوئی اس کا انجام لکھ دے۔ اس نئی طرح کی تکنیک کو سُن کر چاروں بہت خوش ہوئے اور کہا پہلے آپ شروع کردیں۔ میں گھر پہنچا اور لکھنا شروع کردیا۔ لکھتا رہا لکھتا رہا۔ صبح ہو گئی۔ پھر بھی لکھتا رہا۔ پھر خیال آیا کہ اس میں نیلا (نیل گائے) ہے اور میرے کئی دوست نیل گائے کے بہت سے معاملوں سے واقف نہیں ہوں گے۔ اس لیے مجھی کو لکھ کر ختم کرنا ہے۔ اڑتالیس گھنٹے بیٹھ کر اس کو مکمل کیا اور پھر اپنے ان دوستوں کو سنایا تو سب بے حد خوش ہوئے۔ ساجد رشید نے تو فوراً ٹائٹل بنانے کا وعدہ کر لیا۔ پہلے ایڈیشن پر انھی کا ٹائٹل ہے، سب کا یہی خیال تھا کہ اچھا ہوا کہ تم نے ہی اسے مکمل کر دیا۔ ہم لکھتے تو معلوم نہیں اس کا انجام کہاں سے کہاں لے جاتے۔ افسوس کہ اب وہ چاروں نہیں ہیں لیکن ان کی باتیں یاد آتی ہیں اور اکثر یاد آتی ہیں۔
ناوِل شروع کرتے وقت بہت سی باتیں ذہن میں تھیں اور کچھ باتیں لکھتے وقت جانے کہاں سے کاغذ پر آگئیں۔ افسانہ یا ناوِل لکھئے تو بہت سی باتوں پر آپ کا قابو بھی نہیں رہتا۔
علیزے نجف: آپ کس طرح کے ماحول میں لکھتے ہیں اور لکھنے کے لیے آپ کن چیزوں کو خود کے لیے لازمی سمجھتے ہیں؟
سید محمد اشرف: مجھے سکون کا ماحول درکار ہوتا ہے۔ سفید کاغذوں کا دستہ اور کئی قلم اور تنہائی۔
علیزے نجف: اردو ادب کی موجودہ صورت حال کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے اور اس کی ترویج و ارتقا کے لیے موثر ترین اقدامات کیا ہو سکتے ہیں؟
سید محمد اشرف: ادب کا موجودہ منظر نامہ مایوس کُن نہیں ہے۔ اچھے افسانے لکھے جارہے ہیں اور عمدہ شاعری بھی ہورہی ہے۔ اچھی تنقید بھی لکھی جارہی ہے۔ البتہ تحقیق کے معاملے میں اکثر سطحی کام ہو رہے ہیں لیکن ابھی حال میں پروفیسر شہاب الدین ثاقب کی کتاب ”فارسی ادب میں محمد تقی میرؔ کی خدمت“ پڑھی جس میں ان کی محققانہ کاوِش، ژرف نگاہی اور نثر کے سہل اور براہِ راست انداز نے بہت متاثر کیا۔ یہ بھی ہے کہ بعض وجہوں سے تنقیدی بیانیہ بہت حاوی ہو گیا ہے۔ میں تنقید نگاروں کی عزّت کرتا ہوں، کیوں کہ اُن کا کام مشکل کام ہوتا ہے، محنت کا کام ہوتا ہے۔ لیکن وہ تنقیدی مضامین دِل کو نہیں بھاتے جن میں اپنی سوچ کم ہوتی ہے، دوسرے نقادوں کے اقتباسات زیادہ ہوتے ہیں۔ اردو کے شعبوں میں تخلیق کی ہمت افزائی نہیں ہوتی، تنقیدی مضامین کی بہت آؤ بھگت ہوتی ہے۔ جب اچھی تخلیقات ہی سامنے نہ آئیں گی تو اچھی تنقید کیسے لکھی جائے گی۔ اس بات کو سمجھنے میں اردو کی درس و تدریس سے وابستہ حضرات بہت وقت لے رہے ہیں۔
شعبئہ اردو میں تنقیدی کتاب لکھنے پر پوائنٹ ملتے ہیں جو لیکچرر شپ کی آسامی کا فارم بھرتے وقت بہت کام آتے ہیں۔ ایسے ہی پوائنٹ تخلیقی کتابوں پر بھی ملنے چاہئیں لیکن یہ پوائنٹ تبھی ملنے چاہئیں جب تخلیق یا تنقید یا تحقیق کی کوالٹی عمدہ ہو۔
ہندوستان پاکستان دونوں ملکوں میں اچھا فکشن لکھا جارہا ہے۔ اچھی شاعری بھی ہو رہی ہے۔ خلیجی ممالک میں بھی اچھی شاعری ہو رہی ہے۔ قطر میں زندگی جینے والے عزیز نبیل اس کی ایک اچھی مثال ہیں۔ ضیا فاروقی اور عین تابش بہت عمدہ شاعری کر رہے ہیں۔
علیزے نجف: آپ کے یہاں علامتی کردار پوری شان کے ساتھ پائے جاتے ہیں آپ نے براہ راست حقیقی کرداروں کے بجائے علامتی کرداروں کو اتنی اہمیت کیوں دی ہے؟
سید محمد اشرف: حقیقی کرداروں پر لکھتے لکھتے کبھی کبھی کہانی رُک جاتی ہے۔ اس کے بہت سے اَسباب ہو سکتے ہیں۔ علامتی کرداروں میں یہ علت نہیں ہوتی۔ لیکن میری زیادہ تر کتابوں میں ”حقیقی“ کردار ہیں۔ البتہ ان کو پیش کرنے کا طریقہ رسمی نہیں ہے۔ کبھی کبھی وہ اس وجہ سے بھی علامتی جیسے لگنے لگتے ہیں۔ میری چند کہانیوں میں علامتی کردار ہیں جیسے بادِ صبا کا انتظار، لکڑ بگھا سیریز کی تین کہانیاں، گدھ، بڑے پُل کی گھنٹیاں، روگ، قدیم معبدوں کا محافظ اور آخری بن باس وغیرہ۔
لیکن یہ ذرا مختلف قِسم کی علامتی کہانیاں ہیں۔ اگر کوئی قاری چاہے تو ان کو پہلی سطح پر پڑھ کر بھی مطمئن اور خوش ہو سکتا ہے لیکن ان کہانیوں میں اندر کی سطح پر ایک علامت ساتھ ساتھ رینگ رہی ہے۔ میں علامتی کہانی لکھنے کا دِل دادہ نہیں ہوں۔ بس میں یہ چاہتا ہوں کہ میری کہانی سطحی نہ ہو۔ اس میں دبازت ہو اور معنی تک پہنچنے میں قاری کو مسرت بھی ملے اور بصیرت بھی۔ جن لوگوں نے جان بوجھ کر صرف ابہام زدہ علامتی کہانیاں لکھی ہیں انھوں نے اُردو کہانی کا بیڑا غرق کیا۔ ایسی کہانیوں میں اکثر کہانیاں خود فاضل افسانہ نگار کی سمجھ میں نہیں آپاتیں، قاری بے چارہ کیا سمجھے گا۔ میں ایسی علامتی کہانیوں کے بارے میں شروع سے خلاف ہوں۔ ایسی کہانیاں لکھنا اپنا اور قاری کا وقت اور رسالے کا کاغذ ضایع کرنے کے مترادف ہے۔ شروع میں جب میں نے کہانی لکھنا شروع کیا تھا تو ایسی ہی فضول اور اہمال زدہ کہانیوں کے ردِ عمل میں لکھنا شروع کیا تھا۔ شکر ہے کہ اب ویسی مہمل کہانیاں نہیں لکھی جاتیں۔
علیزے نجف: "آخری سواریاں" نامی ناول میں آپ نے تہذیب رفتہ اور حالات کی نزاکت کے ساتھ گنگا جمنی تہذیب کی اہمیت کو بحسن و خوبی بیان کیا ہے کیا یہ ایک  دستاویزی ناول ہے یا یہ محض ایک ملّی نوحہ ہے؟
سید محمد اشرف: دستاویزی ناول یا افسانہ وہ ہوتا ہے جس کی ایک ایک سطر کا ثبوت تحریری طور سے آپ کے پاس موجود ہو۔ ایسی کوئی تحریر جب آپ لکھیں گے تو وہ فکشن نہیں ہوتی ایک حقیقی واقعے کی ڈاکو مینٹری ہوگی۔ ”آخری سواریاں“ میں بہت سارا فکشن ہے جو روشن کرتا ہے ان راستوں کو جن سے گزر کر آپ کو اس بڑے سچ تک پہنچنا ہے جسے ناوِل نگار دِکھانا چاہتا ہے۔
ہم سے ہمارا بہت کچھ چھینا جا چکا ہے اور آج بھی چھینا جارہا ہے۔ ہم بہت کچھ کھو چکے ہیں اور آج بھی کھو رہے ہیں۔ یہ ناوِل انھی قیمتی چیزوں کے کھونے کی داستان ہے۔ معاشرے کے کچھ کردار بھی کھو گئے ہیں۔ راوی ایک ٹھٹھرتی ہوئی رات میں بیٹھا انتظار کر رہا ہے کہ آخری سواریاں جو اپنے ساتھ بے حد قیمتی چیزیں اور بے حد نادر و نایاب کردار لے گئیں، کیا اب کسی موڑ سے واپس آئیں گی یا نہیں؟
علیزے نجف: "ڈار سے بچھڑے" یہ آپ کا وہ مجموعہ ہے جس نے آپ کے فن کے کمال سے زمانے کو متعارف کروایا میرا اس حوالے سے تھوڑا سا عجیب سا سوال ہے، وہ یہ کہ آپ کے نزدیک "ڈار سے بچھڑے" کی مقبولیت کا راز کیا ہے آپ کی افسانہ نگاری کس طرح اوروں سے منفرد ہے؟
سید محمد اشرف: ڈار سے بچھڑے مجموعے میں جو کہانیاں ہیں وہ ایک بہت مختلف تکنیک میں لکھی گئی ہیں۔ اردو کہانی میں پہلی بار جانوروں اور پرندوں کو اس طرح پیش کیا کہ کسی کہانی میں وہ مہاجروں کا دُکھ بھوگنے لگتے ہیں۔ کسی کہانی میں لکڑ بگھا منافق انسانوں کی علامت بن جاتا ہے، کسی کہانی میں ظالم حکمرانوں کی اور کسی کہانی میں خود غرض انسانوں کی۔ اردو کہانی میں جانوروں کو اس سے پہلے اس طرح نہیں پیش کیا گیا تھا۔ معتبر ادیبوں نے ”ڈار سے بچھڑے“ مجموعے کی کہانیوں کے بارے میں لکھا تھا:
قرۃ العین حیدر: ”یہ ایک بڑے ہی گہرے کرائسس کا ادب ہے، اور مصنف نے دُکھوں کے ڈھیر پہ بیٹھ کر دُکھ کی نگاہوں سے دُکھ کا تماشہ کیا ہے۔ اس صدی کے اختتام پر ایک سفّاک، بے حس، بے علم جرائم پیشہ دنیا ظہور میں آچکی ہے، انسانوں کی کایا کلپ ہو رہی ہے، جب بھی اس نئی دنیا کی پنچ تنتر لکھی گئی، سید محمد اشرف کی چند کہانیاں اس میں ضرور جگہ پائیں گی۔“
گوپی چند نارنگ: ”مجھے اپنی روح سے شرمندگی ہوگی اگر میں اس بات کا اعتراف و اقرار نہ کروں کہ سید محمد اشرف کے پہلے افسانوی مجموعے ”ڈار سے بچھڑے“ سے اردو افسانے کا ایک نیا پڑاؤ شروع ہوتا ہے۔ ”منظر“ بہت بڑی کہانی ہے۔ جیسے غالب کی بعض غزلوں میں اٹھارہ سو ستاون کا منظر، سلطنت مغلیہ کے زوال کا منظر کھنچ کر آگیا ہے جب کہ تحقیقی کام کرنے والے بتاتے ہیں کہ وہ اشعار اٹھارہ سو ستاون سے سات آٹھ برس پہلے لکھے گئے تھے۔ ’منظر‘ پڑھ کر لگتا ہے کہ یہ دسمبر انیس سو بانوے، ترانوے کے بھیانک واقعے کے بعد لکھی گئی ہے جب کہ تعجب ہوتا ہے کہ یہ کہانی انھوں نے بہت کم عمری میں انیس سو اٹھتّر یا انیس سو ستتّرمیں لکی تھی۔ یہ توفیق صرف تخلیقی ذہنوں کو، سچے کھرے تخلیقی ذہنوں کو، اپنے باطن میں خون خون ہونے والوں کو ملتی ہے کہ وہ اپنے وجدان کے ذریعے آگے آنے والے درد کو دیکھ لیتے ہیں۔“
پروفیسر شکیل الرحمن: ”سید محمد اشرف کی کہانیاں نئی تنقید کے لیے ایک چیلنج ہیں۔ ان کی اکثر کہانیوں میں زندگی کی سچائیوں کے اندر سے جو چیز پھوٹ پڑتی ہے وہ کسی معجزے سے کم نہیں اور یہی معجزہ جمالیاتی انبساط عطا کرتا ہے… اشرف کی کہانیوں کے حسن کو Appreciate کرنا مشکل کام ہے۔ پریم چند اور سعادت حسن منٹو کے افسانوں نے اردو فکشن کو جس طرح نئے موڑ دیے اسی طرح اشرف کے افسانوں سے ایک نیا موڑ پیدا ہوگا، میں کچھ ایسا محسوس کر رہا ہوں۔“
قمر رئیس: ‘ڈار سے بچھڑے‘ ہمارے افسانوی ادب میں وہ کتاب ہے جس کا ہماری ادبی تاریخ میں ایک اہم مقام ہوگا۔“
علیزے نجف: آپ کو زبان و بیان پر غیر معمولی قدرت حاصل ہے اس طرح کی زبان و بیان کا ارتقا یا نشوونما کا عمل اب کیوں موقوف ہو گیا ہے، ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتے چلیے کہ رسم الخط کی طرف سے غفلت زبان پہ کس طرح کے اثرات مرتب کرتی ہے؟
سید محمد اشرف: در اصل اردو معاشرے نے اجتماعی طور پر شاید یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اب انھیں اُردو زبان کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ اس سے ان کے بچوں کو نوکری نہیں ملتی۔
آج اردو اپنے رسمِ خط کے ساتھ اگر زندہ ہے تو یا تو پچاس پچپن سال سے زیادہ عمر والوں میں یا کرناٹک، آندھرا پردیش، مہاراشٹرا کے کچھ حصوں اور بہار میں۔ باقی بڑی حد تک تو یہ مدارس اسلامیہ کی وجہ سے زندہ ہے۔ مدارس اسلامیہ بھی اردو اور اس کے رسم خط کو زندہ رکھنے کے مِشن لیے اردو کا استعمال نہیں کرتے۔ کیوں کہ اب عربی اور فارسی میں درس نظامی کی کتابیں پڑھنا مشکل ہیں تو وہ ان کو اردو میں پڑھتے ہیں۔ ان پر لکھے ہوئے حاشیے اردو میں پڑھتے ہیں۔ ہمیں اگر اردو کو اس کے رسمِ خط کے ساتھ زندہ رکھنا ہے تو یہ سوچ کر زندہ رکھنا ہے کہ ہم اردو سے نوکری نہیں اپنی تہذیبی جڑیں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ رسمِ خط کے بغیر کوئی بھی زبان ادھوری ہوتی ہے۔ رسم خط کا تعلق جسم اور لباس کا نہیں بلکہ جسم اور کھال کا ہے۔ ہمیں کمیونٹی مکتب جاری کر کے اردو کی تعلیم اپنے بچوں کو دلانی ہے۔ محلے کی مسجد کے امام صاحب سے ٹیوشن لے کر اپنے بچوں کو اردو سکھانی ہے۔ کئی ایپس ہیں جو اگر صحیح طرح استعمال ہوں تو اردو سکھا دیتے ہیں۔ بہر حال یہ طے ہے کہ ہمیں اردو سیکھنے کے سلسلے میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھنا ہے۔
علیزے نجف: اگر ایک افسانہ نگار پہ خود اپنے ہی مطالعے و مشاہدے کا ماحصل واضح نہ ہو تو کیا وہ پھر بھی محض اپنے زبان و بیان کے کمال کی وجہ سے ایک اچھا افسانہ نگار بن سکتا ہے؟
سید محمد اشرف: نہیں۔ ہر گز نہیں۔ اگر صرف اپنی زبان اور بیان کی بنیاد پر ایک اچھا افسانہ نگار بن سکنا ممکن ہوتا تو اردو پڑھانے والے تمام استاد افسانہ نگار بن چکے ہوتے۔
علیزے نجف: آپ نے اپنے ابتدائی سفر میں یہ جان لیا تھا کہ کیا لکھنا ہے کیا نہیں لکھنا ہے، کیا نہیں لکھنے سے آپ کی مراد لفظوں سے ہے یا پھر مفہوم و معاشرتی حقائق سے ہے؟
سید محمد اشرف: مفہوم اور معاشرتی حقائق لکھنے کے لیے ہی تو افسانہ لکھا جاتا ہے۔ میں نے اپنے ابتدائی سفر میں یہ جان لیا تھا کہ افسانوں میں لفظوں کی بھر مار نہیں کرنا ہے۔ صرف وہی لکھنا ہے جس کے لکھے بغیر چارہ نہیں ہے۔ زیادہ الفاظ اور غیر ضروری مکالمے ناوِل یا افسانے کو بوجھ بنا دیتے ہیں۔
علیزے نجف: زندگی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ آپ کو اپنی اب تک کی گزری ہوئی زندگی کو اگر کوئی عنوان دینا پڑے تو وہ کیا ہوگا؟
سید محمد اشرف: ”الحمد للہ“۔
علیزے نجف: جاتے جاتے آپ اردو کے نوجوان ادیبوں سے کیا کہنا چاہیں گے کوئی ایک مشورہ جس کا انھیں اپنی تحریروں میں خاص خیال رکھنا چاہئے؟
سید محمد اشرف: میں ان سے یہی درخواست کروں گا کہ لکھنے سے زیادہ پڑھنے پر زور دیں۔ اپنے کلاسیک پڑھیں۔ ترقی پسند اور جدید ادب میں بھی جو قابلِ قدر ادب لکھا گیا ہے اسے ضرور پڑھیں۔ اپنی ادبی رِوایتوں کو بھی سمجھیں اور یہ کام بھی تبھی ممکن ہوگا جب وہ اپنے ادب کی قابلِ قدر کتابیں پڑھیں گے۔
ان کے لیے میری نیک خواہشات اور بہت سی دعائیں۔
علیزے نجف: بہت بہت شکریہ سر کہ آپ نے اس ناچیز کو اپنا قیمتی وقت دیا اور میرے ہر سوال کا جواب انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ دیا جو کہ میرے لیے تشفی بخش رہے یقینا قاری کے لیے بھی ہوں گے
سید محمد اشرف : خوش رہیں، ترقی کے نئے منازل طے کرتی رہیں۔
***
علیزے نجف کی یہ گفتگو بھی پڑھیں :ابن صفی فکشن سے زیادہ حقیقت سے قریب نظر آتے ہیں : احمد صفی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے